میڈم

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
انور جمال انور
کارکن
کارکن
Posts: 119
Joined: Wed Sep 26, 2012 12:08 am
جنس:: مرد

میڈم

Post by انور جمال انور »

۔۔۔۔۔۔ میڈم ۔۔۔۔۔۔

کسی اداکارہ پر ڈائریکٹر کا دل آ بھی جائے تو وہ ظاہر نہیں ہونے دیتا فرعون کا فرعون ہی بنا رہتا ہے اور پروڈیوسر جس کے لاکھوں روپے لگے ہوتے ہیں ۔۔۔
وہ تو کسی خونخوار بھیڑیے کی طرح سب کو دانت نکوس نکوس کر دیکھ رہا ہوتا ہے ۔۔۔ باقی میرے جیسے اسسٹنٹ اور کیمرہ مین وغیرہ جو بچتے ہیں تو ان بیچاروں کو سننے والا کوئی نہیں ہوتا لہذا صبر کا گھونٹ وہ خود بھی پیتے ہیں اور اداکارہ کو بھی نظریں بھر بھر کر تسلیاں دیتے رہتے ہیں ۔
عالیہ کا کردار ادا کرنے والی کو بار بار خفت کا سامنا کرنا پڑتا مگر پھر بھی وہ اپنی غیر سنجیدگی ترک کرنے کو تیار نہ تھی دراصل اس کا مزاج ہی ایسا تھا وہ کہتی تھی اگر میں ہنسوں گی نہیں تو مر جاؤں گی ۔
جان بوجھ کر جملے غلط بولتی اور ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگتی یہاں تک کہ ہماری اپنی ہنسی چھوٹ جاتی
ایک بار ڈائیلاگ ڈیلیوری کے دوران اسے ڈکار آ گئی اور منہ سے عجیب آواز نکلی جسے سن کر پہلی بار ڈائریکٹر صاحب بھی ہنس پڑے اور ہنستے ہنستے باہر بالکونی میں چلے گئے ۔
۔۔ بڑی کمپنی عورت ہو تم ۔۔ جاتے جاتے یہ بھی کہہ گئے مگر غصے سے نہیں پیار سے ۔

میں نے اندازہ لگایا کہ اس کے لبوں کی بے ساختہ ہنسی کمسنی کی سبب ہے اور کچھ نہیں ۔۔ میں نے اندازہ لگایا کہ لاابالی پن ٫ چلبلاہٹ ٫ طبیعت میں شوخی اور شرارت چڑھتی جوانی کے استعارے ہیں ۔۔ میں نے اندازہ لگایا کہ ابھی دنیاکا کوئی غم اسے چھو کر نہیں گزرا ٫ کسی نے اس کے ساتھ دھوکا نہیں کیا , کسی دکھ نے اسے سنجیدہ ہونے پر مجبور نہیں کیا کسی محرومی نے ابھی تک اس پر اپنی پرچھائیں نہیں ڈالی ۔۔۔

مگر ایک دن جب اس کے کردار کی کہانی دسویں قسط تک پہنچی جس میں اس کا یہ غم دکھانا تھا کہ نہ صرف وہ شادی شدہ ہے بلکہ اس کے دو بچے بھی ہیں جنہیں وہ گھر میں بند کر کے نوکری پہ آجاتی ہے تاکہ انہیں پال سکے ۔ رات کو گھر جاتی ہے تو بچے سو چکے ہوتے ہیں صبح جب وہ دوبارا گھر سے روانہ ہونے لگتی ہے تو بچے دروازے تک اس کا پیچھا کر کے اسے چھوڑ کر نہ جانے کے لیے کہتے ہیں مگر وہ کٹھور دل کے ساتھ انہیں جھڑک کر چلی جاتی ہے ۔ بعد میں راستے بھر اس کے آنسو نہیں رکتے ۔

