خلائی روبوٹ کی دمدار ستارے پر تاریخی لینڈنگ
-
- منتظم اعلٰی
- Posts: 6565
- Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
- جنس:: مرد
- Location: پاکستان
- Contact:
خلائی روبوٹ کی دمدار ستارے پر تاریخی لینڈنگ
امریکی اور یورپی خلائی سائنس دانوں نےایک خلائی تحقیقی روبوٹ کو زمین سے 50 کروڑ کلومیٹر دور ایک دمدار ستارے کی سطح پر اتارا کر ایک تاریخی کامیابی حاصل کی ہے۔
فائلی گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق آٹھ بج کر 35 منٹ پر روزیٹا سے 67 پی/چوریوموف جیراسیمینکو نامی دمدار ستارے کی طرف چھوڑا گیا۔
اس خلائی مہم کا مقصد نظام شمسی کی تشکیل کے بارے میں چند سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانا ہے۔
پاکستانی وقت کے مطابق فائلی رات نو بجے دمدار ستارے کی سطح پر اترا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے روزیٹا خلائی جہاز سے الگ ہو کر دمدار ستارے کی طرح رواں دواں ’فائلی‘ نامی تحقیقی روبوٹ کی بھیجی گئی پہلی تصویر حاصل کر لی ہے۔ اس تصویر میں خلائی جہاز ’روزیٹا‘ اور اس کے شمسی پینل نظر آ رہے ہیں۔
تاہم اس وقت فائلی کے دمدار ستارے کی سطح پر موجودگی کے بارے میں بے یقینی پائی جاتی ہے کیونکہ اسے ایک جگہ پر ٹکنے میں مدد دینے والے ہارپونز صحیح طریقے سے کام نہیں کر سکے تھے۔
مشن کا مقصد دمدار ستاروں کی ساخت پر روشنی ڈالنا ہے جو اس وقت سے سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں جب سے نظامِ شمسی وجود میں آیا ہے۔
یہ انتہائی مشکل مشن تھا کیوں کہ چار کلومیٹر چوڑے 67پی کی سطح برفانی ہے اور اس کی کششِ ثقل بھی بہت کم ہے، اس لیے خدشہ تھا کہ کہیں فائلی سطح سے ٹکرانے کے بعد اچھل کر دوبارہ خلا میں نہ چلا جائے۔
اس خطرے سے بچنے کے لیے فائلی میں سکرو اور ہارپون نصب کیے گئے ہیں جو اسے ایک جگہ ٹکنے میں مدد دیں گے۔
اس کے علاوہ ایک اور خطرہ یہ بھی ہے کسی پتھر سے ٹکرا کر فائلی الٹ نہ جائے کیوں کہ اس کے اندر اپنے آپ کو سیدھا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ مزید یہ کہ 67پی کی سطح پر ٹیلے، گڑھے اور دراڑیں ہیں، اس لیے مشن کی کامیابی کے لیے فائلی کو کسی صاف جگہ پر اترنا تھا۔
روبوٹ کو دمدار ستارے کی سطح پر اتارنے کے مرحلے سے پہلے سائنس دان سٹیفن اولامیک نے کہا تھا: ’ہمیں ہارپونز اور آلے کے پیروں میں موجود سکروز پر انحصار کرنا پڑے گا کیوں کہ سطح نرم ہے۔ جس سے ہمارا کام مزید مشکل ہو جاتا ہے۔‘
اس سے قبل فائلی کو روزیٹا سے الگ کر دمدار ستارے کی جانب بھیجنے کا مشن تاخیر کا شکار ہو گیا تھا کیوں کہ ایک تھرسٹر فائر نہیں کیا جا سکا تھا۔
دمدار ستاروں کے اندر اس اصل مواد کا راز موجود ہے جس سے آج سے ساڑھے چار ارب سال قبل ہمارا نظامِ شمسی وجود میں آیا تھا۔
ایک نظریے کے مطابق سیاروں پر پایا جانے والا پانی دمدار ستاروں ہی سے آیا ہے۔ ایک اور نظریے کے مطابق ان میں زندگی کے لیے درکار بنیادی مادے موجود ہیں جن کی مدد سے زمین پر زندگی کا آغاز ہوا۔
[link]http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2014/ ... chdown_zis[/link]
-
- منتظم اعلٰی
