Page 1 of 1

حضرت صاحبزادہ ڈاکٹر محمد حسین للّٰہی قدس سرہ

Posted: Tue Apr 19, 2011 6:00 pm
by احمداسد
تحریر:مولانامدثرجمال تونسوی

بندگان صلحاءاور علماءربانیین کی سیرت وسوانح کے تذکرے سے متعدد فوائد حاصل ہوتے ہیں۔اول اس سے برکتیں نازل ہوتی ہیں ۔ دوسرے پاک باز،نیک سیرت بزرگوں کے احوال وواقعات پڑھ ،سن کر اعمال صالحہ کا شوق اور نیک جذبات انگڑائیاں لیتے ہیں اور اس کی برکت سے انسان کی اپنی سیرت اور کردار کی تکمیل ہوتی ہے۔ علماءربانی انبیاءعلیہم السلام کے وارث ہوتے ہیں ان کا وجود سراپا خیر اور اان کا علم وعمل امت کیلئے نمونہ عمل ہوتا ہے ۔علماءربانی علم ظاہر وباطن کے جامع اور شریعت وطریقت کے مجمع البحرین ہوتے ہیں ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ نے ”القول الجمیل“ کے آخر میں اپنی وصیت کے ذیل میں عالم ربانی کی یہی حقیقت بیان کی ہے کہ وہ عالم جو علم وتصوف کا جامع ہواور جاہل صوفیاءاور خشک فقہاءکی صحبت اختیار کرنے سے منع کیا ہے۔ علماءربانی ہر دور میں موجود رہے ہیں جو اپنے اپنے علاقوں ،قوموں،قبیلوں کو راہ ہدایت دکھلاتے رہتے ہیں۔
انہی علماءربانی میں سے حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حسین تمیمی الانصاری نور اللہ مرقدہ ہیں ۔ آپ نسب وحسب دونوں لحاظ سے بہت بلند مرتبہ سلاسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ نسبی تعلق کی عمدگی وپاکیزگی اس سے ظاہر ہے کہ آپ مشہور صحابی رسول حضرت تمیم بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ہند وپاک میں اس خاندان کی بہت سے شاخیں آباد ہیں ۔ اس خانوادے میں ہمیشہ اہل علم اور باوجاہت افراد پیدا ہوتے رہے ہیں ۔ انہی انصاریوں کی ایک شاخ ضلع جہلم،تحصیل پنڈ دادنخان کے علاقہ ”للّہ شریف“ میں آباد ہے۔”للّہ “ اسی خاندان کے ایک بزرگ کا نام تھا جنہوں نے اس جگہ کو آباد کیا اور انہی کے نام سے یہ علاقہ مشہور ہوا۔للّہ شریف کی مشہور شخصیت ہمارے ڈاکٹر صاحبزادہ صاحب نور اللہ مرقدہ کے جدامجد، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نور اللہ مرقدہ کے شاگرد اور سلسلہ چشتیہ کے مشہور بزرگ خواجہ محمد سلیمان تونسوی نور اللہ مرقدہ کے خلیفہ،خواجہ فیض بخش تمیمی انصاری قدس سرہ ہیں اور انہوں نے ہی للّہ شریف میں باقاعدہ ایک خانقاہ کی بنیاد رکھی ۔اس خانقاہ کے تمام بزرگ تونسہ شریف کی خانقاہ سے فیض یاب اور انہی سے متعلق رہے ۔ اس خانقاہ کے پانچویں جانشین ڈاکٹر صاحبزادہ صاحب متعین ہوئے اور یہاں آکر یہ سلسلہ”مجمع البحرین“ بن گیا کیونکہ خاندانی طور پر سلسلہ چشتیہ سلیمانیہ تونسہ شریف سے تعلق توتھا ہی اور اب برصغیر کی معروف خانقاہ ”رائے پور“ جس کے بانی شاہ عبدالرحیم رائے پوری قدس سرہ،حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی نور اللہ مرقدہ کے خلیفہ تھے،سے اس خانقاہ کا ربط ہوا۔