ایجادات، جو نئی نہیں

کمپیوٹرز ،موبائلز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے متعلق نت نئی خبریں
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

ایجادات، جو نئی نہیں

Post by میاں محمد اشفاق »

Image
خود کار ڈرائیونگ کرنے والی گاڑیاں، سیلفی اسٹکس، ڈرونز، ٹچ اسکرین ڈیوائسز، ای سگریٹ اور متعدد دیگر ڈیوائسز بظاہر تو موجودہ دورکی بہترین ایجادات لگتی ہیں اور ان کے موجدین کی فہرست میں بھی نت نئے نام سامنے آتے ہیں جو انہیں اپنے نام سے رجسٹر بھی کرالیتے ہیں۔مگر حقیقت تو یہ ہے کہ بیش تر جدید ترین ایجادات ماضی کی ڈیوائسز کی توسیع ہوتی ہیں اور اس چیز کو ہمیشہ چھپا لیا جاتا ہے۔ درحقیقت ماضی میں کچھ لوگ ان ایجادات کو پہلے ہی تیار کرچکے ہوتے ہیں تاہم وہ پروڈکشن کے عمل تک نہیں آ پاتی یا مختلف وجوہ کی بناء پر ان کی پروڈکشن بہت محدود ہوتی ہے۔ کئی لوگ تو اپنی ایجادات کی اچھی پروڈکشن بھی کرتے ہیں مگر فروخت نہ ہونے کے باعث انہیں وہ منصوبہ ترک کرنا پڑتا ہے اور ایسی ہی چند نئی ایجادات کے بارے میں جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ سیلفی اسٹکس سیلفی اسٹک کو ٹائم میگزین نے گزشتہ برس کی بہترین ایجادات میں سے ایک قرار دیا تھا تاہم حقیقت تو یہ ہے کہ موبائل ڈیوائسز کے ذریعے تصاویر کھینچنے میں مدد فراہم کرنے والی یہ اسٹک بہت پہلے ہی ایجاد ہوچکی تھی۔ مثال کے طور پر 1925 کی ایک تصویر سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح ایک جوڑا ایک ڈنڈے سے کیمرے کو منسلک کرکے اپنی فوٹو لے رہا ہے۔ تاہم حقیقی فوٹو اسٹک ایک جاپانی شخص ہیروشی یویڈا نے اسی کی دہائی میں ایجاد کی تھی۔ ہیروشی ایک فوٹو گرافر تھے اور انہوں نے اس اسٹک کو اس لیے تیار کیا کیونکہ وہ اور ان کی اہلیہ یورپ کی سیر کے دوران اپنی تصاویر کھینچنے سے قاصر رہے تھے جبکہ اس دورے کے دوران ایک لڑکے کو تصویر کھینچنے کے لیے کیمرہ دیا گیا تو وہ کیمرہ لے کر ہی بھاگ گیا۔ اس سے تنگ آکر ہیروشی نے کچھ ایسا ایجاد کرنے کی ٹھانی جو انہیں اپنی تصویر لینے کا موقع فراہم کرسکے جسے انہوں نے ایکسٹینڈر اسٹک کا نام دیا۔ اس زمانے میں ایک چھوٹا کیمرہ اسٹک کے ایک کونے سے منسلک کردیا جاتا ہے جبکہ اس کے سامنے ایک چھوٹا شیشہ بھی ہوتا جس سے صارفین کو نظر آجاتا کہ وہ کیسی تصویر لے رہے ہیں۔ ہیروشی نے 1983 یں ایکسٹینڈر اسٹک کو پیٹنٹ بھی کرایا اور فروخت کے لیے بڑی مقدار میں تیار بھی کروایا تاہم کاروباری اعتبار سے یہ ایجاد ناکام ہوگئی اور اس سے لینے والی تصاویر کا معیار بھی کافی ناقص ہوتا تھا۔ اب سیلفی اسٹک کو دوبارہ وائنی فرومم نے 2000 میں اس وقت دوبارہ ایجاد کیا جب ہیروشی کے پیٹنٹ کی مدت ختم ہونے میں تین سال کا عرصہ باقی تھا۔ وائنی نے اسے کوئک پوڈ کا نام دیا اور اب بھی مانتا ہے کہ وہ آج کی سیلفی اسٹکس کا موجد ہے اور اس نے اب تک متعدد سیلفی اسٹکس سامنے لانے والے افراد کے خلاف مقدمات بھی درج کروائے ہیں۔ ٹچ اسکرین یہ 2007 کی بات ہے جب ایپل نے اپنا پہلا آئی فون دنیا کے سامنے پیش کیا، ایک مکمل ٹچ اسکرین فون جس کا اپنا ورچوئل کی پیڈ بھی تھا۔ بیشتر افراد کے لیے یہ ایسی ڈیوائس تھی جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی اور وہ اسے پہلا ٹچ اسکرین فون بھی قرار دیتے ہیں۔ مگر یہ درست نہیں درحقیقت ایپل نے نہ تو پہلا ٹچ اسکرین موبائل تیار کیا تھا اور نہ ہی ٹچ اسکرین کوئی نئی ایجاد ہے۔ آئی فون کے متعارف کرانے سے ایک سال قبل ایل جی نے ایک مکمل ٹچ اسکرین فون دنیا کے سامنے پیش کیا تھا تاہم وہ بھی اس طرز کی پہلی ڈیوائس نہیں تھی۔ دنیا کا پہلا ٹچ اسکرین فون آئی بی ایم کا سائمن تھا جو 1992 میں متعارف کرایا گیا جبکہ ٹچ اسکرین ٹیکنالوجی تو اس سے بھی پہلے کی ہے۔ دنیا کی پہلی ٹچ اسکرین ڈیوائس ایک ٹیبلٹ تھی جسے1965 میں اے اے جونسن نے تیار کیا تھا ، 1995 تک اس ٹیبلٹ کو ائیر ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا تھا ۔ 1971 میں سیموئل ہرسٹ نے پہلا ریزیسٹیو ٹچ اسکرین تیار کیا تھا جسے ایلو گراف کا نام دیا گیا جس میں انگلیوں کے ساتھ ساتھ اسٹائلوس پین کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اور دنیا کا پہلا ٹچ اسکرین کمپیوٹر 1985 میں ایچ پی نے متعارف کرایا تھا جسے ایچ پی 150 کا نام دیا گیا اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایپل نے بھی اپنی پہلی ٹچ اسکرین ڈیوائس 1993 میں پیش کی تھی جسے نیوٹن پرسنل ڈیجیٹل اسسٹنٹ کا نام دیا گیا، تاہم یہ ڈیوائس فلاپ ثابت ہوئی ہے۔ ڈرونز ویسے تو ڈرون کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ دہائی میں تیار ہوئے مگر ایسے بغیر پائلٹ طیارے کے آثار 1916 میں تلاش کیے جاسکتے ہیں جب ایک برطانوی موجد آرچی بالڈ لو نے اسے ڈیزائن کیا اور پہلی ریڈیو کنٹرول ڈیوائس کو اڑایا۔یہ ڈرون جرمن زیپ لین ائیرشپس کے مقابلے کے لیے تیار کیے گئے تھے اور ان کے ذریعے پہلی جنگ عظیم کے دوران زمینی حملے بھی کیے گئے۔یہ ڈرون لکڑی اور ٹِن کی مدد سے تیار کیا گیا تھا۔ تاہم مجموعی طور پر یہ ڈرون ناکام ثابت ہوا کیونکہ اس کے انجن سے بہت زیادہ شورہوتا تھا جو کہ ریڈیو سگنلز کے اس پر اثرانداز ہونے کا نتیجہ تھا۔ سوپوڈ ائیرکرافٹ کمپنی نے بھی 1916 میں ایک ڈرون تیار کرنے کی کوشش کی اور اس نے طیارے کی دم سے ریڈیو آلات لگائے تاکہ انجن سگنل سے متاثر نہ ہوسکے مگر یہ بغیر پائلٹ کے طیارے کبھی پرواز نہ کرسکے کیونکہ آزمائش میں ہی اسے حادثہ پیش آگیا تھا۔ آرچی بالڈ لو نے 1917 میں بھی اپنے ڈرون کو اڑانے کی کوشش کی اور اس کا تجربہ کچھ فوجی حکام کے سامنے کیا تاہم کچھ دیر اڑنے کے بعد اس کا انجن فیل ہوگیا اور اس کے نیچے گرنے سے وہاں موجود فوجی افسران مرتے مرتے بچے۔ گوگل گلاسز گوگل نے 2012 میں گوگل گلاسز متعارف کرائے تھے، ایک ایسا آلہ جسے آنکھوں پر لگاکر آنکھوں کی حرکت سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ان گلاسز کو پہن کر کوئی بھی گلی میں چلتے پھرتے یا روزمرہ کے کام کے دوران بیک وقت پیغامات اور دیگر نوٹیفکیشنز دیکھ اور ان کے جواب دے سکتا ہے۔