دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
عبیداللہ عبید
ماہر
Posts: 512
Joined: Mon Dec 29, 2008 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: Pakistan

دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

Post by عبیداللہ عبید »

[center]دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں[/center]

تحریر:عبیداللہ عبید،

دینی تعلیم اور پھر اس کے لیے مدارس کا قیام ،معاشرے کے لیے کتنی اہمیت رکھتے ہیں ؟ میرے خیال میں ، اس سے ہر باشعور انسان آگاہ ہے ۔ہمارے ہاں دینی تعلیم کا نظام پوری کامیابی سے رواں دواں ہے لیکن کچھ عوامی حلقے اورکالم نگاروں کی اکثریت اس سے پوری طرح واقفیت نہیں رکھتے اس لیے وہ اس نظامِ تعلیم کے بارے میں سرے سے معلومات نہیں رکھتے یا ناقص ہوتے ہیں ۔دینی مدارس کے بارے میں خامہ فرسائی کرتے ہوئے کچھ کالم نگاروں کے ساتھ یہ مسئلہ بھی ہوتاہے کہ وہ ضد اور تعصب کے عینک چڑھائے ہوتے ہیں ۔ناقص معلومات جیسی صورتِ حال کا مشاہدہ مجھے روزنامہ آزادی کے مستقل اور قابلِ قدر کالم نگار پروفیسر سیف اللہ خان کی تحریر سے ہوا جو 25فروری 2012ءکو ” اسلامی مدارس کے لیے یونیورسٹیوں کی ضرورت “ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔پروفیسر صاحب کی تحریر میں اگر چہ تعصب اور ضدقسم کی کوئی بات ہرگزنہیں ہے۔ ہاںوہ دینی طبقوں کے لیے دل میں محبت اور شفقت کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن پھر بھی مزید وضاحت کے لیے ان کی خدمت میں کچھ گزارشات 8نکات کی صورت میں پیش کی جاتی ہیں۔

:1مدارس کی جس ملک گیر تنظیم کا ذکر انہوں نے اپنی تحریر میں کیا ہے اس کا نام تنظیم المدارس نہیں ”وفاق المدارس العربیہ پاکستان“ ہے ۔

:2دینی مدارس کی یہ مذکورہ ملک گیر تنظیم ،امتحانی بورڈ کی شکل میں ملک بھر کے تقریباًساڑھے تیرہ ہزار مدارس کے تعلیمی ماحول اور امور کی نگرانی کرتی ہے۔کم و بیش بارہ تیرہ لاکھ طلباو طالبات ان مدارس میں دینی اور دنیوی علوم کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔تقریباًپچپن /چھپن ہزار اساتذہ ان مدارس میں پڑھاتے ہیں ۔یہ تنظیم ابتداءً 1957ءکو ملتان میں قائم کی گئی تھی اور آج تک اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دے رہی ہے۔

:3ہمارے محترم پروفیسر صاحب اس تنظیم کی کارکردگی کے بارے میں کچھ زیادہ پر امید نہیں ہیں اور وفاق کی کارکردگی پر کچھ یوں تحریر فرماتے ہیں ”یہ تنظیم پورے ملک کے اسلامی مدارس کی دیکھ بھال کررہی ہے جوکہ یقینا ناممکن اور تصوراتی بات ہے “۔پروفیسر صاحب اس امر کو شاید اس لیے ناممکن سمجھ رہے ہیں کہ وہ عصری مدارس وکلیات (schools and colleges) کا مشاہدہ کرچکے ہیں جو کسی تعلیمی بورڈ کی زیر ِنگرانی کام کرتے ہیں ۔میرا خیال ہے (لیکن اس پر مجھے اصرار نہیں )کہ وہ دینی مدارس کے انتظام و انصرام سے کچھ زیادہ واقفیت نہیں رکھتے ورنہ اس خدشے کا اظہار بالکل نہ کرتے ۔بہرحال ان کے علم میں اضافے کی غرض سے یہ بات سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دینی مدارس سادگی اور حریت پر مبنی مزاج کے باوجود وفاق المدارس کے کڑے اصول وضوابط کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں اور وفاق المدارس نامی یہ تنظیم ان کی نگرانی اور تعلیمی امور کی دیکھ بھال جس منظم طریقے سے کرتی ہے اس کا موازنہ حال ہی میںقائم پرائیویٹ بورڈ(آغاخان ایجوکیشن بورڈ) سے کیا جائے تو یہ مشاہدہ بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ کارکردگی کے لحاظ سے ان بوری نشینوں کے قائم کردہ بورڈ کا پلہ بھاری ہے۔(آزمائش شرط ہے)۔آئے دن اکثر تعلیمی بورڈوں میں کرپشن اور بوٹی مافیا کی خبریں ہمارے قومی اخبارات کی زینت بنتی ہیں اور وفاق کے یومِ تاسیس سے آج تک ایسی چھوٹی خبر بھی سامنے نہیں آئی حالانکہ اس نظامِ تعلیم کے ناقدین اس قسم کاسنہرا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ایک تلخ حقیقت پیش کررہا ہوں اگرناگوارِ خاطر نہ ہواور حقیقت سے آنکھیں نہ چرائی جائے تو ہمارے اربابِ تعلیم دینی مدارس کے انتظام وانصرام کرنے والے اس بورڈ کا غور سے مطالعہ کریں اوراجنبی تعلیمی نظریات درآمد کرکے نت نئے تجربات کرنے کی بجائے اس کی روشنی میں تعلیمی بورڈ وں میں اصلاحات کا عمل جاری کریں تاکہ اس قوم کا کچھ بھلاہوکیونکہ ہمارا وقت ، سرمایہ اور صلاحیتیں ان تجربات کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں ۔

