ابن انشاء کی کتاب "اردو کی آخری کتاب" اردو مزاح میں ایک بہترین سرمایہ ہے. اس دھاگے میں اس کتاب کے اقتباسات نقل کئے جائیں گے.
یہ کتاب پی ڈی ایف میں موجود ہے. لیکن ڈاؤن لوڈ کے لئے پریمیم اکاؤنٹ ضروری ہے. اس لئے اقتباسات جمع کرنے ہونگے.
سب دوست حصہ لیں ..
اردو کی آخری کتاب (ابن انشاء)
-
- منتظم اعلٰی
- Posts: 6565
- Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
- جنس:: مرد
- Location: پاکستان
- Contact:
Re: اردو کی آخری کتاب (ابن انشاء)
حضرت شیخ سعدی فرماتے ہیں
ایک غلام عجمی ایک کشتی میں بیٹھا جا رہا تھا ۔ اس نے پہلے کبھی دریا کی صورت نہ دیکھی تھی ۔ بیچ دھارے کے کشتی پر موجوں کے تھپیڑے جو پڑے تو لگا چیکھنے چلانے اور واویلا مچانے ۔ ہر چند لوگوں نے دلاسا دیا ، پکڑ پکڑ کر بٹھایا لیکن۔
کسی صورت نہ دل کی بیقراری کو قرار آیا
ایک دانا بھی کشتی میں بیٹھا تھا ۔شیخ سعدی کے زمانے میں دانا اسی طرح جابجا موجود رھتے تھے جس طرح ہر بس میں ایک کنڈکٹر اور ہر محکمے میں ایک افسر تعلقات عامہ ہوتا ہے۔اس نے لوگوں کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ اگر تم لوگ کہو تو میں ایک ترکیب سے اسے ابھی خاموش کرا دوں؟
مسافر بےلطف ہو رہے تھے فارسی میںبولے ”ازیںچہ بہتر“ اس پر اس نے مسافر مذکورہ کو دریا میں پھینکوا دیا اور جب وہ چند غوطے کھا کر ادھ موا ہو گیا تو ملاحوں سے کہا کہ اب اسے کشتی میں گھسیٹ لاؤ۔ احتیاط کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ ملاحوں سے پوچھ لیتا کہ بھائیو تمہیں تیرنا بھی آتا ہے؟ فرض کیجئیے اگر وہ تیراکی میں اس دانا کی طرح اور ہماری طرح کورے ہوتے تو غضب ہو جاتا دانا صاحب کی بھد ہو جاتی۔ مقدمہ الگ ان پر چلتا لیکن خیر ایک ملاح اسے کشتی کے قریب گھسیٹ لایا وہ شخص دونوں ہاتھوں سے کشتی کے کے کنارے کو پکڑ کر اس پر سوار ہوگیا اور آرام سے چپ چاپ ایک کونے میںجا بیٹھا ۔ لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا۔ اس میں بھید کیا ہے؟ اس زمانے میں لوگ عموماً کند ذہن ہوتے تھے، ذرا ذرا سی بات پوچھنے کے لیے داناؤں کے پاس دوڑے چلے جاتے تھے ۔
دانا نے مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہا ۔
اے سادہ لوحو ۔ یہ شخص اس سے پہلے نہ غرق ہونے کی مصیبت کو جانتا تھا نہ کسی کو سلامتی کا ذریعہ مانتا تھا ۔اب دونوں باتوں سے واقف ہو گیا ہے تو آرام سے بیٹھ گیا ہے
(ابن انشا کی اردو کی آخری کتاب سے اقتباس)
ایک غلام عجمی ایک کشتی میں بیٹھا جا رہا تھا ۔ اس نے پہلے کبھی دریا کی صورت نہ دیکھی تھی ۔ بیچ دھارے کے کشتی پر موجوں کے تھپیڑے جو پڑے تو لگا چیکھنے چلانے اور واویلا مچانے ۔ ہر چند لوگوں نے دلاسا دیا ، پکڑ پکڑ کر بٹھایا لیکن۔
کسی صورت نہ دل کی بیقراری کو قرار آیا
ایک دانا بھی کشتی میں بیٹھا تھا ۔شیخ سعدی کے زمانے میں دانا اسی طرح جابجا موجود رھتے تھے جس طرح ہر بس میں ایک کنڈکٹر اور ہر محکمے میں ایک افسر تعلقات عامہ ہوتا ہے۔اس نے لوگوں کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ اگر تم لوگ کہو تو میں ایک ترکیب سے اسے ابھی خاموش کرا دوں؟
