محسن پاکستان، پاکستان پر رحم کریں

ملکی اور عالمی‌ سیاست پر ایک نظر
Post Reply
سید انور محمود
کارکن
کارکن
Posts: 180
Joined: Wed Aug 03, 2011 6:14 pm
جنس:: مرد

محسن پاکستان، پاکستان پر رحم کریں

Post by سید انور محمود »

تاریخ: 26 دسمبر 2013
[center]محسن پاکستان، پاکستان پر رحم کریں[/center]تحریر: سید انور محمود
جنوری 2013 میں ، میں نے ایک طویل مضمون " کیا محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا سیاست میں آنے کا فیصلہ درست ہے؟" لکھاتھا۔ اس مضمون کو لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب جو محسن پاکستان کہلاتے ہیں سیاست میں آنے کے بعد تقسیم ہوجاینگے اور وہ سیاست سے دور رہیں تو اچھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب جو ایک نہایت ہی شریف اور معصوم انسان ہیں اپنی شرافت اور معصومیت میں یہ دھوکہ کھاگئے کہ سیاست میں بھی لوگ اُن کو وہی مقام دینگےجو ایک ایٹمی سائنسداں کے طور پر محسن پاکستان کے خطاب کے ساتھ اُنکوملا ہے۔وہ بھٹو سے لیکرمشرف تک ہر حکومت کے قریب رہے ہیں اسلیے سیاست کا نشہ وہ بھی کربیٹھے اور ایک سیاسی جماعت تحریکِ تحفظ پاکستان کے نام سے بنائی ۔ الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعداُنکو جو سیاسی تجربہ ہوا اور انکی جماعت کا جو رزلٹ آیااُس نے آخرکار انکو مجبور کیا کہ وہ سیاست سے دور ہوجایں۔عملی سیاست سے دور ہونے کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے اپنے بیانات اور مضامین کے زریعے اپنے آپ کو سیاست سے دور نہیں کیا۔ ڈاکٹر صاحب کافی عرصہ سے روزنامہ جنگ میں مضامین لکھ رہے ہیں، انکےمضامین کبھی سماجی اور کبھی سیاسی ہوتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر گذشتہ 28 اکتوبر سے ابتک ڈاکٹر صاحب اپنےپانچ مضامین میں پاکستان کے ایک کٹر مخالف مولانا ابوکلام آزاد کے ہم خیال بنے ہوئے ہیں، ڈاکٹر صاحب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناع مولانا آزاد کو سخت ناپسند کرتے تھے اور اُنکو کانگریس کا شوبوائے کہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے 28 اکتوبر 2013 کےمضمون "پاکستان کا مستقبل" میں لکھتے ہیں " ہمیں پاکستان حاصل کئے 66 سال ہوگئے۔ اس کے حاصل کرنے میں ہم نے بے حد قربانیاں دیں۔ علامہ اقبال کی نصیحت و رہنمائی اور قائدِ اعظم اور ان کے ساتھیوں کی انتھک، مخلصانہ اور بے لوث قیادت نے ہمیں پاکستان دلوادیا۔ اس میں ہندوستان کے مسلمانوں نے جو قربانیاں دیں وہ دنیا کی کسی اور قوم نے اپنے ملک کو حاصل کرنے کے لئے نہیں دیں"۔آگے چلکر اسی مضمون میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ " انگریزوں نے ہندوستان میں اپنا ایک خاص غلام طبقہ پیدا کرلیا اور یہی طبقہ آج تک ہم پر مسلط ہے۔ بہرحال ان کی تمام سازشوں اور تدبیروں کے باوجود ہندوستان اور پاکستان کا قیام وجود میں آگیا۔ سر ونسٹن چرچل کی پیشگوئی جو انہوں نے ہندوستان کو آزادی دینے کے خلاف کی تھی۔ ’’اقتدار بے ایمانوں، بدمعاشوں، گھٹیا، غیرذمہ دار، قانون شکن لٹیروں کے ہاتھ میں چلا جائے گا، تمام ہندوستانی لیڈر بدکردار اور بیکار و بے قیمت ہوں گے۔ ان کی زبان چرب و میٹھی ہو گی مگر دل احمقانہ ہوں گے۔ وہ آپس میں اقتدار کی خاطر لڑتے جھگڑتے رہیں گے اور ہندوستان سیاسی کشمکش کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ ایک ایسا وقت آئے گا کہ جب ہوا اور پانی پر بھی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا‘‘۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ "چرچل ایک نہایت قوی ہیکل، دانشور اور اپنے وقت کا بہترین لیڈر تھا۔ وہ گاندھی کی عیاری و مکاری سے پوری طرح واقف تھا جبکہ بیچارے 40 کروڑ ہندوستانی اُس کے جال میں اندھے تھے۔ اس کی پیشگوئی100 فیصد صحیح ثابت ہوئی اور موجودہ حالات اس کا کھلا آئینہ ہے"۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنے اسی مضمون میں گاندھی اور نہرو کے بہت قریبی ساتھی مولانا ابوکلام آزادکے ایک انٹرویو جو شورش کاشمیری کو اُن کے میگزین چٹان کو اپریل 1946 میں دیا تھا، اُس میں سے مولانا آزاد نے پاکستان کے بارے میں جوپیشگویاں کی تھیں اسکے چند اقتباسات لکھے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ہندوستان کے وزیرتعلیم، اعلیٰ دینی عالم اور آزادی ہند کے ممتاز لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا ’’ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ نفرت و حقارت پاکستان و ہندوستان کے تعلقات پر غلبہ پالیں گے۔ تقسیم ہند خود ایک بڑی رکاوٹ ہو گی نفرت تعلقات پر غلبہ پا لے گی اور دونوں ممالک کبھی ایک دوسرے کے دوست نہیں بن سکیں گے اور آپس میں مسلسل لڑتے رہیں گے۔ میں جانتا ہوں کہ مشرقی پاکستان زیادہ عرصہ تک مغربی پاکستان کا حصہ نہ رہ سکے گا کیونکہ بنگالی مسلمانوں نے کبھی کسی غیروں کی چوہدراہٹ قبول نہیں کی‘‘۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے مولانہ آزاد کے انٹرویو سے دس عدد پیشگوئیاں بھی لکھی ہیں جو سب کی سب پاکستان کے خلاف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے اگلے تین کالم میں جو دو، نو اور سولہ دسمبر 2013 کوروزنامہ جنگ میں شایع ہوئے اس میں مولانہ آزاد کا انٹرویو تھا۔ اگر آپ اس پورئے انٹرویو کو پڑھینگے تو یہ آپکو ایک ایسے سیاستدان کا انٹرویو لگے گا جو پاکستان اور قائداعظم کا بدترین مخالف تھا، مثال کے طور پر جب اُن سے کہا گیا کہ " بعض علماء بھی تو قائداعظم کے ساتھ ہیں‘‘۔ تو مولانا آزاد کا جواب تھا " علماء اکبر اعظم کے ساتھ بھی تھے، اُس کی خاطر انہوں نے ’’دین اکبری‘‘ ایجاد کیا تھا، اس شخصی بحث کو چھوڑو، اسلام کی پوری تاریخ ان علماء سے بھری پڑی ہے جن کی بدولت اسلام ہر دور میں سسکیاں لیتا رہا۔ راست باز زبانیں چند ہی ہوتی ہیں"۔ ڈاکٹر صاحب نے اس انٹرویو کے بعد 23 دسمبر2013 کو ایک اور مضمون "16 دسمبر 1971ء" کے عنوان سے لکھا جس میں وہ لکھتے ہیں "پاکستان ٹوٹنے کی پیشگوئی مولانا ابوالکلام آزاد نے 1946ء میں جناب شورش کاشمیری کو دیئے گئے انٹرویو میں کردی تھی اور یہ کہہ دیا تھا کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کی رحلت کے بعد یہ واقعہ یقینی ہے"۔اسی مضمون میں آگے چلکر ڈاکٹر صاحب نےایک پیراگراف ایسا لکھا جس میں انکی پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ ناراضگی کا بھرپور اظہار ہے اور شاید 28 اکتوبر سے 23 دسمبر تک اُنکے لکھے ہوئے کا حاصل بھی ہے، وہ لکھتے ہیں "16 دسمبر1971ء کے دردناک اور شرمناک واقعات دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھااور جب 18 دسمبر 1974ء کو ہندوستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو مجھے پاکستان کا مستقبل نہایت تاریک نظر آیااور میں نے بھٹو صاحب کو اپنی خدمات پیش کردیں۔ اپنے نہایت روشن مستقبل کو، آرام دہ اور باعزت زندگی کو خیرباد کہا، اس ملک کو دو ارب ڈالر کی دنیا کی مشکل ترین اور اہم ترین ٹیکنالوجی مفت دے دی اور اپنے محب وطن و مخلص ساتھیوں کی مدد سے اپنا خون پسینہ ایک کر کے سات سال میں ایک ایٹمی قوّت بنادیا اور پھر چند سال بعد اس کو ایک میزائل قوّت بنا کر ہمارے دشمن کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملا دیا لیکن ہمارے حکمرانوں نے اپنی اسلامی تاریخی روایات (یعنی احسان فراموشی، نمک حرامی، ناشکری، حسد، بغض) پر عمل کرکے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا وہ ان حکمرانوں اور اس ملک کی تاریخ پر ہمیشہ ایک سیاہ داغ رہے گا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے"۔