:4پروفیسر صاحب کی تحریر میں چوتھا محلِ نظر نکتہ وفاق المدارس کے اسناد کے اجرا کے تاریخی پسِ منظر کا ہے۔وہ لکھتے ہیں ”غالباًجنرل ضیاءکے دنوں میں سرکاری ملازمین میں تعلیم کے فروغ کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کو درکار تعلیم سے زیادہ کے حصول پر اضافی تنخواہ دینے کا رواج ہوگیا “۔ ”اس سلسلہ میں یہ سوال پیدا ہوگیا کہ اسکولوں اور اوقاف میں تعینات دینیات کے اساتذہ اور خطیبوں کے اسلامی اسناد کو جدید تعلیم کے کن اسناد کے برابر تسلیم کیا جائے تاکہ یہ سرکاری ملازمین بھی اضافی تنخواہوں سے مستفید ہوسکیں “۔پروفیسر صاحب کے الفاظ نقل کرنے کے بعد، اب اِن اسناد کے اجرا کا تاریخی پسِ منظر، مختصر طور پر بیان کیاجاتاہے۔1982ءتک دینی مدارس کے فضلاءکو ناخواندہ اور پرائمری پاس شخص کو خواندہ تسلیم کیا جاتا تھااورحقائق کچھ یوں تھے ( اب بھی ہیں )کہ صرف عصری جامعات سے ایم اے اسلامیات/عربی کی ڈگری حاصل کرنے والے سندیافتہ افراد کا مبلغِ علم (علمی استعداد) دینی مدرسوں میں پڑھنے والے دوسرے یا تیسرے درجے کے طالب علم سے بھی کم ہوتا تھا۔اس حقیقت کو اصحابِ درد محسوس کررہے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ دینی مدارس کے سند کو اس کاشایانِ شان مقام دلایا جائے اس لیے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیاءالحق مرحوم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی کہ اس سند کو ایم اے اسلامیات/عربی کے مساوی قراردیا جائے۔اس نے ازخود کچھ فیصلہ (آرڈیننس )جاری کرنے کی بجائے یہ معاملہ یوجی سی (University Grants Commission) کے حوالے کیا۔ یوجی سی نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے اٹھایا اور اس پر غور وخوض کے لیے ملک بھر کے اہم یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اور ماہرینِ تعلیم کو اسلام آباد بلایا تاکہ مدارس کے نصابِ تعلیم کا ناقدانہ جائزہ لیا جاسکے ۔ تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماءنے اس اجلاس میں مدارس کی نمائندگی کی ۔طویل مشاورت کے بعد ان ماہرینِ تعلیم نے متفقہ طور پر یہ سفارش کی کہ دینی مدارس کے آخری سند کو کم ازکم ایم اے (اسلامیات اور عربی) کے مساوی تسلیم کیاجائے۔ بالآخر ان سفارشات کی روشنی میں یوجی سی(جس کی نیابت کے فرائض اب ہائر ایجوکیشن کمیشن نامی ادارہ اداکررہاہے)نے نوٹیفیکیشن نمبر:80198CAD128مورخہ:17نومبر1982ء� �و جاری کرکے یہ حقیقت ملکی تاریخ میں پہلی بار تسلیم کرلی کہ شہادة العالمیہ کے سند کا حامل قابلیت و لیاقت میں ایم اے اسلامیات/عربی کے مساوی ہے ۔اسناد کے لیے مذکورہ معیار کسی سیکشن آفیسر کی دَین نہیں بلکہ یوجی سی کی کڑی شرائط پر پورا اترنے کے بعد حقیقت کا اعتراف ہے ۔الغرض شہادة العالمیہ کو ایم اے کے مساوی تسلیم کرتے وقت تنخواہوں میں اضافے یا الاونسوں کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا بلکہ انگریز کے عہد سے جاری ناانصافی پر مبنی رویے کا ازالہ مقصود تھا۔

