اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر60)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر60)
__آخری آمید__
رات ک وقت سونے سے پہلے داسو نے کئی بار نرائن داس سے جےرام کے ناآنے کی وجہ پوچھی لیکن اس نے ہر بار یہی جواب دیا کہ شہر میں اس کے کئی دوست ہیں۔کسی نے اپنے پاس ٹھہرالیا ہوگا۔داسو کو جےرام کی ہدایت تھی کہ وہ وآپس آنے تک نرائن داس کے گھر سے باہر نا نکلے۔اگلے دن بھی اس نے طوعاً اور کرہاً جےرام کی اس ہدایت پر عمل کیا۔شام سے کچھ دیر پہلے نراہن داس نے آکر یہ خبر دی کہ جےرام کو ایک عرب کے ساتھ پنجرے میں بند کرکے شہر میں گھمایا جارہا ہے اور صبح سورج نکلنے سے پہلے ان دونوں کو شہر کے چوراہے میں پھانسی دےدی جائے گی۔معلوم ہوا ہے کہ اس نے بھرے دربار میں راجہ کے ساتھ گستاخی کی ہے۔
داسو نے یہ سنتے ہیں شہر کا رخ کیا۔لوگ شہر کے ایک پررونق چوراہے میں ایک بانس کے پنجرے کے گرد جمع ہورہے تھے۔ داسو اپنے مضبوط بازووں سے لوگوں کو ادھر ادھر ہٹاتا ہوا پنجرے کے قریب پہنچا اور پنجرے کے اندر زبیر اور جےرام کو ایک نظر دیکھنے کے بعد الٹے پاوں لوٹ آیا۔تھوڑی دیر بعد وہ گھوڑے پر سوار ہوکر جنگل کا رخ کررہا تھا۔
شہر میں آدھی رات تک چند پہریداروں کے سوا تمام لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔جےرام زبیر کو جنگل میں خالد، ناہید اور مایا سے ملاقات کا واقعہ سنا چکا تھا۔چند پہرےدار سو چکے تھے اور باقی پنجرے کےقریب بیٹھے آپس میں باتیں کررہے تھے۔زبیر نے موقع پاکرکہا۔”وہ رومال کہاں ہے؟“
جےرام نے جواب دیا۔”وہ میری کلائی کے ساتھ بندھا ہوا ہے لیکن ہم دونوں کے ہاتھ پہچھے کی طرف بندھے ہوئے ہیں۔کاش! داسو کو ہماری خبر ہوجاتی۔زبیر! زبیر! میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں!“
”پوچھو!“
”ہمیں سورج نکلنے سے پہلے پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔تمہیں اس وقت سب سے زیادہ کس بات کا خیال آرہا ہے؟“
”میرے دل میں صرف ایک خیال ہے اور وہ یہ کہ میں اب تک خدا اور رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کو خوش کرنے کے لیے دنیا میں کوئی مفید کام نہیں کرسکا۔“
”تمہیں مرنے کا خوف تو ضرور ہوگا؟“
”ایک مسلمان کے ایمان کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ موت سے نہ ڈرے اور ڈرنے سے فائدہ ہی کیا۔انسان خواہ کچھ ہی کرے۔جو رات قبر میں آنی ہے،قبر میں ہی آئے گی۔اگر میری زندگی کے دن پورے ہو چکے ہیں تو میں آنسو بہا کر انھیں زیادہ نہیں کرسکتا لیکن مجھے افسوس ہے کہ ایسی موت ایک سپاہی کی شان کے شایاں نہیں۔“
جےرام نے کہا۔”مجھے ابھی تک یہ خیال آرہا ہے کہ شاید ہم اس سزا سے بچ جائیں۔کبھی میں سوچتا ہوں کہ شاید ابھی بھونچال کے جھٹکے سے یہ شہر مٹی کا ایک ڈھیر بن جائے گا۔کبھی مجھے ایک خیال آتا ہے کہ شاید بھگوان کا کائی اوتار آسمان سے اتر کر راجہ سے کہے کہ ان بےگناہوں کو چھوڑ دو،ورنہ تمہاری خیر نہیں۔ کبھی مجھے یہ امید سہارا دیتی ہے کہ شاید دریائے سندھ اپنا راستہ چھوڑ کر دیبل کا رخ کرلے اور لوگ بدحواس ہوکر شہر سے بھاگ نکلیں اور جاتے جاتے ہمیں آزاد کرجائیں۔تمہیں اس قسم کا کوئی خیال نہیں آتا؟“
”نہیں! مجھے یسے خیالات پریشان نہیں کرتے۔میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر خدا کو میرا زندہ رکھنا منظور ہے تو وہ ہزار طریقوں سے میری جان بچا سکتا اور اگر میری زندگی کے دن پورے ہوچکے ہیں تو میری کوئی تدبیر مجھے موت کے پنجے سے نہیں چھڑا سکتی۔“
جےرام نے کہا۔”زبیر! کاش میں تمہاری طرح سوچ سکتا لیکن میں جوان ہوں اور ابھی زندہ رہنا چاہتا ہوں۔تم بھی جوان ہو لیکن تمہارے سوچنے کا ڈھنگ مجھ سے مختلف ہے۔“
زبیر نے کہا۔”تم بھی اگر میری طرح سوچنے کی کوشش کرو تو دل میں تسکین محسوس کرو گے۔“
جےرام نے جواب دیا۔”یہ میرے بس کی بات نہیں۔“
زبیر نے کہا۔”جےرام! میری ایک بات مانو گے؟“
”وہ کیا؟“
”صبح ہونے میں زیاہ دیر نہیں۔میری اور تمہاری زندگی کے شاید تھوڑے سانس باقی ہیں۔میرے دل پر صرف ایک بوجھ ہے اور اگر تم چاہو تو میں موت سے پہلے اس بوجھ کو اپنے دل سے اتار سکتا ہوں!“
جےرام نے کہا۔”میں اس پنجرے میں تمہارے لیے جو کچھ کرسکتا ہوں، اس کے لیے تیار ہوں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر61)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر61)
”جےرام! ہم نے زندگی کی چند منازل ایک دوسرے کے ساتھ طےکی ہیں اور میں نہیں چاہتا کے مرنے کے بعد ہمارے راستے مختلف ہوں۔میں چاہتا ہوں کہ تم مسلمان ہو جاو۔اگر تم اس وقت بھی کلمہ توحید پڑھ لو تو میری گزشتہ کوتاہیوں کی تلافی ہوجائے گی۔اب اتنا وقت نہیں کے میں تمہیں اسلام کی تمام خوبیوں سے آگاہ کرسکوں۔کاش! میں جہاز پر اس ذمہ داری کو محسوس کرتا لیکن اگر تم میری باتوں پر توجہ دو تو مجھے یقین ہے کہ تم جسیے نیک دل اور صداقت دوست آدمی کو صحیح راستہ دیکھانے کے لیے ایک لمبے عرصے کی ضرورت نہیں۔“
جےرام نے کہا۔”اگر تمہاری باتیں مجھے موت کے خوف سے نجات دلا سکتی ہیں تو میں سننے کے لیے تیار ہوں۔“
زبیر نے کہا۔”اسلام انسان کے دل میں صرف ایک خدا کا خوف پیدا کرتا ہے اور اسے ہر خوف سے نجات دلاتا ہے۔“ ”سنو!“ یہ کہہ کر زبیر نے نہایت مختصر طور پر اسلام کی تعلیم پر روشنی ڈالی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات بیان کیے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی سیرت پر روشنی ڈالنے کے لیے اسلام کی ابتدائی تاریخ کے واقعات بیان کیے۔ اختتام پر زبیر اجنادین، یرموک اور قادسیہ کی جنگوں کے واقعات بیان کررہا تھا اور جےرام یہ محسوس کررہا تھا کہ وہ ساری عمر تاریک غار میں بھٹکنے کے بعد ایک ہی جست میں روئے زمین کے بلند ترین پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ چکا ہے۔اس کی آنکھوں میں امید کی روشنی جھلک رہی تھی۔
رات کے تیسرے پہر جےرام برسوں کے اعتقادات چھوڑ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوچکا تھا۔
زبیر نے پوچھا۔” اب بتاو! تمہارے دل کا بوجھ ہلکا ہوا ہے یا نہیں؟“
جےرام نے کہا۔”میرے دل میں صرف ایک اضطراب باقی ہے اور وہ یہ کہ میں نے موت کی دہلیز پر کھڑے ہوکر اسلام قبول کیا ہے۔ کاش میں چند دن اور زندہ رھ کر تمہاری طرح نمازیں اور روزے رکھتا۔“
زبیر نے جواب دیا۔”ایک مسلمان کو خدا سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔“

پہرے دار نے کسی کو پنجرے کے قریب آتے دیکھ کر آواز دی۔
”کون ہے؟“
ایک آدمی جواب دیے بغیر پنجرے کے قریب پہنچ کررکا۔چند سپاہی اٹھ کرکھڑے ہوگئے۔پہلے سپاہی نے پھر کہا۔” جواب نہیں دیتے۔تم کون ہو؟“
لیکن اتنی دیر میں چند سپاہی اسے پہچان چکے تھے اور ایک نے پرانے ساتھی کا بازو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔”گنواروں کی طرح آوازیں دے رہے ہو انھیں پہچانتے نہیں، یہ سردار بھیم سنگھ ہیں۔مہاراج! آپ اس وقت؟“
”میں قیدیوں کو دیکھنے آیا تھا۔“
دوسرے سپاہی نے کہا۔”مہاراج! آپ بےفکر رہیں۔ یہ چند آدمی ابھی سوئے ہیں!“
بھیم سنگھ نے پوچھا۔”تمہارا نام کیا ہے؟“
اس نے جواب دیا۔”مہاراج! میرا نام سروپ سنگھ ہے۔“
”تم بہت ہوشیار آدمی معلوم ہوتے ہو. میں برہمن آباد کے حاکم سے بات کروں گا کہ تمہیں ترقی دی جائے۔“
”بھگوان سرکار کا بھلا کرے۔میرے چار بچے ہیں۔آپ کا ہونٹ ہلے گا اور میرا کام بن جائے گا!“
”تم فکر نا کرو۔ہاں، قیدی سورہے ہیں؟“
”مہاراج ابھی باتیں کررہے تھے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے آگے بھر کر پنجرے میں جھانک کردیکھا اور بولا۔”مہاراج! یہ جاگ رہے ہیں۔“
”میں جےرام سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں۔“
”مہاراج! آپ کو پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔“ یہ کہہ کر سپاہی نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور وہ پنجرے سے ہٹ کر ایک طرف کھڑے ہوگئے۔
بھیم سنگھ نے پنجرے میں جھانکتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔” جےرام تم بہت بےوقوف ہو۔“ اور پھر اپنا ہاتھ پنجرے میں ڈال کر زبیر کا بازو ٹٹولتے ہوئے آہستہ سے کہا۔”تم اپنے ہاتھ میری طرف کرو۔“ زبیر نے اپنی پیٹھ پھیر کر اپنے بندھے ہوئے ہاتھ اس کی طرف کردیے۔بھیم سنگھ نے دوبارا بلند آواز میں کہا۔”نمک حرام! تمہیں راجہ کے سامنے اس ملیچھ عرب کی دوستی کا دم بھرتے ہوئے شرم نہ آئی۔“ اور پھر آہستہ سے کہا۔”جےرام! میں تمہارے ساتھی کی ہاتھوں کی رسیاں کاٹ رہا ہوں۔ کچھ بولو ورنہ سپاہیوں کو شک پڑ جائے گا۔“
جےرام نے چلا کرکہا۔”بھیم سنگھ شرم کرو۔ یہ ایک راجپوت کی شان کے شایان نہیں کہ وہ کسی کو بےبس دیکھ کر گالیاں دے!“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر62)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر62)
میں تمہارے جیسے بزدل کو گالیاں دینا اپنی بےعزتی سمجھتا ہوں۔میں صرف یہ پوچھنے کے لیے آیا ہوں کہ تم نے اس لڑکی اور لڑکے کو کہاں چھپایا ہے!“
”مجھے ان کا کوئی علم نہیں۔جاو مجھے تنگ نا کرو۔“
زبیر کے ہاتھ آزاد ہوچکے تھے۔بھیم سنگھ نے اس کے ہاتھ میں خنجر دیتے ہوئے آہستہ سے کہا۔”مجھے افسوس ہے کہ میں تمہارے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا۔تمہارے لیے یہ پنجرہ توڑ کر بھاگ نکلنا ممکن نہیں لیکن پھر بھی قسمت آزمائی کر دیکھو۔اگر تم آزاد نا بھی ہوسکے تو کم ازکم بہادروں کی موت مرسکو گے۔“
سپاہیوں کو مغالطے میں ڈالنے کے لیے بھیم سنگھ نے اپنا لہجہ تبدیل کرتے ہوئے کہا۔”مجھے یقین ہے کہ عرب لڑکی کو تم نے کہیں چھپا رکھا ہے۔اچھا تمہاری مرضی،بنا بتاو لیکن یاد رکھو، سورج نکلنے سے پہلے برہمن آباد کے باشندے تمہیں پھانسی کے تختوں پر دیکھ رہے ہوں گے۔“
بھیم سنگھ نے پنجرے سے چند قدم دور جا کر سپاہیوں سے کہا۔”تم ایک طرف کیوں کھڑے ہو۔مجھے ان سے کوئی مخفی بات نہیں کرنی تھی۔ذرا اس جےرام کو دیکھو اس کا غرور ابھی تک نہیں ٹوٹا۔“
سپاہی نے جواب دیا۔”مہاراج! اس کی قسمت بری تھی۔ورنہ ہم نے سنا ہے کہ راجہ اس کی بہت قدر کرتا تھا۔مہاراج! شہر کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ عرب جادوگر ہے۔اس نے جادو کی طاقت سے جےرام کو راجہ کا نافرمان بنا دیا تھا۔“
بھیم سنگھ نے کہا۔”شاید یہی بات ہو۔مجھے بھی اس کے پنجرے کے قریب نہیں جانا چاہیے تھا۔“
”نہیں مہاراج! آپ پر اس کے جادو کا کیا اثر ہوگا۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی آپ گھر جاکر پراتھنا کریں۔“
”تم بہت سمجھ دار ہو۔میں جاتا ہوں، میرا سر چکرا رہا ہے۔شاید یہ جادو کا اثر ہے!“
”مہاراج! اگر حکم ہو تو ہم میں سے کوئی ایک آپ کو گھر چھوڑ آئے؟“
”نہیں! نہیں! اس کی ضرورت نہیں۔“
بھیم سنگھ چل دیا تو سپاہی نے پیچھے سے آواز دےکر کہا۔”مہاراج! میرا خیال رکھنا۔“
”تم فکر نا کرو!“
