انگوٹھیاں

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

انگوٹھیاں

Post by وارث اقبال »

انگوٹھیاں
سردی تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔آج تو کچھ زیادہ ہی تھی۔ کوئٹہ سے چلنے والی ہواؤں نے احساسِ سردی میں مزید اضافہ کر دیاتھا۔ ہر شے سردی میں نہائی ہوئی تھی۔ ہر جسم کپڑوں سے لدا ہونے کے باوجود مزید کپڑوں کا تقاضا کر رہا تھا۔ ہر ذی روح اپنے اپنے طریقے سے سردی سے بچنے کی کو شش کر رہا تھا۔ کوئی گرم اوٹ میں گھسا بیٹھا تھا ، کوئی آگ جلائے اُس پر جھکا ہوا تھا۔ کوئی کمبل لپیٹے پھر رہا تھا۔ جن کے پاس وقت کی گنجائش تھی وہ تو اپنے لحافوں میں دبکے ہوئے تھے اور جن کے پاس وقت کی گنجائش نہ تھی وہ اپنے کام دھندوں پر رواں دواں تھے۔
نذیر بھی بازار میں دکانوں کے بورڈ پڑھ رہا تھا ۔ اُس نے جیب میں رکھا کاغذ کا ٹکڑا کئی دفعہ باہر نکالا تھا اور کئی دفعہ اندر رکھا تھا۔ پھر وہ ایک دکان کےسامنے کھڑا ہو گیا، کاغذ کا ٹکڑا باہر نکالا ، دکان پر لگے بورڈ کا ایک ایک لفظ اچھی طرح پڑھنےاور مکمل اطمینان کرنے کے بعد اند رچلا گیا ۔ اندر ایک شخص کوئلوں کی انگیٹھی کے اوپر یوں جھکا ہوا تھا جیسے اُس کے اندر جانے کی کوشش کر رہاہو۔ نذیر کے سلام کی آواز سن کر اُس نے اپنی موٹی سی گردن اوپر اٹھائی ، ’’ تصویر بنوانی ہے۔‘‘
’’ جی ۔۔ اگر آپ بنانا چاہئیں۔‘‘ نذیر نے اُس کے اندازِ تخاطب کے مطابق اُسے جواب دیاتو وہ ہنس پڑا،
’’ بیٹا بیٹھے ہی اس لئے ہیں۔۔ کہاں سے آئے ہو۔‘‘ دکاندار نے انگیٹھی کے کوئلوں کی ترتیب بدلتے ہوئے کہا۔
’’ شفیع محمد نے بھیجا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ تو پہلے بتانا تھا نا۔۔۔ آ ادھر بیٹھ ۔۔۔۔ بتاؤ ناشتہ واشتہ کیا ہے۔۔۔۔۔ صبح بہت سویرے چلا ہو گا گاؤں سے۔‘‘
شفیع محمد کا نام سنتے ہی دکاندار کے اندر سے ایک اور دکاندار پیدا ہوگیا۔
’’ نہیں جی اماں نے کھانا ساتھ دے دیا تھا ابھی اڈے پر اتر کر پہلے کھاناکھایاپھر چائے پی اورپھر آگے چلاجی۔‘‘
نذیر نے اپنا ایک ہاتھ جو اُس کی گرم چادر سے باہر تھا انگیٹھی کے عین اوپر کرتے ہوئے کہا،
’’ شفیع محمد میرا جگری ہے ۔۔۔۔ تو بھی تو جگری ہوا نا۔۔۔۔ تم یہاں بیٹھو ، میں چائے لے کر آتا ہوں۔ ‘‘
’’ نہیں بھائی جان آپ ایسا نہ کریں بس مہربانی ہوگی تصویر بنا دیں ۔۔۔ میں نے دفتر بھی جانا ہے۔ ‘‘
’’ اچھا ! کس بورڈ کے دفتر ۔‘‘
’’وہ داخلہ جمع کروانا ہے جی ۔۔۔۔ میڑک کا۔‘‘
’’ واہ جی ! واہ تو باؤ بننا ہے۔۔۔۔‘‘
