اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر80)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر80)
دمشق کی جامع مسجد میں نمازِ عصر ادا کرنے کے بعد محمدبن قاسم اور زبیر قصرِ خلافت میں داخل ہوئے۔خلیفہ ولید کے دربان نے ان کی آمد کی اطلاع پاتے ہی انھیں اندر بلالیا۔ولید بن عبدالملک نے یکے بعد دیگرے ان دونوں کو سر سے پاوں تک دیکھا اور پوچھا۔”تم میں سے محمد بن قاسم کون ہے؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔” میں ہوں۔“
حاضرینِ دربار جن کی نگاہیں زبیر پر مرکوز ہوچکی تھیں، حیرت زدہ ہوکر محمد بن قاسم کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کی خاموش نگاہیں آپس میں سرگوشیاں کرنے لگیں۔حجاج بن یوسف کے گزشتہ مکتوب سے ولید کو معلوم ہوچکا تھا کہ محمد بن قاسم بالکل نوجوان ہے لیکن اس کے باوجود وہ بھی درباریوں کی طرح زبیر ہی کو حجاج بن یوسف کا ہونہار بھتیجا سمجھ رہا تھا۔ اور سولہ سترہ سالہ نوجوان کو قتیبہ کے لشکر کے ہراول کا سالار اعلی تسلیم کرنے کے لیے تیار نا تھا۔
آنکھوں کو اشاروں کے ساتھ اہلِ دربار کی زبانیں بھی ہلنے لگیں اور ولید نے اچانک یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اس کے خاندان کے سب سے بڑے محسن حجاج بن یوسف کے متعلق کچھ کہا جارہا ہے، مسند سے اٹھ کر محمد اور زبیر سے مصافحہ کیا اور انھیں اپنے قریب بٹھاتے ہوئے کہا۔” وہ مجاہد جس کے متعلق حجاج بن یوسف جیسا مردم شناس اور قتیبہ بن مسلم جیسا سپہ سالار اس قدر بلند رائے رکھتے ہوں، میرے لیے یقیناً قابلِ احترام ہے۔“ پھر اس نے محمد بن قاسم سے مخاطب ہوکر پوچھا۔”اور یہ تمہارا بڑا بھائی ہے؟“
”نہیں امیرالمومنین، یہ زبیر ہے۔“
ولید نے زبیر کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔”میں نے شاید پہلے بھی تمہیں کہیں دیکھا ہے۔شاید تم سراندیپ کے ایلچی کے ساتھ گئے تھے۔تم کب آئے اور وہ بچے کہاں ہیں؟“
خلیفہ کی طرح حاضرینِ دربار کی توجہ بھی زبیر پر مرکوز ہوگئی اور بعض نے اسے پہچان لیا۔زبیر کا تذبذب دیکھ کر محمد بن قاسم نے جلدی سے حجاج بن یوسف کا خط پیش کرتے ہوئے کہا۔”امیرالمومنین! ہم ایک نہایت ضروری پیغام لےکر آئے ہیں۔آپ ملاحظہ فرمالیں۔۔۔۔۔۔۔۔“ ولید نے خط کھول کر پڑھا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد حاضرینِ دربار سے مخاطب ہوکر کہا۔”سندھ کے راجہ نے ہمارا جہاز لوٹ لیا ہے۔سراندیپ سے آنے والی بیواوں اور یتیم بچوں کو قید کرلیا ہے۔زبیر تم اپنی تمام سرگزشت خود سناو!“
زبیر نے شروع سے لے کر آخر تک تمام واقعات بیان کیے لیکن دربار میں جوش و خروش کی بجائے مایوسی کے آثار پاکر اختتام پر اس کی آواز بیٹھ گئی اور اس نے جیب سے رومال نکال کر خلیفہ کو پیش کرتے ہوئے کہا۔”ابوالحسن کی بیٹی نے یہ خط والی بصرہ کے نام لکھا تھا۔“
حجاج بن یوسف کی طرح ولید بھی یہ خط پڑھ کر بےحد متاثر ہوا۔اس نے اہلِ دربار کو سنانے کے لیے خط کو دوسری بار بلند آواز میں پڑھنے کی کوشش کی لیکن چند فقرے پڑھنے کے بعد اس کی آواز رک گئی۔اس نے مکتوب محمد بن قاسم کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔”تم پڑھ کر سنادو!“
محمد بن قاسم نے سارا خط پڑھ کر سنادیا۔مجلس کا رنگ بدل چکا تھا۔حاضرین میں سے اکثر کے چہرے ظاہر کررہے تھے کہ جذبات کا طوفان عقل کی مصلحتوں کو مغلوب کرچکا ہے لیکن ولید کو خاموش دیکھ کر سب کی زبانیں گنگ تھیں۔شہر کا عمر رسید قاضی دیر تک اس خاموشی کو برداشت ناکرسکا۔ اس نے کہا۔”امیرالمومنین! اب آپ کو کس بات کا انتظار ہے۔یہ سوچنے کا موقع نہیں۔پانی سر سے گزرچکا ہے۔“
ولید نے پوچھا۔”آپ کی کیا رائے ہے؟“
قاضی نے جواب دیا۔”امیرالمومنین! فرض کے معاملے میں رائے سے کام نہیں لیا جاتا۔رائے صرف اس وقت کام دے سکتی ہے جب سامنے دو راستے ہوں لیکن ہمارے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے۔“
ولید نے کہا۔”میں آپ سب کی رائے پوچھتا ہوں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر81)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر81)
ایک عہدیدار نے کہا۔”ہم میں سے کوئی بھی اولٹے پاوں چلنا نہیں جانتا۔“
ولید نے کہا۔”لیکن ہمارے پاس افواج کہاں ہیں؟ موسی کا پیغام آچکا ہے کہ وہ اندلس پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔دوسری طرف ترکستان میں عراق کی تمام افواج کو قتیبہ اپنے لیے کافی نہیں سمجھتا۔ ہمیں نیا محاذ کھولنے کے لیے یا تو ان میں سے ایک محاز کمزور کرنا پڑے گا یا اور کچھ مدت انتظار کرنا پڑے گا۔“
قاضی نے جواب دیا۔”امیرالمومنین! یہ خط سننے کے بعد ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو انتظار کا مشورہ دے گا۔اگر آپ یہ معاملہ عوام کے سامنے پیش کریں، تو مجھے یقین ہے کہ سندھ کی مہم کے لیے ترکستان یا افریقہ سے افواج منگوانے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔“
ولید نے کہا۔”اگر آپ عوام کو جہاد کے لیے آمادہ کرنے کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہیں تو میں بھی اعلانِ جہاد کرنے کے لیے تیار ہوں۔“
قاضی تذبذب سا ہوکر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھنے لگا۔
ولید نے کہا۔”میں عوام سے مایوس نہیں۔مجھے صرف یہ شکایت ہے کہ ہمارا اہلِ الرائے طبقہ خودغرض اور خودپسند ہوچکا ہے۔آپ جانتے ہیں جب موسی بن نصیر نے افریقہ میں پیش قدمی کی تھی تو اونچے طبقے کے کئی آدمیوں نے ہماری مخالفت کی تھی۔جب قتیبہ نے مرو پر حملہ کیا تھا تو میرے اپنے ہی بھائی سلیمان نے مخالفت کی تھی۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بااثر طبقے میں جو لوگ کچھ مخلص ہیں، وہ اہل اور تن آسان ہیں اور گھروں میں بیٹھے روئے زمین پر غلبہ اسلام کے لیے اپنی نیک دعاوں کو کافی سمجھتے ہیں۔اگر آپ سب عوام تک پہنچنے کی کوشش کریں تو چند دنوں میں ایک ایسی فوج تیار ہوسکتی ہے جو نہ صرف سندھ بلکہ تمام دنیا کی تسخیر کے لیے کافی ہو لیکن برا نا مانیں، آپ تھوڑی دیر کے لیے متاثر ہوئے ہیں اور ایک یا دودن عوام کو بلکہ اپنے جیسے اونچے طبقوں کے بےعمل لوگوں کو یہ خبر سنانے میں ایک لزت محسوس کریں گے۔سندھ کے ظالم راجہ کو برا بھلا کہیں گے اور اس کے بعد بنی اسرائیل کی طرح دنیا اور عاقبت کا بوجھ خدا کے سر تھوپ کر آرام سے بیٹھ جائیں گے لیکن اگر آپ ہمت کریں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ عامتہ المسلمین ابھی تک زندہ ہیں۔اگر آپ اونچے طبقے کی تفریحی مجالس کی بجائے دمشق کے ہر گھر میں جانا، عوام میں بیٹھنا اور ان سے باتیں کرنا گوارا کریں تو سندھ کے اسیر جو قیدخانے کی دیواروں سے کان لگائے کھڑے ہیں۔ بہت جلد جلد ہمارے گھوڑوں کی ٹاپ سن سکیں گے اور خدا اس لڑکی کو صحت اور زندگی دے، وہ اپنی آنکھوں سے دیکھے گی کہ ہماری تلواریں کند نہیں ہوئیں۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”اگر امیر المومنین مجھے اجازت دیں تو میں یہ ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہوں۔“
ولید نے کہا۔”تمہیں میری اجازت کی ضرورت نہیں۔“
محمد بن قاسم کے بعد دربار کے ہر عہدے دار نے ولید کو نئی فوج بھرتے کرنے کا یقین دلایا اور یہ مجلس برخاست ہوئی۔
عشاء کی نماز کے بعد محمد بن قاسم اور زبیر آپس میں باتیں کررہے تھے۔ایک ایلچی نے آکر یہ پیغام دیا کہ امیرالمومنین محمد بن قاسم کو بلاتے ہیں۔ محمد بن قاسم سپاہی کے ساتھ چلا گیا اور زبیر اپنے بستر پر لیٹ کر کچھ دیر اس کا انتظار کرنے کے بعد اونگھتے اونگھتے سپنوں کی حسین وادی میں کھوگیا۔دمشق سے کوسوں دور وہ ناہید کی تلاش میں سندھ کے شہروں میں بھٹک رہا تھا۔قلعوں کی فصیلوں اور قیدخانوں کے دروازے توڑ رہا تھا۔قیدیوں کی آہنی بیڑیاں کھول رہا تھا۔ناہید کی سیاہ اور چمک دار آنکھوں کے آنسو پونچھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔”ناہید! میں آگیا ہوں۔تم آزاد ہو۔ تمہارا زخم کیسا ہے؟ دیکھو برہمن آباد کے قلعے پر ہمارا جھنڈا لہرا رہا تھا۔“
اور وہ کہہ رہی تھی۔”زبیر! میں اچھی ہوں۔ لیکن تم دیر سے آئے، میں مایوس ہوچکی تھی۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر82)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر82)
میٹھے اور سہانے سپنے کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ انتہائی بےکسی کی حالت میں پابہ زنجیر کھڑا ہوں۔ راجہ کے چند سپاہی ننگی تلواریں اٹھائے اس کے چاروں طرف کھڑے اور باقی ناہید کو پکڑ کر قید خانے کی طرف لے جارہے ہیں اور وہ مڑمڑ کر ملتجی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتی ہے۔ناہید کے پاوں اندر رکھتے ہی قید خانے کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور وہ سخت جدوجہد کے بعد اپنے ہاتھوں اور پاوں کی زنجیریں توڑ کر سپاہیوں کو دھکیلتا، مارتا اور گراتا ہوا قید خانے دروازے تک پہنچتا ہے اور اسے کھولنے کی جدوجہد کرتا ہے۔
زبیر نے”ناہید! ناہید!“ کہتے ہوئے آنکھیں کھولیں اور سامنے محمد بن قاسم کو کھڑا دیکھ کر پھر بند کرلیں۔
محمد بن قاسم اسے خواب کی حالت میں ہاتھ پاوں مارتے اور ناہید کا نام لیتے ہوئے سن چکا تھا۔تاہم اس نے اسے گفتگو کا موضوع بنانا مناسب نا سمجھا اور چپکے سے اپنے بستر پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد زبیر نے دوبارا آنکھیں کھولیں اور کہا۔”آپ آگئے؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”ہاں! میں آگیا ہوں۔“ اور پھر کچھ سوچ کر پوچھا۔”آپ نیزہ بازی اور تیغ زنی میں کیسے ہیں؟“
زبیر نے جواب دیا۔”میں نے بچپن میں جو کھلونا پسند کیا تھا، وہ کمان تھی اور جب گھوڑے کی رکاب میں پاوں رکھنے کے قابل ہوا۔میں نے نیزے سے زیادہ کسی اور چیز کو پسند نہیں کیا۔رہی تلوار، اس کے متعلق کسی عرب سے یہ سوال کرنا کہ تم اس کا استعمال جانتے ہو یا نہیں؟ اس کے عرب ہونے میں شک کرنے کے مترادف ہے۔آپ یقین رکھیے! میری تربیت آپ کے ماحول سے مختلف ماحول میں نہیں ہوئی۔
محمد بن قاسم نے کہا۔”کل میرا اور آپ کا امتحان ہے۔امیرالمومنین نے مجھے اسی لیے بلایا تھا۔ان کی خواہش ہے کہ ہم دونوں فنونِ حرب کی نمائش میں حصہ لیں، اگر ہم مقابلے میں دوسروں سے سبقت لے گئے تو دمشق کے لوگوں پر بہت اچھا اثر پڑے گا اور ہمیں جہاد کے لیے تبلیغ کا موقع مل جائے گا۔
زبیر نے کہا۔”امیرالمومنین کا خیال درست ہے۔خدا نے ہمارے لیے یہ اچھا موقع پیدا کیا ہے لیکن میں آپ کو یہ بتادینا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ صالح اور سلیمان کے متعلق غلط اندازا نا لگائیں۔راستے میں آپ کے ہاتھ اس کا مات کھا جانا ایک اتفاق کی بات تھی۔وہ دونوں نیزہ بازی میں اپنی کمال نہیں رکھتے۔تاہم میں تیار ہوں۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”ہمیں اپنی بڑائی مقصود نہیں۔ہم ایک اچھے مقصد کے لیے نمائش میں حصہ لیں گے۔خدا ہماری مدد ضرور کرے گا۔امیرالمومنین نے کہا ہے کہ وہ ہمیں اپنے بہترین گھوڑے دیں گے۔“

سلیمان بن عبدالملک نے ایک قدآدم آئینہ کے سامنے کھڑے ہوکر زرہ پہنی اور خود سرپر رکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”کیوں صالح! میں عام لباس میں اچھا معلوم ہوتا ہوں یا سپاہیانہ لباس میں؟“
