سفرنامہ پریوں کی تلاش سولہویں قسط

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

سفرنامہ پریوں کی تلاش سولہویں قسط

Post by وارث اقبال »

اگلے دن ہم اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ ہمارے سامنے مارگلہ کے خوب صورت پہاڑ تھے۔ مارگلہ نام کے بارے میں مختلف روایتیں اور حکایتیں ہیں۔ اس کا ایک مطلب تو سانپوں کا گڑھ ہے، یعنی سانپوں کا اکٹھ یا بستی۔ جب کہ دوسرا مطلب مار گلہ سے گلامارنا بھی ہے۔ شاید یہاں کے باسی یا راہ زن یہاں سے گزرنے والے قافلوں سے مال اسباب چھین کر مار دیتے ہوں گے۔
خیر ہمیں نام سے کیا مطلب راہ زن تو راہ زن ہی ہوتا ہے اُ س کا کسی دور سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ ہر دور میں ہوتا ہے کبھی کسی لباس میں، کبھی کسی نام میں اور کبھی کسی مقام پر۔ اُسے نہ مقدس محراب روک سکتے ہیں نہ بلند وبالا عمارتیں، نہ خار دار تاریں، نہ خزائیں نہ بہاریں اور شاید نہ ادوار۔
اسلام آباد کی قدرتی خوب صورتی کے کیا کہنے۔ اونچی نیچی سر سبز و شاداب پہاڑیاں، بل کھاتی کھلی سڑکیں، سڑکوں کے کنارے بنی بلند وبالا عمارتیں، نیلی وردی میں ملبوس سپاہی، اور سپاہیوں کے پیچھے چھپے حکمران۔ سب کچھ بہت خوب صورت ہے۔ فیصل مسجد کے میناروں نے اس شہر کو ایک عجیب تقدس کا جامہ پہنا رکھا ہے۔ اس شہر کو دیکھ کر ایوب خان کی فطرت سے محبت کا ندازہ ہوتا ہے۔ جنہوں نے یہ شہر بناتے ہوئے سوچا ہو گا کہ پاکستان کا دارالحکومت ایساخوب صورت ہو کہ یہاں آنے والے مرعوب ہو جائیں۔۔ ۔۔ پاکستان کتناخوب صورت ملک ہے۔ اغلب امکان ہے کہ اُن کی اپنی چاہ کا بھی بہت ہاتھ ہوگاکیوں کہ اُن کا آبائی گاؤں ریحانہ ہری پور بھی یہاں سے کچھ ہی میل دور تھا۔
ہم ایبٹ آباد کی طرف گامزن تھے لیکن پنڈی اور اسلام آباد کی سڑکیں اور پُل تھے کہ ہماری جان چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ خدا خدا کر کے ہم مارگلا ہلز تک پہنچے۔ ان پہا ڑوں کے دور تک پھیلے ہوئے سلسلے کو دیکھ کر دل توچاہتا تھاکہ ان کی گہرائی اور وسعت ماپنے کے لیے نکل جاؤں لیکن فی الحال اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا ہی بہتر تھا۔ چلتے ہوئے ایک ایساموڑآیا جہاں سے وہ پہاڑ دکھائی دے رہا تھا جہاں مشہور بزرگ امام بری نے عبادت کی تھی۔ نیچے سے تو یہ جگہ محض پہاڑ میں ایک چھوٹی سی اوٹ سی دکھائی دیتی ہے لیکن اندر ایک پوری بستی آباد ہے۔ اس جگہ پہنچنے کے لیے ایک چھوٹی سی پگڈنڈی پرایک عام رفتار میں دو سے ڈھائی گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے۔ کچھ سال پہلے مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ دور سے ساکت اور پُرسکون دکھائی دینے والا پہاڑ اپنے اندر ہر موڑ پر نئی دنیا سمیٹے ہوئے تھا۔ کہیں پگڈنڈی اتنی باریک ہو جاتی تھی کہ پاؤں رکھنا مشکل ہوجاتا اور کہیں پگڈنڈی اتنی کھلی ہو جاتی کہ اونٹوں کاکارواں گزار لو۔ کبھی ایک پاؤں کے نیچے فقط ایک پاؤں کی زمین اور دوسرے پاؤں کے نیچے دل دہلا دینے والی گہری کھائیاں۔ کہیں کھلے میدان تھکن بھلا دیتے اور کہیں گھنے جنگل پرکسی جن کے کالے باغ کا گماں ہوتا۔ کہیں پرندوں کی چہکار سنائی دیتی تو کہیں پھولوں کی مہکار۔ کہیں اچانک کوئی جھرنا سامنے آجاتا اور کہیں کوئی چشمہ۔ کہیں ایسااندھیرا اور خاموشی کہ خوف کے مارے بدن کا لہو خشک ہو جاتا اور کہیں اچانک کسی بستی کا نشان مل جاتا۔ اس راستے پر بندر وں کے کئی گروہوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ بندروں نے کافی مروت اور اپنائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں ہمارا ماضی یاد دلا دیا۔
مارگلہ کے ان جنگلوں میں تمام جانور موجود ہیں لیکن یہاں کا چیتا کافی مشہور ہے۔ کسی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے سب سے زیادہ ڈر اسی کا ہوتا ہے۔ ابھی کسی اوٹ سے نکلے گا اور ہاتھ جوڑ کر کہے گا،
”اے انسان دیس کے باسی بتا تیری کیا خدمت کی جائے یہیں کھا لیا جائے یا کسی سایہ دار درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں لے جاؤں۔“
کہا جاتا ہے کہ شیر تو سامنے آکر حملہ کرتا ہے لیکن یہ چیتا تو ایسا ہے جو درختوں کے کسی جھنڈسے اچانک باہر نکلتا ہے یا کسی چٹان سے اچانک کودتا ہے، شکار کو اٹھاتا ہے اور جنگل میں غائب ہو جاتا ہے۔ دوسرا ڈر سانپوں کا ہوتا ہے کسی درخت کے اوپر سے یا کسی پتھر کے نیچے کہیں سے بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔ جس طرح ہم موسم ِگرما میں پہاڑی علاقے کی سیر کے لیے نکلتے ہیں اسی طرح جنگلی حیات بھی اسی موسم میں باہر نکلتی ہے۔ جس طرح ہمیں اپنی حدود میں کسی اجنبی کا آنا ناگوار گزرتا ہے انھیں بھی ہماری موجودگی کھٹکتی ہے۔ شاید ان کی بہتات کی وجہ سے اس علاقہ کو مارگلہ کانام دیا گیا۔ یعنی سانپوں کی بستی۔ پہاڑی جنگل کے بیچوں بیچ، آبادیوں سے کوسوں دور دو گھنٹے پیدل چلنے کے بعد جب ہم اپنی منزل کے قریب پہنچے تو سینکڑوں بندروں نے ہمارا استقبال کیا۔ یوں لگتا تھا کہ ہم بندروں کی سلطنت میں آگئے ہوں۔ ہر شاخ پر، ہر پتھر پر جس طرف بھی نظر دوڑاتے بندر ہی بندر۔
عبادت گاہ سے پہلے لنگر خانہ کے کمرے اور زائرین کے بیٹھنے کی جگہ آتی ہے۔ یہ اتنی بڑی جگہ تھی کہ یہاں دو تین سو افراد آسانی سے بیٹھ سکتے تھے۔ ہمارے علاوہ کوئی چالیس پچاس کے قریب لوگ وہاں موجود تھے جن میں سے اکثر بندروں کے ساتھ مصروف تھے۔ اصل عبادت گاہ تک جانے کے لیے آگے کا سفر بہت مشکل اور دشوار گزار تھا۔اس راستے پر انسان کے لیے سیدھا چلناناممکن تھا۔ بڑے بڑے ہموار سطح کے حامل پتھروں کے اندر سے اور اوپر سے دائیں بائیں ضرورت کے مطابق جسم کے مختلف زاوئیے بنا تے ہوئے گزرےنا پڑتا تھا۔ میں کچھ ہی دورگیا تھا کہ اُٹھک بیٹھک میں میرے گٹے گوڈے جواب دے گئے۔ چُوں کہ ابھی واپسی کاسفر باقی تھا اس لیے وہیں سے واپس لنگر خانے لوٹ آیا۔ یہاں آ کر زیادہ تر لوگ بندروں سے راہ و رسم بڑھانے میں لگے رہتے ہیں لیکن وہ بھی ایسے ہوشیار اور زیرک ہیں کہ بس اپنا الو سیدھا کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ میرا ایک بھائی اور میرا کزن اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اُن کے بقول غار کے دھانے پر پہنچ کر احساس ہوتا ہے کہ سفر تو اب شروع ہوا ہے۔ غار کے اندر پہنچنے کے لیے مسلسل کئی منٹ تک جھک کر چلنا پڑتا ہے۔ یعنی انسانی جسم کے برابر چوڑی اور اتنی ہی اونچی سرنگ میں چلنا ہوتا ہے۔ اندر کمرا نما کھلی غار ہے جس میں ایک جائے نماز موجود ہے، جا بجا اگر بتیاں اور دیے جلائے گئے ہیں۔ غار کے اندر پتھروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کسی نے ان پتھروں پر تیل مل مل کر انھیں ہموار کر دیا تھا۔ ان پتھروں پر جا بجا سانپوں اور مختلف جانوروں کی شبیہیں اُبھری ہوئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب امام بری یہاں عبادت کر رہے ہوتے تھے تو مختلف جانور انھیں تنگ کرتے۔ امام بری غصے میں آکر انھیں پتھر کا بنا دیتے۔ بعض بتاتے ہیں کہ جب جن اور چڑیلیں انھیں تنگ کرتیں توامام بری انھیں پتھر کا بنادیتے۔ ان پہاڑوں کے اندر کیا کیا داستانیں موجود ہیں اُن تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ان پہاڑوں کی گہرائی میں اترنا پڑتا ہے۔ مجھے ایک دفعہ مری اور ایوبیہ کے راستے میں ایک گاؤں میں ایک ہفتہ رہنے کا موقع ملا۔ وہاں بھی میں نے ایسی بہت سی روایتیں اور حکایتیں سنیں۔ ایک بزرگ نے مجھے ایک پہاڑی سلسلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حکم دیا۔”وہ سامنے دیکھو ایک پوری بارات ہے جو پتھر کی بنی ہوئی ہے۔ وہ سامنے ڈولی ہے اور وہ سامنے باراتی ہیں۔ انھیں ایک گناہ کی پاداش میں یہ سزا ملی۔“ ایک لڑکے نے مجھے ایک گول دائرے کی صورت کی ایک جگہ دکھائی۔ لگتا تھا کہ کسی نے سیمنٹ لگا کر کوئی گٹر بند کیا ہو۔ اصل میں یہ گولائی میں کٹا ایک پتھر تھا۔ جسے زمین میں پیوست کیا گیا تھا۔ گو ل دا ئرے پر گھاس کا نشان تک نہ تھا جب کہ دائرے کے ارد گرد بڑا بڑا گھاس موجود تھا۔ بتانے والوں نے بتایا کہ اس جگہ خزانہ ہے جس پر ایک ناگ کا راج ہے اسی کے زہر کی وجہ سے یہاں سبزہ نہیں اُگتا۔ انگریز تک نے یہ خزانہ نکالنے کی کوشش کی لیکن نہ نکال سکے۔ اسی جنگل کے اندرایک ایسی خانقاہ کے بارے میں بھی بتایا گیا جہاں ہر جمعرات کو ایک شیر سلام کے لیے آتاہے۔ بے شک اللہ ہی مالکِ کائنات ا ور سب سے عظیم صاحبِ علم ہے۔۔ بہت سی سوچیں اور کہانیاں ہم سفر تھیں اور ہم گامزن تھے گندھارا تہذیب کے نگر کی طرف۔
کہانی سننے والے جو بھی ہیں وہ خود کہانی ہیں
کہانی کہنے والا اک کہانی کی کہانی ہے
پیا پے یہ گزارش یہ گماں اور یہ گلے کیسے
صلہ سوزی تو میرا فن ہے پھر اس کے صلے کیسے
(جون ایلیا)
Post Reply

Return to “نثر”