اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر40)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر40)
پرتاپ رائے نے پھر جلادوں کو اشارہ کیا اور وہ علی اور زبیر پر کوڑے برسانے لگے۔جےرام چلایا۔”ٹھہرو! ٹھہرو! یہ بےقصور ہیں۔یہ ظلم ہے۔انھیں چھوڑ دو۔“
لیکن اس کی چیخ وپکار بےاثر ثابت ہوئی۔اس نے آگے بڑھ کر ایک جلاد کے منہ پر گھونسا رسید کیا، لیکن پرتاپ رائے کے اشارے پر چند سپاہیوں نے اسے پکڑ کر پیچھے ہٹا دیا وہ سپاہیوں کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے جدوجہد کررہا تھا۔علی چیخیں مارنے کی بجائے نیم بیہوشی کی حالت میں آہستہ آہستہ کراہ رہا تھا۔زبیر کر کوڑے کی ضرب لگنے کے بعد جےرام کی طرف دیکھتا اور پھر آنکھیں بند کرلیتا۔بالآخر علی کے کراہنے کی آواز بند ہوگئی اور گردن اٹھانے اور آنکھیں کھولنے کے لیے زبیر کی طاقت بھی جواب دے گئی۔
پرتاپ رائے نے ایک سپاہی کو گرم لوہا لانے کا جکم دیا۔جےرام پھر چلایا۔پرتاپ تم ظالم ہو، کمینے ہو۔مجھے جو سزا چاہو دے لو لیکن ان پر رحم کرو۔“
پرتاپ رائے نےگرج کرکہا۔”مجھے تمہاری بدزبانی کی پروا نہیں۔میں تمہارا فیصلہ مہاراج پر چھوڑ دوں گا لیکن اس وقت ان کی جان ہمارے قبضے میں ہے۔میں ان کی آنکھیں نکلوا دوں گا۔ان کی بوٹیاں نوچ ڈالوں گا۔یہ ناممکن ہے کہ یہ زندہ بھی رہیں اور تم مہاراج کے پاس جاکر اپنی بہن کے اغواء کیے جانے کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈالو۔اگر تمہاری بہن جہاز پر سے غائب ہوئی ہے تو میں ضرور اس کا پتہ لگاوں گا۔اس کے لیے ان تمام بچوں اور عورتوں کے ساتھ یہی سلوک کرنا پڑا تو دریغ نہیں کروں گا۔“
سپاہی نے لوہے کی سلاخ پرتاپ رائے کے ہاتھ میں دےدی اور وہ زبیر کی طرف بڑھا۔جےرام نے بلند آواز میں کہا۔”نہیں!!! نہیں!!! ٹھہرو! میری بہن جہاز پر نہ تھی۔میں اکیلا آیا تھا۔میں فقط ان کی جان بچانا چاہتا تھا۔“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”لیکن مجھے کیونکر یقین آئے کہ تم راجہ کے سامنے ایسی کہانیاں بیان کرکے اسے میرے خلاف نہیں بھڑکاو گے؟“
”پرتاپ میں وعدہ کرتا ہوں۔ایک راجپوت کا وعدہ! مجھ پر اعتبار کرو۔“
”تمہیں یہ گواہی بھی دینی پڑے گی کہ جہاز پر سے کوئی بھی لڑکی غائب نہیں ہوئی۔“
”اگر تم انھیں چھوڑ دو تو میں یہ وعدہ کرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔“
”انھیں چھوڑنا نا چھوڑنا راجہ کا کام ہے۔میں صرف یہ وعدہ کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ آئندہ کوئی سختی نہیں کی جائے گی۔تمہیں راجہ کے سامنے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ تم نے ان لوگوں کو چھڑانے کی نیت سے مجھ پر دباو ڈالا اور اپنی بہن کا بہانہ بنایا تھا۔“
جےرام نے شکست خوردہ سا ہوکر جواب دیا۔”میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔“
پرتاپ رائے نے لوہے کی سلاخ پھینکتے ہوئے کہا۔”تم نے مجھے خواہ مخواہ پریشان کیا۔“
زبیر نے ہوش میں آکر آنکھیں کھولیں۔وہ علی کے قریب قید خانے میں پڑا ہوا تھا۔جےرام ٹھنڈے پانی کی بالٹی سے رومال بھگو بھگو کے اس کے زخموں کی ٹکورکررہا تھا۔ایک عورت علی کو ہوش میں لانے کی کوشش کررہی تھی۔زبیر ہوش میں آتے ہی اٹھ کربیٹھ گیا۔جےرام نے پانی کا کٹورا بھر کے اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔زبیر کے دل میں ایک لمحے کے لیے پھر غصے اور حقارت کے جزبات بیدار ہوئے لیکن جےرام کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس نے پانی کے چند گھونٹ پی لیے۔جےرام نے فقط اتنا کہا۔”زبیر مجھے افسوس ہے۔“ اور اس کی خوبصورت آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔زبیر نے اپنے چہرے پر مغموم مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔”جےرام! تم میرے لیے ایک معما ہو۔تم نے دیبل کے حاکم سے سازباز کرکے ہمیں اس حالت تک پہنچایا۔اس کے بعد تم میرے لیے جلادوں سے نبردآزماہوئے۔اب تم آنسو بھی بہا رہے ہو آخر ان سب باتوں کا مطلب کیا ہے؟“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر41)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر41)
جےرام کے ہونٹوں سے درد کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی آواز نکلی۔”زبیر! مجھ پر اعتبار کرو۔میں تمہارا دوست ہوں۔تم نے میری جان بچائی تھی اور ایک راجپوت احسان فراموش نہیں ہوسکتا۔دیبل کے سردار نے میرے ساتھ دھوکہ کیا۔تمہارے جہازوں پر حملہ کرنے سے پہلے مجھے ایک کوٹھی میں بند کردیا۔تم مجھ سے بدظن ہو۔مجھے دغاباز سمجھتے ہو لیکن میں بےقصور ہوں۔اگر بھگوان نے موقع دیا تو میں یہ ثابت کرسکوں گا۔“
زبیر نے کہا۔”اگر تم اس سازش میں شریک نہیں تو میں پوچھتا ہوں ناہید اور خالد کہاں ہیں؟“
جےرام نے جواب دیا۔”اگر تم مایا کے متعلق کچھ نہیں جانتے تو میں خالد اور ناہید کے متعلق کیا بتا سکتا ہوں۔۔۔؟ میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ میں ساری رات کوٹھڑی میں بند رہا۔تم جہاز پر تھے۔بندرگاہ سے ایک کشتی بھی اس رات غائب ہوچکی ہے۔اگر تم نے لڑائی سے پہلے انھیں کہیں بھیج دیا ہے تو بھگوان کے لیے مجھ سے نا چھپاو۔مجھے یقین ہے کہ تم نے انھیں پرتاپ رائے کے ظالم ہاتھوں سے بچانے کے لیے کہیں بھیجا ہوگا۔مجھے صرف اتنا بتا دو کہ مایا زندہ ہے اور کسی محفوظ جگہ پر ہے۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ تم پر کوئی آنچ نا آنے دوں گا۔میں پرتاپ رائے کو یقین دلا چکا ہوں کہ میری بہن میرے ساتھ نہ تھی۔ورنہ وہ آج تمہیں زندہ نا چھوڑتا۔“
زبیر نے جواب دیا۔”کاش! میں تم پر اعتبار کرسکتا۔تم دونوں ناہید کو چھپا کر مایا کی ذمہ داری ہمارے سر اس لیے تھوپ رہے ہو کہ ہم راجہ سے ناہید اور خالد کے متعلق سوال نا کرسکیں۔“
جےرام نے کہا۔”زبیر! مجھ پر اعتبار کرو۔مجھے تم سے جھوٹ بولنے میں کوئی فائدہ نہیں۔اگر تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو مایا اور ناہید کے متعلق کوئی علم نہیں تو یہ پرتاپ رائے کی شرارت ہے۔آج وہ میرے سامنے تم لوگوں کو اس لیے سزا دے رہا تھا کہ میں آئندہ مایا اور ناہید کا نام نا لوں۔میں یہ وعدہ کرتا ہوں اور تم نہیں جانتے کہ ایک راجپوت بھائی کے لیے اپنی بہن کے متعلق اس قسم کا وعدہ کرنا کس قدر صبر آزما ہے۔“
زبیر نے جواب دیا۔”تمہاری مہربانی کا شکریہ۔اس وقت ہم پر تمہاری تلواروں کا پہرہ ہے۔ہمارے لیے تمہارے جھوٹ اور سچ میں کوئی فرق نہیں پڑتا میں سچ بولنے کا انعام دے سکتا ہوں اور نا جھوٹے بولنے کی سزا۔صرف یہ جانتا ہوں کہ ہم تمہاری وجہ سے اس مصیبت میں گرفتار ہوئے اور جب تک میں ناہید کو نہیں دیکھتا مجھے نا تم پر اعتبار آسکتا ہے نا دیبل کے حکمران پر۔اگر مستقبل کے حالات نے یہ ثابت کردیا کہ تم بے قصور تھے۔تو میں اپنی بدگمانی کے لیے تم سے معزرت کرلوں گا۔اگر دیبل کا حاکم قصوروار ہے تو تمہاری سوچ یہ ہونی چاہیے کہ ہمارا آواز راجہ کے کانوں تک پہنچ جائے۔میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو خالد، ناہید اور تمہاری بہن کا کوئی علم نہیں۔دوسرے جہاز سے سراندیپ کے ملاحوں نے ہمارے جہاز سے چند آدمیوں کو کشتی پر سوار ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔وہ کشتی جنوب کی طرف غائب ہوگئی تھی۔اگر انھیں اس کشتی پر اغواء کیا گیا ہے تو معاملا صاف ہے۔کشتی ہمارے جہازوں سے نہیں بلکہ بندرگاہ سے غائب ہوئی ہے اور اس بات کا علم بندرگاہ والوں کو ہونا چاہیے کے وہاں سے کشتی کون لایا۔“
جےرام نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔”پرتاپ! کمینہ! مکار! ظالم! بزدل!۔۔۔۔زبیر بھگوان کے لیے میری خطا معاف کردو۔میں نے تم پر شک کیا۔میں نادم ہوں۔“
زبیر کو ان الفاظ سے زیادہ جےرام کی پرنم آنکھوں نے متاثر کیا اور اس نے جےرام کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”جےرام! تم جاو۔انھیں تلاش کرو۔پرتاپ رائے ظالم بھی ہے اور مکار بھی۔اسے اپنے دل کا حال مت بتانا ورنہ تم اپنی بہن کو تلاش نہیں کرسکو گے اور نا راجہ ہی کے کانوں میں یہ خبر پہنچے گی۔“
جےرام اٹھ کر قید خانے کی کوٹھڑی سے باہر نکل آیا۔پہرے داروں نے دروازہ بند کردیا۔چند قدم دور جانے کے بعد جےرام نے وآپس آکر ایک پہرے دار کو سراندیپ کے ملاحوں کی کوٹھڑی کھولنے کا حکم دیا۔
ان لوگوں سے چند سوالات پوچھنے کے بعد جب وہ باہر نکلا تو اس کے دل پر بھاری بوجھ تھا۔سراندیپ کے ملاح زبیر کے بیان کی حرف نا حرف تصدیق کرچکے تھے اور اسے افسوس تھا کہ اسے زبیر کی باتوں پر شک کیوں گزرا۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر42)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر42)
___مایا کی پریشانی____
تین ہفتوں کے بعد ناہید ایک اجڑے ہوئے قلعے کے ایک کمرے میں بستر پر لیٹی تھی۔برہمن آباد سے بیس کوس کے فاصلے پر ایک گھنے جنگل میں یہ قلعہ کسی زمانے میں گنگو اور اس کے ساتھیوں کی قیام گاہ تھی۔چند دنوں سے گنگو اور اس کے ساتھی پھر سے اس قلعے کو آباد کرچکے تھے۔
ناہید کے زخم اور بخار سے گنگو کو سخت تشویش تھی اور یہی وجہ تھی کہ اس نے ناہید کے شفایاب ہونے تک ایسی جگہ کو قیام گاہ بنایا تھا، جو گردو بیش کے خطرات سے محفوظ تھی۔گنگو لوٹ مار کی قسم کھا چکا تھا۔اسے ایک خاص مقصد کے لیے اپنے ساتھیوں کے لیے گھوڑوں اور دوسرے سازوسامان کی ضرورت تھی۔جہاز غرق ہونے کے بعد اس کے پاس صرف چار بیش قیمت ہیرے رھ گئے تھے۔جنھیں وہ ہر وقت اپنے پاس رکھتا تھا۔وہ ایک گجراتی تاجر کا بھیس بدل کر برہمن آباد پہنچا۔وہاں پر صرد دو عدد ہیرے بیچنے سے اتنی رقم مل گئی جو اس کے تمام ساتھیوں کو گھوڑے تلواریں اور کھانے پینے کا سامان مہیا کرنے کے لیے کافی ثابت ہوئی۔
گنگو کو دیبل کے آس پاس اگر اس قسم کی جائے پناہ مل جاتی تو وہ یقیناً اسے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بناتا لیکن وہاں کوئی موزوں جگہ ہونے کے علاوہ گنگو کو یہ بھی یقین تھا کہ قیدیوں کو برہمن آباد یا آرور میں راجہ کے سامنے ضرور پیش کیا جائے گا۔چند دنوں سے گنگو کے ساتھی دیبل اور برہمن آباد کے درمیان تمام راستوں پر پہرہ دے رہے تھے۔ گنگو کی نیت کے متعلق خالد کے تمام شکوک رفع ہوچکے تھے۔مایا دیوی بھی دن رات ناہید کی تیماداری کرکے گنگو کو کسی حد تک اپنی نیک نیتی کا ثبوت دے چکی تھی۔ناہید کے شبہات دور کرچکی تھی لیکن خالد پر اس کے باتوں کا کوئی اثر نا ہوا۔اس کے لیے گویا وہ تھی ہی نہیں۔وہ تیماداری کے لیے ناہید کے پاس بیٹھتا۔وہ اس کے سامنے ناہید کے زخم کی مرہم پٹی کرتی۔اسے دوائی کھلاتی، اس کا سر دباتی اور خالدکو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اپنے ارادوں کے خلاف کئی بار یہ الفاظ دہراتی۔”آپ کی بہن کی طبعیت اب ٹھیک ہے۔زخم جلد ہی اچھا ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔بہن ناہید اب تندرست ہے۔آپ پریشان نا ہوں۔۔۔۔خدا آپ کی مدد کرے گا۔“ لیکن خالد کی طرف سے کوئی جواب نا پاکر وہ محسوس کرتی کہ خالد کی آنکھیں اور کان اس کے لیے بند ہو چکے ہیں۔دریائے سندھ کے دہانے سے اس مقام تک کشتی کے طویل سفر میں بھی یہی حالت تھی۔دریا میں وہی پانی تھا، جسے وہ سمندر میں دیکھ چکی تھی۔ہر صبح وہی سورج نمودار ہوتا اور شام کے وقت انہیں چاند اور ستاروں کی محفل سجتی تھی لیکن خالد کے طرزِ عمل میں تبدیلی کے بعد اس کے لیے کائنات کی تمام رنگینیاں پھیکی پر چکی تھیں۔اگر خالد اسکی مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے دے سکتا۔اگر وہ ایک بار پوچھ لیتا مایا تم کیسی ہو۔اگر اس کے ہاتھ مایا کی آنکھوں سے بےبسی کے آنسو پونچھنے کے لیے معمولی سے آمادگی ظاہر کرتے تو بھائی کی جدائی کے احساس کے باوجود وہ اس بات پر خوش ہوتی کہ قدرت نے دیبل سے ان کے رابطے جدا نہیں کیے۔وہ جہاز پر سفر کے دوران میں اکثر یہ سوچا کرتی تھی کہ کاش خالد کے ساتھ اس کا سفر ختم نا ہو۔کاش کوئی طوفان جہاز کا رخ بدل دے، اور خالد کے ساتھ کسی ایسے جزیرے پر پہنچ جائے جہاں صاف اور شفاف پانی کی ندیاں بہتی ہوں۔آبشاریں محبت کے گیت گاتی ہوں۔سدا بہار درخت لہلہاتے ہوں۔گہری جھیل میں کنول کھلتے ہوں۔دیبل کی بندرگاہ کی ایک پہلی جھلک دیکھنے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے اس کے سپنوں کی رنگین دنیا درہم برہم ہوئی لیکن قدرت نے جب اسے جہاز کی بجائے ایک کشتی میں سوار کردیا تو مایا دیوی پھر سپنوں کی نئی دنیا آباد کرنے لگی لیکن دیبل کے حادثہ نے ایک جیتے جاگتے نوجوان کو پتھر کا مجسمہ بنا دیا۔محبت اور وفا کی دیوی کی ملتجی اور متمنی نگاہوں کے جواب میں خالد کی آنکھوں میں نفرت اور حقارت کے سوا کچھ نا تھا۔