:5پروفیسر صاحب کی تحریر میں پانچواں نکتہ جو وضاحت کا محتاج ہے وہ ان کے اس جملے سے عیاں ہے ”وفاق المدارس کے اسناد پر تعیناتیاں غیر قانونی ہوسکتی ہیں “۔جب یونیورسٹی گرانٹس کمیشن /ہائر ایجو کیشن کمیشن ایک سند کی حقیقت اور واقعیت کو تسلیم کرچکے ہیں تو پھر اس کی بنیاد پر تعیناتی کس طرح غیر قانونی ہوگی؟یہ بات کچھ پلے نہیں پڑی۔

:6پروفیسر صاحب کی تحریر میںچھٹا نکتہ جس کی وضاحت یہاں کی جاتی ہے ،وہ ان کا یہ شکوہ ہے کہ عموماً دینی مدارس ایک دوکمروں پر مشتمل ہوتے ہیں ۔دراصل مخصوص تعلیمی اداروں پر لکھنے سے پہلے ان کے مزاج ، ماحول اور تاریخی پسِ منظر کو ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے ۔یہاں ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ ماضی بعید نہیں قریب کی بات ہے کہ ریاستِ سوات کے زرین عہد میں دینی تعلیم کا جوطریقہ کار تھاکہ مسجد میں ایک مدرس ہوتا ، طلباءکا بورڈنگ ہاوس یہی مسجد ہوتی ۔چٹائیوں پر استاد اور شاگرد دونوں دینی ودنیوی علوم کی درس و تدریس میں مشغول ہوتے ۔مسجد کے صحن میں تفسیر،حدیث ، قانون ، اصولِ قانون، عربی /فارسی زبان و ادب ، منطق و فلسفہ اور حساب و جیومیٹری کے علوم پڑھے اور پڑھائے جاتے تھے۔ایک مسجد جو عموماًایک کمرے /ہال پر مشتمل ہوتی اتنے سارے علوم کی پڑھائی کی برداشت رکھتی تھی اور آج بھی اکثر مدارس کی یہی صورتِ حال ہے کہ مسجد کے ایک کونے میں تفسیر کی کلاس ، دوسرے میں عربی زبان و ادب اور تیسرے کونے یا صحن میں فلکیات کی تدریس ہوتی ہے ۔علم کی نشر و اشاعت میں مکان کو نہیں دیکھا جاتا ۔مسلم علما اور سائنسدانوں کی زندگیاں شہادت دیتی ہیں کہ درخت کے نیچے ،دریا کے کنارے ، چاند کی روشنی میں اور چراغ کی لو پر کتابوں کا مطالعہ کرکے دنیا میں نام پیدا کیا ۔

:7ان کا ایک گلہ یہ بھی ہے کہ مدارس کے انتظام و انصرام کے ذمہ دار دینی مدارس کے بے روزگار سندیافتہ ہوتے ہیں جبکہ کچھ منتظمین فضلا بھی نہیں ہوتے اور مدرسے چلا رہے ہیں ایسے لوگوں کو انہوں نے ”بے روزگار غیر تکمیل یافتہ نوجوان“ کے خطاب سے بھی نوازا ہے۔ مدارس کے منتظمین /اساتذہ کرام کو بے روزگار کہنا درست نہیں اگرچہ یہ اساتذہ انتہائی کم تنخواہوں پر پڑھاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ بے روزگار ہیں اور درس وتدریس ہی ان کے حصولِ رزق کا واحد وسیلہ ہے ۔دینی علوم کی نشرو اشاعت ان کا مقصدِ حیات ہے اور اس کے علاوہ وہ دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں بھی ہاتھ پاوں مارتے ہیں ۔ مدارس کے تمام سندیافتہ دینی یا عصری تعلیم کے شعبوں میں واپس نہیں کھپتے بلکہ وہ عصری مدارس کے فضلا کی طرح زندگی کے دیگر شعبے بھی اختیار کرتے ہیں جس میں وکیل ، تاجر ، صحافی ، میڈیکل ٹیکنیشن، سرمایہ کار، مترجم اور بیرونِ ملک قیمتی زرِ مبادلہ کمانے والے شامل ہیں ۔ہاں اگر کوئی فاضل نوجوان دینی علوم کی اہمیت کو حقیقی ضرورت جان کر اس کے لیے اپنی زندگی وقف کردے تو کوئی ایسا شخص جو مدارس سے خداکے واسطے بیر رکھتا ہوا یسے فاضل کوبے روزگار سمجھ بیٹھے تو کوئی باک نہیں لیکن مجھے کامل یقین ہے کہ پروفیسر سیف اللہ خان صاحب جیسا صاحب ِ علم اسے مقصدکے ساتھ مخلص، علم کا پیاسااور دینی علوم کی خدمت میں اپنا سب کچھ قربان کرنے والا کہے گا۔