اس چنچل اداکارہ نے جب یہ سین مکمل کر کے دیا تو ہمارے آنسو نہیں رک رہے تھے .اور وہ خود اس بری طرح روئی جیسے واقعی رو رہی ہو ۔۔

میں اس مذکورہ ڈرامے کا اسسٹنٹ رائٹر تھا ، ڈرامے کا یہ حصہ میرے ہی کہنے پر شوٹ کیا گیا ، اس کے پیچھے بھی ایک کہانی تھی ۔
میں ڈیفنس کے جس فلیٹ میں میڈم کے ساتھ رہ رہا تھا اس کے بالکل سامنے والے فلیٹ میں اسی طرح کے دو بچے رہتے تھے ۔اسکرپٹ لکھنے کے دوران کھڑکی کے راستے میری نظر ان پر پڑتی رہتی تھی ، وہ اسکول سے آکر کھانا کھاتے ، ہوم ورک کرتے پھر کمپیوٹر میں گیم وغیرہ کھیلتے ، جب سب چیزوں سے دل بھر جاتا تو شاید انہیں ماں باپ کی یاد ستانے لگتی ۔۔ وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے آ لگتے اور گھنٹوں نیچے سڑک پر گزرنے والے لوگوں کو دیکھتے یا مجھے دیکھنے لگتے ۔۔۔

کیا سوچتے ہوں گے میرے بارے میں ، ،؟ شاید یہ کہ یہ بھی کوئی ہماری طرح کا تنہا شخص ہے جو ہر وقت کسی نہ کسی کاغذ پر سر جھکائے کچھ نہ کچھ لکھتا ہی رہتا ہے ۔
لڑکے کی نسبت لڑکی مجھے زیادہ تکتی تھی
وہ شاید بارہ سال کی تھی یا دس سال کی یا آٹھ کی ، مجھے نہیں پتہ ، مجھے لوگوں کی عمروں کا اندازہ نہیں ہوتا
جب میں لکھتے لکھتے کچھ سوچنے لگتا تو کھڑکی سے باہر میری نظریں خلاؤں میں گھورنے لگتیں لیکن سامنے والوں کو لگتا میں انہیں گھور رہا ہوں ۔
بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی آیا کو جب بھی موقع ملتا وہ شیشے کے آگے پردے گرا دیتی اور یوں ان کے کمرے کا سارا منظر اوجھل ہو جاتا ۔مگر زیادہ دیر نہیں گزرتی تھی جب لڑکی دوبارا پردے اٹھا دیتی اور نیچے گلی میں جھانک کر آتے جاتے لوگوں کو دیکھ کر مطمئن ہو جاتی کہ وہ کسی قید خانے میں نہیں ہے ، ایک رابطے والی کھڑکی نے اسے باہر کی دنیا سے جوڑ رکھا ہے ۔

لڑکا جو شاید چھ سال کا تھا بہت ضدی اور لڑاکا تھا کبھی کبھی اپنی بڑی بہن پر بھی ہاتھ اٹھا دیتا یا اسے دھکا دے دیتا اور آیا سے تو اسے اللہ واسطے کا بیر تھا ۔ جو چیز ہاتھ لگتی اٹھا کر آیا کے منہ پر دے مارتا ۔بہن اسے روکتی رہ جاتی ،کبھی کبھی منہ پر تھپڑ بھی جڑ دیتی جسے کھا کر عجیب سی نظروں سے وہ بہن کو گھورتا پھر رندھے گلے کے ساتھ اپنی شکل بگاڑ کر چیختا ،'' امی کو آنے دو پھر بتاؤں گا '' اور اس کے بعد باقاعدہ منہ چھپا کر زور زور سے رونے لگتا ۔
اس کی آنکھوں کا جھرنا دیکھ کر بہن اسے چپ کرانے کی کوشش کرتی یا گلے سے لگانے لگتی مگر وہ اسے دھکا دے دیتا اور روئے چلا جاتا ۔۔
پھر وہ لڑکی جب مدد طلب نظروں سے میری طرف دیکھتی تو اس کی اپنی آنکھوں میں آنسو تیرتے نظر آتے ۔۔ ٹھیک اسی وقت میں اپنی کھڑکی کا پردہ گرا دیا کرتا ۔۔ میرے جیسے حساس دل کے لیے ممکن ہی نہیں تھا کہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکوں ۔۔