حضرت ڈاکٹرصاحب، شاہ عبدالقادر رائے پوری قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بہت جلد تمام منازل سلوک طے کرکے”سند خلافت واجازت“ سے باریاب ہوئے۔ حق تعالیٰ شانہ نے موصوف محترم کو اپنی خاص شفقت وعنایت سے نوازا اور اپنے قرب کا بلند مقام عطا فرمایا۔ خانقاہ رائے پور سے آپ کا تعلق کیسے قائم ہوا؟اس بارے میں ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادہ محترم نے جو واقعہ راقم السطور سے بیان کیا مختصراً یوں ہے کہ ڈاکٹر صاحب شروع شروع میں میٹرک کرنے کے بعد بسلسلہ ملازمت جہلم میں مقیم تھے۔ وہاں ایک کمرے میں چند دیگر دوستوں کے ساتھ مقیم تھے دیگر ساتھیوں کے آزادانہ مزاج سے ڈاکٹر صاحب تنگ آگئے کیونکہ ابتدائی گھریلو تربیت اور فطری ذوق ومزاج نیکی اور دینداری کی طرف مائل تھا اسی پریشانی میں جہلم کے معروف بزرگ عالم دین مولانا عبداللطیف جہلمی کی خدمت میں جا کر یہ مسئلہ عرض کیا انہوں نے صوفی محمد اقبال(مہاجر مدنی)کے پاس قیام کیلئے بھیج دیا کہ وہ بھی صوفی ہیں اور آپ بھی یوں دونوں ہم مزاج مل جائیں گے۔ صوفی محمد اقبال صاحب روزانہ صبح کے وقت ذکر بالجہر کرتے جبکہ والد صاحب فی الحال اس سطح تک نہ پہنچے تھے اس لیے ان کے اس ذکر بالجہرپر شکوہ کرتے اور وہ انہیں ذکر کی فضیلت اور اپنے مشائخ وعلماءکے حالات وواقعات سناتے۔ ایک مرتبہ شاہ عبدالقادر رائے پوری قدس سرہ پاکستان تشریف لائے تو صوفی صاحب نے والد صاحب کو ان کی ملاقات کیلئے تیار کر لیا شروع میں حضرت اقدس رائے پوری کی ملاقا ت کیلئے لاہور حاضر ہوئے مگر وہاں پتہ چلا کہ حضرت ایک تبلیغی دورے پر پشاور چلے گئے ہیں صوفی صاحب نے والد محترم کو وہیں سے ساتھ لیا اور لاہورسے سیدھا پشاور تشریف لے گئے اور وہاں حضرت سے ملاقات کرائی۔ حضرت نے تعارف پوچھا تو والد محترم نے علاقہ ”للّہ“ بتلایا،حضرت رائے پوری کا آبائی گاﺅں بھی اس علاقے کے قریب ہی ہے اس لیے فوراً پہچان گئے اور پھر یہ معلوم ہوکر انتہائی خوشی ہوئی کہ وہاں کی خانقاہ کے فرد ہیں ۔ غرض اس پہلی ملاقات میں ہیحضرت ڈاکٹرصاحب، حضرت اقدس سے ایسے وابستہ ہوئے کہ بہت سوں کو اپنے پیچھے چھوڑ گئے اور تادم آخر اپنی اس نسبت وتعلق کو نبھایا۔
حضرت ڈاکٹرصاحب کو علم ظاہر وباطن کے ساتھ جدید عصری علوم سے کافی واقفیت حاصل تھی اور ملکہ تحریر سے بھی اللہ تعالیٰ نے خواب نوازا تھا۔ آپ سید ابوالحسن علی ندوی کے اسلوب تحریر سے بہت متاثر تھے اور پھر کوشش کرکے اپنی تحریر کو بھی انہی کے رنگ میں رنگ دیا تھا اس لیے آپ کی تحریروں میں سید صاحب کی تحریری جھلک واضح محسوس ہوتی ہے۔ حضرت ڈاکٹر صاحب باقاعدہ عالم دین تو نہ تھے البتہ دینی تعلیم کافی حاصل کی تھی ۔ حدیث میں بخاری شریف اور مشکوٰة شریف اپنے شیخ ومرشد کے ایماءپر خاتم المحدثین حضرت مولاناا نور شاہ کشمیری قدس سرہ کے شاگردحضرت مولانا محمد عبداللہ دھرم کوٹی سے پڑھی اور ان سے باقاعدہ سند حدیث اور روایت حدیث کی اجازت حاصل ہوئی اور خاص بات یہ ہے کہ جب حضرت اقدس رائے پوریؒ کو سند حدیث کے حصول کی اطلاع ہوئی تو فرط محبت ومسرت سے اپنے اس خلیفہ مجاز کو دوبارہ ”اجازت وخلافت“عطا فرمائی۔ حضرت ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی اپنے شیخ کے طرز پر اللہ کیلئے وقف کردی ،اللہ کی یاد اور اسی سے لو لگانا زندگی بھر کا اہم مشغلہ تھا دنیاداری سے کوسوں دور بھاگتے آپ نے اپنے دینی تعلق کو کبھی دنیا کمانے کا ذریعہ نہ بنایا ۔شہرت، ریاکاری اور نام ونمود سے حد درجہ نفرت تھی ۔احقاق حق اور ابطال باطل کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔آپ اکابردیوبند سے والہانہ وعاشقانہ تعلق رکھتے تھے۔ اپنی تحریرات میں جہاں بھی ان حضرات کا تذکرہ آتا ہے انہیں”ہمارے اکابر“ ہمارے اکابر “ کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں ۔ اپنی ہر تحریر میں بزرگان دیوبند کے اقوال واحوال کو ذوق وشوق سے حوالے کے طور پر ذکر کرتے ہیں ۔شاید ہی کوئی دینی موضوع ہو اور اس میں اکابر دیوبند کی عبارات کا حوالہ نہ دیں بلکہ دیگر بزرگوں کے حالات میں ان گوشوں کو ضرور نمایاں کرتے جن سے ان بزرگوں کا اکابر دیوبند سے تعلقِ محبت واردت ظاہر ہوتا ہواس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ حضرت کے نزدیک اس دور میں اکابر دیوبند اہلسنت والجماعت کے نمائندہ اور معیار تھے۔
حضرت ڈاکٹر صاحب باوجود یکہ خانقاہ للّہ شریف کے سجادہ نشین تھے مگر آپ نے وہاں مستقل قیام نہیں کیا ،آخر میں راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کے وارڈ نمبر15میں قیام پذیر رہے ۔ وہیں اپنے مکان کی بیٹھک میں ہر جمعہ کو بعد نماز جمعہ مجلس ذکر قائم کرتے اوردر میانہ آواز سے ذکر بالجہرہوتا ۔آپ کے حینِ حیات آپ کے ایک مسترشدحضرت مولانا سید حمید الرحمن شاہ ،راولپنڈی نے جو مختصر حالات تحریر کیئے ہیں ان میں درج ذیل خلفاءومریدین اور متعلقین کا ذکر کیا ہے:
(۱)مولانا محمد رفیق صاحب فاضل جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاﺅن حال مقیم واشنگٹن امریکہ ،انہیں ذکر اذکار کروانے کی اجازت ہے۔
(۲)مولانا عبدالقیوم فاضل جامعہ رشیدیہ ساہیوال۔
(۳)مولانا قاری محمد عبداللہ محمودخطیب جامع مسجد سول ہسپتال گوجر خان۔
(۴)بابا جی عبدالسلام والد قاری عبد اللہ محمود،حضرت کے مجاز ہیں ۔
(۵)جناب منظور حسین۔
(۶)سید احمد شاہ گیلانی۔