صالح نے جواب دیا۔”خدا نے آپ کو ایک ایسی صورت دی ہے جو ہر لباس میں اچھی لگتی ہے۔“
سلیمان آئینے کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور پھر کچھ سوچ کر بولا۔”مجھے اس لڑکے کی صورت پر رشک آگیا تھا۔وہ نمائش دیکھنے ضرور آئے گا۔اگر تم میں سے کسی کو مل جائے تو اسے میرے پاس لے آو۔وہ ایک ہونہار سپاہی ہے اور میں اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔“
صالح نے ایسا محسوس کیا کہ سلیمان اس کی دکھتی رگ پر نشتر چبھو رہا ہے۔وہ بولا۔”آپ مجھے زیادہ شرمندہ نا کریں۔اس وقت تلوار پر میرے ہاتھ کی گرفت مضبوط نا تھی اور یہ بات میرے وہم میں بھی نا تھی کہ وہ میری لاپرواہی کا فائدہ اٹھائے گا۔“
سلیمان نے کہا۔”اپنے مدِمقابل کو کمزور سمجھنے والا سپاہی ہمیشہ مات کھاتا ہے۔خیر یہ تمہارے لیے اچھا سبق ہے۔اچھا یہ بتاو! آج ہمارے مقابلے میں کوئی آئے گا یا نہیں؟“
صالح نے جواب دیا۔”مجھے یہ توقع نہیں کہ کوئی آپ کے مقابلے کی جرات کرے گا۔گزشتہ سال نیزہ بازی میں تمام نامور سپاہی آپ کے کمال کا اعتراف کرچکے تھے۔“
”لیکن امیرالمومنین مجھ سے خوش نا تھے۔“
”اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ ان کے بھائی ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ آپ کی ناموری اور شہرت ان کی بیٹے کی ولی عہدی کے راستے میں رکاوٹ ہوگی۔لیکن لوگوں کے دلوں میں جو جگہ آپ پیدا کرچکے ہیں وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہوسکتی۔“
سلیمان نے کہا۔”لیکن میری راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حجاج بن یوسف ہے۔وہ عراق پر اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے اس بات کی کوشش میں ہے کہ میرے بھائی کے بعد میرا بھتیجا مسندِ خلافت پر بیٹھے۔“
صالح نے کہا۔”خدا میرے بھائی کے قاتل کو غارت کرے۔مجھے یقین ہے کہ اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوگی۔لوگوں کے دلوں پر اثر ڈالنے کے لیے جو خوبیاں آپ میں ہیں، وہ نا آپ کے بھائی میں ہیں نہ کسی اور میں۔آپ گزشتہ سال فنونِ حرب کی نمائش میں نام پیدا کرکے اپنا راستہ صاف کرچکے ہیں۔رائے عامہ خلافت کے معاملے میں آپ کی حق تلفی گوارا نا کرے گی۔“
ایک غلام نے آکر اطلاع دی کہ گھوڑے تیار ہیں اور صالح نے کہا۔”ہمیں چلنا چاہیے۔نمائش شروع ہونے والی ہے۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر83)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر83)
____سپاہی اور شہزادہ____
زمانہ جاہلیت میں بھی عرب تیراندازی، شمشیرزنی اور شہسواری میں غیرمعمولی مہارت حاصل کرنا اپنی زندگی کا اہم ترین فریضہ سمجھتے تھے۔سرداری، عزت، شہرت اور ناموری کا سب سے بڑا معیار یہی تھا۔صحرا نشینوں کی محفل میں سب سے بڑا شاعر اسے تسلیم کیا جاتا تھا جو تیروں کی سنسناہٹ اور تلواروں کی جھنکار کا بہترین تصور پیش کرسکتا ہو۔جسے اپنے صبارفتار گھوڑوں کے سموں کی آواز کسی صحرائی دوشیزہ کے قہقہوں سے زیادہ متاثر کرتی ہو، جس کے لیے دور سے محبوبہ کے محمل اور گردوغبار میں اٹے ہوئے شاہسوار کی جھلک یکساں طور پر جاذبِ نگاہ ہو۔
اسلام نے عربوں کی انفرادی شجاعت کو صالحین کی ناقابلِ تسخیر قوت میں تبدیل کردیا۔روم و ایران کی جنگوں کے ساتھ ساتھ عربوں کی فنونِ عرب میں اضافہ ہوتا گیا۔خالد(رضی اللہ عنہ)اعظم کے زمانے میں صف بندی اور نقل و حرکت کے پرانے طریقوں میں کئی تبدیلیاں ہوئیں۔عربوں میں زرہ پہننے کا رواج پہلے بھی تھا لیکن روم کی جنگوں کے دوران زرہیں اور خود سپاہیانہ لباس کے اہم ترین جزبن گئے۔
قلعہ بند شہروں کے طویل محاصروں کےدوران کسی ایسے آلے کی ضرورت محسوس کی گئی جو پتھر کی دیواروں کو توڑ سکتا ہو اور اس ضرورت کا احساس منجینیق کی ایجاد کا باعث ہوا۔ یہ ایک لکڑی کا آلہ تھا جس سے بھاری پتھر کافی دور پھینکے جاسکتے تھے۔اس کی بدولت حملہ آور افواج قلعہ بند تیر اندازوں کی زد سے محفوظ ہوکر شہرِ پناہ پر پتھر برساسکتی تھی۔اس کا تخیل کمان سے اخذ کیا گیا تھا۔لیکن چند سالوں میں آلات حرب کے ماہرین کی کوششوں نے اسے ایک نہایت اہم آلہ بنادیا تھا۔
قلعہ بند شہروں کی تسخیر کے لیے دوسری چیز جسے عربوں نے بہت زیادہ رواج دیا، دبابہ تھی۔ یہ لکڑی کا ایک چھوٹا سا قلعہ تھا۔ جس کے نیچے پہیے لگائے جاتے تھے۔چند سپاہی لکڑی کے تختوں کی آڑ میں بیٹھ جاتے اور چند اسے دھکیل کر شہر کی فصیل کے ساتھ لگادیتے۔پیادہ سپاہی ان کی پناہ میں آگے بڑھتے اور اس سے سیڑھی کا کام لےکر فصیل پڑ جاچڑھتے۔
کھلے میدان میں پیادہ فوج کی طرح عرب سوار بھی ابتدا میں تلوار کو نیزے پر ترجیح دینے کے عادی تھے۔لیکن آہن پوش سپاہیوں کے مقابلے میں انھوں نے نیزے کی اہمیت کو زیادہ محسوس کیا اور چند سالوں میں عرب کے طول و عرض میں تیراندازی اور تیغ زنی کی طرح نیزہ بازی کا رواج بھی عام ہوگیا۔شام کے مسلمان روم کی قربت کی وجہ سے زیادہ متاثر تھا اور یہاں نیزہ بازی کو آہستہ آہستہ تیغ زنی پر ترجیح دی جانے لگی۔
عرب گھوڑے اور سوار دنیا بھر میں مشہور تھے۔اس لیے دوسرے فنون کی طرح نیزہ بازی میں بھی وہ ہمسایہ ممالک پر سبقت لے گئے۔

مشق کے باہر ایک کھلے میدان میں قریباً ہر روز نیزہ بازی کی مشق کی جاتی تھی۔نیزہ بازی میں یونان کا قدیم رواج مقبولیت حاصل کررہا تھا۔
ہمت آزمائی کرنے والے زرہ پوش شاہسوار کچھ فاصلے پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوجاتے خطرے سے بچنے کے لیے زرہ، خود اور چار آئینہ کے استعمال کے باوجود اصلی نیزوں کے علاوہ ایسے نیزے استعمال کیے جاتے جن کے پھل لوہے کے ناہوں اور اگلا سرا تیز ہونے کی بجائے کند ہو۔ثالث درمیان میں جھنڈی لےکر کھڑا ہوجاتا اور اس کے اشارے پر یہ سوار گھوڑوں کو پوری رفتار سے دوڑاتے ہوئے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے۔جو سوار اپنے مدمقابل کی زد سے بچ کر اسے ضرب لگانے میں کامیاب ہوتا وہ بازی جیت جاتا۔مات کھانے والا سوار کند نیزے کے دباو کی وجہ سے اپنا توازن کھو کر گھوڑے سے گرپڑتا اور تماشائیوں کے لیے سامانِ تضحیک بن جاتا۔
اس سال حسبِ معمول فنونِ حرب کی نمائش میں حصہ لینے کے لیے بہت سے لوگ دور دور سے آئے تھے۔ ایک وسیع میدان کے چاروں طرف تماشائیوں کا ہجوم تھا۔ولید بن عبدالملک ایک کرسی پر رونق افروز تھے۔اس کے دائیں بائیں دربارِ خلافت کےبڑے بڑے عہدے دار بیٹھے تھے۔دوسری طرف تماشائیوں کی قطار کے آگے سلیمان بن عبدالملک اپنے چند عقیدت مندوں کے درمیان بیٹھا تھا۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر84)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر84)
نمائش شروع ہوئی۔اسلحہ جات کے ماہرین نےمنجنیق اور دبابوں کے جدید نمونے پیش کرکے انعامات حاصل کیے۔تیراندازوں اور شمشیرزنی کے ماہرین نے اپنے اپنے کمالات دکھائے اور تماشائیوں سے دادتحسین حاصل کی۔
سلیمان کے تین ساتھی تیراندازی کے مقابلے میں شریک ہوئے اور ان میں سے ایک دوسرے درجے کا بہترین تیرانداز مانا گیا۔اس کا دوسرا ساتھی صالح تلوار کے مقابلے میں یکے بعد دیگرے دمشق کے پانچ مشہور پہلوانوں کو نیچا دیکھا کر اس بات کا منتظر تھا کہ امیرالمومنین اسے بلاکر اپنے قریب کرسی دیں گے لیکن ایک نوجوان نے اچانک میدان میں آکر اسے مقابلے کی دعوت دی۔ اور ایک طویل اور سخت مقابلے کے بعد اس کی تلوار چھین لی۔
یہ نوجوان زبیر تھا۔ تماشائی آگے بڑھ بڑھ کر صالح کو مغلوب کرنے والے نوجوان کی شکل دیکھنے اور اس سے مصافحہ کرنے میں گرمجوشی دیکھا رہے تھے اور صالح غصے اور ندامت کی حالت میں اپنے ہونٹ کاٹ رہا تھا۔
ولید اٹھ کر آگے بڑھا اور زبیر سے مصافحہ کرتے ہوئے اسے مبارکباد دی اور پھر صالح کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔”صالح! تم اگر غصے میں نا آجاتے تو شاید مغلوب نا ہوتے۔بہرصورت میں اس نوجوان کی طرح تمہیں بھی انعام کا حقدار سمجھتا ہوں۔“
سب سے آخر میں نیزہ بازی شروع ہوئی۔کئی مقابلوں کے بعد آٹھ بہترین نیزہ باز منتخب کئے گئے اور آخر میں مقابلہ شروع ہوا۔جوں جوں مقابلہ کرنے والوں کی تعداد گھٹتی جاتی تھی۔ دادوتحسین میں گلا پھاڑنے والے تماشائیوں کے جوش و خروش میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔بالآخر ایک طرف ایک اور دوسری طرف دو نیزہ باز رھ گئے۔تنہارھ جانے والے سوار نے یکے بعد دیگرے اپنے دونوں مخالفین کو گرا کر اپنا خود اتارا اور عوام اسے پہچان کر زیادہ جوش و خروش سے تحسین و آفرین کے نعرے بلند کرنے لگے۔یہ نوجوان ایک یونانی نومسلم تھا اور اس کا نام ایوب تھا۔ایوب نے فاتحانہ انداز میں اپنا نیزہ بلند کرتے ہوئے اکھاڑے میں چاروں طرف ایک چکر لگایا اور اس کے بعد پھر میدان میں آکھڑا ہوا۔
نقیب نے آواز دی۔”کوئی ایسا ہے، جو اس نوجوان کے مقابلے میں آنا چاہتا ہے۔“
عوام کی نگاہیں سلیمان بن عبدالملک پر مرکوز تھیں۔سلیمان نے سر پر خود رکھتے ہوئے اٹھ کر ایک حبشی غلام کو اشارہ کیا جو پاس ہی ایک خوبصورت مشکی گھوڑے کی باگ تھامے کھڑا تھا۔غلام نے گھوڑا آگے کیا اور سلیمان اس پر سوار ہوگیا۔سورج کی روشنی میں سلیمان کی زرہ چمک رہی تھی اور ہلکی ہلکی ہوا میں اس کے خود کے اوپر سبز ریشم کے تاروں کا پھندا لہرا رہا تھا۔
سلیمان اور ایوب ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے اور عوام دم بخود ہوکر ثالث کی جھنڈی کا انتظار کرنے لگے۔ثالث نے جھنڈی ہلائی اور ایک طرف کھڑا ہوگیا۔صبارفتار گھوڑے ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔سواروں نے ایک دوسرے کے قریب پہنچ کر خود بچنے اور دوسرے کو ضرب لگانے کی کوشش کی۔سلیمان مقابلے میں آنے سے پہلے اپنے مدِمقابل کے تمام داوں دیکھ کر ان سے بچنے کے طریقے سوچ چکا تھا۔چنانچہ ایوب کا وار خالی گیا اور سلیمان کا نیزہ اس کے خود پر ایک کاری ضرب کا نشان چھوڑ گیا۔
ثالث نے سلیمان کی فتح کا اعلان کیا۔ولید نے اٹھ کر اپنے بھائی کو مبارکباد دی اور ایوب کی حوصلہ افزائی کی۔
سلیمان نے خود اتار کر فاتحانہ انداز میں تماشائیوں کی طرف نگاہ دوڑائی اور حسبِ معمول اکھاڑے کا چکر لگا کر پھر میدان میں آکھڑا ہوا۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر85)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر85)
نقیب نے تین بار آواز دی۔”کوئی ہے جس میں سلیمان بن عبدالملک کے مقابلے کی ہمت ہے؟“ لیکن لوگوں کو اس سے پہلے ہی یقین ہوچکا تھا کہ اب کھیل ختم ہوچکا ہے اور وہ امیرالمومنین کے اٹھنے کا انتظار کررہے تھے لیکن ان کی حیرت کی انتہا نا رہی، جب سوار گھوڑے پر ایک سوار نیزہ ہاتھ میں لیے میدان میں آکھڑا ہوا۔تماشائیوں کی حیرانی اس بات پر ناتھی کہ ایک نیزہ باز سلیمان بن عبدالملک کو مقابلے کی دعوت دے رہا تھا بلکہ وہ اس بات پر ششدر تھے کہ اجنبی سوار کے جسم پر زرہ نا تھی اور نا چار آئینہ۔وہ سیاہ رنگ کا چست لباس پہنے ہوئے تھا۔سر پر خود کی بجائے سفید عمامہ تھا اور آنکھوں کے سوا باقی چہرے پر سیاہ نقاب تھا۔
زرہ کے بغیر صرف وہ لوگ مقابلے میں حصہ لیتے ہیں جنھیں اپنے حریف کی کمتری کا پورا پورا احساس ہو لیکن سلیمان اس دن کا ہیرو تھا اور لوگ سلیمان کے مقابلے کے لیے زرہ اور خود کے بغیر میدان میں آنے والے سوار کی بہادری سے متاثر ہونے کی بجائے اس کی دماغی حالت کے صحیح ہونے میں شک کررہے تھے۔
