[center]وہ بے نیاز بیٹھے رہے دل لیے ہوئے
اپنی نگاہ ناز کا حاصل لیے ہوئے
یہ کون فاصلوں کو ہی مہمیز کر گیا
راہیں رواں دواں رہیں منزل لیے ہوئے
آزادئ جنوں کے وہ موسم گزر گئے
بکھری ھے زلف یار سلاسل لیے ہوئے
گھونگھٹ اٹھا رہی ہے جو دانش ردائے شام
بدلی کی اوٹ میں مہ کامل لیے ہوئے[/center]