مسافر
لٹے قافلوں کے مسافر گزیدہ
گھنے جنگلوں کے سفر میں دمیدہ
کسی زرد پتے کی صورت خزاں کی
ہواؤں کے گرداب و طوفاں میں بکھرے
دکھوں کی برستی ہوئی شبنموں میں
زمینوں پہ بے جاں پڑے ہیں کبیدہ
جزیرہ نما منزلوں کے یہ راہی
فغاں نا رسیدہ ، بیاں آبدیدہ
خمیدہ پریشاں ، شجر سے بریدہ
زمستاں کی سفاک قاتل فضا میں
کوئی سرد سینوں میں مشعل جلا دو
جو شب بھرجلے گرم رکھے جنوں بھی
نکالو کہیں سے وہ سورج تپیدہ
مری زندگی کے جو ظلمت کدوں کو
نئی روشنی کے شراروں سے بھر دے
ندیدہ زمانے کے ان مقتلوں پر
بدن سربریدہ ، دہن با دریدہ
گذرتے ہویے خوابدیدوں سے پوچھوں
کہ درویش کیسے لکھے ظلمتوں میں
زمانے کے شاہوں کا روشن قصیدہ
لٹے قافلوں کے مسافر ہیں سارے
فغاں نا رسیدہ ، بیاں آبدیدہ
فاروق درویش
مسافر
-
- کارکن
- Posts: 38
- Joined: Sun Jan 08, 2012 7:38 pm
- جنس:: مرد
- Location: لاہور
- Contact:
-
- ٹیم ممبر
- Posts: 40424
- Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
- جنس:: عورت
- Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه
Re: مسافر
فاروق درویش wrote:مسافر
گذرتے ہویے خوابدیدوں سے پوچھوں
کہ درویش کیسے لکھے ظلمتوں میں
زمانے کے شاہوں کا روشن قصیدہ
لٹے قافلوں کے مسافر ہیں سارے
فغاں نا رسیدہ ، بیاں آبدیدہ
فاروق درویش
بہت ہی خوب
آپ کا شکریہ .......
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Re: مسافر
بہت خوب۔۔۔زبردست شکریہفاروق درویش wrote:مسافر
کسی زرد پتے کی صورت خزاں کی
ہواؤں کے گرداب و طوفاں میں بکھرے
دکھوں کی برستی ہوئی شبنموں میں
زمینوں پہ بے جاں پڑے ہیں کبیدہ
کوئی سرد سینوں میں مشعل جلا دو
جو شب بھرجلے گرم رکھے جنوں بھی
نکالو کہیں سے وہ سورج تپیدہ
مری زندگی کے جو ظلمت کدوں کو
نئی روشنی کے شراروں سے بھر دے
ندیدہ زمانے کے ان مقتلوں پر
فاروق درویش