ان کے علاوہ بہت سے جدید تعلیم یافتہ حضرات بھی حضرت سے تعلق بیعت رکھتے تھے ۔یاد رہے حضرت طبعی طور پر خود بیعت کرنے سے بہت مجتنب رہتے تھے باصرار کسی کو بیعت کرتے تھے اور اجازت وخلافت کے معاملے میں بھی حد درجہ محتاط تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کے خلفاءکی تعداد بہت کم ہے۔ البتہ بیعت وخلافت کے بغیر ذکر الٰہی کی خوشبو پھیلانے میں حد درجہ کوشش فرماتے تھے وجہ اس کی یہ تھی کہ کوئی بیعت وخلافت ہی کو مقصد نہ سمجھ لے کیونکہ اصل مقصد تو رضا الٰہی ہے اگر خود بیعت وخلافت ہی مقصد بن جائے تو بھر بجائے فائدے کے خسران ہی ہے۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا حضرت کو تحریری ملکہ خوب حاصل تھا اور اسلوب بھی حضرت ندوی صاحب کا اختیار فرماتے ۔آپ نے درجن سے اوپر تحریری مآثر چھوڑے ہیں ان کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔(۱)خواجہ محمد سلیمان تونسوی اور ان کے خلفائ(تحقیقی مقالہ)(۲)تذکرہ خواجہ محمد سلیمان تونسوی اردو ترجمہ نافع السالکین(۳)اسلام اور دورجدید(۴)طریق مستقیم(۵)حیات جاودان(۶)فیض المشائخ(۷) فتوحات مدنیہ(۸)حیات طیبہ،حالات وارشادات حضرت رائے پوری(۹)روح اسلام (۰۱) فتنہ مادیت(۱۱)تاریخ بنی تمیم(۲۱)طوفان مغرب(۳۱)تذکرہ حضرت خواجہ فیض بخش چشتی نظامی للہی اور ترجمہ رسالہ قدسیہ (۴۱) انتخاب مشارق الانوار(زیر ترتیب)(۵۱)سیرت سرور عالمﷺ(زیر ترتیب)(۶۱)تجلیات نبوت۔
آپ نے خواجہ محمد سلیمان تونسوی ؒاوران کے خلفاءکی خدمات کے موضوع پر فارسی میں تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی ۔پھر اسی مقالے کو اردو کا لباس پہنا کر ”فیض المشائخ“کے نام سے شائع کرایا۔ کتاب ”فیض المشائخ“ کا تعارف کراتے ہوئے کتاب کے اندرونی ٹائٹل پر درج ذیل عبارت تحریر کی گئی ہے جو درحقیقت پوری کتاب کا جامع ترین تعارف ہے:
”ان بادشاہان دین کی داستان جنہوں نے برصغیر پاک وہند میں بوریائے فقرپر بیٹھ کر بادشاہی کی اور دنیا کے مال وجاہ کو پائے استحقار سے ٹھکرا کر بت کدہ ¿ ہند میں توحید وسنت ،ایمان ومعرفت اور اخلاص وللہیت کی شمع کو تقریباً ہزار برس تک روشن رکھا یعنی شیخ الاسلام حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ سے لے کر حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسویؒ اور ان کے خلفاءخواجہ اللہ بخش تونسویؒ، خواجہ فیض بخشی للّہیؒ اور خواجہ شمس الدین سیالویؒ تک مشائخ سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے روح پرور اور ایمان افروز حالات“
آپ کی ایک اہم تالیف”تجلیات نبوت“ ہے جو اخیر دور کی مرتب کردہ ہے۔ یہ کتاب صحاح ستہ سے منتخب احادیث کا مجموعہ ہے۔ اردو ترجمہ وتشریح کے ساتھ مشتاقان حدیث کی خدمت میں پیش کی گئیہے۔ اس کتاب کے مضامین وترتیب سے اندازہ لگانے کیلئے ان چند مآخذ کا نام کافی ہوگا جو خود حضرت قدس سرہ نے پیش لفظ میں تحریر کیے ہیں:
(۱)صحاح ستہ(۲)مشکوٰة شریف(۳)صحیفہ ¿ ہمام بن منبہ(۴)مشارق الانوار(۵)الادب المفرد للبخاری۔ اور جن شروحات حدیث سے استفادہ کیا گیا ہے ان کا نام درج ذیل ہے (۱)انوارالباری شرح بخاری(۲)تشریحات بخاری،افادات حضرت گنگوہیؒ،حضرت مدنیؒوحضرت شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ(۳)انوار المحمود شرح ابوداﺅد،افادات حضرت شیخ الہندؒ،حضرت کشمیریؒ ، حضرت سہارنپوریؒ اور حضرت شبیر احمد عثمانیؒ(۴)اشعة اللمعات (۵)تقاریر ترمذی وابوداﺅد،حضرت شیخ الہند (۶) تقریرترمذی حضرت تھانویؒ(۷)موطاامام مالک مترجم(۸)بہجة النفوس شرح احادیث بخاری اردو ترجمہ وتشریح حضرت ظفر احمد عثمانیؒ (۹) معارف الحدیث(۰۱)جواہر الحکم مولانا سیدبدرعالم۔
ان کتابوں کا نام محض تبرک کیلئے ذکر نہیں کیا گیا بلکہ اس کتاب کے مطالعہ سے اس کی حقیقت بالکل عیاں نظر آتی ہے۔ مثلاً جن حضرات کی تحقیقات وارشادات نام بنام ذکر کئے گئے ہیں ان کی یہ مختصر فہرست اس دعویٰ کی کافی دلیل ہوگی ۔ مثلاً یہ عنوانات ملاحظہ کریں: حضرت نانوتوی کی تحقیق....حضرت مجدد الف ثانی کا ارشاد....شیخ دباغ کاارشاد....امام بخاری کی رائے....امام ابوحنیفہ کی رائے....علامہ عثمانی کے ارشادات....شیخ ابن عطاءاللہ اسکندری کا ارشاد....شیخ اکبر کی رائے .... افادات انور .... افادہ حضرت تھانوی....ارشادات شاہ ولی اللہ....علامہ خطابی کا ارشاد....
احادیث کے ترجمہ وشرح میں معارف الحدیث اور ترجمان السنہ کا مقام کسی صاحب علم سے اوجھل نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی یہ کتاب ان میں بہت سی نمایاں خصوصیات کی حامل ہے جن میں سرفہرست یہی کافی ہے کہ اکابر علماءہی کے اقوال کو آسان وعام فہم انداز میں پیش کیا گیا ہے اور اپنی طرف سے بہت کم کچھ تحریر کیا گیا ہے ۔ البتہ قابل افسوس امر یہ ہے کہ یہ مبارک کام مکمل نہیں ہو سکا اس کی صرف جلد اول تک کام ہوا ہے جو ”ایمان“ کیمباحث پر مشتمل ہے مگر جو کچھ کام ہوا بہت قابل قدر ہے۔
ایک کتاب ”اسلام اور دور جدید“ ہے ۔یہ کتاب1964 میں تحریر کی گئی ہے۔2007 میں دوبارہ طبع ہوئی ۔ یہ کتاب ایک مضمون کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ ماہ نامہ ادبی دنیا لاہور کے 1964 کے بہارنمبر میں سید علی عباس شاہ جلالپوری کا ایک مضمون بعنوان”دنیائے اسلام میں خرد افروزی کی ضرورت“شائع ہوا جس میں موصوف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام ،مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ ہے اور اسلام کا زندگی سے محض پرائیویٹ اور انفرادی حدتک تعلق ہے اجتماعیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں پھر اپنے مضمون میں اکابر اسلام کی عبارات کے غلط مطالب پیش کیے گئے تھے۔ حضرت ڈاکٹر صاحب نے اس مضمون کا تفصیلی جواب لکھا جو ایک کتاب کی شکل اختیار کرگیا اور پھر اسے سید نفیس شاہ الحسینی قدس سرہ نے اپنیزیرنگرانی شائع کرایا ۔ اس کتاب کے درج ذیل عنوانات سے ہی کتاب کے مضامین اور عصر حاضر میں ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے:
”اسلام اور مستشرقین،اسلام اور سائنس،اسلام اور صحابہ کرام،اسلام اور فلسفہ قدیم،اسلام اور صوفیائے کرام،اسلام اور تمدن جدید“