ولید اور زبیر کے سوا کسی کو یہ معلوم نا تھا کہ یہ کون ہے۔لیکن اس کی اس جرت پر ولید بھی پریشان تھا۔اس نے آہستہ سے زبیر کے کان میں کہا۔”یہ محمد بن قاسم ہے یا کوئی اور ہے؟“
زبیر نے جواب دیا۔”امیرالمومنین!یہ وہی ہے۔“
”لیکن وہ سلیمان کو کیا سمجھتا ہے۔اگر اس کی پسلیاں لوہے کی نہیں تو مجھے ڈر ہے کہ لکڑی کا کندسرا بھی اس کے لیے نیزے کی نوک سے کم خطرناک ثابت نا ہوگا۔تم جاو اور اسے بلاکر سمجھاو۔“
زبیر نے جواب دیا۔”امیر المومنین! میں اسے بہت سمجھا چکا ہوں۔وہ خود بھی اس خطرے کو محسوس کرتا ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ اس صورت میں اگر اس کی جیت ہوئی تو نوجوانوں پر اس کا خوشگوار اثر پڑے گا اور اسے سندھ کے حالات سناکر انھیں جہاد کے لیے آمادہ کرنے کا موقع مل جائے گا۔اس کا یہ بھی خیال ہے کہ زرہ کے بغیر سوار زیادہ چست رھ سکتا ہے۔“
زبیر کا جواب ولید کو مطمین نا کرسکا۔وہ خود اٹھ کر محمد بن قاسم کی طرف بڑھا اور تماشائی پریشانی کا اظہار کرنے لگے۔
محمدبن قاسم سلیمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
ولید نے قریب پہنچتے ہی آواز دے کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا۔”برخودار! مجھے تمہاری شجاعت کا اعتراف ہے لیکن یہ شجاعت نہیں نادانی ہے۔تم زرہ اور خود کے بغیر عرب کے بہترین نیزہ باز کے مقابلے میں جارہے ہو اور اگر اس نے اس کو اپنی تضحیک سمجھا تو مجھے ڈر ہے کہ تم دوبارا گھوڑے پر سوار ہونے کے قابل نہیں رہو گے۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”امیرالمومنین! خدا جانتا ہے مجھے اپنی نمائش مقصود نہیں۔میں یہ خطرہ ایک نیک مقصد کے لیے قبول کررہا ہوں اور یہ کوئی بہت بڑا خطرہ بھی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ زرہ پہن کر سوار چست نہیں رہتا۔“
”لیکن اگر تمہاری چستی تمہاری پسلیاں نہ بچا سکی تو؟“
”تو بھی مجھے افسوس نا ہوگا۔مجھے اپنی پسلیوں سے زیادہ اس لڑکی کا خیال ہے۔جس کے سینے میں ہمارے بےرحم دشمن کے تیز کا زخم ناسور بن چکا ہے۔ اگر خدا کو اس کی مدد منظور ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ آج مجھے دمشق کے لوگوں کے سامنے سامانِ تضحیک نا بننے دے گا اور ممکن ہے کہ میں بازی جیتنے کے بعد اس ہجوم میں اس کا پیغام پڑھ کر سنا سکوں، انفرادی تبلیغ سے جو کام ہم مہینوں میں کرسکتے ہیں وہ ایک آن میں ہوجائے گا۔آپ مجھے اجازت دیجیے اور دعا کیجیے کہ اللہ تعالی میرے مدد کرے۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر86)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر86)
ولید نےکہا۔”لیکن تم کم از کم سر پر خود تو رکھ لیتے۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”آپ برا نا مانیں۔جو سپاہی نیزے کا وار سرپر روکتا ہے۔اس کے متعلق کوئی اچھی رائے نہیں دی جاسکتی۔ میرے لیے یہ عمامہ کافی ہے۔“
ولید نے کہا۔”بیٹا!اگر آج تم ولید پر سبقت لےگئے تو ان شاء اللہ سندھ پر حملہ کرنے والی فوج کا جھنڈا تمہارے ہاتھ میں ہوگا۔“
ولید وآپس مڑا اور راستے میں نقیب کو کچھ سمجھانے کے بعد اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
دوسری طرف سلیمان کے گرد چند تماشائی کھڑے تھے۔صالح نے آگے بڑھ کر سلیمان کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔”امیرالمومنین آپ کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔آپ ہوشیاری سے کام لیں۔“
سلیمان نے پوچھا۔”لیکن وہ سرپھرا ہے کون؟“
”مجھے معلوم نہیں لیکن وہ کوئی بھی ہو مجھے یقین ہے کہ وہ پھر گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا۔“
نقیب نے آواز دی۔”حاضرین! اب سلیمان بن عبدالملک اور محمد بن قاسم کا مقابلہ ہوگا۔سیاہ پوش نوجوان کی عمر سترہ سال سے کم ہے۔“
تماشائی اور زیادہ حیران ہوکر سیاہ پوش نوجوان کی طرف دیکھنے لگے۔
ثالث نے جھنڈی ہلائی اور نیزہ باز پوری رفتار سے ایک دوسرے کی زد سے بچ کر نکل گئے اور عوام نے ایک پرجوش نعرہ بلند کیا۔
کم سن اور نوجوان دیر تک محمد بن قاسم کے لیے تحسین کے نعرے بلند کرتے رہے اور عمر رسیدہ لوگ یہ کہہ رہے تھے۔یہ لڑکا بلا کا چست ہے لیکن سلیمان کے ساتھ اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔پہلی مرتبہ سلیمان نے جان بوجھ کر اس کی رعایت کی ہے لیکن دوسری دفعہ اگر وہ بچ گیا تو یہ ایک معجزہ ہوگا۔کہاں سترا سال کا چھوکرا اور کہاں سلیمان جیسا جہاندیدہ شہسوار!“
لیکن نوجوانوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔سلیمان کی بجائے اب سترہ سالہ اجنبی ان کا ہیرو بن چکا تھا۔وہ کسی کی زبان سے ایک حرف بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نا تھے بعض تماشائی تکرار سے ہاتھا پائی تک اتر آئی۔
رواج کے مطابق نیزہ بازوں کو دوسرا موقع دیا گیا اور دونوں پھر ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے۔بچ اور نوجوان بھاگ بھاگ کراس طرف جارہے تھے جس طرف ان کا کم سن ہیرو کھڑا تھا۔سب کی نگاہیں نقاب میں چھپے ہوئے دیکھنے کے لیے بےقرار تھیں۔ثالث نے بھاگ کر لوگوں کو پیچھے ہٹایا اور پھر آپنی جگہ پر آکھڑا ہوا۔جھنڈی کے اشارے کے بعد تماشائیوں کو پھر ایک بار میدان میں گرد اڑتی نظر آئی۔ تھوڑی دیر کے لیے پھر ایک بار سکوت چھا گیا۔
محمد بن قاسم پھر اچانک ایک طرف جھک کر سلیمان کے نیزے کی ضرب سے بچ گیا۔ سلیمان نے بھی بائیں طرف جھک کر اپنے مدِ مقابل کے وار سے بچنے کی کوشش کی لیکن اس سے کہیں زیادہ پھرتی کے ساتھ محمد بن قاسم نے اپنے نیزے کا رخ بدل دیا اور اس کی دائیں پسلی میں ضرب لگا کر اسے اور زیادہ بائیں طرف دھکیل دیا۔سلیمان لڑکھڑا کر نیچے گرنے کے بعد فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور پسلی پر ہاتھ رکھ کر انتہائی بےچارگی کی حالت میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
چاروں طرف سے فلک شگاف نعروں کی صدا آرہی تھی۔محمد بن قاسم نے تھوڑی دور جاکر اپنے گھوڑے کی باگ موڑ لی اور سلیمان کے قریب آکر نیچے اترتے ہوئے مصافحہ کے لیے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن سلیمان مصافحہ کرنے کی بجائے منہ پھیر کر تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا ایک طرف نکل گیا۔
آن کی آن میں تماشائی ہزاروں کی تعداد میں محمد بن قاسم کے گرد جمع ہوگئے۔یونانی شاہسوار ایوب نے آگے بڑھ کر محمد بن قاسم کے گھوڑے سے باگ پکڑ لی اور کہا۔”میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔اب کوئی مجبوری نا ہو تو آپ چہرے سے نقاب اتار دیجیے! ہم سب کی آنکھیں آپ کی آنکھیں دیکھنے کے لیے بیقرار ہیں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر87)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر87)
محمد بن قاسم نے نقاب اتار ڈالا۔کم سن شہسوار کا چہرہ لوگوں کی توقع سے کہیں زیادہ متین اور سنجیدہ تھا۔اس کی خوبصورت سیاہ آنکھوں سے شوخی کی بجائے معصومیت ٹپکتی تھی۔لوگوں کے نعروں اور پراشتیاق نگاہوں کے جواب میں اس کا سکون یہ ظاہر کررہا تھا کہ اسے بڑی سے بڑی فتح بھی متاثر نہیں کرسکتی۔جو نوجوان اسے کندھوں پر اٹھا کردمشق کی گلیوں میں اس کا شاندار جلوس نکالنے کی غرض سے بڑھے تھے، دم بخود ہوکر اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ایوب نے اپنے ایک عرب دوست سے کہا۔”میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے یونان کے مجسموں میں بھی کوئی صورت بیک وقت اس قدر خوبصورت، معصوم، سادہ اور بارعب نہیں دیکھی۔“
ایک عرب نے پوچھا۔”آپ کہاں سے ہیں؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”بصرہ سے۔“
اس پر کئی لوگ اصرار کرنے لگے کہ آپ ہمارے ہاں ٹھہریے۔
محمد بن قاسم نے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔”میں دمشق کے لوگوں کے پاس ایک ضروری پیغام لےکر آیا ہوں اور مجھے جلد وآپس جانا ہے۔اگر آپ خاموشی سے میری بات سن لیں تو یہ مجھ پر بری عنایت ہوگی۔“
لوگ اب بہت زیادہ تعداد میں محمد بن قاسم کے گرد جمع ہورہے تھے۔ولید بن عبدالملک عہدیداروں کی جماعت کے ہمراہ آگے بڑھا۔لوگ امیرالمومنین کو دیکھ کر ادھر ادھر ہٹ گئے۔ولید نے محمد بن قاسم کے قریب پہنچ کر کہا۔”میرے خیال میں یہ تمہارے لیے بہترین موقع ہے۔تم گھوڑے پر سوار ہوجاو، تاکہ سب لوگ تمہاری صورت دیکھ سکیں۔“
محمد بن قاسم گھوڑے پر سوار ہوگیا۔مجمع میں کانوں کان ایک سرے سے دوسرے سرے تک یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ یہ سیاہ پوش نوجوان کوئی اہم خبر سنانا چاہتا ہے اور وہ لوگ جو اگلی قطاروں میں تھے، یکے بعد دیگرے زمین پر بیٹھ گئے تھے۔
محمد بن قاسم نے مختصر الفاظ میں سراندیپ کے مسلمان بیواوں اور یتیم بچوں کی المناک داستان بیان کی۔اس کے بعد زبیر سے رومال لےکر ناہید کا مکتوب پڑھ کر سنایا، بیواوں اور یتیم بچوں کی سرگشت سننے کے بعد عوام کے دلوں پر ناہید کے مکتوب کے الفاظ تیرونشتر کا کام کررہے تھے۔مکتوب سنانے کے بعد محمد بن قاسم نے رومال زبیر کو وآپس کہتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔
”فدایانِ اسلام! میں تم میں سے اکثر کی آنکھوں میں آنسو دیکھ رہا ہوں۔ لیکن یاد رکھو! ستم رسیدہ انسانیت کے دامن پر ظلم کی سیاہی کے دھبے آنسووں سے نہیں خون سے دھوئے جاتے ہیں۔جبرواستبداد کی جو آگ سندھ کے وسیع ملک میں سلگ رہی ہے۔ہم نے دور سے اس کی ہلکی سے آنچ محسوس کی ہے اور وہ اس لیے کہ ہمارے چند بھائی، چند مائیں اور چند بہنیں اس آتش کدہ میں جل رہی ہیں۔لیکن ہمیں ان لاکھوں بےکسوں کا حال معلوم نہیں، جو مدت سے سندھ کے استبدادی نظام کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔یہ تیر جو ایک مسلمان لڑکی کے دل میں پیوست ہوا، ان لاکھوں تیروں میں سے ایک تھا جن کی مشق سندھ کا مغرور و جابر حکمران اپنی بےکس رعایا کے سینوں پر کرتا ہے۔آج سندھ میں اگر ہماری بہنیں اور بھائی قید خانے کی تاریخ کوٹھڑی میں مجاہدینِ اسلام کے گھوڑوں کی ٹاپ سننے کے منتظر ہیں۔آج اگر وہ اللہ اکبر کے ان نعروں کوسننے کا انتظار کررہے ہیں۔جن میں اب بھی دیبل کے قلعے کی مضبوط دیواروں پر زلزلہ طاری کردینے کی قوت موجود ہے، تو مجھے یقین ہے کہ سندھ کی عوام جو برسوں کے ظلم و استبداد کی آگ میں جل رہے ہیں، افقِ مغرب سے رحمت کی ان گھٹاوں کے منتظر ہیں جو آج سے کئی برس پہلے آتش کدہ ایران کو ٹھنڈا کرچکی ہیں۔ان کے مجروح سینوں سے یہ آواز نکل رہی ہے کہ اے کاش! وہ مجاہدین جنھوں نے اپنے خون سے باغِ آدم میں مساوات، عدل، انصاف اور امن کے پودے کی آبیاری کی ہے۔سندھ کے حکمران کے ہاتھوں سے ظلم کی تلوار چھین لیں اور ان کے گھوڑے ان خار دار جھاڑیوں کو مسل ڈالیں جن کے ساتھ انسانیت اور آزادی کا دامن الجھا ہوا ہے۔
مسلمانو! یہ خبر ہمارے لیے بری بھی ہے اور اچھی بھی۔بری اس لیے کہ ہمیں اپنی بہنوں اور بھائیوں کا حال سن کر دکھ ہوا اور اچھی اس لیے کہ حق و صداقت کی تلوار کے آگے قیصری و کسری کی طرح ایک اور مغرور سر اٹھا ہے۔آو اسے بتادیں کے ہماری تلواریں کند نہیں ہوئیں۔
