غزل در غزل
-
- معاون خاص
- Posts: 5391
- Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
- جنس:: مرد
- Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
- Contact:
Re: غزل در غزل
[center]آؤ تم ہی کرو مسیحائی
اب بہلتی نہیں ہے تنہائی
تم گئے تھے تو ساتھ لے جاتے
اب یہ کس کام کی ہے بینائی
ہم کہ تھے لذّتِ حیات میں گم
جاں سے اِک موج ِ تشنگی آئی
ہم سفر خوش نہ ہو محبّت سے
جانے ہم کس کے ہوں تمنّائی
کوئی دیوانہ کہتا جاتا تھا
زندگی یہ نہیں مرے بھائی
اوّلِ عشق میں خبر بھی نہ تھی
عزّتیں بخشتی ہے رسوائی
کیسے پاؤ مجھے جو تم دیکھو
سطح ِ ساحل سے میری گہرائی
عبید اللّہ علیم[/center]
اب بہلتی نہیں ہے تنہائی
تم گئے تھے تو ساتھ لے جاتے
اب یہ کس کام کی ہے بینائی
ہم کہ تھے لذّتِ حیات میں گم
جاں سے اِک موج ِ تشنگی آئی
ہم سفر خوش نہ ہو محبّت سے
جانے ہم کس کے ہوں تمنّائی
کوئی دیوانہ کہتا جاتا تھا
زندگی یہ نہیں مرے بھائی
اوّلِ عشق میں خبر بھی نہ تھی
عزّتیں بخشتی ہے رسوائی
کیسے پاؤ مجھے جو تم دیکھو
سطح ِ ساحل سے میری گہرائی
عبید اللّہ علیم[/center]
-
- ٹیم ممبر
- Posts: 40424
- Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
- جنس:: عورت
- Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه
Re: غزل در غزل
بہت ہی خوب
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
-
- کارکن
- Posts: 22
- Joined: Sun May 05, 2013 8:36 pm
- جنس:: عورت
- Location: لاہور پاکستان
Re: غزل در غزل
[center]اب کے سفر ہی اور تھا، اور ہی کچھ سراب تھے
دشتِ طلب میں جا بجا، سنگِ گرانِ خواب تھے
حشر کے دن کا غلغلہ، شہر کے بام و دَر میں تھا
نگلے ہوئے سوال تھے، اُگلے ہوئے جواب تھے
اب کے برس بہار کی، رُت بھی تھی اِنتظار کی
لہجوں میں سیلِ درد تھا، آنکھوں میں اضطراب تھے
خوابوں کے چاند ڈھل گئے تاروں کے دم نکل گئے
پھولوں کے ہاتھ جل گئے، کیسے یہ آفتاب تھے!
سیل کی رہگزر ہوئے، ہونٹ نہ پھر بھی تر ہوئے
کیسی عجیب پیاس تھی، کیسے عجب سحاب تھے!
عمر اسی تضاد میں، رزقِ غبار ہو گئی
جسم تھا اور عذاب تھے، آنکھیں تھیں اور خواب تھے
صبح ہوئی تو شہر کے، شور میں یوں بِکھر گئے
جیسے وہ آدمی نہ تھے، نقش و نگارِ آب تھے
آنکھوں میں خون بھر گئے، رستوں میں ہی بِکھر گئے
آنے سے قبل مر گئے، ایسے بھی انقلاب تھے
ساتھ وہ ایک رات کا، چشم زدن کی بات تھا
پھر نہ وہ التفات تھا، پھر نہ وہ اجتناب تھے
ربط کی بات اور ہے، ضبط کی بات اور ہے
یہ جو فشارِ خاک ہے، اِس میں کبھی گلاب تھے
اَبر برس کے کھُل گئے، جی کے غبار دھُل گئے
آنکھ میں رُو نما ہوئے، شہر جو زیرِ آب تھے
درد کی رہگزار میں، چلتے تو کِس خمار میں
چشم کہ بے نگاہ تھی، ہونٹ کہ بے خطاب تھے[/center]
دشتِ طلب میں جا بجا، سنگِ گرانِ خواب تھے
حشر کے دن کا غلغلہ، شہر کے بام و دَر میں تھا
نگلے ہوئے سوال تھے، اُگلے ہوئے جواب تھے
اب کے برس بہار کی، رُت بھی تھی اِنتظار کی
لہجوں میں سیلِ درد تھا، آنکھوں میں اضطراب تھے
خوابوں کے چاند ڈھل گئے تاروں کے دم نکل گئے
پھولوں کے ہاتھ جل گئے، کیسے یہ آفتاب تھے!