یہاں تک کہ ویڈیو کالز اور انٹرنیٹ سے ویڈیوز بھی اپ لوڈ کرسکتا ہے جس کے لیے ہاتھوں کو استعمال کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔گوگل گلاس اپنی طرز کی منفرد ڈیوائس لگتی ہے اور انقلابی بھی مگر اسے اپنی نوعیت کا پہلاکمپیوٹر گلاس قرار نہیں دیا جاسکتا۔اس طرح کے پہلے کمپیوٹر گلاسز ایڈورڈ تھارپ اور کلایوڈ شانون نے 1961 میں تیار کیے تھے جبکہ 1968 میں ایوان سدرلینڈ نے پہلا ہیڈ ماؤنٹیڈ کمپیوٹر ڈسپلے تیار کیا اور اس موجودہ عہد کے کمپیوٹر گلاسز کا جد امجد قرار دیا جاتا ہے۔1980 میں اسٹیو مان نے ویئر کمپ تیار کیا جو کہ ایسے گلاسز پر مشتمل تھا جس کے ذریعے دیگر کمپیوٹرز سے وائرلیس کمیونیکشن اور ویڈیوز شیئر کرنا ممکن تھا۔ انہوں نے اپنا یہ کام آئندہ برسوں میں بھی جاری رکھا اور 1999 میں ایسا چشمہ تیار کرلیا جو کہ کافی حد تک گوگل گلاس جیسا تھا یا یوں کہہ لیں کہ گوگل گلاسز اس جیسا ہے، جسے آئی ٹیپ کا نام دیا گیا تھا۔ ای سگریٹ ای سگریٹ کو مقبولیت 2012 میں ملنا شروع ہوئی جو کہ ایک اصل سیگریٹ کی ایسی نقل ہوتی ہے جو سیال نکوٹین کو گرم کرتی ہے۔ اس کی ایجاد کا سہرا عام طور پر چینی فارمسٹ ہون لیک کے سر باندھا جاتا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اسے ایک خواب دیکھ کر تیار کیا۔ہون کے والد کا انتقال سگریٹ نوشی کی وجہ سے پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہونے کے باعث ہوا اور وہ خود بھیسگریٹ نوشی کے عادی تھے اور بارہا اس عادت کو ترک کرنے میں ان کی کوشش ناکام ثابت ہوئی۔درحقیقت ہون لیک پہلے شخص نہیں جنھوں نے ای سگریٹ کی ایجاد متعارف کرائی، 1963 میں ہربرٹ گلبرٹ نے دنیا کی پہلی ایسی ڈیوائس تیار کی تھی جسے تمباکو کی مہک والی ہوا جسم کے اندر پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔گلبرٹ کی اصل ڈیوائس تو نکوٹین سے پاک تھی تاہم بعد میں انہوں نے ایک بیٹری استعمال کرتے ہوئے اس میں گرمی پیدا کرنے والا فیچر بھی شامل کردیا جبکہ انہوں نے مختلف ذائقوں کے پانی کو استعمال کرکے بھی بھاپ پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔انہوں نے مختلف کیمیکل، فارماسوٹیکل اور تمباکو کمپنیوں کو یہ ڈیوائس پیش کی تاہم انہوں نے اس ڈیوائس کو مسترد کردیا۔ خودکار گاڑیاں خودکار ڈرائیونگ والی گاڑیاں حال ہی میں شہ سرخیوں میں آئی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت گوگل کی خودکار ڈرائیو کرنے والی گاڑی کو ملی۔گوگل کی ڈرائیور لیس گاڑیوں کی آزمائش سڑکوں پر جاری بھی ہے اور اب تک کئی حادثات کا باعث بھی بن چکی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ٹیکنالوجی اتنی بھی نئی نہیں۔درحقیقت ان کا تصور لیورناڈو ڈی ونچی کے عہد سے چلا آرہا ہے جنھوں نے ایسے اسپرنگ پاور چھکڑے تیار کیے تھے جو خودکار اسٹیئرنگ ڈیوائس سے لیس تھے۔