گذشتہ چند برسوں میں ہمارے اندرونی خلفشار نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔وہ سلطنتیں جو ہمارے آباواحداد کے نام سے تھراتی تھیں، آج ہمارے خلاف اعلانِ جنگ کررہی ہیں۔ایک مظلوم لڑکی کا یہ خط اگر ہماری رگوں میں حرارت پیدا نا کرسکا تو یادرکھو! روئے زمین پر ہماری عظمت اور عروج کے دن گنے جاچکے ہیں لیکن میں مایوس نہیں ہوں، میں تم میں سے کسی کے چہرے پر مایوسی نہیں دیکھتا۔میں صرف یہ کہوں گا کہ ایک شجاع قوم غفلت کی نیند سورہی ہے اور اس قوم کی ایک غیور بیٹی بلند آواز میں یہ کہہ رہی ہے کہ اسلام کے غیور بیٹو! تم روئے زمین کی ہر بہو بیٹی کی عظمت کی حفاظت کے لیے پیدا ہوئے تھے اور آج حالت یہ ہے کہ تمہاری اپنی بہو بیٹیوں کو پابہ زنجیر برہمن آباد کے بازاروں میں کھینچا جارہا ہے۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر88)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر88)
عوام جذبات سے مغلوب ہوکر ولید بن عبدالملک کی طرف دیکھ رہے تھے۔ایک معمر شخص نے آگے بڑھ کر کہا۔”اگر ہم سے پہلے یہ خبر امیرالمومنین تک پہنچ چکی ہے تو ہم حیران ہیں کہ انھوں نے ابھی تک سندھ کے خلاف اعلانِ جہاد کیوں نہیں کیا۔“ ہجوم آتش فشاں پہاڑ کی طرح بھرا بیٹھا تھا۔چاروں طرف ”جہاد جہاد“ کے فلک شگاف نعرے گونجنے لگے۔محمد بن قاسم نے دونوں ہاتھ بلند کرتے ہوئے لوگوں کو خاموش کیا اور پھر اپنی تقریر شروع کی:-
”میرے مخاطب وہ لوگ نہیں جو ایک ہنگامی جوش کے باعث چند نعرے لگا کر خاموش ہوجاتے ہیں۔زندہ قومیں نعرے بلند کرنے سے پہلے اپنی تلواریں بےنیام کرکے میدان میں کودتی ہیں۔تم دمشق میں چند نعرے لگا کر ان کی نگاہوں کی تشفی نہیں کرسکتے جو یہاں سے ہزاروں میل دور تمہاری تلواروں کی چمک دیکھنے کے لیے بیقرار ہیں۔امیرالمومنین کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے لیکن انھوں نے ابھی تک تمہارے نعرے سنے نہیں ہیں۔کاش! ان نعروں کے ساتھ وہ تلواریں بھی نیام سے باہر نکلنے کے لیے بیقرار ہوتیں، جن کی نوک کے ساتھ تمہارے اباواجداد سطوتِ اسلام کی داستان لکھ گئے ہیں۔میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ قادسیہ اور اجنادین کے مجاہدوں کی اولاد میں زندگی کی کوئی رمق باقی ہے کہ نہیں؟ اس میں شک نہیں کہ ہماری تمام افواج ترکستان اور افریقہ کے میدان میں مصروفِ جہاد ہیں۔لیکن تم میں سے کون ایسا ہے جو تلوار کا استعمال نہیں جانتا؟ اگر ہمت کریں تو ہم سندھ کے میدانوں میں یرموک اور دمشق کی یاد پھر زندہ کرسکتے ہیں۔آج تم کو اپنے اباواجداد کی طرح یہ ثابت کرنا ہے، کہ ضرورت کے وقت ہر مسلمان سپاہی بن سکتا ہے۔اب تمہاری تلواریں دیکھ کر میں امیرالمومنین سے اعلانِ جہاد کی درخواست کرتا ہوں۔“
محمد بن قاسم گھوڑے سے اتر پڑا۔اس کی تقریر کے اختتام پر کئی بوڑھے اور نوجوان تلواریں بلند کرچکے تھے۔ایک دس سال کا لڑکا سخت جدوجہد کے بعد لوگوں کو ادھر ادھر ہٹاتا ہوا آگے بڑھا اور ولید کے قریب جاکر بولا۔”امیرالمومنین! کیا مجھے بھی جہاد پر جانے کی اجازت ہوگی؟ مجھے معلوم نا تھا ورنہ میں تلوار لےکر آتا۔لیکن میں ابھی لے آتا ہوں۔آپ انھیں تھوڑی دیر روکیں۔“
ولید نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”تمہیں ابھی چند سال اور انتظار کرنا پڑے گا۔“
لڑکا دلبرداشتہ ہوکر محمد بن قاسم کے قریب آکھڑا ہوا۔ولید کے اشارے پر ایک شخص ایک کرسی اٹھا لایا اور اس نے کرسی پر کھڑا ہوکر کہا۔”اس نوجوان کی تقریر کے بعد مجھے کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں۔خدا کا شکر ہے کہ تمہاری غیرت زندہ ہے۔میں سندھ کے خلاف اعلانِ جہاد کرتا ہوں۔“
ہجوم نے پھر ایک بار نعرے بلند کیے۔ولید نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا۔”میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک ہفتے کے اندر اندر دمشق کی فوج بصرہ روانہ ہوجائے۔وہاں اگر محمد بن قاسم جیسے چند جوان اور موجود ہیں تو مجھے یقین ہے کہ کوفہ اور بصرہ سے بھی سپاہیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد جمع ہوجائے گی۔ آپ میں سے جن لوگوں کے پاس گھوڑے نہیں ان کے لیے گھوڑے اور جن کے پاس اسلحہ نہیں ان کے لیے اسلحہ جات کا انتظام کیا جائے گا۔میں جو اہم ترین خبر آپ کو سنانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ محمد بن قاسم کو سندھ پرحملہ کرنے والی افواج کا سپہ سالار مقرر کرتا ہوں۔میں نے اس ہونہار مجاہد کے لیے عمادالدین کا لقب تجویز کیا ہے۔آپ دعا کریں کے یہ صحیح معنوں میں عمادالدین ثابت ہو۔“

رات کے تیسرے پہر محمد بن قاسم جامع مسجد میں نمازِ تہجد ادا کرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کرانتہائی سوزو گداز کے ساتھ یہ دعا کررہا تھا۔”یارب العالمین! میرے نحیف کندھوں پر ایک بھاری بوجھ آپڑا ہے، مجھے اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی توفیق دے! اور میرا ساتھ دینے والوں کو ان کے اباواجداد کا عزم و استقلال عطا فرما! حشر کے دن فدایانِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کی جماعت کے سامنے میری نگاہیں شرمسار نا ہوں۔مجھے خالد(رضی اللہ عنہ) کا عزم اور مثنی(رضی اللہ عنہ) کا ایثار عطا کر! میری زندگی کا ہر لمحہ تیرے دین کی سربلندی کے لیے وقف ہو۔“
اس دعا کے اختتام پر زبیرکے علاوہ ایک اور شخص نے بھی، جو محمد بن قاسم کے دائیں ہاتھ بیٹھا تھا، آمین کہی اور یہ دونوں اس کی طرف دیکھنے لگے۔اس کے سادہ لباس اور نورانی چہرے میں غیر معمولی جاذبیت تھی۔وہ کھسک کر محمد بن قاسم کے قریب ہوبیٹھا اور اس کی طرف محبت اور پیار سے دیکھتے ہوئے بولا۔
”تم محمد بن قاسم ہو؟“
”جی ہاں۔اور آپ؟“
”میں عمر بن عبدالعزیز(رضی اللہ عنہ) ہوں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر89)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر89)
محمد بن قاسم عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ کی بزرگی اور پاکیزگی کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا۔اس نے عقیدت مند نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔”آپ میرے لیے دعا کریں!“
عمربن عبدالعزیز رحمتہ اللہ نے فرمایا۔”خدا تمہارے نیک ارادے پورے کرے!“
محمد بن قاسم نے کہا۔”ایک مدت سے میرا ارادہ تھا کہ آپ کے نیاز حاصل کروں۔آج آپ کی ملاقات کو تائیدِ غیبی سمجھتا ہوں۔مجھے کوئی نصیحت فرمائیں!“
عمربن عبدالعزیز نے کہا۔”میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تمہارے جیسے بہادر اور ہونہار سپہ سالار کی قیادت میں ان شاء اللہ دشمن کے خلاف تلوار کی مہم جلد ختم ہوجائے گی لیکن اگر تم سندھ میں جہاد کا صحیح جذبہ لےکر جارہے ہو تو تمہیں وہاں اپنے اخلاق اور کردار سے ثابت کرنا ہوگا کہ تم سندھ کے لوگوں کو غلام بنانے کے لیے نہیں بلکہ انھیں نظامِ باطل کی زنجیروں سے آزاد کرکے سلامتی کا راستہ دکھانے کے لیے آئے ہو۔تم کو انھیں یہ بتانا ہے کہ دائرہ توحید میں قدم رکھنے والا ہر انسان دنیا کی غلامی سے آزاد ہوسکتا ہے۔تم ایک ایسے ملک میں جارہے ہو جس میں نیچ ذات کے لوگ اپنے اوپر اونچی ذات والوں کے جبرواختیار کا پیدائشی حق تسلیم کرتے ہیں۔سندھ کے استبدادی نظام کی جڑیں کٹ جانے کے بعد اگر تم لوگوں کے سامنے اسلامی مساوات کا صحیح نقشہ پیش کرسکے تو مجھے یقین ہے کہ تم ان کے قلوب پر بھی فتح پاسکو گے، جو آج تمہارے دشمن ہیں کل تمہارے دوست ہوجائیں گے۔
مسلمان بیواوں اور یتیموں پر سندھ کے حکمران کے مظالم کی داستان سن کر بعض نوجوان صرف جذبہ انتقام کے تحت تمہارا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوگئے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو گرے ہوئے دشمن پر وار کرنے کی اجازت نہ دینا! خدا زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ظالم کے ہاتھ سے اس کی تلوار چھین لو! لیکن اس پر ظلم نا کرو! بلکہ اگر وہ تائب ہوجائے تو اس کی خطا معاف کردو! اگر وہ دینِ الہی قبول کرنے پر امادہ ہوجائے تو اسے سینے سے لگا لو! اگر وہ زخموں سے نڈھال ہوکر تم سے پناہ مانگے تو تم اس کے زخموں پر مرہم رکھو! ہمارے یتیموں اور بیواوں پرظلم ہوا ہے لیکن تم ان کے یتیموں اور بیواوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھو! اور یہ یاد رکھو! کہ خدا ہمسایہ ممالک پر عرب قوم کا سیاسی تفوق نہیں چاہتا، بلکہ کفر کے مقابلے میں اپنے دین کی فتح چاہتا ہے اور یہ کام اگر عربوں کے ہاتھوں پورا ہوتو وہ دنیا میں بھی فلاح پاہیں گے اور ان کی آخرت بھی اچھی ہوگی۔“
نمازِ صبح کی اذان سن کر عمر بن عبدالعزیز نے اپنی تقریر ختم کی۔نماز کے بعد محمد بن قاسم نے ان سے رخصت ہوتے وقت کہا۔”مجھے یہاں سے روانہ ہونے میں پانچ دن اور لگ جائیں گے۔اس عرصے میں آپ کے علم و فضل سے اور زیادہ مستفید ہونا اپنی خوش بختی خیال کروں گا۔ لیکن دن کا بیشتر حصہ مجھے نئے سپاہیوں کو تربیت دینے میں صرف کرنا پڑے گا۔ اگر آپ کو تکلیف نا ہوتو رات کو کسی وقت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوجایا کروں؟“
عمر بن عبدالعزیز نے جواب دیا۔”تم جس وقت چاہو میرے پاس آسکتے ہو۔خاص طور پراس وقت تم ہر روز مجھے یہاں پاو گے۔آٹھ دس دن بعد میں بھی مدینہ چلاجاوں گا۔“
محمد بن قاسم حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ سے رخصت ہوکر باہر نکلا تو نوجوانوں کی خاص جماعت اس کے آگے اور پیچھے تھی۔دروازے کی سیڑھیوں پر پہنچ کر اس نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا۔”آپ سب میدان میں پہنچ جائیں، میں بھی تھوڑی دیر میں پہنچ جاوں گا۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر90)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر90)
محمد بن قاسم کی قیام گاہ کے دروازے پر دو سپاہی گھوڑے لیے کھڑے تھے۔ محمد اور زبیر نے گھوڑوں پر سوار ہوکر سپاہیوں کے ہاتھوں سے نیزے لےلیے اور گھوڑوں کو ایڑ لگا دی۔شہر کے مغربی دروازے سے باہر نکلنے کے بعد وہ سرسبز باغات سے گزرتے ہوئے ایک ندی کے کنارے آکررکے اور گھوڑوں سے اتر کر پانی میں کود پڑے۔ندی کے صاف اور شفاف پانی میں تھوڑی دیر تیرنے اور غوطے لگانے کے بعد کپڑے بدل کر کچھ دیر وہ اپنے سامنے سرسبز اور دل کش پہاڑوں کا منظر دیکھتے رہے۔محمد بن قاسم نے اپنے ساتھی کو محویت کی حالت میں دیکھ کر کہا۔”کل ہم بہت سویرے یہاں آئیں گے۔اب ہمیں چلنا چاہیے۔لوگ ہمارا انتظار کررہے ہوں گے۔“
زبیر نے چونک کر محمد بن قاسم کی طرف دیکھا۔”کیا کہا آپ نے؟“
”ہمیں دیر ہورہی ہے۔“
”چلیے!“
دونوں پھر گھوڑے پر سوار ہوگئے۔محمد بن قاسم نے پوچھا۔”تم ابھی کیا سوچ رہے تھے؟“
زبیر نے مغموم لہجے میں جواب دیا۔”میں تصور میں سراندیپ کے سبزہ زار دیکھ رہا تھا۔“
لیکن ہماری منزلِ مقصود تو سندھ کے ریگستان ہیں؟“
انھیں میں ہر وقت دیکھتا ہوں لیکن کبھی کبھی سراندیپ کے سبزہ بھی یاد آجاتے ہیں۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”کل تم خواب کی حالت میں ناہید کو آوازیں دے رہے تھے۔میں نے اس کا ذکر مناسب نا سمجھا۔اب اگر برا نا مانو تو میں پوچھتا ہوں کہ خواب میں تم نے کیا دیکھا تھا؟“
