اسلام آباد میں ایک اور تحریر سکوائر؟

ملکی اور عالمی‌ سیاست پر ایک نظر
Post Reply
سید انور محمود
کارکن
کارکن
Posts: 180
Joined: Wed Aug 03, 2011 6:14 pm
جنس:: مرد

اسلام آباد میں ایک اور تحریر سکوائر؟

Post by سید انور محمود »

تاریخ: 7 جنوری 2013
از طرف: سید انور محمود

[center]اسلام آباد میں ایک اور تحریر سکوائر؟[/center]مصر کی جدید سیاسی تاریخ اقتدار میں آنے والی کئی شخصیات کے عروج و زوال اور عالمی طاقتوں کی اِس خطے میں مسلسل دلچسپی کی وجہ سے بھرپور ہے۔ مصر میں شہنشاہیت کا اختتام انیس سو باون میں ہوا جب فوج کے چند افسروں نے شاہ فاروق کا تختہ الٹ دیا۔پہلے صدر جنرل محمد نجیب اور ایک مختصر سے عرصے کے بعد جمال عبدلناصر 1954سے1970 میں اپنی وفات تک مصر کے دوسرے صدر رہے۔ جمال عبدلناصر کے بعد ایک اور فوجی فیلڈ مارشل انور سادات 15 اکتوبر 1970سے 6 اکتوبر 1981 کو اپنے قتل تک مصر کے تیسرے صدر تھے۔ ستمبر 1981ء میں سادات نے اپنے مخالفین دانشوروں اور تمام نظریاتی تنظیموں کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا اور کمیونسٹوں، اسلام پسندوں، جامعہ کے معلمین، صحافیوں اور طلبہ تنظیموں کے کارکنوں کو قید خانوں میں ڈال دیا گیا۔ اس مہم کے دوران 1600 افراد زیر حراست ہوئے جس کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی۔ اس آپریشن کے ایک ماہ بعد 6 اکتوبر کو قاہرہ میں "یوم فتح پریڈ" کے موقع پر انور سادات کو قتل کردیا گیا۔ انور سادات کے بعد ایرچیف مارشل محمد حسنی سید مبارک منصب صدارت پر فائز ہوئے۔ وہ ہر 6 سال بعد الیکشن کرواکر اگلے 6 سال کے لیے صدر بن جاتے تھے۔ بظاہر ایک بے ضرر شخصیت ہونے کی وجہ سے کم لوگوں کو یہ توقع تھی کہ وہ اتنے لمبے عرصےتک برسرِ اقتدار رہیں گے۔ لیکن انہوں نے صدر سادات کے قتل کی وجہ بننے والے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کو عالمی سطح پر اپنی صلاحیتیں منوانے کے لیے استعمال کیا۔ یوں وہ مغربی طاقتوں کے منظور نظر بن گئے۔ انہوں نے اپنے پورے عرصۂ اقتدار میں ملک میں ہنگامی حالت کے سہارے حکومت کی جس کے تحت شہری آزادیاں سلب کرلی گئیں اور فوج اور سیکیورٹی اداروں کو وسیع اختیارات حاصل رہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی، علاقائی سیاست میں ان کی گھٹتی ہوئی اہمیت اور بگڑتی صحت کے ساتھ ساتھ ان کے بعد جانشینی کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات نے مصری عوام میں مختلف شبہات کو جنم دیا۔ تیونس میں انقلاب کے بعدجنوری 2011 میں مصری عوام میں بیداری کی ایک لہر نے جنم لیا۔ اور عوام حسنی مبارک کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی۔ قاہرہ کا تحریر سکوائر جمہوریت پسند لوگوں کا ٹھکانہ بن گیا۔ 11 فروری 2011 کو حسنی مبارک کے صدارتی عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا گیا۔اٹھارہ روزہ احتجاج میں 300 سے زیادہ افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوے۔الیکشن میں اخوان المسلمون نے کامیابی حاصل کی اور اسطرح مصر میں 62 سال بعد جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ مصری صدر ڈاکٹر مرسی کے ایک فرمان کے خلاف بھی قاہرہ کا تحریر سکوائرایک مرتبہ پھراحتجاج کا گڑبناتھا۔

