اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر20)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر20)
قزاق
دس دن بعد ایک صبح بندرگاہ پر دو جہاز سفر کے لیے تیار کھڑے تھے۔ایک جہاز پر زبیر یتیم بچوں اور بیواوں کو لیے جارہا تھا اور دوسرے جہاز پر دلیپ سنگھ راجہ کی طرف سے حجاز بن یوسف اور خلیفہ ولید کے لیے ہاتھی، سونا، چاندی اور ہیروں کے تحائف لے جارہا تھا۔ہاتھی تعداد میں دس تھے۔
راجہ اور ولی عہد زبیر اور اس کے ساتھیوں کو رخصت کرنے کے کیے بندرگاہ تک آئے۔راجہ بیواوں اور یتیم بچوں میں سے ہر ایک کو گرانقدر تحائف دے چکا تھا۔زبیر کو اس نے کئی چیزیں پیش کیں لیکن فقط اس نے گینڈے کی ڈھال پسند کی۔رانی اپنا موتیوں کابیش قیمت ہار سخت اصرار کے بعد ناہید کو پہنا سکی۔راجکماری رخصت کے دن اس کے گھر آئی اور بضد ہوکر ناہید کو اپنی ہیرے کی آنگوٹھی دے گئی۔
بندرگاہ پر جہاز میں سوار ہونے سے پہلے راج کمار نے آبدیدہ ہوکر خالدکو گلے لگا کیا اور اپنی موتیوں کی مالا اتار کر اس کے گلے میں ڈال دی۔
جہازوں کے بادبان کھولے گئے اور ہوا کے ایک جھونکے جہازوں کو دھکیلنے لگے۔شہر کے لوگوں نے اپنے مہمانوں کو آنسووں اور آہوں کے ساتھ آلودع کیا۔
عورتوں کے لیے جہاز کے اندر ایک کشادہ کمرے کے علاوہ بالائی تختہ کے ایک حصے پر بھی چلمنیں ڈال کر پردے کا انتظام کیا گیا تھا۔خالد ادھر ادھر گھوم کر ملاحوں کے کام میں دلچسپی لے رہا تھا۔ناہید،علی کے ساتھ تختہ جہاز پر کھڑی ناریل کے ان بلند قامت اور سرسبز درختوں کو دیکھ رہی تھی۔جن کی چھاوں میں اس نے زندگی کے بہترین دن گزارے تھے۔
صبح شام میں تبدیل ہوگئی اور سراندیپ کا ساحل افق پر ایک ہلکی سی سرسبز لکیر نظر آنے لگا۔ آہستہ آہستہ یہ لکیر بھی شام کے دھند لکے میں چھپ گئی۔وہ آنسو جو دیر سے ناہید کی آنکھوں میں جمع ہورہے تھے،ٹپک پڑے، علی بھی اپنا آبائی وطن چھوڑنے پر قدرے ملول تھا۔لیکن اس کے دل میں خالد اور ناہید کے ساتھ جانے کی خوشی اس سے زیادہ تھی۔
رات کے وقت مطلع صاف تھا۔بچے اور عورتیں عرشے پر کھلی ہوا میں سوگئے۔ناہید دیر تک آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھتی رہی۔چلمن کی دوسری طرف خالد، زبیر اور ملاحوں سے باتیں کررہا تھا۔
ہاشم ایک آٹھ سال کا لڑکا ناہید کے ساتھ لیٹا ہوا تھا۔اس کی ماں فوت ہوچکی تھی اور باپ ابوالحسن کے ساتھ لاپتہ ہوچکا تھا۔ہاشم اٹھ کر بیٹھتے ہوئے تاریکی میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کرادھر ادھر دیکھنے لگا۔ناہید نے پوچھا۔”کیا ہے ہاشم۔۔۔۔۔۔۔؟“
اس نے سوال کیا۔”عکی کہاں ہے؟“
”وہ خالد کے ساتھ ملاحوں سے باتیں کررہا ہے۔“
”میں اس سے ایک بات ابھی پوچھ کرآتا ہوں۔“ یہ کہہ کر ہاشم تاریکی میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا علی کے پاس پہنچا اور پوچھنے لگا۔”علی! جب جہاز ڈوب جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟“
علی نے بھولے پن سے جواب دیا۔”سمندر کی تہہ میں چلا جاتا ہے۔“
ملاح اس جواب پر کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
ہاشم نے پھر کہا۔”واہ! یہ تو مجھے معلوم تھا۔لوگ کہاں جاتے ہیں؟“
”لوگوں کو مچھلیاں کھا حاتی ہیں۔“
”جھوٹ! مچھلیوں کو تو آدمی کھاتے ہیں۔“
علی نے پھر جواب دیا۔”زمین پر آدمی مچھلیوں کو کھاتے ہیں۔ لیکن سمندر میں مچھلیاں آدمیوں کو کھا جاتی ہیں۔“
ہاشم کچھ سمجھا اور کچھ نا سمجھا اور وآپس آکر بستر پر لیٹ گیا۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر21)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر21)
چند دن بعد یہ جہاز مالابار کے ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کررہا تھے۔راستے میں سامانِ خوراک اور تازہ پانی حاصل کرنے کے لیے انھیں مغربی ساحل کی مختلف بندرگاہوں پر لنگرانداز ہونا پڑا۔اس دوران میں انھیں کوئی حادثہ پیش نا آیا۔مالابار کی ایک بندرگاہ پر چند عرب تاجروں نے زبیر کا خیرمقدم کیا اور گذشتہ طویل سفر میں تھکے ہوئے مسافروں کو چار دن کے لیے اپنے پاس ٹھہرا لیا۔ان چار دنوں میں سراندیپ کے راجہ کے گرانقدر تحائف کی خبر دوردور تک مشہور ہوچکی تھی۔
رخصت کے دن حاکمِ شہر بندرگاہ پر زبیر اور دلیپ سنگھ سے ملا اور اس نے انھیں راستے میں بحری ڈاکووں کے حملے کے پیشِ نظر ہوشیار رہنے کی تاکید کی۔دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”آپ فکر نا کریں! ہمارے جہاز پوری طرح مسلح ہیں۔“
تیسرے دن مستول پر سے دونوں جہازوں کے پہرے داروں ن نے یکے بعد دیگرے افق شمال کی طرف اشارہ کرکے دو جہازوں کی آمد کا پتہ دیا اور جہاز ران پریشان ہوکر تختہِ جہاز پر کھڑے ہوگئے۔دلیپ سنگھ کا جہاز آگے تھا۔وہ اپنے جہاز کو روکنے کا حکم دے کر زبیر کا جہاز قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔جب دونوں جہاز ایک دوسرے کے بہت تھوڑے فاصلے پر کھڑے ہوگئے تو دلیپ سنگھ نے کہا۔”ممکن ہیں وہ جہاز بحری ڈاکووں کے نا ہوں، لیکن ہمیں مقابلے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔آپ اپنا جہاز مغرب کی طرف لے جائیں، میں ان سے نمٹ لوں گا۔“
زبیر نے جواب دیا۔”نہیں! ہم خطرے میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔“
دلیپ سنگھ نے کہا۔”مجھے آپ کی ہمت پر شبہ نہیں لیکن ہماری سب سے پہلی ذمہ داری بچوں کی جان بچانا ہے۔“
زبیر نے جواب دیا۔”اگر وہ واقعی بحری ڈاکو ہیں تو ممکن ہے کہ مغرب کی طرف سے بھی انھوں نے ہمارا راستہ روک رکھا ہو۔اس صورت میں بھاگ نکلنے کی بجائے لڑنا کم خطرناک ہوگا اور ہم سے یہ بھی ناممکن ہے کہ ہم اپنے دوستوں کی جانیں خطرے میں چھوڑ کر بھاگ جائیں۔“
”آپ کی مرضی۔تاہم عورتوں کو حکم دیں کے نیچے چلی جائیں۔“
دلیپ سنگھ یہ کہہ کر اپنے ساتھیوں کو ہدایت دینے میں مصروف ہوگیا۔
زبیر نے خالد سے کہا۔”خالد! تم عورتوں اور بچوں کو نیچے لے جاو!“
دونوں جہازوں کے ملاح کیل کانٹے سے لیس ہوکر دور سے آنے والے حہازوں کو دیکھنے لگے۔کچھ دیر بعد دلیپ سنگھ ایک جہاز کا سیاہ جھنڈا دیکھ کر چلایا۔”یہ بحری ڈاکووں کے جہاز ہیں۔مقابلے کے لیے تیار ہوجاو۔“
زبیر نے اپنے ساتھیوں سے مخاب ہوکرکہا۔”بھائیو! یہ عورتیں اور بچے ہمارے پاس امانت ہیں۔ہمیں انھیں سلامتی سے بصرہ پہنچانا ہے۔اگر ہم پر ان کی حفاظت کی ذمہ داری نا ہوتی۔ تو ہمارا طریق جنگ اس طریقے سے مختلف ہوتا جو میں نے اب تجویز کیا ہے۔میں ایک خطرناک مہم کے لیے تم میں سے دو رضاکار چاہتا ہوں۔“
اس پر سب سے پہلے خالد اور پھر یکے بعد دیگرے تمام ملاحوں نے اپنے نام پیش کیے۔زبیر نے کہا۔”اس کام کے لیے دو بہترین تیراک درکار ہیں۔میں یہ کام ابراہیم اور عمر کو سونپتا ہوں۔“
زبیر کی ہدایت پر دونوں جہازوں سے دو کشتیاں سمندر میں اتار دیں گئیں اور ان کے ساتھ باندبان باندھ دیے گئے۔دلیپ سنگھ کے جہاز پر ہاتھیوں کے لیے خشک گھاس موجود تھی۔ملاحوں نے اس کے چند گٹھے اتار کر کشتیوں پر لادیے۔ابراہیم اور عمر ہاتھوں میں جلتی مشعلیں لیے کشتیوں پر سوار ہوگئے۔اس کے بعد زبیر اور اس کے ساتھی تیرکش اور کمان سنبھال کر حملہ آوروں کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگے۔اگلے جہاز کا رخ دلیپ سنگھ کے جہاز سے زیادہ زبیر کے جہاز کی طرف تھا۔عمر اور ابراہیم کی کشتیاں ایک لمبا چکر کاٹ حملہ آوروں کے عقب میں پہنچ چکی تھیں۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر22)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر22)
زبیر ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھاگتا ہوا اپنے ساتھیوں کو ہدایت دے رہا تھا۔حملہ آور جہاز نے قریب آتے ہی زبیر کے جہاز پر تیر برسانے شروع کردیے اور ایک تیر سن سے زبیر کے سر کے قریب سے گزرگیا۔اس کے ساتھ ہی اسے ایک نسوانی آواز سنائی دی۔ ”آپ کسی محفوظ جگہ پر بیٹھ جائیے۔ہم دشمن کے تیروں کی زد میں آچکے ہیں۔“
زبیر نے چونک کر پیچھے دیکھا۔ناہید تیرو کمان لیے کھڑی تھی۔ آنکھوں کے سوا اس کا باقی چہرہ نقاب میں چھپا ہوا تھا۔ زبیر نے کہا۔”تم یہاں کیا کررہی ہو؟ جاو نیچے!“
ناہید نے اطمنان سے جواب دیا۔”آپ میری فکر نا کریں۔ میں تیر چلانا جانتی ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ کرایک سپاہی کے قریب بیٹھ گئی۔
کچھ دیر تیروں کی لڑائی ہوتی رہی۔لٹیرے زیادہ قریب پہنچ کر جلتے ہوئے تیر پھنکنے لگے۔دوسری طرف زبیر کی ہدایت کے مطابق ابراہیم اور عمر نے اپنی کشتیاں لٹیروں کے جہازوں کی طرف چھوڑ دیں اور قریب پہنچ کر جلتی ہوئی مشعلوں سے گھاس میں آگ لگائی اور خود پانی میں کود گئے۔ لٹیرے جو ہاتھوں میں کمندے لیے ہوئے اپنے حریف کے جہازوں میں کودنے کے لیے تیار کھڑے تھے بدحواس ہوکر کشتیوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ہوا کے جھونکوں نے کشتیوں سے آگ کے شعلوں کو جہازوں کے بادبانوں تک پہنچا دیا۔ آن کی آن میں لٹیروں کے دونوں جہازوں پر آگ بےقابو ہوچکی تھی اور وہ چیختے چلاتے سمندر میں چھلانگیں لگا رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی دلیپ سنگھ اور زبیر کے ساتھی تیر برسا رہے تھے۔زبیر نے لٹیروں کا ایک جہاز اپنے جہاز کے قریب آتا دیکھ کر آگ کے خطرے سے بچنے کے لیے لنگر اٹھانے کا حکم دیا لیکن اتنے میں آٹھ دس لٹیرے کمندے ڈال کر زبیر کے جہاز پر کودنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ زبیر کے ساتھیوں نے انھیں اڑے ہاتھوں لیا۔لٹیروں کے جہاز سے ایک تیر آیا اور زبیر کے بائیں بازو میں پیوست ہوگیا۔اس کے ساتھ ہی ناہید کی کمان سے ایک تیر نکلا اور ایک لٹیرے کے سینے میں پیوست ہوگیا۔
زبیر نے مرحبا کہا۔ناہید نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔زبیر کمان پھینک کر بازو سے تیر نکالنے کی کوشش کررہا تھا۔ناہید نے جلدی سے کمان نیچے رکھ کہ ایک ہاتھ سے زبیر کا بازو پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے تیر کھینچ کرنکال دیا۔تیر کے نکلتے ہی زبیر کے بازو سے خون کی دھار بہہ نکلی۔ناہید نے اس کی آستین اوپر چرھائی اور جھٹ سے اپنا نقاب اتار کر اس کے بازو پر باندھ دیا۔
زبیر کا جہاز کمندوں کی زد سے نکل چکا تھااور جلتے ہوئے جہاز کے رہے سہے ملاح مایوس ہوکر سمندر میں چھلانگیں لگا رہے تھے۔زبیر نے دوبارا کمان اٹھاتے ہوئے کہا”ناہید! اب تم عورتوں کے پاس جاو اور انھیں تسلی دو کہ ہم خدا کے فضل سے فتح حاصل کرچکے ہیں۔“
ناہید نے چلتے چلتے رک کرپوچھا۔”آپ کو تکلیف تو نہیں ہوئی؟“
”نہیں یہ بہت معمولی زخم ہے۔تم میری فکر نا کرو!“
