صیحت و تندروستی

اپنی تجاویز ، رائے ، تبصرے اور فورم سے متعلق شکایات وغیرہ یہاں درج کریں
Post Reply
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

صیحت و تندروستی

Post by رضی الدین قاضی »

ڈاکٹر بنیا مین صاحب جب اس فورم کے رکن بنے تب یہ خیال آیا کہ ان کے شایان شان کوئی دھاگہ شروع کیا جانا چاہے۔ تو ‘صیحت و تندروستی‘ شروع کر رہا ہوں ۔ امید ہے ڈاکٹر صاحب اپنے تجروبات یہاں شیئر کریں گے۔ ویسے تمام اراکین اردو نامہ اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

پہلے تو یہ بتائے کہ ڈاکٹر بنیامین صاحب ہیں کون سے ڈاکٹر کیونکہ ابھی تک میرا ان سے تعارف نہیں ہے۔ کیا انہوں نے کہیں اپنا تعارف لکھاہے۔اگر نہیں تو پھر آپ کہاں کے تھانیدار ہیں کہ ان سے تعارف حاصل نہیں کر سکے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

جی بجا فرمایا آپ نے ۔
نیا نیا عہدہ ہے سیکھتے سیکھتے سکھ جاؤنگا۔ اس سے پہلے کبھی
تھانیداری نہیں کی۔ڈاکٹر صاحب جلدی سے اپنا تعاروف کرایئے۔
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

غیر ضروری ٹیسٹ جو مہلک بھی ہیں

Post by رضی الدین قاضی »