14 اگست 1947کو پاکستان کا وجود عمل میں آیا، پہلے پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان تھے۔ قائداعظم کی رحلت اور 1952 میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستانی جمہوریت لولے لنگڑے انداز میں 1958 تک چلتی رہی۔ ایوب خان ، یحی خان، ضیاالحق اورپرویز مشرف یہ چاروں فوجی حکمراں 35 سال کے قریب اس قوم پر مسلط رہے۔ آدھا ملک ختم ہونے کے بعد ایک سویلین ذوالفقارعلی بھٹو کو حکومت ملی مگر اسکو ضیاالحق نےپھانسی چڑھادیا۔ ضیاالحق کے بعدپھر مجبورا جمہوریت لانی پڑی تو پھر دو دو سال کا کھیل شروع کردیا اور پھر پرویز مشرف مسلط ہوگے۔ مجبوری سے گے تو پھر جمہوریت لوٹی۔ بھارت میں آزادی کے بعد سے آج تک کسی جنرل میں اتنی ہمت نہیں کہ حکومت پر قبضہ کرنے کی سوچے اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہاں کا عام ووٹر اپنے ووٹ کی اہمیت کو جانتا ہے، دوسرئے بھارتی سیاستدان اپنی ہار کو تسلیم کرنے کو بھی اصل جمہوریت سمجھتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ جنرل خود آگے بلکہ اس کے سو فیصد قصوار ہمارے سیاستدان ہی ہیں۔لیاقت علی خان کے بعد ہمارے ملک میں اتنی تیزی وزیراعظم بدلے گےکہ اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم نے ہماری جمہوریت پسندی پر یہ کہہ کر طمانچہ مارا تھا کہ جتنی میں دھوتیاں نہیں بدلتا ہوں اس سے زیادہ پاکستان میں وزیراعظم بدل جاتے ہیں۔

پورا ملک موجودہ حکمراں ٹولے سے پریشان ہے، اس کے دورمیں کرپشن کے عالمی ریکارڈ ٹوٹ گے ہیں، امن وامان ناپید ہوگیا ہے ، ملک معاشی طور پر برباد ہوچکا ہے، دہشت گردی بے قابو ہے اور ملک کا ہر ادارہ اس حکمراں ٹولے نے برباد کردیا ہے۔ اب عوام کو امید ہوئی کہ شاید ان سے جان چھوٹ جائےگی۔ ایسے میں علامہ طاہرالقادری کی آمد اور سیاست نہیں ریاست بچاو کا نعرہ اور پھر اُس میں ترمیم۔ 23 مارچ کے اُنکے جلسے میں ایم کیو ایم کے ایک بڑے وفد کی شرکت، پھر ایم کیو ایم کی دعوت پر کراچی آکر ایک جلسے سے خطاب اور ایم کیو ایم جو حکومت کی اتحادی ہے علامہ کے اسلام آباد کے دھرنے میں شرکت کا اعلان۔ نہ سمجھ میں آنے والی سیاست ہے، نہ علامہ صاحب اور نہ ہی ایم کیو ایم غلط ہیں اور نہ ہی انکے مطالبے۔ علامہ صاحب کا یہ مطالبہ کہ اچھے کردار کے لوگوں کو حکومت میں آنا چاہیے اور نہ ہی ایم کیو ایم کا یہ مطالبہ کہ جاگیرداری نظام کو ختم ہونا چاہیے غلط ہیں مگر ان مطالبات کا وقت غلط ہے۔ موجودہ حکمراں ٹولہ تو چاہتا ہی یہ ہے کہ وہ پھر مظلوم بن جاے، اس لیے اپنے ایک وزیراعظم کو عدالت کے زریعےسیاسی شہید کرواچکے ہیں۔ اب اگر 14 جنوری کو یا اسکے بعدیہ لولی لنگڑی جمہوریت ختم ہوی تو لٹیروں کا یہ ٹولہ ایک مرتبہ پھر مظلوم بن جایگا اور اس ملک کا مقدرمیں پھر اندھیرا ہوگا۔ کیا قائد اعظم نے 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان کے منظور ہونے کے بعد یہ کہا کہ عوام نے منظوری دے دی ہے لہذا آج سے پاکستان بن گیا۔ انہوں نے جمہوری انداز سے یہ ملک حاصل کیاہے، لہذا ہمارا انداز فکر جمہوری ہونا چاہیے۔ آج کی مت سوچیں کیونکہ سیاست ایک سائنس ہے اور سائنس کا اصول ہے تھیوری پھر پیرٹیکل پھر تھیوری اور یہ عمل بار بار کرنا پٹرتا ہے پھر کہیں جاکر نتیجہ حاصل ہوتا ہے، یہ ہی آپکو مستحکم جمہوریت کے لیے کرنا پڑے گا۔ ہوسکتا ہے اگلے الیکشن کے بعد بھی مطلوبہ نتایج نہ ملیں لیکن باربار اس عمل کو دھرانے کے بعد انشااللہ پاکستان میں جاگیردارنہ نظام بلکہ دوسرئے مسائل بھی ختم ہوجاینگے۔ اس لیے علامہ طاہرالقادری اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو سوچنا چاہیئے کہ وہ کس طرح جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھ سکتے ہیں۔ انکے آج کے عمل کو آنے والا مورخ ضرور لکھے گا۔اس لیے سوچ لیں کہ آپ اسلام آباد میں ایک اور تحریر سکوائربنانا چاہتے ہیں یا تاریخ میں اپنے بارے میں اچھی تحریر چاہتے ہیں۔
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔
سید انور محمود
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: اسلام آباد میں ایک اور تحریر سکوائر؟