یہ کہتے ہوئے ایک لمحے کے لیے زبیر کی نگاہیں نائید کے چہرے پر گڑگئیں۔سپاہیانہ وقاراس کے خدوخال کی دلکشی میں اضافہ کررہا تھا۔ ناہید نے اچانک محسوس کیا کہ وہ بےنقاب ہے، اور وہ تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی نیچے عورتوں کے پاس چلی گئی۔
جلتے ہوئے جہاز سے چند آدمی اتر کر ایک کشتی پر سوار ہوئے اور ایک آدمی جو کہ ڈاکووں کا سردار معلوم ہوتا تھا سفید جھنڈا لہرانے لگا۔زبیر نے تیر اندازوں کو ہاتھ کے اشارے سے منع کیا۔عمر اور ابراہیم اپنا کام کرکے جہاز کے قریب پہنچ چکے تھے۔زبیر نے اپنے جہاز کو خطرے سے محفوظ پاکر لنگر ڈالنے اور رسیوں کی سیڑھی نیچے پھینکنے کا حکم دیا۔ عمر اور ابراہیم جہاز پر چڑھ آئے۔خالد نے زبیر کو دلیپ سنگھ کے ساتھیوں کی طرف متوجہ کیا، جو ابھی تک سمندر میں غوطے کھانے والے دشمنوں پر تیروں کی مشق کررہے تھے۔زبیر نے انھیں بھی ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور لٹیرے قدرے مطمین ہوکر سیڑھی کے ذریعے جہاز پر چڑھنے لگے۔سب سے آخر میں لٹیروں کے سردار کی کشتی دونوں جہازوں کے درمیان میں آکررکی۔ایک قوی ہیکل اور معمر آدمی جس کی داڑھی کے آدھے بال سفید ہوچکے تھے، زخمی شیر کی طرح جہاز رانوں کو دیکھ رہا تھا۔
اس کشتی میں زبیر کی نظر ایک نوجوان اور ایک لڑکی پرپڑی۔ دونوں شکل و صورت اور لباس کے اعتبار سے لٹیروں سے بہت مختلف تھے۔
زبیر نے قوی ہیکل اور بارعب آدمی کو ڈوکووں کا سردار سمجھ کر اس کی طرف اشارہ کیا اور ملاح کشتی کو کھیتے ہوئے جہاز کے قریب لے آئے اور یکے بعد دیگرے رسی کی سیڑھی ہر چڑھتے ہوئے اوپر آگئے۔لڑکی کے چہرے سے علالت اور تکلیف کے اثرات نمایا تھے۔ خوش وضع اور خوش پوش نوجوان اس کا بازو پکڑ کراسے سہارا دے رہا تھااور وہ سنبھل سنبھل کر سیڑھی پر پاوں رکھ رہی تھی۔
جہاز پرپہنچ کر نوجوان نے ایک اجنبی زبان میں کچھ کہا اور لٹیروں کی طرف گھورنے لگا۔زبیر نے اس کی زبان پوری طرح نا سمجھتے ہوئے بھی محسوس کیا کہ وہ لٹیروں کے مظالم کی شکایت اور اس کا شکریہ ادا کررہا ہے۔
زبیر نے اپنی استطاعت کے مطابق سندھ اور سراندیپ کی ملی جلی زبان میں اسے تسلی دی۔نوجوان اور لڑکی اس کے دوستانہ لہجے سے متاثر ہوکر تشکر آمیز نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔لڑکی نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس کی سہمی ہوئی آواز گلے میں آٹک کررھ گئی۔ وہ آنکھوں میں آنسو بھر کرزبیر کی طرف دیکھنے لگی۔اس کی عمر چودہ پندرہ سال کے لگھ بھگ معلوم ہوتی تھی۔خوبصورت چہرہ دوپہر کے پھول کی طرح کملایا ہوا تھا۔زبیر نے پھر ایک بار ان دونوں کو تسلی دی سب سے آخر میں ڈاکووں کا سردار جہاز میں پہنچا۔ اس کی آنکھوں میں ندامت کے آنسوون کی جگہ انتقام کی بجلیاں تھیں۔
تھوڑی دیر میں دلیپ سنگھ اپنے جہاز سے اتر کر کشتی کے زریعے زبیر کے جہاز پر پہنچ گیا۔اس نے آتے ہی ڈاکووں کے سردار کو مارنے کے لیے چابک اٹھایا لیکن زبیر نے آگے بھر کر اس کا بازو پکڑ لیا۔دلیپ سنگھ نے زبیر کے قمیص کی آستین کو خون آلود دیکھ کر کہا۔”آپ زخمی ہیں؟“
زبیر نے بےپروائی سے جواب دیا۔”یہ معمولی زخم ہے۔“
خوش پوش نوجوان نے کچھ کہہ کر دلیپ سنگھ کو اپنی طرف متوجہ کیا اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرنے لگے۔اس کے بعد دلیپ سنگھ نے ڈاکووں کے سردار سے چند باتیں کرنے کے بعد عربی زبان میں زبیر کے ساتھیوں کو کہا۔”کشتی میں ایک صندوق پڑا ہے اسے اوپر لے آو۔“
ملاحوں نے صندل کی لکڑی کے چھوٹے سے صندوق کو رسے کے ساتھ باندھ کر اوپر کھینچ لیا۔دلیپ سنگھ نے ڈھکنا اوپر اٹھایا اور تمام ملاح حیران ہوکرسونے موتیوں اور جوہرات سے بھرے صندوق کو دیکھنے لگے۔
زبیر کے استفسار پر دلیپ سنگھ نے خوش پوش نوجوان سے چند سوال پوچھے اور اس نے اپنی آپ بیتی کچھ یوں سنائی:-
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر23)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر23)
نوجوان کا نام جے رام تھا۔وہ کاٹھیاوار کے ایک اعلی نسب راجپوت خاندان کا چشم و چراغ تھا۔اوائل شباب میں اسے ناموری اور شہرت کا شوق سرزمین سندھ تک لے گیا۔برہمن آباد کے ایک میلے میں اس نے تیر اندازی میں اپنے کمالات دکھا کر سندھ کے راجہ کو اپنا قدردان بنالیا۔راجہ نے اسے اپنی فوج میں معمولی عہدہ دے کر اپنے پاس رکھ لیا۔دو سال کی خدمت گزاری کے بعد جے رام نے دیبل کے نائب حاکم کی جگہ حاصل کرلی۔دیبل میں آئے ہوئے اسے ایک ہفتہ نا ہوا تھا کہ گھر سے اسے اپنے باپ کی وفات اور ماں کی علالت کی خبر ملی اور چند ماہ کی رخصت لے کر وہ کاٹھیاوار پہنچا۔گھر پہنچنے کے دس دن بعد اس کی والدہ بھی چل بسی۔گھر میں اب اس کی ایک چھوٹی بہن مایادیوی تھی۔جے رام نے رشتے داروں کی نصیحت اور مایا دیوی کے آنسووں سے متاثر ہوکر وآپس سندھ جانے کا خیال چھوڑ دیا، لیکن چار ماہ گھر گزارنے کے بعد اسے اپنی پرسکون زندگی تلخ محسوس ہونے لگی اور ایک دن اس نے کاٹھیاوار کے راجہ کی خدمت میں حاضر ہوکر ملازمت کی درخواست کی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ کے راجہ نے اپنا حلقہ اقتدار وسیع کرنے کے لیے پڑوس کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کررکھی تھی اور خودمختار راجے اور سرادر اسے اپنا طاقتور ہمسایہ تسلیم کرنے کے ثبوت میں اپنی آمدنی کا کچھ حصہ اس کی نزر کیا کرتے تھے۔کاٹھیاوار کے راجہ کو اگرچہ براہِ راست سندھ کے راجہ سے کوئی خطرہ نا تھا۔ تاہم وہ کچھ سونے اور چاندی کے عوض اسے اپنا دوست بنانا غنیمت سمجھتا تھا۔
جے رام کو اپنے دربار میں کوئی عہدہ دینے کی بجائے اس نے سندھ میں اس کے اثرورسوخ سے فائدہ اٹھانا زیادہ مناسب خیال کیا اور اسے سونے جواہرات اور موتیوں کا صندوق دے کر سندھ کے راجہ کی خدمت میں بھیج دیا۔جے رام کو یقین تھا کہ راجہ دھر اسے وآپس نا آنے دے گا۔ اس لیے اس نے آپنی اکیلی بہن مایا دیوی کو گھر چھوڑنا مناسب نا سمجھا۔مایا دیوی بھی اس کے ساتھ جانے پر بضد تھی۔اس لیے یہ دونوں اپنا گھر بار چچازاد کے سپرد کرکے سندھ کی طرف روانہ ہوگئے۔ لیکن کاٹھیاوار اور سندھ کے درمیان ان کے جہاز کو بحری ڈاکووں سے مقابلہ کرنا پڑا۔ اس کے ساتھی بہادری سے لڑے لیکن ڈاکووں کے سامنے ان کی پیش نا گئی۔ڈاکووں نے جواہرات کے صندوق پر قبضہ کرلیا، مایا دیوی اور جے رام کے سوا ان کے ساتھیوں کو سمندر کے کنارے آزاد کردیا گیا۔ڈاکووں کا سردار سمجھتا تھا کہ جےرام اور مایا دیوی راجہ کاٹھیاوار کے عزیز ہیں اور وہ اس کی جان بچانے کے لیے معقول رقم دینے پر آمادہ ہوجائے گا۔اس لیے وہ کاٹھیاوار کے ساحل کے غیر آباد حصے پر لنگرانداز ہوکر راجہ کے ساتھ یہ سودا کرنا چاہتا تھا لیکن ان کے ایک جاسوس نے اسے سراندیپ کے جہازوں کی آمد کی خبر کردی اور اس نے کاٹھیاوار ٹھہرنے کی بجائے مالابار کا رخ کیا۔
زبیر نے یہ قصہ سن کر پھر ایک بار جے رام اور اس کی بہن کو تسلی دی اور کہا۔”یہ لٹیرے جیسے ہمارے مجرم ہیں ویسے ہی آپ کے مجرم ہیں۔میں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ انھیں کیا سزا دی جائے۔ تاہم میں یہ جانتا ہوں کہ آپ کے ملک میں انھیں کیا سزا دی جاتی ہے؟“
جے رام نے کہا۔”ایسے ظالم ڈاکووں کے لیے ہمارے قانون میں اور آپ کے قانون میں رحم کی کوئی گنجائش نہیں ہے تاہم جب ان لوگوں سے آپ کا مقابلہ ہوا تھا تو مجھے اور میری بہن کو جہاز کے ایک کونے میں بندکردیا گیا تھا اور جہاز کو آگ لگ جانے کے بعد یہ لوگ ہمیں وہیں چھوڑنا چاہتے تھے، اپنے لیے شاید میں ان سے رحم کی درخواست نا کرتا لیکن اپنی بہن کے لیے مجھے عاجز ہونا پڑا اور ان لوگوں نے ہمیں کشتی پر سوار کرنے سے پہلے وعدہ لیا کہ میں آپ سے ان لوگوں کی جان بخشی کی سفارش کروں گا، میرا یہ مطلب نہیں کہ انھیں آزاد چھوڑ دیا جائے۔ میں انھیں صرف موت کی سزا سے بچانا چاہتا ہوں۔لیکن یہ ضروری ہے کہ جب تک ان کے راہِ راست پر آجانے کا اطمینان نا ہو انھیں قید میں رکھا جائے۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر24)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر24)
مایا دیوی علالت کی وجہ سے دیر تک کھڑی نا رھ سکی۔اس نے اپنے بھائی سے کچھ کہا اور بیشر اس کے کہ وہ کوئی جواب دیتا۔دلیپ سنگھ نے کہا۔”اوہو! ہمیں معلوم نا تھا کہ آپ کی بہن علیل ہے۔خالد بیٹا! انھیں اپنی بہن کے پاس لے جاو۔“
خالد اگے برھااور مایا دیوی اپنے بھائی کی طرف دیکھنے لگی۔جے رام نے دلیپ سنگھ سے پوچھا۔”اس جہاز پر عورتیں بھی ہیں؟“
”جی ہاں۔آپ کی بہن کو کسی قسم کی تکلیف نا ہوگی۔ہاں بیٹی۔جاو۔تم آرام کرو۔“

جہازوں کی دوبارا روانگی سے پہلے لٹیروں کے سردار کے سوا باقی تمام قیدیوں کو دلیپ سنگھ کے جہاز میں منتقل کردیا گیا۔زبیر نے دلیپ سنگھ کو تاکید کی کہ جب تک ان کی سزا کا فیصلہ نا ہوجائے ان کے ساتھ بدسلوکی نا کی جائے۔ڈاکووں کے سردار کو اس کے ساتھیوں کی نیک چلنی کی ضمانت کے طور پر زبیر نے اپنے جہاز پر ٹھہرا لیا۔جے رام نے اپنی بہن کی علالت کے پیشِ نظر زبیر کے جہاز میں رہنا پسند کیا۔
خالد نے مایا دیوی کو ناہید کے پاس پہنچا دیا۔ناہید نے اسے ایک بستر پر لٹا دیا اور سب عرب عورتیں اس کے گرد جمع ہوگئیں۔پہلی ملاقات میں مہمانوں اور میذبانوں کہ درمیان فقط اشاروں سے ہمدردی اور تشکر کے جزبات کی ترجمانی ہوئی۔
دلیپ سنگھ نے اپنے جہاز پہ جانے سے پہلے جےرام سے کہا۔”آپ کو شاید کھانے میں دقت ہو۔ میں ایک مدت تک مسلمانوں کے ساتھ رھ رھ کر چھوت چھات کا قائل نہیں رہا۔ہم سب ایک ہی دسترخوان پر کھا لیتے ہیں۔میرے ساتھ جتنے بھی آدمی ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو مسلمانوں کے ساتھ نہ کھا چکا ہو۔تاہم میرا یک آدمی جسے میں اس جہاز پر چھوڑ کر جا رہا ہوں آپ دونوں کے لیے کھانا تیار کرے گا۔اور آپ کے میزبان آپ کی مرضی کے بغیرآپ کو اپنے دسترخوان پر بیٹھنے پر مجبور نہیں کریں گے۔“
دلیپ سنگھ نے چند باتیں زبیر کو سمجھائیں اور اتر کر اپنے جہاز پر چلا گیا۔اس کے پہنچنے سے پہلے اس کے ساتھی اپنے کنداستروں سے پانچ سفید ریش لٹیروں کےسر اور داڑھیاں، پونچھیں اور نھنویں مونڈ چکے تھے۔ایک ڈاکو جو شکل و صورت سے زیادہ معمر معلوم ہوتا تھا۔اس کی صرف آدھی داڑھی آدھی مونچھ اور اور آدھا سرصاف کرنے پراکتفاء کیا۔
ناہید اور دوسری عورتوں نے دل وجان سے مایادیوی کی تیماداری کی۔موسمی بخار کے لیے ناہید سراندیپ سے چند جڑی بوٹیاں ساتھ لائی تھی ان کے استعمال سے ناہید چند دنوں میں تندرست ہوگئی۔
زبیر نے اپنے بازو کے زخم کو معمولی سمجھ کے شروع میں چنداں پروا نا کی لیکن مرطوب ہوا کے باعث زخم میں تیسرے روز پیپ پر گئی اور اسے درد کی شدت اور بخار سے چند دن بستر پر لیٹنا پڑا۔