’’ نہیں جی وکیل ۔۔۔۔ اماں کہتی ہیں ۔۔ ‘‘
’’ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔ دیکھو نا اگر میں پڑھ لیتا تو یہاں سارا دن بیٹھ کر رنگ برنگی شکلیں تو نہ دیکھتا۔۔‘‘
’’ رنگ برنگی جی۔ ‘‘ نذیر سے جملہ ہضم نہ ہوا۔
’’ ہاں تو اور کیا۔۔کوئی کوجھی، کوئی گندی۔۔۔۔۔‘‘
’’ کوئی سوہنی بھی تو ہوتی ہوں گی نا جی۔‘‘ نذیر نے جملہ کاٹ کر کہا۔
’’ ہاں بھئی میں نے بس ایسے ہی کہہ دیا تھا کوئی تیرے جیسی سوہنی بھی تو ہوتی ہیں نا۔‘‘
فوٹو گرافر کا یہ جملہ سن کر نذیر کے گالوں پرشرم کا رنگ پھیل گیا ۔
’’ جی جی ۔۔۔ مہربانی جی ! پر تصویر۔۔۔۔‘‘
’’ آؤ ! بناتے ہیں تصویر۔۔‘‘
فوٹو گرافرنذیر کو نیلے مگر میلے ترین پردوں کے پیچھے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گیا۔ جہاں ایک کیمرا اسٹینڈ پر دھرا تھا۔اسٹینڈکے نچلے حصہ کو زنگ تقریباً کھا چکا تھا۔ دو بڑے بڑے بلب چھت سے لٹک رہے تھے۔ جب وہ جلائے گئے تو پتہ چلا کہ دیواروں پرفلمی اداکاروں کے پوسٹرز بھی لگے ہوئےتھے۔ ان میں سے زیادہ تر پوسٹر وقت کا عتاب کافی حد تک جھیلنے کے بعد اپنی حیات کا آخری عشرہ ہی مکمل کر رہے تھے۔ کسی ہیروکی مونچھیں پان کی پیکوں کی نظر ہو گئی تھیں اور کسی ہیروئن کا حسن انگلیوں کے پانچ نہیں کئی نشانات کی گرفت میں تھا۔
نذیر کچھ کہے بغیر سامنے رکھے بنچ پر بیٹھ گیا جس کی گدیاں کسی زمانے میں رکھی ضرور گئی تھیں لیکن اب فقط آثار باقی تھے۔ بیٹھنے والا گدیاں سمجھ کر بیٹھتا ہے مگر دھم کر کے بنچ کی خالص شیشم کی لکڑی سے جا ٹکراتا ہے۔ نذیر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا شرمندگی میں بےچارا نہ اپنا پچھلا حصہ مل سکتا تھا اور نہ دکھ کا اظہار کر سکتا تھا۔ بس یونہی بل کھاتے ہوئے گھسٹ گھسٹ کر رگڑ سے اٹھنے والے درد کو سہلاتا رہا۔۔۔
اُ س کے بالکل پیچھے ایک سیاہ چادر استادہ تھی۔ جس کارنگ تو سلیٹی تھا لیکن وقت کی سیاہی اُس پر اس طرح چڑھی تھی کہ بےچاری اپنی اصل شناخت ہی کھو بیٹھی تھی۔ ایک کونے میں دو پلیٹیں ادھورے یا بچے ہوئے کھانوں سمیت موجود تھیں جو کم از کم دو ماہ پہلے کی کسی دعوت یا عیاشی کی واحد گواہ تھیں ۔ یہ اب اُس دن دُھلیں گی جس دن نئی عیاشی ہوگی۔ ایک لمبی سی خالی بوتل پر نذیر کی نگاہیں ٹک ہی گئیں یہ تقریباً وہی تھی جو چھوٹے چوہدری کی شادی پر اُس نے پہلے دفعہ دیکھی بھی تھی اور اس کا پانی بھی چکھا تھا۔ اُس دن وہ بڑا خوش تھا کہ انگریزی کا ذائقہ چکھنے کا موقع ملا۔
