اسباقِ فارسی - محمد یعقوب آسی

اردونامہ کی درسگاہ جہاں پر کھیل ہی کھیل میں کچھ سیکھنے سکھانے کا اہتمام موجود ہے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

نافیہ:
فعل میں نفی کے معنے دینا مقصود ہو تو اس سے پہلے نہ داخل کرتے ہیں۔ بسا اوقات اس نافیہ نہ کی ہ ہٹا دی جاتی ہے اور اکیلا بچ جانے والا ن فعل سے متصل ہو جاتا ہے۔ مثلاً: کردہ بود سے نہ کردہ بود، مے رفتم سے نمی رفتم، خواہم گفت سے نخواہم گفت، وغیرہ۔ اگر فعل کا پہلا حرف آ ہو تو اس کی نفی بناتے وقت اسے یا سے بدل دیتے ہیں اور پھر اس پر ن داخل کیا جاتا ہے۔ مثلاً: آمدم سے نیامدم، آوردن سے نیاوردن، وغیرہ۔

فاعل غیر نمایاں:
بعض جملوں میں فاعل معنوی سطح پر موجود ہوتا ہے مگر فعل کے مقابلے میں اس کی نمائندگی چنداں اہم نہیں ہوتی۔ مثلاً: لوگ کہتے ہیں، لوگ اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے، وغیرہ۔ ایسے جملوں کو صیغہ جمع غائب میں بیان کیا جاتا ہے۔ مثلاً: مے گویند (وہ کہتے ہیں: لوگ کہتے ہیں)، ابلہے را گرفتہ، بہ پیشِ فقیرے بردند (وہ : مراد ہے لوگ: ایک دیوانے کو پکڑ کر ایک فقیر کے پاس لے گئے)، وغیرہ۔

اسماء، حروف، مصادر، افعال اور گردانوں پر ابتدائی بحث مکمل ہو چکی۔ان قواعد کے عملی اطلاق کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس مناسب ذخیرۂ الفاظ بھی موجود ہو۔ آپ جانتے ہیں کہ ذخیرۂ الفاظ بڑھانے کے لئے مطالعہ اشد ضروری ہے۔ علاوہ ازیں چند متفرق تصورات ایسے ہیں جو قواعد سے شناسائی کے ساتھ ساتھ اس ذخیرہ میں اضافہ بھی کرتے ہیں، مثال کے طور پر، واحد اور جمع، مذکر اور مؤنث، اسمِ صِفَت کی تین حالتیں، عدد اور معدود وغیرہ۔ مناسب ہو گا کہ ہم پہلے ان تصورات کو سمجھ لیں۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

واحد اور جمع:
فارسی میں واحد سے جمع بنانے کے چاربڑے قواعد ہیں۔

پہلا قاعدہ:
واحد اگر عاقل ہو تو اس پر ان کا اضافہ کرتے ہیں۔ مثلاً: مرد سے مردان یا مردمان، بزرگ سے بزرگان، استاذ سے استاذان، مہمان سے مہمانان، زن سے زنان، اسپ سے اسپان، کودک سے کودکان، طفل سے طفلان، وغیرہ۔ اگر واحد کا آخری حرف ہ ہو تو اسے گ سے بدل کر اس پر ان کا اضافہ کرتے ہیں۔ مثلاً: بچہ سے بچگان۔ یہی قاعدہ ایسے اسم مفعول اور اسم فاعل پر بھی لاگو ہوتا ہے جہاں واحد کا آخری حرف ہ ہو: مردہ سے مردگان، کشتہ سے کشتگان، درندہ سے درندگان، زندہ سے زندگان، وغیرہ۔مزید، اگر واحد کا آخری حرف ا یا و ہو تو اس پر یان بڑھاتے ہیں، جیسے: گدا سے گدایان، جنگجو سے جنگجویان، وغیرہ۔

دوسرا قاعدہ:
واحد اگر غیر عاقل ہو تو اس پر ہا کا اضافہ کرتے ہیں، مثلاً: ذرہ سے ذرہ ہا، ہزار سے ہزارہا، شجر سے شجر ہا، نہال سے نہال ہا، زمزمہ سے زمزمہ ہا، سال سے سال ہا، قلم سے قلم ہا، وغیرہ۔

تیسرا قاعدہ:
بعض واحد اسماءکی جمع بنانے کے لئے ان پر ات یا جات کا اضافہ کرتے ہیں، مثلاً: مکان سے مکانات، مندرج سے مندرجات، باغ سے باغات، پرچہ سے پرچہ جات، ضمیمہ سے ضمیمہ جات، رسالہ سے رسالہ جات، وغیرہ۔

چوتھا قاعدہ: واحد اور جمع میں عربی قواعد(جمع سالم، جمع مکسر) کا تتبع بھی کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر: جاہل سے جاہلون اور جہلا، ارم سے آرام،دِقَّت سے دقائق، حقیقت سے حقائق، کتاب سے کتب، وغیرہ۔

مذکر اور مؤنث:
عام طور پر مذکر اور مؤنث عربی کے قاعدہ مؤنث سماعی کے مطابق ہیں اور کسی خاص لفظی ساخت کے پابند نہیں ، مثلاً: داماد (دولھا)، عروس (دلہن)، پدر (باپ)، مادر (ماں)، بانو (بیوی)، کنیز (لونڈی، نوکرانی، خادمہ)، آتون (استانی)، خاشتہ (سالی)، زن (عورت)، دختر (بیٹی)، خواہر (بہن)، وغیرہ۔

اس کے ساتھ ساتھ بہت سے اسماءمذکر اور مؤنث کے لئے ایک ہی صورت مروج ہے، جیسے: خیاط (درزی، درزن)، دکتر (ڈاکٹر)، خر (گدھا، گدھی)، سگ (کتا، کتیا)، وغیرہ۔

ایسے میں تخصیص کی خاطر مذکر اور مؤنث کی مرکب صورت لائی جاتی ہے، مثلاً: خیاط زن (درزن)، بیوہ مرد (رنڈوا) اور بیوہ زن (رانڈ)، کد خدا (شوہر)، کد بانو (بیوی)، جادوگر مرد، جادوگرزن، پدرِ بزرگ (دادا، نانا)، مادرِ بزرگ (دادی، نانی)، وغیرہ۔ حیوانات کے لئے بھی مرکب کی کوئی صورت لاتے ہیں، جیسے: بُز نر (بکرا)، بُز مادہ (بکری)، گوسفند نر (مینڈھا، قوج)، گوفند مادہ (بھیڑ، میش) وغیرہ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

باب ( 6 )