محترم ڈاکٹر صاحب! ہم پاکستانی جو اسوقت بٹی ہوئی قوم ہیں، ہم جولسانی ، مذہبی، علاقائی تعصب کا بھرپور شاہکار ہیں مگر اس کے باوجود ہم آپ کے حوالے سے اس بات پر متفق ہیں کہ آپ محسن پاکستان ہیں۔ ہم آپ کو اسلامی دنیا کے پہلے ایٹم بم کے خالق اور ہیرو کے طور پر جانتے ہیں- ہمیں یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ ہمارے دل میں آپ کا کیا مقام ہے۔ آپکے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی ہیں یقینا وہ نہیں ہونی چاہیئے تھی۔لیکن آپ کی 28 اکتوبر سے 23 دسمبر2013تک کی تحریروں کو پڑھکر افسوس ہوا ہے، آپ نے خود بھی تسلیم کیا ہے کہ"میرے چند ہم وطن ’’دانشوروں‘‘ کو میرا مولانا ابوالکلام آزاد کا جناب شورش کاشمیری کو دیئے گئے انٹرویو کو عوام کی خدمت میں پیش کرنا بہت ناگوار گزرا ہے"۔ جبکہ آپکی اپنی تحریروں میں بھی تضاد ہے، ایک طرف آپ لکھتے ہیں "علامہ اقبال کی نصیحت و رہنمائی اور قائدِ اعظم اور ان کے ساتھیوں کی انتھک، مخلصانہ اور بے لوث قیادت نے ہمیں پاکستان دلوادیا۔ اس میں ہندوستان کے مسلمانوں نے جو قربانیاں دیں وہ دنیا کی کسی اور قوم نے اپنے ملک کو حاصل کرنے کے لئے نہیں دیں"۔ لیکن دوسری طرف آپ مولانا ابوالکلام آزاد کے ایک سیاسی انٹرویو کو بنیاد بناکر علامہ اقبال اور قائدِ اعظم کی رہنمائی کی نفی کررہے ہیں۔ چرچل نے جو بھی کچھ کہا تھا وہ نہرو اور گاندھی کو سامنے رکھ کر کہا تھا، یہ بات تو مولانا آزاد نے بھی کہی تھی کہ ہندوستان کی تقسیم کا ذمیدار نہرو ہے۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے میں یقینا ہماری غلطیاں ہیں لیکن کیا پاکستان نہ بنتا تو اب جو 50 کڑوڑ سے زیادہ مسلمان ہیں ،کیا ہندوں اُن 16کڑوڑمسلمانوں کو جو ہندوستان میں ہیں اُنکے حقوق دے رہے ہیں، ہر گز نہیں ، بہت کم تعداد میں جو مسلمان اعلیٰ پوزیشنوں پر نظر آئیں گے ان کی اکثریت ہندو کلچر میں رچی بسی ہے اور یہی ان کی ترقی کا راز ہے، جس کی ایک مثال موجودہ ہندوستانی وزیرخارجہ سلمان خورشید ہیں ۔ اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں سرکاری تقریب میں کسی نے اُن سے پوچھا کہ وہ مسلمان ہونے کے باوجود بھارت کے اس کلیدی عہدے پر کیسے پہنچ گئے، انھوں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ان کی بیگم ہندو ہیں۔ بقول ڈاکٹر صفدر محمود صاحب "جن حضرات کو یہ حسن ظن ہے کہ پاکستان نہ بننے کی صورت میں مسلمان ہندوستان میں چالیس پچاس کروڑ ہوتے اور ہندوستان کی کل آبادی کا تہائی حصہ ہوتے جو تقسیم ہند کے وقت تھے وہ یقین رکھیں کہ پچاس کروڑ مسلمانوں کا بھی وہی حشر ہونا تھا جو آج ہندوستان میں پندرہ سولہ کروڑ مسلمانوں کا ہو رہا ہے"۔محترم ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب اگر آپکو وقت ملے تو سیچررپورٹ کا مطالعہ ضرورکیجئے جو ہندوں کی مسلمانوں سے دشمنی کی ہوشربا داستان ہے۔ آپسے گذارش ہے کہ "محسن پاکستان، پاکستان پر رحم کریں" اور متنازہ تحریریں نہ لکھیں۔
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔
سید انور محمود
User avatar
محمد وقاص خان
کارکن
کارکن
Posts: 24
Joined: Thu Dec 26, 2013 2:51 pm
جنس:: مرد

Re: محسن پاکستان، پاکستان پر رحم کریں

Post by محمد وقاص خان »

بہت پیاری اور معلوماتی شئیرنگ
ہمارے ساتھ شئیرنگ کرنے کا شکریہ
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: محسن پاکستان، پاکستان پر رحم کریں

Post by چاند بابو »

بہت خوب محترم تحریر تو بہت جاندار ہے مگر اس میں کچھ میری ذاتی رائے بھی ہے، یہ درست ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے مولانا ابوالکلام آزاد کے انٹریوو میں‌ سے ہی باتیں اٹھا کر اپنے کالم میں‌ شائع کردی ہیں مگر کیا انہوں نے کچھ غلط کہا.
پاکستان بن گیا جیسے بھی بنا جس جس نے بھی قربانیاں دیں یہ ان کی مہربانی ہے مگر پھر ہم نے کیا کیا؟
کیا ابوالکلام کی پیشین گوئیاں‌ سچ ثابت نہیں ہوئیں، کیا پاکستان و بھارت کی حکمرانی انہی لوگوں کا مقدر نہیں بنی جو انگریزوں‌ کے کاسہ لیس تھے، کیا یہ لوگ اس قابل تھے کہ انہیں‌ پاکستان کی حکمرانی سونپ دی جاتی. کرنے والے تو پاکستان بنا گئے مگر ہم نے اپنے فرائض ادا نہیں کیئے ہیں ہم آج بھی انہی لوگوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں جو پاکستان توڑنے میں‌ مسلسل مصروفِ عمل ہیں.
کیا ابوالکلام کا کہا غلط ثابت ہوا کہ قائد اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان دو لخت ہو جائے گا، انہوں نے جو کچھ کہا ان کا کہا بالکل درست ثابت ہوا ہے.

کیا اس سے کہیں بہتر نہیں ہے کہ ہم اس مضمون میں غلطیاں‌ تلاش کرنے کی بجائے اپنے اندر غلطیاں تلاش کرتے اور وہ آئینہ دیکھنے کی کوشش کرتے جو ڈاکٹر صاحب نے ہمیں دکھانے کی کوشش کی. آج پینسٹھ سال بعد اگر ڈاکٹر صاحب نے وہ انٹریوو اٹھا لیا ہے تو کیا برا کیا، ہم نے کیا بدل لیا ہے ان پینسٹھ سالوں‌میں‌جو اب ڈاکٹر صاحب کے اس مضمون یا ڈاکٹر صاحب کے خیالات سے بدل جائے گا.
ڈاکٹر صاحب کا احسان ہے کہ انہوں نے ہمیں‌ ایک ایٹمی طاقت بنانے کے لئے اپنا سب کچھ تیاگ دیا اب انہیں سچ بھی بولنے دیں جس شخص نے ساری توانیاں ایک ہی ملک کو بڑھاوا دینے کے لئے وقف کیئے رکھیں اور آخر میں ہم ان کے ساتھ ایسا سلوک کریں‌گے تو برا تو اسے لگے گا ہی اور وہ ایسے بولے گا ہی. مگر مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ذہن کے کسی نہاں خانے میں بھی اس مضمون لکھنے کا مقصد یہ کہنا ہر گز نہیں تھا کہ پاکستان بنا غلط تھا یا بننا نہیں چاہئے تھا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان بنانے والے لیڈران نے مل کر پاکستان کے لئے جو کیا ڈاکٹر صاحب نے اکیلے ہو کر وہ سب پاکستان کے لئے کیا.
اگر بنانے والوں نے پاکستان بنایا تھا تو آج ڈاکٹر صاحب نے پاکستان بچایا ہے.اور بچانے والا اتنا بیوقوف نہیں ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کو بچانے پر اپنی توانائیاں‌ صرف کرے جو اس کے نزدیک ہو ہی غلط چیز.
اس لئے محترم اس مضمون کے روشن پہلووں پر غور کیجئے اور اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو سدھارنے کی فکر کیجئے نہ کہ ڈاکٹر صاحب کی زبان بندی کی کوشش کریں.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
سید انور محمود
کارکن
کارکن
Posts: 180
Joined: Wed Aug 03, 2011 6:14 pm
جنس:: مرد

Re: محسن پاکستان، پاکستان پر رحم کریں

Post by سید انور محمود »

محترم چاند بابو تبصرہ کا شکریہ، نیچے جو کچھ لکھا ہے وہ پڑھ لیں، اسکے علاوہ 2، 9، اور 16 دسمبر کے وہ کالم بھی پڑھ لیں جو ڈاکٹر صاحب نے جنگ میں آزاد کے انٹرویو کی شکل میں لکھے ہیں، 22 دسمبر کا ڈاکٹر صفدر محمود کا کالم بھی پڑھ لیں، پھر ضرور تبصرہ کریں. 20 دسمبر کو میری ڈاکٹر صفدر محمود سے فون پر بات ہوی ہے وہ بھی افسوس کا اظہار کررہے تھے. اس مضمون کا مقصد قطعی محسن پاکستان کی کردار کشی نہیں ہے بلکہ ان سے صرف ایک درخواست ہے کہ وہ پاکستان کے مخالفوں کی حمایت نہ کریں. اگر آپ چاھیں تو مولانا آزاد کا پورا انٹرویو اورسیچر رپورٹ کی کاپی میں آپ کو فراہم کرسکتا ہوں.

اسی مضمون میں آگے چلکر ڈاکٹر صاحب نےایک پیراگراف ایسا لکھا جس میں انکی پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ ناراضگی کا بھرپور اظہار ہے اور شاید 28 اکتوبر سے 23 دسمبر تک اُنکے لکھے ہوئے کا حاصل بھی ہے، وہ لکھتے ہیں "16 دسمبر1971ء کے دردناک اور شرمناک واقعات دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھااور جب 18 دسمبر 1974ء کو ہندوستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو مجھے پاکستان کا مستقبل نہایت تاریک نظر آیااور میں نے بھٹو صاحب کو اپنی خدمات پیش کردیں۔ اپنے نہایت روشن مستقبل کو، آرام دہ اور باعزت زندگی کو خیرباد کہا، اس ملک کو دو ارب ڈالر کی دنیا کی مشکل ترین اور اہم ترین ٹیکنالوجی مفت دے دی اور اپنے محب وطن و مخلص ساتھیوں کی مدد سے اپنا خون پسینہ ایک کر کے سات سال میں ایک ایٹمی قوّت بنادیا اور پھر چند سال بعد اس کو ایک میزائل قوّت بنا کر ہمارے دشمن کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملا دیا لیکن ہمارے حکمرانوں نے اپنی اسلامی تاریخی روایات (یعنی احسان فراموشی، نمک حرامی، ناشکری، حسد، بغض) پر عمل کرکے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا وہ ان حکمرانوں اور اس ملک کی تاریخ پر ہمیشہ ایک سیاہ داغ رہے گا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے"۔
ایک طرف آپ لکھتے ہیں "علامہ اقبال کی نصیحت و رہنمائی اور قائدِ اعظم اور ان کے ساتھیوں کی انتھک، مخلصانہ اور بے لوث قیادت نے ہمیں پاکستان دلوادیا۔ اس میں ہندوستان کے مسلمانوں نے جو قربانیاں دیں وہ دنیا کی کسی اور قوم نے اپنے ملک کو حاصل کرنے کے لئے نہیں دیں"۔ لیکن دوسری طرف آپ مولانا ابوالکلام آزاد کے ایک سیاسی انٹرویو کو بنیاد بناکر علامہ اقبال اور قائدِ اعظم کی رہنمائی کی نفی کررہے ہیں۔ چرچل نے جو بھی کچھ کہا تھا وہ نہرو اور گاندھی کو سامنے رکھ کر کہا تھا، یہ بات تو مولانا آزاد نے بھی کہی تھی کہ ہندوستان کی تقسیم کا ذمیدار نہرو ہے۔
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔
سید انور محمود
Post Reply

Return to “سیاست”