زبیر نے اپنے چہرے پر اداس مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔”میں نے خواب دیکھا تھا کہ دیبل کے چند سپاہی میرے چاروں طرف ننگی تلواریں لیے کھڑے ہیں اور کچھ ناہید کو پکڑ کر قیدخانے کی طرف لے جارہے ہیں اور میں بھاگ کر اسے چھڑانا چاہتا ہوں۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”میرا خیال ہے کہ ناہید کی یاد کا آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر ہے۔“
”میں اس سے انکار نہیں کرتا۔جن حالات میں ہم ایک دوسرے سے ملے اور بچھڑے ہیں، ان حالات میں شاید کوئی بھی اس بہادر اور غیور لڑکی کو اپنے دل میں جگہ دینے سے انکار نا کرتا۔“
ایک ہرن بھاگتا ہوا قریب سے گزر گیا۔محمد بن قاسم نے نیزہ سنبھالتے ہوئے کہا۔”اس کی پچھلی ٹانگ زخمی ہے، کسی اوچھے تیر انداز نے اس پر وار کیا ہے۔آو اس کا تاقب کریں۔“
زبیر اور محمد نے ہرن کے پیچھے گھوڑے سرپٹ چھوڑ دیے۔زخمی ہرن دور ناجاسکا اور محمد بن قاسم کے نیزے کی ایک ہی ضرب کے ساتھ نیچے گرپڑا۔زبیر نے گھوڑے سے اتر کر اسے ذبح کیا اور پچھلی ران سے تیر نکالتے ہوئے کہا۔”اگر ہم اسے نا دیکھتے تو یہ کسی جھاڑی میں بری طرح جان دےدیتا۔“
چند سوار درختوں کی آڑ سے نمودار ہوئے اور محمد بن قاسم نے ان میں سے سلیمان کو پہچانتے ہوئے کہا۔”ارے! یہ تو ہمارے پورانے دوست ہیں۔“
سلیمان نے قریب پہنچ کر اپنے گھوڑے کی باگ کھینچی اور کہا۔”یہ شکار ہمارا ہے۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”آپ لےسکتے ہیں۔ہم نے اسے صرف ایک تکلیف دہ موت سے بچایا ہے۔اس کی ٹانگ زخمی تھی اور ہمارا خیال تھا کہ یہ جھاڑیوں میں چھپ جائے گا۔“
صالح نے کہا۔”تم غلط کہتے ہو۔تم نے گرتے ہوئے ہرن کو زبح کیا ہے۔“
محمد بن قاسم نے سنجیدگی سے جواب دیا۔”یہ صحیح ہے ہرن گرپڑا تھا لیکن میرے نیزے کی ضرب سے، اور اگر تیر آپ نے چلایا تھا تو آپ اس کی ٹانگ دیکھ سکتے ہیں۔“
صالح نے غضبناک ہوکر تلوار نکالی لیکن سلیمان نے سختی سے کہا۔”تم ان دونوں کے جوہر دیکھ چکے ہو۔تمہیں اپنی تیراندازی کے متعلق غلط فہمی تھی۔آج وہ بھی رفع ہوگئی۔“ یہ کہہ کر وہ محمد بن قاسم سے مخاطب ہوا۔”میرا یہ دوست جس قدر جوشیلہ ہے اس قدر کم عقل بھی ہے۔آپ کو ضرورت ہوتو آپ یہ شکار لےجاسکتے ہیں۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”نہیں، شکریہ! اگر مجھے ضرورت ہوتی تو میں خود شکار کرلیتا۔“
یہ کہہ کر اس نے زبیر کی طرف اشارہ کیا اور دونوں نے باگیں موڑ کر اپنے گھوڑے سرپٹ چھوڑ دیے۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر91)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر91)
_____پہلی فتح_____
صبح کی نماز کے بعد دمشق کے لوگ بازاروں اور مکانوں کے چھتوں پر کھڑے محمد بن قاسم کی فوج کا جلوس دیکھ رہے تھے۔دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا واقع تھا کہ ایک دور افتادہ ملک پر حملہ کرنے والی فوج کی قیادت ایک سترہ سالہ نوجوان کے سپرد تھی۔دمشق سے لےکر بصرہ تر راستے کے ہر شہر اور بستی سے کئی کم سن لڑکے، نوجوان اور بوڑھے اس فوج میں شامل ہوئے۔کوفہ اور بصرہ میں محمد بن قاسم کی روانگی کی اطلاع مل چکی تھی اور نوجوان عورتیں اپنے شوہروں، مائیں اپنے بیٹوں اور لڑکیاں اپنے بھائیوں کو نوجوان سالار کا ساتھ دینے کے لیے تیار رہنے پر آمادہ کررہی تھیں۔غیور قوم کی ایک بےکس بیٹی کی فریاد کوفہ اور بصرہ کے ہر گھر میں پہنچ چکی تھی۔بصرہ کی عورتوں میں زبیدہ کی تبلیغ کے باعث یہ جذبہ پیدا ہوچکا تھا کہ ناہید کا مسئلہ قوم کی ہر بہو بیٹی کا مسئلہ ہے۔نوجوان لڑکیاں مختلف محلوں اور کوچوں سے زبیدہ کے گھر آتیں اور اس کی تقاریر سے ایک نیاجذبہ لےکر وآپس جاتیں۔خرابی صحت کے باوجود محمد بن قاسم کی والدہ بصرہ کی معمر عورتوں کی ایک ٹولی کے ساتھ جہاد کی تبلیغ کےلیے ہر محلہ کی عورتوں کے پاس پہنچتی۔زبیدہ نے چند نئے سپاہیوں کو گھوڑے اور اسلحہ جات بہم پہنچانے کے لیے اپنے تمام زیورات بیچ ڈالے۔بصرہ کی تمام امیرو غیریب گھرانوں کی لڑکیوں نے اس کی تقلید کی اور مجاہدین کی اعانت کے لیے بصرہ کے بیت المال کو چند دنوں میں سونے اور چاندی سے بھر دیا۔عراق کے دوسرے شہروں کی خواتین نے اس کارِ خیر میں بصرہ کی عورتوں سے پیچھے رہنا گوارا نا کیا اور وہاں بھی لاکھوں روپے جمع ہوگئے۔
محمد بن قاسم نے بصرہ میں تین دن قیام کیا۔اس کی آمد سے پہلے بصرہ میں حجاج بن یوسف کے پاس مکران کے گورنر محمد بن ہارون کا یہ پیغام پہنچ چکا تھا کہ عبیداللہ کی قیادت میں بیس آدمیوں کا جو وفد دیبل بھیجا گیا تھا، اس میں سے صرف دو نوجوان جان بچا کر مکران پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔باقی تمام دیبل کے گورنر نے قتل کردیے ہیں۔ اس خبر نے بصرہ کی عوام میں انتقام کی سلگتی ہوئی آگ پر تیل کا کام دیا۔
دمشق سے روانگی کے وقت محمد بن قاسم کی فوج کی تعداد کل پانچ ہزار تھی لیکن جب وہ بصرہ سے روانہ ہوا تو اس کے لشکر کی مجموعی تعداد بارہ ہزار تھی۔ جن میں سے چھ ہزار سپاہی گھڑ سوار تھے۔تین ہزار پیدل اور تین ہزار سامانِ رسد کے اونٹوں کے ساتھ تھے۔

محمد بن قاسم شیراز سے ہوتا ہوا مکران پہنچا۔مکران کی سرحد عبور کرنے کے بعد لسبیلا کے پہاڑی علاقے میں اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔بھیم سنگھ بیس ہزار فوج کے ساتھ لسبیلا کے سندھی گورنر کی اعانت کے لیے پہنچ چکا تھا۔اس نے ایک مضبوط پہاڑی قلعے کو اپنا مرکز بنا کر تمام راستوں پر اپنے تیر انداز بیٹھا دیے۔اپنے باپ کی مخالفت کے باوجود وہ راجہ کو اس بات کا یقین دلا چکا تھا کہ اس کے بیس ہزار سپاہی بارہ ہزار مسلمانوں کو لسبیلا سے آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔
مسلمانوں کے پہاڑی علاقے میں داخل ہوتے ہی بھیم سنگھ کے سپاہیوں نے اکادکا حملے شروع کردیے۔تیس چالیس سپاہیوں کا گروہ اچانک کسی ٹیلے یا پہاڑی کی چوٹی پر نمودار ہوتا اور آن کی آن میں محمد بن قاسم کی فوج کے کسی حصے پر تیر اور پتھر برسا کر غائب ہوجاتا۔گھوڑوں کے سوار ادھر ادھر ہٹ کر اپنا بچاو کرلیتے۔لیکن شترسوار دستوں کے لیے یہ حملے بڑی حد تک پریشان کن ثابت ہوتے۔بعض اوقات بدک کر ادھر ادھر بھاگنے والے اونٹوں کو منظم کرنا حملہ کرنے والوں کے تعاقب سے زیادہ مشکل ہوجاتا۔
محمد بن قاسم نے یہ دیکھ کر ہراول کے پیادہ دستوں کی تعداد میں اضافہ کردیا۔لیکن حملہ آوروں کی ایک جماعت آگے سے کترا کر بھاگتی اور دوسری جماعت پیچھے سے حملہ کردیتی، ایک گروہ کسی ٹیلے پر چڑھ کر لشکر کے دائیں بازو کو اپنی طرف متوجہ کرتا اور دوسرا بائیں بازو پر حملہ کردیتا۔جوں جوں محمد بن قاسم کی فوج آگے بڑھتی گئی، ان حملوں کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔رات کے وقت پڑاو ڈالنے کے بعد شب خون کے ڈر سے کم از کم ایک چوتھائی فوج کو آس پاس کے ٹیلوں پر قابض ہوکر پہرہ دینا پڑتا۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر92)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر92)
ایک شام محمد بن قاسم کو ایک جاسوس نے اطلاع دی، کہ شمال کی طرف بیس کوس کے فاصلے پر ایک مضبوط قلعہ اس لشکر کا مستقر ہے۔محمد بن قاسم نے اپنے تجربہ کار سالاروں کی مجلسِ شوری بلائی۔بعض سالاروں کی رائے تھی کہ یہ راستہ چھوڑ کر سمندر کے ساحل کے ساتھ ساتھ نسبتاً ہموار راستہ اختیار کیا جائے۔ہم اس قلعے سے جس قدر دور ہوں گے اسی قدر ان حملوں سے محفوظ رہیں گے، لیکن محمد بن قاسم ان سے متفق نا ہوا۔اس نے کہا۔” جب تک یہ علاقہ دشمن سے پاک نہیں ہوتا۔ہمارا آگے بڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔ہمارا مقصد دیبل تک پہنچنا نہیں۔سندھ کو فتح کرنا ہے اور یہ قلعہ ان کے دفاع کی اہم چوکی ہے۔مجھے یقین ہے کہ اس قلعے کے فتح ہوجانے کے بعد دشمن یہ تمام علاقہ خالی کرنے پر مجبور ہوجائے گا اور دشمن کے جو سپاہی یہاں سے فرار ہوں گے۔وہ دیبل پہنچ کر ایک شکست خوردہ ذہنیت کا مظاہرہ کریں گے، لیکن اگر ہم یہاں سے کترا کر نکل گئے تو ان کے حوصلے بڑھ جائیں گے اور ہمارا عقب ہمیشہ غیرمحفوظ رہے گا۔ہمارا پہلا مقصد اس قلعے کو فتح کرنا ہے۔ اس قلعے کو فتح کرنے کے بعد اگر پہاڑیوں میں پھیلے ہوئے لشکر کی تعداد کافی ہوئی تو وہ اس علاقے میں ہمارے ساتھ فیصلہ کن جنگ لڑنے کی کوشش کریں گا اور اس میں بھی ہماری بہتری ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہماری پیشقدمی روکنے کے لیے اس قلعے کے محافظوں کی زیادہ تعداد آس پاس کی پہاڑیوں پر منقسم ہے۔میں آج سورج نکلنے سے پہلے اس قلعے پر حملہ کرنا چاہتا ہوں اور اس مقصد کے لیے میں اپنے ساتھ صرف پانچ سو پیادہ سپاہی لےجانا چاہتا ہوں۔آپ باقی فوج کے ساتھ رات بھر پیشقدمی جاری رکھیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ لوگ چاروں اطراف کا خیال چھوڑ کر آپ کا راستہ روکنے کی فکر کریں گے۔چاندنی رات میں آپ کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ زیادہ خطرناک ہوگا۔اگر صبح تک آپ کوقلعہ فتح ہوجانے کی اطلاع پہنچ جائے تو آپ پیشقدمی روک کر میرے احکام کا انتظار کریں۔اگر قلع فتح ہوجانے کے بعددشمن نے کسی جگہ منظم ہوکر مقابلے کی ہمت کی تو میں قلعے کی حفاظت کے لیے چند آدمی چھوڑ کر آپ کے ساتھ آملوں گا اور اگر انھوں نے قلعہ دوبارا فتح کرنا چاہا تو آپ وہاں پہنچ جائیں۔“
ایک بوڑھے سالار نے کہا۔”مجھے یقین ہے کہ سندھ کی فتح کے لیے خدا نے آپ کو منتخب کیا ہے۔ان شاء اللہ آپ کی کوئی تدبیر غلط نا ہوگی۔لیکن سپہ سالار کا فوج کے ساتھ رہنا ہی مناسب ہے۔سپہ سالار کی جان بہت قیمتی ہوتی ہے۔وہ فوج کا آخری سہارا ہوتا ہے۔اگر اس خطرناک مہم میں آپ کو کوئی حادثہ پیش آگیا تو۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”قادسیہ کی جنگ میں ایرانیوں کو اپنے زبردست لشکر کے باوجود اس لیے شکست ہوئی کہ انھوں نے اپنی طاقت سے زیادہ رستم کی شخصیت سے امدیں وابستہ کیں۔رستم مارا گیا تو وہ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت سے بھاگ نکلے۔ لیکن اس کے برعکس مسلمانوں کے سپہ سالار سعد(رضی اللہ عنہ) بن وقاص گھوڑے پر چڑھنے کے قابل نا تھے اور انھیں میدان سے الگ ایک طرف بیٹھنا پڑا۔ لیکن مسلمانوں کی خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ انھیں اپنے سپہ سالار کی عدم موجودگی کا احساس تک بھی نہ تھا۔ہماری تاریخ میں آپ کو کوئی ایسا واقع نا ملے گا، جب سالار کی شہادت سے بدل ہوکر مجاہدوں نے ہتھار ڈال دیے ہوں۔ہم بادشاہوں اور سالاروں کے لیے نہیں لڑتے۔ہم خدا کے لیے لڑتے ہیں۔بادشاہوں اور سالاروں پر بھروسہ کرنے والے ان کی موت کے بعد مایوس ہوسکتے ہیں، لیکن ہمارا خدا ہر وقت موجود ہے۔قرآن میں ہمارے لیے اس کے احکام موجود ہیں۔میں دعا کرتا ہوں کہ خدا مجھے قوم کے لیے رستم نا بنائے بلکہ مجھے مثنی(رضی اللہ عنہ) بننے کی توفیق دے۔جن کی شہادت نے ہر مسلمان کو جذبہ شہادت سے سرشار کردیا تھا۔میرے لیے اس سپہ سالار کی جان کی کوئی قیمت نہیں جو اسے اپنے سپاہیوں کی تلواروں کے پہروں میں رکھتا ہے اور اپنے بہادروں کو جان کی بازی لگانے کی بجائے جان بچانے کی ترغیب بتاتا ہے۔اگر اس قلعے کو فتح کرنا اس قدر اہم نا ہوتا تو میں یہ مہم شاید کسی اور کےسپرد کردیتا لیکن اس مہم کا خطرہ اور اس کی اہمیت دونوں اس بات کے متقاضی ہیں کہ میں خود اس کی رہنمائی کروں۔“