دلیپ سنگھ کئی بار اپنا جہاز چھوڑ کر اس کی تیماداری کے لیے آیا۔علی،خالد اور ہاشم،ناہید اور دوسری عرب عورتوں کو ہر آن اس کی حالت سے باخبر رکھتے۔جےرام ہر وقت اس کے پاس بیٹھا رہتا۔مایا دیوی ایک عورت کی ذکاوتِ حس کے بدولت ناہید کے مغموم اور پریشان رہنے کی وجہ سمجھ چکی تھی۔وہ اپنے بھائی کی موجودگی میں کبھی کبھی زبیر کو دیکھ آتی اوروآپس آکر اشاروں میں اور عربی کے چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں جنھیں وہ چند روز عرب عورتوں کی صحبت میں رھ کر سیکھ چکی تھی۔ناہید کو تسلی دیتی۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر25)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر25)
ایک شام زبیر کی حالت قدرے مخدوش تھی۔دلیپ سنگھ آیا اور زخم کی مرہم پٹی کرنے کے بعد چلا گیا۔رات کے وقت مطلع آبرالود تھا اور ہوا تیز تھی ملاح اپنی اپنی جگہ پر متعین تھے۔جےرام خالد اور علی زبیر کی تیماداری کررہے تھے۔
عرب عورتیں عشاء کی نماز کے لیے اٹھیں اور مایا دیوی اپنے بھائی سے زبیر کا حال پوچھنے چلی گئی۔جب ناہید نماز سے فارغ ہوکرزبیر کی صحت کے لیے دعا کررہی تھی تو خالد نے آکر بتایا کہ زبیر بےہوش ہے۔
ایک عمر رسیدہ عورت نے کہا۔”ہمارے تمام آدمی آندھی کی وجہ سے جہاز پر مصروف ہیں۔ہمیں ان کے پاس ضرور جانا چاہیے۔“
تمام عورتیں اٹھ کر زبیر کے پاس پہنچیں۔مایا دیوی نے انھیں دیکھ کراپنے بھائی کی طرف اشارہ کیا اور وہ اٹھ کر باہر نکل گیا۔جےرام نے کئی راتیں آنکھوں میں کاٹی تھیں۔وہ باہر نکلتے ہی جہاز کے ایک کونے میں لیٹ کر گہری نیند سوگیا۔
آدھی رات کے وقت زبیر کا بخار قدرے کم ہوا اور ناہید اور مایا دیوی کے علاوہ باقی عورتیں اپنے کمرے میں چلی گئیں۔خالد اور علی وہیں لیٹ گئے۔
رات کے تیسرے پہر زبیر نے آنکھیں کھولیں اور شمع کی روشنی میں ناہید اور مایا دیوی کو دیکھ کر پوچھا۔”آپ یہاں؟ جائیں آرام کریں۔“
ناہید کا مرجھایا ہوا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور اس نے سوال کیا۔”آپ اب کیسے ہیں؟“
”میں اب ٹھیک ہوں۔مجھے پانی دیجیے۔“
مایا دیوی نے اٹھ کر صراحی سے پانی کا پیاکہ بھرا اور ناہید کے ہاتھوں میں دے دیا۔ناہید نے ہچکچاتے ہوئے ایک ہاتھ سے زبیر کے سر کو سہارا دے کر اٹھایا اور دوسرےہاتھ سے پانی کا پیالہ اس کے ہونٹوں سے لگادیا۔
زبیر نے پانی پی کر پھر تکیے پر سررکھ دیا اور ناہید سے کہا۔”ٗان کے بھائی نے میرے لیے بہت تکلیف اٹھائی ہے۔اب وہ کہاں ہیں؟“
”وہ باہر سورہے ہیں۔“
”آپ بھی جاکر سوئیں۔مجھے اب آرام ہے۔ دلیپ سنگھ کے نئے مرحم نے بہت فائدہ کیا ہے۔“

چند دن بعد زبیر چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا۔عربوں کا خلق جےرام کو بہت متاثر کرچکا تھا۔زبیر سے اس کا انس، انتہائی درجے کی عقیدت اور محبت کی حد تک پہنچ چکا تھا۔وہ زبیر سے عرب کے تازہ ترین حالات کے متعلق کافی واقفیت حاصل کرچکا تھا۔عربوں کے نئے دین میں انسانی مساوات کے تخیل نے شروع شروع میں اسے بہت پریشان کیا۔لیکن زبیر کی تبلیغ سے جلدہی وہ قائل ہوگیا کہ دنیا بھر میں قیامِ امن کے لیے تمام اقوام کا کسی ایسے دین کو قبول کرنا ضروری ہے۔جو ہر انسان کو مساوی حقوق دیتا ہو۔جو تمام اقوام کو رنگ، خون اور نسل سے نہیں بلکہ اعمال سے پہچانتا ہو۔ ابتدا میں اس نے کھامے پینے کے معاملے میں مسلمانوں کی چھوت سے پرہیز کیا لیکن چنددن زبیر کی صحبت میں رہ کے اسے چھوت اور اچھوت کا امتیاز مضحکہ خیز نظر آنے لگا اور ایک دن وہ اپنی بہن سے مشورہ کیے بغیر زبیر کے دسترخوان پر بیٹھ گیا۔
مایا دیوی میں اپنے بھائی سے بھی پہلے ذہنی انقلاب آچکا تھا اور اس انقلاب کی وجہ یہ نا تھی کہ وہ اپنے بھائی کی طرح اسلام کی تعلیمات سے واقف ہوچکی تھی بلکہ اس کی وجہ عربوں کا وہ اخلاق تھا جس نے ایک غیور راجپوت لڑکی کو یہ محسوس نا ہونے دیا کہ وہ ایک اجنبی قوم کے انسانوں کے رحم پر ہے۔مسلمان ملاح اسے دیکھتے اور آنکھیں جھکا لیتے۔پہلے ہی دن وہ محسوس کرنے لگی کہ ان سب کی نگاہیں اس کی بھائی کی نگاہوں سے مختلف نہیں۔
ناہید کی تیماداری نے بھی اسے بہت متاثر کیا تھا۔ان سب سے بڑھ کر وہ خالد کے طرزِ عمل سے متاثر ہوئی تھی۔نجانے کیوں اس کی نگاہیں اسے دیکھنے اور کان اس کی آواز سننے کے لیے بےقرار رہتے اور جب وہ سامنے آتا اسے آنکھ اٹھانے کی جرات تک نا ہوتی۔ وہ بےپروائی سے منہ پھیر کر چلا جاتا اور وہ دیر تک اپنے دل کی دھڑکنیں سنتی رہتی۔کبھی طرح طرح کے خیالات سے پریشان ہوکر وہ اپنے آپ کو کوستی۔
رات کے وقت وہ اپنے ہم عمر لڑکے سے مرعوب ہونے کی بجائے اسے نفرت اور حقارت اور بے پروائی سے دیکھنے کا ارادہ لے کر سوتی لیکن صبح کی نماز کے بعد جب عرب نماز کے لیے کھڑے ہوتے۔وہ ان ارادوں کے باوجود اٹھ کر عرشے پر چلی جاتی اور ایک طرف کھڑی ہوکر نیلگوں سمندر کی لہروں سے دل بہلانے کی کوشش کرتی لیکن جلد کی اکتا کر منہ پھیر لیتی اور نمازیوں کی طرف دیکھتی غیر شعوری طور پر اس کی نگاہیں خالد پر مرکوز ہوجاتیں۔خالد کی وجہ سے اسے دوسرے نمازیوں کا رکوع و سجود پسند آتا۔ نماز کے بعد خالد کے ہاتھ دعا کے لیے بلند ہوتے دیکھ کر اسے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا طریقہ دلکش معلوم ہوتا۔
اسلام کے ساتھ اس کی پہلی دلچسپی اس لیے تھی کہ یہ خالد کا دین تھا۔عربی زبان وہ اس لیے سیکھنے کی کوشش کرتی تھی کہ یہ زبیر کی زبان تھی۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر26)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر26)
گنگو اور اس کی سرگزشت
ڈاکووں کے سردار کو پابہ زنجیر رکھا گیا تھا۔دلیپ سنگھ کی ہدایت تھی کہ اس پر کسی قسم کا اعتبار نا کیا جائے۔اسے دونوں وقت کا کھانہ پہنچانے کا کام علی کا تھااور علی کو ہر وقت فکر رہتی تھی کہ شاید اس کا پیٹ نہیں بھرا اور ہر کھانے پر بوڑھے سردار کو علی کے کہنے پر ایک دو لقمے زیادہ ہی کھانے پڑتے۔
زبیر کا سلوک بھی اس کی توقع کے خلاف تھا۔زبیر دن میں ایک دو دفعہ ضرور اس کے پاس آتا۔پہلی بار اس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی سندھی میں باتیں کرنے کی کوشش کی لیکن اسے جلد ہی یہ معلوم ہوگیا کہ وہ عربی میں بےتکلفی سے بات چیت کرسکتا ہے۔
ایک دن اس نے زبیر سے کہا۔”موت کے انتظار میں جینا میرے لیے بہت صبرآزما ہے۔اگر آپ مجھ پر رحم نہیں کرنا چاہتے تومیں چاہتا ہوں کہ مجھے جو سزا ملنی ہے جلد مل جائے۔“
زبیر نے کہا۔”مجھے تمہارے بڑھاپے پہ ترس آتا ہےلیکن تمہیں اس وقت تک قید سے نہیں چھوڑا جاسکتا جب تک مجھے یہ یقین نا ہوکہ تم آزاد ہوکر پھر یہی پیشہ اختیار نا کرلوگے۔“
اس نے جواب دیا۔”میرے جہاز غرق ہوچکے ہیں اور اب میں بڑھاپے کے باقی دن کسی جنگل میں چھپ کر گزارنے کے سوا کرہی کیا سکتا ہوں۔“
”ڈاکو ہر جگہ خطرناک بن سکتا ہے۔تم سمندر میں جہازوں کو لوٹتے تھے خشکی پر لوگوں کے گھروں میں ڈاکے ڈالو گے اگر میں تمہیں بصرہ لے جاوں تو وہاں غالباً تمہارے ہاتھ کاٹے جائیں گے۔اور اگر تمہارا فیصلہ جےرام پر چھوڑوں تو باقی عمر تمہیں قید خانے کی کوٹھری میں گزارنا پڑے گی۔“
ڈاکووں کے سردار نے جواب دیا۔”میں آپ کی حکومت کے متعلق کچھ نہیں جانتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ دیبل کی حکومت کو مجھے سزا دینے کا کوئی حق نہیں۔“
”وہ کیوں؟“
”وہ اس لیے کہ میں گزشتہ چند برس جو کچھ سمندر میں اپنے جہاز پر سورا ہوکر کرتا رہا ہوں۔وہی کچھ سندھ کا راجہ تخت پر بیٹھ کر کرتا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اس کے اہلکار کمزور اور غریب لوگوں کو لوٹتے ہیں جبکہ میرے ساتھی چھوٹی چھوٹی کشتیوں کی بجائے صرف بڑے بڑے جہازوں کو لوٹتے ہیں۔ہمارا پیشہ ایک ہے لیکن نام ہمارے مختلف ہیں۔میں ایک ڈاکو ہوں اور وہ ایک راجہ۔اس کی طرح اس کا باپ بھی راجہ تھا لیکن میرا باپ ڈاکو نا تھا۔میں خود بھی ڈاکو نا بنتا لیکن ظلم نے مجھے بنا دیا۔خیر ان باتوں کا اب کوئی فائدہ نہیں۔آپ غالب ہیں اور میں مغلوب۔لیکن میں یہ ضرور چاہتا ہوں کہ آپ مجھے سندھ کی حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے خود جو سزا چاہیں دے لیں۔“
زبیر نے کہا۔ ”میں تمہاری سرگزشت سننا چاہتا ہوں۔“
ڈاکووں کے سردار نے قدرے تامل کے بعد مختصر الفاظ میں اپنی سرگزشت یوں بیان کی۔
”میرا نام گنگو ہے۔“ (جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر27)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر27)
میرا نام گنگو ہے۔میں دریائے سندھ کے کنارے ایک چھوٹے سے گاوں میں پیدا ہوا۔اپنے باپ کی طرح میرا بھی پیشہ ماہی گیری تھا۔بیس سال کی عمر میں میرے سر سے والدین کا سایہ اٹھ گیا۔ہمارے گاوں میں ایک لڑکی تھی۔اس کا نام لاجونتی تھا اور وہ تھی بھی لاجونتی۔اس کی آنکھیں ہرنی کی آنکھوں سے زیادہ دلفریب اور اس کی آواز کوئل کی آواز سے زیادہ میٹھی تھی۔لوگ اسے جل پری کہا کرتے تھے۔گاوں میں کوئی نوجوان ایسا نا تھا جو لاجو کے لیے جان دینے کے لیے تیار نہ ہو۔ لیکن وہ صرف مجھے چاہتی تھی۔ اس کا باپ سادہ دل آدمی تھا۔برسات میں ایک دفعہ دریا زوروں پر تھا تو اس نے شرط لگائی کہ میں لاجو کی شادی اس کے ساتھ کروں گا جو یہ دریا تیر کر عبور کرے۔ہمارے گاوں میں اچھے اچھے تیراک تھےلیکن برسات میں کسی کو دریا میں کودنے کی ہمت نا ہوئی۔میں لاجو کے لیے جان قربان کرنے کو تیار تھا۔میں نے اس کی شرط پوری کی اور چند دنوں میں میری اور اس ی شادی ہوگئی۔
ہم دونوں خوش تھے اور زیادہ وقت کشتی پر گزارتے تھے۔میں مچھلیاں پکڑا کرتا تھا اور وہ کھانا پکایا کرتی تھی۔رات کے وقت ہم ہنستے ہنستے اور گاتے گاتے تاروں کی روشنی میں سوجاتے تھے۔عجیب دن تھے وہ بھی۔“
یہاں تک کہہ کر گنگو کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور دیر تک ہچکیاں لینے کے بعد اس نے پھر سے اپنی داستان شروع کی:-
”لیکن ایک دن ایسا آیا کہ مجھے لاجو سے جدا ہونا پڑا۔ہمیشہ کے لیے مجھے معلوم نا تھا کہ ایک نیچ ذات اور کمزور آدمی کے لیے خوبصورت بیوی رکھنا پاپ ہے ہمارے گاوں سے ایک کوس کے فاصلے پر ہمارے علاقے کے سردار کا شہر تھا۔ ایک دن وہ چند سپاہیوں کے ساتھ دریا پر آیا۔مجھے پار لے جانے کے لیے کہا۔کشتی پر سوار ہوکر وہ لاجو کو بری طرح گھور رہا تھا۔اس کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ یہ میری بیوی ہے۔وہ بولا”یہ کسی ماہی گیر کی بیٹی نہیں ہوسکتی۔تم اسے کہاں سے لائے ہو؟“ میں نے کوئی جواب نا دیا۔ دوسرے کنارے پر اس نے مجھے پہنچ کربتایا کہ میں شام تک وآپس آجاوں گا۔تم اتنی دیر میرا انتظار کرو۔لیکن وہ شام سے پہلے ہی وآپس آگیا اور میں نے اسے دوسرے کنارے پہنچا دیا۔وہ میرا نام پوچھ کر چلاگیا۔اس کے بعد وہ ہمارے گاوں کے ماہی گیروں کا شکار دیکھنے کے بہانے کبھی کبھی چلاآتا۔گاوں کے لوگ اسے اپنے ساتھ بےتکلفی سے پیش آتا دیکھ کر خوش ہوتے لیکن لاجو نے ایک دن مجھے کہا کہ اس کی نیت ٹھیک نہیں وہ میری طرف بہت بری نظروں سے دیکھتا ہے۔