سیل کی رہگزر ہوئے، ہونٹ نہ پھر بھی تر ہوئے
کیسی عجیب پیاس تھی، کیسے عجب سحاب تھے!
عمر اسی تضاد میں، رزقِ غبار ہو گئی
جسم تھا اور عذاب تھے، آنکھیں تھیں اور خواب تھے
صبح ہوئی تو شہر کے، شور میں یوں بِکھر گئے
جیسے وہ آدمی نہ تھے، نقش و نگارِ آب تھے
آنکھوں میں خون بھر گئے، رستوں میں ہی بِکھر گئے
آنے سے قبل مر گئے، ایسے بھی انقلاب تھے
ساتھ وہ ایک رات کا، چشم زدن کی بات تھا
پھر نہ وہ التفات تھا، پھر نہ وہ اجتناب تھے
ربط کی بات اور ہے، ضبط کی بات اور ہے
یہ جو فشارِ خاک ہے، اِس میں کبھی گلاب تھے
اَبر برس کے کھُل گئے، جی کے غبار دھُل گئے
آنکھ میں رُو نما ہوئے، شہر جو زیرِ آب تھے
درد کی رہگزار میں، چلتے تو کِس خمار میں
چشم کہ بے نگاہ تھی، ہونٹ کہ بے خطاب تھے[/center]
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22224
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: غزل در غزل
بہت خوب.
بہت ہی بہترین انتخاب پیش کرنے کا شکریہ.
بہت ہی بہترین انتخاب پیش کرنے کا شکریہ.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
-
- کارکن
- Posts: 22
- Joined: Sun May 05, 2013 8:36 pm
- جنس:: عورت
- Location: لاہور پاکستان
Re: غزل در غزل
[center]کسی خیال کسی شاخ سےجھڑے ہوئے تھے
وہ چند پھول اسی دھوٌپ میں ہرے ہوئے تھے
انھیں میں نیند کی وادی میں کھینچ لایا تھا
مگر وہ لوگ کسی خواب سے ڈرے ہوئے تھے
ابھی جو اشک میری آنکھ سے گرا ہی نہیں
تمام پیڑ اسی بُوند سے ہرے ہوئے تھے
پھر ایک روز گرانا پڑا اُسے بھی ہمیں
ہم اپنی راہ میں دیوار ہی بنے ہوئے تھے
ہماری سانس سنبھلتی تھی ڈگمگاتی تھی
ہم اپنا ہاتھ کسی ہاتھ پر دھرے ہوئے تھے[/center]
وہ چند پھول اسی دھوٌپ میں ہرے ہوئے تھے
انھیں میں نیند کی وادی میں کھینچ لایا تھا
مگر وہ لوگ کسی خواب سے ڈرے ہوئے تھے
ابھی جو اشک میری آنکھ سے گرا ہی نہیں
تمام پیڑ اسی بُوند سے ہرے ہوئے تھے
پھر ایک روز گرانا پڑا اُسے بھی ہمیں
ہم اپنی راہ میں دیوار ہی بنے ہوئے تھے
ہماری سانس سنبھلتی تھی ڈگمگاتی تھی
ہم اپنا ہاتھ کسی ہاتھ پر دھرے ہوئے تھے[/center]
-
- کارکن
- Posts: 22
- Joined: Sun May 05, 2013 8:36 pm
- جنس:: عورت
- Location: لاہور پاکستان
Re: غزل در غزل
[center]اےگردش دوراں،عمر رواں
کچھ پل کےلئےسستانےدے
یہ ناتے،ریت،یہ رسم ورواہ
ان سب سےآنکھ چرانےدے
یہ جبر مسلسل رشتوںکے
یہ بندھن آنسو آہوں کے
اب زنجیریں سی لگتی ہیں
ان زنجیروں سےپل دوپل
تھوڑی سی مجھےآزادی دے
اےعمر رواں کچھ ٹھہر زرا