ترقی یافتہ ممالک میں امراض کی تشخیص کے لئے کئے جانے والے ۳۰ فیصد لیباریٹری ٹیسٹ قطعاً غیر ضروری ہوتے ہیں ۔ تشخیص امراض میں مریض کا قیافہ زبان قارورے اور سب بڑھ کر نبض کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ہماری قیمتی میراث یعنی طب اسلامی کے علاوہ دنیا کے اکثر قدیم اور باقاعدہ طبی نظام نباضی کو بڑی اہمیت دیتے ہیں ۔طب اسلامی کے اطبا نے تو اس فن میں کمال و عروج کی حدوں کو چھو لیا ہے۔ماضی میں طب جدید کے معالجین بھی نبض دیکھنے کے علاوہ سانس اور قلب کی آوازوں ،پیٹ کی قراقر،آنتوں کی سختی اور نرمی کا اندازہ کر کے مرض کی تشخیص کر لیتے تھے ،لیکن اب ان کا تمام تر انحصار مختلف تشخیصی مشینوں اور لباریٹریوں میں ہونے والے بے شمار امتحانات کی رپورٹوں پر ہے۔ان لباریٹریوں میں ۱۳۸۰ قسم کے ٹیسٹ ہوتے ہیں ۔تشخیصی مشینوں میں سے بیشتر کا علم تو اب تقریباً سبھی کو ہے ۔ان مشینوں اور لیباریٹری کے امتحانات کے بغیر ہر معالج خود کو علاجِ امراض کے سلسلے میں تقریباً بے بس پاتا ہے ۔
ایک ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے ہندوستان میں بھی یہ سلسلہ روز افزوں ہے۔ہمارے شہروں کے ہر گلی کوچے میں اب تشخیصی مراکز کھل رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اگرچہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں تاہم حالیہ انکشافات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لیباریٹریاں خوب چل پڑی ہیں اور ہم بھی کروڑوں روپئے ان کی نذر کر رہے ہیں جب کے ان میں سے اکثر کو غیر مستند افراد چلا رہے ہیں جن کی ٹیسٹ رپورٹوں ہی کی بنیاد پر معالجین مریضوں کا علاج کر رہے ہیں ۔پچھلے دنوں ایک صاحب کھانسی بخار میں مبتلا ہوئے۔چونکہ وہ بکثرت سگریٹ نوشی کرتے تھے ان کے ڈاکٹر نے سینے کا ایکس رے تجویز کر دیا ۔ایکس رے رپورٹ میں ان کے پھیپھڑے میں رسولی تشخیص کی گئی۔ڈاکٹر صاحب نے اس کی بنیاد پر تشخیص کر دی کہ مریض پھیپھڑے کے سرطان میں مبتلا ہے جسے سنتے ہی اس کی حالت غیرہوگئی ۔گھر والے اسے اسپتال لے گئے جہاں ازسرنو ایکس رے لئے گئے اور متفقہ طور پر نمونیا تشخیص کیا گیا جس سے مریض صحت یاب بھی ہوگیا ۔
اب تو یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ ایک تواس قسم کے کئی ٹیسٹ غیر ضروری ہوتے ہیں۔دوسرے ان کی رپورٹیں اکثر اوقات گمراہ کن ہوتی ہیں ۔بعض رپورٹیں بلاوجہ کسی سخت لیکن بے بنیاد مرض کی نشاندہی کرتی ہیں تو بعض اصل مرض کا کھوج لگانے ہی سے قاصر رہتی ہیں اورمریض مرض کے چنگل میں بری طرح پھنس کر چل بستا ہے۔خواتین کے چھاتی کے سرطان کا مخصوص امتحان پیپ ٹیسٹ کہلاتا ہے ۔امریکی ہفتہ وار ’ٹائم‘ کے مطابق یہ اور کیسٹرول کے اکثر ٹیسٹ غلط ہوتے ہیں۔امریکی حکومت بھی اب محسوس کر رہی ہے کہ وہاں کی اکثرلیباریٹریاں غیر معیاری ہیں اور ان کی رپورٹیں بھی غیر معتبر ہوتی ہیں۔امریکی حکومت اس سلسلے میں ضروری قانون سازی پر غور کر رہی ہے۔امریکی حکومت نے اس بات کا بھی نوٹس لیا ہے کہ اکثر ڈاکٹر غلط ٹیسٹ تجویز کرتے ہیں اور وہ ان رپورٹوں کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی بناءپر غلط علاج کرتے ہیں جو بسا اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں ۔یہ تو حال امریکہ کا ہے ۔ہمارے جیسے ملکوں میں بعنوان شفا یابی و علاج و تشخیص امراض ہر روز کتنے بھلے چنگے افراد موت کے گھاٹ اتارے جاتے ہیں ۔اس کا اندازہ ان حقائق سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔جب کوئی اعلیٰ خدمت اور شریفانہ پیشہ تجارت بن جاتا ہے تو ہوس زر یہی کرشمے دکھاتی ہے۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

بہت بہت شکریہ رضی بھائی۔
ویسے یہ مضمون پپو بھائی کے لئے خاصہ اہمیت کا حامل ہو گا کیونکہ پپو بھائی بھی اسی پیشے سے منسلک ہیں اور ان کا کام بھی تشخیص ہے وہ بھی لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے۔ :lol:
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

او ہو !
اگر پپو بھائی اسی پیشہ سے منسلک ہیں تو شاید انہے یہ پسند نہ آئے ۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

رضی بھائی حق بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہئے چاہے کوئی برا محسوس کرے یا نہ کرے۔ :lol: :lol: :lol: :lol: :mrgreen:
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

بجا فرمایا آپ نے۔ ویسے بھی پپو بھائی کے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ اس کو پڑھ سکے۔
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

نمک

Post by رضی الدین قاضی »