ان لوگوں میں صرف ناہید ایسی تھی جسے یقین تھا کہ دیبل کے حادثے سے مایا دیوی کا کوئی تعلق نہیں۔وہ ایک عورت کی ذکاوتِ حس سے مایا کی ذہنی کشمکش کا اندازہ کرچکی تھی۔اسے جب بھی موقع ملتا وہ خالد کے سامنے مایا کی پاکیزگی، اس کی معصومیت اور اس کی حیا کا ذکر چھیڑ دیتی۔خالد گفتگو کا موضع بدلنے کی کوشش کرتا تو وہ کہتی۔”خالد! تمہارا دل بہت سخت ہے۔تم دیکھتے نہیں اس کا سرخ و سفید چہرہ دوپہر کے پھول کی طرح مرجھا گیا ہے۔اس کا بھائی برا سہی لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ معصوم ہے۔وہ تمہیں اپنی آخری پناہ خیال کرتی ہے۔تم اسے تسلی دے سکتے ہو۔وہ اب یہاں تک کہہ چکی ہے کہ اگر اس کا بھائی واقع اس سازش میں شریک تھا تو وہ اس کے پاس جانے سے مرنا بہتر سمجھتی ہے۔“
اور وہ جواب دیتا۔”میں دوپہر کے وقت چراغ کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔میں جو کچھ دیکھ چکا ہوں۔اس کے بعد اس لڑکی کے لیے اپنی رائے بدلنا میرے بس کی بات نہیں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر43)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر43)
چند دن اس قلعے میں رہنے کے بعد ناہید چلنے پھرنے کے قابل ہوگئی لیکن قمر کا زخم ابھی تک مدمل نہیں ہوا تھا۔خالد کبھی کبھی سواروں کی ٹولی کے ساتھ گشت پر چلا جاتا تھا۔
ایک شام مختلف اطراف سے سپاہیوں کی تمام ٹولیاں وآپس آگئیں لیکن خالد اور اس کے چار سپاہی وآپس نا آئے۔ناہید نمازِ مغرب کے بعد اپنے بھائی کی خیریت کی دعا کررہی تھی۔گنگو اپنے چند ساتھیوں کو خالد کی تلاش میں روانہ کرکے ایک اونچے درخت پر چڑھ کر اس کی راہ دیکھ رہا تھا۔مایا قلعے سے باہر نکل کر گھنے درختوں میں اسے ادھر ادھر تلاش کررہی تھی۔اچانک اسے دور سے گھوڑوں کی ٹاپ کی آواز سنائی دی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور وہ تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی آگے بڑھی۔اس کا دامن ایک جھاڑی کے کانٹوں سے الجھ گیا۔وہ کانٹوں کو الگ کررہی تھی کہ جھاڑیوں کے عقب سے خالد اور دوسرے سوار نمودار ہوئے۔خالد نے گھوڑا روکتے ہوئے پوچھا۔”میری بہن کیسی ہے؟“
کانوں کے راستے یہ الفاظ مایا کے دل میں اتر گئے۔وہ خالد کی طرف دیکھنے لگی۔خاردار جھاڑی کی چند شاخیں جو اس نے اپنے دامن سے جدا کی تھیں۔اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر پھر اس کے دامن میں الجھ گئیں۔
خالد نے پھر کہا۔”بتاو میری بہن ٹھیک ہے نا؟“
مایا نے چونک کرجواب دیا۔”وہ بلکل ٹھیک ہے۔آپ نے بہت دیر لگائی!“
”تم یہاں کیا کررہی ہو؟“
”میں___کچھ نہیں۔“ یہ کہہ کر مایا اپنے دامن کو کانٹوں سے چھڑانے لگی۔لیکن اس کی نگاہیں خالد پر گڑی ہوئی تھیں۔خالد گھوڑے سے اترا اور اس کے ساتھی دزدیدہ نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے اور مسکراتے ہوئے آگے نکل گئے۔خالد شاخوں کو ایک ایک کر کے اس کے دامن سے الگ کرنے لگا۔مایا کا تنفس تیز ہورہا تھا۔اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو امڈنے لگے۔اس نے اپنا کانپتا ہاتھ خالد کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
خالد نے ایک شاخ اس کے دامن سے الگ کرتے ہوئے کہا۔”اسے پکڑو۔“اس نے جلدی سے شاخ پکڑنے کی کوشش کی لیکن ایک تیز کانٹا اس کی انگلی میں پیوست ہوگیا اور شاخ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر پھر اس کے دامن سے الجھ گئی۔مایا کانٹے کی تکلیف کے باوجود مسکرائی۔تشکر کے آنسووں میں بھیگی ہوئی مسکراہٹ نے اس کا چہرہ شبنم آلود پھول سے کہیں زیادہ دلفریب بنادیا۔خالد نے اس کی طرف دیکھا اور آنکھیں جھکاتے ہوئے کہا۔”لاو میں نکال دوں۔“
مایا نے کچھ کہے بغیر اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔خالد کانٹا نکال کر پھر جھاڑی کی طرف متوجہ ہوا۔اس نے پوچھا۔”تم یہاں کیوں آئیں؟“
مایا نے جواب دیا۔”قلعے میں گرمی تھی اور میں ذرا ہوا خوری کے لیے یہاں نکل آئی تھی۔“ لیکن اس کا دل کہہ رہا تھا کہ کیا سچ مچ تم میرے یہاں آنے کی وجہ نہیں سمجھ سکے؟ کاش میں تمام عمر کانٹوں میں الجھی رہوں اور تم نکالتے رہو۔
خالد نے جواب دیا۔”لیکن اس وقت درختوں کے نیچے تو زیادہ حبس ہے؟“
مایا نے پریشان سی ہوکر خالد کی طرف دیکھا۔لیکن کچھ سوچنے کے بعد جواب دیا۔”میں دریا کی طرف جارہی تھی۔“
”دریا دوسری طرف ہے۔“
”میں بھی اسی طرف جارہی تھی۔لیکن_“
”لیکن کیا؟“
”گھوڑوں کی ٹاپ سن کر اس طرف نکل آئی۔آج آپ نے بہت دیر کی۔میں۔۔۔۔بہت پریشان تھی۔“
”میں تمہاری پریشانی کی وجہ نہیں سمجھ سکا۔اگر میں زبیر اور اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح قید میں ہوتا تو تمہیں بہت اطمینان ہوتا لیکن میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں اب بھی قید میں ہوں۔میں تمہارے بھائی کی طرح اپنی بہن کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔“
مایا کے دل پر چرکا لگا۔وہ دیر تک بےحس و حرکت کھڑی رہی۔اس نے خلافِ معمول خالد کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھا اور اس کی چمکتی ہوئی پتلیوں پر پھر پانی کے دھندلے نقاب چھا گئے۔یہ نقاب ابھر کر چھلکتے ہوئے آنسووں میں تبدیل ہوگئے۔پلکیں انھیں زیادہ سہارا نا دے سکیں۔دو چمکتے ہوئے موتی رخساروں پر ہلکی ہلکی لکیتیں چھوڑتے ہوئے ہونٹوں پر آرکے۔مایا نے اپنا چہرہ دوبٹے میں چھپا لیا۔
”چلو اب دیر ہورہی ہے۔“ خالد کی آواز سن کر مایا نے چونک کر چہرے سے ہاتھ ہٹائے۔اس کا دامن کانٹوں سے الگ ہو چکا تھا اور خالد گھوڑے کی باگ پکڑ کر چلنے کے لیے تیار کھڑا تھا۔وہ بولی۔
”آپ جائیے! میں خود آجاوں گی لیکن میں آپ سے آخری بار صرف ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ میں بےقصور ہوں۔اگر میرا بھائی اس سازش میں شامل تھا تو یہ بھی انصاف نہیں کے اس کے پاپ کی سزا مجھے ملے۔“
خالد نے کہا۔”میں تمہیں سزا نہیں دینا چاہتا۔تمہیں بہت جلد تمہارے بھائی کے پاس پہنچا دیا جائے گا۔تمہارا بھائی بھی تم سے دور نہیں۔وہ یہاں سے چار کوس دور دریا کے کنارے ایک ٹیلے پر پڑاو ڈالے ہوئے ہے۔وہ راجہ سے انعام حاصل کرنے کے لیے قیدیوں کو برہمن آباد لے جارہا ہے۔اس کے ساتھ دیبل کا حاکم بھی ہے۔کل تک وہ برہمن آباد پہنچ جائیں گے۔شاید آج رات ہی تمہارے بھائی کے پاس ہمارا پیغام پہنچ جائے اور اگر اس نے قیدیوں کو چھوڑنا منظور کرلیا، تو تمہیں اس کے پاس پہنچا دیا جائے گا۔میں شروع سے اس بات کا حامی نا تھا کہ تمہیں یہاں رکھا جائے۔ہمارا اخلاق اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم ایک بےبس عورت پر ہاتھ اٹھائیں۔تم اطمنان رکھو۔“
”آپ کو کس نے بتایا کہ میرا بھائی قیدیوں کو لے جارہا ہے۔کیا یہ ممکن نہیں کہ پرتاپ کے ساتھ وہ بھی قیدی کی حثیت میں جارہا ہو۔“
”میں خود آج اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔وہ ایک مشکی گھوڑے پر سوار تھا، اور قیدی بیل گاڑیوں پر بھی پابہ زنجیر تھے۔چلو اب دیر ہورہی ہے۔گنگو میرا انتظار کررہا ہوگا۔“
”آپ جائیں! میں ابھی آتی ہوں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر44)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر44)
خالد گھوڑے کی باگ پکڑ کر پیدل چلتا ہوا قلعے کے دروازے تک پہنچا۔گنگو باہر اس کے انتظار میں کھڑا تھا۔
اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔”خالد! مایا کو کہاں چھوڑ آئے؟“
خالد نے بےپروائی سے جواب دیا۔”وہ آرہی ہے۔“
”رات ہو رہی ہے۔تم اسے ساتھ کیوں نا لے آئے؟“
”آپ لے آئیں۔وہ کہتی تھی تم جاو میں آجاتی ہوں۔“
گنگو نے مسکراتے ہوئے کہا۔”یہ عورت بھی عجیب مخلوق ہے۔وہ چھپ چھپ کر تمہاری راہ دیکھ سکتی ہے۔تمہارے لیے کانٹوں میں الجھ سکتی ہے لیکن تم زرا اس کی طرف مائل ہوئے اور وہ وحشی ہرنی کی طرح کترا کر بھاگی۔“
خالد نے جواب دیا۔”میرے دل میں شاعری کے لیے کوئی جگہ نہیں۔اب آپ بتائیں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔آپ دیبل کے قافلے کی خبر سن چکے ہوں گے۔“
”ہاں میں سن چکا ہوں۔ان کے ساتھ دو سو مسلح سپاہی ہیں ہم مٹھی بھر آدمیوں کے ساتھ ان پر حملہ نہیں کرسکتے۔میں جےرام کو یہاں لانے کی تجویز سوچ چکا ہوں۔“
”دیکھا اس لڑکی کی باتوں میں آکر ناہید جےرام کے متعلق اپنے خیالات بدل چکی تھی اور آپ بھی متاثر ہورہے تھے۔“
گنگو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”بیٹا! تم مجھ سے زیادہ متاثر تھے۔بہرحال مجھے اب یقین ہوچکا ہے کہ مایا معصوم ہے۔“
”اور اس کے باوجود آپ جےرام کو مایا کے قتل کی دھمکی دینا چاہتے ہیں۔“
”تمہارے ساتھیوں کو آزاد کرانے کی اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں۔“
”لیکن اگر جےرام نے اپنے راجہ کی خوشی پر اپنی بہن کو قربان کردیا تو؟“
”مجھے ایسی امید نہیں لیکن اگر جےرام اس قدر ذلیل ثابت ہوا تو مایا جیسی لڑکی کو ایسے ظالم بھائی کے ہاتھوں سے بچانا ہمارا فرض ہے۔وہ خود بھی جےرام کی بجائے تمہاری پناہ کو ترجیج دے گی۔چند دنوں تک تمہاری بہن سفر کے قابل ہوجائے گی، اور ہم تمہیں مکران کی حدود کے اندر پہنچا دیں گے۔“
”لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے ساتھیوں کو مصیبت میں چھوڑ کر چلے جائیں۔“
”تم وہاں جاکر ان کی زیادہ مدد کرسکو گے۔عربوں کے علاوہ سراندیپ کے ملاحوں کو بھی قید میں رکھے جانے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ تمہارے جہازوں کے لوٹے جانے کی خبر سندھ سے باہر نا نکلے۔اگر یہ خبر وہاں تک پہنچ گئی تو تمہاری قوم اسے خاموشی سے برداشت نہیں کرے گی۔ لیکن تم اس وقت تک نہیں جاسکتے کہ جب تک ناہید تندرست نہیں ہوتی۔اگر جےرام ہمارے قابو میں آگیا تو یہ ممکن ہے کہ ہم کم از کم زبیر کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوجائیں۔“
”اگر یہ ہوسکے،تو بہت اچھا ہوگا۔میں عرب میں کسی کو نہیں جانتا ممکن ہے کہ بصرہ اور دمشق میں میری آواز پر کوئی توجہ نا دے لیکن زبیر وہاں ہزاروں آدمیوں کو جانتا ہے۔ہاں! آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آج رات میرے ذمہ کیا کام ہے؟“
گنگو نے جواب دیا۔”تم آرام کرو۔لیکن مایا دیوی ابھی تک نہیں آئی۔شاید وہ دوسرے راستے قلعے میں پہنچ گئی ہو۔“
”میں ابھی معلوم کرتا ہوں۔“ یہ کہہ کر خالد بھاگتا ہوا قلعے میں داخل ہوا۔تھوڑی دیر بعد اس نے وآپس آکر گنگو کو اطلاح دی کہ وہ ابھی تک نہیں پہنچی۔
گنگو نے کہا۔”تم اسے کتنی دور چھوڑ آئے تھے؟“
”اس جھاڑی کے پیچھے کوئی سو قدم کے فاصلے پر۔“
”تم نے اس کے ساتھ کوئی سخت کلامی تو نہیں کی؟“
”نہیں۔لیکن اسے میری ہربات پر رونے کی عادت ہوچکی ہے۔ہاں میں ایک غلطی کرچکا ہوں۔“
”وہ کیا؟“
”میں نے اسے بتادیا تھا کہ اس کا بھائی یہاں سے چارکوس پر ہے۔“
”رات کے وقت اس جنگل کو عبور کرنا ایک عورت کا کام نہیں۔“ یہ کہتے ہوئے گنگو نے اپنے ساتھیوں کو آواز دے کر بلایا اور جنگل میں مایا کو تلاش کرنے کا حکم دے کر خالد کو کہا۔”تم اس طرف جاو۔ میں دریا کی طرف جاتا ہوں۔مجھے اس پر شک نہیں لیکن مایوسی کی حالت میں عورت توقع کی خلاف بھی بہت کچھ کرگزرتی ہے۔میں جاتا ہوں۔کہیں دریا کے کنارے ہماری کشتی اس کی تباہی کا باعث نا ہو۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر45)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر45)
خالد کے جانے کے بعد مایا کچھ دیر اس خاردار جھاڑی کے قریب کھڑی رہی وہ کانٹے جو اس کے دامن کو کھینچ کر خالد کے ہاتھوں تک لے گئے تھے۔اس کے لیے مہکتے پھولوں سے کم نا تھے۔وہ ان چند لمحات کا تصور کررہی تھی،جب خالد اس سے اس قدر قریب تھا۔اس کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔وہ یکے بعد دیگرے زہر اور شہد کے گھونٹ اپنے حلق میں اتار رہی تھی۔اس کا دل خالد کے متعلق متضاد خیالات کی رزم گاہ تھا۔وہ کبھی اسے قہروغضب کا پیکرِ مجسم اور کبھی ایثارومحبت کا دیوتا خیال کرتی۔تھوڑی دیر وہاں کھڑی رہنے کے بعد وہ اپنے دل پر ایک ناقابلِ برداشت بوجھ محسوس کرنے لگی اور چاند کی روشنی میں درختوں اور جھاڑیوں سے بچتی ہوئی دریا کی طرف چل دی۔
دریا کے کنارے ایک کشتی کھڑی تھی۔وہ کشتی جس نے انھیں سمندر سے یہاں تک پہنچایا تھا۔جس پر سفر کرتے ہوئے اس نے پہروں تاروں سے باتیں کیں تھیں۔ اس نے کشتی کے ایک سرے پر بیٹھ کر نیچے پاوں لٹکا دیے۔پانی کی لہریں اس کے پاوں کو چھورہی تھیں۔آس پاس جنگل میں گیدڑوں اور بھیڑیوں کی آوازیں آرہی تھیں۔مایا نے اپنے نے اپنے دل سے سوال کیا۔”اگر کوئی بھیڑیا اس طرف آجائے تو؟“ اور پھر خود ہی جواب دیا۔”اگر بھیڑیا آجائے تو میں بھاگنے کی کوشش نا کروں گی۔میں کشتی سے اتر کر اس کے سامنے کھڑی ہوجاوں گی اور پھر جب وہ صبح کے وقت میری لاش دیکھے گا تو اس کی کیا حالت ہوگی؟وہ کہے گا، مایا! تم ادھر کیوں آئیں۔میں تو تمہارے ساتھ مذاق کرتا تھا۔میں جانتا تھا، تم بےقصور ہو۔مایا مجھے معاف کردو۔میں نے تمہیں پہچاننے میں غلطی نہیں کی۔نہیں! نہیں!!! وہ شاید یہ نا کہے۔وہ کہے گا۔یہ دیوانی تھی۔یہ پگلی تھی۔ہاں میں سچ مچ پگلی ہوں۔اس کے دل میں میری لیے کوئی جگہ نہیں۔وہ میرا دامن کانٹوں سے چھڑارہا تھا اور میں سمجھ رہی تھی کہ مجھے دنیا کی بادشاہت مل گئی۔۔۔۔میں دریا کے کنارے ریت کے کھروندے بنا رہی تھی اس کا دل پتھر کا ہے۔وہ ظالم ہے۔اسے کسی پر اعتبار نہیں، اور بھی کیونکر، میرے بھائی نے ان لوگوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے۔کاش! وہ میرا بھائی نا ہوتا۔کاش اس نے جہاز پر ہی مجھے بتادیا ہوتا کہ وہ ان کے ساتھ یہ دھوکہ کرنے والا ہے اور وہ چھپ چھپ کر خالد کو نا دیکھتی۔اب وہ مجھے بھائی کے پاس بھیجنے والے ہیں لیکن اگر اس کا انجام یہی تھا تو قدرت نے مجھے اس کے جہاز تک کیوں پہنچایا؟ اور پھر جب ہم دیبل سے جدا ہونے والے تھے،قدرت ہمیں یہاں کیوں لے آئی؟ میں اب تک اس کی نفرت کے باوجود اس سے محبت کیوں کرتی رہی۔میں نے مایوسیوں کی آندھی میں کھڑی ہوکر امید کے چراغ کیوں جلائے۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں میں مجبور تھی۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میرے بس کی بات نہیں۔۔۔۔۔۔میں اب بھی بےبس ہوں۔۔۔۔میرا کوئی نہیں۔۔۔۔میرا کوئی نہیں۔۔۔۔۔میں اپنے بھگوان کو پکار چکی ہوں جس کی وہ دن میں پانچ بار عبادت کرتا ہے۔لیکن میرے لیے آنسووں اور آہوں کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔آنسواور آہیں۔۔۔۔۔کاش! میں پیدا ہی نا ہوتی۔کاش! سمندر کی لہریں مجھ پر ترس نا کھاتیں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر46)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر46)
مایا سر کو ہاتھوں کو سہارا دے کر دیر تک ہچکیاں لیتی رہی۔کسی نے اس کے کندھےپر ہاتھ رکھتے ہوئے ”مایا“ کہہ کر پکارا اور اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔اس نے مڑ کر دیکھا۔گنگو قریب کھڑا تھا۔اس نے کہا۔”بیٹی تم ڈر گئیں، اس وقت یہاں کیا کررہی ہو؟“
”کچھ نہیں۔“ اس نے آنسو پونچتے ہوئے جواب دیا۔
”تم رورہی ہو؟ کیا ہوا؟“
مایا خاموش رہی۔گنگو نے پھر پوچھا۔”اس وقت ایسی سنسان جگہ پر تمہیں ڈر نہیں لگتا؟ سنو! چاروں طرف سے بھیڑیوں کی آوازیں آرہی ہیں۔چلو میرے ساتھ!“
مایا نے کہا۔”میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں۔“
”وہ کیا؟“
”آپ سچ مچ مجھے میرے بھائی کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کرچکے ہیں؟“
گنگو نے جواب دیا۔”میں اپنا فیصلہ سنانے سے پہلے تمہارا فیصلہ سننا چاہتا ہوں۔“
”بھگوان کے لیے مجھے اس کے پاس نا بھیجیے!“
”لیکن کیوں؟“
”میں بھائی کے پاس نہیں جانا چاہتی۔جس نے میری ماں کے دودھ کی لاج نہیں رکھی۔“
”یہ تم دل سے کہہ رہی ہو یا مجھے بنانے کے لیے؟“
”کاش آپ میرا دل چیڑ کردیکھ سکتے۔“
”لیکن جےرام سے نفرت کی وجہ؟“
”میں خالد سے اس کے متعلق سن چکی ہوں اور اب مجھے اس کی دغابازی کے متعلق کوئی شبہ نہیں رہا۔“
”لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم تمہیں تمہارے بھائی کے حوالے کرکے زبیر کے ساتھیوں کو آزاد کرواسکیں۔“
”اگر جےرام ایک دفعہ دھوکا کرچکا ہے تو وہ دوبارا موقع ملنے پر بھی دھوکہ کرے گا۔اسے کسی صورت بھی یہ معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ میں آپ کے پاس ہوں۔ورنہ وہ راجہ کے سپاہیوں کو ساتھ لےکر جنگل کا کونہ کونہ چھان مارے گا۔ناہید اچھی طرح چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہوئی۔آپ کے لیے اس کی حفاظت مشکل ہوجائے گی۔“
”بیٹی! تم اطمینان رکھو۔جےرام کو تمہیں میرے قبضے میں دیکھ کر سب مکاریاں بھول جائیں گی۔اگر بعد میں اس کی طرف سے کئی خدشہ بھی پیش آیا تو ناہید کے لیے میں ایک اور محفوظ جگہ تلاش کرچکا ہوں۔“
”تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس نے قیدی آپ کے حوالے کردیے تو آپ مجھے اس کے سپرد کردیں گے؟“
”بیٹی! وہ تمہارا بھائی ہے۔تم اس کے پاس جانے سے کیوں ڈرتی ہو؟“
”میرا دنیا میں کوئی نہیں۔بھائی نے مجھے اپنے مقصد پر قربان کرنا چاہا اور میں آپ کے قبضے میں آگئی۔اب آپ مجھے بیٹی کہہ کر اپنے مقصد کے لیے پھر اس کے پاس بھیجنا چاہتے ہیں، اپنے بھائی کی طرح آپ کا فیصلہ بھی میرے لیے تقدیر کا حکم ہوگا۔کاش! میری تقدیر میرے ہاتھ میں ہوتی۔کاش! مجھے اس دنیا میں اپنا راستہ تلاش کرنے کا حق ہوتا لیکن میری پسند اور ناپسند کے کوئی معانی نہیں میں اس طوفان میں ایک تنکا ہوں جسے ہوا کا جھونکا جس طرف چاہے اڑا کر لےجاسکتا ہے۔میرا ہونا نا ہونا برابر ہے۔“
گنگو نے کچھ سوچنے کہ بعد کہا۔”اگر یہ معاملہ تمہاری پسند پر چھوڑ دیا جائے تو تم کیا کرو گی؟“
مایا نے قدرے پرامید ہوکرجواب دیا۔”میں آپ کی قید کو آزادی پر ترجیح دوں گی۔“
”وہ کیوں؟“
”میں ناہید کو بیماری کی حالت میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی۔“
”مایا! میں ایک سوال پوچھتا ہوں،سچ کہو،تمہیں خالد کے ساتھ محبت ہے؟“
مایا نے آنکھیں جھکا لیں۔
اس نے پھر کہا۔”مایا! میرے سوال کا جواب دو۔“
وہ بولی۔”لیکن آپ یہ کیوں پوچھتے ہیں؟“
”اس لیے کہ شاید اس سوال کا جواب پوچھ کر میں تمہارے لیے کوئی بہتر فیصلہ کرسکوں۔“
”مجھے معلوم نہیں۔لیکن میں اتنا جانتی ہوں کہ میں ان کے بغیر زندہ نہیں رھ سکتی۔“
”تم یہ بھی جانتی ہو کہ تمہارے متعلق اس کے شکوک ابھی رفع نہیں ہوئے۔اس کا دل سمندر کی چٹانوں سے زیادہ سخت ہے۔میں تمہیں بیٹی کہہ چکا ہوں۔آج سے تمہارا سکھ میرا سکھ اور تمہارا دکھ میرا دکھ۔میں یہ نہیں چاہتا کہ تم کسی دن اسے اپنا بنا لینے کی امید میں سب کچھ قربان کردو۔ممکن ہے اسے تمام عمر تمہاری نیک نیتی کا یقین نا آئے۔اپنے متعلق اس کے خیالات بدلنے کے لیے تمہیں بہت بڑی قربانی دینی ہوگی۔“
”میں ہرقربانی کے لیے تیار ہوں۔لیکن مجھ سے ہمیشہ کی جدائی برداشت نہیں ہوسکتی۔“
”تمہیں بھائی کا خیال تو نہیں ستائے گا؟“
”راجہ کے ٹکڑے کھانے کے بعد وہ میرا بھائی نہیں رہا۔مجھے اس سے کئی ہمدردی نہیں۔“
گنگو نے کہا۔”میں اسے ایک طریقے سے یہاں لانا چاہتا ہوں۔اس کی صورت دیکھ کر تمہارا دل پسیج تو نا جائے گا؟ اس نے اپنے محسنوں کے ساتھ دغا کی ہے۔اگر اس کی سزا تم پر چھوڑ دی جائے تو تم اس کے ساتھ کیا سلوک کرو گی؟“
”وہی جو ایک دغاباز، بزدل اور فریبی کے ساتھ ہونا چاہیے۔“
گنگو نے کہا۔”مایا! مجھے سوچ کر جواب دو۔یہ ایک کڑا امتحان ہے۔ممکن ہے کہ میں تمہارے بھائی کو تمہارے سامنے کھڑا کرکے انصاف کی تلوار تمہارے ہاتھ میں دےدوں۔“
”میں سوچ چکی ہوں۔میں اسے رحم کی مستحق نہیں سمجھتی۔“
گنگو کچھ کہنا چاہتا تھا۔لیکن جھاڑیوں کے پیچھے سے خالد کی آواز آئی۔”مایا! مایا! تم کہاں ہو؟“
گنگو نے کہا۔”مایا تم کشتی میں چھپ جاو اور جب تک میں نا کہوں باہر مت آنا۔“
مایا نے کچھ سوچے سمجھے بغیر اس کے حکم کی تعمیل کی۔گنگو کشتی سے اتر کر دریا کے کنارے کھڑا ہوگیا۔خالد نے پھر آواز دی تو اس نے کہا۔”خالد میں ادھرہوں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر47)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر47)
خالد نے جھاڑیوں کے عقب سے نمودار ہوکر پوچھا۔”مایا نہیں ملی؟ آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟“
گنگو نے اپنے لہجے کو مغموم بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔”مایا چلی گئی۔آہ بےچاری۔“
خالد نے بدحواس ہوکر پوچھا۔”کہاں چلی گئی۔کیا ہوا؟“
”خالد تم نے بہت برا کیا۔کاش تم اس کا دل نا توڑتے۔“
”آخر کیا ہوا؟ خدا کے لیے مجھے بتاو۔“
”اب پچھتانے سے فائدہ؟ جو ہونا تھا سوہوچکا۔کاش وہ تم جیسے سنگدل انسان سے محبت نا کرتی۔“
خالد نے بےتاب ہوکر گنگو کو کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔”خدا کے لیے مجھے پریشان مت کرو۔صاف صاف کہو کیا ہوا؟“
”مایا چل بسی۔میں یہاں آیا تو وہ دریا کے کنارے کھڑی تھی۔میں نے اسے آواز دی تو اس نے مجھے جواب دینے کی بجائے دریا میں چھلانگ لگا دی۔میں نے جلدی جلدی کپڑے اتارے لیکن اتنی دیر میں پانی کی لہر اسے کنارے سے بہت دور لےگئی۔ جب میں پانی میں کودنے لگا وہ لہروں کی آغوش میں چھپ چکی تھی۔“
خالد نے چلا کرکہا۔”مایا ڈوب رہی تھی اور تم اطمینان سے کنارے کھڑے کپڑے اتارتے رہے تھے۔بے رحم! ظالم! ڈاکو! میں سمجھتا تھا تم انسان بن چکے ہو۔“
گنگو نے کہا۔”میں کپڑوں سمیت چھلانگ لگا دیتا تو خود ڈوب جاتا۔“
”تو تم سمجھتے ہوکہ تمہارے ڈوبنے سے دنیا میں کوئی کمی آجاتی؟“
”تو اس کے مرنے سے کون سا دنیا میں کمی آگئی ہے۔بھائی سے اس کا دل ٹوٹ چکا تھا۔ تمہارے طرزِ عمل سے وہ مایوس ہوچکی تھی۔اچھا ہوا۔وہ گھل گھل کر مرنے کی بجائے دریا میں ڈوب کر مرگئی۔ہاں جب میں کپڑے اتار رہا تھا اور لہریں اسے دھکیل کر منجدھار کی طرف لےجارہی تھیں۔وہ چلا چلا کرکہہ رہی تھی۔گنگو! مجھے بچانے کی کوشش بےسود ہے۔خالد کو میرا سلام کہنا۔میں اس کی محبت سے مایوس ہوکر زندہ نہیں رہنا چاہتی۔“
خالد دیر تک بےحس و حرکت کھڑا رہا۔گنگو نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”خالد چلو! اب افسوس سے کیا حاصل؟ جو ہونا تھا سو ہوچکا۔“
خالد نے اس کا ہاتھ جھٹک کر پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا۔”تم جاو!“
گنگو نے کہا۔”آج رات ہمیں بہت سے کام کرنے ہیں چلو!“
خالد نے سخت لہجے میں کہا۔”گنگو خدا کے لیے جاو! مجھے تھوڑی دیر کے لیے تنہا چھوڑ دو۔“
وہ بولا۔”خالد! مجھے معلوم نا تھا کہ مایا کی موت کا تمہیں اس قدر صدمہ ہوگا۔ورنہ میں اپنی جان پر کھیل کر بھی اسے بچانے کی کوشش کرتا۔“
خالد نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔”اس کی موت کا صدمہ! گنگو تمہارے پہلو میں ایک انسان کا دل نہیں۔یہ حادثہ میری زندگی کا سب سے بڑا حادثہ ہے۔اس کی موت کا باعث میں ہوں اور میں مرتے دم تک خود کو معاف نہیں کروں گا۔“
”لیکن تم تو مجھ کو کئی بار کہہ چکے ہو کہ مایا دیوی کو اس کے بھائی کے پاس بھیج دو۔اگر تمہیں اس سے جدا ہونے کا خوف نا تھا تو اس کی موت کا اس قدر رنج کیوں؟“
”گنگوخدا کے لیے میرے زخموں پر نمک نہ چھڑکو۔میں نے اسے سمجھنے میں غلطی کی اور یہ سزا میری قوتِ برداشت سے زیادہ ہے۔“
”خالد چھوڑو ان باتوں کو۔مجھے یقین ہے کہ اگر وہ ایک بار پھر زندہ ہوجائے تو بھی تمہارا غرور تمہیں اس کی محبت کا جواب دینے کی اجازت نہیں دےگا۔تم اس کے ساتھ اس طرح پیش آو گے۔چلو ایک دو دن میں تم اسے بھول جاو گے۔“
خالد کوئی جواب دیے بغیر ایک گرے ہوئے تنے کے درخت پر بیٹھ گیا اور دریا کی لہروں کی طرف دیکھنے لگا۔اس نے درد بھری آواز میں کہا۔”مایا! مایا! یہ تم نے کیا کیا!“
گنگو نے پھر کہا۔”خالد! تمہیں اب ایک مرد کے حوصلے سے کام لینا چاہیے۔“
”گنگو تم جاو! میں ابھی آجاوں گا۔“
”اچھا تمہاری مرضی۔“گنگو یہ کہہ کر چل دیا۔لیکن قلعے کا رخ کرنے کی بجائے جھاڑیوں میں چھپتا ہوا کشتی کے قریب ایک درخت کی آڑ میں جا کھڑا ہوا اس نے آہستہ سے آواز دی۔”مایا اب نکل آو۔“
مایا کا دل دھڑک رہا تھا۔وہ خالد اور گنگو کی باتیں سن چکی تھی۔وہ اس موت کو جو اسے خالد کے دل سے اس قدر قریب لاسکتی تھی ہزار زندگیوں پر ترجیح دینے کے لیے تیار تھی۔وہ خالد کی آہیں سن رہی تھی اور اسے خدشہ تھا کہ اس مذاق کے بعد خالد اس سے ہمیشہ کے لیے بدظن ہوجائے گا۔اس نے اپنے دل میں سوچا۔کاش میں سچ مچ دریا میں کود گئی ہوتی اور آن کی آن میں یہ خیال ایک خوفناک ارادے میں تبدیل ہوگیا۔
گنگو نے پھر آہستہ سے آواز دی۔مایا کے لیے سوچنے اور فیصلہ کرنے کا وقت نا تھا۔اس نے اچانک اٹھ کر پانی میں چھلانگ لگا دی۔
گنگو مایا! مایا! کہتا ہوا بھاگا۔خالد بدحواس ہوکر اپنی جگہ سے اٹھا اور دونوں بیک وقت دریا میں کود پڑے۔گنگو کہہ رہا تھا۔”خالد پکڑو یہ مایا ہے۔مایا ٹھہرو آگے پانی بہت خطرناک ہے۔“ لیکن وہ تیر کر تیز دھارے میں جانے کی کوشش کررہی تھی۔
خالد تیزی سے پانی کو چیرتا ہوا اس کے قریب پہنچا۔مایا نے غوطہ لگا دیا لیکن اچھی بھلی تیراک کو خود کو پانی کے رحم و کرم پر چھوڑدینا ممکن نا تھا۔اس نے جلد ہی اپنا سر پانی سے باہر نکال لیا۔ اور پھر مجدھار کی طرف جانے کی کوشش کرنے لگی، لیکن خالد نے اس کا بازو پکڑ لیا۔اتنی دیر میں گنگو بھی پہنچ گیا اور دونوں مایا کو سہارا دے کر کنارے کی طرف تیرنے لگے۔
کنارے پر پہنچ کر گنگو نے کہا۔”خالد! اب مجھے اس لڑکی پر کوئی اعتبار نہیں رہا۔اسے تمہاری بےرخی نے پاگل بنا دیا ہے۔“ اور پھر مایا سے مخاطب ہوکر پوچھا۔”مایا! تم نے دریا میں چھلانگ کیوں لگائی؟“
اس نے اطمنان سے جواب دیا۔”آپ نے ان کے ساتھ یہ مذاق کیوں کیا تھا؟“
گنگو نے خالد کو کہا۔”بھئی! مجھے معاف کرنا۔میں نے تمہیں چھیڑنے کے لیے اسے کشتی میں چھپا دیا تھا۔لیکن مجھے معلوم نا تھا کہ یہ سچ مچ ایسا کر دیکھائے گی۔تم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہو اور میں خوش ہوں۔“
خالد نے کوئی جواب نا دیا۔اس کی آنکھوں میں صرف آنسو تھے۔محبت خوشی اور تشکر کے آنسو!