”ایشور آپ کا بھلا کرے۔“
بھیم سنگھ کے چلے جانے کے بعد ایک سپاہی نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔”دیکھا میں نا کہتا تھا یہ جادوگر ہے، تم نا مانتے تھے۔سروپ سنگھ تمہاری خیر نہیں۔تم کئی بار پنجرے کو ہاتھ لگا چکے ہو۔اب تک تمہارا سر نہیں چکرایا؟“
”میرا سر۔۔۔۔۔؟ ہاں کچھ بوجھل سا ضرور ہے۔“
”فکر نا کرو۔ابھی چکرانے لگ جائے گا۔“
سروپ سنگھ نے فکر مند سا ہوکر کہا۔”لیکن میں نے سنا ہے کہ جادوگر کے مرنے سے جادو کا اثر نہیں رہتا۔“
”ایسے جادوگر مر کر پھر زندہ ہوجاتے ہیں۔“
ایک اور سپاہی بولا۔”یار میں نے پنجرے کو ہاتھ لگایا تھا۔میرا سر بھی چکرا رہا ہے۔“
سروپ سنگھ بولا۔”بھگوان ایسے جادوگر کو غارت کرے۔اب میرا سر سچ مچ چکرا رہا ہے۔“
ان باتوں کا یہ اثر ہوا کہ سپاہی آٹھ دس قدم ہٹ کر پہرہ دینے لگے۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر63)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر63)
زبیر پنجرے کےاندر اپنے پاوں کی رسیاں کاٹنے کے بعد جےرام کے ہاتھ پاوں بھی آزاد کرچکا تھا اور دونوں پنجرے کی سلاخوں کے ساتھ زور آزمائی کررہے تھے۔
ایک سپاہی نے چلا کرکہا۔”ارے وہ پنجرے میں کیا کررہے ہیں؟“
زبیر اور جےرام دبک کر بیٹھ گئے اور آنکھیں بند کرکے خراٹے لینے لگے۔دوسپاہیوں نے پنجرے کے گرد چکر لگایا اور مطمئیں ہوکر اپنے ساتھیوں سے جاملے۔
جےرام نے آہستہ سے کہا۔”زبیر!“
اس نے جواب دیا۔”کیا ہے؟“
”یہ سلاخیں بہت مضبوط ہیں۔قدرت نے ہمارے ساتھ مذاق کیا ہے، کیا تمہیں اب بھی چھٹکارا حاصل کرنے کی کوئی امید ہے؟“
”میرا دل گواہی دیتا ہے کہ خدا ہماری مدد کرے گا!“
جےرام نے کہا۔” برہمن آباد میں سینکڑوں سپاہیوں پر بھیم سنگ کا اثر ہے۔شاید وہ آخری وقت میں ہماری مدد کرے۔“
”میں صرف خدا سے مدد مانگتا ہوں اور تمہیں بھی اسی کا سہارا لینا چاہیے اگر اسے ہمارا زندہ رکھنا منظور ہے تو ہم بھیم سنگھ کی مدد کے بغیر بھی رہا ہو جائیں گے۔“
”میں تمہارے ایمان کی پختگی کی داد دیتا ہوں لیکن برا نا منانا یہ سلاخیں خودبخود ٹوٹنے والی نہیں۔“
زبیر نے کہا۔”جےرام! جہاں عقل کے چراغ گل ہوجاتے ہیں وہاں ایمان کی مشعل کام دیتی ہے۔تم ایک ایسے خدا پر ایمان لاچکے ہو، جس نے ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ کو گلزار بنا دیا تھا۔“
جےرام کچھ کہنے والا تھا کہ باہر سے ایک سپاہی چلایا۔”کو ہے؟“
ایک شخص نے چند قدم کے فاصلے سے جواب دیا۔”جی میں ماہی گیر ہوں!“
”یہاں کیا کررہے ہو؟“
”جی میں مچھلیاں لایا ہوں۔“
”مچھلیاں! اس وقت؟“
”جی اب دن نکلنے والا ہے۔میرا ارادہ ہے کہ انھیں بیچ کر جلدی وآپس چلا جاوں۔آپ کو کوئی مچھلی چاہیے؟“
ایک سپاہی نے کہا۔”سروپ سنگھ تم لے لو۔تمہارے چار بچے ہیں۔“
مچھیرے نے کہا۔”ہاں سرکار لے لو! بالکل تازہ ہے۔“
سروپ سنگھ نے جواب دیا۔”ہم اس وقت پیسے باندھ کرتھوڑی بیٹھے ہیں۔مفت دینی ہے تو دےجاو۔“
”جی! شہر کے عام لوگ بھی ہم سے مفت چھین لیتے ہیں۔آپ تو سپاہی ہیں، آپ سے کون پیسے مانگ سکتا ہے!“
یہ کہتے ہوئے ماہی گیر نے مچھلیوں کی ٹوکری سپاہی کے آگے رکھ دی۔“
ایک سپاہی نے کہا۔”ارے تمہارے پاس تو کافی مچھلیاں ہیں۔ہمیں بھی دو گے یا نہیں؟“
سروپ سنگھ نے کہا۔”نہیں! نہیں! اس بیچارے پر ظلم نا کرو۔میں تو اس کا روز کا گاہک ہوں۔میں مفت تھوڑا لےرہاں ہوں۔کل پیسے ادا کردوں گا۔“
یہ کہتے ہوئے سروپ سنگھ نے مچھلی اٹھا لی اور شرارت آمیز تبسم کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھنے لگا اور انھوں نے ہنستے ہوئے آن کی آن میں ساری ٹوکری خالی کردی۔
سروپ نے کہا۔”لو بھئی! تمہارا بوجھ ہلکا ہوگیا۔اب کل اسی جگہ اور اسی وقت پیسے لےلینا۔“
”بہت اچھا سرکار!“
پنجرے کے اندر زبیر جےرام سے کہہ رہا تھا۔”یہ گنگو ہے۔لیکن یہ اکیلا کیوں آیا ہے؟“
گنگو نے سپاہیوں سے کہا۔”مجھے الغوزہ بجانا آتا ہے.آپ کو سناو؟“
سپاہیوں نے یک زبان ہوکر کہا۔”ہاں ہاں سناو!“
گنگو نے الغوزے سے چند دل کش تانیں نکالیں اور اس کے ساتھی عام شہریوں کے لباس میں مختلف گلیوں سے نکل کر سپاہیوں کے گرد جمع ہونے لگے۔ایک سپاہی نے اپنے ساتھی سے کہا۔”ارے اس نے تو خوامخواہ مچھیرے کا ذلیل پیشہ اختیار کررکھا ہے۔یہ تو الغوزہ بجا کے کافی پیسے کماسکتا ہے۔“
گنگو کے ساتھی ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے۔” مجھے اس کی تانوں نے گہری نیند سے بیدار کیا ہے اور پھر میرا سونے کو جی نا چاہا۔“
”مجھے وسنتی کی ماں کہتی تھی کہ جاو دیکھو۔کوئی فقیر ہوگا۔“۔۔۔۔۔۔۔”ارے میرے محلے کے سارے لوگ پریشان ہیں کہ یہ کون ہے؟“
گنگو الغوزہ بجاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھی اچانک تلواریں سونت کر سپاہیوں پر پل پڑے اور آن کی آن میں ان کا صفایا کردیا۔داسو نے کلہاڑے کی چند ضربوں سے پنجرے کا دروازہ توڑ دیا اور جےرام اور زبیر لپک کر باہر نکل آئے۔
چوک کی آس پاس کی آبادی نے الغوزے کی دلکش تانوں کے بعد حملہ آوروں اور سپاہیوں کی غیر متوقع چیخ وپکار سنی لیکن اپنے گھروں سے باہر نکل کر دیکھنے کی جرات نا کی___زبیر اور جےرام گنگو اور اس کے ساتھیوں کے ہمراہ بھاگتے ہوئے شہر سے باہر نکلے۔گنگو کے چند ساتھی ایک باغ میں گھوڑے لیے کھڑے تھے۔
جس وقت شہر میں اس ہنگامے کا ردِ عمل شروع ہورہا تھا یہ لوگ گھوڑوں پر سوار ہوکر جنگل کا رخ کررہے تھے۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر64)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر64)
ناہید اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی اور مایا اس کے قریب بیٹھ کر آہستہ آہستہ اس کا سر دبا رہی تھی۔خالد بےقراری کے ساتھ کمرے میں ادھر ادھر ٹہلتا ہوا بستر کے قریب آکر بولا۔”ناہید بہت دیر ہو گئی ہے۔انھیں اس وقت تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔کاش! میں یہاں ٹھہرنے پر مجبور نا ہوتا۔“
مایا نے خالد کی طرف دیکھا اور پھر آنکھیں جھکا کر تسلی آمیز لہجے میں بولی۔”مجھے اب بھی یقین نہیں آتا کہ راجہ دہر اس قدر ظالم ہوسکتا ہے، ممکن ہے داسو___!“
خالد نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔”تمہاری نیک خواہشات ایک بھیڑیے کو انسان نہیں بنا سکتیں۔“
مایا نے جھجکتے ہوئے کہا۔”آپ فکر نا کریں، وہ آجائیں گے۔“
”زبیر پھانسی پر لٹک رہا ہے اور مجھے فکر نا ہو۔کاش! میں گنگو کے ساتھ ہوتا۔“ یہ کہتے ہوئے خالد نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں اور ہونٹ کاٹتا ہوا باہر نکل گیا۔مایا دیوی ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ناہید کو دیکھنے لگی اور وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے ہوئے بولی۔”مایا! اس نے تمہیں تو کچھ نہیں کہا۔ تم زرا زرا سی بات پررو پڑتی ہو۔“
مایا نے جواب دیا۔”آج ان کے تیور دیکھ کر مجھے ڈر لگتا ہے۔اگر وہ ناکام آئے تو کیا ہوگا؟“
ناہید نے کہا۔”وہ ایک خطرناک مہم پر گئے ہیں اور ان کی کامیابی اور ناکامی میں ہمارا کوئی دخل نہیں۔“
”اگر گنگو اور اس کے ساتھی لڑائی میں مارے گئے تو آپ اپنے وطن چلیں جائیں گے اور میں۔۔۔۔۔“
ناہید نے جواب دیا۔”میری ننھی بہن! تم اپنے لیے عرب کی زمین تنگ نا پاو گی۔“
”لیکن خالد آج بات بات پر مجھ سے بگڑتے ہیں۔ممکن ہے وہ مجھے یہیں چھوڑ جائیں۔“
”مایا! میرے سامنے خالد نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔ہاں تمہارے بھائی اور زبیر کے متعلق یہ المناک خبر سننے کے بعد وہ کچھ بےقرار سا ہے۔خدا کرے وہ زندہ بچ کر آجائیں۔تو پھر خالد کے چہرے پر تمام عمر مسکراہٹیں دیکھا کرو گی۔“
خالد کی مسکراہٹوں کا ذکر مایا کو تھوڑی دیر کے لیے تصورات کی حسین وادی میں لے گیا۔اسے یہ اجڑی ہوئی دنیا مہکتے ہوئے پھولوں کی کیاری دکھائی دینے لگی۔وہ پھولوں سے کھیل رہی تھی۔مہکتی ہوئی ہوا کے جھونکوں سے سرشار ہورہی تھی۔چڑیوں کے چہچے سن رہی تھی۔ وہ ایک عورت تھی جسے محبت تنکوں کا سہارا لینا اور امید دریا کے کنارے مٹی کے گھروندے بنانا سیکھاتی ہے لیکن ایک خیال بادِ سموم کے تیز جھونکوں کی طرح آیا اور مایا کے دامنِ امید میں مہکتے ہوئے پھول مرجھا گئے۔تصور کی نگاہیں عرب کے ریگ زاروں اور نخلستانوں میں گھومنے کے بعد برہمن آباد کے چوراہے میں اپنے بھائی کو پھانسی کے تختے پر لٹکا ہوا دیکھنے لگیں۔وہ ایک بہن تھی۔ایسی بہن جو اپنے گھر میں مسرت کے قہقہے سننے کے باوجود بھائی کی ایک ہلکی سی آہ پر چونک اٹھتی تھی۔مایا نے اپنے دل میں کہا۔”بھیا!! میرے بھیا!!! خدا تمہیں وآپس لائے۔تمہارے بغیر مجھے کسی کی مسکراہٹ خوش نہیں کرسکتی۔“
ناہید نے اس کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہوئے کہا۔”مایا! تمہیں واقعی خالد سے اس قدر محبت ہے۔“
مایا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور دوپٹے میں اپنا چہرہ چھپا کر ہچکیاں لینے لگی۔
ناہید نے پھر کہا۔”مایا معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں مجھ پراعتبار نہیں آتا۔میں خالد کو جانتی ہوں۔وہ۔۔۔۔۔۔“
مایا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔”نہیں! نہیں!! میں اپنے بھائی کے متعلق سوچ رہی ہوں۔“
قلعے کا ایک پہریدار بھاگتا ہوا آیا. ناہید نے اپنا چہرہ دوپٹے میں چھپا لیا اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔
پہریدار نے کہا۔”خالد گھوڑے پر زین ڈال رہا ہے۔وہ میرا کہا نہیں مانتے۔انھیں برہمن آباد کا راستہ بھی معلوم نہیں۔اگر کوئی حادثہ پیش آگیا تو گنگو مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا۔آپ انھیں منع کریں!“
ایک لمحہ کے لیے مایا کا دل بیٹھ گیا۔پھر زور زور سے دھڑکنے لگا، وہ اٹھی اور بے تحاشا بھاگتی ہوئی قلعے سے باہر نکل آئی۔اس کا دل یہ کہہ رہا تھا۔”خالد مت جاو! مت جاو! میں بھائی کا غم برداشت کرسکتی ہوں لیکن تمہارے بغیر زندہ نہیں رھ سکتی۔خالد مجھ پر رحم کر۔خالد!! خالد!!!“
قلعے سے باہر خالد گھوڑے کی لگام تھام کر اپنا ایک پاوں رکاب میں رکھ چکا تھا۔مایا نے بھاگتے ہوئے آواز دی۔”ٹھہرو! خدا کے لیے! ٹھہرو!! اکیلے مت جاو! میں تمہارے ساتھ ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے گھوڑے کی لگام پکڑ لی۔
خالد نے اپنا پاوں رکاب سے نکال لیا اور پریشان سا ہوکر مایا کی طرف دیکھنے لگا۔اتنی دیر میں ناہید بھی بار آچکی تھی۔مایا ناہید کی طرچ متوجہ ہوکر بولی۔”بہن انھیں روکو! یہ موت کے منہ میں جارہے ہیں۔بھگوان کے لیے! خدا کے لیے! انھیں روکو!“
ناہید نے ان کے قریب پہنچ کر کہا۔”خالد! اگر تمہارے جانے میں کوئی مصلحت ہوتی تو میں اس بےکسی کے باوجود تمہارا راستہ نا روکتی۔تم اکیلے شہر میں راجہ کے تمام لشکر کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔تمہیں گنگو کا انتظار کرنا چاہیے۔وہ ضرور آئے گا۔اگر وہ نا آیا تو اس کا کوئی نا کوئی ساتھی ضرور آئے گا۔بیشک تم بہادر ہو۔لیکن ایسے موقعوں پر صبر سے کام لینا ہی بہادری ہے۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر65)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر65)