ایک دن لاجو حسبِ معمول کشتی پر کھانا پکا رہی تھی۔وہ گھوڑے پر آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ ”تمہارے پاس کوئی تازہ شکار ہے تو لاو“ میں نے تھوڑی دیر بیشتر دو بڑی مچھلیاں پکڑی تھیں۔وہ میں نے اسے پیش کیں۔اس نے مجھے مچھلیاں پکڑ کر اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ شہر دور نا تھا۔میں نے لاجو سے کہا۔”میں کھانا تیار ہونے تک آجاوں گا۔“
میں اس کے گھوڑے کے پیچھے چل رہا تھا کہ راستے میں جھاڑیوں کی آڑ سے چند آدمی نمودار ہوئے اور مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ میں نے ان کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کی لیکن کسی نے میرے سر پر لاٹھی ماری اور میں تیورا کر گرپڑا۔اس کے بعد جب مجھے ہوش آیا تو میں ایک تاریک کوٹھری میں پڑا ہوا تھا۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر28)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر28)
دودن میں بھوکا اور پیاسا جان کنی کی حالت میں وہاں پڑا رہا۔تیسرے دن دروازہ کھلا اور لاجونتی کے ساتھ تین آدمی جن میں سے ایک کھانا اور پانی اٹھائے ہوئے تھا،اور دو کے ہاتھوں مین ننگیں تلواریں تھیں،کوٹھری میں داخل ہوئے۔لاجونتی کا رنگ زرد تھا اور اس کی آنکھیں دیکھنے سے ایسا لگتا تھا جیسے پانی کا تمام ذخیرہ ختم ہوچکا ہے۔اس کا نگاہ پڑتے ہی بھوک اور پیاس بھول گئی۔میرا جی چاہتا تھا کہ بھاگ کر اس سے لپٹ جاوں لیکن میرے ہاتھ پاوں بندھے ہوئے تھے۔لاجو نے سپاہیوں کی طرف دیکھا اور وہ تلوار سے میری رسیاں کاٹ کر باہر نکل گئے۔
میں نے پوچھا۔”لاجو! تم یہاں کیسی پہنچیں؟“ اور وہ ہونٹ بھینچ کر اپنی چیخوں کو ضبط کرتی ہوئی مجھ سے لپٹ گئی۔لیکن اچانک اس نے خوفزدہ ہوکر مجھے چھوڑ دیا اور دروازے کی طرف دیکھنے لگی۔اس نے مجھے بتایا کہ میرے چلے آنے سے تھوڑی دیر بعد چند آدمیوں نے کشتی پر حملہ کیا اور اسے پکڑ کر سردار کے پاس لے آئے اسے میرا حال معلوم نا تھا اور وہ بےغیرتی کی زندگی پر موت کو ترجیح دینا چاہتی تھی لیکن سردار نے اسے میری قید کا حال بتا کر یہ دھمکی دی کہ اگر میں نے اس کے محل میں بےحیائی کی زندگی نا گزارنے پر آدمی نا ہوئی تو تیرا شوہر اس کوٹھری میں بھوکا اور پیاسا ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے گا۔اب وہ میرے پاس آئی تھی، یہ کہنے کے لیے کہ گنگو تم آزاد ہو۔تم جاو اور یہ سمجھو کہ تمہاری لاجو مرگئی۔وہ اپنی عصمت سے میری ازادی کا سودا کرنا چاہتی تھی لیکن میں نے اسے غلط سمجھا۔میں سمجھا کہ وہ ایک غریب ملاح کی کشتی چھوڑ کے محلوں میں رہنا چاہتی ہے۔میں نے اسے برا بھلا کہا، گالیاں بھی دیں اور ان ظالم ہاتھوں سے تھپڑ بھی مارے لیکن وہ پتھر کی مورتی کی طرح کھڑی یہ سب برداشت کرتی رہی۔اس نے صرف یہ کہا۔”گنگو! میں بےعزتی کی زندگی پر موت کو ترجیح دوں گی لیکن میں یہاں اس لیے آئی ہوں کہ مجھے تمہاری جان اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے بھگوان کے لیے تم جاو! موقع نا گنواو۔ممکن ہے کہ تم آزاد ہو کر مجھے اس ظالم کے پنجے سے آزاد کرانے کی کوئی تدبیر سوچ سکو۔“
اس کے آنسو اور آہوں نے میری غلط فہمی دور کردی۔میں نے اسے پھر گلے لگا لیا اور وعدہ کیا کہ میں جلد آوں گا۔میں اس محل کی اینٹ سے اینٹ بجادوں گا۔
قید خانے کا دروازہ پھر کھلا ، سپاہیوں کی بجائے وہ ظالم بھیڑیا اندر داخل ہوا۔اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار نا ہوتی تو یقیناً میں اس پر حملہ کردیتا۔اس نے آتے ہی لاجو سے کہا۔”اب بتاو کیا فیصلہ کیا تم نے؟اس کی زندگی تمہارے ہاتھ میں ہے۔“
لاجو نے جواب دیا۔”اگر میں آپ کی بات مان لوں تو کیا ثبوت ہے کہ یہ زندہ اور سلامت شہر سے نکل جائیں گے؟“
اس نے کہا۔”میں وعدہ کرتا ہوں۔“
لاجو آنسو بہاتی ہوئی اس کے ساتھ چلی گئی اور مجھے چار سپاہی شہر سے باہر لے آئے۔ان کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں تھیں۔مجھے سردار کے وعدے پر اعتبار نا تھا۔شہر سے نکل کر جب ہم اس جنگل میں پہنچے جو دور تک پھیلا ہوا تھا تو ایک شخص نے پیچھے سے اچانک مجھ پر وار کیا۔مجھے پہلے ہی اس حملے کی توقع تھی اس لیے میں نے ایک طرف کود کر خود کو بچا لیا۔اس پر چاروں نے مجھ پر حملہ کردیا لیکن میں بھاگنے میں تیز تھا جلد ہی جنگل میں پہنچ کر ایک جھاڑی کے نیچے چھپ گیا۔وہ تھوڑی دیر تلاش کرنے کے بعد مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔
شام ہورہی تھی۔میں چھپتا چھپاتا دریا کے کنارے پہنچا۔میری کشتی جل رہی تھی اور دریا کے کنارے وہی چاروں کھڑے تھے۔ان واقعات نے میرے جیسے امن پسند آدمی کو بھیڑیا بنا دیا۔میں گاوں کی طرف بھاگا۔میری آواز میں ایک اثر تھااور آن کی آن میں چند نوجوان لاٹھیاں اور کلہاڑیاں لے کر میرے ساتھ نکل آئے۔ہمیں دیکھ کر سپاہی سراسیمہ ہوکر بھاگے لیکن ہم نے کسی کو بچ نکلنے کا راستہ نادیا اور چاروں کو مار کے ان کی لاشیں دریا میں پھینک دیں۔آدھی رات تک میں نے ماہی گیروں کی بیس پچیس بستیوں سے کوئی دو سو نوجوان اکٹھا کرلیے اور تیسرے پہر سردار کے محل پر دھاوا بول دیا۔شہر کے لوگ پہلے ہی اس کے مظالم سے تنگ تھے کوئی اس کی مدد کے لیے نا نکلا۔اس کے چند سپاہیوں نے مقابلہ کیا۔لیکن اکثر نے بھاگ کر لوگوں کے گھر پناہ لی۔ہم نے سردار کو پکڑ لیا اور اس سے لاجو کے متعلق پوچھا وہ ہر سوال پر یہ جواب دیتا تھا کہ ”میں بے قصور ہوں بھگوان کے لیے مجھے چھوڑ دو“ میں نے مشعل پکڑ کر جلا دینے کی دھمکی دی تو وہ مجھے محل کی نچلی منزل کے ایک کمرے میں لےگیا۔ فرش پر لاجو کی لاش دیکھ کر میری چیخ نکل گئی وہ ہاتھ باندھ کر کہہ رہا تھا کہ ”میں نے اسے نہیں مارا اس نے محل کی چھت سے چھلانگ لگا دی تھی۔تم سپاہیوں سے پوچھ سکتے ہو۔بھگوان کے لیے مجھ پر دیا کرو۔“ میں نے جلتی ہوئی مشعل اس کی آنکھوں میں جھونک دی اور کلہاڑی کے پےدرپے وار کر کے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔
اس کے بعد میں ایک ڈاکو تھا۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر29)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر29)
اس کے بعد میں ایک ڈاکو تھا۔میرے دل میں کسی کے لیے رحم نا تھا۔میں نے کئی سرداروں کو لوٹا اور جب راجہ کی فوج نے زمین تنگ کردی ہمارے لیے تو میں نے دریا کے راستے سمندر کا رخ کیا۔دیبل کی بندرگاہ سے ہم نے رات کے وقت دو جہاز چوری کیے اس کے بعد میں اب تک کئی جہاز لوٹ چکا ہوں۔میں ہر اس شخص کو اپنا دشمن سمجھتاہوں جو راجوں اور سرداروں کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔مجھے ہر دولت مند انسان میں اس سردار کی روح نظر آتی ہے۔مجھے ہر اونچے ایوان میں لاجونتی جیسی مظلوم لڑکیوں کی روحیں انتقام کے لیے پکارتی نظر آتی ہیں۔“
زبیر نے کہا۔”مجھے اس لڑکی کی دردناک موت کا سخت افسوس ہے اور سردار سے جنگ کرنے میں بھی شاید تم حق بجانب سمجھے جا سکو گے۔لیکن تم ایک انسان کے ظلم کا بدلہ دوسرے انسان سے کیسے لے سکتے ہو؟ تم نے ہمارے جہاز پر حملہ کیا اور اس پر کوئی سردار نا تھا۔ اس پر چند یتیم بچے اور عورتیں تھیں۔“
گنگو نے کہا۔”مجھے افسوس ہے۔لیکن دوسرے جہاز پر سراندیپ کے راجہ کا جھنڈا لہرا رہا تھا اور آپ اس کے معاون تھے تاہم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ کے جہاز پر عورتیں اور بچے سوار ہیں تو میں حملہ نا کرتا۔چند ماہ ہوئے میں نے اسی سمندر پر آپ کے ملک کا ایک جہاز دیکھا تھا لیکن میں نے اسے صرف اس لیے چھوڑ دیا کیونکہ اس میں مردوں کے علاوہ چند عورتیں بھی تھیں۔“
خالد چلا اٹھا۔”کیا اس پر سراندیپ کے چند ملاح بھی تھے؟“
”ہاں!“
”وہ تو ابا کا جہاز تھا۔اور ابھی تک اس کا پتہ نہیں۔تم جھوٹ کہتے ہو تم نے ان کا جہاز غرق کرچکے ہو۔“
گنگو نے جواب دیا۔”اگر میں اس جہاز کو غرق کرچکا ہوتا۔تو مجھے آپ کے سامنے اس کا ذکر کرنے کی ضرورت نا تھی۔“
”اس جہاز پر ہاتھی بھی تھے؟“
”ہاں!“
تمہیں اس کے مطلق یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں غرق ہوا ہے؟“
”نہیں مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ جہاز دیبل تک صحیح سلامت پہنچ گیا تھا۔“
زبیر نے پوچھا۔”اس سمندر میں تمہارے سوا لٹیروں کا کوئی اور گروہ بھی ہے؟“
”ہاں!“
”کیا یہ ممکن ہے دیبل کے حاکم نے وہ جہاز لوٹ لیا ہو؟“
”ہاں!میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ خشکی کے ڈاکو سمندر کے لٹیروں سے زیادہ خطرناک ہیں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر30)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر30)
اس گفتگو کے بعد گنگو کے ساتھ زبیر کی دلچسپی بڑھ گئی۔جےرام عجیب کشمکش میں مبتلا تھا۔گنگو کی سرگشت نے زبیر کی طرح اسے بھی متاثر کیا لیکن ایک وفادار سپاہی کی طرح وہ راجہ کو نکتاچینی سے بلند سمجھتا تھا۔وہ رعایا کے کسی فرد کا یہ حق تسلیم کرنے کے لیے تیار ناتھا کہ وہ کسی ذاتی رنجش کی بنا پر راجہ کے خلاف اعلانِ جنگ کردیے۔وہ راجووں کی تقدیس کے مقابلے میں رعایا کی کمتری کا قائل تھا۔تاہم جب زبیر نے گنگو سے پرامن رہنے کا وعدہ لےکراس کی زنجیریں کھلوا دیں تو اس نے مزاحمت نا کی۔
چند دن زبیر کی صحبت میں رھ کہ گنگو نے اپنے خیالات میں عجیب تبدیلی محسوس کی۔زبیر نے چند ملاقاتوں میں روم اور ایران کے خلاف مسلمانوں کی ابتدائی جنگوں کا ذکرکے یہ ثابت کردیاتھا کہ دنیا میں صرف اسلام ہی ایسا نظام پیش کرتا ہے جو جبرواستبداد کی حکومتوں کا خاتمہ کرسکتا ہے۔گنگو ایک ڈاکو کی زندگی اختیار کرکے سماج کے تمام مذہبی عقاید سے کنارہ کش ہوچکا تھا۔اس کے لیے دنیا ایک وسیع جھیل تھی، جس میں چھوٹی مچھلیاں بڑی مچھلیوں کو نگلتی ہیں، وہ خود کو ایک چھوٹی مچھلی سمجھ کے ہر بڑی مچھلی کے ساتھ جنگ کے لیے تیار تھا۔مسلمانوں کے ساتھ اس کی ہمدردی کی پہلی وجہ یہ تھی کہ وہ روحِ زمین پر بڑی مچھلیون کے خلاف برسرِپیکار تھے۔
