یہ فوج اور یہ ایجنسیاں… جرگہ…سلیم صافی

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
بہرام
کارکن
کارکن
Posts: 100
Joined: Wed Oct 14, 2009 1:33 am

یہ فوج اور یہ ایجنسیاں… جرگہ…سلیم صافی

Post by بہرام »

سب ایک جیسے نہیں ہوتے اور سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا مناسب نہیں۔ ہم اہل صحافت کی صفوں میں وہ بھی ہیں جنہوں نے ملک و قوم اور قلم کی حرمت کی خاطر زندگیوں کو داؤ پر لگائے رکھا اور وہ بھی ہیں جو بکتے ‘جھکتے اور بلیک میل ہوتے ہیں یا بلیک میل کرتے ہیں۔ سیاستدان سب شیطان ہیں اور نہ سب فرشتے۔ یہی اصول عدلیہ اور فوج پر بھی صادق آتا ہے۔
جنرل ایوب‘ جنرل یحییٰ‘ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف بھی فوجی تھے جنہوں نے غداری (آئین توڑنا) کا ارتکاب کرکے پاکستانی قوم کو کئی سال تک غلام بنائے رکھا اور وہ بھی فوجی تھے جنہوں نے پینسٹھ ‘ اکہتر اور کارگل کی جنگوں میں اس قوم کی خاطر خون بہایا۔وہ بھی کوئی فوجی ہوگا جس کے حکم پر پاکستانیوں کو اٹھا کر غائب کردیا جاتا ہے لیکن وہ بھی فوجی ہی ہے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر قبائلی علاقوں کے دشوار گزار ‘ بلوچستان کے سنگلاخ اور سیاچن کی برف پوش پہاڑوں میں ڈیوٹیاں دے رہا ہے۔ قوم کی دولت کو سیاسی اتحادوں کی تشکیل پر صرف کرنے والے جنرل اسلم بیگ‘ جنرل حمید گل اور جنرل اسددرانی بھی اسی فوج کے جرنیل تھے اور جنرل وحیدکاکڑ بھی جنہوں نے موقع پاکر بھی اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھا۔ یقینا اس فوج کے بہت سے جرنیل ریٹائرمنٹ کے بعد اربوں کھربوں میں کھیلتے نظر آتے ہیں لیکن لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید افتخار حسین شاہ جیسے جرنیل بھی اسی فوج سے تعلق رکھتے ہیں جو آئی ایس آئی کے افغان ڈیسک اور کشمیر ڈیسک کے انچارچ رہنے کے بعد کئی سال تک خیبر پختونخوا کے چیف ایگزیکٹیو اور گورنر رہے لیکن آج بھی ایک عام مڈل کلاس انسان کی طرح زندگی گزار تے اور بسراوقات کے لئے عمر کے اس حصے میں بھی نوکری کرتے نظرآتے ہیں۔
صحافیوں کو دھمکانے اور شہریوں کو اٹھا کر غائب کرانے والے بھی خفیہ ایجنسیوں کے لوگ ہیں لیکن قبائلی علاقوں میں جن دو اہلکاروں کے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے سڑک پر پھیلا دیئے گئے تھے‘ وہ بھی خفیہ ایجنسی کے اہلکار تھے ۔ اگربریگیڈیئر امتیاز جیسے لوگ بھی آئی ایس آئی سے وابستہ رہے تو دوسری طرف میجر محمد عامر بھی اسی آئی ایس آئی کے آفیسر تھے جنہوں نے نہ صرف ’را‘ کے جی بی اور موساد کے درجنوں ناپاک منصوبوں کو ناکام بنایا بلکہ اپنی زندگی داؤ پر لگانے کے ساتھ ساتھ ایک آپریشن میں اپنے اکلوتے بیٹے عمار کو بھی موت کے منہ میں لے گئے۔ اس لئے سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنااور سب کو برا کہنا مناسب نہیں، فوج ہماری فوج ہے ۔ جیسی بھی ہے اس ملک کی حفاظت اسی کو کرنی ہے ۔ وہ کمزور ہوگی تو ہم کمزور ہوں گے۔ دنیا میں کہیں یہ نہیں ہوتا کہ فوج کی طرف سے وزیراعظم کو ہدایت ملے کہ امریکی سیکرٹری خارجہ کے ساتھ ملاقات میں فلاں فلاں وزیر موجود نہیں ہونے چاہئیں لیکن کہیں یہ بھی نہیں ہوتا کہ کسی ملک کی فوج کے ہر ماہ درجنوں افسر اور جوان شہید ہورہے ہوں لیکن اس کی سیاست اور صحافت میں ان کی قربانیوں کا کوئی تذکرہ نہ ہو۔ غلطیاں بعض جرنیلوں کی ہیں یا سیاسی رہنماؤں کی لیکن پختونوں اور بلوچوں کی طرح ہم نے اپنی افواج اور ایجنسیوں کو بھی آزمائش سے دوچار کررکھا ہے ۔ کیا قبائلی علاقوں‘ بلوچستان اور سوات میں تعینات فوجی اپنی مرضی سے وہاں گیا ہے؟
کیا اس کا جی نہیں چاہتا کہ وہ اپنے گھر میں اپنے بال بچوں کے ساتھ رہے؟ قبائلی علاقوں اور سوات کے پھاٹکوں پر ڈیوٹی دینے والے فوجی کی مشکلات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔اس پربرقعے میں بھی خودکش حملے ہوچکے ہیں اور فوج کی وردی میں ملبوس فرد بھی اس کے سامنے آکر اپنے آپ کو اڑا چکا ہے ۔ ایک طرف اسے اپنی طرف آنے والے ہر مرد وعورت سے خوف آتا ہے اور دوسری طرف جب وہ کسی کے ساتھ نامناسب رویہ اپنالیتا ہے تو ہماری تنقید کی زد میں آتاہے۔ دس سال ہوگئے کہ اسے وزیرستان میں بھی اپنے شہریوں کے ساتھ جنگ کی ناخوشگوار ڈیوٹی پر لگادیا گیا ہے اور بلوچستان میں بھی۔ اسے کہا جارہا ہے کہ ہم امریکہ اور افغانستان کے اتحادی ہیں لیکن اسے ان دونوں سے بھی خطرہ ہے۔ ایک طرح کی داڑھی‘ ایک طرح کی پگڑی اور ایک طرح کا لباس لیکن قبائلی علاقوں میں اسے کہا جارہا ہے کہ ایک طرح کے پگڑی بردار کو بچانا اور دوسری طرح کے پگڑی بردار کو مارنا ہے۔ بلوچستان میں بھی اسے اس مخمصے کا شکار بنادیا گیا ہے۔ اسے کہا جارہا ہے کہ ایک طرح کے بلوچ وڈیرے کو پالنا اور دوسرے طرح کے بلوچ کو مارنا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ قبائلی علاقوں اور سوات میں جاری آپریشن کے دوران فوجی افسران کی ہلاکتوں کی شرح عام جنگوں میں افسران کی ہلاکتوں کی شرح سے بہت زیادہ ہے۔ ایجنسیوں سے وابستہ لوگ جب اپنے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کے سامنے اپنے اداروں کا یہی پہلو ہوتا ہے اور اس لئے ان کو تنقید کرنے والے صحافیوں‘ ججوں اور سیاستدانوں پر غصہ آتا ہے اور جب صحافی‘ جج یا سیاستدان فوج اور آئی ایس آئی کے بارے میں لب کشائی کرتے ہیں تو ان کے سامنے ان کا اول الذکر (سیاسی کردار اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا) پہلو ہوتا ہے۔یہی چیزہے جو سول اور ملٹری تناؤ کا موجب بن رہی ہے اور یہ تناؤ اب تصادم کی طرف بڑھتا نظرآرہا ہے ۔ ایک طرف ملک کے اندر فوج اور آئی ایس آئی سے شکایتیں بڑھ گئی ہیں اور دوسری طرف اس وقت یہی دو ادارے عالمی قوتوں کے نشانے پر بھی ہیں۔ یوں جب داخلی محاذ پر داخلی حوالوں سے تنقید ہوتی ہے تو بھی فوج اور آئی ایس آئی کے وابستگان کو اس کے پیچھے وہی بیرونی ہاتھ نظر آتے ہیں،یوں ان کا غصہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