- Posts: 6565
- Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
- جنس:: مرد
- Location: پاکستان
- Contact:
Re: خلائی روبوٹ کی دمدار ستارے پر تاریخی لینڈنگ
دمدار ستارے پر اترنے والے روبوٹ سے دوبارہ رابطے کا انتظار
زمین سے 50 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود دمدار ستارے پر اترنے والے خلائی روبوٹ کی اس ستارے کی سطح پر موجودگی کے بارے میں بے یقینی پائی جاتی ہے اور سائنس دان اس سے دوبارہ رابطے کے منتظر ہیں۔
’فیلے‘ نامی تحقیقی روبوٹ سے حاصل شدہ ڈیٹا کے مطابق اترنے کے عمل کے دوران یہ کم از کم تین مرتبہ اچھلا تھا کیونکہ اسے ایک جگہ پر ٹکنے میں مدد دینے والے ہارپون صحیح طرح سے کام نہیں کر سکے تھے۔
روبوٹ نے دمدار ستارے پر تاریخی لینڈنگ کے عمل سے قبل اس کی خاکستری اور سرمئی رنگ کی برفانی سطح کی تصاویر ارسال کی تھیں۔
یورپی خلائی ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ایک دہائی طویل سفر کے بعد دمدار ستارے پر روبوٹ کا اترنا انسانیت کے لیے ایک ’بڑا قدم‘ ہے۔
جان جیکوئس ڈورڈین نے کہا کہ ’یہ صرف یورپی خلائی ادارے کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک عظیم دن ہے۔‘
اس خلائی مہم کا مقصد ساڑھے چار ارب سال قبل نظام شمسی کی تشکیل کے بارے میں چند سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانا ہے اور سائنس دانوں کو امید ہے کہ دمدار ستارے کی سطح کے تجزیے سے اس عمل میں مدد ملے گی۔
یہ دمدار ستارے اس وقت سے سورج کےگرد گردش کر رہے ہیں جب سے نظامِ شمسی وجود میں آیا ہے۔
واشنگ مشین جتنا بڑا یہ روبوٹ بدھ کو گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق آٹھ بج کر 35 منٹ پر روزیٹا نامی خلائی جہاز سے 67 پی/چوریوموف جیراسیمینکو نامی دمدار ستارے کی طرف چھوڑا گیا۔
سات گھنٹے سفر کے بعد فیلے پاکستانی وقت کے مطابق رات نو بج کر پانچ منٹ پر دمدار ستارے کی سطح پر اترا۔
روبوٹ سے حاصل ہونے والے ابتدائی ڈیٹا کے مطابق یہ ڈیڑھ انچ تک ستارے کی سطح میں دھنس گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کی بیرونی سطح نرم ہے۔
تاہم اس وقت فیلے کے چار کلومیٹر چوڑے دمدار ستارے کی سطح پر موجودگی کے بارے میں بے یقینی پائی جاتی ہے کیونکہ اسے ایک جگہ پر ٹکنے میں مدد دینے والے ہارپونز صحیح طریقے سے کام نہیں کر سکے تھے۔
روبوٹ کی لینڈنگ کے مشن کے مینجر سٹیفن اولامیک کا کہنا ہے: ’اس وقت یہی اشارہ ہے لیکن اصل میں ہمیں کل صبح تک انتظار کرنا ہو گا اور پھر ہمیں اور بہت کچھ جاننے کو ملے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ریڈیو پر آخری رابطے کے وقت تک تو ’فیلے‘ ایک مستحکم حالت میں تھا تاہم اگر ’جمعرات کو اس سے دوبارہ رابطہ ہو جاتا ہے تو ہم زیادہ پراعتماد محسوس کریں گے۔‘
لینڈنگ کے بعد ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں ڈاکٹر اولامیک نے کہا تھا کہ ’ہم یہ تو جانتے ہیں کہ روبوٹ اتر گیا ہے جو کہ ایک بہت اچھی خبر ہے۔‘
تاہم انھوں نے کہا کہ ’(فیلے) ایک بار نہیں دو سے زیادہ مرتبہ سیارے کی سطح سے ٹکرایا ہے۔‘