تفضیل (اسمِ صفَت کی صورتیں):
جیسا کہ ہم پہلے جان چکے ہیں، اسمِ صفت وہ اسم ہے جو کسی دوسرے اسم کی کسی خوبی، خامی، وصف وغیرہ کو ظاہر کرے۔ مثلاً: خوب، بزرگ، تیز، زیرک، سیاہ، سفید، جری، وغیرہ۔ اسمِ صفت کی تین صورتیں ہوتی ہےں۔ تفضیلِ نفسی یعنی جب صفت کے حوالے سے کسی دوسرے سے تقابل نہ ہو۔ تفضیلِ بعض یعنی جب اس حوالے سے کسی ایک یا زائد اسما سے موازنہ مقصود ہو۔ اس صورت میں اسمِ صفت پر تر کا اضافہ کرتے ہیں، جیسے: خوب تر، تیز تر، بد تر، کم تر، تشنہ تر، وغیرہ۔ تفضیلِ کل میں یہ تقابل بقیہ سب سے ہوتا ہے، جیسے: بد ترین، بزرگ ترین، خوب ترین، وغیرہ۔

مصدر اور اسمِ حاصل مصدر:
مصدر وہ ہے جس سے تمام زمانے اور افعال اخذ کئے جاتے ہیں۔ مصدر ہی سے اس کا ہم معنی ایک ایسا کلمہ بھی اخذ کیا جاتا ہے، جس کے معانی تو اسی مصدر کے ہوتے ہیں، مگر حیثیت مصدرکی نہیں رہتی۔ اسے اسمِ حاصل مصدر کہا جاتا ہے ۔ اسمِ حاصل مصدر سے افعال اور زمانے اخذ نہیں ہوتے۔ مثالیں: کردن (کرنا) سے کردار، کار، کار کردگی۔ گفتن (کہنا) سے گفتار، گوئی۔ آمدن (آنا) سے آمد۔ آوردن (لانا) سے آوری، آورد۔ شکستن (ٹوٹنا، توڑنا) سے شکست، شکن۔ برخاستن (اٹھنا) سے برخاست، بر خیزی۔ پیراستن (سنورنا، سنوارنا) سے پیرائش، پیرایہ۔ پیچیدن (لپیٹنا، لپٹنا) سے پیچ، پیچش، پیچیدگی۔ مالیدن (مَلنا) سے مالش۔ نمودن (دکھانا) سے نمائش۔ گریستن (رونا) سے گریہ، نوشتن (لکھنا) سے نوشت، نویسی۔ پرستیدن (پوجنا) سے پرستش، پرستی، وغیرہ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

دیگر اہم مشتقات کا اجمالی ذکر: مصدر کی علامت ن ہٹا کر اس کی جگہ ہ لگادینے سے اسمِ مفعول حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً: بوسیدن (گھِسنا) سے بوسیدہ (گھِسا ہوا)، آزمودن (آزمانا) سے آزمودہ (آزمایا ہوا)، وغیرہ۔ مضارع کی علامت د ہٹا دینے سے اسمِ فاعل حاصل ہوتا ہے۔ کردن: کند سے کن (کرنے والا)، نوشتن: نویسد سے نویس (لکھنے والا)، گفتن: گوید سے گو (کہنے والا)، وغیرہ۔ یہ ماحصل فعل امر کے صیغہ واحد حاضر سے مشاکل ہوتا ہے اس لئے سلاست کی غرض سے فعل امر سے پہلے ب لگا دیتے ہیں، مثلاً: کن: بکن (کر)، نویس: بنویس (لکھ)، گو: بگو (کہہ)، وغیرہ۔ مضارع کی علامت د ہٹا کر اس کی جگہ ندہ لگانے کا حاصل بھی اسمِ فاعل ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا مثالوں میں کند سے کنندہ، نویسد سے نویسندہ، گوید سے گویندہ، وغیرہ۔ مضارع کی علامت ہٹا کر ان لگانے سے اسمِ کیفیت حاصل ہوتا ہے، مثلاً رفتن:رَوَد سے رواں (جاتا ہوا)، دَوِیدن: دَوَد سے دَواں (دوڑتا ہوا)، افتادن: افتد سے افتاں (گرتا ہوا)، شائستن: شاید سے شایاں (پھبتا ہوا)، پرسیدن: پُرسد سے پُرساں، وغیرہ۔ واضح رہے کہ بسا اوقات اسمِ کیفیت اور اسم فاعل ہم معنی ہو جاتے ہیں۔ مزید واضح رہے کہ فارسی میں نون غنہ عام طور پر لفظ کا آخری حصہ ہوتا ہے اور اسے نون ناطق بھی پڑھا جاتا ہے۔ اہلِ زبان نون غنہ کو یوں ادا کرتے ہیں کہ نہ وہ مکمل طور پر ناطق ہوتا ہے اور نہ مکمل غنہ، بلکہ ان کے بین بین ہوتا ہے۔ یہ نون غنہ زیرِ اضافت، زیرِ توصیفی، واوِ عطفی وغیرہ کے زیرِ اثر متحرک ہو کر نون ناطق بن جاتا ہے۔ اسی طرح، اہلِ زبان کے ہاں، کسی لفظ کے آخر میں واقع ہونے والی ’یے‘ کا تلفظ یائے مجہول (ے) اور یائے معروف (ی) کے بین بین ہوتا ہے اور املا میں بھی دونوں صورتیں درست سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً مے: می، کسے: کسی، وغیرہ۔ یائے لِین (جہاں ’ے‘ سے پہلے حرف پر زبر ہو) کی صورت میں بھی یہ جائز ہے۔ ہم یائے لین کی صورت میں ’ے‘ اوریائے معروف ( جہاں ’ے‘ سے پہلے حرف پر زیر ہو) کی صورت میں ’ی‘ لکھنے کی سفارش کریں گے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

باب ( 7 )

کلمۂ مرکب اور اتصال: فارسی زبان کا ایک امتیازی وصف اختصار اور اتصال ہے جس کی کچھ مثالیں ہم ابتدائی اسباق میں بیان کر چکے ہیں۔ایک سے زیادہ کلمات کو (اس سے قطع نظر کہ وہ قواعد کی رو سے اسم ہیں، یا فعل کا کوئی صیغہ، حرف، اسم ضمیر، وغیرہ وغیرہ)، اگر تلفظ اور املاءکے حوالے سے آپس میں یوں مل سکیں کہ معانی میں کوئی ابہام یا تبدیلی نہ آ جائے تو آپس میں ملا دئے جاتے ہیں۔ اسے ہم اپنی سہولت کے لئے مرکب لفظ یا کلمۂ مرکب کا نام دیتے ہیں۔اتصال کا کوئی لگا بندھا قانون نہیں تاہم چند موٹی موٹی باتیں ذہن میں رکھنی ہوں گی۔ اشارات دئے جا رہے ہیں :کہ ، نہ ، وغیرہ کی ہ ہٹائی جا سکتی ہے۔ ا، آ وغیرہ اپنے ماقبل سے متصل ہو سکتے ہیںیا حذف ہو سکتے ہیں، مثلاً: کزو (کہ، از، اُو)، ازاں (از، آں)، زِ من (از، من)، کیں (کہ، ایں)، زِ تو (از، تو)، چگونہ (چہ، گُونہ)، گُفتمش (گفتم، اش : میں نے اس سے کہا)، کیست (کہ، است: کون ہے)، چیست (چہ، است: کیا ہے)، نیست (نہ است: نہیں ہے)، بدیں (بہ، ایں)، بدوں: بداں (بہ، آں)، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔

اسمِ اشارہ، اسمِ ضمیر اور ان کی مختلف حالتیں:
اشارے دو ہیں،
قریب (این)
اور بعید (آن)۔

این کی جمع عاقل اینان اور غیر عاقل اینہا، آن کی جمع عاقل آنان اور جمع غیر عاقل آنہا ہے۔ان سے حروفِ مرکب یوں بنتے ہیں: ازیں (اِس سے، اِس کا)، ازاں (اُس سے، اُس کا)، این را (اِسے)، آن را (اُسے)، اینہا را: اینان را (اِن کو)،آنہا را: آنان را (اُن کو)، وغیرہ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اسمِ ضمیر کا بیان پہلے ہو چکا، تاہم یہاں آموختہ دہرانا ضروری محسوس ہوتا ہے، اس کی دو صورتیں ہیں، منفصل اور متصل۔ منفصل کی صورتیں اور مرکبات یہ ہیں: من (میں)، از من: زِمَن (مجھ سے، میرا)، مَرا (مجھے)، ما (ہم)، از ما: زِما (ہم سے، ہمارا)، ما را (ہمیں)، تو (تُو)، از تو: زِتو (تیرا، تجھ سے)، تُرا (تجھے)، شما (تم)، از شما: زِشُما (تم سے، تمہارا)، شما را (تمہیں)، اُو (وہ)، اَزُو: زِاُو: زُو (اُس سے، اُس کا)، اُو را (اُسے)، ایشان (وہ: جمع)، اَز ایشان، زِشان (اُن کا،اُن سے)، ایشان را (اُنہیں) ۔ ضمیر متصل اپنے ماقبل سے ملا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی صورتیں یہ ہیں: اَم (میرا) جیسے کتابم (میری کتاب)، ماں (ہمارا) جیسے کتابماں (ہماری کتاب)، اَت (تیرا) جیسے قلمَت (تیرا قلم)، تاں (تمہارا) جیسے کتابتاں (تمہاری کتاب)، اَش (اُس کا) جیسے قلمَش (اُس کا قلم)، شاں (اُن کا) جیسے کتابشاں (ان کی کتاب)۔ واضح رہے کہ جہاں ضمیر کا ماقبل متصل نہ ہو وہاں ضمیر منفصل کے ساتھ اضافت معمول کے مطابق بنے گی، جیسے: خانۂ او، بہ حوالۂ ایشاں، طریقِ شما، دین ِما، برادرِ من، وغیرہ۔

عدد، عددِ ترتیبی اور عددِ ضعفی: فارسی میں اعداد کی ترتیب اردو کی نسبت آسان ہے۔ وہ یوں کہ اردو میں ایک سے سو تک ہر عدد کے لئے ایک خاص لفظ ہے (یا ہر عدد کا ایک نام ہے)۔ فارسی میں ایک سے بیس تک ہر عدد کا اور پھر ہر دہائی کا ایک نام ہے۔ بیس اور اس سے زیادہ ہر دہائی کے بعد ایک سے نوتک کو دہائی کے ساتھ عطف کر دیتے ہیں۔ یَک، دو، سہ، چہار، پنج، شش، ہفت، ہشت، نُہ، دہ (دَس)، یازدہ، دوازدہ، سیزدہ، چہاردہ، پانزدہ: پانژدہ، ششدہ، ہفدہ، ہشدہ: ہژدہ، نوازدہ، بیست (بیس)، بیست و یک، بیست و دو، بیست و سہ، سی (تیس)، سی و یَک، سی و دو، ، چِہل (چالیس)، پنجاہ (پچاس)، شصت (ساٹھ)، ہفتاد (سَتّر)، ہشتاد (اَسّی)، نَود (نَوّے)، صد (سَو)، ہزار، و علیٰ ھٰذاالقیاس۔

یاد رہے کہ معدود ہمیشہ واحد،اور اس اعتبار سے اس کا فعل بھی واحد ہوگا۔ مثال کے طور پر چہار نفر آمد (چار لوگ آئے)، وغیرہ۔ اعداد ترتیبی یعنی پہلا، دوسرا، تیسرا کے لئے عدد پر ’م‘ کا اضافہ کرتے ہیں: یکم، دُوَم، سِوَم، چہارم، یازدہم، دوازدہم بیستم (بیسواں)، بیست و یکم، بیست و دوم، سِیَم (تیسواں)، سی و یکم، سی و دوم، سی و سوم، چِہلم (چالیسواں)، پنجاہم (پچاسواں)، صَدَم (سَوواں)، و علیٰ ھٰذاالقیاس۔اعداد ضعفی یعنی دگنا، تگنا، چو گنا، پانچ گنا دس گنا تک کے لئے عدد کے ساتھ چند یا برابر لگاتے ہیں اور اس سے زیادہ کے لئے برابر۔ دو چند: دو برابر، سہ چند: سہ برابر، نُہ چند: نُہ برابر، دہ چند: دہ برابر۔ یازدہ برابر، دوازدہ برابر۔ بیست برابر۔ صد برابر، و علیٰ ھٰذاالقیاس۔

ایک خاص بات نوٹ کر لیں بعض جملوں میں لفظ ایک گنتی کی بجائے ذکر کے طور پر آتا ہے، جیسے، ایک تھا بادشاہ، میں نے ایک شخص کو دیکھا، ایک رات بہت بارش ہو رہی تھی، وغیرہ۔ اس کے لئے اسم کے ساتھ ے لگاتے ہیں، مثلاً: پادشاہے، شبے، روزے، وقتے، وغیرہ۔ فارسی میں ترکیب یکے بمعنی ایک عام مستعمل ہے، تاہم اس کے بعد حرف جار از لگایا جاتا ہے، مثلاً: یکے از سلاطینِ خراسان را شنیدہ ام کہ خیلے نکو بود ۔اس جملے کا لفظی ترجمہ ہے: میں نے خراسان کے سلاطین سے ایک کو سنا ہے کہ وہ بہت نیک تھا۔ بامحاورہ ترجمہ ہو گا: سنا ہے، خراسان کا ایک بہت نیک بادشاہ تھا۔ و علیٰ ھٰذاالقیاس۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

باب ( 8 )