سول سوسائٹی کو یہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہئے کہ فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیاں جیسی بھی ہیں‘ ہمارے تحفظ کے ذمہ دار ادارے ہیں وہ کمزور ہوں گے تو ملک کمزور ہوگا، اپنی فوج نہیں ہوگی تو پھر کسی غیر فوج کی غلامی قبول کرنی ہوگی اور عسکری قیادت کو بھی یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ فوج تب مضبوط ہوتی ہے جب اس کی پشت پر قوم کھڑی ہو۔ قوم ساتھ نہ ہواور اپنے شہری فوج کو اپنا نہ سمجھے تو ایسی فوج قوم تو کیا اپنا بھی دفاع نہیں کرسکتی۔ حالات کا تقاضا ہے کہ بڑے پیمانے پر سول ملٹری مکالمے کا اہتمام ہو جس میں ملٹری لیڈرشپ قومی سلامتی کے اپنے تصورات سیاسی قیادت کے سامنے رکھے۔ان پرسیاسی قیادت کو قائل کردے یا پھر سیاسی قیادت کے مشورے سے اپنے تصورات میں تبدیلی لے آئے اور سیاسی قیادت بھی صرف اقتدار کی کھینچاتانی پر اکتفاکرنے کی بجائے دفاع اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔ سیاسی قیادت جب من پسند افراد کو اہم مناصب دیتی یا لوٹ مار کرتی ہے تو وہاں پر فوج تو کیا سپریم کورٹ سے بھی ٹکرا جاتی ہے لیکن جب قومی سلامتی کے معاملات ہوں‘ بلوچستان یا قبائلی علاقوں کے تو اپنی بے بسی اور لاتعلقی کا اظہار اور یہ عذر پیش کرتی نظر آتی ہے کہ سب کچھ فوج کے ہاتھ میں ہے اور ہم تو کچھ کرنہیں سکتے ۔
یہ ڈرامہ بازی اب اسے بھی ختم کرنی ہوگی یا تو وہ فاٹا‘ وزیرستان اور خارجہ پالیسی کے معاملات کو اون( Own)کرلیں یا پھر منظر سے ہٹ جائیں ۔جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل ظہیرالاسلام سے گزارش ہے کہ وہ داخلی محاذ پر فوج اور آئی ایس آئی کے امیج کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کریں اور ان چیزوں کا تدارک کریں جن کی وجہ سے فوج اور آئی ایس آئی پر تنقید ہورہی ہے اور سول سوسائٹی یا اہل صحافت کو چاہئے کہ وہ تنقید کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ چند افراد کی غلطیوں کی نشاندہی کے وقت پورا ادارہ بدنام نہ ہو۔ ہر فوجی جنرل اسلم بیگ ‘جنرل اسد درانی اور بریگیڈیئر امتیاز نہیں جبکہ ہر تنقید کرنے والا صحافی بھی غدار اور دشمن کا ایجنٹ نہیں۔ِ
[link]http://jang.com.pk/jang/mar2012-daily/2 ... 2/col2.htm[/link]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: یہ فوج اور یہ ایجنسیاں… جرگہ…سلیم صافی

Post by چاند بابو »

شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
واقعی پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔
ہمیں اپنی رائے پاک فوج کے بارے میں بناتے وقت ان اہم باتوں کو مدنظر رکھنا چاہئے جو کالم نگار نے پیش کی ہیں۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: یہ فوج اور یہ ایجنسیاں… جرگہ…سلیم صافی

Post by بلال احمد »

عمدہ شیئرنگ ہے
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
Post Reply

Return to “اردو کالم”