عظمت وحی:قسط2...حضرت شیخ الہند قدس سرہ کی ایک نایاب تحریر

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
احمداسد
کارکن
کارکن
Posts: 74
Joined: Fri Apr 15, 2011 6:54 pm
جنس:: مرد
Location: rawalpindi
Contact:

عظمت وحی:قسط2...حضرت شیخ الہند قدس سرہ کی ایک نایاب تحریر

Post by احمداسد »

اضافہ عنوانات و پیشکش:مولانا مدثر جمال تونسوی مدظلہ

صحرای مغیلاں ہوس طے شدنی نیست
در دامنِ تجرید شکستیم قدم را
شادم کہ قضا ساختہ محراب جبینم
درگاہ شہنشاہ عرب را و عجم را
آن شمع رسالت کہ کند نور جبینش
ہم منصب پروا نہ براہین حکم را

پیشتر یہ مضمون کچھ بسط سے معلوم ہوچکا ہے کہ مدار جملہ احکام وحی خداوندی پر ہے، کسی کی بات کو بمقابلہ وحی قابل قبول سمجھنا خالق و حاکم پر مخلوق و محکوم کی فوقیت و برتری کا اقرار کرلینا ہے جس کے ابطال کے لئے نام کی عقل بھی کافی ہے ،علم و ایمان کی بھی چنداں احتیاج نہیں ،یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کو ایمان و علم کے بدلے میں بھی عقل ہی مل گئی تھی وہ بھی وحی کے تکیہ گاہ بے حجت ہونے کو بلا حجت مان گئے۔
وحی کومان کراس سے روگردانی؟
شکل انسانی میں ایسے افراد توکچھ نہ کچھ ضرور پائے گئے کہ سرے سے وجود باری کے ہی منکر ہوگئے اور وجود مخلوقات کے لئے وجود خالق کی ضرورت اُن کی عقل میں نہ آئی۔ مگر ایسا ایک شخص بھی نہ ہوا ہوگا کہ وجود خالق کائنات اور اُس کی صنعت کمالیہ کا قائل ہوکر اُس کے احکام کو واجب التسلیم نہ سمجھے یا کسی دوسرے کے حکم کو اس کے احکام پر ترجیح دینے کی جرات کرے۔
ایسا تو ہو جاتا ہے کہ سلطان وقت یا حاکم با اختیار کی حکومت کو کوئی سینہ زوری یا حماقت سے تسلیم نہ کرے اور بغاوت پر کمربستہ ہو جائے۔ مگر ایسا دیکھا تو کیا سُنا بھی نہ ہوگا کہ کسی کی سلطنت اور حکومت کو تسلیم کرنے کے بعد پھر اُس کے احکام کے واجب الاتباع ہونے کا انکار کرے یا رعایا میں سے کسی کے احکام کو اُس کے احکام کے مقابلہ میں واجب التسلیم خیال کرے اور بالفرض کوئی ایسا کرے تو اُس کو آدمیوں میں شمار کرنا آدمی کا تو کام نہیں یہ تو صریح اجتماع ضدین ہے جس سے بڑھ کر غلط اور باطل کوئی امر نہیں ہوسکتا۔
بالجملہ وحی یعنی کلام الٰہی اور کلام رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم کہ وہ بھی حسب بیان سابق حقیقت میںکلام الٰہی ہے ایسی مستحکم اور قوی حجت ہے جیسی خدا کی خدائی۔ اس کے مقابلہ میں کسی دلیل کی اتنی بھی وقعت نہیں ہوسکتی جیسے آفتاب کے مقابل ذرہ اور دریا کے سامنے قطرہ۔ اور ایسا عام حکم ہے کہ عرب، عجم، مسلم، غیر مسلم، عالم، جاہل، جملہ بنی آدم پر اُس کی متابعت بلا تخصیص و استثناءیکساں فرض ہے اُس کے کسی حکم سے انکار اور سرتابی کرنے والا انہیں خطابات کا مستحق ہے جو ابلیس کو ہمیشہ کے لئے دیئے گئے۔
اُس کے واجب التعمیل ہونے میں کسی کو اتنی بھی گنجائش نہیں کہ تسلیم عقل کی انتظاری کی جائے یا اس کے لِم او راغراض و مصالح کے معلوم ہونے کی یا کسی خدشہ کے رفع کرنے کی راہ دیکھی جائے۔
اختلافات کے دوسبب:
اس مضمون مسلّم و بدیہی کے بعد ہر کوئی یقین کرسکتا ہے کہ اگر فہم و حق پرستی، انصاف و ایمان سے کام لیا جاتا تو وحی الٰہی کے ہوتے مذاہب مختلفہ کی نوبت آنے کی کوئی صورت نہ تھی۔
ظاہر ہے کہ جب سلطانِ وقت تمام رعایا کے لئے ایک عام قانون تجویز اور معین فرمائے اور اُسی کے مطابق تمام معاملات و نزاعات فیصل کئے جائیں تو پھر اختلافات کے چلنے اور بڑھنے کی صورت کیا ہے۔
اب اس پر یہ اختلاف مذاہب اور تعارض عقائد و خیالات جو بحر موّاج کی صورت میںنظر آتا ہے کس چیز کا ثمرہ ہے۔ اور اس اختلاف کے اسباب کیا ہیں؟
ظاہر ہے کہ علیٰ سبیل منع الخلو(یہ ایک منطقی اصطلاح ہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ بسااوقات کسی چیز کے دوسبب ایسے ہوتے ہیں کہ دونوں سببوں میں سے ایک تو ضرور ہوتا ہے اور اگر دونوں سبب موجود ہوں تب بھی مضائقہ نہیںہوتا) اس اختلاف کا باعث کل دو امر ہیں۔ جہل و بدفہمی یا ناحق پرستی اور بے انصافی۔ کیونکہ اس خرابی کا منشاءیا نقصان علم ہوگا یا نقصان عمل سو اوّل،اوّل ہے اور ثانی،ثانی۔ آگے جو کچھ اسبابِ اختلاف نظر آئیں گے جیسے خود رائی، خودپسندی،اپنے سلف جاہلین کا اتباع ، اپنی رسوم اور اغراض و مصالح کی پابندی، اپنے خیال میں تشدد و تعصب، سہل انگاری و تساہل عناد و دشمنی، توسع اور مطلق العنانی، بےباکی و آزادی وغیرہ وہ سب انہیں دو کے شعبے ہیں۔
دورصحابہ میں باطل مذاہب رواج کیوں نہ پکڑ سکے؟
انصاف سے دیکھ لیجئے کہ حضرات صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین چونکہ علوم شرعیہ میں کامل اور حق پرستی میں طاق تھے یعنی اُن کے علم و عمل دونوں جزو نقصان مذکور سے پاک و صاف تھے اس لئے اُن میں وہی ایک مذہب حق جو حضرت سید العرب والعجمﷺ کے زمانہ مسعود میں موجود تھا اُسی ہیئت و صورت پر قائم رہا۔ کسی دوسرے طریقہ کو اتنی بھی گنجائش نہیں ملی کہ اُن نفوس مقدسہ میں سے ایک فرد پر بھی اپنا ادنیٰ اثر پہنچا سکے اور یہ اختلاف مذموم اُن کاملین فی العلم و العمل میں سے کسی ایک کو بھی اپنا مُنہ دکھلا سکے۔ (اﷲاکبر)
البتہ ان کے بعد اور طبقات میں جب جہل و ناحق پرستی کا اثر رفتہ رفتہ آنا شروع ہوا تو اُسی کے ساتھ ساتھ اختلاف منحوس کو بھی اسلام میں قدم بڑھانے کی گنجائش ملی۔
اور آج غلبہ جہل و ناحق پرستی کے باعث اُس اختلاف کی یہ نوبت ہے کہ یہود و نصاریٰ کا اختلاف بھی گرد نظر آتا ہے۔ بنی اسرائیل وغیرہ اُمم سابقہ کو جو جو موجبات اختلاف پیش آئے تھے جن کے باعث اُن کے مذہب اصلی کا پتہ لگانا عنقا کی سُراغ رسانی سے کم دشوار نہیں وہ جملہ اسباب زور شور کے ساتھ آج مدعیانِ اسلام میں موجود ہیں جن کی اصل وہی دو مرض ہیں جو ہم ابھی عرض کرچکے ہیں۔
حفاظت اسلام وقرآن کاخدائی نظام:
اگر ارشاد رسول علیہ الصلوٰة والسّلام :
لا تزال طائفة من امتی علی الحق ظاہرین لایضرھم من خالفھم حتیٰ یاتی امراﷲ
(یعنی: میری امت میں سے قیامت تک ہمیشہ ایک جماعت حق پر رہے گی جو دوسروں پر غالب ہوگی اورمخالفین کی مخالفت اس کوکچھ ضررنہ دے گی)۔
کی جلوہ افروزی اور فرمان:
لن تجتمع امتی علی الضلالة( میری اُمت گمراہی پر جمع نہ ہوگی)کی کارسازی نہ ہوتی تو آج اس افضل الادیان کی بالیقین وہی حالت ہوتی جو ادیان سابقہ کی یا اُس سے بھی بدتر اور خیر الکتب یعنی قرآن پاک کی وہ گت ہوتی جو کتب سماویہ تورات و انجیل وغیرہ کی یا اُس سے بھی ابتر نعوذباﷲ والحمد ﷲ۔
منکرین حدیث کی جہالت:
بالجملہ احکام وحی توفی نفسہ ایسی حجت قطعی اور فرمان عام ہیں کہ ہر قل و کسریٰ و نجاشی سے لے کر شاہان یورپ تک اور سُکّان حرمین سے لیکر جرمن و لندن و فرانس تک کسی کا کوئی عذر، حیلہ، دلیل، بروئے فہم و انصاف اس کے مقابلہ میں قابل التفات نہیں ہوسکتا۔ تمام عالم پر اُس کی اطاعت فرض ہے۔ مگر صرف اُن بے اصل خیالات کے باعث جو جہل و ناحق پرستی پر مبنی ہیں یہاں تک نوبت آئی کہ مدعیان اسلام بھی بکثرت اُن احکام کی پابندی سے آزاد و سبکدوش ہوبیٹھے دوسروں کا تو ذکر کیا ہے۔
دیگراقوام اورمنکرین حدیث کی حالت:
صرف اتنا فرق ہے کہ دیگر اقوام تو اُسی جہل و تعصب کے باعث آپ کی رسالت، مذہب اسلام کی حقیقت ،قرآن و حدیث کے وحی الٰہی ہونے کا سرے سے انکار کرکے اپنے نزدیک فارغ البال ہو بیٹھے۔ بہت ہوا تو اُصول و فروع اسلام پر کچھ اعتراض بھی کردیا۔ اور مدعیان و محبان اسلام اتنی جرات تو کیسے کرسکتے تھے انہوں نے یہ کیا کہ اپنی رائے کو بزور دخل دیکر خیالی گھوڑے دوڑانے شروع کئے اور اپنی فہم اور اَغراض و اَوہام کو اصل قرار دیکر کلام الٰہی اور کلام جناب رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کو کھینچ کھینچ کر اُس پر منطبق کرنا شروع کردیا اور خود رائی کے جوش میں سلف صالحین حتیٰ کہ اصحاب کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کےخلاف کی بھی کچھ پروانہ کی ۔
فضلّوا و اَضلّوا(خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا)
حالانکہ اہل علم و ایمان خوب جانتے ہیں کہ حضرات صحابہ کی کیا شان ہے اور قرآن مجید اور حدیث شریف میں اُن کے کمالات اور مناقب کیا کچھ مذکور ہیں اور اُمت مرحومہ کو اُن کی تعظیم اور متابعت کی بابت کیا کیا وصیتیں ہیں ۔خیر یہ قصّہ تو لمبا چوڑا ہے جس کی تفصیل سے اس موقع پر ہم معذور ہیں۔
اہل حق کون ہیں؟
اہل فہم ہمارے بیان سے اتنا ضرور سمجھ گئے ہوں گے کہ جس جماعت نے وحی کو اپنا قبلہ اور حضرات صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو اپنا امام بنایا وہ نہ تو اُس طریقہ کے مخالف ہوئے جو اوّل سے چلا آتا تھا اور نہ اُن میں باہم اُس اختلاف مضر کی نوبت آئی جس کے بانی جاہل ہوا پرست ہوئے ۔ ظاہر ہے کہ جب سب کا مقصود ایک ہے، خودرائی اور خود غرضی کا لگاﺅ نہیں، علم کامل ہے پھر اس اختلاف فاحش کے پیش آنے کے کیا معنی۔
بس اسی ایک فرقہ کو اہلِ حق اور اہلِ سنت کا خطاب ملا اور ارشاد:ما انا علیہ واصحابی( جس طریقہ پر میں ہوں اور میرے صحابہ )کا یہی مصداق ہوا۔
اہل باطل کی پہچان:
البتہ جن صاحبوں نے بوجہ نقصانِ فہم یا غلبہ اغراض و ہوا اپنی رائے اور توہمات کو امام بنایا اور احکام وحی کو اُس کے موافق کرنے میں سعی کی وہ لوگ طریقہ حق سے بھی اپنے اپنے جہل اور اوہام کے مطابق دور ہوتے گئے اور حسب ارشاد رسول علیہ السلام اختلاف مذموم اور تعدد مذاہب کو بھی اُن میں پورا دخل ملا۔
کون نہیں جانتا کہ عقلِ عقلا خود از حد متفاوت ہے۔ پھر بیوقوفوں کی سمجھ اور اُن کے اوہام و اغراض کا تو پوچھنا کیا ہے اُن کی بدولت تو جس قدر اختلاف اور تعدد مذاہب پیش آئے وہ تھوڑا ہے۔یہ تمام فرقے اہلِ اَہوا کہلائے۔
آسمانی مذاہب میں خلل کیوں آیا؟
ادیان سابقہ میں جو کچھ خلل آیا اُس کی بڑی وجہ یہی ہوئی کہ جب کسی نبی کا زمانہ ختم ہوا تو اُن کے خلفاءو اصحاب نے دین کو سنبھالا اور اُن کی ہدایت کے موافق خلق اﷲ کی اصلاح میں کوشش کی مگر رفتہ رفتہ کہیںجلد کہیں دیر میں یہ ہوا کہ ناقص الفہم خود رائے ، مختلف الخیال مداہن، ہوا پرست لوگوں نے آکر حدود شرعیہ کو ضائع اور احکام دین میں تحریف و تغیر کرنا شروع کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین اصلی مخالفوں سے تو کیا خود اہلِ ملت سے ایسا روپوش ہوگیا کہ قیامت تک اُس کی صورت سے محرومی اور اُس کے دیدار سے یا س کُلّی ہوچکی۔
ملت ابراہیمی اور ملت موسوی اور ملت عیسوی وغیرہ سب میں یہی مرض مہلک اپنا پورا اثر دکھلا چکا ہے اور حسب ارشاد فخرِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم یہ تمام مفاسد و اختلافات آج مذہب اسلام میں نہایت شدت و کثرت کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔
وحی الٰہی یعنی قرآن و حدیث کہ جن کے ساتھ دین اسلام کا وجود وعدم وا بستہ ہے دانا دشمن اور نادان دوستوں نے یا یوں کہو کہ دشمنانِ اعیانی اور پنہانی نے طرح طرح سے اُس کے ساتھ وہ سفاکانہ اور بیباکانہ کارروائی کی ہے کہ جس پر اسلام کا اصلی صورت پر باقی رہنا ایک حیرت ناک قصّہ ضرور ہے۔
تحریف معنوی کی وبا:
انصاف سے ایک تحریف معنوی ہی کی کیفیت کو ملاحظہ کیجئے جو اس وقت میں وباءکی طرح پھیل رہی ہے کہ اُس کے مقابلہ میں یہود کی وہ تحریف کہ جس کی بُرائی کلام الٰہی میں جگہ جگہ مذکور ہے کم نظر آتی ہے۔
تورات میں جو تحریف کرتے تھے وہ کسی وجہ سے عالم تورات تو سمجھے جاتے تھے۔ الفاظ تورات کی تلاوت سے متنفر اور اُس کی عبارت کے ترجمہ لفظی سے تو بے خبر نہ تھے یہ تو نہ تھا کہ محض بضرورتِ تحریف ہی تورات کو دیکھتے ہوں۔ اب تو یہاں تک نوبت آگئی کہ کتب تاریخ دیکھ لو اور کلام الٰہی اور کلام نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں تحریف شروع کردو۔ یا جغرافیہ پڑھ لو اور تحریف کرنے لگو یا زبان انگریزی یا ڈاکٹری یا ریاضی وہیئت یا کوئی معزز عہدہ یا وکالت و مختار کاری وغیرہ کا پاس حاصل کرلو اور وحی الٰہی میں تحریف و خودرائی کی سند دبا بیٹھو۔ قرآن و حدیث کو کبھی نہ دیکھو بلکہ دوسروں کو بھی تضیع اوقات کا فتویٰ سنا دو اور جب کوئی ضرورت یا جدید خیال پیش آئے تو نہایت آزادانہ رائے زنی کرو، خالق و مخلوق کسی کی موافقت کا انتظار اور مخالفت کی پروا نہ کرو۔ زبانِ عربی سے ناواقفیت ہو تو ترجمہ دیکھ لو یا کسی سے پوچھ لو۔
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
علاوہ ازیں جہاں تک دیکھا جاتا ہے تو اہل کتاب اپنی کتابوں میں انہیں مواقع میں تحریف کی نجاست میں ملوث ہوتے تھے جہاں اپنی اغراض فاسدہ کی وجہ سے کوئی بڑی دقت نظر آتی تھی۔ جیسے زنا کی سزار جم اور پیغمبر آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم کے اوصاف اور اُن کے اتباع کا حکم۔
اور اب ہم اہل اسلام کے اندر یہ مرض مہلک ایک دریائے شور کی طرح ایسا پھیلا ہوا ہے کہ عقائد سے لیکر اعمال تک اور اوضاع سے لیکر عادات تک کوئی اُس کی تلخی سے بدشواری خالی رہ سکے گا گویا وحی الٰہی میں اُسی آزادگی کے ساتھ رائے زنی کرنا مدار لیاقت اور معیار عقل و کمال ٹھہر گیا ہے، ضرورت کی بھی ضرورت نہیں۔ شعر:
ہر کس از دستِ غیر نالہ کند
سعدی از دست خویشتن فریاد
حدیث کے مقابلے میں ڈھٹائی:
اور اسی پر بس نہیں بلکہ مقام ترقی میں احادیث نبوی علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات پر ایک طرف سے غیر معتبر ہونے کا فتویٰ لگایا جاتا ہے اور پھر اُس پر طرہ یہ ہے کہ ارشاد:انتم اعلم باموردنیاکم(تم اپنے دنیا کے کاموں سے خوب واقف ہو) کی وجہ سے تمام احکام متعلقہ معاملات کو امور دنیا میں شمار کرکے ہر ایک خود رائے ہوا پرست، خاتم المرسلین اور قائل :اوتیت علم الاولین و الآخرین(مجھ کو اولین و آخرین کا علم عطا کیا گیا ہے) کے مقابلہ میں اپنے آپ کو اعلم کہنے کو تیار ہے۔
حضرات صحابہ اور تابعین ا ور ائمہ مجتہدین اور علمائے راسخین اور جملہ صلحا و صدیقین کی تو اب حقیقت ہی کیا رہ گئی افسوس۔ شعر:
وہ لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیئے
پیدا کئے فلک نے تھے جو خاک چھان کے
اب انصاف و فہم سے کام لیجئے تو اسلام کی ضرر رسانی میں دونوں فریق مذکور برابر ہیں۔
فریق اوّل نے جو وحی الٰہی کی صاف صاف تکذیب کی اور فریق دوم نے جو اپنی ہوشیاری اور دینداری سے تاویلات و تحریفات کرکے نصوص کا وہ مطلب نکالا جو اغراض شارع کے بالکل خلاف ہے۔ یہ دونوں امر اسلام اصلی کے صفحہ ¿ ہسی سے مٹانے کے لئے ایک دوسرے کی نظیر ہیں۔ شعر:
تفاوت قامت یار اور قیامت میں ہو کیا ممنون
وہی فتنہ ہے لیکن یاں ذرا سانچہ میں ڈھلتا ہے
بلکہ چشم بصیرت ہو تودوستوں کی یہ عنایات دشمنوں کے ستم سے بدرجہا زائد ہیں اور گوش حقیقت نیوش ہوتواسلام زبانِ حال سے باآواز بلند کہہ رہا ہے: شعر
من از بیگانگاں ہرگز نمی نالم کہ بر جانم
بلا ہائے کہ شد نازل ز دستِ دوستاں آمد
تعلیمات انبیاءعلیہم السلام کااسلوب:
منصف فہیم بالبداہت سمجھتا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السّلام دنیا میں تعلیم زبان و لغات کے لئے تشریف نہیں لائے بلکہ امتیوں کو اُنہیں کے محاورات میں ہدایت اور تعلیم احکام فرماتے ہیں جو زبان اُن کے اندر پہلے سے شائع ہوتی ہے اور سیدھے سادے طرز میں جو کہ معمیات اور تکلفات کے اسلوب سے بمراحل دور ہے۔
”وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ “خود ارشاد صریح موجود ہے۔ اور قرآن شریف کو مواقع کثیرہ میں ”مبین“ فرمایا ہے تو اب قرآن مجید کے معنی خلاف لغت و استعمال عرب لینے یا خلاف صحابہ و تابعین اور دیگر عرب العرباءکے اُس کے مطلب کو چیستاں بنانا بے شک اُسی نظر سے دیکھا جائے گا جیسے کوئی ہندی، یورپی، کابلی صرف و نحو کے دوچار رسالے دیکھ کرامرءالقیس اور لبید کو اصلاح دینے کیلئے بیٹھ جائے بلکہ اُس سے بھی کمتر۔
(امرءالقیس عرب کا مشہور فصیح و بلیغ شاعر، اسلام سے چالیس سال پہلے گزرا ہے اور لبید بھی جاہلیت کا مشہور شاعر ہے جس کی نسبت رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اُس کا قول نہایت ہی سچا ہے۔ الا کل شی ما خلا اﷲ باطل (یعنی خوب سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ کے سوا تمام چیزیں باطل ہیں)
اہل ہویٰ کی جسارت:
اہل اہوا کو اس خطاب کا مستحق صرف اتنی ہی بات نے بنایا ہے کہ اُنہوں نے اپنی رائے کو امام بنا کر اور اپنی اغراض کو نصب العین رکھ کر احکام وحی کو اُس کے ساتھ کھینچنا چاہا اور کسی کے وفاق و خلاف کی پروا نہ کی اور نقل و عقل میں جب کشمکش پیدا ہوئی تو اُنہوں نے بزور عقل اپنی ناقص عقل کو سب پروَر رکھا اور نصوص یقینہ میں تاویلات ناروا اور طرح طرح کی حیلہ سازی سے کام لیا۔
ایک مثال سے وضاحت:
مثال مطلوب ہے تو سُنیے انہیںحضرات نے مخالفت نصوص کے طعن سے بچنے کے لئے ایک قاعدہ عامة الورود اور ایک چلتی ہوئی تدبیر جگہ جگہ یہ پیش کی کہ خدائے برتر اور رسول اطہر صلی اﷲ علیہ وسلم کا کوئی جملہ کوئی کلام ہرگز ہرگز خلاف حقیقت ،خلاف واقع،خلاف عقل نہیں ہوسکتا۔ یہ قاعدہ فی حدّ ذاتہ ضرور قابل تسلیم ہے۔ مگر اُنہوں نے اس سے یہ کام لیناشروع کیا کہ جب کوئی حکمِ وحی اُن کے نام کی عقل بلکہ اُن کے وہم کے بھی خلاف نظر آیا اور جس حکم الٰہی سے اُن کو جان بچانی منظور ہو ئی وہاں اپنے توہمات سے خلاف واقع اور خلاف عقل کا فتویٰ دیکر اُس حکم سے سبکدوش ہو بیٹھے اور نہایت بے فکری بلکہ سرکشی کے ساتھ انکارِ محض یا تحریف و تاویل جس سے چاہا کام لیا۔
چنانچہ رویت جناب باری ، ثبوت ِتقدیر، تعذیب قبر، وزن اعمال، پل صراط ، دوزخ ،جنت کا بالفعل موجود ہونا اور دیگر جزئیات کثیرہ قطعیہ کا خون اُسی شمشیر کے بھروسے اپنی گردن پر لینا بڑے اطمینان کے ساتھ منظور کیا گیا۔
مدعیان عقل کی کم فہمی:
افسوس اُن مدعیان عقل و اسلام کو اتنا بھی نہ سُوجھا کہ کلام خداوندی اور کلام نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم جیسے مخالف حقیقت اور مخالف واقع نہیں ہوسکتے ایسے ہی واقعہ کے دریافت کرنے کی صورت اس سے بہتر کوئی نہیں کہ خدائے تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے کلام کی طرف رجوع کیا جائے جو کوئی طریقہ دربارہ ¿ اخبار واقع مخالف کلام اﷲ اور احادیث صحیحہ ہوگا تو کلام اﷲ اور احادیث کے ذریعہ سے اُس کی تغلیط کرسکیں گے، پر کلام اﷲ اور احادیث کی تغلیط اُس طریقہ کے بھروسہ ہرگز نہیں کرسکتے۔
الغرض عقل کی بات تو یہ تھی کہ کلام اﷲ اور احادیث صحیحہ نمونہ صحت و سقم دلائل عقلیہ سمجھی جاتیں ،نہ برعکس۔
علیٰ ہذاالقیاس کلام اﷲ اور حدیث کے مضمون متبا در و مطابق محاورہ عرب کو جو باعتبار قواعد صرف و نحو بدلالة مطابقی سمجھ میں آتا ہو اُس کو اصل قرار دیکر دلائل عقلیہ کو اُس پر منطبق کرنا چاہئے اگر کھنچ کھنچا کر بھی مطابق آجائے تو فبہا ورنہ کالائے زبون بریش خاوند یہ اُن کی عقل کا قصور سمجھا جائے گا یہ نہ ہوگا کہ اپنے توہمات و معقولات کو اصل سمجھ کر کلام الٰہی اور احادیث صحیحہ کو ترک کیا جائے یا اُن کو کھینچ تان کر اپنی عقل کا تابع بنایا جائے۔
اگر آج کوئی جنگلی، دیہاتی، وحشی، بے عقل، بے خبر، ریل اور تار وغیرہ صنائع عجیبہ کے افسانے سن کر اُن کو دور از عقل بتائے اور اُن کی تغلیط پر زور دے تو کیا اُس کا یہ انکار اہل عقل کے نزدیک قابل تسلیم ہوسکتا ہے یااُس کا قصورِ عقل سمجھا جائے گا۔
انصاف کیجئے تو خداوند عالم کے علم کے سامنے تمام حکما و عقلا کی عقل و فہم کی حقیقت اُس وحشی بیوقوف کی عقل کے برابربھی کسی طرح نہیں ہوسکتی۔پھر اُس کے کلام کے مقابلہ میں ایسی جرات معلوم نہیں کس چیز کا نشہ ہے۔ شعر
آناں کہ ز روئے تو بجائے نگرانند
کوتہ نظرآنند چہ کوتہ نظرآنند

(جاری ہے)
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”