تجلیات حق: اس کتاب میں معرفت الٰہی،عشق حقیقی،درجات ولایت اور شرف انسانیت کے حصول کے راستوں کی نشاندہی کی گئی ہے یہ کتاب سنہ ۰۰۰۲ میں مرتب ہوئی ہے۔
ایک کتاب’تذکرہ حضرت خواجہ فیض بخش تمیمی انصاری“ ہے ۔ٹائٹل پر اس کتاب کا مختصر تعارف یوں درج ہے:”اعلیٰ حضرت قدوة العارفین مولانا خواجہ فیض بخش چشتی نظامی تمیمی انصاری للّہی کے علاوہ تمیمی انصاری خاندان کے مشاہیر،مشائخ آگرہ،نواب امین الدولہ امین الدین خان،نواب وزیر خان گورنر پنجاب اور جملة الملک نواب حافظ سعد اللہ خان علامی تمیمی انصاری وزیراعظم ہندستان بعہد شاہجہان کے تاریخی وتحقیقی حالات“
طریق مستقیم: یہ 118 صفحات کا کتابچہ ہے اس کتاب میں نسبت اخلاص واحسان جو کہ شرط ہے ایمان واسلام کی صحت کے لیے کے حصول کا راستہ بتایا گیا ہے اور سلاسل اربعہ کے ابتدائی اذکار واشغال مع قواعد وشرائط بیان کئے گئے ہیں نیز سلاسل اربعہ کے شجرات دیئے گئے ہیں۔
”تذکرہ خواجہ محمد سلیمان تونسوی“ : یہ کتاب حضرت تونسوی قدس سرہ کے ملفوظات جو آپ کے خلیفہ مولانا امام الدین پاک پٹنی نے فارسی میں نافع السالکین کے نام سے مرتب کیے تھے اس کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب سنگ میل پبلی کیشنزلاہور نے شائع کی ہے۔
آپ کی ایک اہم کتاب ”حیات طیبہ“ ہے اس کتاب میں آپ نے اپنے شیخ ومرشد حضرات رائے پوری قدس سرہ کی سوائح مرتب کی ہے ۔ یہ بہت تفصیلی اورعجیب والہانہ جذبات عقیدت ومحبت میں ڈوب کرلکھی گئی ہے۔اس کتاب کے لفظ لفظ سے حضرت شیخ عبدالقادررائے پوری رحمہ اللہ کی عظمت قاری کے دل میں نقش ہوجاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ صاحب رحمةاللہ علیہ کو شعر وشاعری کا ملکہ بھی ودیعت کیا تھا البتہ آپ نے اس طرف خاص توجہ نہ فرمائی ۔اس سلسلے میں آپ کا یہ تاریخی قطعہ قابل دید ہے جو آپ نے خانقاہ للّہ شریف کی جامع مسجد کی تعمیر نو کے موقع پر کہا تھا:
مسجد جامع خواجہ فیض بخش
از عنایات الٰہی شد تیار
این زاخلاصات انصارانِ دہ
ہم بہ عونِ اہل ایمان شد تیار
صدق از صدیق وعزم وہمتے
از نظام الدین ودنیا کردکار
گفت ایں تاریخ تجدید ش حسین
ارمغان واوج للّٰہ شد تیار(1373ھ)
حضرت ڈاکٹر صاحب نے 2007 میں انتقال فرمایا اور گوجرخان میںہی سپرد خاک کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور آپ کے جاری کیے ہوئے نیک سرچشموں کو تاقیامت جاری وساری رکھے۔آمین

ایں دعااز من واز جملہ جہاں آمین باد

Re: حضرت صاحبزادہ ڈاکٹر محمد حسین للّٰہی قدس سرہ

Posted: Wed Apr 20, 2011 11:07 am
by نورمحمد
r;o;s;e r;o;s;e r;o;s;e

Re: حضرت صاحبزادہ ڈاکٹر محمد حسین للّٰہی قدس سرہ

Posted: Wed Apr 20, 2011 1:10 pm
by اعجازالحسینی
بہت ہی خوب r:o:s:e r:o:s:e r:o:s:e r:o:s:e

Re: حضرت صاحبزادہ ڈاکٹر محمد حسین للّٰہی قدس سرہ

Posted: Fri Apr 22, 2011 4:01 am
by اضواء
أحسنت و بارك الله فيك