خالد نے جواب دیا۔” آپا! تمہیں بخار ہے۔تم جاکر آرام کرو۔میں صرف ان کی راہ دیکھنے جارہا ہوں۔یہ وعدہ کرتا ہوں کہ دور نہیں جاوں گا۔“
مایا نے کہا۔”نہیں! نہیں!!! بہن انھیں مت جانے دو۔یہ وآپس نہیں آئیں گے۔“
خالدنے کہا۔”مایا! ممکن ہے کہ راجہ کے سپاہی ان کا تعاقب کررہے ہوں۔ان کی مدد میرا فرض ہے۔تم اپنے بھائی کا خیال کرو!“
مایا نے جواب دیا۔”میرا بھائی اگر خطرے میں ہے تو آپ اس کی مدد نہیں کرسکتے۔“
خالد کچھ کہنا چاہتا تھا مگر دور سے ایک شخص جو درخت پر چڑھ کر پہرہ دے رہا تھا چلایا۔”وہ آرہے ہیں۔“ اور معاً جنگل میں گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ایک اور پہرے دار بھاگتا ہوا آیا اور بولا۔”شاید دشمن ان کا پیچھا کررہے ہوں۔تم قلعے کے تہہ خانے میں چھپ جاو۔“
خالد نے اطمینان سے جواب دیا۔”چھپنے کی ضرورت نہیں۔اگر سپاہی ان کے تعاقب میں ہوتے تو وہ اس طرف نا آتے، لیکن یہ تو بہت تھوڑے گھوڑے معلوم ہوتے ہیں۔خدا خیر کرے۔“
گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز قریب آرہی تھی اور خالد نے دوسری بار چونک کرکہا۔” معلوم ہوتا ہے کہ صرف چار گھوڑے وآپس آئے ہیں۔“
گھوڑوں کے آمد کی خبر پاکر ناہید نے اپنے دل میں زبردست دھڑکن محسوس کی اور جب خالد نے یہ کہا کہ صرف چار گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سنائی دے رہی ہے تو امید کے چراغ روشن ہوکر اچانک بجھ گئے۔اس کی حالت غم داندوہ کے بحرِ بیکراں میں ٹوٹی ہوئی کشتی کے اس ملاح سے مختلف نا تھی جو اٹھتی ہوئی لہر کو ساحل سمجھنے کا دھوکا کھا چکا ہو۔وہ محسوس کررہی تھی کہ قدرت آخری بار امید کا دامن اس کے ہاتھ سے چھین رہی ہے۔تھوڑی دیر بعد ایک گھوڑا جھاڑیوں کے عقب سے نمودار ہوا۔سوار نے قریب پہنچ کر باگیں کھینچ لیں اور گھوڑے سے کود کر مایا کی طرف بڑھا۔مایا۔” بھیا!! میرا بھیا!!!“ کہتی ہوئی اس کے ساتھ لپٹ گئی۔ناہید اور خالد کی نگاہیں جھاڑیوں کی طرف تھیں۔جےرام کو دیکھ کر ناہید زبیر کے متعلق پھر ایک بار امید کے چراغ روشن کررہی تھی۔جےرام کے بعد داسو اور اس کے پیچھے گنگو اور زبیر جھاڑیوں کے عقب سے نمودار ہوئے۔زبیر کو دیکھ کر ناہید جھجکتی ہوئی دوتین قدم آگے بڑھی۔زبیر اس کے قریب پہنچ کر نیچے اترا۔خالد بھاگ کر اس سے لپٹ گیا۔ناہید نے چاہا کہ بھاگ کر اپنے کمرے میں پہنچ جاوں لیکن اس نے محسوس کیا کہ اس کے پاوں زمین میں پیوست ہوچکے ہیں۔اس کے اعضاء میں رعشہ ہے۔اس کا سر چکرا رہا تھا۔مہینوں کے تھکے ہوئے مسافر کی طرح منزل کو اچانک اپنے قریب دیکھ کر اس کی ہمت جواب دے چکی تھی۔
زبیر خالد سے علیحدہ ہوکر آگے بڑھا اور بولا۔”ناہید! اب تم اچھی ہونا۔“
وہ جواب دینے کی بجائے اپنے چہرے کا نقاب درست کرنے لگی۔
زبیر نے پھر کہا۔”ناہید! تمہارا زخم کیسا ہے؟“
ناہید کے ہونٹ کپکپائے، اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔” خدا کا شکر ہے کہ آپ آگئے۔میں ٹھیک ہوں۔“ اس کےآخری الفاظ ایک گہری سانس میں ڈوب کر رھ گئے۔ اور وہ لڑکھڑا کر زمین پر گرپڑی۔

جب اسے ہوش آیا تو وہ اپنے کمرے میں بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔خالد اور مایا کے مغموم لہجے دیکھنے کے بعد اس کی نگاہیں زبیرپر مرکز ہوکر رھ گئیں۔ مرجھائے ہوئے چہرے پر اچانک حیا کی سرخی چھا گئی اور وہ اپنے چہرے پر نقاب ڈالتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔گنگو اور جےرام دروازے سے باہر کھڑے تھے۔ خالد نے ان کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔ناہید کو ہوش آگیا۔آپ فکر ناکریں۔“
زبیر نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔”ناہید! اب ہماری مصیبت ختم ہونے والی ہے۔میں آج ہی جارہا ہوں۔“
مایا ایک عورت کی ذکاوتِ حس سے زبیر کے متعلق ناہید کے حزبات کا اندازاہ لگا چکی تھی۔اس نے جلدی سے کہا۔”نہیں آپ یہیں ٹھہریں۔اس وقت سارے سندھ میں آپ کی تلاش ہورہی ہوگی۔“
زبیر نے جواب دیا۔”میرے لیے سندھ کی سرحد پار کرنے کا یہی ایک موقع ہے۔کل تک تمام راستوں کی چوکیوں کو ہمارے فرار ہونے کی اطلاع مل جائے گی۔ہمارے باقی ساتھی راجہ کے سپاہیوں کو چکمہ دینے کے لیے مشرق کے صحرا کا رخ کررہے ہیں۔میں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں۔خالد! تم یہیں رہو گے۔اگر اس جگہ کوئی خطرہ پیش آیا تو گنگو تمہیں کسی محفوظ مقام پر لے جائے گا۔عرب سے ہمارے افواج کی آمد تک اگر ناہید گھوڑے پر چڑھنے کے قابل ہوگئی تو گنگو تمہیں مکران پہنچا دے گا۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر66)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر66)
ناہید نے کہا۔”جب تک میری بہنیں قید میں ہیں میں یہیں رہنا پسند کروں گی۔خدا آپ کو جلد وآپس لائے! ہم آپ کا انتظار کریں گے۔میرا خط آپ کو مل گیاہوگا۔وآپس آنے میں دیر نا کریں۔ ہاں میں علی کا حال پوچھنا چاہتی ہوں۔“
”علی آپ کو بہت یاد کرتا ہے۔دیبل کے گورنر نے اسے بہت اذیت دی ہے۔لیکن وہ ایک بہادر لڑکا ہے۔وہ خواہ کسی حالت میں بھی ہو نماز کے وقت اذان ضرور دیتا ہے۔یہ لوگ اذان سے بہت گھبراتے ہیں۔اسے باڑا کوڑوں کی سزا دی جا چکی ہےلیکن اس کے استقلال میں کوئی فرق نہیں آیا۔برہمن آباد کے قید خانے میں بھی اس کا یہی حال ہے۔راجہ کے سپاہی اسے زبان کاٹ دینے کی دھمکی دے چکے ہیں لیکن اس کا ارادہ متزلزل نہیں ہوا۔“
ناہید نے کہا۔”یہ آپ کی صحبت کا اثر ہے۔ورنہ وہ اتنے مضبوط دل کا مالک نا تھا۔سراندیپ میں اسے ایک کمزور لڑکا سمجھا جاتا تھا۔“
زبیر نے جواب دیا۔”انسان کے عیوب اور محاسن صرف خطرے کے وقت ظاہر ہوتے ہیں۔“
دروازے پر سے گنگو نے آواز دی۔”اب دوپہر ہونے والی ہے۔آپ کو دیر نہیں کرنی چاہیے۔“
ناہید نے کہا۔”آپ جائیں! خدا آپ کی مدد کرے۔لیکن آپ کو مکران تک خشکی کا راستہ معلوم ہے؟“
زبیر نے جواب دیا۔”داسو میرے ساتھ جارہا ہے اور وہ تمام راستوں سے واقف ہے۔میں مکران کی سرحد پر پہنچ کر اسے وآپس بھیج دوں گا!“
مایا نے کہا۔”لیکن اس لباس میں آپ فوراً پہچانے جائیں گے۔“
زبیرنے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”میری ننھی بہن کو میرا بہت خیال ہے لیکن اسے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔میں سندھی لباس پہن کر جارہا ہوں اور اب تو میں سندھ کی زبان بھی سیکھ چکا ہوں۔کوئی مجھ پر شک نہیں کرے گا!“
مایا نے کہا۔”آپ مجھے بہن کہہ کر بہت سے ذمہ داریاں اپنے سر لے رہے ہیں۔یاد رکھیے! ہمارے ملک میں دھرم کے بہن بھائیوں کا رشتہ سگے بہن بھائیوں کے رشتے سے کم مضبوط نہیں ہوتا۔اگر آپ مجھے اپنی بہن کہتے ہیں تو ہفتوں کا سفر دنوں میں کیجیے۔ہماری مصیبت آپ کے ساتھیوں کی مصیبت سے کم نہیں۔وہ میرے بھائی کی تلاش میں سندھ کا کونا کونا چھان ماریں گے۔مجھے ڈر ہے کہ آپ کی افواج کے آنے سے مایوس ہوکر کہیں میرا بھائی کاٹھیاوار کی طرف فرار ہونے پر آمادہ نا ہوجائے۔“
جےرام نے باہر سے بلند آواز میں کہا۔”مایا کیا کہتی ہے۔میں ایک راجپوت ہوں۔نہیں، بلکہ ایک مسلمان بھی ہوں۔میں اپنے محسنوں کو چھوڑ کر کہاں جاسکتا ہوں۔“
”مسلمان؟ میرا بھائی ایک مسلمان؟“ مایا یہ کہتی ہوئی ناہید کی چارپائی سے اٹھ کر بھاگی اور باہر نکل کر جےرام سے لپٹ گئی۔اس کا دل دھڑک رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔”بھیا! سچ کہو تم مسلمان ہوگئے؟“
اس نے جواب دیا۔”مایا! پارس سے ٹکڑا کر لوہا، لوہا نہیں رہ سکتا۔تم روٹھ تو نا جاو گی؟“
”میں__؟“ اس نے الگ ہوکر آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔”میں کیسے روٹھ سکتی ہوں۔خدا نے میری دعائیں سن لیں۔میری منتیں قبول کرلیں۔بھیا مبارک ہو لیکن تمہارا اسلامی نام؟“
زبیر نے باہر نکلتے ہوئے کہا۔”یہ میری کوتاہی ہے۔اگر تم پسند کروتو تمہارے بھائی کا نام ناصر الدین رکھتا ہوں۔“
”اور میرا نام؟“
خالد،زبیر ، گنگو اور جےرام حیران ہوکر مایا کی طرف دیکھنے لگے۔مایا نےاپنے سوال کا کوئی جواب ناپاکر کہا۔”تم حیران کیوں ہو۔ناہید سے پوچھو۔“ وہ یہ کہہ کر دہلیز میں کھڑی ہوگئی اور ناہید کو مخاطب کرتے ہوئے بولی۔”ناہید بہن انھیں بتاو۔کیا میں نے تمہارے سامنے کلمہ نہیں پڑھا؟ کیا میں نے تمہارے سامنے چھپ چھپ کر نمازیں نہیں پڑھیں؟ کیا میں نے قرآن کی آیات یاد نہیں کیں۔۔۔؟“
مایا پھر اپنے بھائی کے پاس آکھڑی ہوئی اور زبیر سے مخاطب ہوکر کہنے لگی۔”آپ کس سوچ میں پڑ گئے۔ناہید میرا نام زہرا رکھ چکی ہے اور مجھے یہ نام پسند ہے۔“
خالد نے اندر آکر ناہید کے کان میں آہستہ سے کہا۔”تم نے یہ باتیں مجھ سے کیوں چھپائیں؟“
ناہید نے مسکرا کر جواب دیا۔”مایا کو اس بات کا ڈر تھا کہ آپ یہ خیال کریں گے کہ وہ آپ کو خوش کرنے کے لیے مسلمان ہوئی ہے۔اسے اپنے بھائی کا خوف بھی تھا۔اس لیے وہ مجھ سے وعدہ لےچکی تھی کہ میں فلحال اس کا راز اپنے تک محدود رکھوں۔“ خالد پھر بھاگتا ہوا جےرام کے قریب آکھڑا ہوا۔اس کی روح مسرت کے ساتویں آسمان پر کھڑی تھی۔
زبیر نے کہا۔”بھائی ناصرالدین، اور بہن زہرا میں تم دونوں کو مبارک باد دیتا ہوں۔خدا تمہیں استقامت بخشے۔“
گنگو نے کہا۔”زبیر! اگر ہمارا دل ٹٹول کر دیکھو تو ہم سب مسلمان ہیں لیکن سب کے لیے نام سوچتے ہوئے تمہیں دیر لگ جائے گی۔یہ خدمت خالد کے سپرد کردو۔اب دوپہر ہورہی ہے۔تمہیں شام تک کم از کم یہاں سے تیس کوس نکل جانا چاہیے۔“
زبیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”میں تیارہوں۔“
گنگو نے داسو کو آواز دے کر کپڑے لانےکےلیے کہا۔زہرا پھر ناہید کےپاس آبیٹھی اور زبیر نے گنگو کی ہدایت کے مطابق ایک سندھی سپاہی کا لباس زیب تن کیا۔گنگو نے کہا۔”آپ کے لیے گھوڑے تیار کھڑے ہیں۔“
”میں ابھی آتا ہوں۔“یہ کہہ کر وہ دوبارا ناہید کے کمرے میں داخل ہوا۔وہ اس کے پاوں کی آہٹ سن کر اپنے چہرے پر نقاب ڈال چکی تھی۔
زبیر نے کہا۔”ناہید! خدا حافظ۔بہن زہرا! میرے لیے دعا کرنا۔“
دونوں نےجواب میں خدا حافظ کہا اور زبیر لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا کمرے سے باہرنکل آیا۔
خالد، ناصرالدین اور گنگو نے قلعہ کے دروازے تک اس کا ساتھ دیا۔
داسو دروازے پر دو گھوڑے لیے کھڑا تھا۔زبیر خدا حافظ کہہ کر گھوڑے پر سوار ہوگیا۔داسو نے اس کی تقلید کی۔گنگو نے کہا۔”دھوپ تیز ہے۔لیکن یہ دونوں گھوڑے تازہ دم ہیں۔“تیس کوس کی پہلی منزل ان کے لیے بڑی بات نہیں۔داسو! اس مہم میں تمہاری کامیابی شاید چند مہینوں میں سندھ کا نقشہ بدل دے جب تک زبیر مکران کی سرحد عبور نا کرلے وآپس نا آنا۔“
”آپ بےفکر رہیں۔“ یہ کہہ کر داسو نے گھوڑے کو ایڑھ لگا دی۔زبیر نے اپنا گھوڑا اس کے پیچھے چھوڑ دیا۔