ایسے ہی ایک سین کے دوران میڈم کمرے میں آگئیں ۔۔۔ جانے کتنی دیر مجھے غور سے دیکھا میں تو ان بچوں کے غم میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔ پوچھنے لگیں '' کیا ہوا ہے تم کو عدنان '' ؟
کچھ نہیں میڈم '' جلدی سے اپنے آپ کو بحال کرنے لگا
میڈم واپس چلی گئیں کہا ایک کپ چائے بنا کر لاؤں ۔ میں اٹھ کر کچن میں چلا گیا ۔۔ الیکٹرک کیتلی میں ان کے لیے چائے تیار کی کپ لے کر ہشاش بشاش ان کے کمرے میں پہنچا مگر میری یہ اداکاری دھری کی دھری رہ گئی ۔ میڈم چائے پیتے ہوئے ہمدردی جتانے لگیں '' تم ایسا کرو کچھ دنوں کے لیے گھر چلے جاؤ ، تمہیں چھٹی کی ضرورت ہے جو کہ ہر انسان کو ہوتی ہے ''

نہیں نہیں میڈم ۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں، میں ٹھیک ہوں ، آج رات مجھے وہ قسط بھی لکھنی ہے جس میں سائرہ بھاگ کے شادی کر لیتی ہے ۔

بھاگ کے شادی کیا ہوتی ہے ؟ میڈم خفا ہو گئیں ،، یہ کیوں نہیں کہتے کہ سائرہ اپنی پسند سے شادی کر رہی ہے ۔
جی میڈم ۔۔ مختصر جواب
ایک توقف کے بعد میڈم کی ہمدردی پھر جاگ گئی ،، یہ قسط میں لکھ دوں گی ، تم گھر جاؤ آرام کرو ، اپنے بیوی بچوں سے ملو ۔۔
جی میڈم ۔۔۔

میں اپنے کمرے میں واپس آگیا مگر کافی دیر بعد بھی رخت سفر نہ باندھ سکا جانتا تھا میڈم آج والے ایپی سوڈ کو لکھ تو دیں گی مگر انہیں بہت زیادہ دقت پیش آئے گی ، تمام سیاق و سباق کو دیکھنا پڑے گا ڈرامے سے متعلق وہ چھوٹے چھوٹے نوٹس بھی پڑھنے ہوں گے جو میں اپنی یاد دہانی کے لیے لکھتا رہتا ہوں ۔۔ خیر یہ ٹیکنکل باتیں ہیں جو آپ نہیں سمجھ پائیں گے ۔ آگے چلتے ہیں ۔