گنگو نے پوچھا۔”اب مایا کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟“
اس نے کہا۔”مایا کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق کسی کو نہیں۔وہ اپنے متعلق خود فیصلے کرسکتی ہے۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر48)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر48)
_____بہن اور بھائی_____
علی الصباح قلعہ کے چار کوس کے فاصلے پردریا کے کنارے پرتاپ رائے کے سپاہی سفر کی تیاری کررہے تھے۔جےرام دریا میں نہا کر کپڑے بدل رہا تھا کہ پاس ہی ایک جھاڑی کے عقب سے ایک سنسناتا ہوا تیر آیا، اور اس کے پاوں کے نزدیک زمین میں پیوست ہوگیا۔تیر کے ساتھ ایک سفید رومال بندھا ہوا تھا۔جےرام نے ادھر ادھر دیکھنے کے بعد زمین سے تیر نکالا اور اس کے ساتھ بندھا ہوا رومال کھول کر دیکھنے لگا۔ جس پر کوئلے کے ساتھ یہ چند حروف لکھے ہوئے تھے:
”جےرام میں تمہیں کس نام سے پکاروں۔تم کو بھائی کہتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔اگر میری جان بچانا چاہتے ہو تو گنگو کے ساتھ چلے آو ورنہ میری خیر نہیں۔“
تمہاری بدنصیب بہن
مایا
جےرام نے بھاگتے ہوئےجھاڑیوں کے قریب پہنچ کر آواز دی۔”گنگو! گنگو! تم کہاں ہو؟“
گنگو نے آہستہ سے جواب دیا۔”میں یہاں ہوں اس طرف۔“
جےرام جھاڑیوں میں سے گزر کر اس کے قریب پہنچا۔گنگو گھوڑے پر سوار تھا۔جےرام نے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور بےقرار سا ہوکر پوچھا۔”گنگو! مایا کہاں ہے؟ وہ کس حال میں ہے۔وہ تمہارے پاس کیسے پہنچی؟“
گنگو نے جواب دیا۔”مایا زندہ ہے۔اور میں تمہیں اس کے پاس لے جاسکتا ہوں کہو تم میرے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو؟“
”میں مایا کے لیے سات سمندر عبور کرنے کے لیے تیار ہوں۔بتاو وہ کہاں ہے؟“
”وہ یہاں سے زیادہ دور نہیں۔تم میرے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ جاو۔“
”اگر زیادہ دور ہو تو میں اپنا گھوڑا لے آوں؟“
”تم اپنا گھوڑا لاسکتے ہو لیکن تم نے اگر پھر کوئی چلاکی کی تو یاد رکھو۔مایا کو کبھی نہیں دیکھ سکو گے۔میں یہاں تمہارا انتظار کرتا ہوں۔“
”میں ابھی آتا ہوں۔“ جےرام یہ کہہ کر ٹیلے کی طرف بھاگا۔گنگو احتیاط کے طور پر اس جگہ سے ہٹ کر گھنے درختوں کی آڑ میں کھڑا ہوگیا۔تھوڑی دیر بعد جےرام نے جھاڑی کے قریب پہنچ کر گھوڑا روکا اور گنگو کو وہاں ناپاکر آواز دی۔گنگو نے مطمین ہوکر اسے اپنے پاس بلا لیا۔
گنگو کے ساتھ چلنے سے پہلے جےرام نے اس سے کئی سوالات پوچھے۔ لیکن گنگو نے بس یہی جواب دیا کہ مایا کہ پاس پہنچ کر تمہیں سب حال معلوم ہوجائے گا۔جنگل میں تھوڑی دور چلنے کے بعد گنگو کے دس اور مسلح ساتھی جھاڑیوں سے نکل کر ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔جےرام کو گنگو کی نیت پر شبہ ہوا اور اس نے لگام کھینچ کر گھوڑے کو روکتے ہوئے پوچھا۔”گنگو! یہ کیا؟“ لیکن اس سے پہلے کے گنگو کوئی جواب دیتا اس کے ساتھیوں نے جےرام کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور ایک نے آگے بڑھ کر اس سے گھوڑے کی لگام چھین لی۔ گنگو کی توقع کے خلاف جےرام نے کوئی مدافعت نا کی اور جب اس کے ساتھیوں نے اس کے ہتھیاڑ چھیننے کی کوشش کی تو اس نے خود ہی اپنی تلوار کمان اور ترکش اتار کر اس کے حوالے کردیے۔
کمر کے پٹکے میں ایک چھوٹا سا خنجر لٹک رہا تھا۔گنگو کے ایک ساتھی نے وہ بھی اتارنا چاہا لیکن اس نے اشارے سے منع کیا۔
جےرام نے کہا۔”تمہیں معلوم ہے کہ میں مایا کا پیغام سننے کے بعد بھاگ نہیں سکتا۔“
گنگو نے جواب دیا۔”تم بھاگنا بھی چاہو تو نہیں بھاگ سکتے۔اس جنگل میں جگہ جگہ تیر انداز چھپے ہیں۔“
”لیکن گنگو میں نے تم سے کوئی وعدہ خلافی نہیں کی۔تم جہاں کہو میں چلنے کے لیے تیار ہوں۔“
”جو شخص زبیر جیسے محسن کے ساتھ دغاکرسکتا ہے۔مجھے اس کی کسی بات پر اعتبار نہیں آسکتا۔تمہاری خیر اسی میں ہے کہ آنکھیں بند کر کے میرے ساتھ چلتے رہو۔“
”قلعہ چار کوس سے زیادہ دور نا تھا۔لیکن گنگو نے مصلحتاً طویل اور دشوار گزار راستہ اختیار کیا۔قلعے کے سامنے پہنچ کر سوار گھوڑوں سے اترے۔جےرام کو خالد قلعے سے باہر آتا ہوا دیکھائی دیا۔وہ اس کی طرف ہاتھ پھیلا کر آگے بھرا۔”خالد خالد تم بھی یہاں ہو۔تم بھی یہاں ہو۔ تمہاری بہن کہاں ہے؟“
خالد نے حقارت سے اس کی طرف دیکھا اور جواب دینے کی وجہ کترا کر گنگو کے پاس کھڑا ہوگیا۔جےرام کے دل پر چرکا لگا۔اس کے پاوں زمین میں گڑ گئے۔وہ ہاتھ جو خالد کے استقبال کے لیے اٹھے تھے جھکتے جھکتے پہلووں سے آلگے۔اس نے بےچارگی اور بےبسی کی حالت میں چاروں طرف دیکھا۔اس کی نگاہیں پھر ایک بار خالد کے چہرے پر جم گئیں۔خالد نے منہ پھیڑ لیا۔
جےرام نے انتہائی کرب کی حالت میں کہا۔”خالد! مجھے معلوم نہیں۔میں تم سب کی نظروں میں اس قدر حقیر کیوں ہوگیا ہوں۔میں بےقصور ہوں۔میرے ساتھ اس طرح پیش نا آو۔مایا کہاں ہے؟“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر49)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر49)
پیچھے سے آواز آئی۔”میں یہاں ہوں۔“ جےرام نے چونک کر پیچھے دیکھا۔مایا چند قدم کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ ”مایا! مایا! میری بہن! میری بہن!! میری ننھی بہن!!“ وہ یہ کہہ کر مایا کی طرف بڑھا لیکن وہ پیچھے ہٹتے ہوئے چلائی۔”ظالم! کمینے! دغاباز! مجھے ہاتھ نا لگاو۔تم نے ایک راجپوت باپ کے خون اور ایک راجپوت ماں کے خون کی لاج نہیں رکھی۔تم میرے کچھ نہیں لگتے۔تمہارا دامن اپنے محسنوں کے خون سے داغدار ہے۔“
اگر کوئی جےرام کا سینہ خنجر سے چھلنی کردیتا تو بھی شاید اسے اس قدر تکلیف نا ہوتی۔اس کے دل میں غصے کی آگ کے شعلے بھڑکے اور غم کے آنسووں سے بجھ گئے۔اس نے پھر ایک بار چاروں طرف دیکھا۔گنگو کے چہرے پر ایک حقارت آمیز تبسم دیکھ کر اس کا منجمد خون کھولنے لگا۔وہ اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتا اور ہونٹ چباتا ہوا اس کی طرف بڑھا۔”ذلیل ڈاکو! ان سب باتوں کے ذمہ دار تم ہو۔تم نے ان سب کو میرے خلاف کیا ہے۔“ بیشتر اس کے کہ گنگو کے ہاتھ مدافعت کے لیے آٹھتے۔جےرام نے اچانک دو مکے اس کے منہ پر دے مارے۔گنگو اپنے گال سہلاتا ہوا پیچھے ہٹا۔خالد نے آگے برھتے ہوئی جےرام کے منہ پر ایک مکا مارا۔جےرام نے خالد کے ہاتھ کی ضرب منہ سے زیادہ اپنے دل پر محسوس کی اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔”خالد! تم۔۔۔۔۔؟“
گنگو کے ساتھیوں کی تلواریں نیاموں سے باہر آچکی تھیں۔لیکن اس نے انھیں ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور جےرام کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”اب بتاو تم اپنی بہن کی جان بچانے کے لیے زبیر کے ساتھیوں کو قید سے چھڑانے کے لیے تیار ہو؟“
جےرام نے زخم خوردہ سا ہوکر جواب دیا۔”تو تم بھی زبیر کی طرح یہ سمجھتے ہو کہ میں پرتاپ رائے کی سازش میں شریک تھا؟“
گنگو نے جواب دیا۔” نہیں بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پرتاپ رائے تمہاری سازش میں شریک تھا۔تم نے اسے سراندیپ کے ہاتھیوں اور جواہرات کا کا لالچ دے کر جہاز لوٹنے کے لیے آمادہ کیا۔“
”بھگوان جانتا ہے کہ میں بےقصور ہوں۔“
گنگو نے جواب دیا۔“
گنگو نے جواب دیا۔”بھگوان اس سے زیادہ جانتا ہے۔اس وقت ہمارا کام تمہاری بےگناہی پر بحث کرنا نہیں۔ہم صرف اتنا جاننا چاہتے ہیں کہ تم اپنی بہن کے لیے ان بےگناہ قیدیوں کو چھوڑتے ہیں یا نہیں۔“
جےرام نے جواب دیا۔”کاش! انھیں چھوڑنا میرے بس میں ہوتا۔وہ اس وقت دوسو سپاہیوں کے پہرے میں برہمن آباد جارہے ہیں اور میں اکیلا ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔“
”تو تم ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہوکہ تمہارے اپنی سپاہی تمہارا حکم نہیں مانتے؟“
کاش! میرے سپاہی ہوتے۔قیدیوں پر پرتاپ رائے کا چہرہ اس قدر سنگین ہے کہ ان کے ساتھ بات چیت بھی نہیں کرسکتا۔اسے یقین ہو چکا ہے کہ میں ان کا طرفدار ہوں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر50)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر50)
گنگو نے اپنے چہرے پر ایک طنز بھری مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔”تمہاری طرفداری کا شکریہ! اب میرے سوال کا جواب دو۔تم انھیں چھڑانے کے لیے تیار ہو یا نہیں؟“
بھگوان کے لیے مجھ پر اعتبار کرو۔جب تک ان کا معاملہ راجہ کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا۔میں بےبس ہوں۔مجھے یقین ہے راجہ انھیں قید میں رکھ کر عربوں سے لڑائی مول لینے کی جرات نہیں کرے گا۔“
گنگو نے کہا۔”پرتاپ رائے تمہارا دوست ہے اگر اس کے پاس تمہارا خط پہنچ جائے کہ تم ہماری قید میں ہو تو کیا پھر بھی وہ انھیں رہا نہیں کرے گا۔تم یہ خط لکھ دو اور ہم اسے برہمن آباد پہنچنے سے پہلے تمہارا یہ خط پہنچا دیں گے۔“
جےرام نے جواب دیا۔”وہ لومڑی سے زیادہ مکار اور بھیڑیے سے زیادہ ظالم ہے۔مجھے اپنی سرگزشت بیان کرنے کا موقع دو۔تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے۔بھگوان کے لیے میری بات مانو۔پرتاپ رائے کو میری جان بچانے سے زیادہ خالد اور اگر ناہید بھی یہاں ہے تو ان دونوں کی تلاش ہوگی۔جس طرح اب تک مجھے یہ معلوم نہیں ہوا کہ تم یہاں کیسے پہنچے، اسی طرح تم میں سے کسی کو معلوم نہیں کہ دیبل کا واقعہ کس طرح پیش آیا۔“
گنگو اور اس کے ساتھیوں کو متوجہ دیکھ کر جےرام نے بندرگاہ سے رخصت ہونے سے لیکر قید خانے میں زبیر سے ملاقات تک تمام واقعات بیان کیے اور اختتام پر گنگو اور خالد کو ملتجی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔”اب بھی تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں آتا، تو میں ہر سزا خوشی سے برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔“
گنگو بولا۔” تو اب تم راجہ کے پاس قیدیوں کی سفارش کے لیے جارہے ہو؟“
”آپ کو اب بھی یقین نہین آتا؟“
”اپنی بہن سے پوچھ لو۔اگر اسے تمہاری باتوں پر اعتبار آگیا ہو تو ہم بھی تمہاری باتوں پر اعتبار کرنے کے لیے تیار ہیں۔“ یہ کہہ کر گنگو مایا سے مخاطب ہوا۔” ہم تمہارے بھائی کا فیصلہ تم پر چھوڑتے ہیں۔“
جےرام مایا کی طرف متوجہ ہوا۔مایا کے لیے یہ گھڑی صبرآزما تھی۔بھائی کی سرگزشت سننے کے بعد اس کے دل میں ایک ردِ عمل شروع ہوچکا تھا تاہم وہ اس کے متعلق خیالات فوراً بدلنے کے لیے تیار نا تھی۔ضمیر کی یہ آواز اگر یہ کہہ رہی تھی کہ مایا تجھے اپنے بھائی پر اعتبار کرنا چاہیے تو دوسری آواز کہہ رہی تھی کہ نہیں، وہ صرف تمہیں ساتھ لے جانے کے لیے بہانے بنا رہا ہے۔اس ذہنی کشمکش کے دوران اسے گنگو کے یہ الفاظ یاد آئے۔”اس کی صورت دیکھ کر تمہارا دل تو پسیج نہیں جائے گا ممکن ہے کہ میں تمہارے ہاتھ میں انصاف کی تلوار دےدوں۔“ مایا نے گنگو کی طرف دیکھا۔اس کی نگاہیں کہہ رہی تھیں۔”میں انصاف کی تلوار تمہارے ہاتھ میں دے چکا ہوں۔اب تم اپنا وعدہ یاد کرو۔“
اس نے جواب دیا۔”اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تم نے ان لوگوں کے انتقام کے خوف سے یہ قصہ نہیں سنایا۔“
جےرام نے درد بھری آواز میں کہا۔”مایا! تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میں بزدل ہوں۔میں موت کے خوف سے جھوٹ بول رہا ہوں۔بھگوان کے لیے مجھے دوسروں کے سامنے شرسار نا کرو۔میں تمہارا بھائی ہوں۔بھگوان کے لیے مجھے شرمسار مت کرو۔میں تمہارا بھائی ہوں۔لیکن اگر تمھیں مجھ یقین نہیں آتا تو یہ میرا خنجر لو اور میرا دل چیر کر دیکھو کہ میرا الہوا ابھی تک سرخ ہے یا سفید ہوچکا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے جےرام نے اپنا خنجر مایا کے ہاتھ میں دےدیا اور اپنا سینہ اس کے سامنے تان کر بولا۔ ”مایا! تمہیں باپ کے سفید بالوں کی قسم اپنی ماں کے دودھ کی قسم! اگر میں مجرم ہوں، تو یہ خیال نا کرو کہ تمہارا بھائی ہوں۔میں یہ جاننے کے بعد زندہ نہیں رہنا چاہتا کہ میری بہن بھی مجھے بزدل خیال کرتی ہے، مجھے اپنے ہاتھوں سے موت کی نیند سلا دو۔تمہاری رگوں میں ایک راجپوت کا خون ہے تو اپنے بھائی کے ساتھ رعائیت نا کرو۔“