’’ سامنے دیکھو۔۔۔ میرا خیال ہے یہ چادر اتار دو۔۔۔ اچھا۔۔ ٹہرو ۔۔۔کنگھی بھی کر لو۔۔‘‘فوٹو گرافر نے ایک بڑے سے آئینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،
’’ یہ لو کنگھی بال وال ٹھیک کر لو۔‘‘
نذیر نے اُس آئینے نما چیز میں خود کو دیکھا ، اپنی پتلی سی مونچھوں کو تین چار تاؤ دئیے ، میلی کنگھی بالوں میں پھیری تو دو لمبے لمبے زنانہ بال گر کر اس کی پلکوں پر آ کرٹہر گئے۔۔۔جنہیں اُس نےپکڑ کرلہراتے ہو ئے پھونک مار کر ہوا کے حوالے کر دیا۔
’’ ایک جوڑا آیا تھا۔۔۔ کُڑی کے تو بال بس لگتا تھا پانی سے جڑے ہوئے تھے ۔۔۔ میں نے کافی صاف کئے ہیں پھر بھی کوئی ایک آدھ نکل ہی آتا ہے۔‘‘
فوٹوگرافر نے شاید کچھ پردہ پوشی کی کوشش کی ۔
’’ ہاں جی یہاں تو ہر قسم کا بندا آتا ہوگا۔‘‘
نذیر نے کنگھی کرتے ہوئے اُس کی بات کا جواب دیا اور پھر بنچ پر آکر بیٹھ گیا۔
’’ جب میں کہوں ریڈی تو آنکھیں کھول لینی ہیں۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اُس نے کہا تو نذیر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔

امتحان کیا آئے مصیبت ہی آ گئی ۔ پہلے داخلہ کا مسئلہ ۔ داخلہ جمع کروانے کے پیسے کہاں سے آئیں۔ ابا نے تو صاف انکار کر دیا تھا۔
’’ اتنی سی تنخواہ میں پانچ بچوں کی روٹی پوری کروں یا تم لوگوں کے نخرے اٹھاؤں۔ ‘‘
حالانکہ وہ خودگاؤں کے اسکول میں ایک استاد تھے اور تعلیم کی اہمیت پر تقریریں بھی بہت کرتے تھے۔ لیکن اب جب نذیر کی تعلیم پر خرچے کا معاملہ آیا تو صاف ہاتھ کھڑے کر دئیے بلکہ یہاں تک کہہ دیا،
’’ کوئی چھوٹاموٹا کام کر لو ۔۔ ویسے بھی اب ڈگریوں کو کون پوچھتا ہے۔۔ ہر طرف سفارش چلتی ہے۔۔ ہمارے پا س کہاں سے آئے گی سفارش ۔‘‘
’’ ابا لمبردار جی جو ہیں۔۔ ہمیشہ کہتے ہیں کوئی کام ہو تو بتانا۔ ‘‘
نذیر سے چھوٹی نے حل نکالا تو ابا نے بھی فوراً اسی طرح جواب لوٹا دیا۔
’’یہ سب کہنے کی باتیں ہیں اس سے تو اپنی اولاد نہیں جھلی جاتی ، ہمارا کیا سوچے گا۔۔۔۔۔ ایم پی اے کے پیروں میں بیٹھا ہوتا ہے۔۔۔ میرے بیٹے کو تھانیدار لگا دو۔۔۔۔۔‘‘
اماں ہی تھیں جن کو شوق تھا کہ ان کے بچے پڑھیں اور افسر بنیں ۔ وہ چولہے پر روٹیاں پکاتے ہوئے سب کچھ غور سے سن رہی تھیں۔ پھر انہوں نے کھانا کھانے کے بعد نذیر کو کمرے میں لے جاکر اپنی ایک انگوٹھی دیتے ہوئے کہا،
’’ اُس سونے کو کیا کرنا جو کام نہ آئے ۔۔۔ چل میرا پتر یہ بیچ دے اور اور اپنا ڈنگ سار لے۔‘‘
نذیر کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کہے بس اتنا ہی کہہ سکا،
’’ لیکن اماں ۔۔۔۔۔‘‘