آٓپ نے بڑے بوڑھوں کو اکثر یہ کہتے سنا ہو گا کہ نمک کا استعمال کم سے کم کرنا چاہیے اس سے غصے میں کمی واقع ہوتی ہےجی ہاں یہ بات بالکل سچ ہے۔ جہاں نمک کا کم استعمال آپ کو غصے پر قابو پانے میں مدد دیتا ہے وہیں نمک آپ کو موٹاپے جیسی بیماری سے دوچار ہونے سے بھی بچاتا ہے۔ بچپن کی خوراک میں نمک کا استعمال کم رکھنے ، میٹھے سافٹ ڈرنکس کا استعمال کھی کبھار کرنے سے جہاں موٹاپے سے نجات مل سکتی ہے وہاں بڑھتی ہوئی عمر میں دل کےدورے کے امکانات بھی کم ہوتے جاتے ہیں۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق اگر آپ اپنے بچے کو موٹاپے سے بچانا چاہتے ہیں تو ا سکی خوراک میں نمک کم کر دیں، اسی طرح میٹھے سافٹ ڈرنک زیادہ پینے سے بچے موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں جو نوجوانی میں ان کی صحت کے لئے بہت سے مسائل پیدا کرتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق اگر بچوں کی عمریں 4 سے 15 کے درمیان ہیں تو ان کی روزانہ کی خوراک میں نمک نصف مقدار مین کم کردیں اس طرح انہیں ہفتے میں دو مرتبہ میٹھے سافٹ ڈرنکس پینے کی اجازت دیں۔ کیونکہ جس قدر زیادہ نمک کھایا جائے گا اسی قدر میٹھے مشروب کی طلب ہوگی اور دونوں چیزوں کی زیادتی وزن میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق خوراک میں سے روز ایک گرام نمک کم کر دینے کا مطلب 100 گرام میٹھا سافٹ ڈرنک نہ پینا ہے۔ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق ایک صحت مند فرد کے لئے دن مین ایک چائے کی چمچ کے برابر نمک لینا کافی ہے۔ برطانیہ میں پراسڈ فوڈ جیسا کہ ٹماٹر ساس ، سوپ یا یخنیوں اور بند ڈبوں میں موجود کھانوں میں نمک کی مقدار 100 کے مقابلے صرف 58 فیصد ہوتی ہے۔
انسان عمر کے کسی بھی حصے میں ہو موٹاپے اس کے لئے ایک بیماری کی حیثیت ہی رکھتا ہے اور یہ بیماری جس قدر زیادہ ہو گی اسی قدر مسائل میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

بند گوبھی : کینسر کے مریضوں کو راحت

Post by رضی الدین قاضی »

آج کل جہاں ہر انسان بیماریوں سے بچاؤ کے لئے نئی نئی ریسرچ کر رہا ہے وہیں بند گوبھی کے حوالے سے بھی ایک ریسرچ ہوئی جس میں پتہ چلا کہ اس میں ایسے غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں جن میں بہترین اینٹی آکسیڈنٹ پائے جاتے ہیں۔ بند گوبھی میں سب سے اہم اینٹی آکسیڈ نٹ فائٹو نیوٹرینٹ ہے جو ہمارے خلیوں میں توڑ پھوڑ کرنے والے عناصر سے لڑتا ہے۔ ہمارے جسم میں کچھ ایسے ریڈبکلز پیدا ہوجاتے ہیں جو خلیوں کو تباہ کرتے ہیں اور اس سے کینسر جیسا خطرناک مرض پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ بند گوبھی میں موجود فائٹو نیوٹرینٹ ہمارے خلیوں کو ایسے انزائم پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے جو خلیوں کو نقصان پہنچانے والے عناصر کے کلاف ایک ڈھال کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ جو کینسر سےبچاؤ کا سبب بنتے ہیں۔
امریکہ میں ریسرچ کے دوران بریسٹ کینسر کی مریضہ کو روزانہ تازہ بند گوبھی مختلف شکلوں میں کھلائی گئی۔ 4 ماہ بعد جب اس کا دوبارہ چیک اپ کیا گیا تو اس کی رپورٹس اتنی حوصلہ افزا تھیں کہ ڈاکٹر حیران رہ گئے۔ اس ریسرچ کے بعد ڈاکٹرز کا کہنا ہے بند گوبھی کو عموما ذائقہ دار نہ سمجھتے ہوئے اس کا استعمال بہت کم کیا جاتا ہے۔ لوگ اس سبزی کا استعمال صرف سلاد یا چائنیز فود میں ہی کرتے ہیں۔ لیکن اگر لوگوں کو بند گوبھی کے فوائد کے بارے میں معلوم ہو تو وہ یقیناََ اس کے استعمال میں اضافہ کر لیں گے۔ امریکن ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ بند گوبھی کے فوائد مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے یکساں مفید ہیں اور اس کا استعمال کھانے میں زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