مایا نے جذبات کی شدت میں غیرشعوری طور پر اپنا ہاتھ جس میں خنجر تھا، بلند کیا__ جےرام کے ہونٹوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ کھیلنے لگی۔خالد نے کپکپی لی۔مایا نے عزم و ہمت کے اس پیکر کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھا۔اس کا ہاتھ کانپنے لگا۔خالد چلایا۔”مایا! تمہارا بھائی معصوم ہے۔“مایا کے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے خنجر گرپڑا۔آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور بےاختیار جےرام سے لپٹ کر ہچکیاں لینے لگی۔”بھیا بھیا مجھے معاف کرد۔“
جےرام اس کے سیاہ بالوں پر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بار بار یہ کہہ رہا تھا۔”میری بہن! میری ننھی مایا تھا۔
بہن اور بھائی ایک دوسرے باہر سے علیحدہ کھڑے ہے گئے۔خالد نے جےرام کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔”جےرام مجھے معاف کرنا۔مجھے تم پر شک نہیں کرنا چاہیے تھا۔“
جےرام نے اس کا۔
جےرام نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر کہا۔”مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو میں بھی شاید یہی کچھ کرتا۔“
خلد نے مسکراے ہوئے کہا۔”میں نے ہنگامی جوش میں آپ کے منہ پر مکا رسید کردیا تھا۔اب آپ یہ قرض وصول کرسکتے ہیں۔“
جےرام نے کہا۔”نہیں!!! اب یہ قصہ نا چھیڑو ورنہ ایک مکا ما کے مجھے گنگو سے دو وصول کرے پڑیں گے۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر51)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر51)
گنگو اپنی زندگی میں کبھی اس قدر پریشان نہیں ہوا تھا۔وہ سر جھکائے کھڑا تھا جےرام نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”گنگو! اگر خلوصِ دل سے زبیر اور اس کے ساتھیوں کو چھڑانا چاہتے ہو تو یہ معاملہ چنددن کے لیے مجھ پر چھوڑدو۔ مجھے امید ہے کہ راجہ صحیح خطرات سے باخبر ہوکر انھیں قید میں رکھنے کی جرات نہیں کرے گا اور اگر اس نے میری بات نا سنی تو میں تمہارے پاس چلا آوں گا اور پھر ہم کوئی اور تدبیر سوچین گے لیکن خالد کی بہن کہاں ہے؟“
گنگو نے کہا۔”وہ بھی ہمارے ساتھ ہے۔وہ جہاز پر زخمی ہوگئے تھے۔“
”اب وہ کیسی ہے؟“
اس سوال کے جواب میں خالد بولا۔”اب وہ پہلے سے اچھی ہے لیکن زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوا۔میں مایا دیوی کا شکرگزار ہوں۔انھوں نے اس کی تیماداری میں بہت تکلیف اٹھائی۔“
گنگو نے کہا۔”جےرام! اگر پرتاپ رائے نے راجہ کے حکم سے جہاز لوٹے ہیں تو مجھے یقین نہیں کہ وہ قیدیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہوگا۔میرے خیال میں وہ اس بات کی کوشش کرے گا کہ یہ خبر سندھ سے باہر نا نکلے۔برہمن آباد میں ایسے قیدخانے ہیں جہاں سے صرف موت کی صورت میں انسان باہر نکلتے ہیں۔اس خبر کو مکران یا بصرہ تک پہنچانا ضروری ہے۔اگر ان کی حکومت نے مداخلت کی تو راجہ یقیناً قیدیوں کو چھوڑ دےگا۔“
جےرام بے کہا۔”اگر خالد جانا چاہے تو میں اسے سرحد پار پہنچادینے کی ذمہ داری لیتا ہوں۔“
گنگو نے جواب دیا۔”خالد کو میں بھی سرحد کے پات پہنچا سکتا ہوں، لیکن جب تک اس کی بہن تندرست نہیں ہوتی، اس کے لیے جانا ممکن نہیں۔اس کے علاوہ عربوں کی فوجیں اس وقت ترکستان اور افریقہ میں لڑرہی ہیں۔ممکن ہے کہ وہ سپاہیوں کی قلت کے پیشِ نظر سندھ کے ساتھ بگاڑ پسند نا کریں۔خالد کا خیال ہے کہ اگر زبیر کسی طرح رہا ہوجائے۔تو یہ مہم اس کے لیے بہت آسان ہوگی۔وہ بصرہ اور دمشق کے ہر بااثر آدمی کو جانتا ہے۔“
جےرام نے کہا۔”اگر آپ یہ چاہتے ہیں تو میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنی جان پر کھیل کر بھی زبیر کو قید سے آزاد کرانے کی کوشش کروں گا۔“
مایا نے کہا۔”بھیا! تم سب کچھ کرسکتے ہو۔زبیر کی رہائی کی کوشش ضرور کرو۔“
”مایا! تمہاری سفارش کے بغیر بھی یہ میرا فرض ہے۔“ یہ کہہ کر جےرام گنگو سے مخاطب ہوا۔”اب اگر آپ کی اجازت ہو تو مایا سے چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔“
گنگو کا اشارہ پاکر اس کے ساتھی وہاں سے کھسک گئے۔گنگو نے ایک طرف ہوکر خالد سے کہا۔ ”تم ناہید کے پاس جاو اور اگر وہ قیدیوں کو کوئی پیغام بھیجنا چاہتی ہے تو پوچھ آو۔“
خالداندر داخل ہوا تو ناہید دروازے کی آڑ میں کھڑی تھی۔اس نے کہا۔”ناہید تمہیں تھوڑا افاقہ ہوتا ہے تو چلنے پھرنے لگتی ہو تمہیں بستر پر لیٹنا چاہیے۔“
ناہید نے اس کی بات پر توجہ دیے بغیر کہا۔”تم نے بیچارے جےرام پر بہت سختی کی۔اب مایا کے متعلق تم نے کیا فیصلہ کیا؟“
خالد نے جواب دیا۔”مایا کے متعلق ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔وہ بہن بھائی آپس میں باتیں کررہے ہیں۔غالباً وہ اس کے ساتھ چلی جائے گی۔جےرام نے زبیر کو قید سے چھڑانے کا وعدہ کیا ہے۔وہ رہا ہوتے ہی مکران کے راستے بصرہ پہنچ کر ہماری سرگزشت سنائے گا۔عورتوں اور بچوں کے رہا ہونے کی اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں کہ ہماری حکومت اس معاملے میں مداخلت کرے۔“
ناہید نے کہا۔”میں یہ باتیں سن چکی ہوں۔لیکن مجھے ڈر ہے کہ جس طرح ابا کے معاملے میں حکومتِ سندھ نے مکران کے گورنر کو ٹال دیا تھا۔اس طرح یہ معاملہ بھی رفع دفع ہوجائے گا۔میں نے سنا ہے کہ بصرہ کا حاکم بہت جابر ہے لیکن سندھ کی طرف متوجہ نا ہونے کے لیے اس کے پاس معقول بہانہ ہے کہ عرب کی تمام افواج افریقہ اور بصرہ میں برسرِپیکار ہیں۔“
خالد نے پریشان ہوکر کہا۔”میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔لیکن میں خدا کی رحمت سے مایوس نہیں۔وہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔“
ناہید نے کہا۔”میں نے ایک تجویز سوچی ہے۔میں بصرہ کے حاکم کو خط لکھتی ہوں۔ اگر جےرام زبیر کو رہا کروا سکے تو اسے کہو یہ خط اس کے حوالے کردے۔اگر باالفرض میرا خط حاکم بصرہ کو متاثر نا کرسکا تو بصرہ کی عوام اس سے متاثر ضرور ہوں گے۔میں خواب میں مسلمانوں کو قید کے دروازے توڑتے ہوئے دیکھ چکی ہوں۔مجھے اپنے خواب کے صحیح ہونے کا یقین ہے۔“
”تو تم اندر جاکر خط لکھو۔کس چیز پر لکھو گی؟ ہاں یہ لو میرارومال ۔“ خالد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ناہید کو رومال دیا اور وآپس مڑتے ہوئے کہا۔”تم خط لکھو میں اتنی دیر جےرام کو روکتا ہوں۔“
باہر مایا اپنے بھائی کو آپ بیتی سنا رہی تھی۔اختتام پر جےرام نے پوچھا۔”مایا! تمہیں یہاں کسی قسم کی تکلیف تو نہیں؟“
”نہیں“ اس نے جواب دیا۔”گنگو مجھے اپنی بیٹی سمجھتا ہے۔ناہید مجھے اپنی چھوتی بہن خیال کرتی ہے۔“
جےرام نے کہا۔”مایا میں تمہیں ایک بہت بری خبر سنانا چاہتا ہوں۔“
مایا نے گھبرا کر پوچھا۔”وہ کیا؟“
”بات یہ ہے کہ میں تمہیں اس وقت اپنے ساتھ نہیں لےجاسکتا۔میں نے تمہارے غائب ہونے کی ذمہ داری پرتاپ رائے پر تھوپ دی تھی۔لیکن جب اس نے زبیر اور علی کو اذیت دینی شروع کی تو مجھے ان کی جانیں بچانے کے لیے یہ تسیلم کرا پڑا کہ تم میرے ساتھ نا تھیں۔اب اگر میں تمہیں ساتھ لےجاوں تو مجھے خالد اور ناہید کا پتہ بتانے پر مجبور کیا جائے گا۔میں بذاتِ خود راجہ کی سختی سے نہیں ڈرتا لیکن پرتاپ رائے کو شک ہو جائے گا اور وہ خالد اور ناہید کی تلاش شروع کردے گا۔میں یہ نہیں چاہتا کہ تمہیں دیکھ کر انھیں خالد اور ناہید کے روپوش ہونے کا شک ہو۔اگر تم چنددن اور یہاں رہنا گوارا کروتو پرتاپ رائے غالباً تین چار دن روز تک واپس دیبل چلا جائے گا۔اس کے بعد میں تمہیں یہاں سے لےجاں گا۔“
مایا نے اطمنان سے جواب دیا۔”بھیاآپ میری فکر نا کریں۔میں یہاں ہرطرح خوش ہوں۔اور جب تک ناہید تندرست نہیں ہوتی۔میں اسے چھوڑ کرجانا پسند بھی نہیں کروں گی۔“
گنگو اور خالد کچھ فاصلے پر آپس میں باتیں کررہے تھے۔جےرام نے انھیں آواز دے کر اپنی طرف متوجہ کیا اور پھر اشارے سے اپنے پاس بلا لیا۔جب قریب پہنچے تو اس نے کہا۔” آپ کو کہیں پھر شک نا ہوجائے گا کہ میں کوئی سازش کررہی ہوں۔مایا کہتی ہے کہ وہ ناہید کے تندرست ہونے تک یہیں رہنا چاہتی ہے اور میں بھی بعض مصلحت میں چند دن تک اسے لےجاوں گا۔ممکن ہے کہ مجھے بھی زبیر کے ساتھ فرار ہونا پڑے اور میں ہمیشہ کے لیے آپ سے آملوں۔ اب مجھے دیر ہورہی ہے ممکن ہے کہ راجہ پرتاپ رائے کے شہر میں پہنچتے ہی ہمیں ملاقات کے لیے بلالے۔میرا غیرحاضر ہونا ٹھیک نہیں۔“
خالد نے کہا۔”آپ زرا ٹھہریے۔ناہید ایک خط لکھ رہی ہے۔آپ یہ خط زبیر کو آزاد کروانے کے بعد اس کے حوالے کردیں۔“
”تو جلدی سے وہ خط لے آو۔مجھے بہت دیر ہوگئی ہے۔وہ برہمن آباد کے قریب پہنچ گئے ہوں گے۔“
گنگو نے کہا۔”تم فکر نا کرو۔ہم ان سے پہلے ایک آسان راستے سے تمہیں برہمن آباد پہنچا دیں گے۔“
جےرام نے کہا۔”میں فقط آپ کا ایک ساتھی ساتھ لے جانا چاہتا ہو لیکن یہ ضروری ہے کہ برہمن آباد میں اسے کوئی پہچانتا نا ہو۔اگر کوئی نازک صورتِ وقت آیا تو میں اسے آپ کے پاس پیغام بھیج دوں گا۔“
گنگو نے کہا۔”آپ داسو کو لےجائیں۔
دوپہر کے وقت جےرام داسو کی رہنمائی میں جنگل عبور کررہا تھا۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر52)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر52)
____دوست اور دشمن___
برہمن آباد سے ایک کوس کے فاصلے پر جےرام کو اپنا قافلہ دکھائی دیا۔اس نے داسو کے ساتھ قافلے میں شریک ہونا خلافِ مصلحت سمجھتے ہوئے اپنا راستہ تبدیل کردیا اور دوسرے دروازے سے شہر میں داخل ہوا۔برہمن آباد میں نرائن داس نامی ایک آدمی اس کا پرانا دوست تھا۔جےرام نے داسو کو اس کے گھرٹھہرا کر شاہی مہمان خانے کا رخ کیا۔تھوڑی دیر بعد پرتاپ رائےسپاہیوں اور قیدیوں سمیت وہاں پہنچ گیا۔اس نے جےرام کو دیکھتے ہی کہا۔”مجھ سے تم نے شکار کا بہانہ کیوں کیا؟ تم نے صاف یہ کیوں نا بتایا کہ تم مجھ سے پہلے مہاراج سے ملنا چاہتے تھے۔اب بتاو! تمہاری بہن کی کہانی سننے کے بعد مہاراج نے کیا کہا؟“
”میں ابھی تک مہاراج سے نہیں ملا اور نہ میری یہ نیت تھی۔“
پرتاپ رائے نے مطمئین ہوکر کہا۔”جےرام! میرا خیال ہے کہ اپنی بہن کے غائب ہوجانے کے متعلق تم نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔میں عربوں کے علاوہ سراندیپ کے قیدیوں سے بھی پوچھ چکا ہوں وہ سب تمہارے پہلے بیان کی تصدیق کرتے ہیں۔اگر انھوں نے راجہ سے شکایت کی کہ تمہاری بہن کے علاوہ ایک مسلمان لڑکی بھی جہاز سے غائب ہوئی ہے تو ممکن ہے کہ راجہ مجھے اس بات کا ذمہ دار ٹھہرائے ۔“
میں راجہ کے سامنے یہ کہنے کے لیے تیار ہوں کہ میری بہن جہاز پر نہیں تھی اور مسلمان لڑکی کے غائب ہوجانے کا واقع بھی صحیح نہیں۔“
”لیکن جب قیدی یہ شکایت کریں گے کہ وہ جہاز سے غائب ہوئی ہیں تو تمہارا بیان راجہ کو مطمئین نہیں کرسکے گا۔“
جےرام نے پریشان ہوکرکہا۔” آخر آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ پہلے آپ نے زبیر اور علی کو اذیت پہنچا کر مجھے یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا کہ میری بہن غائب نہیں ہوئی اور اب آپ یہ ثابت کرنے پر مصر ہیں کہ عرب لڑکی اور میری بہن جہاز سے غائب ہوئی ہیں۔“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کون سی مجبوری ہے جس نے تمہیں اپنی بہن کا راز چھپانے پر مجبور کیاہے؟“
”آپ یہ جانتے ہیں کہ زبیر میرا مہمان ہے۔ اس نے میری جان بچائی تھی اور میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ اس واقعہ کی آڑ لے کر اسے اذیت پہنچائیں۔“
”تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم صرف زبیر کی خاطر اپنے صحیح دعوے سے دستبردار ہوئے۔تم زبیر کی دوستی پر اپنی بہن کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو لیکن تمہارا دل یہ گواہی دیتا ہے کہ تمہاری بہن کو میں نے اغوا کیا ہے اور صرف تمہاری بہن ہی نہیں ایک عرب لڑکے اور لڑکی کے غائب ہوجانے کی ذمہ داری بھی مجھ پر ہی عائد ہوتی ہے۔“
جےرام نے کہا۔”نہیں! نہیں! مجھے آپ کے متعلق جو غلط فہمی تھی وہ دور ہوچکی ہے۔“
”کب؟“
جےرام نے اچانک محسوس کیا کہ پرتاپ رائے اس کے لیے پھر ایک پھندا تیار کررہا ہے۔اس نے چونک کر کہا۔” آخر ان باتوں سے آپ کا مطلب ہے میں آپ سے وعدہ کرچکا ہوں کہ میں راجہ کے سامنے اپنی بہن کا ذکر نہیں کروں گا۔“
پرتاپ رائے نے سردمہری سے کہا۔”تم جو کچھ خود نہیں کہنا چاہے وہ عربوں کی زبان سے کہلواو گے۔اس سے میرے لیے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔پہلے جس راز کو تم ظاہر کرنا چاہتے تھے، اسے میں چھپانا چاہتا تھا۔اب جس راز کو تم چھپانا چاہتے ہو، اسے میں ظاہر کرنے پر مجبور ہوں۔میرے متعلق اگر تمہاری غلط فہمی دور ہوئی ہے تو اس کی کوئی وجہ ہے۔ اور میں وہ وجہ معلوم کرنا چاہتا ہوں۔میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ تم ایک عرب کے لیے اتبی بڑی قربانی دےسکتے ہو۔کوئی عقل مند آدمی یہ ماننے کے لیے تیار نا ہوگا۔“
”تو تمہارا مطلب ہے کہ میں نے خود اپنی بہن کو غائب کردیا ہے؟“
”تمہاری بہن کا مسئلہ میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن عرب لڑکی کا سراغ لگانے کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔بہت ممکن ہے کہ عربوں نے بھی راجہ کو مجھ سے بدظن کرنے کے لیے ایک لڑکی کے غائب ہوجانے کا بہانہ تراشہ ہو لیکن اگر دربار میں اس کے غائب ہوجانے کا سوال اٹھایا گیا تو ہم میں سے ایک کو یہ ذمہ داری اپنے سر لینا پڑے گی۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر53)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر53)
جےرام نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔”جس طرح میں نے آپ سے انتقام لینے کے لیے اپنی بہن کے غائب ہو جانے کا جھوٹا افسانہ تراشہ تھا۔اسی طرح انھوں نے مجھے آپ کا شریکِ کار سمجھ کر محض انتقام لینے کے لیے یہ بہانہ تلاش کیا ہے۔میں زبیر کو سمجھا سکتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ وہ میرے کہنے پر راجہ کے سامنے جھوٹی شکایت نہیں کرے گا۔“
پرتاپ رائے نے بےرخی سے کہا۔”تم کسی قیدی سے بات چیت نہیں کرسکتے۔ میں نے سپاہیوں کو حکم دیا ہے کہ راجہ کے سامنے پیش ہونے سے پہلے تمہیں اپنا صندوق کھول کر دیکھنے کی اجازت بھی نہیں۔“
جےرام کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن فوج کے ایک افسر نے آکر اطلاع دی کہ مہاراج آپ کو یاد فرماتے ہیں۔
جےرام نے پرتاپ رائے کے ساتھ جانا چاہا لیکن اس نے کہا۔”مہاراج مجھے یاد فرماتے ہیں تمہیں نہیں۔تم اطمینان سے بیٹھے رہو! جب تمہیں بلایا جائے گا میں تمہارا راستہ نہیں روکوں گا۔“
پرتاپ رائے جہاز سے لوٹا ہوا مال اٹھا کر چلا گیا اور جےرام پریشانی کی حالت میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔زبیر باقی قیدیوں کے ساتھ ہی ایک کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔اس نے ٹہلتے ٹہلتے اندر جھانک کردیکھا لیکن پہرےدار نے اسے ایک طرف دھکیلتے ہوئے دروازہ بند کردیا۔جےرام سے ایک معمولی پہرےدار کا یہ سلوک دیکھ کر زبیر اور اس کے ساتھیوں کو یقین ہونے لگا کہ وہ اور ان کے ساتھی ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔

غروبِ آفتاب سے کچھ دیر پہلے راجہ کے ایک سپاہی نے جےرام کو اطلاع دی کہ مہاراج آپ کو بلاتے ہیں۔جےرام کا کاٹھیاوار کے راجہ کے تحائف کا صندوق اٹھوا کر راجہ کے محل پہنچا۔پہرےدار اسے محل کے ایک کمرے میں لےگئے۔
راجہ دہر سنگِ مرمرکے چبوترے کے اوپر سونے کی کرسی پر بیٹھا تھا۔پرتاپ رائے کے علاوہ دیبل کے ایک حاکمِ اعلی اور سیناپتی ادھے سنگھ اور اس کا ایک نوجوان بیٹا بھیم سنگھ جو ارور سے راجہ کے ساتھ آئے تھے، اس کے سامنے کھڑے تھے۔
(نوٹ: ”ارور“ سندھ کا دارالحکمومت ضلع نواب شاہ میں بیرانی کے قریب ایک قدیم شہر کے کھنڈرات موجود ہیں، جسے دلور کہا جاتا ہے۔بعض محقیقین کے خیال میں دلور، ارور کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔لیکن بعض تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ ارور کا شہر موجودہ روہڑی آس پاس آباد ہے۔ اور دریائے سندھ نے اس کا نشان تک نہیں چھوڑا۔)
جےرام نے راجہ کو تین بار جھک کرسلام کیا اور ہاتھ باندھ کرکھڑا ہوگیا۔دو سپاہیوں نے آبنوس کا صندوق راجہ کے سامنے لاکر رکھ دیا۔جےرام نے راجہ کے حکم سے صندوق کھولا۔راجہ نے جواھرات پر ایک سرسری نگاہ ڈالی۔پھر پرتاپ رائے کی طرف دیکھا اور جےرام سے سوال کیا۔”ہم نے سنا ہے کہ تم عربوں کی حمایت کرنا چاہتے ہو۔تم نے ہمارے متعلق یہ بھی کہا ہے کہ ہم عربوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور تم نے ہمارے وفادار پرتاپ رائے پر تہمت لگانے کے لیے ایک عرب لڑکی اور اپنی بہن کو کہیں چھپا دیا ہے؟“
جےرام نے جواب دیا۔”ان داتا!مجھے یہ یقین نا تھا کہ پرتاپ رائے نے آپ کے حکم سے ان کے جہازوں کو لوٹا تھا، ان کا دیبل میں ٹھہرنے کا ارادہ نا تھا۔انھوں نے مجھے راستے میں بحری ڈاکووں سے چھڑایا تھا۔دیبل میں میں انھیں اپنا مہمان بنا کرلایا تھا اور اپنے مہمان کی رکھشا ایک راجپوت کا دھرم ہے۔عرب لڑکی اور اپنی بہن کے متعلق میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ جب جہاز لوٹے جارہے تھے میں ایک کوٹھری میں بند تھا۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر54)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر54)
”تم نے پرتاپ رائے سے یہ کہا تھا کہ تھا کہ تم نے عربوں کو اس کی قید سے چھڑانے کے لیے یہ بہانا تراشہ تھا؟“
”ان داتا! میں اس سے انکار نہیں کرتا لیکن۔۔۔۔۔۔۔!“
راجہ نے سخت لہجے میں کہا۔”ہم کچھ نہیں سننا چاہتے۔اگر عربوں نے شکایت کی کہ جہاز پر سے ان کی ایک لڑکی غائب ہوئی ہے تو تمہیں اس لڑکی کو ہمارے حوالے کرنا پڑے گا۔“
”مہاراج! اگر عرب مجھ پر یہ شبہ ظاہر کریں کہ لڑکی کو میں نے اغوا کیا ہے تو میں ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔“
”ہم تمہاری چال اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اگر عربوں نے تمہیں قصوروار نا ٹھہرایا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے ان کی مرضی سے لڑکی کو کہیں چھپا رکھا ہے۔تم جانتے ہو کہ ہمارے پاس ایسے طریقے ہیں جن سے انھیں سچ بولنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔“
”ان داتا! اگر آپ مجھے قصور وار ٹھہراتے ہیں تو جو سزا جی میں آئے دے لیں، لیکن عربوں کے ساتھ پہلے ہی زیادتی ہوچکی ہے۔“
”تو تم ہمارے دشمنوں کے ساتھ دوستی کا دم بھرتے ہو؟“
”وہ ہمارے دشمن نہیں۔وہ سندھ کو عرب کا پرامن ہمسایہ خیال کرتے تھے۔ورنہ وہ دیبل کے قریب سے بھی نہ گزرتے تھے۔اگر وہ نیک نیت نا ہوتے تو جواہرات کا یہ صندوق جو میں مہاراجہ کاٹھیاوار کی طرف سے آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں، آپ تک نا پہنچتا۔“
راجہ نے کہا۔”کاٹھیاوار کے جواہرات سراندیپ کے جواہرات کے مقابلے میں پتھر کے معلوم ہوتے ہیں۔“
”مہاراج! میں جوہری نہیں، ایک سپاہی ہوں، میں پتھروں کو نہیں پہچانتا لیکن آپ کے دوست اور دشمن کو پہچانتا ہوں۔میں ان پتھروں کے ساتھ آپ کی خدمت میں مہاراجہ کاٹھیاوار کی دوستی کا پیغام لایا ہوں۔ان پتھروں کی قیمت اگر ایک کوڑی بھی نہ ہوتو بھی وہ ہاتھ جو آپ کے سامنے یہ ناچیز تحائف پیش کررہا ہے بہت قیمتی ہے لیکن پرتاپ رائے نے عرب جیسی پرامن اور طاقتور ہمسایہ سلطنت کے جہاز لوٹ کر جو کچھ آپ کے لیے حاصل کیا ہے وہ آپ کو بہت مہنگا پڑے گا۔
ان داتا! آپ کو مسلمانوں سے دشمنی مول لینے سے پہلے سوچ بچار سے کام لینا چاہیے۔ان کا ہاتھ ہر ہاتھ سے مضبوط ہے اور ان کا لوہا ہر لوہے کو کاٹتا ہے۔وہ جیٹھ کی آندھیوں کی طرح اٹھتے ہیں اور ساون کے بادلوں کی طرح چھا جاتے ہیں۔ان کے مقابلے میں آنے والوں کو نا سمندر پناہ دیتے ہیں نہ پہاڑ۔ان کے گھوڑے پانی میں تیرتے اور ہوا میں اڑتے ہیں۔آپ نے برسات میں دریائے سندھ کی لہریں دیکھی ہیں، لیکن ان کی فتوحات کا سیلاب اس سے کہیں زیادہ تند اور تیز ہے۔“
راجہ دہر کی قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی۔اس نے چلا کرکہا۔”ڈرپوک گیدڑ! تمہاری رگوں میں راجپوت کا خون نہیں۔میرے ملک میں تم جیسے بزدل آدمی کے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔“
”ان داتا! میں اس وقت مہاراجہ کاٹھیاوار کا ایلچی ہوں۔میں خود ایسے ملک میں نہیں رہنا چاہتا جہاں دوست کو دشمن اور دشمن دوست خیال کیا جائے۔“
”کاٹھیاوار کا راجہ اگر خود بھی یہاں موجود ہوتا تو بھی میں یہ الفاظ سننے کے بعد اس کا سر قلم کروا دیتا۔پرتاپ رائے! اسے لے جاو۔ہم کل اس کی سزا کا فیصلہ کریں گے۔صبح عربوں کے سرغنہ کو میرے سامنے پیش کرو۔“
پرتال رائے نے سپاہیوں کو آواز دی اور آٹھ آدمی ننگی تلواریں لیے آموجود ہوئے۔پرتاپ رائے نے جےرام کو چلنے کا اشارہ کیا۔جےرام ننگی تلواروں کے پہرے میں پرتاپ رائے کے آگے آگے چل دیا۔“
اودھے سنگھ، جےرام کی تقریر کے دوران میں یہ محسوس کررہا تھا کہ ایک سرپھرا نوجوان اس کے اپنے خیالات کی ترجمانی کررہا ہے۔اس نے کہا۔”ان داتا! اگر مجھے اجازت ہو تو کھ عرض کروں؟“
راجہ نے جواب دیا۔”تمہارے کہنے کی ضرورت نہیں۔ہم اسے ایسی سزا دیں گے جو برہمن آباد کے لوگوں کو دیر تک نا بھولے۔“
اودھے سنگھ نے کہا۔”لیکن مہاراج میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس نے جوکچھ کہا نیک نیتی سے کہا ہے۔ہمیں چند ہاتھیوں اور جواہرات کے لیے عربوں کے ساتھ دشمنی مول نہیں لینی چاہیے۔ ہمیں اپنی طاقت پر بھروسہ ہے لیکن عرب نہایت سخت جان دشمن ہے۔“
راجہ نے کہا۔”اودھے سنگھ! ایک گیدڑ کی چیخیں سن کے تم بھی گیدڑ بن گئے۔یہ عرب اونٹنیوں کا دودھ پینے والے اور جو کی روکھی سوکھی روٹی کھانے والے ہماراےمقابلے کی جرات کریں گے؟“
”مہاراج! وہ اونٹنیوں کا دودھ پی کے شیروں سے لڑتے ہیں۔جو کی روٹی کھا کر پہاڑوں سے ٹکراتے ہیں۔“
”تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ اونٹوں پر چڑھ کر ہمارے ہاتھیوں کا مقابلہ کرنے آئیں گے؟“
”ان داتا! برا نا مانیے! ان کے اونٹ ایران کے ہاتھیوں کو شکست دے چکے ہیں۔“
راجہ نے غصے میں آکر کہا۔”اودھے سنگھ! مجھے تم سے یہ امید نا تھی کہ تم عربوں کے متعلق سنی سنائی باتوں سے مرعوب ہوجاو گے۔ہم عرب کی ساری آبادی سے زیادہ سپاہی میدان میں لاسکتے ہیں۔راجپوتانہ کے تمام راجے ہمارے اشارے پر گردانیں کٹوانے کے لیے تیار ہوں گے۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر55)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر55)
اودھے سنگھ نے کہا۔”مہاراج! مجھے ان کا خوف نہیں لیکن میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ہمیں سوئے ہوئے فتنے کو جگانے سے کوئی فائدہ نا ہوگا۔دوسروں کی مدد کے بھروسے پر ایک طاقتور دشمن سے لڑائی مول لینا ٹھیک نہیں۔“
”اودھے سنگھ! تم بار بار کیا کہہ رہے ہو؟ سندھ کے سامنے عرب کے صحرائی ایک طاقتور دشمن کی حثیت ہرگز نہیں رکھتے۔آخر عربوں میں کیا خوبی ہے جو ہمارے سپاہیوں میں نہیں؟“
”مہاراج! ایسے دشمن کا کوئی علاج نہیں جو موت سے نا ڈرتا ہو۔اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں تو آپ قیدیوں میں سے ایک عرب کو لاکر اس کا امتحان لےلیں۔تلواریں ان کے کھلونے ہیں۔“
راجہ نے اودھے سنگھ کی طرف دیکھا اور کہا۔”کیوں بھیم سنگھ! تمہارا بھی یہی خیال ہے کہ ہمارے سپاہی عربوں کے مقابلے میں کمزور ہیں؟“
بھیم سنگھ نے کہا۔”مہاراج! پتاجی عربوں کے ساتھ پرامن رہنے رہنے میں بھلائی سمجھتے ہیں، ورنہ ہم نے بھی تلواروں کے سائے میں پرورش پائی ہے، اگر عرب موت سے نہیں ڈرتے تو ہمیں مارنے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔“
راجہ نے کہا۔”شاباش! دیکھا اودھے سنگھ! تمہارا بیٹا تم سے بہادر ہے۔“
اودھے سنگھ نےجواب دیا۔”مہاراج کے منہ سے یہ سن کر مجھے خوش ہونا چاہیے، لیکن سینا پتی کے فرائض کا احساس مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں مہاراج کے سامنے آنے والے خطرات کو گھٹا کر پیش نا کروں۔بھیم سنگھ ابھی بچہ ہے۔اس نے عربوں کو لڑتے ہوئے نہیں دیکھا۔لیکن میں مکران کی جنگ میں دیکھ چکا ہوں کہ عام عرب سپاہی ہمارے بڑے بڑے پہلوانوں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔مکران پر عربوں نے کل چھ سو سواروں کے ساتھ حملہ کیا تھا اور راجہ کے چارہزار سپاہیوں کو تنکوں کی طرح بہاکر لے گئے تھے۔جےرام کو آپ دیر سے جانتے ہیں۔ہمارے نوجوانوں میں اس سے بڑھ کر تلوار کا دھنی اور کوئی نہیں. اگر وہ عربوں سے اس قدر مرعوب ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بزدل یا مہاراج کا نمک حرام ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ عربوں سے بگاڑ کے خطرے کا صحیح اندازہ کرچکا ہے۔“
راجہ نے تلخ لہجے میں کہا۔”تم میرے سینا پتی ہو وزیر نہیں اور میں ان معاملات میں تمہاری سمجھ سے کام نہیں لینا چاہتا۔اگر بڑھاپے میں تمہاری ہمت جواب دےچکی ہے تو تمہیں اس عہدہ سے سبکدوش کیا جاسکتا ہے اور تمہیں یہ حق بھی نہیں کہ تم جےرام جیسے سرکش، گستاخ اور بزدل کی سفارش کرو۔وہ جو کچھ ہمارے سامنے کہہ چکا ہے وہ اسے بڑی سے بڑی سزا دینے کے لیے کافی ہے۔“
اودھے سنگھ راجہ کے تیور دیکھ کر سہم گیا۔اس نے کہا۔”مہاراج! میں مافی چاہتا ہوں۔آپ کو میرے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے۔میں نے اتنی باتیں کرنے کی جرات اس لیے کی کہ ابھی تک آپ نے عربوں کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا اگر آپ اعلان جنگ کرچکے ہوں تو میرا فرض ہے کہ آپ کی فتح کے لیے اپنی جان قربان کردوں۔جےرام کی گستاخی کا مجھے افسوس ہے۔لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وقت آنے پر وہ بھی وفادار راجپوت ثابت ہوگا۔اگر آپ عربوں کے ساتھ جنگ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں تو ہمیں آج سے ہی تیاری شروع کردینی چاہیے۔میں چاہتا ہوں کہ ہم عربوں کو ایسی شکست دیں کہ وہ پھر سراٹھانے کے قابل نہ ہوسکیں۔اس مقصد کے لیے ہمیں افواج منظم کرنے کے علاوہ شمالی اور جنوبی ہندوستان کے تمام چھوٹے اور بڑے راجوں کا تعاون حاصل کرنا چاہیے۔وہ سب آپ کا لوہا مانتے ہیں اور آپ کے جھنڈے تلے جمع ہوکر لڑنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھیں گے۔ہمیں کاٹھیاوار کے راجہ کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔اس نے آپ کو تحائف نہیں بھیجے خراج بھیجا ہے۔اگر آپ جےرام کا جرم معاف کردیں تو اس کی وساطیت سے جنگ میں بھی مہاراجہ کاٹھیاوار کا تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔“
راجہ نے قدرے مطمئین ہوکر کہا۔”اب تم ایک راجپوت کی طرح بول رہے ہو لیکن جےرام عربوں کے ساتھ مل چکا ہے۔اگر اسے معاف بھی کردیا جائے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ ہمارے ساتھ دھوکہ نہیں کرے گا۔ہاں! میں نے سنا ہے کہ وہ ایک عرب نوجوان کی دوستی کا دم بھرتا ہے۔اگر وہ اس کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہوجائے اور اسے تلوار کے مقابلے میں مغلوب کرلے تو میں اسے چھوڑدوں گا۔“
”مہاراج! وہ آپ کا اشارہ پاکر پہاڑ کے ساتھ ٹکڑ لگانے کے لیے بھی تیار ہوگا۔“
”بہت اچھا! ہم تمہاری سفارش پر اسے موقع دیں گے۔کل ہم جےرام کی نیک نیتی کے علاوہ تلوار چلانے میں ایک عرب کی مہارت بھی دیکھ لیں گے۔“
راجہ نے اس کے بعد مجلس برخاست کی اور اٹھ کر محل کے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر56)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم*
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر56)
اگلے دن راجہ دہر نے برہمن آباد کے محل کے کشادہ کمرے میں دربار منعقد کیا۔سندھ کے دارالحکومت ارور سے اس کا وزیر بھی برہمن آباد پہنچ چکا تھا۔وزیر، سیناپتی اور برہمن آباد کے امرا حسبِ مرتب تخت کے قریب کرسیوں پر رونق آفروز تھے۔وزیر اور سینا پتی کے بعد تیسری کرسی جس پر پہلے برہمن آباد کا گورنر بیٹھتا تھا۔اب دیبل کے گورنر کو دی گئی تھی اور برہمن آباد کا گورنر راجہ سے چند بالشت دور ہوجانے پر محسوس کررہا تھا کہ قدرت نے راجہ اور اس کے درمیان پہاڑ کھڑے کردیے ہیں۔راجہ کے بائیں ہاتھ پانچویں کرسی پر بھیم سنگھ براجمان تھا۔باقی امرا بائیں طرف دوسری قطار میں بیٹھے ہوئے تھے۔کرسی کے پیچھے پندرہ بیس عہدے دار دائیں بائیں دو قطاروں میں کھڑے تھے۔تخت پر راجہ کے دائیں اور بائیں دورانیاں رونق آفروز تھیں۔ایک حسین و جمیل لڑکی راجہ کے پیچھے صراحی اور جام لیے کھڑی تھی۔درباری شاعر نے مترنم آواز میں راجہ کی تعریف میں چند اشعار پڑھے۔اس کے بعد کچھ دیر کے لیے رقص و سرور کی محفل گرم رہی۔راجہ نے شراب کے چند گھونٹ پیے اور قیدیوں کو حاضر کرنے کا حکم دیا۔سپاہی زبیر کو پابہ زنجیر دربار میں لے آئے۔اس کے تھوڑی دیر بعد جےرام داخل ہوا۔زبیر کی طرح اس کے ہاتھوں اور پیروں میں زنجیریں نا تھیں لیکن اس کے آگے اور پیچھے ننگیں تلواروں کا پہرہ زبیر کو یقین دلانے کے لیے کافی تھا کہ اس کی حالت اس سے مختلف نہیں۔
راجہ نے پرتاپ رائے کی طرف دیکھا۔”یہ ہماری زبان جانتا ہے؟“
اس نے اٹھ کرجواب دیا۔”جی مہاراج! یہ اجنبی زبانیں زبانیں سیکھنے میں بہت ہوشیار معلوم ہوتا ہے۔“
راجہ نے زبیر کی طرف دیکھا اور پوچھا۔”تمہارا نام کیا ہے؟“
”زبیر!“ اس نے جواب دیا۔
راجہ نے کہا۔”ہم نے سنا ہے کہ تم ہم سے بات کرنے کے لیے بہت بےچین تھے۔کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟“
”میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ دیبل کی بندرگاہ پر ہمارے جہاز کیوں لوٹے گئے اور ہمیں قیدی بنا کر ہمارے ساتھ یہ وحشیانہ سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟“
راجہ نے قدرے بےچین ہوکر جواب دیا۔”نوجوان! ہم پہلے سن چکے ہیں کہ عربوں کو بولنے کا سلیقہ نہیں لیکن تمہیں اپنی اور اپنے ساتھیوں کی خاطر زرا ہوش سے کام لینا چاہیے۔“
زبیر نے کہا۔”ہمارے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے،اگر آپ کو اس کا علم نہیں تو یہ اور بات ہے، ورنہ یہ حقیقت ہے کہ دیبل کے گورنر نے بغیر کسی وجہ کے ہم پر دست درازی کی۔اگر آپ کو ہمارے متعلق کوئی غلط فہمی ہو تو ہم اسے دور کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اگر سندھ کی طرف سے یہ قدم ہماری غیرت کا امتحان لینے کے لیے اٹھایا گیا ہے تو ہم واکی سندھ کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم ہندوستان کے اچھوت نہیں جن کی فریاد ان کے گلے سے باہر نہیں آسکتی۔آج تک ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرنے کی جرات کسی نے نہیں کی اور سندھ کی سلطنت کو میں ایسی سلطنت نہیں سمجھتا، جو ایران کیزرہیں اور روما کے خود کاٹنے والی شمشیروں کی ضرب برداست کرسکے۔وہ قوم جو روئے زمین کے ہر مظلوم کی داد رسی اپنا فرض سمجھتی ہے اپنی بہو بیٹیوں کی بےعزتی پر خاموش نہیں بیٹھے گی۔“
راجہ نے وزیر کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔”سنو! ایک قیدی ہمارے خلاف اعلانِ جنگ کررہا ہے۔“
وزیر نے جواب دیا۔”مہاراج! یہ عرب بہت باتونی ہیں۔ایران اور روم کی فتوحات نے انھیں مغرور بنا دیا ہے لیکن انہیں سندھ کے شیروں سے واسطہ نہیں پڑا۔“
زبیر نے جواب دیا۔” ہم نے دیبل میں شیروں کی شجاعت نہیں دیکھی، لومڑیوں کی مکاری دیکھی ہے۔“
زبیر کے ان الفاظ کے بعد تمام درباری ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
اودھے سنگھ موقع کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے اٹھا اور ہاتھ باندھ کرکہنے لگا۔”مہاراج! چنددن قید میں رھ کر یہ نوجوان اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے اور پھر آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ جس سپاہی کی تلوار کند ہو۔اس کی زبان بہت تیز چلتی ہے۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر57)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر57)
زبیر غصے کی حالت میں اودھے سنگھ کی دوستانہ مداخلت کا مطلب نا سمجھ سکا اور بولا۔”مجھ پر پیچھے سے وار کیا گیا ہے، ورنہ میری تلوار کے متعلق تمہاری یہ رائے نا ہوتی۔“
پرتاپ رائے نے اٹھ کرکہا۔”مہاراج! یہ جھوٹ کہتا ہے۔ہم نے اسے لڑ کر گرفتار کیا تھا۔“
زبیر نے غصے اور حقارت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔”بزدل آدمی! تم انسانیت کا ذلیل ترین نمونہ ہو۔میرے ہاتھ پاوں بندھے ہوئے ہیں۔لیکن اس کے باوجود تمہارے چہرے پر خوف و ہراس کے آثار ظاہر ہیں۔لومڑی شیر کو پنجرے میں بھی دیکھ کر بدحواس ہے۔میرا صرف ایک ہاتھ کھول دو اور مجھے میری تلوار دےدو۔پھر ان سب کو میرے اور تمہارے دعوی کی صداقت معلوم ہوجائے گی۔“
پرتاپ رائے پھٹی پھٹی نگاہوں کے ساتھ حاضرین جماعت کو دیکھ رہا تھا۔برہمن آباد کا گورنر زبیر کی آمد کو تائیدِ غیبی سمجھ رہا تھا۔اس نے آٹھ کر دربار کا سکوت توڑا اور کہا۔”مہاراج یہ کھشتری دھرم کی توہین ہے کہ ایک معمولی عرب بھرے دربار میں سردار پرتاپ رائے کو بزدلی کا طعنہ دے۔آپ سردار پرتاپ رائے کو حکم دیں کے وہ اس کا دعوی جھوٹ ثابت کردکھائیں۔“
اودھے سنگھ کو پرتاپ رائے سے کم نفرت نا تھی لیکن وہ جےرام کو راجہ کے عتاب سے بچانا زیادہ ضروری سمجھتا تھا اور اس کو بچانے کی اس کے ذہن میں یہی صورت تھی کہ جےرام زبیر کا مقابلہ کرکے راجہ کے شکوک رفع کردے کہ وہ عربوں کا دوست ہے۔اس نے آٹھ کرکہا۔”مہاراج! برہمن آباد کے حاکم کا خیال درست نہیں۔سردار پرتاپ رائے کا مرتبہ ایسا نہیں کہ وہ ایک معمولی عرب سے مقابلہ کریں، یہ ان کی توہیں ہے۔اس نوجوان کی خواہش پوری کرنے کے لیے ہمارے پاس ہزاروں نوجوان موجود ہیں۔اگر مہاراج کو ناگوار نا ہو تو آپ جےرام کو یہ ثابت کرنے کا موقع دیں کہ وہ ملیچھ عربوں کا دوست نہیں۔“
راجہ نے جواب دیا۔”تم کئی بار جےرام کی سفارش کرچکے ہو لیکن اس کی باتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ عربوں سے بہت زیادہ مرعوب ہے۔کیوں جےرام! تم اپنی وفاداری کا ثبوت دینے کے لیے تیار ہو؟“
جےرام نے ملتجیانہ انداز میں کہا۔”مہاراج! میں آپ کے اشارے پر آگ میں کود سکتا ہوں لیکن زبیر میرا مہمان ہے اور میں اس پر تلوار نہیں اٹھا سکتا۔“
دربار میں ایک بار پھر سناٹا چھا گیا۔اودھے سنگھ نے دل برداشتہ ہوکر جےرام کی طرف دیکھا۔راجہ نے چلا کرکہا۔”اس گدھے کو میرے سامنے سے لےجاو۔اس کا منہ کالا کرکے پنجرے میں بند کردو اور شہر کی گلیوں میں پھراو۔کل اسے مست ہاتھی کے سامنے ڈالا جائے گا۔اودھے سنگھ! تم نے اس عرب کے سامنے ہمیں شرمسار کیا اور پرتاپ رائے! تم چپ کیوں بیٹھے ہو۔تم دیبل میں اسے نیچا دیکھا چکے ہو۔اب تمہاری تلوار نیام سے باہر کیوں نہیں آتی؟ تم سب کو سانپ کیوں سونگھ گیا؟“