قلعے کے اندر گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سن کر زہرا نے ناہید کی طرف دیکھا۔ناہید کی آنکھوں میں آنسو جھلک رہے تھے اور وہ آہستہ آہستہ کہہ رہی تھی۔”خدا تمہاری مدد کرے۔خدا تمہیں دشمنوں سے بچائے۔“
زہرا کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اوروہ بولی۔”آپا! تم اب تک مجھ سے ایک بات چھپاتی رہی ہو۔تمہیں ان سے محبت ہے؟“
ناہید نے کوئی جواب دیے بغیر زہرا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز آہستہ آہستہ ناہید کے کانوں سے دور ہورہی تھی۔آنسووں کے موتی اس کی آنکھوں سے جھلک کر رخساروں پر بہہ رہے تھے۔
زہرا نے اپنے دوپٹے سے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔”بہن وہ جلد آئیں گے۔وہ ضرور آئیں گے۔“
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر67)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر67)

____نوجوان سالار_____
قتیبہ کا ایلچی
بصرہ کے ایک کونے میں دریا کے کنارے ایک سرسبز نخلستان کے درمیان والی بصرہ کا قلعہ نما مکان تھا۔ اس مکان کے وسیع کمرے میں ایک عمر رسیدہ لیکن قوی ہیکل شخص ٹہل رہا تھا۔ وہ چلتے چلتے رکتا اور دیواروں پر آویزاں نقشے دیکھنے میں منہمک ہوجاتا۔اس کے چہرے سےغیر معمولی عزم و استقلال ٹپکتا تھا۔ آنکھوں میں ذکاوت اور ذکاوت سے زیادہ ہیبت تھی۔
یہ حجاج بن یوسف تھا۔ جس کے آہنی پنجوں سے دشمن اور دوست یکساں طور پر پناہ مانگتے تھے۔جس کی تلوار عرب و عجم پر صاعقہ بن کر کوندی اور بسا اوقات اپنی حدود سے تجاوز کرکے عالمِ اسلام کے ان درخشندہ ستاروں کو بھی خاک و خون میں لٹا گئی، جن کے سینے نور ایمان سے منور تھے۔
حجاج بن یوسف کی طوفانی زندگی کا پہلا دور وہ تھا جب وہ عبدالمالک کے عہدِ حکومت میں سرکشوں کو مغلوب کرنے کے لیے اٹھا اور عراق اور عرب پر آندھی بن کر چھا گیا۔لیکن اس دور میں اس کی تلوار ایک اندھے کی لاٹھی تھی جو حق اور ناحق میں تمیز نا کرسکی۔دوسرا دور جس سے ہماری داستان کا تعلق ہے، وہ تھا جب عبدالملک کی جگہ اس کا بیٹا ولید مسندِ خلافت پر بیٹھ چکا تھا۔عراق اور عرب کی خانہ جنگیاں ختم ہوچکی تھیں اور مسلمان ایک نئے جذبے ماتحت منظم اور مستحکم ہوکر ترکستان اور افریقہ کی طرف پیش قدمی کررہے تھے۔ اپنے باپ کی طرح ولید نے بھی حجاج بن یوسف کو اندرونی اور خارجی معاملات میں سیاہ و سفید کا مالک بنا رکھا تھا۔ لیکن ایک مسلمان مورخ کی نگاہ میں حجاج نے ولید کی جو خدمات انجام دیں، وہ عبدالملک کی خدمات سے بہت مختلف تھیں۔
عبدالملک کے عہدِ حکومت میں حجاج بن یوسف کی تمام جدوجہد عرب و عراق تک محدود رہی اور اس کی خون آشام تلوار نے جہاں عبدالملک کی حکومت کو مضبوط و مستحکم کیا وہاں اس کے دامن کو بےشمار بے گناہوں کے خون سے داغدار بھی کیا لیکن ولید کا عہد مسلمانوں کے لیے نسبتاً امن کا زمانہ تھا اور حجاج بن یوسف اپنی زندگی کے باقی چند سال مشرق و مغرب میں مسلمانوں کی فتوحات کی راہیں صاف کرنے میں صرف کررہا تھا۔
جب ہم حجاج بن یوسف کی کتابِ زندگی کے آخری اوراق پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ قدرت سندھ ، ترکستان اور سپین میں مسلمانوں کی سطوت کے جھنڈے لہرانے کے لیے اس شخص کو منتخب کرتی ہے جو آج سے چند سال قبل مکہ کا محاصرہ کررہا تھا۔ وہ آنکھیں جنھوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھ کر ترس نا کھایا، سندھ میں ایک مسلمان لڑکی کی مصیبت کا حال سن کر پرنم ہوجاتی ہیں۔
تاریخ ہمارے سامنے ایک اور اہم سوال پیش کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ عرب اور عراق کے مسلمان حجاج بن یوسف کے عہد کے آخری ایام میں بھی اس سے نالاں تھے اور ولید کو بھی اچھی نظروں سے نا دیکھتے تھے۔ پھر کیا وجہ تھی کہ جب سندھ اور ترکستان کی طرف پیش قدمی ہوئی تو ہر محاز پر شامی مسلمانوں کے مقابلے میں عربوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔
اس کا جواب فقط یہ ہے کہ قیادت کی خامیوں کے باوجود جمہور مسلمانوں کا انفرادی کردار اسی طرح بلند تھا۔حجاج بن یوسف سے نفرت ان کی قومی حمیت کو کچل نا سکی۔۔۔۔۔۔انھوں نے جب یہ سنا کہ ان کے بھائی افریقہ اور ترکستان کی غیر اسلامی طاقتوں سے نبردآزما ہیں تو وہ پرانی رنجشیں بھول کر ان کے ساتھ جا شامل ہوئے۔
اس لیے ولید کے عہد کی شاندار فتوحات کا سہرا حجاج بن یوسف اور ولید کے سر نہیں بلکہ ان عوام کے سر ہے جن کے ایثار اور خلوص میں ہر قوم کی ترقی اور عروج کا راز پنہاں ہے۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر68)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر68)
حجاج بن یوسف دیر تک دیواروں پر لٹکے ہوئے نقشے دیکھتا رہا۔بالآخر اس نے ایک نقشہ اتارا اور اپنے سامنے رکھ کر ایرانی قالین پر بیٹھ گیا۔ دیر تک سوچنے کے بعد اس نے قلم اٹھا کر نقشے پر چند نشانات لگائے اور اسے لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا۔
ایک سپاہی نے ڈرتے ڈرتے کمرے میں داخل ہوکر کہا۔”ترکستان سے ایک ایلچی آیا ہے۔“
حجاج بن یوسف نے کہا۔”میں صبح سے انتظار کررہا ہوں۔اسے یہاں لے آو!“
سپاہی چلاگیا اور حجاج بن یوسف دوبارا نقشہ کھول کر دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔تھوڑی دیر بعد ایک زرہ پوش کمرے میں داخل ہوا۔وہ قدوقامت کے لحاظ سے ایک نوجوان اور چہرے مہرے سے پندرہ سولہ سالا ایک لڑکا معلوم ہوتا تھا۔اس کے سر پر تانبے کا ایک خود چمک رہا تھا۔تیکھے نقوش، چمکتی ہوئی آنکھیں، پتلے اور بھنچے ہوئے ہونٹ، ایک غیر معمولی عزم و استقلال کے آئینہ دار تھے۔اس کے قدوقامت میں تناسب اور چہرے میں کچھ ایسی جاذبیت تھی کہ حجاج بن یوسف حیرت زدہ ہوکر اس کی طرف دیکھتا رہا۔بالآخر اس نے کرخت آواز میں پوچھا۔”تم کون ہو؟“
لڑکے نے جواب دیا۔”میں نے ہی اطلاع بھجوائی تھی۔میں ترکستان سے آیا ہوں۔“
”خوب! ترکستان سے تم آئے ہو۔میں قتیبہ کی زندہ دلی کی داد دیتا ہوں۔میں نے قتیبہ کو لکھا تھا کہ وہ خود آئے یا کسی تجربہ کار جرنیل کو میرے پاس بھیجے اور اس نے ایک آٹھ سال کا بچہ میرے پاس بھیج دیا ہے۔“
لڑکے نے اطمینان سے جواب دیا۔”میری عمر سولہ سال اور آٹھ مہینے ہے!“
حجاج بن یوسف نے گرج کرکہا۔”لیکن تم یہاں کیا لینے آئے ہو؟ قتیبہ کو کیا ہوگیا ہے؟“
لڑکے نے جواب دیے بغیر آگے بڑھ کر ایک خط پیش کیا۔حجاج بن یوسف نے جلدی سے خط کھول کر پڑھا اور قدرے مطمئین ہوکر پوچھا۔”وہ خود سیدھا میرے پاس کیوں نہیں آیا۔ تمہیں کیوں میرے پاس بھیجا ہے؟“
لڑکے نے کہا۔”آپ کس کے متعلق پوچھ رہے ہیں؟“
حجاج بن یوسف کی قوتِ برداشت جواب دے رہی تھی۔اس نے چلا کرکہا۔”وہ بےوقوف جس کے متعلق قتیبہ نے لکھا ہے کہ میں اپنا بہترین سالار بھیج رہا ہوں۔“
لڑکے نے پھر اطمینان سے جواب دیا۔”قتیبہ کے مکتوب میں جس کا ذکر ہے وہ تو میں ہی ہوں۔اگر آپ کسی اور بےوقوف سے ملنا چاہتے ہیں تو مجھے اجازت دیجیے۔“
”تم؟ اور قتیبہ کے بہترین سالار! خدا ترکستان میں لڑنے والے بدنصیب مسلمانوں کو دشمنوں سے بچائے۔ قتیبہ کے ساتھ تمہارا کیا رشتہ ہے؟“
”ہم دونوں مسلمان ہیں۔“
”فوج میں تمہارا عہدہ کیا ہے؟“
”میں ہراول کا سالار ہوں۔“
”ہراول کے سالار! تم؟ اور بلخ سے کترا کر بخارا اور سمرقند کی طرف رخ کرنے کے ارادے میں بھی غالباً کسی تمہارے جیسے ہونہار مجاہد کے مشورے کا دخل ہے۔“
”ہاں یہ میرا مشورہ ہے اور میرے یہاں آنے کی وجہ بھی یہی ہے۔آپ اگر تھوڑی دیر ضبط سے کام لیں تو میں تمام صورتِ حال آپ کو سمجھا سکتا ہوں۔“
حجاج بن یوسف کی تلخی اب پریشانی میں تبدیل ہورہی تھی۔اس نے کہا۔”اگر آج تم مجھے کوئی بات سمجھا سکے تو میں یہ کہوں گا کہ عرب کی ماووں کے دودھ کی تاثیر زائل نہیں ہوئی۔بیٹھ جاو! میں صبح سے نقشہ دیکھ رہا ہوں۔مجھے یہ بتاو جو فوج ہرات جیسے معمولی شہر کو فتح نہیں کرسکتی۔وہ بخارا جیسے مضبوط اور مستحکم شہر پر فتح کے جھنڈے لہرانے کے متعلق اس قدر پر امید کیوں ہے۔ہاں! پہلے یہ بتاو تمہیں نقشہ پڑھنا آتا ہے؟“
لڑکے نے کوئی جواب دیے بغیر حجاج بن یوسف کے سامنے بیٹھ کر نقشہ کھولا اور مختلف مقامات پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔”یہ بلخ ہے اور یہ بخارا۔غالباً آپ بخارا کے قلعے کی مضبوطی کے متعلق بہت کچھ سن چکے ہوں گے۔لیکن بلخ کا قلعہ اگر اس قدر مضبوط نا بھی ہو، تو بھی یہ اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کے باعث کہیں زیادہ محفوظ ہے۔بخارا کے چاروں طرف کھلے میدان ہیں اور ہم آسانی سے اس کا محاصرہ کرکے شہر کے باشندوں کو ترکستان کے باقی شہر کی افواج کی مدد سے محروم کرسکتے ہیں۔رہا قلعہ، تو اس کے متعلق میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ منجنیق کے سامنے پتھر کی دیواریں نہیں ٹھہرتیں اور یہ بھی کئی بار دیکھ چکا ہوں کہ قلعہ بند افواج زیادہ دیر فقط اس صورت میں مقابلہ کرتی ہیں جب انھیں کسی مدد کی امید ہو۔ورنہ وہ مایوس ہوکر دروازہ کھول دیتی ہیں۔اس کے برعکس بلخ میں ہیں بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔شہر پر حملہ کرنے کے لیے ہمیں جس قدر افواج کی ضرورت ہوگی۔ اس سے کہیں زیادہ سپاہی پہاڑی علاقے میں رسد و کمک کے راستے محفوظ رکھنے کے لیے درکار ہوں گے اور اس کے علاوہ شہر کا محاصرہ کرنے کے لیے ہمیں اردگرد کی تمام پہاڑیوں پر قبضہ کرنا ہوگا۔ان جنگوں میں پہاڑی قبائل کے پتھر ہمارے تیروں سے کہیں زیادہ خطرناک ہوں گے۔بلخ کے جنوب اور مشرق کے پہاڑ کافی اونچے ہیں۔اگر جنوب مشرقی ترکستان کی تمام ریاستوں نے بلخ کو مدد دینے کی کوشش کی تو ایک بہت بڑی فوج ان انچے پہاڑوں کی آڑ لے کر ہماری طرف سے کسی مذاحمت کا مقابلہ کیے بغیر بلخ کے قریب پہنچ کر مشرق جنوب اور مغرب سے ہمارے لیے خطرہ پیدا کرسکتی ہیں اور اگر شمال سے ان کی مدد کے لیے بخارا اور سمرقند کی افواج بھی آجائیں تو مرو سے ہماری رسد و کمک کا راستہ بھی منقطع ہوجائے گا اور ہمیں چاروں طرف سے بیرونی حملہ آوروں نے محصور کر رکھا ہوگا۔تاہم گرمیوں میں ڈٹ کر ہم ان کا مقابلہ کرسکیں گے لیکن یہ محاصرہ یقیناً طول کھینچے گا اور سردیوں میں پہاڑی لوگ ہمارے لیے خطرہ ثابت ہوں گے اور پسپائی کی صورت میں ہم میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جو وآپس مرو پہنچ سکیں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر69)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر69)
حجاج بن یوسف اب نقشے سے زیادہ اس کمسن اور نوجوان سالار کو دیکھ رہا تھا۔اس نے کہا۔”عربوں کی فوجی اصلاحات میں ابھی تک ”پسپائی“ کے لفظ کو کوئی جگہ نہیں ملی۔“
لڑکے نے جواب دیا۔”مجھے عربوں کے عزم و استقلال پر شبہ نہیں لیکن میں فوجی زاویہ نگاہ سے اس حملے کو خودکشی کے مترادف سمجھتا ہوں۔“
حجاج بن یوسف نے کہا۔”تو تمہارا کیا خیال ہے کہ مشرق کی طرف پیش قدمی کا ارادہ ترک کردیا جائے!“
