قائداعظم ریذیڈنسی پر حملہ دراصل پاکستان پر حملہ ہے

ملکی اور عالمی‌ سیاست پر ایک نظر
Post Reply
سید انور محمود
کارکن
کارکن
Posts: 180
Joined: Wed Aug 03, 2011 6:14 pm
جنس:: مرد

قائداعظم ریذیڈنسی پر حملہ دراصل پاکستان پر حملہ ہے

Post by سید انور محمود »

تاریخ: 23 جون 2013
از طرف: سید انور محمود
[center]قائداعظم ریذیڈنسی پر حملہ دراصل پاکستان پر حملہ ہے[/center]
سولہ مئی دو ہزار نو سری لنکا کی تاریخ کا ایک یادگار دن۔ تقریبا 26 سال بعد سری لنکا کی حکومت اعلان کررہی تھی کہ اسکی فوج نے تامل باغیوں کے رہنما اور ہندوستانی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ ویلوپلائی پربھاکرن کو ہلاک کردیا ہے اورتامل باغیوں نے ہتھیارڈال دیئے ہیں۔ ستر ہزار افراد 26 سال میں اس دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ ان ستر ہزار افراد کے قاتل امریکہ، برطانیہ اور ہندوستان ہیں۔ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را نے 1983میں سازش کرکے سری لنکا کے خلاف مختلف تامل گروپوں کو اکھٹا کرکے لبریشن آف تامل ٹائیگرزایلام "ایل ٹی ٹی ای" بنائی اور اسکے ممبرتامل ٹائیگرز کے نام سے جانے گے۔ اس تنظیم کو بنانےکامقصد یہ تھا کہ سری لنکا کے خلاف ایک منظم باغی تحریک چلائی جاسکے تاکہ سری لنکا کی تامل آبادی کو سری لنکا سے علیدہ کیا جاسکے۔ ہندوستان یوں تو ایک جمہوری ملک ہونے کا دعویدار ہے لیکن 1947 کے بعد سے ابتک ہندوستانی حکمرانوں نے کبھی بھی جمہوری رویہ نہیں اپنایا۔ اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھنے والے ہندوستانی لیڈر ہمیشہ سے جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ پاکستان ہو یا سری لنکا، نیپال ہو یا اُس کا لےپالک بنگلہ دیش، ہندوستانی حکمرا ن ان سب ملکوں کے بارے میں جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ہندوستان کے ان ناپاک عزائم میں اُس کا ساتھ دینے میں امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل پیش پیش رہے ہیں۔ ہندوستانی حکمران اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ انہوں نے سری لنکا کے باغیوں کو کوئی ہتھیار فراہم کئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان نے نہ صرف تامل ٹائیگرز کو سری لنکا حکومت کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں کےلیے ہر قسم کا اسلحہ مہیا کیا بلکہ اِسکے ساتھ ساتھ اپنے صوبے تامل ناڈو سے افرادی قوت بھی مہیا کی، جیسا کہ وہ پہلے سابق مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے لبادئے میں کرچکا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار امریکہ اور برطانیہ اس مشکل وقت میں سری لنکا کا ساتھ دیتے مگر یہ کاروباری ملک پہلے اپنا فاہدہ دیکھتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اُ س وقت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی ہے جس میں سری لنکا سے کہا گیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے ۔ امریکی تھنک ٹینک نے تامل باغیوں کی حمایت کرتے ہوئے ایک رپورٹ میں کہا کہ تامل باغیوں کو تاریخ سے مسخ کیا جاسکتا ہے نہ ہی یہ طاقت کے زور پر جھکیں گے۔ برطانیہ کا سابق وزیر خارجہ ڈیوڈملی بینڈ سری لنکن حکومت کی تامل باغیوں کے خلاف جنگ کے طریق کار کا سخت ترین مخالف رہا اور وہ برطانیہ میں لبریشن آف تامل ٹائیگرزایلام نوازلابی کا ہمدرد سمجھا جاتا تھا۔