نوجوان بھیم سنگھ نے آٹھ کر تلوار بےنیام کی اور کہا۔”مہاراج! مجھے اجازت دیجیے۔“
بھیم سنگھ کی طرف دیکھا دیکھی تمام درباریوں نے تلواریں کھینچ لیں۔سب سے آخر میں پرتاپ رائے نے تلوار نکالی لیکن اس کی نگاہیں راجہ سے کہہ رہی تھیں۔”ان داتا! میرے حال پر رحم کر۔“ درباریوں کو راجہ کے اشارے کا منتظردیکھ کر زبیر نے آپنے ہونٹوں پر حقارت آمیز مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔ ”بس اب جانے دیجیے! مجھے یقین ہوگیا کہ اپنے حریف کو پابہ زنجیر دیکھ کر آپ کے درباری بزدل کہلانا پسند نہیں کرتے لیکن قدرت لومڑیوں کے سامنے شیروں کو ہمیشہ باندھ کر پیش نہیں کرتی۔“
بھیم سنگھ نے کہا۔”مہاراج! اس کی بیڑیاں کھلوا دیجیے۔میں اسے ابھی بتادوں گا کہ شیر کون ہے ارو لومڑی کون۔“

راجہ کے اشارے پر سپاہیوں نے زبیر کی بیڑیاں اتار دیں اور اس کے ہاتھ میں ایک تلوار دےدی گئی لیکن وزیر نے کہا۔”مہاراج! آپ کےدربار میں مقابلہ ٹھیک نہیں۔“
راجہ نے کہا۔”ٹھیک کیوں نہیں؟ اسی دربار میں ہمارے ساتھیوں کو بزدلی کا طعنہ دیا گیا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہیں اس کا انتقام لیا جائے۔“
”مہاراج! انتقام اس نوجوان کو لڑنے کا موقع دیے بغیر بھی لیا جاسکتا ہے۔“
راجہ نے جواب دیا۔”نہیں! ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ عرب تلوار کس طرح چلاتے ہیں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر58)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر58)
بھیم سنگھ کرسیوں کے درمیان کھلی جگہ پر آکھڑا ہوا اور اس نے تلوار کے اشارے سے زبیر کو سامنے آنے کی دعوت دی۔
زبیر نے راجہ کی طرف دیکھا اور کہا۔”اس نوجوان کے ساتھ مجھے کوئی دشمنی نہیں۔میرا مجرم پرتاپ رائے ہے۔آپ اسے قربانی کا بکرا کیوں بناتے ہیں؟“
بھیم سنگھ نے کہا۔”بزدل! تم صرف باتیں کرنا جانتے ہو۔اگر ہمت ہے تو سامنے آو۔“
”اگر تم دوسروں کا بوجھ اٹھانے پر بضد ہو تو تمہارے مرضی۔“ یہ کہتے ہوئے زبیر آگے بڑھ کر بھیم سنگھ کے سامنے آکھڑا ہوا۔ راجہ کے حکم سے سپاہی تخت اور کرسیوں کے آگے نصف دائرے میں کھڑے ہوگئے۔اودھے سنگھ نے اٹھ کرکہا۔”بیٹا! اوچھا وارنہ کرنا۔تم ایک خطرناک دشمن کے سامنے کھڑے ہو۔“
”پتاجی! آپ فکر نا کریں۔“ یہ کہتے ہوئے بھیم سنگھ نے یکے بعد دیگرے تین چار وار کردیے۔زبیر اس حملے کی غیر متوقع شدت سے دو تین قدم پیچھے ہٹ گیا اور اہلِ دربار نے خوشی کا نعرہ بلند کیا۔زبیر کچھ دیر بھیم سنگھ کے وار روکنے پر اکتفا کرتا رہا۔تھوڑی دیر بعد تماشائی یہ محسوس کرنے لگے کہ حملہ کرنے والے ہاتھ سے حملہ روکنے والا ہاتھ کہیں زیادہ پھرتیلا ہے۔اودھے سنگھ پھر چلایا۔”بیٹا جوش میں نا آو۔تلوار کا ٹھنڈا کھلاڑی ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے۔“
لیکن زبیر کے چہرے کی پرسکون مسکراہٹ نے بھیم سنگھ کو اور زیادہ سیخ پاکردیا اور وہ اندھا دھند وار کرنے لگا۔اسے آپے سے باہر آتا دیکھ کر زبیر نے یکے بعد دیگرے چند وار کیے اور بھیم سنگھ کو جارحانہ حملوں سے مدافعت پر مجبور کردیا۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بھیم سنگھ کی تلوار بروقت مدافعت کے لیے نااٹھ سکی لیکن زبیر کی تلوار اسے گھائل کرنے کی بجائے اس کے جسم کے کسی حصے کو چھونے کے بعد وآپس چلی گئی۔درباری اب یہ محسوس کررہے تھے کہ وہ جان بوجھ کر بھیم سنگھ کو بچانے کی کوشش کررہا ہے۔بھیم سنگھ کو خود بھی اس کی برتری کا احساس ہوچکا تھا لیکن وہ اعترافِ شکست پر موت کو ترجیح دینے کے لیے تیار تھا۔پرتاپ رائے بھیم سنگھ کے باپ سے پرانی رنجشوں کے باوجود انتہائی خلوص سے بھیم سنگھ کی فتح کے لیے دعائیں کررہا تھا لیکن بھیم سنگھ کے بازو ڈھیلے پرچکے تھے، راجہ اور اہلِ دربار کے چہروں پر مایوسی چھا رہی تھی۔
اودھے سنگھ نے کہا۔”مہاراج! بھیم سنگھ جان دےدے گا لیکن پیچھے نہیں ہٹے گا۔آپ اس کی جان بچا سکتے ہیں۔“
بڑی رانی نے اودھے سنگھ کی سفارش کی لیکن چھوٹی رانی نے کہا۔”مہاراج! سپاہیوں کو بھیم سنگھ کی مدد کا حکم دینا انصاف نہیں۔اپنے بیٹے کے لیے اودھے سنگھ کے خون نے جوش مارا ہے لیکن جب وہ پردیسی دوقدم پیچھے ہٹا تھا، اس پر کسی کو رحم نا آیا۔اگر بچانا چاہتے ہیں تو دونوں کی جان بچائیے.“
راجہ تذبذب کی حالت میں کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔اچانک زبیر پہ درپہ چند سخت وار کرنے کے بعد بھیم سنگھ کو چاروں طرف سے گھیر کے اس کی خالی کرسی کے سامنے لے آیا۔سپاہی جو ننگی تلواریں لیے قطار میں کھڑے تھے، ادھر ادھر سمٹ گئے۔بھیم سنگھ لڑکھڑاتا ہوا پیٹھ کے بل کرسی پر گرپڑا۔اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن زبیر نے اس کے سینے پر تلوار کی نوک رکھتے ہوئے کہا۔”تم اگر چند سال اور زندہ رہو تو ایک اچھے سپاہی بن سکتے ہو۔لیکن سرِدست تمہاری جگہ یہ کرسی ہے۔“
بھیم سنگھ کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی اور وہ غصے اور ندامت کی حالت میں اپنے ہونٹ کاٹ رہا تھا۔
راجہ نے سپاہیوں کی طرف اشارہ کیا لیکن ان کی تلواریں بلند ہونے سے پہلے زبیر بھیم سنگھ کی کرسی سے اوپر کود کر پرتاپ رائے کے پیچھے جاکھڑا ہوا اور بیشتر اس کے کہ پرتاپ رائے اپنی بدحواسی پر قابو پاتا زبیر نے اپنی تلوار کی نوک اس کی پیٹھ پر رکھتے ہوئے کہا۔”اپنے سپاہیوں کو وہیں کھڑا رہنے کا حکم دیجیے! ورنہ میری تلوار اس موذی کے سینے سے پار ہوجائے گی۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر59)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر59)
راجہ کے اشارے سے سپاہی پیچھے ہٹ گئے تو زبیر نے پھر راجہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”بےوقوفوں کے بادشاہ! مجھے تم سے نیک سلوک کی توقع نہیں لیکن میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ جن صلاح کاروں نے تمہیں عرب کے ساتھ لڑائی مول لینے کا مشورہ دیا ہے، وہ تمہارے دوست نہیں۔جن لوگوں پر تمہیں بھروسہ ہے، وہ سب دیبل کے حاکم کا دل و دماغ رکھتے ہیں۔اس کی طرف دیکھو، یہ وہ بہادر ہے جو کرسی پر بیٹھا بیدِ مجنوں کی طرح کانپ رہا ہے۔اب میں تمہارے سامنے اس شخص سے چند سوالات کرتا ہوں. ”کیوں پرتاپ رائے! تم نے مجھے لڑ کر گرفتار کیا تھا یا دوستی کا فریب دےکر جہاز سے بلایا تھا؟ جواب دو، خاموش کیوں ہو! اگر تم نے جھوٹ بولا تو یاد رکھو، ان سپاہیوں کی حفاظت سے تم نہیں بچ سکتے۔بولو!“ یہ کہتے ہوئے زبیر نے تلوار کو آہستہ سے جنبش دی اور اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔”میں نے تمہیں جہاز پر سے بلایا تھا لیکن مہاراج کا یہی حکم تھا کہ تمہیں ہر قیمت پر گرفتار کیا جائے۔“
راجہ نے کہا۔”ٹھہرو! پرتاپ رائے نے ہمارے حکم کی تعمیل کی تھی۔ اگر تم نے اس کے ساتھ کوئی زیادتی کی تو قیدیوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے گا جسے تم تصور میں بھی برداشت نہیں کرسکو گے۔ابھی ہم نے تمہارے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ہم خوامخواہ عرب کے ساتھ بگاڑ نہیں چاہتے۔تمہاری قوم واقعی بہادر ہے لیکن اگر تم زرا سی سمجھ سے کام لو تو ممکن ہے کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو آزاد کردیں۔تمہارے سر پر اس وقت بیس سپاہی کھڑے ہیں۔تم زیادہ سے زیادہ ایک کو مار سکو گے لیکن اس وقت ایک آدمی کے بدلے ہم تمام قیدیوں کو پھانسی دے دیں گے۔ اگر اپنے ساتھیوں کی خیر چاہتے ہو تو تلوار پھینک دو!“
زبیر نے کہا۔”مجھے تم میں سے کسی پر اعتبار نہیں لیکن میں تمہیں اپنا نفع اور نقصان سوچنے کا آخری موقع دیتا ہوں۔یادرکھو! اگر تم نے میرے ساتھیوں کے ساتھ بدسلوکی کی تو وہ دن دور نہیں جب تمہارے ہر سپاہی کے سر پر میرے جیسے سرپھیروں کی تلواریں چمک رہی ہوں گی۔تمہیں اگر جواہرات اور ہاتھیوں کی لالچ ہے تو میں ان کا مطالبہ نہیں کرتا۔میں صرف یہ درخواست کرتا ہوں کہ تم مجھے اور میرے ساتھیوں کو رہا کردو اور خالد اور اس کی بہن کو ہمارے حوالے کردو!“
راجہ نے جواب دیا۔”جب تک تم تلوار نہیں پھینکتے ہم تمہاری کسی درخواست پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں۔“
زبیر کو راجہ کے متعلق کوئی خوش فہمی نا تھی۔اگر اسے اپنے ساتھیوں کا خیال نا آتا تو یقیناً اپنے آپ کو راجہ کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے بہادرانہ موت پر ترجیح دیتا لیکن بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کے عبرتناک انجام کے تصور نے اس کا جوش ٹھنڈا کردیا۔اسے ناہید کا خیال آیا اور اس کے جسم پر کپکپی طاری ہوگئی۔مختلف خیالات کے گرداب میں راجہ کے حوصلہ افزاء کلمات اس کے لیے تنکوں کا سہارا ثابت ہوئے اور اس نے اپنی تلوار تخت کے سامنے پھینک دی۔راجہ نے اطمنان کا سانس لیا۔پرتاپ رائے کی حالت اس شخص سے مختلف نا تھی جو بھیانک سپنا دیکھنے کے بعد نیند سے بیدار ہوا ہو۔بڑی رانی نے راجہ کے دائیں کان میں کچھ کہا۔”مہاراج! ایسے لوگوں سے دشمنی مول لین ٹھیک نہیں۔“
راجہ نے اشارے سے وزیر کو اپنے پاس بلایا اور آہستہ سے پوچھا۔”تمہارا کیا خیال ہے؟“
اس نے جواب دیا۔”مہاراج مجھ سے بہتر سوچ سکتے ہیں۔“
راجہ نے کہا۔”اگر میں اسے چھوڑ دوں تو یہ سرادر اور میری رعایا مجھے بزدل تو خیال نا کرے گی؟“
”مہاراج! چاند پر تھوکنے سے اپنے منہ پر چھینٹے پڑتے ہیں۔آپ اپنی رعایا کی نظر میں ایک دیوتا ہیں لیکن اب ان قیدیوں کو چھوڑنا مصلحت کے خلاف ہے۔عربوں کو یہ جرات نہیں ہوسکتی کہ وہ سندھ پر حملہ کریں۔لیکن ان لوگوں کو اگر ان کے ملک میں وآپس بھیج دیا گیا تو یہ تمام عرب میں ہمارے خلاف آگ کا طوفان کھڑا کردیں گے۔اگر آپ عربوں کے ساتھ جنگ کرکے مکران کا علاقہ حاصل کرنے کا ارادہ بدل چکے ہیں تو بہتر یہی ہے کہ ان سب کو آزاد کرنے کی بجائے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے تاکہ عربوں کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نا ہو کہ ہم نے دیبل سے ان کے جہاز لوٹے ہیں۔اس سے پہلے ہم ابوالحسن کے معاملے میں مکران کے گورنر کو ٹال چکے ہیں۔اب بھی اگر کوئی ان کا پتہ کرنے آیا تو تسلی کردی جائے گی۔“
راجہ نے کہا۔”تمہیں کس نے کہا کہ ہم مکران کو فتح کرنے کا ارادہ بدل چکے ہیں۔“
وزیر نے جواب دیا۔”مہاراج! اگر آپ کا ارادہ نہیں بدلا تو پھر ان لوگوں کے متعلق سوچنے کی ضرورت نہیں۔میرے خیال میں اس کی کم سے کم سزا یہ ہوسکتی ہے کہ شہر کے کسی چوراہے میں پھانسی دی جائے تاکہ ہمارے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ عرب انسانوں سے مختلف نہیں!“
راجہ نے کہا۔”میرا بھی یہی خیال ہے لیکن جہاز سے ایک لڑکا اور لڑکی غائب ہوچکے ہیں۔ اگر انھوں نے سندھ کی عبور پار کرکے مکران میں اور عربوں کو یہ خبر پہنچادی تو ممکن ہے کہ ہمیں بہت جلد لڑائی کی تیاری کرنی پڑے۔“
وزیر نے کہا۔”مہاراج! عرب کی موجودہ حالت مجھ سے پوشیدہ نہیں۔ان کی خانہ جنگی کو ختم ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی اور اب ان کی تمام افواج شمال اور مغرب کے ممالک میں لڑرہی ہے۔ ہمارے پاس ایک لاکھ فوج موجود ہے اور ہم ضرورت کے وقت اسی قدر اور سپاہی جمع کرسکتے ہیں۔پھر راجپوتانے کے تمام راجہ آپ کے باجگزار ہیں۔وہ آپ کے جھنڈے تلے عربوں سے لڑنا اپنی عزت سمجھیں گے۔مجھے یقین ہے کہ جو عرب سندھ میں آئے گا، وآپس نہیں جائے گا۔“
”شاباش! مجھے تم سے یہی امید تھی۔تم آج ہی تیاری شروع کردو۔“
راجہ سے کانا پھوسی ختم کرنے کے بعد وزیر اپنی کرسی پر آبیٹھا۔
راجہ نے سپاہیوں کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔”اسے لےجاو!آج شام تک ہم اس کا فیصلہ کردیں گے۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردو ناول”