ایک دن زبیر نے اسے سمجھایا کہ ”تم ظلم کے خلاف جنگ کرنا چاہتے ہو لیکن تمہارا ہتھیار دشمن کے ہتھیار سے مختلف نہیں۔انھوں نے تمہاری کشتی جلائی تھی اور تم ان کے جہاز جلاتے ہو دونوں کا اصول ظلم ہے۔جس طرح کئی بےگناہ ان کے ظلم کا شکار ہوتے ہیں اسی طرح کئی بےگناہ تمہارے ظلم کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ تم خود تسلیم کرچکے ہوکہ تم دونوں میں کوئی فرق نہیں۔تم دونوں میں سے کسی کے پاس عدل و انصاف اور امن کا قانون نہیں۔ اور جب تک تم دونوں میں سے ایک کے پاس یہ قانون نہیں تم دونوں کی تلواریں ٹکراتی رہیں گی۔ ایک تلوار کند ہوگی تو تم دوسری اٹھا لوگے اور ایک کمان ٹوٹے گی تو تم دوسری بنا لو گے۔ لیکن ظلم کے مقابلے میں حق و انصاف کے لیے لڑنے والے انسان اپنے حریف کی تلوار کند ہی نہیں کرتے بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے چھین لیتے ہیں۔ایران و روم پر عربوں کی فتح دراصل نظامِ باطل پر نظامِ حق کی فتح تھی۔ایران مصر اور شام کے وہ لوگ جو کل تک حق پرستوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے، آج افریقہ اور ترکستان سے ظلم کی طاقتوں کو مٹانے کے لیے ہمارے دوش بدوش لڑرہے ہیں۔“
گنگو نے متاثر ہوکر پوچھا۔”کیا میں بھی آپ کا ساتھ دے سکتا ہوں؟“
زبیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”ایک ڈاکو کی حثیت سے نہیں۔ہمارا کام بھٹکے ہوئے قافلوں کو لوٹنا نہیں انھیں سلامتی کا راستہ دیکھانا ہے وہ انسان جو خود ایک غلط مسلک پر کاربند ہو، ایک صحیح اصول کا علمبردار نہیں ہوسکتا۔“
گنگو نے نادم سا ہوکر کہا۔”اگر میں آپ کو یقین دلاوں کے میں ایک لٹیرے کی زندگی سے توبہ کرچکا ہوں تو کیا آپ میرا یقین کرلیں گے؟“
”میں خوشی سے تم پر اعتبار کروں گا۔“
”اور آپ مجھے آزاد بھی کردیں گے؟“
زبیر نے جواب دیا۔”اگر تم توبہ کے لیے یہ شرط پیش کرو، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم اس لیے توبہ نہیں کررہے کہ تم اپنے افعال پر نادم ہو اور اپنی اصلاح کرنے چاہتے ہو بلکہ اس لیے کہ تم آزاد ہونا چاہتے ہو۔“
”لیکن میری توبہ سے آپ یہ خیال تو نہیں کریں گے کہ میں بزدل ہوں؟“
”نہیں۔ توبہ کرنا بہت بڑی جرات کا کام ہے۔“
”تو میں آپ سے ایک ڈاکو کا پیشہ ترک کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔“
”مجھے تم پہ یقین ہے اور اگر تم اپنے ساتھیوں کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہوتو میں تم سب کو آزاد کردوں گا، اور جس جگہ کہو گے اتاردوں گا۔“
گنگو نے کہا۔”میرے ساتھیوں نے صرف میری وجہ سے یہ پیشہ اختیار کیا تھا۔ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو میری راہنمائی کے بغیر ایسی جرات نہیں کرسکتے اور اگر آپ انھیں سندھ کے کسی غیرآباد حصے پر اتار دیں تو پھر سے ماہی گیری کا پیشہ اختیار کرلیں گے۔وہ مدت سے میرے ساتھ ہیں اور انھیں پہچانے گا بھی کوئی نہیں لیکن ان میں چار آدمی خودسر ہیں۔ان کے متعلق میں آپ کو یقین نہیں دلاسکتا۔مجھے خود اپنے اوپر اعتبار نہیں اگر آپ نے مجھے آزاد کردیا تو ممکن ہے کہ کسی ظالم سرادر کو دیکھ کر میں صبر نا کرسکوں اور پھر اسی ظلم پر اتر آوں۔اگر آپ مجھے اپنے ساتھ لیں چلیں تو ممکن ہے کہ آپ کے ملک میں رھ کے میں بھی آپ جیسا انسان بن جاوں۔وہ چار آدمی جن کا میں نے ذکر کیا ہے میری طرح اس جہاز پر ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ آپ کی باتیں انھیں بھی متاثر کرتی اگر آپ اجازت دیں تو میں آپنے ساتھیوں سے مل لوں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر31)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر31)
اگلےدن جہاز ایک ڈاپو کے کنارے لنگراندز ہوئے۔زبیر گنگو کو ساتھ لےکر دلیپ سنگھ کے جہاز پرچلاگیا۔گنگو نے اپنے ساتھیوں کے سامنے سندھی زبان میں مختصر تقریر کی۔رہائی کا مثدہ سن کے قیدیوں کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے لیکن جب زبیر نے یہ بتایا کہ وہ لوٹ مار سے توبہ کرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے ان کا ساتھ چھوڑ چکا ہے تو بعضوں کی خوشی غم میں تبدیل ہوگئی۔ گنگو نے یکے بعد دیگرے سب سے قسمیں لیں لیکن تین آدمی جن میں سے ایک وہ بھی تھاجس کے آدھے سر اور داڑھی اور مونچھوں پر دلیپ سنگھ کے ساتھی اپنے استروں کی دھاڑ کی آزمائش کرچکے تھے۔مذبذب ہوکر ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
گنگو نے ان سے مخاطب ہوکرکہا۔”کالو، داسو اور موتی، تم کچھ عرصہ میرے ساتھ رہو گے۔“
اس کے بعد اس نے زبیر سے مخاطب ہوکر کہا۔”میں ان کے پرامن رہنے کی ضمانت دیتا ہوں۔“ زبیر نے دلیپ سنگھ سے چند باتیں کرنے کے بعد ملاحوں کو قیدیوں کی زنجیریں کھولنے کا حکم دیا۔
کالو،داسو،موتی اور گنگو زبیر کے ساتھ دوسرے جہاز میں چلے گئے۔ داسو کا عجیب و غریب حلیہ دیکھ کر تمام عرب اس کے گرد جمع ہوگئے۔علی نے بےاختیار ایک قہقہہ لگایا اور عورتوں تک یہ خبر پہنچانے کے لیے بھاگا اور جب واپس آیا تو اس کے ساتھ ہاشم کے علاوہ چند اور بچے بھی تھے۔تمام لوگ حیران ہوکر اسے دیکھنے لگے، ہاشم نے اگے بڑھ کے معصومانہ انداز میں پوچھا۔”تمہارے چہرے کے بائیں طرف بال نہیں اگتے؟“
تمام عرب ہنس پڑے۔علی کا قہقہہ سب سے بلند تھا۔گنگو نے ہنستے ہوئے ہاشم کو گود میں اٹھا لیا۔
شام کے وقت خالد نے زبیر سے کہا۔”ناہید کا خیال ہے کہ گنگو کو ابا حضور کے جہاز کا ضرور علم ہوگا۔وہ بذاتِ خود گنگو سے چند سوالات پوچھنے پر اصرار کررہی ہے۔“
زبیر نے کہا۔”میرے خیال میں ہمیں گنگو کے باتوں پر اعتبار کرنا چاہیے۔“
خالد نے کہا۔”لیکن ناہید یہ کہتی ہے کہ اگر اسے علم نا بھی ہوا تو بھی وہ ڈھونڈنے میں ہماری مدد کرسکتا ہے۔کل انھیں کوئی خواب نظر آیا تھا اور وہ کہتی ہے کہ اباجان زندہ ہیں۔“
”پوچھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن بہتر یہ ہے ہے کہ وہ گنگو پر کوئی شک و شبہ ظاہر نا کریں۔جاو اپنی بہن کو بلا لاو۔میں گنگو کو بلاتا ہوں۔“
دلیپ سنگھ نے گنگو کو بلا لیا اور ناہید کے ساتھ مایا دیوی بھی آگئی۔ناہید کے چہرے پر سیاہ نقاب تھا۔اس نے مایا دیوی کے کان میں کچھ کہا، اور مایادیوی کے اثبات میں سر ہلانے پر اپنا ہار اتار کر اس کے ہاتھ میں دےدیا۔
مایا دیوی نے ہار گنگو کے ہاتھ میں دے کرکہا۔”آپ نے چنددن قبل ان کے باپ کے جہاز کا ذکرکیا تھا۔اگر اپ ان کے باپ کا پتہ لگا سکیں تو یہ آپ کا انعام ہے۔“
گنگو نے رنج و ندامت سے آبدیدہ ہوکریکے بعددیگرے خالد اور زبیر کی طرف دیکھا اور پھر ناہید سے مخاطب ہوکرکہا۔”بیٹی میں اتناگرا ہوا تو نا تھا!“
ناہید نے اس کے آنسووں سے متاثر ہوکر کہا۔”آپ کو غلط فہمی ہوئی۔مجھے آپ پر شک نہیں میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ آپ ہماری مدد کریں۔“
”اس کے لیے مجھے ہار دینے کی ضرورت نا تھی۔میں زبیر کے احسان کا بدلہ نہیں اتار سکتا۔اگر کوئی لٹیرا اس جہاز کو لوٹتا تو مجھے ضرور معلوم ہوجاتا لیکن مجھے شک ہے کہ وہ جہاز دیبل کی بندرگاہ کے آس پاس شہر کے حاکم نے لوٹا ہے۔“
ناہید نے کہا۔”میرا دل گواہی دیتا ہے کہ میرا باپ زندہ ہے۔“
گنگو نے جواب دیا۔”اگر وہ زندہ ہے تو سندھ کے کسی قیدخانے میں ہوگا۔ جہاں سے لوگ موت سے پہلے نہیں نکلتے لیکن میں ان کا سراغ لگانے کی ذمہ داری لیتا ہوں۔اگر ان کا پتہ مل گیا تو میں مکران کے حاکم کے پاس اطلاح بھیج دوں گا۔“
یہ کہہ کروہ زبیر سے مخاطب ہوا۔”آپ مجھے دیبل کے آس پاس اتار دیں اور جےرام اگر میری مدد کرے تو میں بہت جلد ان کا پتہ لگا سکوں گا۔“
مایا دیوی نے کہا۔”میں اپنے بھائی کی طرف سے تمہاری مدد کا وعدہ کرتی ہوں۔دیبل کا حاکم ان کا دوست ہے اور وہ ان سے کوئی بات نہیں چھپائے گا۔“
گنگو نے کہا۔”حاکم کسی کے دوست نہیں ہوتے اور دیبل کے حاکم کو تو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔“یہ کہہ کر وہ زبیر سے مخاطب ہوا۔”آپ دیبل کی بندرگاہ پر ٹھہرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟“
زبیر نے جواب دیا۔”میرا تو ارادہ نا تھا لیکن جےرام کے مجبور کرنے پر میں ایک دو دن کا ارادہ کرچکا ہوں۔“
گنگو نے کچھ سوچ کرجواب دیا۔”مجھے معلوم نہیں کے سندھ کے راجہ اور دیبل کے حاکم پر جےرام کا کتنا اثر ہے۔ورنہ میں آپ کو سندھ کے ساحل پر اترنے کا مشورہ نا دیتا۔“
زبیر نے جواب دیا۔”ہمارے ساتھ سندھ والوں کے تعلقات اتنے برے نہیں پچھلے دنوں ابوالحسن کے متعلق پوچھنے کے لیے والئی مکران وہاں گیا تھا راجہ اس کے ساتھ غرور سے ضرور پیش آیا۔لیکن اس کے ساتھ دست درازی نہیں کی۔“
گنگو نے جواب دیا۔”اس کا جہاز خالی ہوگا۔ لیکن آپ کے جہاز میں ہاتھی ہیں اور وہ اپنی فوجی طاقت بڑھانے کے لیے ہاتھیوں کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔اس کے علاوہ آپ کے ساتھ عورتیں ہیں جن کے لیے اس کے دل میں کوئی عزت نہیں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر32)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر32)
گنگو، قالو،داسو اور موتی کے علاوہ باقی تمام قیدی دیبل سے چند کوس دور ایک غیر آباد مقام پر اتار دیے گئے۔گنگو،ابوالحسن کا سراغ لگانے کا بیڑہ اٹھا چکا تھا،اس لیے اس نے ایک گجراتی تاجر کے بھیس اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ دیبل کی بندرگاہ پر اترنے کا فیصلہ کیا۔جےرام اس مہم میں گنگو کی مدد کرنے کا وعدہ کرچکا تھا۔تاہم اس نے زبیر کو بار بار یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ حکومت سندھ ایسا نہیں کرسکتی اگر ابوالحسن کا جہاز دیبل کے آس پاس لوٹا گیا ہے تو دیبل کے حاکم اور راجہ کو اس کی خبر نہیں ہوگی۔
زبیر نے جواب دیا۔"مجھے خود یہ شبہ نہیں۔لیکن میں ناہید کے شبہات دور کرنا چاہتا ہوں۔"
شام سے کچھ دیر پہلے یہ جہاز دیبل کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوئے، مایا دیوی نے تمام عرب عورتوں کو اپنے گھر لےجانے پر اصرار کیا۔جےرام نے تمام ملاحوں کو دعوت دی۔لیکن گنگو نے دلیپ سنگھ کے کان میں کچھ کہا،اور اس نے جےرام کو مشورہ دیا۔”آپ کئی ماہ کے بعد دیبل وآپس جارہے ہیں۔ممکن ہے آپ کی جائے قیام پر کسی اور کا قبضہ ہو ممکن ہے دیبل کا حاکم انھیں شہر میں جانے کی اجازت دینے میں کوئی عزر پیش کرے۔“
جےرام نے جواب دیا۔”اسے کیا عزر ہوسکتا ہے۔وہ خود آپ کا میزبان بننے پر اصرار کرے گا۔اگر آپ میری مدد نا کرتے تو کاٹھیاوار کے بیش قیمت تحائف راجہ تک نا پہنچ سکتے۔اب تو راجہ پر بھی آپ کا حق ہے۔“
زبیر نے جواب دیا۔”آپ شہر کے گورنر سے مل آئیں۔پھر ہمیں آپ کے ساتھ چلنے میں کوئی اعتراض نا ہوگا۔“
مایا دیوی نے کہا۔”بھیا! آپ جائیں۔اگر آپ کے مکان پر کوئی اور قابض ہوا تو یہ بری بات ہوگی۔آپ مہمانوں کو ٹھہرانےکا انتظام کرآئیں۔میں اتنی دیر بہن ناہید کے پاس ٹھہروں گی۔“
جےرام نے بندرگاہ سے ایک ملازم کو بلاکر اسے تحائف اٹھانے کا حکم دیااور سیدھا دیبل کے گورنر پرتاپ رائے کے محل چلا گیا۔پرتاپ رائے نے کاٹھیاوار کے تحائف کے ذکر کے سوا باقی سرگزشت بےتوجہی سے سنی لیکن جب اس نے یہ بتایا کہ اسے ڈاکووں سے بچا کر یہاں پہنچانے والے سراندیپ کے جہاز ہیں تو اس نے چونک کر سوال کیا۔”کیا یہ جہاز وہی تو نہیں جن پر سراندیپ کے راجہ نے عربوں کو ہاتھی بھیجے ہیں؟“
”ہاں! لیکن آپ کو کیسے معلوم؟“
”یہ بعد میں بتاوں گا۔پہلے میرے سوال کا جواب دو۔اس میں عرب عورتیں اور بچے بھی ہیں؟“
”ہاں!“
”یہ جہاز بحری ڈاکوووں کے دو جہاز ڈبو چکے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اچھی طرح مسلح ہیں۔وہ بندرگاہ سے روانہ تو نہیں ہوگئے؟“
”نہیں! میں مسافروں کو اپنے پاس ایک دو دن مہمان رکھنا چاہتا ہوں۔انھوں نے مجھ پر بہت احسان کیے ہیں۔میں آپ سے یہ پوچھنے آیا تھا کہ ان کے شہر میں ٹھہرنے پر آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟“
”اعتراض! نہیں۔وہ باقی تمام عمر ہمارے مہمان رہیں گے۔میں مہاراج سے ان کے جہاز لوٹنے اور انھیں گرفتار کرنے کی اجازت لے چکا ہوں۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر33)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر33)
اگر اس محل پر بجلی گرتی تو بھی شاید جےرام اس قدر بدحواس نا ہوتا وہ ایک لمحہ کے لیے ایک بےجان مجسمے کی طرح بےحس و حرکت کھڑا رہا۔بالآخر اس نے سنبھل کر کہا۔”آپ مذاق کرتے ہیں؟“
پرتاپ رائے نے ذرا سخت لہجے میں جواب دیا۔”میں بچوں کے ساتھ مذاق کرنے کا عادی نہیں۔ہمیں سندھی تاجروں سے ان جہازوں کی آمد کی اطلاح مل گئی تھی اور مہاراح کا حکم یہی ہے کہ ان جہازوں کو چھین لیا جائے۔مہاراح تحائف کا یہ صندوق دیکھنے سے زیادہ اس بات سے زیادہ خوش ہوں گے کہ آپ مال و متاع سے بھرے ہوئے دو جہاز یہاں لے آئے ہیں۔“
جےرام نے چلا کرکہا۔”نہیں! یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔وہ میرے مہمان ہیں۔وہ میرے دوست اور محسن ہیں۔“
پرتاپ رائے نے ڈانٹ کرکہا۔”ہوش سے بات کرو۔تمہیں معلوم نہیں تم کہاں کھڑے ہو؟“
جےرام نے کہا۔”یہ انسانیت کے خلاف ہے۔تم ایک ایسی قوم کی دشمنی مول لو گے جو سندھ جیسی کئی سلطنتیں پاوں کے نیچے روند چکی ہیں۔مہاراج کو اس قسم کا مشورہ دینے والے نے اچھا نہیں کیا۔میں جاتا ہوں۔مہمان کی رکھشا ایک راجپوت کا دھرم ہے۔“
”راجہ کے باغی ہوکر تم کہیں نہیں جاسکتے۔“ یہ کہتے ہوئے پرتاپ رائے نے پہرے داروں کو آواز دی اور آن کی آن میں چار چار سپاہیوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ اس کے گرد گھیرا ڈال لیا۔“
جےرام کو اپنی تلوار بےنیام کرنے کا موقع نا ملا۔پرتاپ رائے نےکہا۔”تمہیں کچھ دیر میری قید میں رہنا ہوگا۔بندرگاہ سے وآپس آکر میں تمہیں آزاد کردوں گا۔کل تمہیں مہاراج کے پاس روانہ کردیا جائے گا۔اگر تم اپنے مہمانوں کی جان بخشی کروا سکو، تو میں انھیں رہا کردوں گا۔لیکن تمہاری خوشی کے لیے میں راجہ کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتا۔“
سپاہیوں نے جےرام کو محل کی ایک کوٹھی میں بند کردیا۔جےرام دروازوں کو دھکے دینے، دیواروں سے سر پٹخنے اور شور مچانے کے بعد خاموش ہوکر بیٹھ گیا۔اسے اپنی بہن کا خیال آیا اور پھر اٹھ کر دروازے سے ٹکریں مارنے لگا۔اس نے تلوار نکالی لیکن مضبوط کواڑ پر چند ضربیں لگانے سے وہ ٹوٹ گئی۔اس نے ٹوٹی ہوئی تلوار کا پھل اٹھا کراپنے سینے میں گھونپے کا ارادہ کیا لیکن کسی خیال نے اس کا ہاتھ روک لیا وہ اٹھ کر بیقراری سے کوٹھری میں ٹہلنے لگا۔پھر اسے ایک خیال آیا اور وہ پہرے داروں کو آوازیں دینے لگا۔انھیں طرح طرح کے لالچ دیے لیکن کسی نے اس کے حال پر توجہ نا دی۔اس نے راجہ کے پاس شکایتیں کرنے کی دھمکیاں دیں، لیکن جواب میں پہرے داروں کے قہقہے سنائی دیے۔
جےرام کے شہر جانے سے کچھ دیر بعد گنگو اور اس کے ساتھی شام کے دھندلکے میں زبیر سے رخصت ہوکر شہر کی طرف روانہ ہوئے۔شہر میں داخل ہوتے ہی انھیں پندرہ بیس سوار اور ان کے پیچھے قریباً دوسو پیدل سوار بندرگاہ کا رخ کرتے ہوئے دیکھائی دیے۔گنگو کا ماتھا ٹھنکا اور وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک طرف ہوکرکھڑا ہوگیا۔سوار اور پیدل گزر گئے تو گنگو نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔”شہرکا سردار مسلح آدمی لےکر بندرگاہ کی طرف جارہا ہے۔ان کی رفتار سے لگ رہا ہے ان کی نیت ٹھیک نہیں۔ہمیں وآپس چلنا چاہیے۔“
کالو نے کہا۔”اگر وہ واقعی کسی بری نیت سے جارہے ہیں تو ہم لوٹ کرکیا کرسکتے ہیں انھیں تو جہازوں کے لنگر اٹھانے اور بادبان اٹھانے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ہمیں اپنی فکرکرنی چاہیے۔“
گنگو نے کہا۔”اگر تم میرا ساتھ چھوڑنا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی۔لیکن میں ضرور جاوں گا اور داسو اور موتی تم بھی جانا چاہو تو جا سکتے ہو۔“
ان دونوں نے یک زبان ہوکرکہا۔”نہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔“
کالو نادم سا ہوکر بولا۔”میں بھی آپ کے ساتھ ہوں۔لیکن ہم کیا کرسکتے ہیں؟“
گنگو نے کہا۔”یہ ہم وہاں جا کے دیکھیں گے۔“
موتی نے کہا۔”معلوم ہوتا ہے کہ جےرام نے اپنے محسنوں کو دھوکا دیا ہے۔“
گنگو نے جواب دیا۔”ہوسکتا ہے لیکن اگر اس کی نیت بری ہوتی تو وہ اپنی بہن کو وہاں کیون چھوڑجاتا۔“
داسو نے کہا۔”یہ سمجھنا مشکل نہیں۔وہ اپنی بہن کو اس لیے ان کے پاس چھوڑ گیا تھا کہ وہ اس کے جانے بعد بندرگاہ پر ٹھہرنے کا ارادہ تبدیل نا کردیں۔میرا خیال ہے کہ وہ لڑکی بھی اس سازش میں شریک تھی۔دیکھنے میں وہ کتنی بھولی بھالی ہےوہ جہاز پر اس عرب عورت کو اپنی بہن کہا کرتی تھی۔“
گنگو نے کہا۔”اور جےرام خالد کو چھوٹا بھائی کہا کرتا تھا اور جب زبیر بیمار تھا۔وہ دن رات اس کے پاس بیٹھا رہتا تھا۔جھوٹا، مکار، دغاباز! کاش وہ میرے ہاتھ پڑ جائے لیکن وہ لڑکی___کالو وہ ہمارے ہاتھ سے ناجائے اسے پکڑ کر ہم بہت سے کام نکال سکتے ہیں۔چلو جلدی کرو۔یہ باتوں کا وقت نہیں۔“
گنگو اور اس کے ساتھی پوری رفتار سے بندرگاہ کی طرف بھاگنے لگے۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر34)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر34)
عرب ملاح جہاز پر نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعد دعا کررہے تھے کہ دلیپ سنگھ نے اپنے جہاز سے ان کے جہاز پر پہنچ کر انھیں بندرگاہ کی طرف متوجہ کیا۔زبیر اور اس کے ساتھ ساحل پر مسلح سپاہی دیکھ کر بہت پریشان ہوئے۔چار آدمی ایک کشتی پر سوار ہو کر جہاز پر پہنچے اور ان میں سے ایک نے سندھی زبان میں کہا۔”دیبل کے حاکم سردار پرتاپ رائے آپ لوگوں کو خوش آمدید کہتے ہیں، وہ ان جہازوں کے آفسروں سے ملنا چاہتے ہیں۔“
دلیپ سنگھ نے پرتاپ رائے کے پیام رساں سے پوچھا۔”لیکن جےرام کہاں ہے؟“
اس نے جواب دیا۔”وہ مہاراج پرتاپ رائے سے مل کر آپ لوگوں کی دعوت کا انتظام کرنے کے لیے اپنی قیام گاہ پر چلے گئے ہیں۔مہاراج خود آپ کا استقبال کرنے کے لیے آئے ہیں۔“
دلیپ سنگھ نے زبیر سے عربی میں کہا۔”یہ ضرور کوئی فریب ہے لیکن ہمارے لیے جانے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔“
زبیر نے جواب دیا۔”میں خود حیران ہوں کے دیبل کا حکمران اتنے سپاہی ساتھ لے کر کیوں آیا ہے لیکن مجھے جےرام سے فریب کی توقع نہیں۔اس کی بہن اس جہاز پر ہے۔“
ایلچی نے پھر پوچھا۔”میں مہاراج کے پاس کیا جواب لےجاوں؟“
زبیر نے کہا۔”ہم تمہارے ساتھ چلتے ہیں۔“
زبیر اور دلیپ سنگھ کشتی میں سوار ہوکر ساحل پر پہنچے۔دلیپ سنگھ پرتاپ رائے کے سامنے جھک کر آداب بجالا، لیکن زبیر کی گردن میں خم نا آنے پر پرتاپ رائے نےکہا۔”تو تم عرب کے باشندے ہو۔تم میں سے کسی کو بڑوں کا ادب کرنا نہیں آتا؟“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”ان کے مذہب میں انسانوں کے سامنے جھکنا پاپ ہے۔“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”ہمارے پاس رھ کر اسے انسانوں کے سامنے جھکنا بھی آجائے گا۔“
دلیپ سنگھ نے پوچھا۔”آپ کا مطلب؟“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”کچھ نہیں۔تمہارے جہازوں پر کیا ہے؟“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”جےرام نے آپ کو سب کچھ بتا دیا ہوگا۔آپ ہم سے کیوں پوچھتے ہو؟“
”جےرام نے کچھ بتایا ہے۔اگر وہ صحیح ہے تو یہ جہاز یہاں سے نہیں جاسکتے۔“
”جہاز یہاں سے نہیں جاسکتے۔وہ کیوں؟“
”یہ راجہ کا حکم ہے۔“
دلیپ سنگھ نے چاروں طرف دیکھا،زبیر اور اس کے گرد مسلح سپاہیوں کا گھیرا تنگ ہوچکا تھا۔اس نے عربی زبان میں زبیر کو صورتِ حال سے آگاہ کیا اور زبیر کے سمجھانے پر وہ پرتاپ رائے سے مخاطب ہوا: ”یہ سندھ کے نادار ملاحوں کی کشتیاں نہیں جن پر آپ دست درازی کرسکیں، یہ عربوں کے جہاز ہیں۔ان پر اس قوم کی بیٹیاں سوار ہیں جو سرکشوں اور باغیوں کے مقابلے میں آندھی کی طرح اٹھتی ہے اور بادل کی طرح چھاجاتی ہے اور جو آسمان سے بجلیاں گرتی دیکھ کر نہیں ڈرتے، وہ ان کی تلوار دیکھ کر نہیں ڈرتے۔“
پرتاپ رائے نے غضب ناک ہوکر تلوار نکال لی۔دلیپ سنگھ اور زبیر نے تلواریں کھنچنے کی کوشش کی لیکن کئی ننگیں تلواروں اور چمکتے ہوئے نیزوں نے ان کے ہاتھ روک لیے۔پرتاپ رائے نے کہا۔”تم سندھی معلوم ہوتے ہو لیکن تمہاری رگوں میں کسی بزدل غدار اور کمینے آدمی کا خون ہے۔“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”دنیا میں سب سے بڑی غداری اور کمینگی اپنے مہمان کو دھوکہ دینا ہے اور مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ تم۔۔۔۔۔۔۔۔“
دلیپ سنگھ کا فقرہ پورا نا ہوا تھا کہ پرتاپ رائے کی تلوار کی نوک اس کے سینے میں اتر گئی اور وہ تیورا کر زمین پر گرپڑا۔زبیر نے جھک کر اسے ہاتھوں کا سہارا دیا۔اس نے ایک جھرجھری لےکر زبیر کی طرف دیکھا اور کہا۔”زبیر! تمہارے ساتھ میرا سفر مکمل ہوا۔میں دل پر ایک بھاری بوجھ لےکر جارہا ہوں۔میں جہالت کی گود میں پلا۔ابوالحسن نے مجھے انسان بنایا اور تم نے میرے دل میں اسلام کے لیے تڑپ پیدا کی لیکن نامعلوم میں اب تک کیوں اپنے ضمیر کی آواز بلند کرنے سے جھجھکتا رہا۔میں لوگوں کی نظروں سے چھپ کر نمازیں پڑھ چکا ہوں۔روزے رکھ چکا ہوں۔لیکن اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرنے سے جھجھکتا رہا،اب میں ارادہ کررہا تھا کہ بصرہ پہنچ کر مسلمان ہونے کا اعلان کروں، لیکن خدا کو یہ منظور نا تھا۔مجھے ناہید کا افسوس ہے۔خدا اسے بےرحم دشمن کے ہاتھوں سے بچائےمیرے دوست! مجھے۔۔۔۔۔بھول نا جانا! میرے لیے دعا کرنا!!“
دلیپ سنگھ نے پھر ایک جھرجھری لےکر آنکھیں بند کرلیں۔چند بارکلمہ توحید دہرایا۔اس کی آواز بدھم اور خفیف ہوتی گئی۔ہونٹ کپکپائے،بھنچے اور ایک دوسرے سے علیحدہ ہوگئے۔بصرہ کے مسافر کی پتھرائی ہوئی آنکھیں کسی ایسی منزل کو دیکھ رہی تھیں جس کے مسافر وآپس نہیں آتے۔دلیپ سنگھ دائمی نیند کی گود میں جاچکا تھا۔زبیر نے اناللہ واناالیہ راجعون کہا اور دلیپ سنگھ کا سر زمین پر رکھ کر حقارت سے پرتاپ رائے کی طرف دیکھنے لگا۔
سپاہی کشتیوں پر سوار ہوکر تیر برساتے ہوئے جہازوں کا رخ کررہے تھے اور جہازوں سے تیروں کا جواب تیروں میں آرہا تھا۔زبیر کے لیے فرار کی تمام راہیں بند تھیں۔پرتاپ رائے کے اشارے سے آٹھ دس سپاہی اس پر پل پڑے اور اسے رسیوں سے جکڑ کر زمین پر ڈال دیا۔زبیر حسرت سے اپنے جہازوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر35)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر35)
جہاز پر ناہید کے علاوہ دوسری عرب عورتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ لڑرہی تھیں۔ہاشم دیر تک دوسرے بچوں کے ساتھ ایک کونے میں چھپ کرنا بیٹھ سکا۔وہ اوپر آکر خالد کے قریب کھڑا ہوگیا اور پوچھنے لگا۔”ہمیں کتنی بات بحری ڈاکووں سے مقابلہ کرنا پڑے گا؟“
خالد نے کمان میں تیر چڑھاتے ہوئے مڑ کر دیکھا۔ہاشم کے قریب مایا دیوی حیران و ششدر کھڑی تھی۔اس نے کہا۔”مایا دیوی تم ہاشم کو نیچے لے جاو۔“مایا دیوی ہاشم کو اٹھانے لگی تو ایک سنسناتا ہوا تیر آیا اور ہاشم کے سینے میں پیوست ہو گیا۔مایا دیوی نے بھاگ کر اسے ایک کونے میں لٹا دیا اور تیر نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔ہاشم ایک ہلکی سے آہ اور معمولی سی کپکپاہٹ کے بعد ٹھنڈا ہوگیا مایا دیوی سسکیاں لیتی ہوئی اٹھی۔لیکن پیچھے سے ایک مضبوط ہاتھ کی گرفت میں بےبس ہوکر رھ گئی۔
”کون؟ گنگو!“ اس نے چاند کی دھیمی روشنی میں آنکھیں پھاڑ کردیکھتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں۔میں ہوں۔کالو اٹھا لو اسے اور اگر شور کرے تو گلا گھونٹ دینا۔“
کالو مایا دیوی کو اٹھا کر جہاز کی پچھلی طرف رسی کی ایک سیڑھی سے اتر کر کشتی پر سوار ہوگیا۔گنگو نے اگے بھر کے خالد کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”اب مقابلہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ان کی تعداد ہم سے بہت زیادہ ہے اور عقب سے بھی دوجہاز ہم پر حملہ کرے کے لیے آرہے ہیں۔میری کشتی جہاز کے پیچھے کھڑی ہے۔میں تمہیں اور ناہید کو بچا سکتا ہوں۔“
خالد نے بےپروائی سے جواب دیا۔”ہم اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔“
”لیکن تم نہیں جانتے وہ لوگ تمہاری بہن کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔“
”لیکن میں جہاز کی تمام عورتوں کو اپنی بہنیں سمجھتا ہوں، اب جےرام کی دغابازی سے مجھے کسی پر اعتبار نہیں رہا۔“
ایک تیر ناہید کو لگا اور وہ پسلی پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی۔خالد نے اگے بڑھ کر اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن اس نے کہا۔”میں ٹھیک ہوں۔خالد! تم میری فکر نا کرو۔“
خالد نے اس کے اصرار کے باوجود اسے اٹھا کر ہاشم کے قریب بیٹھا دیا۔ہاشم کی لاش دیکھ کر ناہید کو اپنا زخم بھول گیا۔اس نے ہاشم کو جھنجوڑا، آوازیں دیں اور انتہائی کرب کی حالت میں بولی۔”ہاشم تم اوپر کیوں آئے؟“
گنگو نے بےخبری کے عالم میں باہید کی پسلیوں سے تیر نکال کر پھینک دیا اور داسو سے کہا۔”اسے اٹھا لو۔“
داسو ناہید کو اٹھانے کے لیے جھکا لیکن خالد نے اگے بڑھ کر اسے پیچھے دھکیل دیا اور کہا۔”تم جےرام اور یہ سپاہی مختلف راستوں سے آئے تھے لیکن تم سب کا مقصد ایک ہے جاو ہم تمہیں ایک دفعہ معاف کر چکے ہیں۔“
گنگو نے کہا۔”بیٹا! اگر باتوں کے لیے وقت ہوتا تو میں تمہارا شک دور کرنے کی کوشش کرتا، لیکن ہم پر دشمن کا گھیرا تنگ ہورہا ہے اور اگر ہم نے چند لمحے اور ضائع کردیے تو بھاگنے کے تمام راستے بند ہوجائیں گے۔افسوس میں تمہیں سوچنے کی مہلت بھی نہیں دےسکتا۔بیٹی! مجھے معاف کرنا۔“ یہ کہتے ہوئے گنگو نے اچانک ایک چھوٹا ساڈنڈا خالد کے سرپر دے مارا۔ خالد لڑکھڑایا لیکن گنگو نے اٹھا کر اسے کندھے پر رکھ لیا۔داسو نے ناہید کو اٹھا لیا اور گنگو نے داسو سے کہا۔”تم یہ کمانیں اٹھا لو، یہ ہمیں کام دیں گی۔“
حملہ آور کمندیں ڈال کر جہازوں پر سوار ہو رہے تھے اور تیروں کی لڑائی تلواروں کی لڑائی میں تبدیل ہوچکی تھی۔اس ہنگامے میں کسی کو ناہید، خالد اور مایا دیوی کے اغوا کیے جانے کا پتہ نا چلا۔جب تک یہ لوگ کشتی میں سوار ہوئے، چند کشتیاں عقب سے بھی جہازوں کے قریب پہنچ چکی تھیں۔گنگو اور اس کے ساتھیوں نے سندھی زبان میں ہاہو کر کے حملہ آوروں کو شک نا ہونے دیا اور بچتے بچاتے جہازوں سے ایک طرف نکل گئے۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر36)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر36)
گنگو کے کہنے پر مایا دیوی نے اپنا دوپٹہ پھاڑ کر ناہید کے زخم پر پٹی باندھ دی، خالد کو اپنے ساتھ دیکھ کر اب اسے یہ بھی خیال نا تھا کہ وہ کہاں جا رہی ہے۔ گنگو پانی میں کپڑا بھگو بھگو کر خالد کے ماتھے پر رکھ رہا تھا اور مایا دیوی کو وہ شخص جو چند لمحے بیشتر ایک بدترین دشمن کی صورت میں نمودار ہوا تھا ایک غمگسار نظر آرہا تھا۔
کشتی خطرے کی حد سے دور آچکی تھی اور مایا گنگو سے ہم کلام نا ہونے کا ارادہ کرنے کے باوجود ناربار یہ پوچھ رہی تھی۔”اسے زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟ یہ کیسے بہوش ہوا؟“
ناہید انتہائی رنج و ملال کی وجہ سے کسی سے ہم کلام نا ہوئی۔وہ تشویش کی حالت میں اپنے بھائی کی طرف دیکھتی اور جب گنگو یہ کہتا۔”بیٹی تم فکر نا کرو۔تمہارے بھائی کو ابھی ہوش آجائے گا۔میں تمہارا دشمن نہیں۔میں سمندر کے دیوتا کی قسم کھاتا ہوں۔“ تو ناہید خون کے گھونٹ پی کررھ جاتی۔
پھر وہ مایا دیوی سے مخاطب ہوا۔”مایا! تم ایک راجپوت لڑکی ہو۔راجپوت جھوٹی قسمیں نہیں کھاتے میں تم سے پوچھتا ہوں، کیا تمہیں یہ شک تھا کہ تمہارا بھائی انھیں دھوکہ دے گا۔“
”نہیں! نہیں! میرا بھائی ایسا نہیں۔میں بھگوان کی قسم کھاتی ہوں۔“
”اور اگر یہ ثابت ہوگیا تو؟“
”تو میں۔۔۔۔۔۔۔میں کنویں میں چھلانگ لگادوں گی۔آگ میں جل جاوں گی۔اپنا گلا اپنے ہاتھوں سے گھونٹ ڈالوں گی۔بھگوان کے لیے ایسا نا کہو۔“ مایا دیوی کی ہچکیوں نے ناہید کو متاثر کیا اور اس نے کہا۔”مایا! تم ان باتوں کی پروا نا کرو۔ مجھے تم پر یقین ہے۔ اور اگر تمہارے بھائی نے ہمارے ساتھ دھوکا بھی کیا ہو تو اس میں تمہارا کیا قصور؟“
”میں کہتی ہوں میرا بھائی ایسا نہیں۔اس کی رگوں میں راجپوت کا خون ہے اور وہ اتنا احسان فراموش نہیں ہوسکتا۔“
ناہید نے کہا۔”اس وقت ہمارا دشمن وہ ہے جس نے ہمیں زبردستی جہاز سے اتارا ہے اور نامعلوم جگہ پر لےجارہا ہے۔“
گنگو نے کہا۔”بیٹی! کاش میں تمام بچوں اور عورتوں کو ساتھ لاسکتا لیکن اس کشتی پر صرف اتنی سواریوں کی جگہ تھی۔ تم نوجوان ہو اور میں تمہیں ایک بےرحم دشمن کے ہاتھوں سے بچانا چاہتا ہوں اور مایا دیوی! تم شاید باقی سب کو بچا سکو۔میں تمہاری آزادی کے بدلے باقی لوگوں کو آزاد کروانا چاہتا ہوں۔“
خالد نے ہوش میں آکر آنکھیں کھولیں اور حیران ہوکر سب کی طرف دیکھا۔ گذشہ واقعات یاد آتے ہی وہ آتھ کر بیٹھ گیا اور دکھتے سر پر ہاتھ رکھ کربولا۔”ہمارا جہاز کہاں ہے؟ ہم کہا جارہے ہیں؟ گنگو!!! گنگو!!! ظالم دغاباز فریبی! تم نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا؟ وہ کیا کہیں گے۔تم ہمیں کہاں لے جارہے ہو؟“
گنگو نے ٹھنڈے دل سے جواب دیا۔”خالد! یہ میری عمر میں پہلا موقع ہے کہ مجھے کسی کی گالی پر غصہ نہیں آیا۔تم مجھے جوجی میں آئے کہو لیکن میں نے برا نہیں کیا۔میں صرف مایا کو لینے آیا تھا لیکن تمہاری بہن کو زخمی دیکھ کر یہ گوارا نا کرسکا کہ اسے دشمن کے رحم پر چھوڑ دوں۔“
خالد نے حقارت سے مایا دیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”میں اب سمجھا۔جےرام نے ایک طرف ہم پر حملہ کرنے کے لیے سپاہی بھیج دیے اور دوسری طرف سے تمہیں مایا دیوی کو لینے کے لیے بھیج دیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ لٹیروں کے سردار تم نا تھے جےرام تھا۔“
”تم درست کہتے ہو۔میں نےتوبہ کرلی ہے لیکن جےرام نے توبہ نہیں کی۔ممکن ہے وہ اپنی بہن کی خبرسن کر توبہ کرے۔“
”تو تم ہمیں اس کے پاس نہیں لےجارہے۔“
”تم دیکھ سکتے ہو بندرگاہ کس طرف ہے اور ہم کس طرف جارہے ہیں؟“
”تو تم ہمیں کہاں لے جاو گے؟“
”کسی ایسی جگہ جہاں راجہ کے سپاہی نا پہنچ سکیں۔“
خالد نے کہا۔”اگر تمہاری نیت بری نہیں تو ہمیں اپنے ساتھیوں کے پاس چھوڑ آو۔“
گنگو نے کہا۔”تمہارے ساتھی تھوڑی دیر میں دیبل کے قید خانے میں ہوں گے۔تم قید ہونے کی بجائے قید سے باہر رھ کران کی زیادہ مدد کرسکتے ہو۔“
خالد نے قدرے پرامید ہوکر پوچھا۔”تم سچ مچ ان کی مدد کرنا چاہتے ہو؟“
گنگو نے جواب دیا۔”بیٹا مجھے تم سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نا تھی۔اگر میں تمہارا دشمن ہوتا تو یقیناً اس قدر ٹھنڈے دل سے یہ گالیاں نا سنتا۔“
اگلے دن یہ کشتی دریائے سندھ کے دہانے پر پہنچ گئی۔گنگو کو اپنے ساتھی مچھلیاں پکڑتے ہوئے مل گئے۔
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر37)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر37)
__قیدی___
اگلے دن کوٹھڑی کا دروازہ کھلا اور پہرے دار نے ہاتھ جوڑ کر جےرام کو پرنام کیا اور کہا۔” آپ کو سردار پرتاپ رائے بلاتے ہیں۔“
جےرام پہرےدار کے طرزِ عمل میں اس تبدیلی پر حیران تھا۔وہ چپکے سے اس کے ساتھ ہولیا۔پرتاپ رائے اپنے دیوان خانے کے برآمدے میں آبنوس کی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔اس کے سامنے چاندی کے ایک طشت میں سراندیپ کے راجہ کے وہ تحفے پڑے ہوئے تھے، جو گذشتہ شاپ عربوں کے جہاز سے لوٹے گئے تھے۔
اس نے جےرام کو دیکھتے ہی جواہرات کے انبار کی طرف اشارہ کیا اور کہا۔”جےرام! مہاراج سراندیپ کے تحائف دیکھ کر کاٹھیاوار کے راجہ کے تحائف کی نسبت زیادہ خوش ہوں گے۔ان میں سے ایک ایک ہیرا تمہارے صندوق کے سارے مال سے زیادہ قیمتی ہے۔“
جےرام نے اس پر قہر آلود نگاہ ڈالی اور اپنے ہونٹ کاٹنے لگا۔
پرتاپ راہے نےکہا۔”لیکن تمہارا چہرہ زرد اور تمہاری آنکھیں سرخ ہیں۔معلوم ہوتا ہے تم رات بھر نہیں سوئے۔کوٹھڑی میں بہت گرمی تھی۔بندرگاہ سے وآپس آکر مجھے تمہارا خیال نا آیا۔ ورنہ تمہیں اتنی دیر وہاں رکھنے کی ضرورت نا تھی۔میں نے مہاراج کی خدمت میں ایلچی بھیج دیا ہے۔ چنددنوں تک قیدیوں کے متعلق ان کا حکم آجائے گا۔“
جےرام نے کہا۔”تو آپ نے انھیں قید کرلیا ہے؟“
”ہاں! میں نے تمہیں کل بھی کہا تھا کہ یہ راجہ کا حکم ہے۔“