زبیر نے کہا۔”میں آپ کے ساتھ چلنا چاہتا ہوں۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”نہیں! میں ایک قلعے کو فتح کرنے کے لیے دو دماغوں کی ضرورت نہیں سمجھتا۔میری غیرحاضری میں تمہارا فوج کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔میں اپنی جگہ محمد بن ہارون کو مقرر کرتا ہوں اور تم اس کے نائب ہو۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر93)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر93)
عشاء کی نماز کے بعد محمد بن قاسم نے پانچ سو نوجوان اس مہم کے لیے منتخب کیے اور ان کے گھوڑے باقی لشکر کے حوالے کرکے محمد بن ہارون کو پیش قدمی کا حکم دیا اور خود اپنے جانثاروں کے ساتھ ایک پہاڑی کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھ گیا۔
آدھی رات کے وقت چاند روپوش ہوگیا اور محمد بن قاسم نے قلعے کا رخ کیا۔راستے کی تمام پہاڑیوں کے محافظ محمد بن ہارون کی پیش قدمی کو تمام لشکر کی پیشقدمی سمجھ کر اپنی چوکیاں خالی کرکے مشرق کی طرف جاچکے تھے۔سندھی سواروں نے قلعہ میں بھیم سنگھ کو مشرق کی طرف مسلمانوں کی غیرمتوقع پیش قدمی سے باخبر کردیا تھا اور وہ تین سو سپاہی قلعے کے اندر چھوڑ کر مسلمانوں کے لشکر کی راہ روکنے کے لیے روانہ ہوگیا۔تیسرے پہر محمد بن قاسم قلعے سے ایک میل کے فاصلے پر ایک پہاڑی پر پہنچ چکا تھا۔دو چٹانوں میں بھیم سنگھ کے سواروں کے گھوڑوں کی آواز گونجی اور محمد بن قاسم نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔”وہ قلعہ خالی کرکے جارہے ہیں۔ہمیں جلدی کرنی چاہیے، لیکن قلعے کے اندر حفاظت کے لیے تھوڑی بہت فوج ضرور موجود ہوگی۔اس لیے تمہاری طرف سے کوئی شور نا ہو۔تمہاری طرف سے زرا سے آہٹ قلعہ کے محافظوں کو باخبر کردے گی اور اگر ان کی تعداد چالیس بھی ہوئی تو بھی وہ ہمیں کافی دیر تک قلعے سے باہر روک سکیں گے۔“
یہ ہدایات دینے کے بعد محمد بن قاسم نے اپنے جانبازوں کو چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم کیا اور قلعے کی طرف پیشقدمی کی۔
قلعے کے قریب پہنچ کریہ فوج آس پاس کے ٹیلوں میں چھپ کر بیٹھ گئی۔فصیل پر پہرہ داروں کی آوازوں میں تھکاوٹ اور نیند کی جھلک تھی اور یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ بولنے کی بجائے بڑبڑا رہے ہیں۔محمد بن قاسم اپنے ساتھ دس نوجوان لےکر فصیل کے ایک نسبتاً پرسکون حصے کی طرف بڑھا اور کمند ڈال کر اوپر چڑھنے کے بعد رسیوں کی سیڑھی پھینک دی۔اس جگہ دوپہرےدار گہری نیند سورہے تھے۔آن کی آن میں محمد بن قاسم کے چھ ساتھی فصیل پر چڑھ گئے لیکن ساتواں ابھی اوپر نا پہنچا تھا کہ چند قدم کے فاصلے سے ایک سپاہی نے چونک کر مشعل بلند کرتے ہوئے کہا۔”کون ہے؟“
دوسرے سپاہی نے چلا کرکہا۔”دشمن آگیا۔ہوشیار!“
محمد بن قاسم نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور ساتھ ہی ایک زور دار حملے سے فصیل کا بہت سا حصہ خالی کرالیا۔یہ نعرہ سن کر قلعے کے باہر چھپے ہوئے سپاہی آگے بڑھے اور کمندیں ڈال کر فصیل پر چڑھنے لگے۔قلعے کے اندر آرام سے سونے والے سپاہی ابھی اپنی تلواریں سنبھال رہے تھے کہ محمد بن قاسم کے پچاس سپاہی فصیل پر پہنچ گئے۔پہرے داروں نے زیادہ دیر فصیل پر مزاحمت کرنے کی بجائے اندر جاکر گہری نیند سونے والے ساتھیوں کو جگانا زیادہ مناسب خیال کیا اور انھوں نے زیادہ دیر ڈٹ کر لڑنے پر ایک سرنگ کے راستے فرار ہونے کو ترجیح دی۔سرنگ بہت تنگ تھی اور تمام سپاہی بیک وقت اس میں گھسنا چاہتے تھے۔بعض نے مایوس ہوکر قلعے کا دروازہ کھول دیا اور کوئی پیدل اور کوئی گھوڑے پر سوار ہوکر قلعے سے باہر نکل آیا۔قلعے کا دروازہ کھلتا دیکھ کر مسلمان بھی فصیل پر چڑھنے کا خیال ترک کرکے اس طرف بڑھے اور زیادہ آدمیوں کو فرار کا موقع نا مل سکا۔دشمن نے چاروں طرف سے مایوس ہوکر تلواریں سونت لیں، لیکن تھوڑی دیر مقابلہ کرنے کے بعد ہتھیار ڈال دیئے۔
قلعے کے اندر سرنگ میں جمع ہونے والے سپاہی بری طرح ایک دوسرے سے دست و گریباں ہورہے تھے۔ ان کا شور سن کر محمد بن قاسم ایک پہرے دار کی نیچے گری ہوئی مشعل اٹھا کر چند سپاہیوں کے ساتھ مختلف کمروں سے گزرتا ہوا ایک تہہ خانے کے ایک دروازے تک پہنچا اور فارسی زبان میں بولا:
”تم میں سے جو فرار ہونا چاہے اس کے لیے قلعے کا دروازہ کھلا ہے ۔ تم اپنے ہتھیار پھینک کر جاسکتے ہو۔“
یہ کہہ کر محمد بن قاسم ایک طرف ہٹ گیا۔راجہ کے سپاہیوں میں سے جو فارسی جانتے تھے، انھوں نے ایک دوسرے کو محمد بن قاسم کا مطلب سمجھایا اور محمد بن قاسم کو مخصوص نگاہوں سے دیکھتے ہوئے تہہ خانے سے باہر نکل آئے۔بعض نے سرنگ کو ترجیح دی لیکن محمد بن قاسم کے اشارے سے چند سپاہی تہہ خانے میں داخل ہوئے اور تلواریں سونت کر سرنگ کے منہ پر کھڑے ہوگئے۔
محمد بن قاسم نے کہا۔”جب تمہارے لیے ایک کھلا راستہ موجود ہے تو تم تنگ اور تاریک راستہ کیوں اختیار کرتے ہو۔ہم پر اعتبار کرو۔اگر تمہیں قتل کرنا مقصود ہوتا تو تمہاری گردنیں ہماری تلواروں سے دور نہیں۔“
محمد بن قاسم کے یہ الفاظ سن کر باقی سپاہی بھی ہتھیار پھینک کر تہہ خانے سے باہر نکل آئے۔ محمد بن قاسم نے واپس قلعے کے دروازے پر پہنچ کر اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ قلعے سے باہر نکلنے والوں کے راستے میں مزاحم نا ہوں۔
یہ لوگ جھجک جھجک کر قدم اٹھاتے اور مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتے ہوئے باہر نکل گئے۔مفتوح دشمن کے ساتھ یہ سلوک سندھ کی تاریخ میں ایک نیا باب تھا۔ایک معمر سپاہی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا دروازے تک پہنچا اور کچھ سوچ کر وآپس آگیا۔
محمد بن قاسم نے اس سے کہا۔”اگر قلعے میں تمہاری کوئی چیز کھو گئی ہے تو تلاش کرسکتے ہو۔اس نے غور سے محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور سوال کیا۔”کیا عرب فوج کے سپہ سالار آپ ہیں؟“
”ہاں میں ہوں۔“محمد بن قاسم نے جواب دیا۔
”دشمن کسی حالت میں بھی نیک سلوک کا مستحق نہیں ہوتا۔کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا؟“
”ہمارا مقصد دشمن کو تباہ کرنا نہیں بلکہ اس کو سلامتی کا راستہ دکھانا ہے۔“
”تو یقین رکھیے کہ آپ پر کوئی فتح نہیں پاسکتا۔یہ لوگ جنھیں آپ اپنے رحم کا مستحق سمجھے ہیں، کل آپ کے جھنڈے تلے جمع ہوکر ان مغرور بادشاہوں کے خلاف جنگ کریں گے، جوگرے ہوئے دشمن پر رحم کرنا نہیں جانتے۔“ یہ کہہ کر وہ دروازے سے باہر نکل گیا۔
محمد بن قاسم نے قلعے کا چکر لگایا۔چند تہہ خانے کھانے پینے کی اشیا سے بھرے پڑے تھے اور اصطبل میں ساٹھ گھوڑے موجود تھے۔
محمد بن قاسم کو یقین تھا کہ محمد بن ہارون کے تعاقب میں جانے والی فوج یہ قلعہ فتح ہوجانے کی خبر سنتے ہی وآپس آجائے گی۔اس نے محمد بن ہارون کے پاس چار سوار یہ پیغام دے کر روانہ کیے کہ وہ کسی محفوظ مقام پر پڑاو ڈال کر اس کے احکام کر انتظار کرے۔اس کے بعد اس قلعے کا دروازہ بند کرکے فصیل پر چاروں طرف تیر انداز بیٹھا دیے اور قلعے پر جابجا اسلامی پرچم نصب کردیے۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر94)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر94)
محمد بن قاسم فصیل پر کھڑا طلوحِ آفتاب کا منظر دیکھ رہا تھا۔اسے مشرق سے تیس چالیس سواروں کا ایک دستہ قلعے کی طرف آتا دیکھائی دیا۔محمد بن قاسم اور اس کے ساتھی اسے سندھ کی فوج کا دستہ سمجھتے ہوئے کمانوں پر تیر چڑھا کر بیٹھ گئے۔یہ سوار قلعے سے کوئی تین سو قدم کے فاصلے پرآکر رک گئے اور ایک سوار اپنے ساتھیوں سے علیحدہ ہوکر گھوڑے کو سرپت دوڑاتا ہوا فصیل کی طرف بڑھا۔تیر انداز محمد بن قاسم کے اشارے کے منتظر تھے۔محمد بن قاسم نے انھیں ہاتھ کے اشارے سے منع کیا۔سوار نے فصیل کے نیچے پہنچ کر گھوڑا روکا اور عربی میں کہا۔”ہم زبیر کے ساتھی ہیں۔ہمیں اندر آنے دو۔“
محمد بن قاسم نے آگے جھک کر پوچھا۔”تمہارا نام خالد ہے؟“
”جی ہاں۔“ اس نے جواب دیا۔
”اپنے ساتھیوں کو بلالو۔“
خالد نے پیچھے مڑ کر اپنے ساتھیوں کو ہاتھ سے اشارہ کیا اور محمد بن قاسم نے سپاہیوں کو قلعے کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔قلعے سے باہر نکل کر خالد سے سوال کیا۔”تمہاری بہن کہاں ہے؟“
خالد نے جواب دیا۔”وہ میرے ساتھ ہے لیکن زبیر نہیں آیا؟“
”وہ باقی فوج کے ساتھ ہے۔تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ ہم اس قلعے میں ہیں؟“
”ہمیں یہ خبر مل چکی تھی کہ آپ مکران کی سرحد عبور کرچکے ہیں۔ہم سندھی سپاہیوں کا بھیس بدل کر یہاں پہنچے اور آپ حیران ہوں گے کہ راجہ کی فوج کا سالار ہمیں یہاں سے چار میل دور ایک پہاڑی پر پہرہ دینے کے لیے متعین کرچکا تھا۔ہم سخت بےچینی سے آپ کا انتظار کررہے تھے۔آج قلعے سے فرار ہونے والے سپاہی وہاں پہنچے اور انہوں نے بتایا کہ یہ قلعہ فتح ہوچکا ہے۔ہم آپ کو مبارکباد دیتے ہیں۔سپہ سالار کہاں ہے؟“
محمد بن قاسم نے مسکراتے ہوئے اپنے ایک سپاہی کی طرف دیکھا اور اس نے جواب دیا۔”تم سپہ سالار سے باتیں کررہے ہو۔“
تھوڑی دیر میں خالد کے باقی ساتھی ان کے قریب پہنچ کر گھوڑوں سے نیچے اتر رہے تھے۔محمد بن قاسم نے ان سب پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے کے بعد کہا۔”لیکن تمہاری بہن کہاں ہے؟“
خالد نے مسکرا کر مردانہ لباس میں ایک نقاب پوش کی طرف اشارہ کردیا۔
محمد بن قاسم نے کہا۔”خدا کا شکر ہے کہ آپ کی صحت اب ٹھیک ہے۔ ہاں زبیر باقی فوج کے ساتھ ہے۔“
زبیر کا نام سن کر ناہید نے اچانک اپنے کانوں اور گالوں پر حرارت محسوس کی اور پیچھے مڑکر مایا کی طرف دیکھا۔مایا بھی اس کی طرح مردانہ لباس پہنے ہوئے تھی۔اس نے آنکھ بچا کر ناہید کے بازو پر چٹکی لی اور آہستہ سے کہا۔”ناہید مبارک ہو۔“

محمد بن قاسم نے پھر ایک بار خالد کے تمام ساتھیوں کی طرف دیکھا اور ایک سفیدریش قوی ہیکل آدمی کی طرف مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔شاید تم گنگو ہو۔میں تمہارا اور تمہارے ساتھیوں کا شکر گزار ہوں۔“
گنگو نے محمد بن قاسم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے خالد کی طرف دیکھا۔اور خالد نے کہا۔”گنگو اور اس کے ساتھی مسلمان ہوچکے ہیں اور گنگو نے اپنے لیے سعد کا نام پسند کیا ہے۔“
محمد بن قاسم نے الحمدللہ کہہ کر یکے بعد دیگرے سب سے مصافحہ کیا اور ناصر الدین(جےرام) سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔”آپ غالباً ناصرالدین ہیں۔آپ نے ہمارے لیے بہت تکلیف اٹھائی۔خدا آپ کو جزا دے اور یہ شاید آپ کی ہمشیرہ ہے؟“
خالد نے کہا۔”یہ بھی مسلمان ہوچکی ہے اور اس کا نام زہرا ہے۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر95)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر95)
زہرا نے ناصرالدین کے قریب آکر دبی آواز میں پوچھا۔”یہ کون ہیں؟“ اور ناصرالدین نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرکے یہ سوال خالد کے کانوں تک پہنچا دیا۔
خالد نے بلند آواز میں کہا۔”یہ ہمارے سپہ سالار ہیں۔“
سعد(گنگو) اور اس کے ساتھی حیران ہوکر محمد بن قاسم کی طرف دیکھنے لگے۔ دور سے گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی اور فصیل سے ایک پہرہ دار نے آواز دی۔ ”دشمن کی فوج آرہی ہے۔“