”نہیں! ترکستان پر تسلط رکھنے کے لیے مشرق میں ہماری آخری چوکی بلخ نہیں ہوگی بلکہ ہمیں کاشغر اور چترال کے درمیان تمام پہاڑی علاقے پر قبضہ کرنا پڑے گا لیکن میں اس سے پہلے بخارا کو فتح کرنا زیادہ ضروری خیال کرتا ہوں۔اس میں ہمیں دو فائدے ہوں گے۔ایک یہ کہ یہ ترکستان کا اہم ترین شہر ہے اور اہلِ ترکستان پر اس کی فتح کا وہی اثر ہوگا جو مدائن کی فتح کے بعد ایرانیوں اور دمشق کے بعد رومیوں پر ہوا تھا۔دوسرا یہ کہ بخارا کا محاصرہ کرتے وقت ہمیں باہر سے ان خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔جو میں بلخ کے متعلق بیان کر چکا ہوں۔وہاں سے سمرقند اور سمرقند سے قوقند اور فرغانہ کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔ان فتوحات کے بعد مجھے امید نہیں کہ ترکستان کی قوتِ مدافعت باقی رہے۔اس کے بعد میری تجویز یہ ہے کہ بخارا اور سمرقند سے ہماری افواج کاشغر کا رخ کریں اور قوقند کی افواج کاشغر کا رخ کریں۔مجھے یقین ہے کہ جتنی دیر میں قوقند کی افواج دشوارگزار پہاڑیوں کو عبور کرتے ہوئے کاشغر پہنچیں گی۔اس سے پہلے جنوب میں بلخ اور اس کے آس پاس کے شہر فتح ہو چکے ہوں گے۔“
حجاج بن یوسف حیرت و استعجاب کے عالم میں اس نوعمر سپاہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔اس نے نقشہ لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد سوال کیا۔”تم کس قبیلے سے ہو؟“
لڑکے نے جواب دیا۔”میں ثقفی ہوں۔“
”ثقفی!۔۔۔۔۔تمہارا نام کیا ہے؟“
”محمد بن قاسم“
حجاج بن یوسف نے چونک کر محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور کہا۔”قاسم کے بیٹے سے مجھے یہی توقع تھی۔۔۔۔۔مجھے پہچانتے ہو؟“
محمدبن قاسم نے کہا۔”آپ بصرہ کے حاکم ہیں۔“
حجاج بن یوسف نے مایوس ہوکرکہا۔”بس میرے متعلق یہی جانتے ہو تم۔۔۔۔۔۔؟“
”میں اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ جانتا ہوں۔اس سے پہلے آپ خلیفہ عبدالملک کے دست راست تھے اور اب خلیفہ ولید کے دست راست ہیں۔“
”تمہیں تمہاری ماں نے یہ نہیں بتایا کہ قاسم میرا بھائی تھا اور تم میرے بھتیجے ہو؟“
”انھوں نے مجھے بتایا تھا۔“
”کب؟“
”جب آپ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو قتل کرکے مدینہ وآپس آئے تھے۔“
کم سن بھتیجے کے منہ سے یہ الفاظ سن کر حجاج بن یوسف کی پیشانی کی رگیں تھوڑی دیر کے لیے پھول گئیں۔وہ غضب ناک ہوکر محمد بن قاسم کی طرف دیکھنے لگا لیکن اس کی نگاہوں میں خوف و ہراس کی بجائے غایت درجے کا سکون دیکھ کر اس کا غصہ آہستہ آہستہ ندامت میں تبدیل ہونے لگا۔محمد بن قاسم کی بےباک نگاہیں پوچھ رہیں تھیں کہ” میں نے جو کچھ کہا ہے۔کیا وہ غلط ہے۔کیا تم عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے قاتل نہیں ہو؟“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر70)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر70)
حجاج بن یوسف اپنے دل پر ایک ناقابلِ بیان بوجھ محسوس کرتے ہوئے اٹھا اور دریا کی طرف کھلنے والے دریچے کے پاس کھڑا ہوکر جھانکنے لگا۔”عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل۔۔۔۔۔عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل!“ اس نے چند بار اپنے دل میں یہ الفاظ دہرائے۔تصور کی نگاہیں ماضی کا نقاب الٹنے لگیں۔وہ مکہ کے اس عمر رسیدہ مجاہد کو دیکھ رہا تھا جس کے ہونٹوں پر قتل ہوتے وقت بھی ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔اسے پھر ایک بار مکہ کی گلیوں میں بیواوں اور یتیموں کی چیخیں سنائی دینے لگیں۔اس نے جٌھر جٌھری لیتے ہوئے مڑ کر محمد بن قاسم کی طرف دیکھا، وہ اس کی توقع کے خلاف اس کی طرف دیکھنے کی بجائے نقشہ دیکھنے میں منہمک تھا۔۔عہدِ ماضی کی چند اور تصویریں اس کے سامنے آگئیں۔وہ پھر ایک بار مدینہ کے ایک چھوٹے سے مکان میں اپنے نوجوان بھائی کو بسترِ مرگ پر دیکھ رہا تھا۔وہ بھائی جس نے مکہ میں اس کی کارگزاری کا حال سننے کے بعد اسے دیکھ کر غصے اور جوش میں آنکھیں بند کر لیں تھیں۔قاسم کے یہ الفاظ پھر اس کے کانوں میں گونجنے لگے۔”حجاج جاو! میں مرتے وقت عبداللہ بن زبیر کے قاتل کی صورت نہیں دیکھنا چاہتا۔تمہارے دامن پر جس خون کے چھینٹے ہیں، اسے میرے آنسو نہیں دھو سکتے۔“ پھر وہ اپنے بھائی کے جنازے کے ساتھ ایک کم سن بچے کو دیکھ رہا تھا۔یہ اس کا بھتیجا تھا، جسے اس نے اٹھا کر گلے لگانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ تڑپ کر ایک طرف کھڑا ہوکر چلایا تھا۔”نہیں! نہیں! مجھے ہاتھ نا لگاو! ابا کو تم سے نفرت تھی۔“
حجاج نے انتہائی تکلیف دہ احساس کے تحت محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور کہا۔”محمد! ادھر آو۔“
محمد بن قاسم نقشہ لپیٹ کر ایک طرف رکھتے ہوئے اٹھا اور حجاج بن یوسف کے قریب جا کھڑا ہوا۔اس کے چہرے پر غیر معمولی اطمینان کی جھلک حجاج بن یوسف کے لیے صبر آزما تھی لیکن اس نے ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا۔”تو میں تمہاری نظروں میں عبداللہ بن زبیر کے قاتل کے سوا کچھ نہیں؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”یہ خلقِ خدا کا فتوی ہےاور میں آپ کو دھوکے میں رکھنے کے لیے قاتل کی جگہ کوئی اور لفظ تلاش نہیں کرسکتا۔“
حجاج بن یوسف نے کہا۔”تمہاری رگوں میں حجاج بن یوسف کا خون ہے۔میں تمہاری ہر بات برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔اگرچہ برداشت کرنا میری عادت نہیں۔“
”میں آپ کو اپنی عادت بدلنے پر مجبور کرنے کے لیے نہیں آیاقتیبہ بن مسلم باہلی نے جو فرض میرے سپرد کیا تھا، وہ میں پورا کرچکا ہوں۔اب مجھے اجازت دیجیے۔اگر آپ کو قتیبہ کے لیے کوئی پیغام بھیجنا ہو تو میں کل حاضر ہوجاوں گا۔“
ایک لمحہ کے تذبذب کے بعد حجاج بن یوسف نے کہا۔”تم کہاں جانا چاہتے ہو؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”شہر میں والدہ کے پاس۔میں سیدھا آپ کے پاس آیا ہوں۔ابھی تک گھر نہیں گیا۔“
”تمہاری والدہ بصرہ میں ہے؟ مجھے یہ بھی معلوم نا تھا۔ وہ یہاں کب آئیں؟“
”انھیں مدینہ سے یہاں آئے ہوئے تین چار ماہ ہوئے ہیں۔مجھے مرو میں ان کا خط ملا تھا۔“
”وہ کس کے پاس ٹھہری ہیں۔وہ یہاں کیوں نا آئیں؟“
”وہ ماموں کے مکان میں ٹھہری ہیں اور یہاں نا آنے کی وجہ آپ مجھ سے بہتر سمجھ سکتے ہیں۔“
”اور تم ترکستان جانے سے پہلے کہاں تھے؟“
”میں دس برس کی عمر تک مدینہ میں ماہ کے پاس تھا اور اس کے بعد ماموں کے پاس بصرہ میں چلا آیا۔“
”اور مجھ سے اتنی نفرت تھی کہ اپنی صورت تک نا دیکھائی؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”سچ پوچھیے تو میں مکتب اور اس کے بعد سپاہیانہ زندگی میں اس قدر مصروف رہا ہوں کہ اپنے دل میں کسی کی محبت یا نفرت کے جزبات کو جگہ نہیں دے سکا۔“
حجاج بن یوسف نے کچھ سوچ کر کہا۔”مکتب میں شاید میں نے تمہیں دیکھا تھا لیکن پہچان نا سکا۔تم بہت جلد جوان ہوگئے ہو۔اب بتاو، اپنی چچی سے نہیں ملو گے؟“
محمد بن قاسم مزبزب ساہو کر حجاج بن یوسف کی طرف دیکھنے لگا۔حجاج بن یوسف نے اس کا بازو پکڑ لیا اور لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔باغ کے دوسرے کونے میں رہائشی مکان کے دروازے پر پہنچ کر محمد بن قاسم نے مسکراتے ہوئے کہا۔”مجھے چھوڑ دیجیے! میں آپ کے ساتھ ہوں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر71)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر71)
حجاج بن یوسف کی آواز سن کر اس کی بیوی ایک کمرے سے باہر نکلی اور محمد بن قاسم کو دیکھتے ہی چلائی۔”محمد! تم کب آئے؟“
حجاج بن یوسف نے حیران ہوکر پوچھا۔”تم نے اسے کیسے پہچان لیا؟“
وہ خوشی کے آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔”میں اسے کیونکر بھول سکتی تھی؟“
حجاج بن یوسف نے پھر سوال کیا۔”تم نے اسے کب دیکھا تھا؟“
”جب میں اور زبیدہ اس کے ماموں کے ساتھ حج پر گئ تھیں۔ہم واپسی پر مدینے میں ان کے ہاں ٹھہرے تھے۔محمد بھی ترکستان سے رخصت پر آیا تھا۔“
”اور مجھ سے ذکر تک نا کیا؟“
”مجھے اس کی والدہ نے تاکید کی تھی اور مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ آپ کہیں برا نا مانیں۔“
”تو انھوں نے ابھی تک میری خطا معاف نہیں کی۔“
”وہ آپ سے ناراض نہیں لیکن قاسم کی موت کا ان کے دل پر گہرا اثر ہے۔“
حجاج بن یوسف نے کچھ سوچ کر محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور کہا۔”محمد! چلو!میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔“
حجاج کی بیوی نے کہا۔”نہیں! نہیں! آپ ابھی وہاں نا جائیں۔“
”لیکن کیوں؟“
”وہ بیمار ہیں۔“
”تو اس صورت میں مجھے ضرور جانا چاہیے۔“
محمد بن قاسم نے بےچین سا ہوکر کہا۔”امی جان بیمار ہیں؟ مجھے اجازت دیجیے!“
محمد بن قاسم بھاگ کر مکان سے باہر نکل گیا۔حجاج بن یوسف اس کا ساتھ دینے کے لیے مڑا لیکن اس کی بیوی نے آگے بڑھ کر راستہ روک لیا۔”نہیں! نہیں!! آپ نا جائیں۔“
”میں ضرور جاوں گا۔تمہیں یہی ڈر ہے نا کہ وہ مجھے برا بھلا کہیں گی اور میں طیش میں آجاوں گا۔“
”نہیں۔ان کا حوصلہ اس قدر پست نہیں۔“
”تو پھر مجھے اس کی تیماداری سے کیوں منع کرتی ہو اور یہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ وہ بیمار ہیں؟“
”مجھے ڈر ہے کہ آپ خفا ہوجائیں گے۔میں آپ سے ایک بات چھپاتی رہی ہوں۔“
”وہ کیا؟“
”جب سے وہ یہاں آئی ہیں۔میں ہر تیسرے چوتھے دن ان کے گھر جایا کرتی ہوں۔کل میں نے خادمہ کو بھیجا اور اس نے بتایا کہ اس کی طبعیت بہت خراب ہے۔ میں ابھی وہاں سے ہوکر آئی ہوں۔اگر آپ کا ڈر نا ہوتا تو میں کچھ دیر اور وہاں ٹھہرتی۔آج زبیدہ میرے ساتھ تھی اور ان کی حالت دیکھ کر میں۔۔۔۔۔“
حجاج بن یوسف نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔”تم ڈرتی کیوں ہو؟ صاف صاف کہو۔اگر تم زبیدہ کو وہاں چھوڑ آئی ہو تو برا نہیں کیا۔“
”وہ ابھی آجائے گی۔میں نے خادمہ کو بھیج دیا ہے۔“
”لیکن تم نے یہ سب کچھ مجھ سے کیوں چھپایا۔کیا تمہارا یہ خیال تھا کہ مجھ میں انسانیت کی کوئی رمق باقی نہیں رہی؟“
”مجھے معاف کیجیے!“
”اچھا! اب تم بھی میرے ساتھ چلو!“

زبیدہ محمد بن قاسم کی ماں کے سرہانے بیٹھی اس کا سر دبا رہی تھی، ایک شامی لونڈی ان کے پاس کھڑی تھی۔محمد بن قاسم کی والدہ نے کراہتے ہوئے زبیدہ کا ہاتھ اپنے نحیف ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسے اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا۔”بیٹی! تمہارے ہاتھوں سے میری جلتی ہوئی آنکھوں کو ڈھنڈک پہنچتی ہے۔لیکن مجھے ڈر ہے کہ تمہارے باپ کو پتہ لگ گیا تو وہ بہت خفا ہوگا اور پھر شایدتم کبھی بھی یہاں نا آسکو۔بیٹی جاو!“
زبیدہ نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے جواب دیا۔”میرا جی نہیں چاہتا کہ آپ کواس حالت میں چھوڑ کر جاوں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر72)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر72)