”آپ نے انھیں لڑکر قید کیا یا میزبان بن کر؟“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”تم ابھی بچے ہو۔لڑائی میں سب جائز ہے۔“
”میری بہن کہاں ہے؟“
”کون؟“
”میری بہن۔“
”کہاں تھی؟“
”آپ مجھے بنانے کی کوشش نہ کریں۔ایک راجپوت کی عزت پر ہاتھ ڈالنا اس قدر آسان نہیں جتنا آپ سمجھے ہیں۔میں پہلے آپ کے راجہ کا ملازم تھا اور اب میں کاٹھیاوار کے راجہ کے سفیر کی حثیت سے یہاں آیا ہوں۔اگر آپ نے میری بہن کی طرف آنکھ آٹھا کے بھی دیکھا تو یاد رکھیے میں کاٹھیاوار سے لے کر راجپوتانہ تک آگ کی دیوار کھڑی کردوں گا اور مہاراج اپنے ہزاروں سپاہیوں کی جانیں ضائع کرنے کی بجائے دیبل کے ایک مغرور حاکم کو ہمارے حوالے کردینا زیادہ مناسب سمجھین گے۔ رہے عرب وہ مہمان تھے۔مجھے افسوس ہے وہ میری وجہ سے اس مصیبت میں مبتلا ہوئے۔ممکن ہے کہ ان کے متعلق میری پکار ہندوستان کے کسی گوشے میں نا سنی جائے لیکن ان کے بازو بہت لمبے ہیں۔وہ جب چاہیں گے آپ کا گلا دبوچ لیں گے۔“
پرتاپ رائے کو معلوم تھا کہ بعض اوقات راجہ کے غلط فیصلوں کا خمیازہ اہلکاروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔حاکم خطرے کے وقت اپنا قصور اہلکاروں کے سر تھوپ دیتے ہیں۔عربوں کے متعلق وہ اپنے راجہ کی طرح مطمین تھا لیکن وہ کاٹھیاوار کے سفیر کی بہن کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نا تھا۔اس نے کہا۔”جےرام! مجھے تمہاری بہن کے متعلق کوئی علم نہیں۔“
”آپ جھوٹ کہتے ہیں۔میں اسے جہاز پر عرب عورتوں کے پاس چھوڑ آیا تھا۔“
”عورتیں جو جہاز میں تھیں وہ سب ہماری قید میں ہیں۔اگر تمہاری بہن ان میں ہے تو میں ابھی تمہارے ساتھ چل کر اس سے معافی مانگتا ہوں۔چلو!!!“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر38)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر38)
بہن کو تلاش کرنے کی خواہش جےرام کے تمام ارادوں پر غالب آگئی۔اور وہ پرتاپ رائے کے ساتھ چل دیا۔راستے میں اس نے پوچھا۔”عرب ملاحوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”وہ سب آخری وقت تک لڑتے رہے۔عورتوں اور بچوں کے علاوہ ہم صرف پانچ آدمیوں کو زندہ گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے۔دوسرے جہاز پر سراندیپ کے ملاحوں نے معمولی مزاحمت کی اور جلد ہی ہتھیار ڈال دیے۔“
”تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے بیک وقت سراندیپ اور عربوں کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا ہے۔“
”میں نے صرف راجہ کے احکام کی تعمیل کی ہے اور جب تک اس عہدے پر رہوں گا ایسے احکامات کی تعمیل کرتا رہوں گا۔میرے خط کے جواب میں اگر تمہیں راجہ نے بلا بھیجا اور تم نے ان قیدیوں کو رہا کرنے کی اجازت طلب کرلی، تو مجھے خوشی ہوگی اور میں خوامخواہ کی ذمہ داری سے بچ جاوں گا۔“
محل سے نکل کر چند قدم کے فاصلے پر جےرام اور پرتاپ رائے قید خانے کی چار دیواری میں داخل ہوئے۔پہرے داروں نے پرتاپ رائے کا اشارہ پاکر عربوں کے کمرے کا دروازہ کھولا۔عورتوں نے اپنے چہرے ڈھانپ لیے۔عرب ملاحوں نے جےرام کو دیکھتے ہی منہ پھیر لیے۔زبیر ایک کونے میں دیوار کے سہارے بیٹھا ہوا تھا۔اس نے نفرت اور حقارت سے جےرام کی طرف دیکھا اور منہ اپنے ساتھیوں کی طرف پھیر لیا۔
جےرام نے پرتاپ رائے کی طرف دیکھا اور کہا۔”میری بہن یہاں نہیں ہے۔وہ کہاں ہے؟“
پرتاپ رائے نے ایک پہرے دار کو آواز دے کر بلایا اور اس سے پوچھا۔”کیا تمام عورتیں اسی کمرے میں ہیں یا سراندیپ کے ملاحوں کے کمرے میں بھی کوئی ہے؟“
”نہیں مہاراج! تمام عورتیں یہیں ہیں۔“
جےرام نے بدحواس سا ہوکر جےرام کی طرف دیکھا اور ٹوٹی پھوٹی عربی میں کہا۔”زبیر! میری طرف اس طرح نا دیکھو میں بےقصور ہوں۔ تمہیں معلوم ہے میری بہن کہاں ہے؟“
زبیر کے منہ سے اچانک ایک بھوکے شیر کی گرج سے متلی جلتی آواز نکلی۔”تم میری توقع سے کہیں زیادہ ذلیل ثابت ہوئے ہو۔تم جھوٹ سے حقیقت پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔یادرکھو! ناہید کا بال بھی بیکا ہوا تو خدا کی زمین پر کوئی ایسا خطہ نہیں ملے گا جو ہمارے انتقام سے پناہ دے سکے۔ناہید کو اڑانے کے لیے تم نے اپنی بہن کو جہاز پر چھوڑا تھا۔تمہاری تدبیر کامیاب تھی۔تم نے اس حلیف کو ہمارا میزبان بنا کر بھیجااور مجھے جہاز سے بلوالیااور خود پیچھے جہاز پر پہنچ کر نہ معلوم کس بہانے سے ناہید کو کہیں لے گئے لیکن اگر صلح اور جنگ کے لیے تم لوگوں کے اصول یہی ہیں تو یاد رکھو تمہارے جہاز کے دن گنے جاچکے ہیں۔“
پرتاپ رائے نے اچانک سپاہی کے ہاتھ سے کوڑا چھین کر زبیر کے منہ پر دے مارا اور دوسرے کوڑے کے لیے تیار کھڑا تھا کہ جےرام نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑلیا۔پرتاپ رائے نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔”تم راجہ کی توہیں برداشت کرسکتے ہو لیکن میں نہیں کرسکتا۔“
جےرام نے کہا۔”میں تم سے آخری بار پوچھتا ہوں کہ میری بہن اور وہ عرب لڑکی کہاں ہے؟“
اس سوال نے پرتاپ رائے کا غصہ ٹھنڈا کردیا اور تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولا۔”کیا یہ ممکن نہیں کہ ہمارے حملے کے وقت اسے انتقامی جذبے کے ماتحت جہاز سے نیچے پھین دیا گیا ہو۔“
جےرام نے کہا۔”یہ لوگ دشمنی میں شرافت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔میری بہن کے ساتھ عرب لڑکی کا غائب ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس شازش کی تہہ میں تمہارے جیسے کسی کمینے آدمی کا دماغ کام کررہا ہے۔“
زبیر نے پھر جےرام سے مخاطب ہوکرکہا۔”تم ان باتوں سے مجھے بیوقوف نہیں بنا سکتےناہید، خالد اور تمہاری بہن بیک وقت جہاز سے غائب ہوئے ہیں اور وہ یقیناً تمہاری قید میں ہیں۔مجھے تم سے کسی نیکی کی توقع نہیں لیکن ہم اتنا ضرور چاہتے ہیں کہ ہمیں راجہ کے سامنے پیش کیا جائے اور جب تک وہ ہمارا فیصلہ نہیں کرتا ناہید اور خالد کو ہمارے ساتھ رکھا جائے۔“
پرتاپ رائے نے چونک کر کہا۔”میں اب سمجھا جےرام! اگر ان لڑکیوں کے ساتھ جہاز پر کوئی آدمی بھی غائب ہوا ہے تو یہ معاملہ صاف ہے کل رات بندرگاہ سے ایک سرکاری کشتی بھی غائب ہوگئی ہے لیکن وہ زیادہ دور نہیں جاسکتے۔تم میرے ساتھ آو۔“
پرتاپ رائے اور جےرام قید خانے سے باہر نکل کر گھوڑوں پر سوار ہوئے اور انھیں سرپٹ دوڑاتے ہوئے بندرگاہ پر پہنچے۔بندرگاہ کے پہرے داروں نے شام کے وقت کسی کشتی غائب ہوجانے کے متعلق پرتاپ رائے کے بیان کی تصدیق کی، اور مایا کے متعلق جےرام کی تشویش بڑھنے لگی۔پرتاپ رائے نے چند کشتیاں اور جہاز شمال اور مغرب کے ساحل کے ساتھ ساتھ دیکھ بھال کے لیے روانہ کردیے اور جےرام کو تسلی دی کہ وہ زیادہ دور نہیں جاسکتے۔جےرام پرتاپ رائے کے ساتھ وآپس شہر چلا آیا۔
سہ پہر تک اپنے مکان میں مایا کے متعلق کوئی خبر نا پاکر اس نے بندرگاہ پر جانے کا ارادہ کیا لیکن پرتاپ رائے کا سپاہی آیا اور اسے اپنے ساتھ اس کے محل کی طرف لے گیا۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اردو ناول محمد بن قاسم :: مصنف: نسیم حجازی : (قسط نمبر39)

Post by چاند بابو »

محمد بن قاسم
مصنف: نسیم حجازی

(قسط نمبر39)
پرتاپ رائے کے محل کے پائیں باغ میں زبیر اور علی ناریل کے دو درختوں کے ساتے جکڑے ہوئے تھے۔پرتاپ رائے اور اس کے چند ساتھی اور دو جلاد ہاتھ میں کوڑے لیے ان کے پاس کھڑے تھے۔علی اور زبیر کی جھکی ہوئی گردنیں اور عریاں سینوں پر ضربوں کے نشانات یہ ظاہر کررہے تھے کہ انھیں ناقابلِ برداشت جسمانی اذیت پہنچائی جاچکی ہے۔ ایک سپاہی نے جےرام کی آمد کی اطلاح دی، اور پرتاپ رائے کا اشارہ پاکر جلاد علی اور زبیر پر کوڑے بسانے لگے۔زبیر ایک چٹان کی طرح کھڑا تھا لیکن علی کی قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی اور کوڑے کی ہر ضرب کے ساتھ اس کے منہ سے چیخیں نکل رہی تھیں۔
باہر کے دروازے میں پاوں رکھتے ہی علی کی چیخ وپکار نے جےرام کو متوجہ کیا اور اس نے بھاگ کر یکے بعد دیگرے دونوں جلادوں کو پیچھے دھکیل دیا اور پرتاپ رائے کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔”یہ ظلم ہے۔یہ پاپ ہے۔آپ نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ ان کا فیصلہ راجہ پرچھوڑ دیا ہے۔“
پرتاپ رائے نے علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔”یہ لڑکا سپاہیوں نے شہر سے تلاش کیا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمہاری بہن کے ساتھ ہی جہاز پر سے روپوش ہوا تھا اور اس کے ساتھی شہر کے آس پاس چھپے ہوئے ہیں۔“
جےرام نے آگے بڑھ کر علی سے پوچھا۔”تم کہاں تھے؟ میری بہن کہاں ہے؟“
علی نے سراپا التجا بن کر اس کی طرف دیکھا اور پھر گردن جھکا لی۔
جےرام نے کہا۔” اگر تمہیں مایا دیوی کے متعلق کچھ معلوم ہے تو بتا دو۔میں تمہیں بچا سکتا ہوں۔“
علی نے دوبارا گردن اٹھائی اور چلاچلا کر کہنے لگا۔” مجھے معلوم نہیں۔میں سچ کہتا ہوں۔مجھے ان کے متعلق معلوم نہیں۔میں نے جہاز پر سے کودنے سے پہلے انھیں تلاش کیا تھا لیکن مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیسے غائب ہوا۔“
جےرام نے پوچھا۔”تم شہر میں کیسے پہنچے؟“
میں جہاز سے کود کر سمندر کنارے ایک کشتی میں چھپ گیا تھا۔آج میں شہر پہنچا اور سپاہی مجھے پکڑ کر یہاں لے آئے۔تم سب ظالم ہو۔میں نے تمہارا کوئی قصور نہیں کیا۔“
جےرام نے زبیر کی طرف دیکھا لیکن حیرانی، غصہ، ندامت اور افسوس کے جذبات کے ہیجان میں وہ اس سے مخاطب ہونے کے لیے موزوں الفاظ تلاش نا کرسکا۔اس کی آنکھیں ایک بار اٹھیں اور جھک گئیں۔ہونٹ کپکپائے اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہوگئے۔اس نے پرتاپ کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔” آپ انھیں چھوڑ دیں۔مجھے ان پر کوئی شبہ نہیں۔“
پرتاپ رائے نے کہا۔”میں انھیں کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔اگر تمہاری بہن جہاز میں تھی تو انھیں یقیناً یہ علم ہوگا کے وہ کہاں ہے۔تم شاید اب تک مجھے مجرم خیال کرتے ہو اور میں ان لوگوں کی زبان سے تمہیں یقین دلانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ تمہاری بہن نے ان لوگوں نے چھپا رکھا ہے اور اگر وہ زندہ نہیں تو انھوں نے جہاز پر حملہ ہونے سے پہلے اسے سمندر میں پھینک دیا ہوگا۔اب یا انھیں اپنا جرم تسلیم کرنا پڑے گا اور یا تم کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمہاری بہن جہاز پر تھی ہی نہیں اور تم نے مجھے مرعوب کرنے کے لیے یہ بہانہ تلاش کیا ہے۔“
(جاری ہے)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردو ناول”