یہ لوگ جلدی سے قلعے میں داخل ہوئے۔محمد بن قاسم نے فصیل پر چڑھ کر دور تک نظر دوڑائی۔جنوب اور مشرق کی طرف سے سندھ کے ہزاروں پیادہ اور سوار سپاہی قلعے کا رخ کررہے تھے۔محمد بن قاسم نے اپنے دس سپاہی گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے نائب تک یہ پیغام پہنچانے کا حکم دیا کہ وہ شام سے پہلے اس جگہ پہنچ جائے۔
سپاہی گھوڑوں پر سوار ہوگئے تو محمد بن قاسم نے انھیں ہدایت کی کہ وہ مغرب سے چکر کاٹ کر حملہ آور لشکر کی زد سے نکل جائے اور پھر اپنی منزل کا رخ کریں۔سپاہی گھوڑوں کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے قلعے سے باہر نکل گئے۔حملہ آور قریب آچکے تھے۔محمد بن قاسم نے قلعے کا دروازہ بند کرنے کا حکم دے کر دوبارا فصیل پر چڑھ کر چکر لگایا اور تیر اندازوں کو ہوشیار رہنے کی تاکید کی۔فصیل کے ایک کونے پر خالد اور اس کے ساتھی نہایت ہی بےتابی سے حملہ آوروں کی آمد کا انتظار کررہے تھے۔ان کے درمیان ناہید اور زہرہ کو دیکھ کر محمد بن قاسم نے کہا۔”خالد انھیں نیچے لےجاو۔یہاں ان کی ضرورت نہیں۔“
ناہید نے جواب دیا۔”آپ ہماری فکر نا کریں۔ہم تیر چلانا جانتی ہیں۔“
”تمہاری مرضی، لیکن زرا سر نیچے رکھو۔“ محمد بن قاسم یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
بھیم سنگھ کے سپاہیوں نے گھوڑوں کو ٹیلوں کے عقب میں چھوڑ کر چاروں طرف سے قلعے کا محاصرہ کرلیا اور چٹانوں اور پتھروں کے مورچے بنا کر قلعے پر تیروں کی بارش کرنے لگے۔قلعے کی فصیل کے مورچوں میں بیٹھنے والوں کے لیے حملہ آوروں کے تیر بےاثر ثابت ہوئے۔محمد بن قاسم نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ فقط قلعے پر دشمن کی یلغار روکنے کے لیے تیروں کو استعمال کریں۔
بھیم سنگھ نے اپنی فوج کے تیروں کا قلعے سے کوئی جواب ناپاکر ”راجہ دہر کی جے“ کا نعرہ بلند کیا اور چٹانوں اور پتھروں کی آڑ میں چھپ کر تیر چلانے والے لشکر نے چاروں طرف سے قلعے پر دھاوا بول دیا۔
جب یہ لشکر قلعہ کے محافظوں کے تیر کی زد میں آگیا تو محمد بن قاسم نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔یہ نعرہ ابھی فضا میں تحلیل نہ ہوا تھا کہ قلعے سے تیروں کی بارش ہونے لگی اور بھیم سنگھ کے سپاہی زخمی ہوہوکر گرنے لگے، لیکن بیس ہزار فوج چند سو سپاہیوں کے نقصان کی پروا نا کرتے ہوئے قلعے کی فصیل تک پہنچ گئی اور کمندیں ڈال کر قلعے پر چڑھنے کی کوشش کرنی لگی لیکن تیروں کی بوچھاڑ کے سامنے ان کی پیش نا گئی۔چند ساعتوں کے بعد بھیم سنگھ کے قریباً دوہزار آدمی قلعے کی دیواروں کے آس پاس ڈھیر ہوکر رھ گئے اور اسے فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دینا پڑا۔
دوسرے پہر تک بھیم سنگھ نے قلعے پر تین بار یلغار کی لیکن تینوں بار اسے مایوس ہوکر پیچھے ہٹنا پڑا۔
سہ پہر کے وقت بھیم سنگھ ایک فیصلہ کن حملے کی تیاری کررہا تھا کہ اسے پیچھے سے محمد بن قاسم کی باقی فوج کی آمد کی اطلاع ملی۔اس نے سواروں کو حکم دیا کہ وہ پیچھے ہٹ کر اپنے گھوڑے سنبھالیں اور پیادہ فوج کے تیر اندازوں کو آس پاس کے پہاڑوں پر متعین کردیا۔دشمن کی نقل و حرکت کو دیکھ کر محمد بن قاسم کو اندازہ ہوگیا کہ کہ دشمن کو محمد بن ہارون کی آمد کی اطلاع مل چکی ہے۔اسے خطرہ پیدا ہوا کہ قلعے کے قریب پہنچ کر وہ چاروں طرف کے ٹیلوں اور پہاڑوں سے تیروں کی زد میں ہوگا۔اس نے جلدی سے کاغذ پر ایک نقشہ بنایا اور محمد بن ہارون کے نام چند ہدایات لکھ کر اپنے سپاہیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”محمد بن ہارون کے یہاں پہنچنے سے پہلے اسے یہ رقعہ پہنچانا ضروری ہے لیکن یہ کام جس قدر اہم ہے اس قدر خطرناک ہے۔اس وقت دشمن کی توجہ دوسری طرف مبذول ہوچکی ہے۔شمال کی طرف سے دشمن کے مورچے تقریباً خالی ہوچکے ہیں اور ہم فصیل سے آدمی اتار سکتے ہیں لیکن پھر بھی محمد بن ہارون تک پہنچنے کے لیے اسے کئی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس مہم کے لیے رضاکار۔۔۔۔۔۔۔!“
خالد نے محمد بن قاسم کا فقرہ پورا نا ہونے دیا اور بولا۔”مجھے اجازت دیجیے۔“
بہت سے سپاہیوں نے خالد کی مخالفت کی اور اپنے نام پیش کیے۔سعد نے کہا۔”میں نے سنا ہےکہ مسلمان اپنے نومسلم بھائی کی خواہش رد نہیں کرتے۔آپ مجھے اجازت دیں۔میرے لباس سے کسی کو مجھ پر شک بھی نہیں ہوگا اور میں اس زمین کے چپے چپے سے واقف ہوں۔“
محمد بن قاسم کو اپنی فوج دشمن کے لشکر کے عقب میں دوتین میل کے فاصلے پر ایک ٹیلے سے اترتی ہوئی دکھائی دی۔اس نے سعد کے ہاتھ میں رقعہ دیتے ہوئے کہا۔”جاو خدا تمہاری مدد کرے۔“
سعد بھاگتا ہوا شمال کی دیوار کی طرف پہنچا اور ایک رسے کے ذریعے نیچے اتر گیا۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر96)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر96)
محمد بن ہارون نے دور سے بھیم سنگھ کے سوار دستوں کو حملے کے لیے تیار دیکھ کر اپنے دستے کو رکنے کا حکم دیا اور مقابلے کے لیے صفیں درست کرنے کے بعد پیش قدمی کا حکم دینے والا تھا کہ لشکر کا دائیں باوزو کا سالار سرپٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا اس کے قریب پہنچا اور اس نے ایک رقعہ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔”یہ تحریر تو سپہ سالار کی معلوم ہوتی ہے۔لیکن لانے والا ایک سندھی ہے۔ہم نے اسے گرفتار کرلیا ہے، وہ بھی عربی جانتا ہے اور کہتا ہے کہ زبیر مجھے جانتا ہے۔ اپنا نام کبھی سعد بتاتا ہے اور کبھی گنگو۔“
زبیر نے چونک کر کہا۔”میں اسے جانتا ہوں۔“
محمد بن ہارون نے رقعہ پرھنے کے بعد کہا۔”سپہ سالار کا رقعہ پڑھنے کے بعد تمہیں اس کے متعلق تحقیقات کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔اگر تم نے اس کے ساتھ کوئی بدسلوکی کی ہے تو جاکر معافی مانگو اور اپنے سواروں سے کہو کے وہ میرے ساتھ آملیں۔زبیر! ہمارے دائیں اور بائیں طرف تمام پہاڑیوں پر دشمن کے تیراندازوں کا قبضہ ہے۔تم میسرہ کے شتر سواروں کو اونٹوں سے اتر کر دونوں بازووں سے پہاڑوں پر حملہ کرنے اور بائیں بازو کے سواروں کو مقدمہ الجیش کے ساتھ شامل ہونے کا حکم دو۔جب تک دشمن کے تیر انداز ان پہاڑوں پر موجود ہیں، ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔“
بھیم سنگھ کی چال نہایت کامیاب تھی۔اگر محمد بن ہارون سامنے سے فوراً حملہ کردیتا تو اس کے لشکر کے دونوں بازووں پر پہاڑوں میں چھپے ہوئے تیرانداز مسلمانوں کی فوج کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوتے۔لیکن بھیم سنگھ کی توقع کے خلاف جب دائیں اور بائیں سے مسلمانوں کی پیادہ فوج پہاڑوں پر چڑھنے لگی، تو اس نے فوراً اگے بڑھ کر حملے کا حکم دے دیا۔۔۔
قلعے کے اندر محمد بن قاسم اس موقع کا منتظر تھا۔اس نے پچاس سپاہیوں کو قلعے کی حفاظت پر متعین کیا اور باقی فوج کو قلعے سے باہر نکال کردشمن پر عقب سے حملہ کرنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا۔سوار اور پیدل سپاہی قلعے کے دروازے پر جمع ہوگئے اور محمد بن قاسم دروازے کے سوراخ میں سے دونوں افواج کی نقل وحرکت دیکھنے لگا۔
خالد، ناصرالدین اور اس کے ساتھی بھی قلعے میں ٹھہرنے والے سپاہیوں سے خود، زرہیں اور عربی لباس حاصل کرکے گھوڑوں پر سوار ہوگئے۔اچانک ناہید اور زہرا کیل کانٹوں سے لیس ہوکر ایک کمرے سے باہر نکلیں اور دروازے کے پاس پہنچ کر کھڑی ہوگئیں۔
خالد نے کہا۔”ناہید! زہرا!! جاو! قلعے کے باہر تمہارا کوئی کام نہیں۔“
ناصرالدین نے اس کی تائید کی۔محمد بن قاسم نے مڑکر ان کی طرف دیکھا اور کہا۔”میں تمہارے جزبہ جہاد کی داد دیتا ہوں۔لیکن تم قلعے کی حفاظت کے لیے سپاہیوں کا ساتھ دےکر ہماری مدد کرسکتی ہو۔
قوم کے لیے بہادر ماوں کا دودھ خون سے زیادہ قیمتی ہے۔نازک وقت آنے پر وہ گھروں کی چار دیواری کو گرتی ہوئی قوم کے لیے آخری قلعہ بناسکتی ہو۔تم یہاں ہوگی تو قلعے کی حفاظت میں یہ چند سپاہی اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے سے دریغ نہیں کریں گے لیکن میدان میں سپاہیوں کو دشمن کا مقابلہ کرنے سے زیادہ تمہاری حفاظت کا خیال ہوگا۔تم میں سے ایک کا زخمی ہوکر گرنا سینکڑوں سپاہیوں کو بددل کردے گا اور یہ معرکہ ایسا نہیں جس کے لیے ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت ہو۔ تم تھوڑی دیر آرام کرلو۔ شاید رات بھر تمہیں زخمیوں کی مرہم پٹی کے لیے جاگنا پڑے۔خالد! انھیں اندر لےجاو۔“
یہ کہہ کر وہ پھر دروازے کے سوراخ میں سے جھانکنے لگا۔جب دونوں افواج گتھم گتھا ہوگئیں، تو محمد بن قاسم نے گھوڑے پر سوار ہوکر دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر97)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر97)
خالد، ناہید اور زہرہ کو کمرے میں چھوڑ کر باہر لوٹا اور ابھی دروازے تک نا پہنچا تھاکہ زہرا نے بھاگ کر اس کا دامن پکڑ لیا۔”خدا کےلیے! مجھے ساتھ لےچلیے! میں زندگی اور موت میں تمہارا ساتھ نہیں چھوڑ سکتی۔“
خالد نے برہم ہوکر جواب دیا۔”زہرا نادان نابنو! تم سپہ سالار کا حکم سن چکی ہو، مجھے جانے دو۔ فوج قلعے سے باہر نکل رہی ہے۔“
زہرا نے آبدیدہ ہوکر کہا۔”خدا کے لیے مجھے بزدل خیال نا کرو__میں تمہارے ساتھ جان دینا چاہتی ہوں۔“
”زہرا!! زہرا!! مجھے چھوڑ دو۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے زہرا کے ہاتھ جھٹک دیے۔لیکن وہ پھر راستہ روک کر کھڑی ہوگئی۔
اس نے آگے بڑھ کرکہا۔”اگر آپ سعادت سے محروم نہیں ہونا چاہتے تو مجھے کیوں محروم رکھنا چاہتے ہیں۔“
”زہرا یہ امیرِ عساکر کا حکم ہے اور جہاد میں امیر عساکر کی حکم عدولی سب سے بڑا جرم ہے۔“
زہرا نے بددل ہوکر خالد کا دامن چھوڑ دیا اور سسکیاں لیتی ہوئی ناہید سے لپٹ گئی۔
خالد بھاگتا ہوا دروازے تک پہنچا، سپاہی جاچکے تھے اور دروازہ بند تھا۔خالد نے پہرے دار سے دروازہ کھولنے کے لیے کہا لیکن اس نے جواب دیا۔”جب تک باہر سے سپہ سالار کا حکم نا آئے، میں دروازہ نہیں کھول سکتا۔“
خالد کے پاوں تلے سے زمین نکل گئی۔اسے خیال آیا کہ وہ اسے بزدل سمجھ کر پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔اس نے بھاگ کر دروازے کے سوارخ سے باھر جھانکا۔قلعے کی پیادہ فوج عقب سے بھیم سنگھ کے دونوں بازووں پر حملہ کرچکی تھی اور محمد بن قاسم ساٹھ سواروں کے ہمراہ براہِ راست قلب لشکر پر حملہ کرچکا تھا۔خالد دشمن کے لشکر کے عین وسط میں ہلالی پرچم دیکھ کر اپنی مٹھیاں بھینچتا اور ہونٹ کاٹتا ہوا پہرےداروں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا۔”انھوں نے میرا انتظار کیاہوگا اور یہ سمجھ لیا ہوگا کہ میں موت کے ڈر سے قلعے میں کہیں چھپ کر بیٹھ گیا ہوں۔ خدا کے لیے دروازہ کھول دو، مجھے جانے دو!“
پہرےدار نے جواب دیا۔”آپ اطمینان رکھیے! سپہ سالار کو یہ شک نہیں کہ آپ بزدل ہیں۔ورنہ شاید آپ کے قتل کا حکم دے جاتے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ لڑکیوں کے پاس آپ کا ٹھہرنا ٹھیک ہوگا۔ہمیں دروازہ کھولنے کی اجازت نہیں۔“
”تو میں فصیل سے کود جاوں گا۔“ یہ کہہ کر خالد فصیل کی سیڑھی کی طرچ لپکا۔راستے میں زہرا کھڑی تھی۔اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن خالد کے تیور دیکھ کر سہم گئی۔
خالد نے اس پرایک قہر آلود نگاہ ڈالی اور کہا۔”اب تم خوش ہونا!“