فارسی زبان کے قواعد کا خلاصہ بیان ہو چکا۔ اب ہم کچھ نمونے لے کر ان کا ترجمہ کریں گے۔ لیکن اس سے پہلے ایک بہت اہم بات، کہ محاورے اور ضرب الامثال کا لفظی ترجمہ ممکن نہیں ہوتا، اس کا بامحاورہ ترجمہ کرنا پڑتا ہے یا یوں کہئے کہ محاورہ کے مفہوم پر مبنی جملہ بنانا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ذخیرۂ الفاظ بھی ضروری ہے اور یہ بھی کہ جہاں تراکیب کا ترجمہ کرنا ہو یا ترجمے میں تراکیب حاصل ہوں، وہاں غیر ضروری مشکل پسندی سے گریز ہی مناسب ہے۔شاعری کا ترجمہ کرتے وقت ان شعری صنعتوں کو بھی پیشِ نظر رکھنا پڑتا ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے مفاہیم و مطالب پر اثر انداز ہوتی ہوں۔ اس کے برعکس لفظی بازی گری کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بدیں وجہ ترجمہ میں اصل کی سی چاشنی باقی نہیں رہتی۔ شعر سے شعر میں ترجمہ کوئی آسان کام نہیں ہے اور ایسا کوئی پختہ کارشاعر ہی کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ دونوں زبانوں کا مزاج آشنا ہو، ورنہ ایسی کوشش بجائے خود مضحکہ خیز ہو سکتی ہے۔

آئیے، مولانا جامی کی ”بہارستان“ سے کچھ منتخب حکایات کا اردو میں ترجمہ کرتے ہیں:

(1) نابینایی در شب ِ تاریک چراغی در دست و سبویی بر دوش در راہی می رفت۔ فضولی بہ وی رسید و گفت: ”اَی نادان! روز و شب پیشِ تو یکسان است و روشنی و تاریکی در چشمِ تو برابر، ایں چراغ را فایدہ چیست؟“ نابینا بخندید و گفت: ”این چراغ نہ از بہرِ خود است، از برایِ چوں تو کُور دلانِ بے خرد است تا با من پہلو نرنند و سبویِ مرا نشکنند۔

مباحث: نابینایی: ایک نابینا۔ اس میں آخری ’ی‘ کا معنی ’ایک‘ ہے اور اس سے پہلی ’ی‘ فارسی سے خاص ہے۔ یہ ایسے اسماءکے آخرمیں لایا کرتے ہیں جو حرفِ علت ’الف‘ یا ’واؤ‘ پر ختم ہوں۔ چراغی، سبویی، فضولی میں بھی ’ی‘ کا معنی ’ایک‘ ہے۔ نوٹ کریں کہ فارسی لکھتے ہوئے ’ی‘ اور ’ے‘ میں کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا۔مے رفت: وہ جاتا تھا، وہ جا رہا تھا، وَی: وہ، بہ وَی: اسے، گفت: کہا، کہنے لگا، پیشِ تو: تیرے سامنے، تیرے لئے، در چشم تو برابر: تیری آنکھ (نظر) میں برابر، را: کو (کبھی کبھی اس کا معنی کا، کے لئے بھی کیا جاتا ہے)، بخندید: خندیدن مصدر سے خندید فعل ماضی مطلق ، صیغہ واحد غائب اور ’ب‘ تاکیدی (وہ ہنسا، وہ ہنس دیا)، نہ از بہرِ خود است: اپنے لئے نہیں ہے، چون: جب، جیسا، کور: اندھا، کور دلان: دل کے اندھے، تا: تا کہ، با من: میرے ساتھ، مجھے، نزنند: زدن (مارنا) مصدر سے مضارع زند، فعل مضارع صیغہ جمع غائب زنند،اور ’ن‘ نافیہ: وہ نہ ماریں۔ سبویِ مرا: میرے سبو کو، اسے ’سبویم را‘ بھی لکھا جا سکتا ہے۔ نشکنند: شکستن (توڑنا) مصدر سے فعل مضارع منفی، صیغہ جمع غائب: نہ توڑیں، توڑ نہ دیں۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ترجمہ:
ایک نابینا، اندھیری رات میں، ہاتھ میں دیا اور کندھے پر صراحی، راہ میں جارہا تھا۔ایک بیہودہ شخص اس تک پہنچا (اسے ملا) اور بولا: ”اے نادان! تیرے لئے دن اور رات ایک ہیں اور روشنی اور اندھیرا تیرے لئے برابر، اس دیے کا کیا فائدہ؟“ نابینا ہنس دیا اور بولا: ”یہ دیا میرے اپنے لئے نہیں ہے، تیرے جیسے بے وقوف، دل کے اندھوں کے لئے ہے کہ میرے ساتھ ٹکرا نہ جائیں اور میری صراحی نہ توڑ دیں۔

(2) اعرابی ای شتری گم کردہ، سوگند خورد کہ چون بیابد بہ یک درم بفروشد۔ چون شتر یافت، از سوگندِ خود پشیمان شد۔ گربہ ای در گردنِ شتر آویخت و بانگ می زد کہ: ”کہ می خَرد شتری بہ یک درم و گربہ ای بہ صد درم؟ امّا، بی یک دیگر نمی فروشم۔“

مباحث:
اعرابی ای، شتری میں ’ی‘ بمعنی ’ایک‘۔ سوگند خورد: قسم کھائی، بیابد: یافتن (پانا، حاصل کرنا) مصدر سے فعل مضارع، ب تاکیدی، بفروشد: فروختن (بیچنا) مصدر سے فعل مضارع، ب تاکیدی۔ گربہ ای: ایک بلی،

آویخت: آویختن (سجانا، لگانا، ڈالنا) مصدر سے فعل ماضی مطلق، بانگ می زد: آواز دیتا تھا، آواز دینے لگا، کہ: کون، مے خَرَد: خریدن (خریدنا) مصدر سے فعل حال، یاد رہے کہ اس کا تلفظ خَ رَد ہے، خَرِد (عقل) کا تلفظ خِ رَد ہے۔ کہ می خَرد: کون خردیدتا ہے؟ یک: ایک، صد: سو، اما: لیکن، مگر، بے یک دیگر: ایک کے بغیر دوسرا، الگ الگ، نمے فروشم: فروختن مصدر سے فعل مضارع منفی، صیغہ واحد متکلم۔ میں نہ بیچوں ، نہ بیچوں گا۔

ترجمہ:
ایک بدو کا اونٹ گم ہو گیا۔ اس نے قسم کھائی کہ اونٹ مل گیا تو ایک درم میں بیچ دوں گا۔ جب اونٹ اسے مل گیا تو اپنی قسم پر پشیمان ہوا۔ ایک بلی اونٹ کی گردن سے لٹکا دی اور آواز دینے لگا: ”کوئی ہے جو ایک درم میں اونٹ اور ایک سو درم میں بلی خرید لے، مگر میں (ان دونوں) کو الگ الگ نہیں بیچوں گا۔“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

(3) طبیبی را دیدند کہ ہرگاہ بہ گورستان رسیدی، ردا در سر کشیدی۔ از سببِ آنش سوال کردند۔ گفت: ”از مُردگانِ این کورستان شرم می دارم۔ بر ہر کہ می گزرم ضربتِ من خوردہ است، و در ہر کہ می نگرم از شربتِ من مردہ“۔

مباحث:
طبیبی: ایک طبیب، دیدند: انہوں نے دیکھا۔ لوگوں نے دیکھا، ہرگاہ: جب بھی، جب کبھی، رسیدی، کشیدی: یہ ماضی شرطی کے صیغے (واحد غائب) ہیں، ان کو ماضی مطلق کے صیغوں (واحد حاضر) سے خلط ملط نہ کیا جائے، یہاں معنی ماضی استمراری کا آ رہا ہے، وہ پہنچتا، وہ کھینچ لیتا، سببِ آنش: یہاں ’آن‘ اسم اشارہ عمل کی طرف ہے اور ’ش‘ ضمیر طبیب کی طرف۔ از سبب آنش سوال کردند: (لوگ) طبیب سے اس کی وجہ پوچھتے، بر ہر کہ: جس کسی پر۔ مے گزرم: میں گزرتا ہو، مے نگرم: میں دیکھتا ہوں۔

ترجمہ:
لوگوں نے ایک طبیب کو دیکھا کہ وہ جب کبھی قبرستان میں جاتا، چادر کو سر پر کھینچ لیتا (منہ چھپا لیتا)۔ طبیب سے اس کا سبب دریافت کیا، وہ کہنے لگا: مجھے اس گورستان کے مُردوں سے شرم آتی ہے، میں جس کے پاس سے گزرتا ہوں، میری چوٹ کھایا ہوا ہے، اور جسے دیکھتا ہوں، میرے شربت کا (میرا شربت پینے کی وجہ سے) مرا ہوا ہے۔

(4) روباہ را گفتند: ”ہیچ توانی کہ صد دینار بِسِتانی و پیغامی بہ سگانِ دِہ رسانی؟“ گفت: ”واللہ، مُزدی فراوان است، اما در این معاملہ خطرِ جان است“۔

مباحث:
روباہ: لومڑی، عیاری اور چالاکی کی علامت، ہیچ توانی: ہیچ کا لفظی معنی ہے ’کم، تھوڑا‘ مصدر توانیدن (طاقت ہونا) سے فعل مضارع صیغہ واحدحاضر، تو کر سکتا ہے۔ با محاورہ ترجمہ ہوا: کیا تیرے لئے ممکن ہے؟ ستانی: تو لے لے، ب تاکیدی، پیغامی: ایک پیغام، سگانِ دِہ: گاؤں یا بستی کے کتے، رسانی: تو پہنچائے، مزدی: اجرت، فراوان: بہت، زیادہ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ترجمہ:
کسی نے لومڑی سے کہا: کیا تو یہ کر سکتی ہے کہ ایک سو دینار لے لے اور ایک پیغام بستی کے کتوں تک پہنچا دے؟ اس نے کہا: خدا کی قسم، اجرت بہت (مناسب) ہے مگر اس معاملے میں جان کا خطرہ ہے۔

(5) روباہ بچہ ای با مادرِ خود گفت: ”مرا حیلہ ای بیاموز کہ چون بہ کشا کشِ سگ درمانم، خود را از او برہانم“۔ گفت: ”حیلہ فراوان است، اما بہترین ہمہ آن است کہ در خانہ خود بنشینی، نہ او ترا بیند نہ تو او را بینی“۔

مباحث:
حیلہ: چال، مکر، طریقہ، مرا: مجھے، بیاموز: آموختن (سکھانا) مصدر سے فعل امر: آموز، ب تاکیدی، کشا کش: کشتی، ہاتھا پائی، کھینچا تانی، درمانم: درماندن (عاجز آ جانا) سے فعل مضارع صیغہ واحد متکلم: میں بے بس ہو جاؤں، برہانم: ب تاکیدی، رہانم: چھڑا لوں، بہترینِ ہمہ آن است: سب سے بہتر یہی ہے، بنشینی: تو بیٹھ رہ۔

ترجمہ:
لومڑی کے بچے نے اپنی ماں سے کہا: ”مجھے ایسی چال سکھا کہ جب کتے سے کھینچا تانی میں بے بس ہوجاؤں تو خود کو چھڑا لوں“۔ اس نے کہا: ”طریقے بہت ہیں، مگر بہترین یہی ہے کہ تو اپنے گھر میں بیٹھ رہ، نہ وہ تجھے دیکھے اور نہ تو اسے دیکھے۔

مولانا جلال الدین رومی کے متعلق ڈاکٹر عبدالحسین زرین کوب کے مضمون کے منتخب حصے کا ترجمہ کرتے ہیں:

(6) مولانا، صحبت با فقرای اصحاب را بیش از ہر چیز دوست می داشت و آن را بر صحبت با اکابرِ شہر ترجیح می داد۔ شفقتِ او شامل حیوانات ہم می شد وہ یاران را از آزارِ جانوران مانع می آمد۔بہ یاران تعلیم می داد کہ جوانمرد از رنجاندنِ کس نمی رنجد، و کسی را نمی رنجاند۔ در گزر از کویی، یک روز دو تن را در حالِ نزاع دید۔ یکی بہ دیگری پرخاش می کرد کہ: ”اگر یکی بہ من گوئی، ہزار بشنوی“۔ مولانا رو بہ آن دیگری کرد و گفت: ”ہر چہ خواہی بہ من گوی کہ اگر ہزار گویی یکی ہم نشنوی“۔ زندگی وی با قناعت و گاہ با قرض می گزشت۔ اما ازین فقرِ اختیاری ہیچ گونہ نا خورسندی نشان نمی داد۔ سادہ، بی تجمل و عاری از رُوی و ریا بود۔ با اہل خانہ دوستانہ می زیست۔ لباس و غذا و اسباب خانہ اش سادہ بوہ۔ غذای او غالباً از نان و ماست یا ما حضری محَقَّر تجاوز نمی کرد۔ از زندگی فقط بہ قدرِ ضرورت تمتع می برد۔