بہت خوب رضی بھائی اچھے جا رہے ہیں۔کافی مفید معلومات فراہم کی ہیں نمک اور بند گوبھی کے بارے میں آپ نے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

بہت بہت شکریہ !
شکریہ اس لیئے بھی کہ آپ کے پاس وقت نہ ہوتے ہوئے بھی آپ نے وقت نکال لیا۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

کوئی بات نہیں بھائی میں کوشش کرتا ہوں کہ ہر ممکن فورم پر حاضری ضرور دے سکوں۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

شکریہ !
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

کینسر کا علاج

Post by رضی الدین قاضی »

آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدان جسم کے اندر بلبلے بنا کر ان کے پھٹنے سے پیدا ہونے والی توانائی کے ذریعے کینسر زدہ حصوں کا علاج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے ایک ایسا آلہ بنایا ہے جو جسم میں الٹرا ساؤنڈ کی شعاعیں داخل کرے گا اور کینسر کی جگہ پر بلبلے پیدا کرے گا۔ جب یہ بلبلے پھٹیں گے تو ان سے خارج ہونے والی توانائی کی حدت سے متاثرہ خلیہ مر جائے گا۔
یورپ کے معا لجوں کا ارادہ اس نئی تکنیک کو تجرباتی علاج میں استعمال کرنے کا ہے۔ اور اسے گردے اور جگر کے کینسر کے علاج کے لئے استعمال کیاجائے گا۔
اس ہائی انٹینسیٹی فوکسڈ الٹراساؤنڈ ( ہائیفو) کا تجرباتی علاج آکسفورڈ کے چرچل ہسپتال میں کیا جائے گا۔
مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ طریقہء علاج مریض کا جسم کھولے بغیر بھی اتنا ہی پراثرہے جتنا کہ جراحی۔ اس سے صحت مند خلیوں کو پہنچنے والے اس نقصان کو بھی محدود کیا جاسکتا ہے جو ریڈیو تھراپی کے طریقہ ء علاج میں ہوتا ہے۔
ہائیفو میں انسانی جسم کے باہر ہی سے جسم میں موجود حصے کو مرکز بنا کر ایک محدود حصے میں انتہائی گرمی پہنچائی جاتی ہے جو خلیے کو مارتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے سورج کی روشنی کو محدب عدسے سے گزار کر کاغذ کو جلا سکتے ہیں۔
ہائیفو میں کم فریکوینسی کی الٹرا ساؤنڈ شعاعیں استعمال کی جاتی ہیں جو معالجوں کے لئے جسم کے بہت اندر تک کینسر زدہ حصوں کے علاج میں مدد دیتی ہیں۔ باریک شاعوں کے ٹکرانے سے توانائی محدود پیمانے پر پیدا ہوتی ہے جس متاثرہ خلیے تو مر جاتے ہیں لیکن صحت مند خلیے محفوظ رہتے ہیں۔
لیکن موجودہ ہائیفو تکنیک میں جراحی کی نسبت دو اہم حدود ہیں جو اسے عملی شکل دینے میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔ پہلی یہ کہ یہ بہت سست رفتار طریقہء کار ہے۔ اس میں دس سینٹی میٹر کے کینسر زدہ حصے کے علاج میں پانچ گھنٹے صرف ہوتے ہیں جبکہ سرجن پینتالیں منٹ میں متاثرہ حصے کو کاٹ کر الگ کر دیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ معالج اندھیرے میں کام کرتے ہیں اور اس دوران کسی قسم کی دوسری جراحی نہیں کی جاتی۔ اور نتائج کا اندازہ صرف علاج کے ختم ہونے پر ہی کیا جاسکتا ہے۔
اس طریقہ ء علاج کی بانی آکسفورڈ بائیو میڈیکل الٹراسانکس اینڈ بائیو تھراپی لیبارٹری کے ڈاکٹر کانسٹینٹن کوسیوس ہیں۔


User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

بہت شکریہ رضی بھائی اچھی معلومات شئیر کرنے کا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

اندھے پن کی وجہ دریافت

Post by رضی الدین قاضی »

سائنسدانوں کی ایک تحقیق کے مطابق بینائی ختم ہونے کے لگ بھگ تین چوتھائی واقعات انسانوں میں پائے جانے والے صرف دو جین سے تعلق رکھتے ہیں۔
سائنسی جریدے ’نیچر جینیٹِکس‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں کو امید ہے کہ ان کی اس دریافت سے اندھےپن کے علاج کے بہتر طریقے تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
ایج ریلیٹیڈ مکیولر ڈیجنیریشن یعنی اے ایم ڈی ہر سال پوری دنیا میں عمررسیدہ لوگوں میں بینائی کے خاتمے کی اہم وجہ ہے۔ اے ایم ڈی کا مطلب ہے کہ آنکھ کے تِل سے آہستہ آہستہ روشنی جانے لگتی ہے۔
ماضی میں سائنسدان یہ سمجھتے رہے کہ فیکٹر ایچ نامی ایک جین کی کئی اقسام اے ایم ڈی کی وجہ بنتے ہیں۔ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اپنی تازہ تحقیق میں فیکٹر ایچ کے علاوہ دوسرے جینوں پر بھی توجہ دی ہے۔
فیکٹر ایچ جسم میں ایک ایسے پروٹین پر حاوی ہوتا ہے جو انفیکشن سے نمٹنے کی قوت مدافعت کو بےکار کردیتا ہے۔ جن لوگوں کے جسم میں وراثتی طور پر فیکٹر ایچ ہوتی ہے وہ بڑھاپے میں اے ایم ڈی کا شکار ہوجاتے ہیں یعنی ان کی بینائی ختم ہونے لگتی ہے۔
تاہم ماضی میں سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ تین میں سے ایک شخص فیکٹر ایچ کے باوجود اے ایم ڈی کا شکار نہیں ہوتا ہے۔ اب نئی تحقیق میں فیکٹر بی نامی ایک جین کی بھی شناخت کی گئی ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے تیرہ سو افراد کا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ فیکٹر ایچ قوت مدافعت کو نقصان پہنچاتا ہے لیکن فیکٹر بی نامی جین قوت مدافعت کو بہتر کرتا ہے۔
لیکن اس تحقیق میں اہم بات یہ ہے کہ یہ دونوں جین ایک دوسرے کے لیے تکمیلی کردار انجام دیتے ہیں: مطلب یہ کہ اگر فیکٹر ایچ کسی شخص میں موجود ہے اور اسے بینائی کے خاتمے کا خطرہ ہے تو فیکٹر بی اس کے خلاف قوت مدافعت فراہم کرتا ہے۔ دونوں جین ایک دوسرے پر منحصر ہونے کی وجہ سے اپنا کردار تبدیل کرسکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ فیکٹر ایچ موجود ہونے کے باوجود تین میں سے ایک شخص اندھا نہیں ہوتا ہے۔ سائنسدانوں نے پتہ چلایا ہے کہ چوہتر فیصد افراد میں، جو اے ایم ڈی کا شکار تھے، فیکٹر ایچ یا فیکٹر بی یا دونوں جین موجود تو تھے لیکن ان کی کوئی ایسی قسم موجود نہیں تھی جو انہیں قوت مدافعت فراہم کرتی۔
لہذا اب نئی تحقیق کی بنیاد پرسائنسدانوں کا خیال ہے کہ بینائی کے خاتمے کے تین چوتھائی واقعات کی وجوہات کا تعلق فیکٹر ایچ اور فیکٹر بی کے اقسام سے ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس جنیاتی دریافت سے نابینا لوگوں کے لیے علاج کے نئے طریقے تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
:lol:
Post Reply

Return to “آپکی رائے، تجاویز، اور شکایات”