جرمن خلائی ادارے کے مطابق فیلے کے پہلی مرتبہ اترنے اور پھر اچھل کر دوبارہ اترنے کے درمیان دو گھنٹے جبکہ دوسری مرتبہ اچھل کر اترنے کے درمیان دس منٹ کا وقفہ تھا
فیلے کے ستارے پر اترنے کے عمل کے دوران اس کے اچھلنے کے امکانات موجود تھے لیکن اس کا مطلب اس کے ہارپونز اور تھرسٹر کی ناکامی ہے جن کا کام اسے سیارے پر مضبوطی سے جوڑے رکھنا تھا۔
اگر یہ روبوٹ صحیح طریقے سے کام کرنے میں کامیاب رہتا ہے تو وہ 67پی دمدار ستارے پر کئی ماہ تک تجربات کرے گا۔
روبوٹ پر ڈرلز مشینیں، کیمرے اور سینسرز نصب ہیں اور ان کی مدد سے وہ دم دار ستارے کے ماحول، زندگی کے آثار، گیسوں، درجۂ حرارت سمیت مختلف عوامل کا جائزہ لے گا۔
یہ نہ صرف اس کی سطح کا کیمیائی تجزیہ کرے گا بلکہ اس کی اور ستارے کی فضا کی تصاویر بھی بھیجے گا۔
یہ مشن یورپی خلائی ایجنسی (ایسا) کا اب تک کا سب سے پیچیدہ مشن ہے۔ اسے سنہ 2004 میں لانچ کیا گیا تھا اور اپنے سفر کے دوران یہ سال 2008 اور 2010 میں دو شہابیوں راک سٹینز اور لوٹیٹیا کے پاس سے گزرا تھا۔
دمدار ستارہ 67 پی/ چریوموو گراسیمنکو جسے ’ڈرٹی سنو بال‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے، نظامِ شمسی کے وجود میں آنے کے وقت کے اجزا پر مشتمل ستارہ ہے اور اس سے حاصل ہونے والی معلومات سے ماہرین 4.6 ارب سال پہلے کے اجزا کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
[link]http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2014/ ... ng_wait_zs[/link]
زمین سے 50 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود دمدار ستارے پر اترنے والے خلائی روبوٹ کی اس ستارے کی سطح پر موجودگی کے بارے میں بے یقینی پائی جاتی ہے اور سائنس دان اس سے دوبارہ رابطے کے منتظر ہیں۔
’فیلے‘ نامی تحقیقی روبوٹ سے حاصل شدہ ڈیٹا کے مطابق اترنے کے عمل کے دوران یہ کم از کم تین مرتبہ اچھلا تھا کیونکہ اسے ایک جگہ پر ٹکنے میں مدد دینے والے ہارپون صحیح طرح سے کام نہیں کر سکے تھے۔
روبوٹ نے دمدار ستارے پر تاریخی لینڈنگ کے عمل سے قبل اس کی خاکستری اور سرمئی رنگ کی برفانی سطح کی تصاویر ارسال کی تھیں۔
یورپی خلائی ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ایک دہائی طویل سفر کے بعد دمدار ستارے پر روبوٹ کا اترنا انسانیت کے لیے ایک ’بڑا قدم‘ ہے۔
جان جیکوئس ڈورڈین نے کہا کہ ’یہ صرف یورپی خلائی ادارے کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک عظیم دن ہے۔‘
اس خلائی مہم کا مقصد ساڑھے چار ارب سال قبل نظام شمسی کی تشکیل کے بارے میں چند سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانا ہے اور سائنس دانوں کو امید ہے کہ دمدار ستارے کی سطح کے تجزیے سے اس عمل میں مدد ملے گی۔
یہ دمدار ستارے اس وقت سے سورج کےگرد گردش کر رہے ہیں جب سے نظامِ شمسی وجود میں آیا ہے۔
واشنگ مشین جتنا بڑا یہ روبوٹ بدھ کو گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق آٹھ بج کر 35 منٹ پر روزیٹا نامی خلائی جہاز سے 67 پی/چوریوموف جیراسیمینکو نامی دمدار ستارے کی طرف چھوڑا گیا۔
سات گھنٹے سفر کے بعد فیلے پاکستانی وقت کے مطابق رات نو بج کر پانچ منٹ پر دمدار ستارے کی سطح پر اترا۔