صحن میں کسی کی آہٹ پاکر زبیدہ نے آٹھ کر باہر جھانکا۔محمد بن قاسم اپنے گھوڑے کی لگام حبشی غلام کے ہاتھ میں تھما کر بھاگتا ہوا آگے بڑھا۔دروازے پر زبیدہ کو دیکھ کر جھجکا اور پہچان کر بولا۔”تم یہاں؟ امی کیسی ہیں؟“
زبیدہ جواب دینے کی بجائے اس کی سپاہیانہ ہیبت سے مرعوب سی ہوکر ایک طرف ہٹ گئی اور محمد بن قاسم اندر داخل ہوا۔
بیٹے پر نگاہ پڑتے ہی ماں کے زرد چہرے پر رونق آگئی۔اس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔”بیٹا! تم آگئے؟“
محمد بن قاسم نے اس کے قریب بیٹھ کر سر سے خود اتارتے ہوئے پوچھا۔”امی! آپ کب سے علیل ہیں؟“
”بیٹا! بصرہ پہنچتے ہی میری طبعیت خراب ہوگئی تھی۔“
”لیکن مجھے کیوں نا لکھا؟“
”بیٹا! تم گھر سے کوسوں دور تھے اور میں تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی اور یہ خود تمہارے سر پر مجھے بہت اچھا معلوم ہوتا تھا۔اسے پھر پہن کر دکھاو۔میں اپنے نوجوان مجاہد کو سپاہیانہ لباس میں اچھی طرح دیکھنا چاہتی ہوں.“
محمد بن قاسم نے مسکراتے ہوئے خود اپنے سر پر رکھ لیا۔ماں کچھ دیر ٹکٹکی باندھ کر اس کی طرف دیکھتی رہی۔اس کے منہ سے بےاختیار دعا نکلی۔”میرے اللہ! یہ سر ہمیشہ اونچا رہے۔“
محمد بن قاسم سے نظر ہٹا کر اس نے زبیدہ کی طرف دیکھا اور کہا۔”بیٹی تم کیوں کھڑی ہو۔بیٹھ جاو۔“
زبیدہ جو ابھی تک دروازے کے قریب تھی، جھجکتی اور شرماتی ہوئی آگے بڑھی اور بستر کے قریب ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔
ماں نے محمد بن قاسم کی طرف دیکھا۔”محمد! تم نے اسے پہچانا؟“
اس نے جواب دیا۔”میں نے اسے دیکھتے پی پہچان لیا تھا۔لیکن زبیدہ تم کیسے آئیں؟ چچا کو تو یہ بھی معلوم نا تھا کہ امی جان یہاں ہیں؟“
ماں نے پریشان ہوکر پوچھا۔”تم اپنے چچا سے مل آئے ہو؟“
”ہاں امی! قتیبہ کا پیغام تھا۔اس لیے میں سیدھا ان کے پاس پہنچا اور وہ مجھے پکڑ کر گھر لے گئے۔وہ خود بھی آپ کے پاس آنا چاہتے تھے۔لیکن میں آپ کی علالت کی خبر سن کر بھاگ آیا اور انھیں ساتھ نہ لاسکا۔“
ماں نے مغموم صورت بنا کر کہا۔”خدا کرے یہاں آنے میں اس کی نیت ٹھیک ہو۔“
زبیدہ کا سرخ و سپید چہرہ سرخ ہورہا تھا۔اس نے کرسی سے اٹھ کر کہا۔”چچی جان! میں جاتی ہوں۔“ شامی کنیز بھی اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
لیکن اتنے میں باہر کسی کے پاوں کی چاپ سنائی دی اور شامی کنیز نے آگے بڑھ کر صحن کی طرف جھانکا اور اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔
محمد بن قاسم پریشان ہوکر اٹھا اور دروازے کی طرف بڑھا۔زبیدہ کی ماں اندر داخل ہوئی اور حجاج بن یوسف نے دروازے پر رک کر محمد بن قاسم سے کہا۔”محمد! اپنی ماں سے پوچھو۔مجھے اندر آنے کی اجازت ہے؟“
محمد بن قاسم نے مڑ کر ماں کی طرف دیکھا اور کہا۔”کیوں امی! چچا اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟“
ماں نے سر اور چہرہ ڈھانپتے ہوئے جواب دیا۔”گھر میں آنے والے مہمان کے لیے دروازہ بند نہیں کیا جاسکتا۔انھیں بلالو۔“
حجاج بن یوسف اندر داخل ہوا۔زبیدہ کے چہرے پر کئی رنگ آچکے تھے۔اس کی ماں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”بیٹی ڈرتی کیوں ہو؟ تمہارے ابا خود تمہاری چچی کی مزاج پرسی کے لیے آئے ہیں۔“
حجاج بن یوسف کو وہاں بیٹھے چند ساعتیں نا گزری تھیں کہ گلی میں لوگوں کا شور سن کر محمد بن قاسم باہر نکلا اور تھوڑی دیر بعد مسکراتا ہوا وآپس آکر کہنے لگا۔”آپ کو دیکھ کر محلے کے تمام لوگ ہمارے دروازے پر جمع ہو گئے تھے۔وہ سمجھے تھے کہ آپ ہمیں قتل کرنے کے لیے آئے ہیں۔“
حجاج بن یوسف کے چہرے پر ایک دردناک مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے سر جھکا لیا۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر73)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر73)
تیسرے دن محمد بن قاسم پھر حجاج بن یوسف کے پاس پہنچا اور ترکستان جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔حجاج بن یوسف نے پوچھا۔”تمہاری ماں کی طبعیت اب کیسی ہے؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”ان کی حالت اب پہلے سے کچھ اچھی ہے اور انھوں نے مجھے وآپس جانے کی اجازت دے دی ہے۔میرا ارادہ ہے کہ میں آج ہی روانہ ہوجاوں۔“
حجاج بن یوسف نے جواب دیا۔”میں نے آج صبح قتیبہ کے پاس اپنا قاصد روانہ کردیا ہے اور اسے لکھ بھیجا ہے کہ مجھے تمہاری تجاویز سے اتفاق ہے۔اب تم کچھ عرصہ یہیں رہو گے۔“
”لیکن میرا وہاں جانا ضروری ہے۔قتیبہ نے مجھے جلد وآپس آنے کے لیے بہت تاکید کی تھی۔“
حجاج نے جواب دیا۔”لیکن مجھے اس جگہ تمہاری زیادہ ضرورت ہے۔مجھ پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے اور تم میرا ہاتھ بٹا سکتے ہو۔میں یہاں سے اکیلا ہر محاز کی نگرانی نہیں کرسکتا۔اس کے علاوہ تمہارے متعلق میں نے دربارِ خلافت میں لکھا ہے۔ممکن ہے کہ تمہیں وہاں ایک فوجی مشیر کا عہدہ سنبھالنا پڑے۔“
”لیکن دمشق میں مجھ سے کہیں زیادہ تجربہ کار لوگ موجود ہیں۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ دربارِ خلافت میں آپ کے اثرورسوخ کا ناجائز فائدہ اٹھاوں۔ابھی مجھے بہت کچھ سیکھنا ہے۔آپ مجھے ترکستان جانے کی اجازت دیں۔“
”محمد! تمہارا یہ قیاس غلط ہے۔تم اگر بھتیجے ہونے کی بجائے میرے بیٹے بھی ہوتے تو بھی میں تمہاری بےجا حمایت نا کرتا۔مجھے یقین ہے کہ تم بڑی سے بڑی ذمہ داری سنبھال سکتے ہو۔یہ محض اتفاق ہے کہ تم میرے بھتیجے ہو۔پرسوں کی ملاقات میں جو اثر تم نے مجھ پر ڈالا ہے۔اس کے بعد خواہ تم کوئی ہوتے، میں یقیناً تمہارے لیے یہی کرتا۔قتیبہ بذاتِ خود غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔وہ تمہارے بغیر کام چلاسکے گا۔تم میدانِ جنگ کی بجائے دمشق یا بصرہ میں رہ کر اس کی زیادہ مدد کرسکتے ہو۔تم نوجوان ہو۔وہ نوجوان جو بوڑھوں کی آواز سے ٹس سے مس ہونے کے عادی نہیں، یقیناً تمہاری آواز پر لبیک کہیں گے۔قتیبہ کی سب سے بڑی مدد یہ ہوگی کہ تم یہاں یا دمشق میں بیٹھ کر اس کے لیے مزید فوجی بھرتی کرتے رہو۔دوسرے محاز پر ہماری افواج مغربی افریقہ تک پہنچ چکی ہیں۔ممکن ہے کہ موسی بن نصیر کسی دن سمندر عبور کرکے سپین پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔اس صورت میں ہمارے لیے مغربی محاز ترکستان کے محاز سے بھی زیادہ اہم ہوجائے گا۔اس لیے جب تک دربارِ خلافت سے میرے مکتوب کا جواب نہیں آتا تم یہیں رہو اور تمہارے ماموں جان ابھی تک کوفہ سے آئے کہ نہیں؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”وہ شاید آج آجائیں۔“
”انھیں آتے ہی میرے پاس بھیجنا اور کہنا کہ یہ والی بصرہ کا حکم نہیں، حجاج بن یوسف کی درخواست ہے۔“
محمد بن قاسم باہر نکلا تو ایک کنیز نے کہا آپ کی چچی آپ کو بلاتی ہیں۔محمد بن قاسم حرم سرا میں داخل ہوا۔زبیدہ اپنی ماں کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔محمدبن قاسم کو دیکھ کر اس کے چہرے پر حیا کی سرخی چھا گئی اور وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر74)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر74)
چچی نے محمد بن قاسم کو اپنے سامنے کرسی پر بیٹھا لیا اور پوچھا۔”بیٹا! تمہارے ماموں جان آئے یا نہیں؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”وہ آج آجائیں گے۔لیکن ان کی کیا ضرورت پڑ گئی۔چچا بھی مجھ سے ان کے متعلق پوچھتے تھے۔“
”کچھ نہیں بیٹا! ایک کام ہے۔“
محمد بن قاسم چچی سے رخصت ہوکر گھر پہنچا تو حجاج بن یوسف کی بوڑھی خادمہ باہر نکل رہی تھی۔وہ اندر داخل ہوا تو ماں بستر پر تکیے کا سہارا لیے بیٹھی تھی۔وہ اسے دیکھتے ہی مسکرا کر بولی۔”بیٹا اب تو شاید تمہیں کچھ دن اور یہیں رہنا پڑے گا۔“
”ہاں امی! چچا نے دربارِ خلافت میں فوجی مشیر کے عہدے کے لیے میری سفارش کی ہے اور مجھے جواب آنے تک یہیں ٹھہرنا پڑے گا!“
”بیٹا! حجاج کبھی کسی پر مہربان نہیں ہوا لیکن تم بہت خوش نصیب ہو۔“
”امی!میں اپنے پاوں پر اٹھنا چاہتا ہوں۔اگر دمشق جا کر مجھے معلوم ہوا کہ میں اپنے نئے عہدے کا اہل نہیں تو میں وآپس چلا جاوں گا۔مجھے ڈر ہے کہ وہاں بڑی بڑی عمر کے لوگ مجھ پر ہنسیں گے اور سب یہ کہیں گے کہ میرے ساتھ خاص رعائیت کی گئی ہے۔“
”بیٹا حجاج میں لاکھ برائیاں ہیں لیکن اس میں ایک خوبی ضرور ہے کہ وہ عہدیداروں کا انتخاب کرتے وقت غلطی نہیں کرتا۔میں خود یہ نہیں چاہتا کہ وہ میرے بیٹے کے ساتھ رعائیت کرے۔لیکن اگر اس نے تمہاری کوئی بےجا رعائیت بھی کی ہے تو میں چاہتی ہوں کہ تم ناصرف خود کو اپنے منصب کا اہل ثابت کردکھاو بلکہ یہ ثابت کردو کہ تم اس سے زیادہ اہم ذمہ داری سنبھال سکتے ہو۔میں تمہیں ایک اور خوشخبری سنانا چاہتی ہوں۔“
”وہ کیا؟“
”پہلے وعدہ کرو کہ میں جو کچھ کہوں گی، تم اس پر عمل کرو گے؟“
”امی! آج تک آپ کا کوئی حکم ایسا ہے جس سے میں نے سرتابی کی ہو؟“
”جیتے رہو بیٹا! میری دعا ہے کہ جب تک دن کو سورج اور رات کو چاند اور ستارے میسر ہیں، تمہارا نام دنیا میں روشن رہے اور قیامت کے دن مجاہدینِ اسلام کی ماوں کی صف میں کی صف میں میری گردن کسی سے نیچی نا ہو۔“
”ہاں امی! وہ خوشخبری کیا تھی؟“
ماں نے مسکراتے ہوئے تکیے کے نیچے سے ایک خط نکالا اور کہا۔”لو پڑھ لو، تمہاری چچی کا خط ہے۔“
محمد بن قاسم نے خط کھولا اور چند سطور پڑھنے کے بعد اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔اس نے خط ختم کیے بغیر ماں کے آگے رکھ دیا اور دیر تک سرجھکائے بیٹھا رہا۔
”کیوں بیٹا! کیا سوچ رہے ہو؟“
”کچھ نہیں امی۔“
”بیٹا! یہ میری زندگی کی سب سے بڑی آرزو تھی اور حجاج سے نفرت کے باوجود میں یہ دعا کرتی تھی کہ زبیدہ میری بہو بنے۔پچھلے دنوں وہ باپ سے چھپ چھپ کر میری تیمارداری کرتی رہی۔سچ کہتی ہوں کہ اگر میری کوئی اپنی لڑکی بھی ہوتی تو شاید میرا اسی قدر خیال کرتی۔۔۔۔مجھے یہ ڈر تک کہ حجاج بن یوسف کبھی یہ گوارا نا کرے گا اور میں خدا سے تیری عزت، ترقی اور شہرت کی دعائیں کیاکرتی تھی۔ میں جب بھی زبیدہ کو دیکھتی، میرے منہ سے یہ دعا نکلتی کہ یااللہ! میرے بیٹے کو ایسا بنادے کہ حجاج اسے اپنا داماد بنانے پر فخر محسوس کرے۔آج میرے آرزوئیں پوری ہوئیں۔لیکن یہ خیال نا کرنا کہ میں صرف اس لیے خوش ہوں کہ تم والی بصرہ کے داماد بنو گے۔ بلکہ میں اس لیے خوش ہوں کہ مدینہ، دمشق اور بصرہ میں میں نے زبیدہ جیسی لڑکی نہیں دیکھی۔میں یہ چاہتی ہوں کہ دمشق میں یا کہیں اور جانے سے پہلے تمہاری شادی کردی جائے۔تمہیں کوئی اعتراض تو نا ہوگا؟“
”امی! آپ کو خوش رکھنا میں دنیا کی سب سے بڑی سعادت سمجھتا ہوں لیکن ماموں جان حجاج سے بہت نفرت کرتے ہیں۔“
”اس کے باوجود زبیدہ کو انہی نگاہوں سے دیکھتے ہیں جن سے میں دیکھتی ہوں۔تم ان کی فکر نا کرو۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر75)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر75)