مباحث:
باذوق احباب کو مندرجہ بالا اقتباس کی لفظیات نامانوس نہیں لگی ہو گی۔ پہلے ایک نظر ان الفاظ کو دیکھ لیں جو اردو اور فارسی میں معمولی معنوی فرق کے ساتھ یا یکساں مستعمل ہیں: مولانا، صحبت با فقرا، اصحاب، بیش، ہر چیز، دوست، داشت، صحبت، اکابرِ شہر، ترجیح، شفقت، شامل، حیوانات، یاران، آزار، جانوران، مانع، آمد، تعلیم، کہ، جوانمرد، رنج، کس، کسے، در گزر، کوی، یک روز، دو، در حالِ نزاع، دید، یکے بہ دیگرے، پرخاش، اگر، گوئی، ہزار، رو، ہر چہ، زندگی، با قناعت، گاہ، با قرض ، گزشت، فقرِ اختیاری، ہیچ، گونہ، نا خورسندی، نشان، سادہ، بی تجمل، عاری از رُوی و ریا، اہل خانہ، دوستانہ، لباس و غذا و اسباب خانہ، سادہ، غذا، غالباً، نان و ماست، ما حضر، تجاوز، فقط، بہ قدرِ ضرورت، تمتع۔آپ نے دیکھا کہ الفاظ کی یہ فہرست اصل (مکمل) عبارت کے تین چوتھائی کے قریب ہے، باقی ایک چوتھائی حصہ افعال اور گردان وغیرہ کا ہے، جس کی تفہیم چنداں مشکل نہیں، بہت سے افعال و الفاظ پر مولانا جامی کی حکایات کی ذیل میں بحث ہو چکی، چند قابل توجہ نکات ملاحظہ فرمائیے: اس اقتباس میں زیادہ جملے فعل ماضی استمراری کے ہیں، ایک آدھ جملہ فعل مضارع اور فعل ماضی مطلق کا ہے۔ بعض الفاظ کے ساتھ ’ے‘ غیر ناطق آئی ہے۔یاد رہے کہ فارسی میں ایسے اسماءاور افعال کے آخر میں جو کسی حرف علت پر ختم ہوں، ’ے‘ غیر ناطق موجود ہوتا ہے جسے بالعموم لکھا نہیں جاتا (ڈاکٹر عبدالحسین زرین کوب نے اسے لکھا ہے) مثلاً کوے (گلی)، گوے (کہہ)، وغیرہ۔ دوست می داشت: عزیز رکھتا تھا، بیش از ہر چیز: سب سے زیادہ، ہم: بھی، مانع می آید: منع کرتا تھا، رنجیدن: دکھ ہونا، رنجانیدن: دکھ دینا، کس کسے: کوئی شخص، دو تن: دو شخص، اگر یکی بہ من گویی، ہزار بشنوی: اگر تو مجھے ایک کہے گا تو ہزار سنے گا، ہر چہ خواہی بہ من گوی: مجھے جو چاہے کہہ لے، اگر ہزار گویی یکی ہم نشنوی: اگر تو ہزار کہہ لے گا تو ایک بھی نہیں سنے گا، گاہ: کبھی، ہیچ گونہ: ذرہ بھر، ناخرسندی: ناخوشی، غم، رنج، نشان نمی داد: دکھائی نہ دیتی تھی، بے تجمل: دکھلاوے سے پاک، عاری از روی و ریا: ٹھاٹ باٹ اور شہرت سے پاک، اسبابِ خانہ اش: اس کے گھر کا سامان، نان و ماست: روٹی اور دہی، ما حضری محقر: روکھی سوکھی، تمتع می برد: فائدہ اٹھاتا تھا۔ ایک خاص بات نوٹ کریں کہ فارسی میں ’ی‘ اور ’ے‘ کی املا میں فرق نہیں رکھا جاتا، اس لئے یہاں اِشکال سے بچنے کے لئے الفاظ سے شناسائی بہت ضروری ہے۔

ترجمہ:
مولانا فقیر لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کو ہر شے پر مقدم رکھتے تھے اور اسے شہر کے اکابرین کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے پر ترجیح دیتے تھے۔ آپ کی شفقت حیوانات پر بھی تھی اور ساتھیوں کو جانوروں پر آزار سے منع کیا کرتے۔ ساتھیوں کو تعلیم دیتے کہ جوانمرد وہ ہے جسے کوئی دکھ دے تو وہ رنجیدہ نہ ہو اور خود کسی کو دکھ نہ دے، ایک گلی سے گزرتے ہوئے، ایک دن، دو آدمیوں کو جھگڑتے دیکھا، ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا: اگر تو مجھے ایک کہے گا تو ہزار سنے گا۔ مولانا نے اس کی طرف منہ کیا (مخاطب کیا، توجہ دلائی) اور کہا: مجھے جو چاہے کہہ لے، اگر تو ہزار کہہ لے گا تو ایک بھی نہیں سنے گا۔ آپ (مولانا) کی زندگی قناعت کے ساتھ اور بارہا قرض کے ساتھ گزرتی، مگر اس اختیاری فقر کی وجہ سے کسی رنج کا نشان نہ ملتا۔ (آپ کی زندگی) سادہ، ٹھاٹ باٹ سے اور نام و نمود سے پاک تھی۔ اہلِ خانہ کے ساتھ آپ دوستوں کی طرح رہتے۔ آپ کا لباس، غذا اورگھر کا سامان سادہ تھا۔ آپ کی غذا میں روٹی اور دہی یا بچے کھچے کھانے سے زیادہ کچھ نہ ہوتا۔ وہ زندگی سے بہ قدرِ ضرورت فائدہ اٹھاتے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

(7) : فارسی شاعری سے اردو ترجمہ کے لئے ہم نے اقبال کی ”پیامِ مشرق“ سے ایک نظم ”محاوہ ما بین خدا و انسان“ (خدا اور انسان کا مکالمہ) اور دوسری نظم ’زندگی“ کا انتخاب کیا ہے۔ ہمارا مقصداشعار کی تشریح کرنا نہیں بلکہ اس کے سادہ اور مختصر معانی کو اردو میں رقم کرنا ہے۔پہلی نظم کے دو حصے ہیں: پہلے چھ مصرعے اقبال نے خدا کی طرف سے اور دوسرے چھ مصرعے انسان کی طرف سے ادا کئے ہیں۔ دوسری نظم میں زندگی کا مفہوم مظاہرِ فطرت کی زبان سے بیان کیا گیا ہے۔

خدا
جہاں را زِ یک آب و گل آفریدم
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی
من از خاک پُولادِ ناب آفریدم
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی
تبر آفریدی نہالِ چمن را
قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را
انسان
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم

مباحث:
زیک: (از، یک)، آفریدم: میں نے پیدا کیا، آفریدی: تو نے پیدا کیا، پولادِ ناب: فولاد، تفنگ: توپ، تبر: کلہاڑی، را: کو، کے لئے، سے، ساختی: تو نے بنایا، سفال: مٹی، ایاغ: برتن، پیالہ، راغ: خار و خس، من آنم ( من آن ہستم): میں وہ ہوں، کہ: جو، جس نے، جسے، سازم: بناؤں، بناتا ہوں، نوشینہ: پینے کی چیز، مشروب، دوائی، تریاق۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ترجمہ:
خدا کہتا ہے: میں نے تو جہان کو ایک ہی آب و گل سے پیدا کیا اور تو نے ایران، تاتار اور زنگ (نسلی اور علاقائی امتیازات) پیدا کرلئے۔ میں نے مٹی سے فولاد جیسی مفید شے پیدا کی اور تو نے تلوار، تیر اور توپ (تباہی کے سامان) بنا لئے۔ تو نے نہالِ چمن سے کلہاڑا (درخت کاٹنے کا اوزار) بنا لیا،اور (اس نہال کی شاخوں سے) گیت گانے والے پرندے کے لئے پنجرہ بنا ڈالا۔

انسان کہتا ہے: تو نے رات بنائی تو میں نے چراغ بنا لیا، تو نے مٹی بنائی اور میں نے پیالہ (کام کی شے) بنا لی۔ تو نے صحرا، کہسار، اور خار و خس پیدا کئے، میں نے (انہی کو کام میں لا کر) سڑکیں، گلزار اور باغ بنا لئے۔ میں وہ ہوں جو پتھر سے آئینہ بناتا ہوں ، میں وہ ہوں جو زہر سے تریاق بنا لیتا ہوں۔

زندگی
شبے زار نالید ابرِ بہار
کایں زندگی گریۂ پیہم است
درخشید برقِ سبک سیر و گفت
خطا کردہ ای ، خندۂ یک دم است
ندانم بہ گلشن کہ برد ایں خبر
سخنہا میانِ گل و شبنم است

مباحث:
شبے: ایک رات، زار: زار و قطار، بہت زیادہ، نالید: رویا، کایں: (کہ، ایں)، گریۂ پیہم: مسلسل رونا، درخشید: چمکی، سبک سیر: تیز دوڑنے والی، خطا کردہ ای (خطا کردہ ای): تو نے غلطی کی، تو بھول گیا، تو نے غلط کہا، خندہ: ہنسی، ندانم(نہ دانم): مجھے نہیں معلوم، میں نہیں جانتا، کہ: کون، سخنہا: باتیں۔

ترجمہ:
ایک رات ابرِ بہار زار و قطار رویا (اور کہا) کہ یہ زندگی تو متواتر رونے کا نام ہے۔ سبک سیر بجلی چمکی اور بولی: تو نے غلط کہا! (یہ زندگی) ایک لمحے کی ہنسی ہے۔ مجھے نہیں معلوم (اس مکالمے کی) خبر گلشن میں کون لے گیا۔ پھول اور شبنم کے درمیان (اس پر) باتیں ہو رہی ہیں۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ضمیمہ



جب ہم کسی زبان کے قواعد کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہم موجود الفاظ سے جملے بنانے کے ساتھ ساتھ ان سے نئے الفاظ بھی حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے نئے الفاظ کو ہم دو بڑے گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلا گروہ مشتقات کا ہے اور دوسرا مرکبات کا۔ مشتقات ایسے الفاظ ہیں جو کسی دوسرے لفظ سے مشتق ہوں۔ جیسے مصدر سے اس کا مضارع، افعال اور افعال کے تمام صیغے، واحد سے جمع وغیرہ حاصل کرنا۔مرکبات کی دو صورتیں ہیں ایک تو معنوی سطح پر ہے جن کو ہم مرکب تام یا مرکب ناقص کے طور پر زیرِمطالعہ لا چکے ہیں اور دوسری لفظی سطح پرہے۔ اس سطح پر بننے والے نئے الفاظ سے نئے معانی بھی حاصل ہو سکتے ہیں تاہم زیادہ توجہ الفاظ کی ساخت اور صوتیت پر دی جاتی ہے، جسے سادہ الفاظ میںاملاءاور ادائیگی کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔

مناسب ہے کہ فارسی کے مروج حروف ہجا اور اُن کی صوتیت کو پہلے سمجھ لیا جائے۔ اس مقصد کے لئے ہم حسبِ ضرورت اردو اور دیگر فارسی الخط زبانوں کے علاوہ رومن خط والی زبانوں سے بھی کریں گے تاکہ تفہیم میں آسانی ہو سکے ۔ صوتیت کے اعتبار سے حروف کی دو صورتیں ہیں۔حروفِ علت اور حروفِ ناطق۔ حروفِ علت تین ہیں: الف، واؤ، اور ےائے۔ ایک واوِ معدولہ ہے، ایک یائے غیرمتلؤ ہے۔ باقی سب حروف ناطق ہیں۔ یاد رہے کہ فارسی میں حروف مرکب اور حروف مدغم کا کوئی تصور نہیں۔ یائے کو ی یا ے دونوں صورتوں میں لکھا جاتا ہے اور یائے معروف پڑھا جاتا ہے تا آنکہ اعراب اسے لین نہ ثابت کریں۔ایسا ہی معاملہ واؤ کا ہے تا آنکہ وہ لین یا معدولہ ثابت نہ ہو جائے۔ کچھ اشارات جدول : الف کے تحت مندرج ہیں۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

تفسیر بھیا بہت شکریہ یہ سلسلہ شروع کرنے کے لئے کسی دور میں میری بڑی خواہش تھی کہ میں فارسی زبان سیکھ سکوں اسی خواہش کی تکمیل کے لئے میں نے چھٹی جماعت میں فارسی کو بطور آپشنل مضمون کے چنا تھا لیکن بدقسمتی سے ہمارے پورے ادارے میں صرف ایک استاد تھے جو فارسی پڑھاتے تھے اور پورے سکول میں ہم دو طالب علم تھے جنہوں نے فارسی کا مضمون چنا تھا۔
استاد صاحب نے ایک ماہ لگایا ہمیں قائل کرنے کے لئے کہ یہ بہت مشکل زبان ہے اس لئے تم اپنا مضمون تبدیل کر لو جب ہم نہ مانے تو انہوں نے پڑھانے کا آغاز کر دیا لیکن پھر دو ماہ اور گزر گئے اور ہمارا سبق : “ایں جا است“ اور “آں جا است“ سے آگے ہی نا بڑھ پایا کیونکہ ان دوماہ میں استاد صاحب صرف دو دن تشریف لائے اور یہ دو فقرے رٹا کر چلے گئے۔ بس پھر اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں اندازہ ہو گیا کہ اگر ہم لوگ فارسی ہی پڑھتے رہے تو ہم سارے سال میں بمشکل ایک صفحہ پڑھ پائیں گے اور امتحان میں لٹو ہو جائیں گے اور ہم نے اپنی مرضی سے مضمون تبدیل کر کے زراعت رکھ لے لیا۔
بعد میں زراعت میں ہمارے ساتھ کیا ہوا یہ بھی ایک کہانی ہے کبھی سناؤں گا قصہ مختصر یہ کہ امتحان والے دن ہمارا مضمون ڈرائنگ تھا جو سکول کے تمام طالب علموں کا تھا۔