Post by چاند بابو »

جہاں تک میری سوچ کا تعلق ہے طاہرالقادری اور الطاف حسین جیسے لوگ جمہوریت یا اچھی سیاست کے لئے کوشاں نہیں ہیں بلکہ یہ تو سیاست اور جمہوریت کا بستر لپیٹنے کے لئے سرگرم ہیں.
یہ تو وہ قوتیں ہیں جو پچھلے ساٹھ سالوں سے ہماری سیاست کی بساط اپنے من مانے طریقے سے بچھاتی آئی ہیں. ہر بار ایک نئے چہرے اور ایک نئے نعرے کے ساتھ عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے.
اب جمہوریت اور سیاست کا نعرہ کافی گھس پٹ چکا ہے اس لئے اس بار اسلام اور نفاذِ اسلام کا نعرہ گونجنا شروع ہو گیا ہے.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
علی خان
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 2628
Joined: Fri Aug 07, 2009 2:13 pm
جنس:: مرد

Re: اسلام آباد میں ایک اور تحریر سکوائر؟

Post by علی خان »

میرے خیال میں ایک قاتل اور ایک دروغ گوہ و گستاح رسول کبھی کبھی بھی سچے مسلمان اور مخلص نہیں‌ہو سکتے ہیں.
میں آج زد میں ہوں خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں .
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: اسلام آباد میں ایک اور تحریر سکوائر؟

Post by میاں محمد اشفاق »

ہم عوام واقعی ذہنی مریض بن کر رہ گئے ہیں کہ کس کا ساتھ دیں بس کپڑے ہی بدلے جاتے ہیں چہرے وہی ہیں جن کو ہم پہلے بھی آزما چکے ہیں اور جو نئے چہرے ہیں ان کی نیتیں اور ان کے کارنامے عوام پہلے سے ہی جانتے ہیں میرے بھی خیال کے مطابق اب پاکستان کو ایک معجزانہ انقلاب کی اشد ضرورت ہے مگر انقلاب لانے کے لئے عوام کا بھی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ضروری ہے جو شائد پاکستانی عوام ابھی بھی نہیں ہے سابقہ حکومتوں نے جو کچھ عوام کے ساتھ کیا سب کو معلوم ہے مگر اب بھی دیکھ لیں عوام نعرے لگا رہے ہیں کہ بھٹو ذندہ ہے فلاں ذندہ ہے اگر کل کو ذرداری مر گیا تو یہی عوام کہے گی ذرداری ذندہ ہے بحث تو چلتی رہتی ہے مگر تاریخ کے اووارق پر نظر دوڑائیں تو بھی یہ ہی نتیجہ ہر با ہوش انسان اخذ کرے گا کہ جب تک کسی ریاست کی عوام بہتری نہیں چاہے گی تب تک اس ریاست کا کچھ نہیں ہو سکتا حال اور ماضی سے آپ اور ہم بہت کچھ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہم نہ کیا کھویا اور کیا پایا اور اس کی کیا وجوہات ہیں : جب ہم عوام ایک سچے مسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں پھر شائد ہماری آنے والی نسل کو ایک اچھا مستقبل مل سکے گا
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
Post Reply

Return to “سیاست”