پندرہ جون 2013 کو شاید ہی کوئی پاکستانی ہوگا جو اداس نہ ہو۔ اس دن زیارت میں موجود قائداعظم ریذیڈنسی کو دہشت گردوں نے بم دھماکوں سے تباہ کردیا۔ زیارت میں موجود ریذیڈنسی جس میں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے اورجس کے باعث اس کا نام قائداعظم ریذیڈنسی رکھا گیا کوئٹہ سے تقریبا 120 کلومیٹر کے فاصلے پرہے۔ دہشت گردوں کی اس بزدلانہ کارروائی کے بعد پورئے پاکستان میں سوگ اور غم کے بادل چھاگئے۔ چار سے پانچ دہشت گردوں نے کارروائی کرتے ہوئے چار بم دھماکے کئے فائرنگ بھی کی، جس سے وہاں موجود ایک پولیس اہل کار جاں بحق ہوا۔ دھماکوں کے بعد لکڑی سے بنی قائداعظم ریذیڈنسی میں آگ لگ گئی عمارت میں موجود قیمتی نادر ونایاب اشیا بھی جل کر خاکستر ہوگئیں۔ دہشت گرد باآسانی اور بلا خوف و خطر اپنا کام کرکے وہاں سے فرار ہوگئے۔ حملہ آوروں نے ریذیڈنسی سے قومی پرچم اتار کر بی ایل اے کا پرچم لہرایا۔پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سرگرم ایک گوریلا تنظیم بلوچ لبریشن آرمی جو عام طور پر بی ایل اےکہلاتی ہے بلوچستان کی علیحدگی کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ اپنے قیام سے ہی یہ بلوچستان میں گیس لائنیں اڑانے، فوج و پولیس اور غیر مقامی افراد پر حملوں، لوگوں کو گھات لگا کر قتل کرنا ، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں اور صوبہ میں دہشتگردی میں ملوث رہی ہے۔ میر بالاچ مری اس کا پہلا کمانڈر تھا جو 2008 میں افغانستان میں مارا گیا۔ حکومت پاکستان کے مطابق اس دہشت گرد تنظیم کے پیچھے ہندوستانی حکومت کا ہاتھ ہے۔لیکن یہ سب کچھ ایک بہت بڑی سازش ہے، جس کے پیچھے نہ صرف ہندوستان بلکہ امریکہ اور اسکے اتحادی بھی ہیں۔

جہاں تک بلوچستان کے عوام کے سیاسی اور جمہوری حقوق کا تعلق ہے تو بلوچستان کے عوام انتہائی بدنصیب واقع ہوئے ہیں۔ یہاں سرداروں کا ایک مخصوس ٹولہ جو اسٹیبلشمنٹ کے منظورنظر ہیں وہی حکومت کا حصہ بنے۔ ان سرداروں نے کبھی بھی بلوچستان کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ ان کے بچے تو باہر کے ممالک سے پڑھکر آتے ہیں مگر یہ اپنے علاقے میں ایک اسکول بھی قائم نہیں ہونے دیتے۔ بلوچستان کے حوالے سے بہت سارئے مسائل ہیں،معاشی مسائل، روزگار کے مسائل اور تعلیم کے مسائل مگر اسوقت سب سے بڑا مسلئہ گمشدہ افراد کا ہے جن کے بارئے میں کہا جاتا ہے کہ جنرل مشرف کے زمانے سےیہ بری رسم چلی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارئے لوگوں کو پکڑ کر غائب کردیتے ہیں مگر یہ صرف بلوچ عوام کے ساتھ نہیں ہوا ہےبلکہ اسکا شکار تو پورا پاکستان ہے، یہ نہ صرف خلاف قانون ہے بلکہ انسانیت کے کسی بھی پہلو سے اس کو اچھا نہیں کہا جاسکتا۔ اگر دنیا کے مسائل پر نظر ڈالیں تو آپکو اس سے زیادہ بڑے بڑے مسائل ملیں گے مگر دنیا میں کہیں بھی اس قسم کی کوئی تحریک آپکو نہیں ملے گی۔ بلوچستان میں ہندوستان ، امریکہ اور اسکے اتحادی اپنی سازشوں کے جال بچھائے ہوئے ہیں۔ آخر کیوں تواس کا سیدھا جواب ہے کہ بلوچستان نہ صرف معدنی دولت سے مالامال بلکہ جغرافیائی طور پر پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے۔

اوپر ایک چھوٹی سی داستان سری لنکا کی آپ نے پڑھی ہے اُس سے آپکو ہندوستان، امریکہ اور برطانیہ کے اصل چہرئے دیکھنے میں مدد ملی ہوگی۔ جسطرح ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را نے مکتی باہنی اورتامل ٹائیگرز کو دہشت گردی کے لیے استمال کیا ٹھیک اسطرح ہی را نے بلوچ لبریشن آرمی بنائی ۔ ہندوستان کا مسلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کو کبھی بھی ایک پرسکون اور معاشی طور پر ترقی کرتے ہوئے ملک کےنہیں دیکھ سکتا، دوسرئے چین جو پاکستان کا مخلص دوست ہے اور بلوچستان کی ترقی اور خاصکر گوادر کی بندرگاہ کے حوالے سے اُ س کو چین کے کردار پر سخت تکلیف ہے۔ جبکہ پاکستان کا بلوچستان ہی وہ علاقہ ہے جہاں امریکہ سمیت بڑی طاقتوں کی چپقلش عروج پر ہے۔ امریکہ کی پالیسی یہ ہے وسطی ایشیا کو کنٹرول کرنے کے لیے بلوچستان پر کنٹرول لازمی ہے لیکن چین یہ سمجھتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو اسکی معاشی ترقی اور بین الاقوامی قوت کے طور پر ابھرنا اسکے لیے مشکل ہوسکتا ہے۔

ایک امریکی دانشور ایرک ڈرائیسٹر جو نیویارک سٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن میں پیشہ درس و تدریس سے وابستہ ہے اور ایک کالم نگار بھی ہے۔ اُس کا ایک مضمون جس کا عنوان تھا "بلوچستان۔ کراس روڈز آف پراکسی وار" 25 جولائی 2012 کو چھپا اُس میں ایرک نے بلوچستان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے لکھا کہ بظاہر ویران نظر آنے والی یہ زمین اپنی آغوش میں بہت بڑے معدنی خزانے چھپائے ہوئے ہے اور اسکے علاوہ یہ تیل اور گیس کی بین الاقوامی تجارت کے کراس روڈ پر بھی واقعہ ہے اور مستقبل کے سارے گیس پائپ لائنز بھی یہاں ہی سے گذرنے ہیں۔ ایرک نے لکھا کہ ’’ مغربی طاقتیں ایک مضبوط بلوچستان کو ابھرتا نہیں دیکھ سکتیں۔ یہ علاقہ نہ صرف چین کیخلاف استعمال کرنے کیلئے ضروری ہے بلکہ ایران اور پاکستان پر بھی یہاں سے نظر رکھی جا سکتی ہے۔ یہاں پر موجود دہشت گردوں کے مغربی طاقتوں کی سراغ رساں ایجنسیوں سے تعلقات ہیں اور پاکستانی حکومت اور اُسکے سیکورٹی ادارے اس چیز کو بخوبی جانتے ہیں‘‘۔ ایرک نے اپنے مضمون میں قطر کے ایک انگریزی اخبار دی پینیسوالہ کا بھی حوالہ دیا جس کے مطابق "امریکی ایجنسی سی آئی اے مقامی لوگوں کو 500 ڈالر ماہانہ پر بھرتی کر رہی ہے اسکے علاوہ سی آئی اے کا انچارج جنرل پیٹریاس بلوچستان کو غیر مستحکم اور غیر متوازن کرنے کیلئے افغان مہاجرین کو بھی استعمال کرتا رہا ہے"۔ کالم نگار کے مطابق بلوچستان میں سی آئی اے کے علاوہ برطانیہ کی ایم آئی سکس ، اسرائیل کی موساد اور انڈیا کی ایجنسی را ملوث ہیں۔ برطانیہ کی ایم آئی سکس کے تو بلوچستان لبریشن آرمی سے اسکے بننے کے کچھ عرصہ بعد ہی سے تعلقات ہیں۔ امریکی کانگرس کے دانا روہر باچر جیسے کئی قانون دان بھی اس سازش میں شریک ہیں اور بلوچستانیوں کو حقِ خود ارادیت دینے کی باتیں کر رہے ہیں۔ دانا روہر باچر امریکی حکومت کو صلاح دیتا رہا ہے کہ دہشت گردوں سے تعلقات قائم کرو اور پاکستان کی جمہوری حکومت سے رشتے توڑ لو۔ ان تمام سازشوں کا مقصد یہ ہے بلوچستان کو پر امن نہ رہنے دیا جائے کیونکہ اسکے پیچھے امریکہ کا ایک بہت بڑا مقصد یہ ہے کہ اگر امریکہ بلوچستان کو کنٹرول نہ بھی کرپائے تو چین بھی بلوچستان میں سکون سے اپنی سرمایہ کاری نہ کر سکے یعنی معدنی ذخائر کو نکالنے میں اور گوادر پورٹ بنانے میں چین کے کردار کو روکنا مقصود ہے اور یہ ہی مقصد ہندوستان اور ہندوستانی لیڈروں کا ہے تاکہ پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر ترقی نہ کرسکے۔

گیارہ مئی کے الیکشن کے بعدوزیر اعظم نواز شریف نے جو دو سیاسی فیصلے کیے اور مولانا فضل الرحمان کی سازشوں کا شکار نہیں ہوئے وہ یقینا قابل تعریف ہیں ، انکا پہلا فیصلہ صوبہ خیبرپختوخواہ میں تحریک انصاف کی اکثریت کو تسلیم کرنا اور وہاں انکی حکومت بغیر کسی رکاوٹ کے تشکیل ہونے دینا۔ جبکہ انکا دوسرا فیصلہ صوبہ بلوچستان میں اکثریت ہونے کے باوجود دوسری جماعت سے وزیراعلی بنانے کا فیصلہ جس کی وجہ سے آج ڈاکٹر عبد المالک بلوچ بلوچستان کے وزیراعلی ہیں۔ اب ایک کام وزیر اعظم نواز شریف اوروزیراعلی ڈاکٹر عبد المالک بلوچ ملکر کردیں وہ یہ کہ بلوچستان میں ہونے والی سازشوں، غیر ملکی ایجنٹوں، ملک کے غداروں اور دہشت گردوں کے خلاف کے خلاف ایک گرینڈ آپریشن کرکے ہمیشہ کےلیے ان کا وجود ختم کردیں کیونکہ زیارت میں موجود قائداعظم ریذیڈنسی پر حملہ دراصل پاکستان پر حملہ ہے۔ بلوچستان کے محب وطن عوام ان سے چھٹکارا چاہتے ہیں، یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے ماننے والے نہیں۔ سری لنکا اور ہندوستانی دہشت گرد تامل ٹائیگرز کی داستان ہمیں ایک ہی سبق دیتی ہے کہ دہشت گردوں اور غداروں سے جبتک انکے انداز میں بات نہ کی جائےوہ قابو میں نہیں آتے۔
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔
سید انور محمود
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: قائداعظم ریذیڈنسی پر حملہ دراصل پاکستان پر حملہ ہے

Post by چاند بابو »

بہت شکریہ محترم سید انور محمود صاحب بلوچستان کے مسئلے پر نہایت جامع مضمون لکھنے کا.
یہ سچ ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ پاکستان یا بلوچیوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے بین الاقوامی طاقتیں کارفرما ہیں جو نہیں چاہتیں کہ پاکستان کبھی بھی ایک کامیاب ملک کے طور پر ابھرے اور بلوچستان کے وسائل سے استفادہ کر سکے.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “سیاست”