تین ہفتوں کے بعد بصرہ، کوفہ اور عراق کے دوسرے شہروں میں یہ خبر حیرت و استعجاب سے سنی گئی کہ حجاج بن یوسف نے جو عالمِ اسلام کی کسی بڑی شخصیت کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔اپنے بھائی قاسم کے یتیم اور غریب لڑکے کے ساتھ اپنی اکلوتی لڑکی کی شادی کردی۔دعوتِ ولیمہ میں شہر کے معززین کے علاوہ محمد بن قاسم کے بہت سے دوست اور ہم مکتب شریک تھے۔
اگلے دن حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو بلا کر یہ خوشخبری سنائی کہ دمشق سے خلیفتہ المسلمین کا ایلچی آگیا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ تمہیں فوراً دمشق بھیج دیا جائے۔
محمد بن قاسم نے کہا۔”میں جانے کے لیے تیار ہوں لیکن دربارِ خلافت کے بڑے بڑے عہدہ دار مجھے دیکھ کر یہی سمجھیں گے کہ آپ کی وجہ سے میرے ساتھ بےجا رعایت کی گئی ہے۔“
حجاج نے جواب دیا۔”قیمتی پتھر اپنی ضمانت سے نہیں بلکہ چمک سے پہچانے جاتے ہیں۔میں نے فقط تمہاری فطری صلاحیتوں کی نشونما کے لیے ایک موزوں ماحول تلاش کیا ہے، دربارِ خلافت میں تم صیغہِ امورِ حرب کی مجلسِ شوری کے ایک رکن کی حیثیت سے کام کرو گے اور اگر تم اپنے رفقائے کار اور خلیفہ کو میری طرح متاثر کرسکے تو یقین رکھو کہ کسی کو تمہاری کم عمری کی شکایت نہیں ہوگی۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”لیکن میں حیران ہوں کہ صیغہ امورِ حرب کی مجلسِ شوری دمشق میں کیا کرتی ہے! خلیفہ نے امورِ حرب کی تمام ذمہ داری تو آپ کو سونپ رکھی ہے۔سپہ سالار کے ایلچی براہِ راست آپ کے پاس آتے ہیں، نقل و حرکت کے تمام احکام آپ کی طرف سے جاتے ہیں۔“
”یہ اس لیے کے مجلسِ شوری میں تمہارے جیسے سرگرم اور بیدار مغز ارکان کی کمی ہے اور ان کا بہت سا بوجھ مجھ پرڈال دیا گیا ہے۔ اب تم وہاں جاو گے تو کم از کم میرے سر سے افریقہ کے محاز کی نگرانی کا بوجھ ختم ہوجائے گا۔افریقہ کے حالات میں زرا سے تبدیلی پر امیرالمومنین مجھے ہر دوسرے تیسرے مہینے مشورے لینے کے لیے بلاتے ہیں۔ممکن ہے تمہاری صلاحیتیں دیکھ کر مجھے وہ بار بار بلانے کی ضرورت محسوس نا کریں اور میں ترکستان کی محاز کی طرف زیادہ توجہ دے سکوں۔“
محمد بن قاسم نے پوچھا۔”مجھے کب جانا چاہیے؟“
”میرے خیال میں تم کل ہی روانہ ہوجاو۔میں چند دنوں تک تمہاری والدہ اور زبیدہ کو دمشق بھیجنے کا انتظام کردوں گا۔“
محمد بن قاسم رخصت ہونے کو تھا کہ حبشی غلام نے اندر آکر حجاج بن یوسف کو اطلاع دی کہ ایک نوجوان اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ میں سراندیپ سے انتہائی اہم خبر لے کر آیا ہوں۔“
حجاج بن یوسف نے کہا۔”بلاو اسے۔اور محمد! تم ابھی ٹھہرو! میرا دل گواہی دیتا ہے کہ سراندیپ سے کوئی اچھی خبر نہیں آئی۔“
غلام کے جانے کے تھوڑی دیر بعد زبیر اندر داخل ہوا۔اس کے کپڑے گردو غبار سے آٹے ہوئے تھے اور خوبصورت چہرے پر حزن و ملال اور تھکاوٹ کے آثار تھے۔حجاج بن یوسف نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا اور کہا۔”زبیر! تم آگئے۔اور تمہارا جہاز۔۔۔۔۔۔!“
زبیر نے کہا۔”مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے پاس کوئی اچھی خبر لے کر نہیں آیا۔سندھ کے ساحل پر دیبل کے گورنر نے ہمارا جہاز لوٹ لیا ہے۔دوسرا جہاز جس پر سراندیپ کے راجہ نے آپ کے اور خلیفہ کے لیے تحائف بھیجے تھے، وہ بھی لوٹ لیا ہے اور مسلمانوں کے یتیم بچے جنہیں میں لینے کے لیے گیا تھا، قید کرلیے ہیں۔“
حجاج نے کہا۔”تم یہاں کیسے پہنچے۔مجھے تمام واقعات بتاو۔“
زبیر نے شروع سے لے کر آخر تک اپنی سرگزشت سنائی۔حجاج بن یوسف کی آنکھوں میں غم و غصہ کے شعلے بھڑکنے لگے۔اس کے چہرے پر پرانی ہیبت چھا گئی اور وہ ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتا اور ہونٹ چباتا ہوا کمرے میں چکر لگانے لگا۔تھوڑی دیر بعد وہ ایک دیوار کے قریب کھڑا ہوکر ہندوستان کے نقشے کو دیکھنے لگا اور اس کے منہ سے ایک زخمی شیر کی گرج سے ملتی جلتی آواز نکلی۔”سندھ کے راجہ کی یہ جرات؟ بکریاں بھی شیروں کو سینگ دیکھانے لگیں۔شاید اسے بھی معلوم ہوگیا ہے کہ ہماری افواج شمال اور مغرب میں پھنسی ہوئی ہے۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر76)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر76)
یہ کہہ کر حجاج زبیر کی طرف متوجہ ہوا۔”تم نے ابھی تک بصرہ میں تو یہ خبر کسی کو نہیں سنائی۔“
زبیر نے کہا۔”نہیں! میں سیدھا آپ کے پاس آیا ہوں۔“
حجاج بن یوسف نے کہا۔”سندھ کی طرف سے اس سے زیادہ صریح الفاظ میں ہمارے خلاف اعلان جنگ نہیں ہوسکتا۔لیکن تم جانتے ہو کہ اس وقت ہماری مجبوریاں ہمیں ایک نئے محاز کی طرف پیش قدمی کی اجازت نہیں دیتیں۔میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ الم ناک خبر ابھی عوام تک نا پہنچے، وہ خود جہاد پر جانے کے لیے تیار ہوں یا نا ہوں لیکن مجھے کوسنے میں کوتاہی نہیں کریں گے۔“
زبیر نے کہا۔”آپ کا مطلب ہے آپ یہ سب کجھ خاموشی سے برداشت کرلیں گے۔“
حجاج نے جواب دیا۔”سردشت خاموشی کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں۔میں مکران کے گورنر کو لکھتا ہوں کہ وہ خود سندھ کے راجہ کے پاس جائے۔ممکن ہے وہ اپنی غلطی کی تلافی کے لیے آمادہ ہوجائے اور مسلمان بچوں کو اس کے حوالے کردے۔“
زبیر نے کہا۔”میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ اپنی غلطی کے اعتراف کے لیے آمادہ نہیں ہوگا۔ابوالحسن کا جہاز لاپتہ ہونے پر بھی آپ نے مکران کے گورنر کو وہاں بھیجا تھا لیکن انھوں نے اپنی لاعِلمی کا کا اظہار کیا اور مجھے یقین ہے کہ ابوالحسن کا جہاز بھی لوٹا گیا تھا اور وہ اور اس کے چند ساتھی راجہ کی قید میں ہیں۔میں خود بھی مکران کے عامل سے مل کر آیا ہوں۔وہ یہ کہتے تھے کہ ہمارے ساتھ راجہ اور اس کے اہلکار گزشتہ ملاقات میں نہایت ذلت آمیز سلوک کرچکے ہیں۔اس لیے وہ بذات خود دوبارہ اس کے پاس جانا پسند نہیں کرتے تاہم انھوں نے آپ کا مشورہ لیے بغیر مکران کے سالارِ اعلی عبیداللہ کی قیادت میں دیبل کے حاکم کے پاس ایک وفد بھیج دیا ہے۔جو کچھ میں دیکھ چکا ہوں اس سے میرا انداہ ہے کہ دیبل کا راجہ انتہا درجہ کا ہٹ دہرھرم اور بےرحم ہے اور عبیداللہ بھی کافی جوشیلا ہے، ممکن ہے وہاں ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو ہمارے ساتھ ہوچکا ہے اور وہ راجہ سے ملاقات کرنے سے پہلے ہی کسی خطرے کا شکار ہوجائیں۔“
حجاج نے کہا۔”تاہم میں عبیداللہ کی واپسی کا انتظار کروں گا۔“
”اور اگر وہ بھی اچھی خبر نا لایا تو؟“
”میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔سندھ ایک وسیع ملک ہے اور ہمیں وہاں لشکر کشی سے پہلے ایک لمبی تیاری کی ضرورت ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ امیرالمومنین، ترکستان، افریقہ اور اس کے بعد شاید اندلس کی فتح سے پہلے ہمیں سندھ پر لشکر کشی کی اجازت نا دیں۔“
محمد بن قاسم ابھی تک خاموشی سے یہ باتیں سن رہا تھا۔اس نے زبیر کی مایوس نگاہوں سے متاثر ہوکر کہا۔”خلیفہ کو راضی کرنے کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔اگر آپ اجازت دیں تو میں کل کی بجائے آج ہی دمشق کے لیے راوانہ ہوجاوں۔“
حجاج نے جواب دیا۔”برخودار! جاتے ہی خلیفہ کو ایسا مشورہ دےکر تم اپنی سپاہیانہ صلاحیتوں کا اچھا مظاہرہ نہیں کرو گے۔تمہاری غیرت اور شجاعت میں کلام نہیں لیکن دشمنوں کے قلعے خالی تدبیروں سےفتح نہیں ہوتے۔اس مہم کے لیے بہت سے سپاہیوں کی ضرورت ہوگی اور عراق، عرب اور شام کے کسی مستقر میں ہمارے پاس زائد افواج نہیں۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”میں مسلمانوں کی غیرت سے مایوس نہیں۔ایسی خبر ان لوگوں کو بھی متاثر کرسکتی ہے، جنھیں آرام کی زندگی جذبہ جہاد سے محروم کرچکی ہے۔ممکن ہے کہ آپ اپنی عمر کے لوگوں سے مایوس ہوں لیکن میں نوجوانوں سے مایوس نہیں۔ وہ نوجوان جو آپ اور خلیفہ سے اختلاف کے باعث ترکستان اور افریقہ جاکر لڑنا پسند نہیں کرتے۔مسلمان بچوں پرسندھ کے راجہ کی مظالم کی داستان سن کر یقیناً متاثر ہوں گے۔ہزارں نوجوان ایسے ہیں جن کی حمیت ابھی تک فنا نہیں ہوئی۔وہ مسلمان جن سے آپ مایوس ہیں، مرے نہیں، سورہے ہیں اور قوم کے یتیم بچوں کی فریاد یقیناً ان کے لیے صورِ اسرافیل ثابت ہوگی۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر77)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر77)
حجاج بن یوسف گہری سوچ میں پڑ گیا۔زبیر نے موقع دیکھ کر ایک سفید رومال جس پر ناہید کی تحریر تھی اپنی جیب سے نکال کر اسے پیش کیا اور کہا۔”آپ کے نام یہ مکتوب ابوالحسن کی لڑکی نے اپنے خون سے لکھا تھا کہ اگر حجاج بن یوسف کا خون منجمد ہوچکا ہوتو میرا یہ خط پیش کردینا ورنہ اس کی ضرورت نہیں۔“
حجاج بن یوسف رومال پر خون سے لکھی ہوئی تحریر کی چند سطور پڑھ کر کپکپا اٹھا اور اس کی آنکھوں کے شعلے پانی میں تبدیل ہونے لگے۔اس نے رومال محمد بن قاسم کے ہاتھ میں دے دیا اور خود دیوار کے پاس جاکر ہندوستان کا نقشہ دیکھنے لگا۔ محمد بن قاسم نے شروع سے لے کر آخر تک یہ مکتوب پڑھا۔مکتوب کے الفاظ یہ تھے:-

”مجھے یقین ہے کہ والی بصرہ قاصد کی زبانی مسلمان بچوں اور عورتوں کا حال سن کر اپنی فوج کے غیور سپاہیوں کو گھوڑوں پر زینیں ڈالنے کا حکم دےچکا ہوگا اور قاصد کو میرا یہ خط دیکھانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔اگر حجاج بن یوسف کا خون منجمد ہوچکا ہے تو شاید میری تحریر بھی بےسود ثابت ہو۔میں ابوالحسن کی بیٹی ہوں۔میں اور میرا بھائی ابھی تک دشمن کی دسترس سے محفوظ ہیں لیکن ہمارے ساتھی ایک ایسے دشمن کی قید میں ہیں جس کے دل میں رحم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔قید خانے کی اس تاریک کوٹھری کا تصور کیجیے۔جس کے اندر اسیروں کے کان مجاہدینِ اسلام کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سننے کے لیے بیقرار ہیں۔یہ ایک معجزہ تھا کہ میں اور میرا بھائی دشمن کی قید سے بچ گئے تھے۔لیکن ہماری تلاش جاری ہے اور ممکن ہے کہ ہمیں بھی کسی تاریک کوٹھری میں پھینک دیا جائے۔ممکن ہے کہ اس سے پہلے ہی میرا زخم مجھے موت کی نیند سلا دے اور میں عبرتناک انجام سے بچ جاوں۔لیکن مرتے وقت مجھے یہ افسوس ہوگا کہ وہ صبا رفتار گھورے جن کے سوار ترکستان اور افریقہ کے درواے کھٹکھٹا رہے ہیں. اپنی قوم کے غریب اور بےبس بچوں کی مدد کو نا پہنچ سکے. کیا یہ ممکن ہے کہ وہ تلوار جو روم اور ایران کے مغرور تاجداروں کے سر پر صاعقہ بن کر کوندی سندھ کے مغرور راجہ کے سامنے کند ہوگئی۔میں موت سے نہیں ڈرتی لیکن اےحجاج! اگر تم زندہ ہوتو اپنی غیور قوم کے یتیموں اور بیواوں کی مدد کو پہنچو۔۔۔۔۔۔۔!!“

ناہید!
ایک غیور قوم کی بےبس بیٹی

محمد بن قاسم نے رومال لپیٹ کر زبیر کے حوالے کیا اور حجاج بن یوسف کی طرف دیکھنے لگا۔وہ گردوبیش سے بےخبر ہوکر نقشے کی طرف دیکھ رہا تھا۔
محمد بن قاسم نے پوچھا۔”آپ نے کیا فیصلہ کیا؟“
حجاج بن یوسف نے خنجر نکالا اور اس کی نوک سندھ کے نقشے میں پیوست کرتے ہوئے کہا۔”میں سندھ کے خلاف اعلانِ جہاد کرتا ہوں۔محمد! تم آج ہی دمشق روانہ ہوجاو۔زبیر کو بھی ساتھ لےجاو۔یہ مکتوب بھی امیرالمومنین کو دیکھا دینا۔جتنی فوج دمشق سے فراہم ہو، لےکر یہاں پہنچ جاو۔میرا خط بھی امیرالمومنین کے پاس لےجاو۔واپس آنے میں دیر نا کرنا۔ہاں! اگر امیرالمومنین متاثر نا ہوں تو دمشق کی رائے عامہ کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرنا اور مجھے یقین ہے کہ امیرالمومنین عوام میں زندگی کے آثار دیکھ کر سندھ کے خلاف اعلانِ جہاد میں پش و پیش نہیں کریں گے۔میں تمہیں ایک بڑی ذمہ داری سونپ رہا ہوں اور دمشق سے وآپس آنے پر شاید تمہیں اس سے ہیں زیادہ بڑی ذمہ داری سونپ دی جائے. میرا خط دیکھانے پر تمہیں راستے کی ہر چوکی سے تازہ دم گھوڑے مل جائیں گے۔اب جاکر تیار ہوآو۔اتنی دیر میں میں خط لکھتا ہوں اور زبیر تم بھی تیار ہوجاو۔“
حجاج بن یوسف نے تالی بجائی اور ایک حبشی غلام بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا۔
حجاج نے کہا۔”انھیں مہمان خانے میں لےجاو۔کھانا کھلانے کے بعد ان کے کپڑے تبدیل کراو اور ان کے سفر کے لیے دو بہترین گھوڑے تیار کرو۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر78)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر78)
چند دنوں کی یلغار کے بعد محمد بن قاسم اور زبیر ایک صبح دمشق سے چند کوس کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی بستی سے باہر فوجی چوکی پر اترے۔ محمد بن قاسم نے چوکی کے افسر کو حجاج بن یوسف کا خط دیکھایا اور تازہ دم گھوڑے تیار کرنے اور کھانا لانے کا حکم دیا۔
افسر نے کہا۔”کھانا حاضر ہے لیکن آج گھوڑے شاید آپ کو نا مل سکیں۔ہمارے پاس اس وقت صرف پانچ گھوڑے ہیں۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”لیکن ہمیں تو صرف دو چاہیے۔“
”لیکن ان گھوڑوں پر امیرالمومنین کے بھائی سلیمان بن عبدالملک اور ان کے ساتھی دمشق روانہ ہونے والے ہیں۔کل چونکہ دمشق میں فنونِ حرب کی نمائش ہوگی، اس لیے ان کا آج شام تک وہاں پہنچنا ضروری ہے۔میں نہ والی بصرہ کے حکم سے سرتابی کرسکتا ہوں اور نہ امیرالمومنین کے بھائی کو ناراض کرنے کی جرات کرسکتا ہوں۔آپ جانتے ہیں کہ وہ بہت سخت طبعیت کے آدمی ہیں۔“
”وہ کہاں ہیں؟“
”وہ اندر آرام فرما رہے ہیں۔غالباً دوپہر کے بعد یہاں سے روانہ ہوں گے۔اگر آپ کا کام بہت ضروری ہے تو ان سے اجازت لے لیجیے۔دوپہر تک ان کے گھوڑے تازہ دم ہوجائیں گے۔ویسے بھی کوئی بڑی منزل طے کرکے نہیں آئے۔آپ کھانہ کھا کر ان سے پوچھ لیں۔بذاتِ خود میں آپ کو منع نہیں کرتا۔آپ لے جائیں تو آپ کی مرضی لیکن ہماری شامت آجائے گی۔“
زبیر اور محمد بن قاسم نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر کھانا کھایا اور محمد بن قاسم اندر جانے کے ارادے سے اٹھا۔لیکن زبیر نے کہا۔”کیا یہ ضروری ہے کہ ہم سلیمان کی اجازت حاصل کریں۔ یہ گھوڑے صرف فوجی ضروریات کے لیے یہاں رکھے گئے ہیں اور سلیمان سیروتفریح کے لیے دمشق جارہا ہے۔اسے فوجی معملات میں رکاوٹ پیدا کرنے کا حق نہیں دیا جاسکتا۔گھوڑے اصطبل میں تیار کھڑے ہیں۔شہزادہ سلیمان دوپہر تک آرام فرمائے گا۔ اس کے بعد کچھ دیر آئینہ سامنے رکھ کر اپنے خادموں سے اپنی خوبصورتی کی تعریف سنے گا۔اس کے بعد اشعار کی داد لےگا۔ پھر اپنی نیزہ بازی اور شہسواری کی تعریف سنے گا۔ اس کے بعد ممکن ہے کہ شام کے وقت سپاہیوں کو حکم دےکہ گھوڑوں کی زینیں اتاردو، ہم صبح جائیں گے۔“
محمد بن قاسم نے ہنستے ہوئے کہا۔”معلوم ہوتا ہے۔آپ سلیمان بن عبدالملک کے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں۔“
”ہاں! میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔عالمِ اسلام شاید اس سے زیادہ مغرور اور خود پسند آدمی کوئی نہ ہو۔اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے اس سے کسی اچھے جواب کی امید نہیں۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”مجھے صرف یہ خیال ہے کہ ہمارے چلے جانے کے بعد چوکی کے سپاہیوں کی شامت آجائے گی۔اس لیے اس سے پوچھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔“
”آپ کی مرضی، لیکن آپ پوچھنے جائیں اور میں اتنی دیر میں اصطبل سے دو گھوڑے کھول لاتا ہوں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر79)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر79)
محمد بن قاسم نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔سلیمان اپنے ساتھیوں کے درمیان دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔دوخادم اس کے پاوں دبا رہے تھے۔
محمد بن قاسم السلام علیکم کہہ کر اندر داخل ہوا۔سلیمان نے بےپروائی سے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا۔”تم کون ہو؟ اور کیا چاہتے ہو؟“
محمد بن قاسم نے اس کی ترش کلامی سے لاپرواہی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔”معاف کیجیے! میں آپ کے آرام میں مخل ہوا۔میں آپ کو یہ بتانے آیا تھا کہ میں دمشق میں ایک ضروری پیغام لے کر جارہا ہوں۔“
”جاو! ہم نے کب روکا تمہیں؟“ سلیمان کے ساتھیوں نے اس پرایک قہقہہ لگایا لیکن محمد بن قاسم نے اپنی سنجیدگی برقرار رکھتے ہوئے کہا۔”ہمارے گھوڑے بہت تھکے ہوئے ہیں اور میں اس چوکی سے دو تازہ گھوڑے لےجارہا ہوں۔اس کے لیے مجھے آپ کی اجازت کی ضرورت تو نا تھی لیکن میں نے اس خیال سے آپ کی ملاقات ضروری سمجھی کہ آپ خوامخواہ چوکی کے سپاہیوں کو برا بھلا نا کہیں۔“
سلیمان نے زرا اکڑ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔”اگر تمہارے گھوڑے تھکے ہوئے ہیں تو تم پیدل جاسکتے ہو۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”ایک سپاہی کے لیے پیدل چلنا باعثِ عار تو نہیں لیکن میں بہت جلد دمشق پہنچنا چاہتا ہوں۔“
”تو تم سپاہی ہو۔تمہاری نیام میں لکڑی کی تلوار ہے یا لوہے کی؟“ سلیمان کے ساتھیوں نے پھر ایک قہقہہ لگایا۔
محمد بن قاسم نے پھر اطمینان سے جواب دیا۔”اگر بازووں میں طاقت نا ہو تو لکڑی سے بھی لوہے کا کام لیا جاسکتا ہے۔لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری تلوار بھی لوہے کی ہے اور مجھے اپنے بازووں پر بھی بھروسہ ہے۔“
سلیمان نے اپنے ایک ساتھی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”صالح! یہ لڑکا باتوں میں کافی ہوشیار معلوم ہوتا ہے۔ذرا اٹھو، میں اس کے سپاہیانہ جوہر دیکھنا چاہتا ہوں۔“
ایک گندمی رنگ کا قوی ہیکل شخص فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور نیام سے تلوار نکال کر اگے بڑھا۔
محمدبن قاسم نے کہا۔”میں راہ چلتوں کے سامنے اپنی سپاہیانہ صلاحیتوں کی نمائش کرنے کا عادی نہیں اور نہ میرے پاس اتنا وقت ہی ہے اور اگر وقت ہوتا بھی میں کرائے پر قہقہے لگانے والوں سے دل لگی کرنا ایک سپاہی کے لیے باعثِ عار سمجھتا ہوں۔“
محمد بن قاسم یہ کہہ کر باہر نکل آیا لیکن صالح نے آگے بڑھ کر تلوار کی نوک سامنے کرتے ہوئے اس کا راستہ روک لیا اور کہا۔”بےوقوف! اگر تمہاری عمر دو چار سال اور زیادہ ہوتی، تو میں تمہیں بتاتا کہ کرائے پر قہقہہ لگانے والا کسے کہتے ہیں۔“
سامنے زبیر ایک گھوڑے پر سوار ہوکر دوسرے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے تھا۔سلیمان نے باہر نکل کر کہا۔”اسے جانے دو۔بےچارہ ناجانے کہاں سے تلوار اٹھا لایا ہے۔لیکن وہ کون ہے؟“
اس نے زبیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”اسے روکو!“
صالح زبیر کی طرف متوجہ ہوا لیکن آنکھ جھپکنے میں محمد بن قاسم کی تلوار باہر آچکی تھی۔اس نے کہا۔”معلوم ہوتا ہے کہ ایامِ جاہلیت کے عرب اب بھی اس دنیا میں موجود ہیں۔لیکن تم ہمیں نہیں روک سکتے۔“
صالح تلوار کی نوک اس کے سینے کی طرف بڑھاتے ہوئے چلایا۔”اگر تمہاری زبان سے ایک لفظ اور نکلا تو میری تلوار خون میں نہائے بغیر تلوار میں۔۔۔۔۔۔۔“
لیکن اس کا فقرہ پورا ہونے سے پہلے محمد بن قاسم کی تلوار جنبش سے ہوا میں ایک سنسناہٹ اور پھر دو تلواروں کے ٹکڑانے سے جھنکار پیدا ہوئی اور اس کے ساتھ ہی صالح کی تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دس قدم دور جا پڑی اور وہ حیرت، ندامت اور پریشانی کی حالت میں اپنے ساتھیوں اور اس کے ساتھی دم بخود ہوکر محمد بن قاسم کی طرف دیکھ رہے تھے۔
سلیمان نے اپنے ساتھی کی بےبسی کو دیکھ کر قہقہہ لگایا لیکن محمد بن قاسم کو گھوڑے پرسوار ہوتا دیکھ کر قہقہے کی آواز اس کے گلے میں اٹک گئی اور اس نے چلا کر کہا۔”ٹھہرو!“
محمد بن قاسم نے گھوڑے کی لگام موڑتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔”آپ کا ساتھی بہادر ہے لیکن تلوار پکڑنا نہیں جانتا. میرا مشورہ ہے کہ اپنے ساتھیوں کو دمشق کی نمائش میں لے جانے سے پہلے کسی سپاہی کے سرد کریں۔“ یہ کہہ کر محمد بن قاسم نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگادی اور دونوں آن کی آن میں درختوں کے پیچھے غائب ہوگئے۔
صالح غصے سے اپنے ہونٹ کاٹتا ہوا اصطبل کی طرف بھاگا۔سلیمان نے کہا۔”بس اب رہنے دو۔تم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ایک نوجوان لڑکا ہم سب کا منہ چڑا کر نکل گیا۔“
راستے میں زبیر نے محمد بن قاسم سے کہا۔”دیکھ لیا شہزادہ سلیمان۔میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ وہ خلافت کا امیدوار بھی ہے۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”خدا مسلمانوں کوشر سے بچائے۔“
زبیر نے کہا۔”محمد! میں نے آج پہلی دفعہ تمہارے چہرے پر جلال دیکھا ہے۔تلوار نکالتے وقت تم اپنی عمر سے کئی سال بڑے معلوم ہوتے تھے اور جانتے ہو وہ شخص جسے تم نے مغلوب کیا ہے کون ہے؟ وہ صالح تھا۔قریباً ڈیڑھ سال ہوا میں نے اسے کوفہ میں دیکھا تھا۔اسے تیغ زنی میں اپنے کمال پر ناز ہے۔لیکن آج اس کا غرور اسے لے ڈوبا۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردو ناول”