اگر ماضی قریب کی بات کی جائے تو 1958 میں جنرل موٹرز نے ایک خودکار ڈرائیونگ کرنے والی گاڑی تیار کی تھی جس کا اسٹیئرنگ وہیل ایک ایسے تار سے متبادل کرنٹ حاصل کرتا تھا جو اسے خودکار ڈرائیونگ میں مدد دیتا تھا۔تاہم اسے بھی پہلی خودکار گاڑی قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس کے چلنے کا انحصار تاروں پر تھا جو کہ زمین کے اندر نصب ہوتے تھے۔ صحیح معنوں میں ایسی پہلی گاڑی ایس ٹسوگاوا اور ان کے متعدد ساتھیوں نے جاپان کی ٹسیوکوبا مکینیکل انجنئیرنگ لیبارٹری کے لیے تیار کی تھی، تاہم جرمن انجنئیر ارنسٹ ڈکنسن کو اس حوالے سے زیادہ اہم مانا جاتا ہے جنھوں نے 1987 میں وامورس کو تیار کیا جو 55 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے 20 کلومیٹر کا سفر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔سات سال بعد انہوں نے ایک اور گاڑی تیار کی جو سڑک کے اشاروں کو شناخت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی تھی اور اپنی لین میں اپنی پوزیشن سمیت دیگر گاڑیوں کو بھی ڈیٹکٹ کرسکتی تھی یہاں تک کہ لین تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی کرسکتی تھی۔اس سے اگلے سال انہوں نے ایک اور گاڑی تیار کی جس نے جرمنی سے ڈنمارک تک سفر بھی کیا، اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 111 میل فی گھنٹہ تھی اور اس کے سفر کے 5 فیصد حصے تک ایک انسان نے گاڑی کو کنٹرول کیا۔ اڑن سائیکلیں چند برس پہلے ایک اڑن سائیکل پاراویلو سامنے آئی تھی تاہم اسے تفریح کے لیے فلائنگ سائیکل نہیں قرار دیا گیا بلکہ یہ ایسی سائیکل تھی جس کے اوپر بڑے پیراشوٹ نصب تھے جس کی مدد سے یہ پرواز کرسکتی تھی۔ یہ زمین پر 15 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتی تھی جبکہ ہوا میں اس کی رفتار 25 میل فی گھنٹہ ہوتی تھی اور وہ بھی 4000 فٹ کی بلندی پر۔ سب سے اچھی بات یہ تھی کہ اس کے لیے پائلٹ لائسنس کی بھی ضرورت نہیں تھی۔اس کو دنیا کی پہلی اڑن سائیکل قرار دیا گیا مگر یہ خطاب اس کے لیے نہیں تھا۔درحقیقت دنیا کی پہلی اڑنے والی سائیکل نے 9 نومبر 1961 کو پروازبھری تھی اور اسے برطانیہ کی ساؤتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کے ڈیرک پگوٹ نے تیار کیا تھا جو ایک ہوائی طیارے جیسی شکل کی تھی اور اسے ساؤتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کا انسانی طاقت والا طیارے کا نام دیا گیا تھا۔ڈریک اس ہوائی سائیکل کے پیڈل چلا کر اسے زمین سے 6 فٹ بلندی پر لے 64 میٹر تک اڑا کر لے کر گیا ، اگرچہ یہ پرواز مختصر اورسست تھی مگر اس سے یہ حقیقت نہیں بدل سکتی کہ یہ وہ پہلی سائیکل ہے جس نے پرواز بھری۔ جیٹ پیکس یہ سال 2010 کی بات ہے جب مارٹن ائیر کرافٹ کمپنی نے ایک جیٹ پیک متعارف کرایا جسے دنیا کا پہلا جیٹ پیک قرار دیا گیا اور اسے ٹائم میگزین کی 50 بہترین ایجادات کی فہرست کا حصہ بھی بنایا گیا تاہم اصل حقیقت کچھ اور ہی ہے۔دنیا کے سب سے پہلے جیٹ پیک نے 1958 میں پرواز بھری تھی جسے بیلس ایرو سسٹمز کے ایک محقق وینڈل مورے نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس جیٹ کی لمبائی پانچ میٹر تھی اور وہ فضاء� میں تین منٹ تک پرواز کرسکتا تھا۔اس چیز نے امریکی فوج کو اپنی جانب متوجہ کیا جس نے ڈیڑھ لاکھ ڈالرز اس پراجیکٹ پر خرچ کیے جس کے بعد متعدد آزمائشی پروازوں کا اہتمام بھی کیا گیا یہاں تک کہ سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے بھی ایک تجربے میں شرکت کی۔تاہم بعد میں امریکی فوج نے اس پراجیکٹ میں مزید تحقیق کے لیے رقم دینے سے معذرت کرلی جس کی وجہ پرواز کا مختصر وقت اور بہت کم فاصلے تک اڑنا تھا جو اس کے لیے متاثر کن ثابت نہیں ہوا۔ناسا بھی اپوپو 11 مشن کے لیے جیٹ پیک استعمال کرنا چاہتا تھا تاکہ چاند پر اترنے کے دوران کسی حادثے کے نتیجے میں انہیں بیک اپ کے طور پر استعمال کیا جاسکے تاہم بعد میں اس خلائی ادارے نے اپنا ادارہ تبدیل کرلیا اور چاند گاڑی کو ترجیح دی۔اس جھٹکے کے بعد بیلس ایرو سسٹمز نے جیٹ پیک پر مزید تحقیق کو ترک کردیا تاہم یہ حقیقت پھر بھی واضح ہے کہ دنیا کا پہلا جیٹ پیک اس کمپنی کے محقق نے ہی تیار کیا تھا۔ پروں کے بغیر پنکھے پروں کے بغیر پنکھے اپنی بنیاد سے ہوا کو کھینچ کر اپنے اندر موجود سوراخوں کی مدد سے خارج کرتے ہیں۔ اس طرح کے پنکھے کا موجد جیمز ڈائی سن کو قرار دیا جاتا ہے اور اس ایجاد کو 2009 میں ٹائم میگزین کی بہترین ایجادات کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔تاہم فلائنگ جیٹ پیک کی طرح یہ بھی اپنی طرز کا پہلا پنکھا نہیں بلکہ بغیر پروں کے پہلا پنکھا 1981 میں ایک جاپانی کمپنی ٹوکیو شیبا الیکٹرک نے پیٹنٹ کروایا تھا۔اگرچہ ٹوکیو شیبا کے ایسے پنکھے کبھی تیار نہیں ہوئے تاہم جیمز ڈائی سن کے بغیر پروں کے پنکھے کا ابتدائی ڈیزائن بالکل جاپانی کمپنی کے ڈیزائن جیسا تھا۔ٹوکیو شیبا کو دیئے جانے والے پیٹنٹ کی مدت چونکہ پہلے ہی ختم ہوچکی تھی تاہم جیمز ڈائی سن کو نئے پیٹنٹ کے لیے نئے ڈیزائن کی ضرورت تھی۔ڈائی سن کے پیٹنٹ منیجر بھی دونوں پنکھوں کے درمیان مماثلت سے انکار نہیں کرتے تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان میں واضح فرق ٹیکنالوجی ک
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
عبیداللہ عبید
ماہر
Posts: 512
Joined: Mon Dec 29, 2008 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: Pakistan

Re: ایجادات، جو نئی نہیں

Post by عبیداللہ عبید »

ماشاء اللہ عمدہ تحریر ہے لیکن ماخذ کا کچھ ذکر نہیں ہے
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

Re: ایجادات، جو نئی نہیں

Post by nizamuddin »

زبردست شیئرنگ ہے جناب۔۔۔۔۔ شکریہ
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
Post Reply

Return to “ٹیکنالوجی نیوز”