اےدل کی خلش کچھ چین تو لے
اس دشت الم میں دیدہء نم
کچھ خواب سےدیکھا کرتی ھیں
خوش فھمی کے بہلاووں سے
کچھ حرف تسلی دیتی ھیں
اےعمر رواں کچھ پل کےلئے
آسودہ نگرمیں جا نےدے
اس شوخ نظرسےپوچھ تو لیں
اس راہ پہ کیوںیہ پاگل دل
انجانی لےپہ دھڑکاہے ؟
اس موڑپہ کیوں یہ دامن دل
پھرکس کےآ گے پھیلا ہے؟
یہ نظریں انکی راہوں میں کیوں سجدہ ریزی کرتی ہیں؟
اےگردش دوراں توہی بتا[/center]
کچھ پل کےلئےسستانےدے
یہ ناتے،ریت،یہ رسم ورواہ
ان سب سےآنکھ چرانےدے
یہ جبر مسلسل رشتوںکے
یہ بندھن آنسو آہوں کے
اب زنجیریں سی لگتی ہیں
ان زنجیروں سےپل دوپل
تھوڑی سی مجھےآزادی دے
اےعمر رواں کچھ ٹھہر زرا
اےدل کی خلش کچھ چین تو لے
اس دشت الم میں دیدہء نم
کچھ خواب سےدیکھا کرتی ھیں
خوش فھمی کے بہلاووں سے
کچھ حرف تسلی دیتی ھیں
اےعمر رواں کچھ پل کےلئے
آسودہ نگرمیں جا نےدے
اس شوخ نظرسےپوچھ تو لیں
اس راہ پہ کیوںیہ پاگل دل
انجانی لےپہ دھڑکاہے ؟
اس موڑپہ کیوں یہ دامن دل
پھرکس کےآ گے پھیلا ہے؟
یہ نظریں انکی راہوں میں کیوں سجدہ ریزی کرتی ہیں؟
اےگردش دوراں توہی بتا[/center]
-
- ٹیم ممبر
- Posts: 40424
- Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
- جنس:: عورت
- Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه
Re: غزل در غزل
بہت خوب
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
-
- منتظم سوشل میڈیا
- Posts: 6107
- Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
- جنس:: مرد
- Location: السعودیہ عربیہ
- Contact:
Re: غزل در غزل
کتنی خود غرض ہیں
آنکھیں میری
بن دیکھے تجھے یہ سارا دن
جلتی ہی رہتی ہیں
اور شام کے سائے جونہی پھیلتے ہیں
برستی ہی رہتی ہیں
جب بھی دوگھڑی کو ہی یہ نیند میں جائیں
تیرے ہی خواب تکتی رہتی ہیں
کتنی خود غرض ہیں
آنکھیں میری
میاں اشفاق
آنکھیں میری
بن دیکھے تجھے یہ سارا دن
جلتی ہی رہتی ہیں
اور شام کے سائے جونہی پھیلتے ہیں
برستی ہی رہتی ہیں
جب بھی دوگھڑی کو ہی یہ نیند میں جائیں
تیرے ہی خواب تکتی رہتی ہیں
کتنی خود غرض ہیں
آنکھیں میری
میاں اشفاق
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
-
- منتظم سوشل میڈیا
- Posts: 6107
- Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
- جنس:: مرد
- Location: السعودیہ عربیہ
- Contact:
Re: غزل در غزل
لمحوں کی بات
پھیلی جب تو
میری پوری زندگی
کی داستان بن گئی
میاں اشفاق
پھیلی جب تو
میری پوری زندگی
کی داستان بن گئی
میاں اشفاق
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں