ادب کا بے لوث خادم سید فراست بخاری مرحوم
Posted: Fri Feb 09, 2024 3:21 pm
پڑے مشکل اگر کوئی تو ہنس کر ٹال دیتا ہوں
میں اپنی مشکلوں کو مشکلوں میں ڈال دیتا ہوں
(سید فراست بخاری)
30 دسمبر 2023 تک لاہور کی تقریباً سبھی ادبی تقاریب میں گلے میں کیمرہ لٹکائے، کاندھے پر ایک بیگ اٹھائے اور جیب میں قلم سجائے پختہ عمر کے مگر چاک و چوبند اور متحرک بزرگ شخص دیکھنے کو ملتے تھے، ادب کی دنیا جسے سید فراست بخاری کے نام سے جانتی ہے۔
سید فراست بخاری صاحب نے اپنے گلے میں لٹکے کیمرے سے ناجانے کتنی ہی ان گنت تقاریب کو بغیر کسی کی لالچ کے عکس بند کیا اور کتنے ہی نایاب، سنہرے اور خوشگوار لمحات کو اپنے پاس محفوظ کرتے رہے اور پھر اسے سوشل و پرنٹ میڈیا پر نشر کر کے اور کروا کر ادب کی بے لوث خدمت کرتے رہے۔
بھولے بھالے چہرے اور شفیق لہجے کے مالک سید فراست بخاری صاحب کے بیگ میں تقاریب کی عکس بندی کے تصویری البمز کے علاوہ سنہری تاروں اور مصنوعی پھولوں سے تیار کردہ دیدہ زیب ہار یا مالائیں ہوتی تھیں جنہیں وہ صاحب / صاحبہ محفل کے گلے میں پہنانے کے لئے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ کسی بھی تقریب میں شریک ہوتے وقت دیکھنے والی ہر آنکھ کو نہایت ادب و محبت سے سلام پیش کرنے کے بعد نقیب محفل یا منتظم سے محض یہ درخواست کرتے تھے کہ صاحب / صاحبہ محفل کو مالا پہننانے کے لئے ان کا نام لکھ لیا جائے اور پھر بلائے جانے سید فراست بخاری صاحب بہت اسلوب، محبت اور خلوص سے وہ مالا پہنا کر پہننے والے کی عزت اور شان و شوکت کو مزید چار چاند لگا دیتے تھے۔
ایک نیک دل اور نفیس انسان ہونے کے ساتھ ساتھ سید فراست بخاری صاحب فطری اعتبار سے ایک بہت عمدہ شاعر بھی تھے اور شاعر بھی ایسے کہ جسے نہ سٹیج پر سج کے بیٹھنے کی بھوک، نہ یکے بعد دیگر کلام سنانے کی تمنا تھی۔ ایسا نہیں کہ وہ ادبی تقاریب میں سٹیج معززین میں شامل نہیں رہے، بے شمار تقاریب وہ بطور مہمان خصوصی اور اعزاز شرکت کرتے رہے مگر بالکل ایک سادہ مزاج اور نرم گو انسان کی حیثیت سے۔ جو لوگ انکی قدر و قیمت جانتے تھے وہ انکی زندگی میں انکو انکے شایان شان عزت و مرتبہ بھی دیتے رہے۔ مگر بطور مہمان خصوصی یا مہمان اعزاز کی حیثیت سے ہٹ کر آپ اگلے ہی مشاعرے میں بطور مہمان شاعر بھی شرکت کرتے تھے کیونکہ انکے دل میں ادب سے محبت تھی نہ کہ کسی مرتبے سے اور یہی ہمارے لئے اس درویش صفت انسان سے سیکھنے کی بات ہے۔
جو لوگ انکے شعر و سخن کے فن سے واقف تھے وہ آپکو تقریب میں شریک پا آپکو صرف مالا پہنانے یا تصویریں اتارنے تک محدود نہیں رکھتے تھے بلکہ تعظیم کے ساتھ دعوت سخن دیتے تھے۔ کلام و شعر سناتے وقت بھی سید فراست بخاری صاحب کلام پر کلام سنانے کے قائل نہیں بلکہ بہت محدود اور اختصار کے ساتھ مگر اچھی شاعری سنا کر حاضرین سے داد وصولتے تھے۔ انکی شخصیت بھی انکے جیب میں سجے قلم ہی کے جیسی تھی، جو بہت کچھ لکھنے کے باوجود بھی اپنے خول میں بند رہ کر جیب میں چھپا رہتا تھا۔
چند ماہ قبل سوشل میڈیا پر انکے شعری مجموعے ”عکس اعجاز“ کی اشاعت کی پوسٹ نظر سے گزری، پھر کچھ مدت بعد ایک مشاعرے کی تقریب میں ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں ”عکس اعجاز“ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کی تو بہت خوش ہوئے، میں نے پوچھا کہ بخاری صاحب رونمائی کب رکھ رہے ہیں؟
جواباً انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر عاجزی کا اظہار فرمایا، پھر اپنی شہادت کی انگلی سے اوپر اشارہ کرتے ہوئے اشارتاً ہی جواب دیا کہ ”جب اسے منظور ہوا“ اور پھر سٹیج پر بلائے جانے کی آواز سن کر کسی کو مالا پہنانے چلے گئے۔ وہ تو چلے گئے مگر انکے جواب کو لیکر تب سے اب تک کئی سوال میرے اندر چھوڑ گئے، جن میں سب سے اہم سوال یہی تھا کہ محبت اور عزت بانٹنے والے شخص کے لئے بھی کوئی ایسی محفل سجنی چاہئے تھی جس میں اسے بھی مالا پہنائی جاتی، لوگ اس کے ساتھ بھی تصویریں بنواتے۔
ہو سکتا ہے کہ بعد میں کوئی تقریب انکی کتاب کی رونمائی کے لئے رکھی ہو مگر اس وقت تک ایسی کوئی خبر نہیں تھی۔ ہاں البتہ انکے قریبی احباب کی جانب سے سوشل میڈیا پر کافی پزیرائی کی جا رہی تھی۔
سید فراست بخاری صاحب کی ساری عمر ہی اپنے ذوق و شوق کی تسکین کا ساماں کرنے کے ساتھ ساتھ ادباء و شعراء کرام اور ادب کے فروغ کے لئے خدمت کرتے ہی گزری۔ بالاخر ادب کا یہ خادم سال 2023 کے آخری دن یعنی 31 دسمبر کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا اور اپنے بعد اپنے کردار، اخلاق اور دوسرں کو عنائیت کئے ہوئے تحفے تحائف اور پہنائی گئی مالاٶں کی صورت میں اپنی انمٹ یادیں اور نقوش چھوڑ گیا۔ محبت سے مالا پہنانے والے اس شخص کو انکے چاہنے والوں کی کثیر تعداد نے عقیدت سے مالائیں پہنا کر اس دنیا فانی سے رخصت کیا۔
انکی علمی، ادبی اور عملی خدمات کی قدر جن لوگوں نے انکی زندگی میں کی بلاشبہ وہی لوگ انکے پردہ فرمانے کے بعد بھی انکے غم میں اور انکو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے تعزیتی بیٹھکوں کا اہتمام کر رہے ہیں۔ ناچیز کی یہ تحریر بھی انکو خراج عقیدت پیش کرنے کی ہی ایک کاوش ہے۔
سید فراست بخاری صاحب جیسی بے لوث فروغ ادب کے لئے سرگرم رہنے والی شخصیت کی خلا ادبی دنیا میں شاید کبھی پوری نہ ہو سکے گی۔ آخر میں سید ضیاء حسین صاحب کے کلام (جو کہ انہوں نے مرحوم کے تعزیتی ریفرنس میں پیش فرمایا) سے ایک شعر قارئین کی پیش خدمت اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کریم سید فراست بخاری (مرحوم) کے کبیرہ و صغیرہ گناہوں کو معاف فرماتے ہوئے انکو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔
(آمین ثمہ آمین)
جو ہر کسی کو ہنساتا رہا سدا
رلا کے اب وہ فراست، چلا گیا
(سید ضیاء حسین)
میں اپنی مشکلوں کو مشکلوں میں ڈال دیتا ہوں
(سید فراست بخاری)
30 دسمبر 2023 تک لاہور کی تقریباً سبھی ادبی تقاریب میں گلے میں کیمرہ لٹکائے، کاندھے پر ایک بیگ اٹھائے اور جیب میں قلم سجائے پختہ عمر کے مگر چاک و چوبند اور متحرک بزرگ شخص دیکھنے کو ملتے تھے، ادب کی دنیا جسے سید فراست بخاری کے نام سے جانتی ہے۔
سید فراست بخاری صاحب نے اپنے گلے میں لٹکے کیمرے سے ناجانے کتنی ہی ان گنت تقاریب کو بغیر کسی کی لالچ کے عکس بند کیا اور کتنے ہی نایاب، سنہرے اور خوشگوار لمحات کو اپنے پاس محفوظ کرتے رہے اور پھر اسے سوشل و پرنٹ میڈیا پر نشر کر کے اور کروا کر ادب کی بے لوث خدمت کرتے رہے۔
بھولے بھالے چہرے اور شفیق لہجے کے مالک سید فراست بخاری صاحب کے بیگ میں تقاریب کی عکس بندی کے تصویری البمز کے علاوہ سنہری تاروں اور مصنوعی پھولوں سے تیار کردہ دیدہ زیب ہار یا مالائیں ہوتی تھیں جنہیں وہ صاحب / صاحبہ محفل کے گلے میں پہنانے کے لئے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ کسی بھی تقریب میں شریک ہوتے وقت دیکھنے والی ہر آنکھ کو نہایت ادب و محبت سے سلام پیش کرنے کے بعد نقیب محفل یا منتظم سے محض یہ درخواست کرتے تھے کہ صاحب / صاحبہ محفل کو مالا پہننانے کے لئے ان کا نام لکھ لیا جائے اور پھر بلائے جانے سید فراست بخاری صاحب بہت اسلوب، محبت اور خلوص سے وہ مالا پہنا کر پہننے والے کی عزت اور شان و شوکت کو مزید چار چاند لگا دیتے تھے۔
ایک نیک دل اور نفیس انسان ہونے کے ساتھ ساتھ سید فراست بخاری صاحب فطری اعتبار سے ایک بہت عمدہ شاعر بھی تھے اور شاعر بھی ایسے کہ جسے نہ سٹیج پر سج کے بیٹھنے کی بھوک، نہ یکے بعد دیگر کلام سنانے کی تمنا تھی۔ ایسا نہیں کہ وہ ادبی تقاریب میں سٹیج معززین میں شامل نہیں رہے، بے شمار تقاریب وہ بطور مہمان خصوصی اور اعزاز شرکت کرتے رہے مگر بالکل ایک سادہ مزاج اور نرم گو انسان کی حیثیت سے۔ جو لوگ انکی قدر و قیمت جانتے تھے وہ انکی زندگی میں انکو انکے شایان شان عزت و مرتبہ بھی دیتے رہے۔ مگر بطور مہمان خصوصی یا مہمان اعزاز کی حیثیت سے ہٹ کر آپ اگلے ہی مشاعرے میں بطور مہمان شاعر بھی شرکت کرتے تھے کیونکہ انکے دل میں ادب سے محبت تھی نہ کہ کسی مرتبے سے اور یہی ہمارے لئے اس درویش صفت انسان سے سیکھنے کی بات ہے۔
جو لوگ انکے شعر و سخن کے فن سے واقف تھے وہ آپکو تقریب میں شریک پا آپکو صرف مالا پہنانے یا تصویریں اتارنے تک محدود نہیں رکھتے تھے بلکہ تعظیم کے ساتھ دعوت سخن دیتے تھے۔ کلام و شعر سناتے وقت بھی سید فراست بخاری صاحب کلام پر کلام سنانے کے قائل نہیں بلکہ بہت محدود اور اختصار کے ساتھ مگر اچھی شاعری سنا کر حاضرین سے داد وصولتے تھے۔ انکی شخصیت بھی انکے جیب میں سجے قلم ہی کے جیسی تھی، جو بہت کچھ لکھنے کے باوجود بھی اپنے خول میں بند رہ کر جیب میں چھپا رہتا تھا۔
چند ماہ قبل سوشل میڈیا پر انکے شعری مجموعے ”عکس اعجاز“ کی اشاعت کی پوسٹ نظر سے گزری، پھر کچھ مدت بعد ایک مشاعرے کی تقریب میں ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں ”عکس اعجاز“ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کی تو بہت خوش ہوئے، میں نے پوچھا کہ بخاری صاحب رونمائی کب رکھ رہے ہیں؟
جواباً انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر عاجزی کا اظہار فرمایا، پھر اپنی شہادت کی انگلی سے اوپر اشارہ کرتے ہوئے اشارتاً ہی جواب دیا کہ ”جب اسے منظور ہوا“ اور پھر سٹیج پر بلائے جانے کی آواز سن کر کسی کو مالا پہنانے چلے گئے۔ وہ تو چلے گئے مگر انکے جواب کو لیکر تب سے اب تک کئی سوال میرے اندر چھوڑ گئے، جن میں سب سے اہم سوال یہی تھا کہ محبت اور عزت بانٹنے والے شخص کے لئے بھی کوئی ایسی محفل سجنی چاہئے تھی جس میں اسے بھی مالا پہنائی جاتی، لوگ اس کے ساتھ بھی تصویریں بنواتے۔
ہو سکتا ہے کہ بعد میں کوئی تقریب انکی کتاب کی رونمائی کے لئے رکھی ہو مگر اس وقت تک ایسی کوئی خبر نہیں تھی۔ ہاں البتہ انکے قریبی احباب کی جانب سے سوشل میڈیا پر کافی پزیرائی کی جا رہی تھی۔
سید فراست بخاری صاحب کی ساری عمر ہی اپنے ذوق و شوق کی تسکین کا ساماں کرنے کے ساتھ ساتھ ادباء و شعراء کرام اور ادب کے فروغ کے لئے خدمت کرتے ہی گزری۔ بالاخر ادب کا یہ خادم سال 2023 کے آخری دن یعنی 31 دسمبر کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا اور اپنے بعد اپنے کردار، اخلاق اور دوسرں کو عنائیت کئے ہوئے تحفے تحائف اور پہنائی گئی مالاٶں کی صورت میں اپنی انمٹ یادیں اور نقوش چھوڑ گیا۔ محبت سے مالا پہنانے والے اس شخص کو انکے چاہنے والوں کی کثیر تعداد نے عقیدت سے مالائیں پہنا کر اس دنیا فانی سے رخصت کیا۔
انکی علمی، ادبی اور عملی خدمات کی قدر جن لوگوں نے انکی زندگی میں کی بلاشبہ وہی لوگ انکے پردہ فرمانے کے بعد بھی انکے غم میں اور انکو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے تعزیتی بیٹھکوں کا اہتمام کر رہے ہیں۔ ناچیز کی یہ تحریر بھی انکو خراج عقیدت پیش کرنے کی ہی ایک کاوش ہے۔
سید فراست بخاری صاحب جیسی بے لوث فروغ ادب کے لئے سرگرم رہنے والی شخصیت کی خلا ادبی دنیا میں شاید کبھی پوری نہ ہو سکے گی۔ آخر میں سید ضیاء حسین صاحب کے کلام (جو کہ انہوں نے مرحوم کے تعزیتی ریفرنس میں پیش فرمایا) سے ایک شعر قارئین کی پیش خدمت اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کریم سید فراست بخاری (مرحوم) کے کبیرہ و صغیرہ گناہوں کو معاف فرماتے ہوئے انکو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔
(آمین ثمہ آمین)
جو ہر کسی کو ہنساتا رہا سدا
رلا کے اب وہ فراست، چلا گیا
(سید ضیاء حسین)