روبوٹ سے حاصل ہونے والے ابتدائی ڈیٹا کے مطابق یہ ڈیڑھ انچ تک ستارے کی سطح میں دھنس گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کی بیرونی سطح نرم ہے۔
تاہم اس وقت فیلے کے چار کلومیٹر چوڑے دمدار ستارے کی سطح پر موجودگی کے بارے میں بے یقینی پائی جاتی ہے کیونکہ اسے ایک جگہ پر ٹکنے میں مدد دینے والے ہارپونز صحیح طریقے سے کام نہیں کر سکے تھے۔
روبوٹ کی لینڈنگ کے مشن کے مینجر سٹیفن اولامیک کا کہنا ہے: ’اس وقت یہی اشارہ ہے لیکن اصل میں ہمیں کل صبح تک انتظار کرنا ہو گا اور پھر ہمیں اور بہت کچھ جاننے کو ملے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ریڈیو پر آخری رابطے کے وقت تک تو ’فیلے‘ ایک مستحکم حالت میں تھا تاہم اگر ’جمعرات کو اس سے دوبارہ رابطہ ہو جاتا ہے تو ہم زیادہ پراعتماد محسوس کریں گے۔‘
لینڈنگ کے بعد ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں ڈاکٹر اولامیک نے کہا تھا کہ ’ہم یہ تو جانتے ہیں کہ روبوٹ اتر گیا ہے جو کہ ایک بہت اچھی خبر ہے۔‘
تاہم انھوں نے کہا کہ ’(فیلے) ایک بار نہیں دو سے زیادہ مرتبہ سیارے کی سطح سے ٹکرایا ہے۔‘
جرمن خلائی ادارے کے مطابق فیلے کے پہلی مرتبہ اترنے اور پھر اچھل کر دوبارہ اترنے کے درمیان دو گھنٹے جبکہ دوسری مرتبہ اچھل کر اترنے کے درمیان دس منٹ کا وقفہ تھا
فیلے کے ستارے پر اترنے کے عمل کے دوران اس کے اچھلنے کے امکانات موجود تھے لیکن اس کا مطلب اس کے ہارپونز اور تھرسٹر کی ناکامی ہے جن کا کام اسے سیارے پر مضبوطی سے جوڑے رکھنا تھا۔
اگر یہ روبوٹ صحیح طریقے سے کام کرنے میں کامیاب رہتا ہے تو وہ 67پی دمدار ستارے پر کئی ماہ تک تجربات کرے گا۔
روبوٹ پر ڈرلز مشینیں، کیمرے اور سینسرز نصب ہیں اور ان کی مدد سے وہ دم دار ستارے کے ماحول، زندگی کے آثار، گیسوں، درجۂ حرارت سمیت مختلف عوامل کا جائزہ لے گا۔
یہ نہ صرف اس کی سطح کا کیمیائی تجزیہ کرے گا بلکہ اس کی اور ستارے کی فضا کی تصاویر بھی بھیجے گا۔
یہ مشن یورپی خلائی ایجنسی (ایسا) کا اب تک کا سب سے پیچیدہ مشن ہے۔ اسے سنہ 2004 میں لانچ کیا گیا تھا اور اپنے سفر کے دوران یہ سال 2008 اور 2010 میں دو شہابیوں راک سٹینز اور لوٹیٹیا کے پاس سے گزرا تھا۔
دمدار ستارہ 67 پی/ چریوموو گراسیمنکو جسے ’ڈرٹی سنو بال‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے، نظامِ شمسی کے وجود میں آنے کے وقت کے اجزا پر مشتمل ستارہ ہے اور اس سے حاصل ہونے والی معلومات سے ماہرین 4.6 ارب سال پہلے کے اجزا کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
[link]http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2014/ ... ng_wait_zs[/link]
-
- منتظم سوشل میڈیا
- Posts: 6107
- Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
- جنس:: مرد
- Location: السعودیہ عربیہ
- Contact:
Re: خلائی روبوٹ کی دمدار ستارے پر تاریخی لینڈنگ
بہت خوب سائنسدانوں کا کام یقیناء تعریف کے قابل ہے !
خبر شئیر کرنے کا شکریہ
خبر شئیر کرنے کا شکریہ
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں