گدھے اورکتےکی سیاست

ملکی اور عالمی‌ سیاست پر ایک نظر
Post Reply
سید انور محمود
کارکن
کارکن
Posts: 180
Joined: Wed Aug 03, 2011 6:14 pm
جنس:: مرد

گدھے اورکتےکی سیاست

Post by سید انور محمود »

تاریخ: 11 نومبر 2013
[center]گدھے اورکتےکی سیاست[/center]تحریر: سید انور محمود

مرحوم اداکار رنگیلا اور مرحوم اداکارسید کمال ہماری فلم انڈسٹری کے دو بڑئے نام ہیں۔ سید کمال بہت اچھے اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی دلچسپی لیتے تھے، مٹکے کے نشان پر الیکشن بھی لڑا مگر کامیاب نہ ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں انہوں نے ایک سیاسی فلم "انسان اورگدھا" بنائی جس میں ہیرو کا کردار اداکار رنگیلے نے ادا کیا تھا، اس فلم پر پابندی بھی لگی تھی کیونکہ اس فلم میں رنگیلے نے گدھوں کے ہجوم کے سامنے بھٹو کے انداز میں تقریر کی تھی۔ اسطرح گدھا ہماری قومی سیاست میں داخل ہوا۔ اب مولانا فضل الرحمان جو طالبان کے حق میں بڑے بڑے جلوس نکالتے رہے ہیں اور امریکی سفیر کے لیے پُرتکلف کھانے کا اہتمام کر کے اُن سے درخواست کرتے ہیں کہ انہیں وزیراعظم بنوایا جائے یہ کہہ کر "اگر امریکہ کتے کو بھی مارے گاتو شہید کہوں گا"، کتے کو بھی ہماری قومی سیاست کا حصہ بنادیا۔ کتے کی موت مرنے کا مطلب ہے بہت بری حالت میں جان دینا ہے۔ ہمارے معاشرئے میں روایتی طورپر کتے کو برا سمجھا جاتا ہے اورکتے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ کتے کی زندگی ہونا بری زندگی کوکہتے ہیں، کتے کی طرح بھونکنا بھی بری طرح ناراض ہونے اوربک بک کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔دھوبی کا کتا گھرکا نہ گھاٹ کا ایک عام مثال ہے، جسکا مطلب ہے کہ کتا کسی کا نہیں ہوتا۔ کتے کےلیے کہا جاتا ہے کہ بہت وفادار ہوتا ہے مگراس کی وفاداری کا ذکربھی اچھے الفاظ میں نہیں ہوتا، کتے کی طرح وفاداری کا پٹا گلے میں ہونا اچھی بات نہیں سمجھی جاتی یہ وفاداری کا پٹا بے انتہا نکمے پن کو ظاہر کرتا ہے ۔

امریکی ڈرون حملے سے آٹھ کمروں کے مکان میں اپنی دوبیگمات کے ساتھ پُرآسائش زندگی گزارنے والے طالبان کے سربراہ دہشت گرد حکیم محسود کی ہلاکت پر ایک طرف وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان حیران اور پریشان ہیں کہ جنہوں نے صرف ایک ہفتے قبل ڈرون حملوں کی وکالت فرمائی تھی اور غلط اعداد و شمار کا چکر چلایا تھا تو دوسری طرف ہزاروں لوگوں سے اسلامی بینکنگ اور پونزی اسکیم جیسے مالیات فراڈز کے ذریعے اربوں کمانے والے کچھ عُلماء نے اپنے کرتوت بھول کر ایک فتوی ڈرون کی شرعی حیثیت پر داغ دیا ہے۔ سستی جذباتیت اور عمومی مذہبیت کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں منور حسن کہاں پیچھے رہتے ، انہوں نے ہزاروں معصوم پاکستانی شہریوں کے قتل میں مُلوث اور پاکستانی ریاست کے باغی دہشت گرد طالبان پاکستان کے لیڈر حکیم محسود کو شہیدقرار دئے دیا، جس سے دو ہاتھ آگے بڑھکر مولانا فضل الرحمان نےفرمادیا کہ "امریکہ کے ہاتھوں مرنے والاکتا بھی شہید ہوگا"۔ افسوس مولانا نے ایک سیکنڈ بھی نہیں سوچا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ بلکہ اُن پچاس ہزار پاکستانیوں کے گھر والوں کو رلادیا جو طالبانی دہشت گردی کا شکار ہوئےہیں۔

مولانا فضل الرحمان اور منور حسن دونوں میں کوئی ایک بھی مفتی نہیں ہے لیکن دونوں سیاسی طور پر ایک دوسرئے سے آگے جانے کےلیے مذہب کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اِن دونوں کے اِن بیانات کے بعد مذہبی حلقے میں بےچینی ہوگئی اور پاکستان کےتمام مذہبی حلقے نے دونوں کے بیانات کی مذمت کی۔ چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا کے استفسار پر سنی اتحاد کونسل سے وابستہ 30 جید علماء اور مفتیان اہلسنت نے اپنے اجتماعی شرعی اعلامیہ میں قرار دیا ہے کہ "پچاس ہزار بے گناہ انسانوں کے قتل ناحق کے مجرم حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دینا قرآن و سنت کے منافی ہے۔ علمائے کرام اور مفتیان نے اعلامیہ میں کہا ہے کہ ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والے معصوم اور بے گناہ خواتین، بچے اور مرد شہید ہیں۔ ریاست مخالف عناصر کے امیر حکیم اللہ محسود کے جرائم اور گناہ معاف نہیں ہو سکتے۔ اللہ ظالموں کو ظالموں کے ہاتھوں ہی مرواتا ہے۔حکیم اللہ محسود کے چار سالہ دور امارت کے دوران مساجد، مزارات، اسپتالوں، مارکیٹوں، جنازوں، چرچوں، امام بارگاہوں، سرکاری دفاتر، تعلیمی اداروں، فوجیوں، پولیس اہلکاروں، معصوم بچیوں، دینی و سیاسی رہنمائوں پر سینکڑوں حملے کئے گئے۔ ان حملوں کے ماسٹر مائنڈ حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دینا ملک سے غداری ہے۔ ڈرون حملوں کو پاکستان میں دہشت گردی کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ امریکی مظالم کا بدلہ بے گناہ پاکستانیوں سے لینا جہاد نہیں فساد ہے۔ امریکا کے خلاف جہاد کا اصل میدان پاکستان نہیں افغانستان ہے لیکن پاکستانی طالبان نے مسلسل پاکستان کو نشانہ بنا رکھا ہے اس لئے یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ حکیم اللہ محسود امریکا کے خلاف جہاد کرتا ہوا شہید ہوا۔ اسلام انسانی جان کی حرمت کا سب سے بڑا علمبردار اور قتل ناحق کا سب سے بڑا مخالف ہے جبکہ حکیم اللہ محسود ایک نہیں ہزاروں بے گناہوں کا قاتل ہے۔ اس لئے ایسا شخص شہید نہیں ہو سکتا"۔

مولانا فضل الرحمن کی طرف سے امریکا کےہاتھوں مرنےوالے کتے کو بھی شہید قراردینے کے بیان پر مختلف دینی رہنمائوں نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ" شہیدکا لفظ کتےسے منسوب کرنا گستاخی و جہالت اور گمراہی ہے۔، سنّی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے کہا ہے کہ فضل الرحمن نے شہید جیسے مقدس لفظ کو کتے سے منسوب کرکے شریعت کا مذاق اڑایا ہے، امریکا کے اسلام اور پاکستان دشمن ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن امریکا کے ہاتھوں مرنے والے کتے کو بھی شہید کہنا شریعت کے منافی ہے، فضل الرحمن اپنا بیان واپس لے کر توبہ کریں۔اسلامک ریسرچ کونسل کے صدر مفتی محمد کریم خان نے کہاہے کہ امریکا کےہاتھوں مرنے والا ہر شخص شہید نہیں ہے، علمائے دیو بند مولانا فضل الرحمن کے بیان سے لاتعلقی کااعلان اوراپنی پوزیشن واضح کریں، فضل الرحمن نے جوش میں ہوش کھو کر جہالت کامظاہرہ کیاہے۔انجمن طلبائے اسلام پاکستان کے مرکزی صدراسد خان جدون نے کہا ہے کہ فضل الرحمن نے قرآن و حدیث کے احکامات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے، فضل الرحمن مفتی بننے کے شوق میں شرعی احکامات کا مذاق اڑانے سے بازآجائیں"۔ مولانا فضل الرحمن اقتدار سے بہت دیر تک دور رہنے کے عادی نہیں اور ابھی تک نواز شریف نے انکو راتب بھی نہیں دیا ہے، اکرم درانی کی وزارت اور مولانا کی ممکنہ کشمیر کمیٹی کی چیرمین شپ کا دور دور امکان نہیں ہوپارہا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ مولانا وہ واحد سیاست دان تھے جنکو نواز شریف کا دورہ امریکہ بہت کامیاب نظر آیا۔ دوسری طرف مولانا کے گذشتہ ماہ کے دورہ افغانستان پر طالبان ناراض تھے۔ مولانادونوں کو ہی خوش رکھنا چاہتے ہیں اسلیے وہ اس قسم کے بہودہ بیانات دے رہے ہیں۔ اس بیان سےایک طرف وہ خود سے روٹھے ہوئے طالبان کو منارہے ہیں تو دوسری طرف نواز شریف کو یہ تاثر دے رہے کہ طالبان سے انکا مسئلہ وہی حل کراسکتے ہیں۔ نواز شریف کو چاہیے کہ مولانا کی مرادیں جلد از جلد پوری کردیں تاکہ قوم انکے شرانگیز اور بے ہودہ بیانات سے محفوظ رہ سکے۔

امیروں کے کتے غریبوں پر بھونکتے ہیں۔ غریبوں کے کتے اپنے آپ پر بھونکتے ہیں۔ کتا اپنی گلی میں شیر ہوتا ہے، جس طرح شیر کسی دوسرے کے گلی میں کتا بن جاتا ہے۔ کتوں اور عاشقوں میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ دونوں راتوں کو گھومتے ہیں، اور اپنا اپنا کلام پڑھ پڑھ کر لوگوں کو جگاتے ہیں۔ اور اینٹ اور پتھر کھاتے ہیں۔ ہاں ایک کتا لیلی کا بھی تھا۔ لوگ لیلیٰ تک پہنچنے کے لئےاس سے پیار کرتے تھے۔ اس کی خوشامد کرتے تھے جس طرح آجکل ہماری حکومت مذاکرات کےلیے طالبان کی خوشامد کررہی ہے۔ گھوڑے کی شکل ایک حد تک گدھے سے ملتی ہے، بعض لوگ گدھے گھوڑے کو برابر سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ دونوں کو ایک تھان پر باندھتے ہیں، یا ایک لاٹھی سے ہانکنا شروع کر دیتے ہیں۔ شاعروں نے بھی گدھے کی ایک خوبی کی تعریف کی ہے، خرِ عیسٰی ہو یا کوئی اور گدھا اگر وہ مکہ بھی ہو آئے تو گدھا ہی رہتا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو گدھے اورکتےکی سیاست سے نجات دلائے۔
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔
سید انور محمود
Post Reply

Return to “سیاست”