مسافر بےلطف ہو رہے تھے فارسی میںبولے ”ازیںچہ بہتر“ اس پر اس نے مسافر مذکورہ کو دریا میں پھینکوا دیا اور جب وہ چند غوطے کھا کر ادھ موا ہو گیا تو ملاحوں سے کہا کہ اب اسے کشتی میں گھسیٹ لاؤ۔ احتیاط کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ ملاحوں سے پوچھ لیتا کہ بھائیو تمہیں تیرنا بھی آتا ہے؟ فرض کیجئیے اگر وہ تیراکی میں اس دانا کی طرح اور ہماری طرح کورے ہوتے تو غضب ہو جاتا دانا صاحب کی بھد ہو جاتی۔ مقدمہ الگ ان پر چلتا لیکن خیر ایک ملاح اسے کشتی کے قریب گھسیٹ لایا وہ شخص دونوں ہاتھوں سے کشتی کے کے کنارے کو پکڑ کر اس پر سوار ہوگیا اور آرام سے چپ چاپ ایک کونے میںجا بیٹھا ۔ لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا۔ اس میں بھید کیا ہے؟ اس زمانے میں لوگ عموماً کند ذہن ہوتے تھے، ذرا ذرا سی بات پوچھنے کے لیے داناؤں کے پاس دوڑے چلے جاتے تھے ۔
دانا نے مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہا ۔
اے سادہ لوحو ۔ یہ شخص اس سے پہلے نہ غرق ہونے کی مصیبت کو جانتا تھا نہ کسی کو سلامتی کا ذریعہ مانتا تھا ۔اب دونوں باتوں سے واقف ہو گیا ہے تو آرام سے بیٹھ گیا ہے
(ابن انشا کی اردو کی آخری کتاب سے اقتباس)
-
- منتظم اعلٰی
- Posts: 6565
- Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
- جنس:: مرد
- Location: پاکستان
- Contact:
Re: اردو کی آخری کتاب (ابن انشاء)
دنیا گول ہے ۔۔۔۔
دنیا گول ہے ۔۔۔۔! گول ہونےکا فائدہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔ لوگ مشرق کی طرف سے جاتے ہیں۔۔۔ مغرب کی طرف جا نکلتے ہیں۔۔۔ کوئی ان کو پکڑ نہیں سکتا۔۔۔ اسمگلروں اور مجرموں کے لیے ۔۔۔ بڑی آسانی ہوگئی ہے۔۔ ہٹلر نے زمین کو چپٹا کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔ لیکن کامیاب نہیں ہوا پھر گلیلیو نامی ایک شخص آیا ۔۔۔ اور اس نے زمین کو سورج کے گرد گھمانا شروع کردیا۔۔۔۔ پادری بہت ناراض ہوئے کہ ۔۔۔۔۔ ہم کو کس چکر میں ڈال دیا۔۔۔۔۔ گلیلیو کوتو انہوں نے قرار واقعی سزا دے کر۔۔۔۔ آئیندہ اس قسم کی حرکت سے روک دیا۔۔۔ زمین کو البتہ نہ روک سکے۔۔۔۔ برابر حرکت کیے جارہی ہے ۔۔۔۔۔
(ابن انشا کی اردو کی آخری کتاب سے اقتباس)
دنیا گول ہے ۔۔۔۔! گول ہونےکا فائدہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔ لوگ مشرق کی طرف سے جاتے ہیں۔۔۔ مغرب کی طرف جا نکلتے ہیں۔۔۔ کوئی ان کو پکڑ نہیں سکتا۔۔۔ اسمگلروں اور مجرموں کے لیے ۔۔۔ بڑی آسانی ہوگئی ہے۔۔ ہٹلر نے زمین کو چپٹا کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔ لیکن کامیاب نہیں ہوا پھر گلیلیو نامی ایک شخص آیا ۔۔۔ اور اس نے زمین کو سورج کے گرد گھمانا شروع کردیا۔۔۔۔ پادری بہت ناراض ہوئے کہ ۔۔۔۔۔ ہم کو کس چکر میں ڈال دیا۔۔۔۔۔ گلیلیو کوتو انہوں نے قرار واقعی سزا دے کر۔۔۔۔ آئیندہ اس قسم کی حرکت سے روک دیا۔۔۔ زمین کو البتہ نہ روک سکے۔۔۔۔ برابر حرکت کیے جارہی ہے ۔۔۔۔۔
(ابن انشا کی اردو کی آخری کتاب سے اقتباس)
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22224
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: اردو کی آخری کتاب (ابن انشاء)
میرے پاس اس کتاب کی پی ڈی ایف کاپی موجود ہے.
یہ رہا اس کا لنک
https://www.mediafire.com/?mp1pd7rve0m1zp6
یہ رہا اس کا لنک
https://www.mediafire.com/?mp1pd7rve0m1zp6
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
-
- منتظم اعلٰی
- Posts: 6565
- Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
- جنس:: مرد
- Location: پاکستان
- Contact:
Re: اردو کی آخری کتاب (ابن انشاء)
شئرنگ کا شکریہ
اگر کچھ اقتباسات بھی نقل کر دیں تو مزہ آ جائے گا.
اگر کچھ اقتباسات بھی نقل کر دیں تو مزہ آ جائے گا.
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22224
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: اردو کی آخری کتاب (ابن انشاء)
لیجئے شعیب بھیا اردو کی آخری کتاب سے ایک اقتباس عرض ہے.
عنوان ہے بھارت.
يہ بھارت ہے، گاندھي جی یہیں پيدا ہوئے تھے، لوگ ان کي بڑی عزت کرتے تھے، ان کو مہاتما کہتے تھے، چنانچہ مار کر ان کو يہیں دفن کر ديا اور سمادھی بنا دی، دوسرے ملکوں کے بڑے لوگ آتے ہيں تو اس پر پھول چڑھاتے ہيں، اگر گاندھی جی نہ مرتے یعنی نہ مارے جاتے تو پورے ہندوستان ميں عقيدت مندوں کيلئے پھول چڑھانے کی کوئی جگہ نہ تھی، يہی مسئلہ ہمارے يعنی پاکستان والوں کے لئے بھی تھا، ہميں قائدِ اعظم کا ممنون ہونا چاہئيے کہ خود ہی مرگئے اور سفارتی نمائندوں کے پھول چڑھانے کي ايک جگہ پيدا کردی ورنہ شايد ہميں بھی ان کو مارنا ہی پڑتا۔
بھارت بڑا امن پسند ملک ہے جس کا ثبوت يہ ہے کہ اکثر ہمسايہ ملکوں کے ساتھ اس کے سيز فائر کے معاہدے ہوچکے ھيں،١٩٦٥ ميں ہمارے ساتھ ہوا اس سے پہلے چين کے ساتھ ہوا۔
بھارت کا مقدس جانورگائے ہے ، بھارتی اس کا دودہ پيتے ہيں، اسی کے گوبر سے چوکا ليپتے ہيں، اور اس کو قصائی کے ہاتھ بيچتے ہيں، اس لئيے کيونکہ وہ خود گائے کو مارنا يا کھانا پاپ سمجھتے ہيں۔
آدمی کو بھارت ميں مقدس جانور نہيں گنا جاتا۔
بھارت کے بادشاہوں ميں راجہ اشوک اور راجہ نہرو مشہور گزرے ہيں۔ اشوک سے ان کي لاٹ اور دہلی کا شوکا ھوٹل يادگار ہيں، اور نہرو جی کی يادگار مسئلہ کشمير ہے جو اشوک کي تمام يادگاروں سے زيادہ مظبوط اور پائيدار معلوم ہوتا ہے ۔
راجہ نہرو بڑے دھر ماتما آدمی تھے، صبح سويرے اٹھ کر شير شک آسن کرتے تھے، يعنی سر نيچے اور پير اوپر کرکے کھڑے ہوتے تھے، رفتہ رفتہ ان کو ہر معاملے کو الٹا ديکھنے کي عادت ہوگئی تھی، حيدر آباد کے مسئلہ کو انہوں نے رعايا کے نقطہ نظر سے دیکھا۔ يوگ ميں طرح طرح کے آسن ہوتے ہيں، نا واقف لوگ ان کو قلابازياں سمجھتے ہيں، نہرو جی نفاست پسند بھی تھے دن ميں دو بار اپنے کپڑے اور قول بدلا کرتے تھے۔
عنوان ہے بھارت.
يہ بھارت ہے، گاندھي جی یہیں پيدا ہوئے تھے، لوگ ان کي بڑی عزت کرتے تھے، ان کو مہاتما کہتے تھے، چنانچہ مار کر ان کو يہیں دفن کر ديا اور سمادھی بنا دی، دوسرے ملکوں کے بڑے لوگ آتے ہيں تو اس پر پھول چڑھاتے ہيں، اگر گاندھی جی نہ مرتے یعنی نہ مارے جاتے تو پورے ہندوستان ميں عقيدت مندوں کيلئے پھول چڑھانے کی کوئی جگہ نہ تھی، يہی مسئلہ ہمارے يعنی پاکستان والوں کے لئے بھی تھا، ہميں قائدِ اعظم کا ممنون ہونا چاہئيے کہ خود ہی مرگئے اور سفارتی نمائندوں کے پھول چڑھانے کي ايک جگہ پيدا کردی ورنہ شايد ہميں بھی ان کو مارنا ہی پڑتا۔
بھارت بڑا امن پسند ملک ہے جس کا ثبوت يہ ہے کہ اکثر ہمسايہ ملکوں کے ساتھ اس کے سيز فائر کے معاہدے ہوچکے ھيں،١٩٦٥ ميں ہمارے ساتھ ہوا اس سے پہلے چين کے ساتھ ہوا۔
بھارت کا مقدس جانورگائے ہے ، بھارتی اس کا دودہ پيتے ہيں، اسی کے گوبر سے چوکا ليپتے ہيں، اور اس کو قصائی کے ہاتھ بيچتے ہيں، اس لئيے کيونکہ وہ خود گائے کو مارنا يا کھانا پاپ سمجھتے ہيں۔
آدمی کو بھارت ميں مقدس جانور نہيں گنا جاتا۔
بھارت کے بادشاہوں ميں راجہ اشوک اور راجہ نہرو مشہور گزرے ہيں۔ اشوک سے ان کي لاٹ اور دہلی کا شوکا ھوٹل يادگار ہيں، اور نہرو جی کی يادگار مسئلہ کشمير ہے جو اشوک کي تمام يادگاروں سے زيادہ مظبوط اور پائيدار معلوم ہوتا ہے ۔
راجہ نہرو بڑے دھر ماتما آدمی تھے، صبح سويرے اٹھ کر شير شک آسن کرتے تھے، يعنی سر نيچے اور پير اوپر کرکے کھڑے ہوتے تھے، رفتہ رفتہ ان کو ہر معاملے کو الٹا ديکھنے کي عادت ہوگئی تھی، حيدر آباد کے مسئلہ کو انہوں نے رعايا کے نقطہ نظر سے دیکھا۔ يوگ ميں طرح طرح کے آسن ہوتے ہيں، نا واقف لوگ ان کو قلابازياں سمجھتے ہيں، نہرو جی نفاست پسند بھی تھے دن ميں دو بار اپنے کپڑے اور قول بدلا کرتے تھے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22224
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: اردو کی آخری کتاب (ابن انشاء)
پاکستان
حدود اربعہ پاکستان کے مشرق ميں سيٹو ہے، مغرب ميں سنٹو، شمال ميں تاشقند اور جنوب ميں پاني يعني جائے مفر کسی طرف نہيں۔
پاکستان کے دو حصے ہيں، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان يہ ايک دوسرے سے بڑے فاصلے پر ہیں، اس کا اندازہ اب ہورہا ہے۔
دونوں کا اپنا اپناحدود اربعہ بھی ہے۔
مغربی پاکستان کے شمال ميں پنجاب ، جنوب ميں سندھ ، مشرق ميں ہندوستان اور مغرب ميں سرحد اور بلوچستان ہيں، يہاں پاکستان خود کہاں واقع ہے اور واقع ہے بھی یا نہيں اس پر آج کل ريسرچ ہورہی ہے۔مشرقی پاکستان کے چاروں طرف آج کل مشرقی پاکستان ہی ہے۔
حدود اربعہ پاکستان کے مشرق ميں سيٹو ہے، مغرب ميں سنٹو، شمال ميں تاشقند اور جنوب ميں پاني يعني جائے مفر کسی طرف نہيں۔
پاکستان کے دو حصے ہيں، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان يہ ايک دوسرے سے بڑے فاصلے پر ہیں، اس کا اندازہ اب ہورہا ہے۔
دونوں کا اپنا اپناحدود اربعہ بھی ہے۔
مغربی پاکستان کے شمال ميں پنجاب ، جنوب ميں سندھ ، مشرق ميں ہندوستان اور مغرب ميں سرحد اور بلوچستان ہيں، يہاں پاکستان خود کہاں واقع ہے اور واقع ہے بھی یا نہيں اس پر آج کل ريسرچ ہورہی ہے۔مشرقی پاکستان کے چاروں طرف آج کل مشرقی پاکستان ہی ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو