سفرنامہ پریوں کی تلاش سترہویں قسط

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

سفرنامہ پریوں کی تلاش سترہویں قسط

Post by وارث اقبال »

کہتے ہیں کہیں اک بستی تھی، وہاں چاند ستاروں کے گھر تھے
نیلی جھیلوں میں امرت تھا اور امرت میں نیلوفر تھے
سب سروِ رواں سر دُھنتے تھے ہر موج ہوا کی شوخی پر
سُنبل کہ زلیخا کی زلفیں،شمشاد کہ یوسف پیکر تھے
پھر رُت بدلی، اس بستی کے کھیتوں میں کانٹے اُگ آئے
تب سحر زدہ بستی والے سب ان کانٹوں پر نچھاور تھے
پھر داؤ پہ تھے کیاکاسہ ٔسر، کیا مال و متاعِ قلب وجگر
کچھ ان کانٹوں کے مالی تھے کچھ ان کانٹوں کی زدپر تھے
پھر ہرپگڑی پہ پاؤں تھا، ہر منہ کا مقدرتالا تھا
پھر ہر حلقوم پہ جونکیں تھیں اور ٹوٹے بکھرے شہپر تھے
ہر روپ میں غم فریادی تھا ارباب ِ وفا کی محفل میں
کیا عازم تھے کیا آہیں تھیں کیا نالے تھے کیا نشتر تھے
(مظفر عازم)
دوپہر تو نہ تھی لیکن وقت قریباً دوپہر کے قریب قریب تھا۔ گرمی اپنے عروج پر تھی کہ ہر ذی روح کملائی کملائی اور بے بس دکھائی دے رہی تھی۔ وہ تو اللہ بھلا کرے اُن کا جنہوں نے سڑک کنارے درختوں کو بچا رکھا تھا۔ جب گاڑی درختوں کے ایک لمبے قافلے کی ہم سفر ہوتی تو گاڑی کا اے سی فعال ہو کر اپنے ہونے کا احساس دلاتا۔ بچوں کو جلدی تھی برفانی پہاڑیوں کو چھونے کی اور مجھے جلدی تھی تاریخ کے اوراق میں جھانکنے کی۔جہاں کوئی ورق دکھتا رک جاتا، یوں رُکتے رُکاتے ہم ماضی کے ٹکساشیلا بمعنی”سانپوں کے پجاریوں کا شہر“ اور حال کے ٹیکسلا میں پہنچے۔یعنی پہلے سانپوں کا شہر اور اب سانپوں کے پجاریوں کا شہر۔
ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں ایک جوان اور پڑھا لکھا گائیڈ مل گیا۔ عام طور پر گائیڈز کو چند بڑی بڑی باتیں از بر ہوتی ہیں، جہاں اُن سے کوئی الگ مخلوق کا سوال کیا وہ ٹُھُس ہو جاتے ہیں۔ اس لیے گائیڈ کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہوتاہے۔
تاریخی لحاظ سے یہ شہر اتنا زرخیز ہے کہ اگر ہم اس شہرِ خموشاں کی تاریخ تلاش کرنے نکلیں تو قرنوں اور صدیوں میں گم ہو کر رہ جائیں۔ اتنا کہناکافی ہو گا کہ ہندو مت کی مشہور مذہبی کتاب مہابھارت اور سنسکرت زبان کی ترتیب کا عمل اسی خطے میں ہوا۔ جب بدھ مت کو عروج ملا تو یہ سارا علاقہ بدھا کا پیروکار بن گیا۔
اس شہر پرایک ایسادور بھی آیا جب یہ شہر عروس البلاد کے طور پرپوری دنیا میں جانا جاتا تھا۔ اسی کی بدولت فنون کی پلکوں پر کاجل تھا، مختلف علوم کے چہرے شادمانی سے تمتما رہے تھے اور تہذیب کی گالوں پر حُسن کی لالیاں تھیں۔ کتابوں میں نئے ابواب کا اضافہ ہو رہاتھا، زبان و ادب کی نئی جہتیں تلاش کی جارہی تھیں، زینت، زیبائش اور آسائش تمام کے معنی موجود تھے۔ پھرایک وحشی قوم’ہن‘ اُٹھی اور ا س شہر کو راکھ کاڈھیر بنا دیا۔
جنگلوں میں رہنے والوں کو شہر راس نہیں آتے ا س لیے وہ اسے جنگل میں بدل دیتے ہیں۔ آج ا س شہر کے درو دیوار میں گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں، بے گناہ شہریوں کی آہ و بکا اورچیخوں کی گونج سنائی دیتی ہیں۔
کہانیاں تو ایسی ہیں کہ سنیں تو قوتِ سماعت ُرک جائے اور سنائیں تو قوت ِگویائی گنگ ہوجائے۔
ٹیکسلا میں تین اہم شہر دریافت ہوئے ہیں،جس میں چھٹی صدی قبل مسیح کا شہربھیر منڈ، دوسری صدی قبل مسیح کاشہر سرکپ یا سکاپ اورسِر سکھ،جہاں کشن راج قائم ہواتھا۔ جب ہم ان شہروں میں سے ایک میں داخل ہوئے تو ہم پرایک عجیب سی قلبی واردات طاری تھی۔ ہر طرف سکوت کے پہرے، ہرطرف خاموشی کا راج۔ ہم جسے شہرِ خموشاں کہتے ہیں وہ ایسے تو نہیں ہوتے۔ یہ تو اُن سے بھی گیاگزرا تھا۔ جو لوگ ویرانوں میں بسنا پسند کرتے ہیں وہ اس شہر میں بسنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔میں جب اِس کی گلیوں اور پگڈنڈیوں میں چل رہا تھا تو مجھے یوں لگ رہا تھاجیسے میں لاشوں کے ڈھیر پر چل رہا ہوں اور ان لاشوں کے ہاتھوں میں ایک ہی طرح کاپروانہ تھا۔ ہماری ادھوری خواہشیں۔ ہائے! اس شہر نے اپنے کل کے بارے میں کیا کیا سوچا ہو گا، اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے کیا کیا سپنے بُنے ہوں گے۔ کتنے ہوں گے جوکوسوں میل کا سفر طے کر کے یہاں علم حاصل کرنے آئے ہوں گے، کتنے ہوں گے جو کوسوں میل دور سے یہاں رزق تلاش کرنے آئے ہوں گے۔ کتنی کنواریاں اپنے من میں اپنے شہزادوں سے ملاپ کی آشائیں بسائے راہوں میں بیٹھی ہوں گی۔ کتنی مائیں اپنے بچوں کی راہیں تک رہی ہوں گی۔ کتنے مکتبوں میں فلسفہ کی گتھیاں سلجھائی جا رہی ہوں گی۔ آہ! کبھی یہاں ہمارے شہروں کی طرح جھوٹ سچ کاکاروبار ہوتا ہوگا، کبھی یہاں بھی نجات دہندہ اور دانش ور آتے جاتے رہے ہوں گے۔ آہ! سب کو کسی عفریت، کسی راکشس یا کسی دیوکی زبان چاٹ گئی۔ ایک ایسی تہذیب صفحۂ ہستی سے مٹ گئی جو اپنے اندر دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی رکھتی تھی۔ مٹی بھی اس طرح کہ اپنے مٹنے کے تمام نقوش بھی مٹا دیے۔
زلزے آتے ہیں شہر گرتے ہیں مگر انھی کھنڈرات پر نئے بن جاتے ہیں، سیلاب شہروں کو بہا کر لے جاتے ہیں مگر گدلے پانیوں میں نئے شہر ابھر آتے ہیں۔ گرے ڈھے، تباہ ہوئے گلی کوچوں میں اس شہر کے ورثا زندگی کو پھر سے جاری و ساری کر لیتے ہیں۔مگر اس شہر کے ساتھ کیاہوا کہ اس شہر کے ورثا بھی اس شہر کے ساتھ ہی دفن ہو گئے، کوئی نہیں بچا کوئی جو دیس سے باہر گیا ہو، کوئی جو ہمسائے میں ہو، کوئی جو کسی پیڑ پر چڑھ گیاہو، کوئی جو جنگلوں میں جا چھپا ہو۔ کوئی جو کسی غار میں جا بسا ہو اور کوئی جس نے کسی شہر میں آ کر اپنی تباہی کی دہائی دی ہواور ماتم کیاہو۔
سنبل کہ زلیخا کی زلفیں شمشاد کہ یوسف پیکر تھے
پھر رُت بدلی، اس بستی کے کھیتوں میں کانٹے اُگ آئے
گائیڈ نے ہمیں ایک پرانا کنواں دکھایا اور ہم نے وہاں سے پانی پیا۔ وہ بولتا جارہا تھا۔ یہ یونیورسٹی تھی، یہ دھرم شالا تھی، یہ بازار تھا یہ سرکپ کا کنال اسٹوپا ہے۔ سرکپ۔۔۔ کیامطلب ہے؟سر کاٹنا۔۔یہاں ایک بادشا تھاجو چوپڑ بہت عمدگی سے کھیلتا تھا جو بھی اُس سے ا س کھیل میں ہار جاتا وہ اُ س کا سر قلم کروا دیتا۔۔۔۔۔۔۔ یہ کنال اسٹوپا ہے۔۔۔۔۔۔۔ یہاں کی داستان بھی عجیب ہے۔راجکمار کنال کی سوتیلی ماں نے اُس کے باپ کی جانب سے ایک جعلی حکمنامہ بھیجا کہ راجکمار کی آنکھیں نکال لی جائیں۔ راجکمار نے باپ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر لیا۔ جب اصلیت سامنے آئی تو علاج کروایا گیا اور بینائی واپس آ گئی۔ اُس کی یاد میں یہ اسٹوپاتعمیر کیا گیا۔
مغل بادشاہ جہانگیر تزک ِ جہانگیری میں لکھتا ہے کہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ حسن ابدال سے کوئی پانچ کو س کے فاصلے پر پڑاؤ کیے ہوئے تھا کہ رات کو پہاڑوں سے چیخوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ جب میں نے تاریخ کے اوراق پلٹے تو اس علاقے کے بارے میں کئی داستانیں پڑھیں اور ان پراسرار آوازوں کی وجہ معلوم ہوئی۔ یاد رہے کہ ان آوازوں کی بابت انگریزوں نے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔
سیالکوٹ کے راجہ سالباہن کا ایک بیٹا راجہ رسالو سوتیلی ماں کی سازشوں کا شکار ہوکر جنگلوں میں نکل کھڑا ہوا۔چلتا چلتا ٹیکسلا کے قریب ہری پور جا پہنچا جہاں کے راجہ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اُس نے اس راجکمار میں راجاؤں والے گُن دیکھ کر حکومت اس کے سپرد کر دی۔ کہا جاتاہے کہ ایک دفعہ راجہ رسالو نے راجہ سرکپ کے کھیل کی خبریں سنیں تو اُس سے مقابلہ کے لیے ٹیکسلا جا پہنچا دونوں میں شرائط طے پائیں کہ ہار کی صورت میں اپنی حکومتیں اور سر جیتنے والے کے حوالے کر دیں گے۔جب کھیل شروع ہوا تو دورانِ کھیل راجہ سرکپ کے زنان خانہ سے ایک عورت بھاگی ہوئی آئی اور راجہ کو بیٹی کی پیدائش کی خبر سنائی۔ مگر راجہ نے بیٹی کا پیدا ہونا بد شگونی سمجھا اور اس عورت کا سر قلم کردیا۔ وہی ہوا جس کا راجہ سرکپ کو ڈر تھا راجہ رسالو کھیل جیت گیا۔ لیکن راجہ رسالو نے کھیل جیتنے کے باوجود راجہ سرکپ کوجان کی امان دے دی اور اس سے عہد لیاکہ وہ ایساکھیل دوبارہ کبھی نہیں کھیلے گا۔ یوں راجہ رسالو سرکپ کے ملک کا بھی حکمران بنا۔ ساتھ ہی اس نے سرکپ کی نومولود بیٹی بھی مانگ لی اور اس بیٹی کو راولپنڈی میں چکری کے قریب ایک قلعہ میں پرورش کی غرض سے بھجوا دیا۔
ایک دن وہ ٹیکسلا کے بازار میں نکلا تو اس نے ایک تندور والی عورت دیکھی جو کبھی روتی اور کبھی ہنستی۔ راجہ نے وجہ دریافت کی تو پتا چلا کہ شہر کے قریب جنگل میں راکشسوں کا ایک ٹولا رہتا ہے جن کی خوراک کے لیے شہر سے ایک نوجوان اور ایک بھینس بھیجی جاتی ہے۔ باری بڑھیا کے بیٹے کی تھی۔جس کی چند دن بعد شادی تھی۔ بڑھیا شادی کا سوچتی تو مسکرا دیتی اورلخت جگر کی موت کا سوچتی تو کُرلا اٹھتی۔
راجہ تھا تو بڑا بہادر اور گنوں والا۔ کہا جاتاتھا کہ اُس کی تلوار خود بخود چلتی تھی اور اس کی کمان سے نکلا ہوا تیر سات