کچھ مدارس ایسے ضرور ہیں جن کے اربابِ انتظام واقعتا دینی علوم کے فاضل نہیں ہیں لیکن اس سے یہ مفہوم ہرگز نہیںلیا جاسکتا کہ انہوں نے بیروزگاری کی وجہ سے یہ عہدہ قبول کیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان اصحابِ خیر نے دینی علوم کی اہمیت کے پیشِ نظر مدارس کے قیام کو ضروری سمجھا اور اس کے لیے اپنی آمدنی کا ایک حصہ وقف کرکے مدارس قائم کیے ، اساتذہ مقرر فرمائے اور طلبا و طالبات کے قیام وطعام کا خرچ برداشت کیا۔ایسے لوگوں کا تعلق مدارس سے صرف تعاون کی حدتک ہوتا ہے ۔تعلیمی ،تربیتی اور انتظامی امور میں وہ مداخلت نہیں کرتے بلکہ ان کاموں کے لیے وہ لائق و فائق علماءکی خدمات حاصل کیے ہوئے ہیں ۔لہٰذا ایسے منتظمین کو ہم بے روزگار نہیں کہہ سکتے ۔دراصل المیہ یہ ہے کہ عصری تعلیمی مدارس سے فارغ ہونے والے بے روزگار نوجوان ٹیوشن سنٹر /پرائیویٹ اسکول قائم کرلیتے ہیں جو اکثر صرف تجارتی نقطہ نظر سے چلائے جاتے ہیں اور ہم اسی تناظر میں دینی مدارس کے قیام کو بھی دیکھتے ہیں حالانکہ دینی مدارس میں تعلیم وتربیت مفت دی جاتی ہے ۔

:8آخری نکتہ جس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں وہ پروفیسر صاحب کا یہ شکوہ ہے کہ وفاق المدارس کے زیرِ انتظام منعقد امتحانات میں ایک دو کمروں پر مشتمل مدارس کے فضلاءکے سند اور جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک جیسے بڑے مدارس کے فضلاءکے اسناد کی حیثیت مساوی ہے ۔یہ اعتراض اگرعصری تعلیمی مدارس سے ریگولر امیدوار کی حیثیت سے امتحان دینے والے اور پرائیویٹ حیثیت سے امتحان دینے امیدوار کے اسناد پر کیا جائے تو تسلی بخش جواب کیا ہوگا؟کیونکہ ایک امیدوار نے تمام سال پڑھائی کی ہوتی ہے اور جہانزیب کالج جیسے بڑے بلڈنگ اور خطیر تنخواہیں پانے والے تدریسی عملے پر مشتمل ادارے میں سبق پڑھا ہوتا ہے اور دوسری طرف پرائیویٹ امیدوار نے کالج یا کسی تعلیمی ادارے میں قدم ہی نہیں رکھا ہوتااور تعلیمی بورڈ ان دونوں کو مساوی حیثیت کی ڈگری /سند عطا کرتا ہے اور کبھی کبھار نمبر یا پوزیشن بھی حاصل کرلیتا ہے ۔تعلیمی بورڈوں پریہ اعتراض کوئی اس وقت کرے گا جب اسے قابلیت کی جانچ پڑتال اور امتحان لینے کے طریقہ کار کا علم نہیں ہوگا ۔اسی طرح کی صورتِ حال یہاں بھی ہے کہ چھوٹے مدارس اور بڑے مدارس کے طلباو طالبات جب وفاق کے زیرِ نگرانی امتحان دیتے ہیں تو وفاق اپنے طریقہ کار کے مطابق ان کا امتحان لیتا ہے اور کامیابی اور ناکامی کا اعلان کرتا ہے ۔یادرہے کہ وفاق المدارس پرائیویٹ امید وار کی حیثیت سے کسی امیدوار کو داخلہ کی اجازت نہیں دیتا جبکہ عصری تعلیمی مدارس اس امر کی اجازت دیتے ہیں ۔

یہ چند گزارشات ،وضاحت اور غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے پیش کیے،مدارس کے حوالے سے مزید معلومات درکار ہوں تو بندہ اپنے ناقص معلومات کی روشنی میں پیش کرنے کے لیے حاضر ہے۔البتہ زیادہ بہتر صورت یہ ہوگی کہ خود کسی مدرسے جاکر اساتذہ سے کئی نشستوں میں ملاقاتیں کی جائے ان کے نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم پر نظر ڈالی جائے ۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مدارس کواپنوں کی نا قدری اور اغیار کی بری نظروں سے بچائے رکھے ۔آمین
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

Post by محمد شعیب »

zub;ar
شکریہ عبیداللہ صاحب
ھما
مشاق
مشاق
Posts: 1511
Joined: Wed May 25, 2011 4:20 pm
جنس:: عورت

Re: دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

Post by ھما »

v;g شیرینگ ہے آپ کا بہت بہت شکریہ
[center]
Bura Nahi Socha Kabhi Bhi Mene Kisi K Liye

Jis Ki Jesi Soch , Usne Wesa He Jaana Mujhe
[/center]
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

Post by بلال احمد »

شیئرنگ کیلئے شکریہ
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

Post by اضواء »

بہترین شئیرنگ پر آپ کا شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
عبیداللہ عبید
ماہر
Posts: 512
Joined: Mon Dec 29, 2008 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: Pakistan

Re: دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

Post by عبیداللہ عبید »

شعیب ، بلال ، ھما اور اضواء سب بھائی بہنوں کا پسندیدگی کے لیے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

Post by اعجازالحسینی »

زبردست ۔۔۔۔۔

بہت خؤب جناب عبید اللہ عبید صاحب اتنے حقائق اور احسن انداز میں تحریر کرنے کا شکریہ

r:o:s:e
r:o:s:e r:o:s:e r:o:s:e r:o:s:e r:o:s:e r:o:s:e
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
عبیداللہ عبید
ماہر
Posts: 512
Joined: Mon Dec 29, 2008 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: Pakistan

Re: دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

Post by عبیداللہ عبید »

شکریہ اعجاز بھائی ................ جزاک اللہ
مجیب منصور
مشاق
مشاق
Posts: 2577
Joined: Sat Aug 23, 2008 7:45 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی۔خیرپور۔سندہ
Contact:

Re: دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

Post by مجیب منصور »

جزاک اللہ عبید بھائی کیا ہی بہترین وجامع مانع امور پر روشنی ڈالی ہے مدارس کے حوالے سے
عبیداللہ عبید
ماہر
Posts: 512
Joined: Mon Dec 29, 2008 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: Pakistan

Re: دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

Post by عبیداللہ عبید »

شکریہ مجیب منصور بھائی
شاہنواز
دوست
Posts: 290
Joined: Mon Mar 05, 2012 2:19 am
جنس:: مرد

Re: دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

Post by شاہنواز »

جناب کا یہ موضوع اپنی نوعیت کے حساب حساسیت لئے ہوئے ہیں سوآپ ان کو کیا کہیں گے کہ آج اسلام بھی کاروبار بنا رکھا ہے جائے کچی آبادیوں‌ میں خود کراچی میں دیکھئے جعلی ملا کیسے اسلام کی دکانیں سجائے مدرسئہ جات میں بیٹھے ہیں اور بھولے بھالے لوگ ان کے جال میں کیسے پھنس رہے ہیں
عبیداللہ عبید
ماہر
Posts: 512
Joined: Mon Dec 29, 2008 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: Pakistan

Re: دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

Post by عبیداللہ عبید »

shanz wrote:جناب کا یہ موضوع اپنی نوعیت کے حساب حساسیت لئے ہوئے ہیں سوآپ ان کو کیا کہیں گے کہ آج اسلام بھی کاروبار بنا رکھا ہے جائے کچی آبادیوں‌ میں خود کراچی میں دیکھئے جعلی ملا کیسے اسلام کی دکانیں سجائے مدرسئہ جات میں بیٹھے ہیں اور بھولے بھالے لوگ ان کے جال میں کیسے پھنس رہے ہیں
جناب میں نے اس مضمون میں مدارس کے اسناد کی قانونی حیثیت اور بحیثیتِ مجموعی ان کے کردار کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا ہے احاطہ نہیں کیا .

کوئی اسکول و کالج کے نام پر دکان سجائے یا دینی مدارس کے نام پر اسے قابلِ مذمت سمجھا جائے گا اس بارے میں کوئی دوسری رائے ہونہیں سکتی .

لیکن افسوس و حیرت اس بات پر ہوتی ہے جو مدارس کے مجموعی مثبت اور قومی و ملی مفاد کے حامل کردار سے چشم پوشی کرکے صرف مستثنیات کو چھیڑتے ہیں جن کو خود اہلِ مدرسہ بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتے .

اور دوسرے تعلیمی نظاموں کی بے شمار خرابیاں انہیں نظر نہیں آتی.

اس پر کبھی کبھی حیرت اور استعجاب کا شکار ہوجاتا ہوں .
مجیب منصور
مشاق
مشاق
Posts: 2577
Joined: Sat Aug 23, 2008 7:45 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی۔خیرپور۔سندہ
Contact:

Re: دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

Post by مجیب منصور »

shanz wrote:جناب کا یہ موضوع اپنی نوعیت کے حساب حساسیت لئے ہوئے ہیں سوآپ ان کو کیا کہیں گے کہ آج اسلام بھی کاروبار بنا رکھا ہے جائے کچی آبادیوں‌ میں خود کراچی میں دیکھئے جعلی ملا کیسے اسلام کی دکانیں سجائے مدرسئہ جات میں بیٹھے ہیں اور بھولے بھالے لوگ ان کے جال میں کیسے پھنس رہے ہیں
جناب معذرت کے ساتھ سنجیدگی ملحوظ رہنی چاہیے ، انسان کو کنویں‌کا مینڈک نہیں بننا چاہیے
آج اگر ملک محفوظ ہے تو اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ان ہی مدارس میں بیٹھے بوریانشین
اساتذہ ومشائخ عظام کے قال اللہ وقال الرسول کی برکت سے ورنہ آض جو امت اعمال کی وجہ سے پستی کا شکار ہے وہ سب کو معلوم ہے
ہاں البۃ یقینا ایسے عناصر آپ کے بقول کچھ ہیں ضرور ،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ تمام مدارس ایسے ہیں
شاہنواز
دوست
Posts: 290
Joined: Mon Mar 05, 2012 2:19 am
جنس:: مرد

Re: دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

Post by شاہنواز »

میرا مقصد یہ نہیں ہے جو آپ سمجھے ہیں بے شک مدارس کا ایک اہم کردار ہے بچوں میں اسلامی تعلیم کی طرف راغب کرنے میں اور دنیا میں نام پیدا کرنے میں لیکن کچھ نام نہاد ملا جعلی ملا اسلام کو بدنام کرنا چاہ رہے ہیں اصل میں باتیں اور کیچڑ اس پر ہی اچھالی جاتی ہے جو اچھا کام کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے
عبیداللہ عبید
ماہر
Posts: 512
Joined: Mon Dec 29, 2008 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: Pakistan

Re: دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

Post by عبیداللہ عبید »

شاہنواز wrote:میرا مقصد یہ نہیں ہے جو آپ سمجھے ہیں بے شک مدارس کا ایک اہم کردار ہے بچوں میں اسلامی تعلیم کی طرف راغب کرنے میں اور دنیا میں نام پیدا کرنے میں لیکن کچھ نام نہاد ملا جعلی ملا اسلام کو بدنام کرنا چاہ رہے ہیں اصل میں باتیں اور کیچڑ اس پر ہی اچھالی جاتی ہے جو اچھا کام کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے

نام نہاد جعلی ملا اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو خود اہل مدارس کی طرف سے ان پر تنقید کی جاتی ہے جس کی گواہی مدارس کی طرف سے شائع ہونے والے مجلات و جرائد ہیں ۔

اور مدارس کا کردار صرف بچوں کو اسلامی تعلیم دینے تک محدود نہیں بلکہ بالغ افراد کی فکری اور مذہبی راہنمائی بھی ہے جو وہ ادا کررہے ہیں ۔
Post Reply

Return to “اردو کالم”