خیر ہم نا فارسی سیکھ پائے اور نہ ہی دوبارہ کبھی ایسی خواہش نے جنم لیا اب آپ نے ان اسباق کا سلسلہ شروع کر کے خواہش کی گڑیا کو گدگدانے کا کام کیا ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

بہت بہت شکریہ تفسیر بھائی ۔
بڑی دیرینہ خواہش تھی کہ فارسی سکھوں۔ آپ کی استادی میں سکھنے کی کوشیش کروں گا۔ انشاء اللہ !
جمیل عباسی
کارکن
کارکن
Posts: 2
Joined: Wed May 21, 2014 4:09 pm
جنس:: مرد

Re:

Post by جمیل عباسی »

دیگر اہم مشتقات کا اجمالی ذکر: مصدر کی علامت ن ہٹا کر اس کی جگہ ہ لگادینے سے اسمِ مفعول حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً: بوسیدن (گھِسنا) سے بوسیدہ (گھِسا ہوا)، آزمودن (آزمانا) سے آزمودہ (آزمایا ہوا)، وغیرہ۔ مضارع کی علامت د ہٹا دینے سے اسمِ فاعل حاصل ہوتا ہے۔ کردن: کند سے کن (کرنے والا)، نوشتن: نویسد سے نویس (لکھنے والا)، گفتن: گوید سے گو (کہنے والا)، وغیرہ۔ یہ ماحصل فعل امر کے صیغہ واحد حاضر سے مشاکل ہوتا ہے اس لئے سلاست کی غرض سے فعل امر سے پہلے ب لگا دیتے ہیں، مثلاً: کن: بکن (کر)، نویس: بنویس (لکھ)، گو: بگو (کہہ)، وغیرہ۔ مضارع کی علامت د ہٹا کر اس کی جگہ ندہ لگانے کا حاصل بھی اسمِ فاعل ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا مثالوں میں کند سے کنندہ، نویسد سے نویسندہ، گوید سے گویندہ، وغیرہ۔ مضارع کی علامت ہٹا کر ان لگانے سے اسمِ کیفیت حاصل ہوتا ہے، مثلاً رفتن:رَوَد سے رواں (جاتا ہوا)، دَوِیدن: دَوَد سے دَواں (دوڑتا ہوا)، افتادن: افتد سے افتاں (گرتا ہوا)، شائستن: شاید سے شایاں (پھبتا ہوا)، پرسیدن: پُرسد سے پُرساں، وغیرہ۔ واضح رہے کہ بسا اوقات اسمِ کیفیت اور اسم فاعل ہم معنی ہو جاتے ہیں۔ مزید واضح رہے کہ فارسی میں نون غنہ عام طور پر لفظ کا آخری حصہ ہوتا ہے اور اسے نون ناطق بھی پڑھا جاتا ہے۔ اہلِ زبان نون غنہ کو یوں ادا کرتے ہیں کہ نہ وہ مکمل طور پر ناطق ہوتا ہے اور نہ مکمل غنہ، بلکہ ان کے بین بین ہوتا ہے۔ یہ نون غنہ زیرِ اضافت، زیرِ توصیفی، واوِ عطفی وغیرہ کے زیرِ اثر متحرک ہو کر نون ناطق بن جاتا ہے۔ اسی طرح، اہلِ زبان کے ہاں، کسی لفظ کے آخر میں واقع ہونے والی ’یے‘ کا تلفظ یائے مجہول (ے) اور یائے معروف (ی) کے بین بین ہوتا ہے اور املا میں بھی دونوں صورتیں درست سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً مے: می، کسے: کسی، وغیرہ۔ یائے لِین (جہاں ’ے‘ سے پہلے حرف پر زبر ہو) کی صورت میں بھی یہ جائز ہے۔ ہم یائے لین کی صورت میں ’ے‘ اوریائے معروف ( جہاں ’ے‘ سے پہلے حرف پر زیر ہو) کی صورت میں ’ی‘ لکھنے کی سفارش کریں گے۔
[/quote]
جمیل عباسی
کارکن
کارکن
Posts: 2
Joined: Wed May 21, 2014 4:09 pm
جنس:: مرد

Re: اسباقِ فارسی - محمد یعقوب آسی

Post by جمیل عباسی »

اسم فاعل کا اصول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ صیغہ امر کے آخری حرف کے نیچے زیر لگا کر آگے ندہ لگائیں جیسے تابِندہ ، لیکن خوانندہ کے پہلے نون پر ہم نے کئی جگہ زبر بھی لکھی ہوئی دیکھی یعنی خوانَندہ اور کبھی اسے خواندہ بھی لکھا دیکھا تو اس کے کیا کوئی خاص اصول ہیں
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اسباقِ فارسی - محمد یعقوب آسی

Post by چاند بابو »

السلام علیکم،

فارسی زبان میں اسم فاعل کا اصول یہ ہے کہ صیغہ امر کے آخری حرف کے نیچے زیر لگا کر آگے ندہ لگائیں۔ مثلاً: کنندہ (کرنے والا)، جویندہ (ڈھونڈنے والا)، یابندہ (پانے والا)، وغیرہ۔ لیکن اس قاعدے کے بعض استثنائی صورتیں بھی ہیں۔

ایک استثنا یہ ہے کہ جب صیغہ امر کا آخری حرف نون ہو تو اس کے نیچے زبر لگا کر آگے ندہ لگائیں۔ مثلاً: خوانندہ (پڑھنے والا)، گویندہ (بولنے والا)، رویندہ (رونے والا)، وغیرہ۔

دوسرا استثنا یہ ہے کہ جب صیغہ امر کا آخری حرف نون ہو اور اس سے پہلے حرف یا واو ہو تو اس کے نیچے کچھ نہیں لگا کر آگے ندہ لگائیں۔ مثلاً: خواندہ (پڑھنے والا)، گوندہ (باندھنے والا)، روندہ (کاٹنے والا)، وغیرہ۔

آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ خوانندہ اور خواندہ دونوں اسم فاعل ہیں اور ان کا معنی بھی یکساں ہے۔ لیکن خوانندہ پہلے قاعدے کے مطابق بنا ہے اور خواندہ دوسرے قاعدے کے مطابق بنا ہے۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی صحیح ہے اور آپ کسی کو بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ آپ کو مسئلہ حل ہو گیا ہو گا، البتہ جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں کہ میں نے فارسی زبان سیکھنے کی ناکام کوشش کی تھی اس لئے میں خود اس معاملے میں آپ کو صد فی صد یقین نہیں دلا سکتا کہ یہ جواب درست ہے یا نہیں البتہ انٹرنیٹ پر مختلف جگہ تلاش کرنے میں یہی جواب ملا ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “درسگاہ اردونامہ”