زہرا نے کہا۔”مجھے معاف کردو! میں ایک عورت ہوں۔“
”خدا ایک زندہ قوم کو تمہارے جیسی عورتوں سے بچائے۔“ خالد یہ کہہ کر بھاگتا ہوا زینے چڑھا اور رسا پھینک کر آن کی آن کی آن میں فصیل سے نیچے اتر گیا۔
زہرا نے بھاگ کر کمرے سے تلوار اٹھائی۔ ناہید نے اٹھائی۔”زہرا! کہاں جارہی ہو؟“
زہرا نے جواب دیا۔”ناہید! تمہارے بھائی نے ہمیشہ مجھے غلط سمجھا، اگر میں واپس نا آسکوں تو اسے کہہ دینا، میں بزدل نا تھی۔کاش! ہمارا سماج عورت کو اپنے پتی کی چتا جلنے کی بجائے کسی مقصد پر قربان ہونا سکھاتا۔“
ناہید نے کہا۔” زہرا! ٹھہرو! زہرا! زہرا!“
لیکن زہرا آندھی کی طرح کمرے میں داخل ہوئی اور بگولے کی طرح باہر نکل گئی ناہید اس کے پیچھے بھاگی لیکن جب تک وہ زینے کے قریب پہنچی وہ فصیل پر چڑھ کر رسیوں کی سیڑھی نیچے پھینک چکی تھی۔سپاہیوں نے اسے روکنا چاہا لیکن اس نے کہا۔”اگر میرا راستہ روکا گیا تو میں فصیل سے کود جاوں گی۔“
سپاہی پریشان ہوکر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور زہرا نیچے اتر گئی۔ناہید نے فصیل پر پہنچ کر آوازیں دیں۔”زہرا! زہرا! پگلی نا بنو۔وآپس آجاو۔“ لیکن ناہید کی ہر آواز کےساتھ اس کی رفتارتیز ہوگئی۔ ناہید نے مایوس ہوکر خود نیچے اترنے کا ارادہ کیا لیکن ایک عمررسیدہ سپاہی نے کہا۔” عورت کا جوش آندھا ہوتا ہے۔اگر آپ نے اس کا تعاقب کیا تو وہ بےتحاشا دشمنوں کی صفوں میں جاپہنچے گی۔“
ناہید نے مایوس ہرکر ایک سپاہی سے تیروکمان مگوایا اور فصیل کے ایک مورچے میں بیٹھ گئی۔ایک گھوڑا اپنے سوار کو میدان میں گرا کر ادھر ادھر بھاگ گیا تھا۔زہرا نے بھاگ کر اس کی لگام پکڑ لی اور اس پر سوار ہوگئی۔اسے گھوڑے پر دیکھ کر ناہید کو قدرے اطمینان ہوا اور وہ اس کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگنے لگی۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر98)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر98)
مسلمانوں کی فوج پر بھیم سنگھ کی فوج کا پہلا حملہ بہت زور دار تھا اور انھیں ایک تنگ وادی میں چند قدم پیچھے ہٹنا پڑا لیکن پیادہ فوج آس پاس کی پہاڑیوں پر قبضہ جما کر تیر برسانے لگی تو سندھ کے لشکر کی توجہ دوحصوں میں بٹ گئی۔عین اس موقع پرمحمد بن قاسم نے قلعے کا دروازہ کھول کر عقب سے حملہ کردیا اور چند سواروں کے ہمراہ دشمن کی صفیں درہم برہم کرتا ہوا لشکر کے قلب تک جاپہنچا۔
لشکر کے عین درمیان سبز پرچم دیکھ کر محمد بن ہارون نے اپنے لشکر کو تین اطراف سے عام حملے کا حکم دے دیا۔زبیر! محمد بن قاسم کی اعانت کے لیے پانچ سو سواروں کو لے کر آگے بڑھا اور آن کی آن میں اس کے ساتھ آملا۔بھیم سنگھ کی فوج بدحواس ہوکر قلعے کی طرف ہٹنے لگی۔وادی میں اٹھتی ہوئی گرد نے شام کے دھندلکے کے ساتھ مل کر آمدِ شب کے آثار پیدا کردیے تھے۔بھیم سنگھ نے آخری بار اپنی فوج کی ٹوٹی ہوئی صفیں منظم کرنے کی کوشش کی۔لیکن زبیر کی تقلید میں محمد بن ہارون کے باقی سپاہی بھی میدان کو صاف کرتے ہوئے محمد بن قاسم کے ساتھ آملے۔
بھیم سنگھ کی فوج غیرمنظم ہوکر مختلف ٹولیوں میں لڑنے لگی۔مسلمانوں کے دباو سے کئی ٹولیاں پسپا ہوکر قلعے کے قریب پہنچ چکی تھیں اور جب قلعے کے محافظ ان پر تیر برسانے لگے تو وہ ندحواس ہوکر ادھر ادھر بھاگ نکلے۔
خالد تیر اندازوں کی ایک جماعت کے ساتھ ایک ٹیلے سے اترا اور نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے دشمن کی ایک ٹولی پر ٹوٹ پڑا۔بدحواس سپاہی ایک طرف ہٹ گئے اور خالد ان کے تعاقب میں اپنے ساتھیوں سے علیحدہ ہوگیا۔دشمن کے سپاہیوں نے موقع پاکر اسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔اچانک ایک سوار گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا اور اس نے اللہ اکبر کہہ کر اس ٹولی پر حملہ کردیا۔خالد اس کی آواز پہچان کر چونکا۔یہ زہرا تھی۔زہرا کی تلوار یکے بعد دیگرے دوسپاہیوں کے سروں پر چمکی اور دونوں گرکر خاک میں لوٹنے لگے۔ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر زہرا پروار کیا۔زہرا کا گھوڑا اچانک بدکا اور تلوار اس کی اگلی ٹانگ پر لگی۔گھوڑے نے چند چھلانگیں لگائیں اور ڈگمگا کر گر پڑا۔مسلمانوں کے دستوں کو قریب آتا دیکھ کر بھیم سنگھ کے سپاہیوں نے میدان کا یہ حصہ بھی خالی کردیا۔۔۔۔۔۔خالد بھاگتا ہوا زہرا کے پاس پہنچا۔وہ گھوڑے کے قریب منہ کے بل پڑی ہوئی تھی۔قریب آکر خالد کے ہاتھ پاوں پھول گئے۔اس کے منہ سے بیک وقت سسکیاں، آہیں اور دعائیں نکلیں۔وہ رکا، جھجکا، کپکپایا اور پھر بھاگ کر زہرا کو اٹھانے لگا۔معاً اسے زہرا کی پیٹھ پر خون کے نشان اور زرہ میں دو تیرآٹکے ہوئے نظر آئے اور زندگی کی تمام حسیات سمٹ کر اس کی آنکھوں میں آگئیں۔اس نے یکے بعد دیگرے دونوں تیر نکال کر پھینک دیے۔۔زہرا نے ایک جھرجھری لینے کے بعد آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔خالد نے چاند کی ہلکی اور پھیکی روشنی میں اس کا زرد چہرہ دیکھا اور کہا۔”تمہیں تکلیف تو نہیں؟“
اس کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔اس نے کہا۔”نہیں! میں نے ان تیروں کو محسوس بھی نہیں کیا۔گھوڑے سے گرنے کے بعد میرا سر چکرا گیا تھا۔میں بالکل ٹھیک ہوں۔میدان کا کیا حال ہے؟“
”میدان خالی ہوچکا تھے۔ خدا نے ہمیں فتح دی ہے لیکن ناہید کہاں ہے؟“
”وہ قلعے میں ہے۔میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں۔“
”وہ کیا؟“
”آپ مجھ سے خفا تو نہیں؟“
”اف! زہرا! مجھے نادم نا کرو۔مجھے اپنی سخت کلامی کا بہت افسوس ہے۔“
وہ بولی۔”نہیں! میں غلطی پر تھا۔مجھے ڈر تھا کہ آپ شاید وآپس نا آئیں لیکن آج میں دیکھ چکی ہوں کہ انسان اپنے معین وقت سے پہلے نہیں مرتا۔میں تیروں کی بارش میں سے گزر کر میدان تک پہنچی لیکن میں نے محسوس کیا کہ قدرت کا زبردست ہاتھ میری حفاظت کررہا ہے۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر99)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر99)
مسلمانوں کی فوج فتح کے نعرے لگاتی ہوئی قلعے کے دروازے کے سامنے جمع ہورہی تھی۔خالد نے کہا۔”چلو زہرا! ناہید بہت پریشان ہوگی۔“
زہرا نے اٹھ کر خالد کے ساتھ چند قدم اٹھائے لیکن اسے چکر آیا اور وہ ڈگمگاتی ہوئی زمین پر بیٹھ گئی۔
اس نے خالد سے پانی مانگا اور خالد نے ایک گرے ہوئے سپاہی کی چھاگل اتار کر اس کے منہ سے لگادی۔زہرا پانی کے چند گھونٹ پی کر اٹھ بیٹھی۔خالد نے کہا۔”زہرا! میں اٹھالوں، خون بہہ جانے سے تم بہت زیادہ کمزور ہوچکی ہو۔“
زہرا نے کہا۔”نہیں! مجھے پیاس کی وجہ سے چکر آگیا تھا۔مجھے فقط آپ کے سہارے کی ضرورت ہے۔“
خالد نے اسے اپنے بازو کا سہارا دیا اور آہستہ آہستہ اس کے ساتھ چلنے لگی۔چندقدم چلنے کے بعد اسے ناصرالدین کی آواز سناہی دی۔”زہرا! زہرا!“ اور اس نے خالد سے کہا۔”بھائی مجھے تلاش کررہا ہے۔اسے آواز دو!“
خالد نے بلند آواز سے کہا۔”زہرا میرے پاس ہے اس طرف۔“
ناصرالدین،زبیر اور ناہید تیزی سے چلتے ہوئے ان کے قریب پہنچے۔ناہید نے بھاگ کر زہرا کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔”زہرا! زہرا! میری بہن تم کیسی ہو؟“
اس نے جواب دیا۔”میں بالکل ٹھیک ہوں۔“
لیکن ناہید نے اپنی انگلیوں پر نمی محسوس کرتے ہوئے اس کی پیٹ پر ہاتھ پھیرا اور چونک کر کہا۔”زہرا تم زخمی ہو؟ بھائی ناصرالدین ! اسے قلعے کے اندر لےچلو۔“
ناصرالدین نے آگے بھر کر زہرا کو اٹھانے کی کوشش کی لیکن اس نے کہا۔”بھیا! میں بالکل ٹھیک ہوں، میں چل سکتی ہوں اور یہ کون ہے؟___بھیا زبیر! مجھے معاف کرنا میں پہچان ناسکی۔“
زبیر نے کہا۔”ننھی بہن! تم اپنے بھائیوں کو بہت پریشان کرتی ہو۔اب چلو ہمیں تمہاری مرہم پٹی کرنی چاہیے۔“
چند قدم چلنے کے بعد انھیں سعد نظرآیا۔وہ جھک جھک کر میدان میں پڑی لاشیں دیکھ رہا تھا۔خالد نے اسے آواز دی۔”چچا! کسے ڈھونڈ رہے ہو۔ہم اس طرف ہیں۔“
وہ بھاگتا ہوا ان کے قریب آیا اور بےقرار ہوکر بولا۔”میرے بیٹے! میری بیٹی! تم کہاں تھے؟“
خالد نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔”ہم آپ کو تلاش کررہے تھے۔“
”تم مجھے تلاش کررہے تھے؟ چور کہیں کے، ناہید سے پوچھو میں کس قدر پریشان تھا۔“
ناہید نے کہا۔”یہ تمہارے لیے بہت پریشان تھے۔ہم نے میدان کا صرف ایک چکر لگایا ہے اور یہ شاید تین چار چکر لگا چکے ہیں۔“
سعد نے کہا۔”صرف اسی میدان میں نہیں، میں تو آس پاس کی تمام پہاڑیوں پر بھی خوار ہوآیا ہوں۔تم نے آواز تو دی ہوتی۔میرا تو گلا بھی بیٹھ گیا۔“
خالد نے کہا۔”میں نے آپ کی آواز نہیں سنی۔ورنہ میں جواب ضرور دیتا۔“
سعد نے کہا۔”ان زخمیوں کی چیخ پکار میں کسی کی آواز سنائی بھی کب دیتی۔“
یہ لوگ باتیں کرتے ہوئے قلعے کے دروازے کے قریب پہنچے تو ناہید نے آہستہ سے سعد کے کان میں کچھ کہا اور وہ چند بار سر ہلانے کے بعد ناصرالدین سے مخاطب ہوا۔میں علیحدگی میں آپ کے ساتھ ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ناصرالدین نے اس کے ساتھ چند قدم چلنے کے بعد رک کرکہا۔”کہیے، کیا ارشاد ہے؟“
سعد نے آس پاس جمع ہونے والے سپاہیوں کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔”یہاں نہیں۔یہاں بہت سے لوگ ہیں۔“
ناصرالدین نے کہا۔”بہت اچھا۔جہاں چاہو، چلے چلو۔“
قلعے کے دروازے سے کوئی پانچ سو قدم دور جاکے سعد نے ایک پتھر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔”آپ بھی بیٹھ جائیں۔“
ناصرالدین اس کے ساتھ دوسرے پتھر پر بیٹھ گیا۔
سعد نے کہا۔”پہلے آپ وعدہ کریں کہ آپ میری بات سن کر میرا سر پھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوجائیں گے؟“
ناصرالدین نے جواب دیا۔”اگر کوئی سر پھوڑنے والی بات ہوئی توضرور پھوڑ دوں گا۔“
سعد نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔”بات تو ایسی کوئی نہیں لیکن پرائے ہاتھ کا کیا اعتبار۔اچھا میں کہہ ہی دیتا ہوں۔بات یہ ہے کہ مایا نہیں! نہیں!! زہرا آپ کی بہن ہے اور میرے لیے بھی وہ بیٹی سے کم نہیں۔خالد بھی مجھے بہت عزیز ہے بالکل اپنے بیٹے کی طرح اور اس سے آگے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کہوں؟ مجھے ڈر ہے کہ آپ خفا ہوجائیں گے!“
ناصرالدین نے کہا۔”میں سمجھ گیا۔تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ خالد اور زہرا کی شادی کردی جائے!“
ہاں! ہاں!! خدا تمہارا بھلا کرے۔میں یہی کہنا چاہتا تھا۔“
”بس اسی بات کے لیے مجھے یہاں تک گھسیٹ لائے ہو؟“
سعد نے جواب دیا۔”مجھے یہ خیال تھا کہ اگر آپ بگڑ کر میری داڑھی نوچنے پر آمادہ ہوجائیں تو دوسرے ہمارا تماشا نا دیکھیں۔“
ناصرالدین نے جواب دیا۔”میں حیران ہوں کہ مجھے آپ نے اس قدر برا خیال کیا۔مجھے گنگو سے نفرت تھی لیکن سعد کی میرے دل میں وہی عزت ہے جو ایک راجپوت کے دل میں اپنے باپ کے لیے ہونی چاہیے۔آپ جس وقت چاہیں، ان سے شادی کرسکتے ہیں۔“
سعد نے کہا۔”میں تو کہتا ہوں کہ ابھی ہوجائے۔“
”لیکن زہرا زخمی ہے!“
سعد نے چونک کرسوال کیا۔”زہرا زخمی ہے؟ مجھے کسی نے کیوں نہیں بتایا! چلو چلیں۔“
ناصرالدین نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔”گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔اس کے زخم بلکل معمولی ہیں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردو ناول”