میڈم کے حکم پر میں اپنے بیوی بچوں سے ملنے گھر آگیا ۔
کیا اپنے بچوں سے مل پاؤں گا ؟ ایک خالی گھر سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ یہاں تو شیشے کی وہ کھڑکی بھی نہیں تھی جہاں سے میں ان دو بچوں پر نظر ڈال سکتا جن کی ماں صبح سویرے ہی نوکری پر نکل جاتی اور رات کو پتہ نہیں کب آتی تھی ، باپ کا کچھ اتا پتا نہیں تھا ۔ یا تو وہ انتقال کر گیا تھا یا انہیں چھوڑ کر چلا گیا تھا ۔
اب میری ان دونوں سے دوستی ہو گئی تھی جس کی ابتدا لڑکے نے کی تھی ،، ایک دن وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر منہ چڑانے لگا ۔ بس پھر کیا تھا میں نے بھی الٹی سیدھی شکل بنا کر خوب خوب منہ چڑایا ۔ لڑکی یہ منظر دیکھ کر خوب ہنسی پھر اپنے بھائی کو کھینچ کر لے گئی جو مسلسل میرے مقابلے پر ڈٹا ہوا تھا ۔۔
پھر اس طرح کے مقابلے اکثر ہونے لگے ۔
اس طرح کم سے کم ہم تینوں خوش تو ہو جاتے تھے ۔
لڑکی اشارے سے پوچھتی کہ میں کیا لکھتا رہتا ہوں مگر میرے سمجھانے پر اسے سمجھ نہ آتی شاید میرے اشاروں میں جان نہیں تھی ۔۔ کبھی کبھی وہ کہتی '' بس کریں ، کتنا لکھیں گے ، اب آرام کرلیں ( اشاروں میں )
میں کہتا ،، ایسا ممکن نہیں میری گڑیا رانی ۔ کبھی وہ نیچے گلی کی طرف توجہ دلاتی '' وہاں دیکھیں کیا ہو رہا ہے '' میں دیکھتا کہ دو نوجوان آپس میں کسی بات پر جھگڑ رہے ہیں ۔۔
میں محسوس کرنے لگا کہ وہ اتنی چھوٹی سی بچی میری فکر کر رہی ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ میں اتنا زیادہ کام نہ کیا کروں ، تھوڑا بہت باہر بھی جایا کروں کہیں چائے وائے پینے یا اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنے ، خود کو کمرے میں اس طرح بند نہ رکھا کروں ۔

اف یہ لڑکیاں دوسروں کا اتنا خیال کیوں کرتی ہیں چھوٹی سی عمر سے ہی
وہ بہن کے روپ میں چھوٹے بھائی کی ایسے کئیر کر رہی تھی جیسے ماں ہو ، میری طرف دیکھتی تو بیٹی کا روپ دھار لیتی اور مجھ میں اپنے کھوئے ہوئے باپ کو تلاش کر کے کف افسوس ملتی کہ کاش اس شخص کی کوئی خدمت کر سکتی مگر اتنی دور سے کیسے کرے ۔۔ تاہم اس کی آنکھوں میں ایک بیٹی کا سارا پیار امڈ آتا اور وہ میری طرف اپنی پیاری سی مسکراہٹ پھینک دیتی جسے پا کر میں وقتی طور پر اپنے بچوں کو بھول جاتا ۔ میری بیوی ناراض ہو کر میکے گئی ہوئی تھی ، امید کرتا ہوں کہ ایک دن وہ واپس آ جائے گی ۔خیر یہ ایک دوسری کہانی ہے اور ایک تیسری کہانی میڈم کی ہے جو اس شوٹ کیے جانے والے ڈرامے کی اصل رائٹر ہے ۔
یہ دو کہانیاں بعد میں کبھی لکھوں گا ۔۔

اللہ اللہ کر کے جب یہ ڈرامہ شوٹ ہو کر اپنے اختتام کو پہنچا تو میں بھی فارغ ہو کر گھر آگیا ۔۔
کئی ہفتے بعد جب یونہی ایک دن میڈم سے ملنے گیا تھا تو واپسی پر سوچا ایک نظر اور ان بچوں کو دیکھ لوں پھر پتہ نہیں کب یہاں دوبارا آنا ہو ۔۔
میڈم سے اجازت لے کر جب میں اس کمرے میں آیا اور شیشے کی کھڑکی سے پردہ اٹھایا تو حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات نے میری سانسیں روک لیں ۔ دونوں بچے اپنی ماں کے ساتھ کھیل کود رہے تھے ، مسکرا رہے تھے ، ہنس رہے تھے ، ماں سے لپٹ لپٹ جارہے تھے اور پتہ ہے ان کی ماں کون تھی ؟؟؟
وہی ہماری چنچل اداکارا عالیہ ۔۔۔

____________________

انور جمال انور
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”