پر توں کے پار ہو جاتا۔ بہادر راجہ بڑھیا کے بیٹے کی جگہ خود راکششوں سے لڑنے نکل کھڑا ہوا۔ جب راکشسوں سے مقابلہ ہوا تو راجہ نے کچھ ہی دیر میں انھیں ڈھیر کر دیا۔ ان راکشسوں میں ایک راکشس لڑکی تھی جو زخمی ہو کر بھاگی اوراٹک کے شمال میں گند گڑھ کے پہاڑی سلسلہ کے ایک غار میں جا چھپی۔ راجہ نے اس غار کو ایک پتھر سے بند کر دیا۔ اس پتھر پر راجہ نے اپنی تصویر بھی کندہ کی تاکہ سند رہے۔ وہ چیخیں جو سینکڑوں سالوں بعد جہانگیر اور انگریزوں نے سنیں اس راکشس لڑکی کی تھی۔
) عبداللہ عباس سولہن، تاریخ سولہن راجپوت )

پاکستان میں تہذیب کا ارتقا کے مصنف سبط حسن لکھتے ہیں:
”ڈھائی سے تین ہزار برس پیشتر یہ جگہ تین اہم تجارتی راستوں کا مقام اتصال تھی۔ ایک راستہ یورپ سے آتا تھا جو موریہ عہد سے آج تک بنگال سے پشاور جانے والی شاہراہ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ دوسرا راستہ مغربی ایشیا سے باختر اور پشکلاوتی (چارسدہ) سے گزرےتا اور دریائے سندھ کو عبور کرتا ٹیکسلا کے مقام پر ختم ہوتا تھا، اور تیسرا راستہ سری نگر، بارہ مولا، اور ہری پور سے ہوتا ہوا ٹیکسلا پہنچ کر دوسرے راستوں سے مل جاتا تھا۔“
وقت کا طلسماتی پہیہ ایسا گھوما کہ اپنے دور کا عروس البلاد کسی ماورائی دھند میں کھو گیا۔ آج وہاں نہ فنکاروں کے بکھرے رنگ دکھائی دیتے ہیں، نہ سنگ تراشوں کے اوزاروں کی کھٹا کھٹ، نہ پائیل کی جھنکار، نہ معابدوں کے جرس کی آ وازیں، نہ منصفین کے فیصلے،نہ سیاست کی چیرہ دستیاں، نہ طلب علموں کے مستقبل کے سہانے خواب، نہ سیاحوں کی حیران نگاہیں۔ آج کوئی ماں اپنے لختِ جگر کا انتظار نہیں کرتی، نہ کوئی بہن اپنے بھائی کی راہ تکتی ہے، نہ کسی کنواری کے من میں اپنے شہزادے کو پانے کی آشاؤں کے پھول کھلتے ہیں۔۔۔۔۔۔آج تو وہاں مدفون تہذیب، علوم و فنون اور سیاست کے پیادوں کی قبریں بھی نہیں۔۔۔ قبریں تو کیا اُن کے نام و نشان بھی نہیں۔۔۔۔۔ آج اگر وہاں کچھ ہے تو وہ ہے چند بوسیدہ اینٹوں کی آہیں، دھول بنے چند راستوں کی چیخیں، کچھ پرانے پیڑوں کا ماتم، ان کہی اور ان سنی داستانوں کے پرت۔۔۔۔پرانے کنووں میں غرق بے گناہ لاشوں کی آہ وبقا۔۔۔
نسل در نسل موجود جھاڑیوں پر گرے بے گناہ لہو کی پکار۔۔لیکن یہ سب بھی دھول میں اٹا ہوا، بولنے والوں کی قوتِ گویائی سے دور،سننے والوں کی قوت سماعت سے پرے اور دیکھنے والوں کی قوت بصارت سے دور۔۔۔۔ فہم کے سیاہ پردوں میں قید۔۔بس کچھ بھی نہیں۔۔۔ شاید کسی کے لیے سبق۔۔۔۔ کسی کے لیے لمحہ فکر۔۔۔کسی کے لیے فطرت کا ردعمل۔۔ کسی کے لیے قدرت کا عذاب۔۔۔۔ کسی کے لیے نظامِ فطرت کی ایک جھلک اور کسی کے کے لیے کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ فقط دھول اور بیچارگی اور کچھ بھی نہیں۔۔۔
شہر سنسان ہے کدھر جائیں
خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں
رات کتنی گزرے گئی لیکن
اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں
یوں تِرے دھیان سے لرزتا ہُوں
جیسے پتّے ہوا سے ڈر جائیں
(ناصر کاظمی)
Post Reply

Return to “نثر”