اماں اندر کی ساری بات سمجھ گئیں ۔ گلے سے لگایا اور ماتھاچومتے ہوئے کہا،
’’ جب تو وکیل بن جائے گا نا تو مجھے دو بنوا کر دینی ہیں۔‘‘
نذیر نے ہنستے ہوئے کہا،
’’ بس اماں دو۔۔۔۔‘‘
’’ او تو دس اور خرچے بھی تو کرنے ہیں ۔ بچوں نے انگریزی اسکول جانا ہے ، بڑے سے گھر اور نوکر چاکر کے خرچے۔۔۔۔ بس چھوڑ تو جا بس اپناکام چلا اور بے فکر ہو کر پڑھ۔‘‘
اماں نے اپنے اندر پتہ نہیں کون سی دنیا بسائی ہوئی تھی۔ ایسی دنیا جس میں اس کا ہر بچہ خوشیوں کی برکھا رتوں کا باسی تھا۔ا ُس نے اپنے ہر بچے کے مستقبل کا تعین کر رکھا تھا۔ اور ان کا ایمان تھا کہ ویسا ہی ہوگا جیسا انہوں نے سوچ رکھا تھا۔
سیکنڈ ڈویژن میں میڑک کرنے کے بعد نذیر کالج جانے لگا۔ اماں نے ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی کمیٹی ڈال رکھی تھی ۔ جواس دفعہ تو ایسی کام آئی کہ سب کو حیران کر کے رکھ دیا۔ ادھر کالج کا داخلہ دینے کا وقت آیا ادھر کمیٹی نکل آئی۔ اس دفعہ تو ابا بھی خوش تھے۔ ایک دن جب وہ کالج سے واپس آیا تو ابانے کہہ ہی دیا ،
’’ وکالت وکولت میں کچھ نہیں رکھا، بس تو ایس ایس ٹی بن جا آرام سے کھائے گا۔ ‘‘
نذیر بھی ابا کی بات کو ’’ جی ہاں‘‘ کہہ کر پی گیا اور دل میں سوچا،
’’ بننا تو میں نےتووکیل ہی ہے۔ بڑا ٹے کا ہوتا ہے۔ اور پھر بعدمیں بندا چاہئے ایم اپی اے کے مقابلہ میں کھڑا ہو جائے۔‘‘

اباجی ریٹائر ہوگئے اورجوپیسہ سرکار کی طرف سے ملا سارا بانو کی شادی میں لگنا شروع ہو گیا ۔۔۔۔ کسی نے مشورہ دیا ،
’’ اب تو منڈا کالج جاتا ہے کوئی اچھی کڑی دیکھ کر شادی کر دو۔‘‘
ادھر سوچ آئی اور ادھر رشتے آنے شروع ہوگئے اور پھر ماموں کے ہاں رشتہ طے بھی ہوگیا۔ سرکاری پیسہ کا بچا کھچا نذیر کی شادی پر لگ گیا۔ ان پیسوں میں بس اتن اہی ہوا کہ ایک دلہن بن کر گئی اور ایک دلہن بن کر آگئی۔
سب نے شکر کیاکہ اماں کو گھر کے کام کاج میں سہارا ملا۔۔ اب تو اُن سے کام بھی نہیں ہوتا تھا روز کوئی نہ کوئی بیماری گلے پڑی ہوتی۔۔ نذیر شادی کے باوجود کالج باقاعدگی سے جاتارہا۔ بی اے کا پہلا ہی سال تھا تو ٹیوشن بھی مل گئی۔ لیکن ٹیوشن سے بس اپنا ہی خرچ پانی چلتا تھا۔ مسئلہ اُس وقت پڑ اجب دلہن پیٹ سے ہوئیں اور ڈاکٹر نے آپریشن کا کہہ دیا۔ اللہ اسباب پیدا کرنے ولا ہے نذیر کو ایک اکیڈمی میں پڑھانے کی نوکری مل گئی ۔ وہ کالج سے سیدھا ایکیڈمی چلاجاتاا ور رات دیر گئے گھر لوٹتا۔
وہ جب بھی لوٹتا تو اماں کو جائے نماز پر پاتا۔ وہ جائے نماز پر بیٹھے چاروں اطراف پھونکیں مارتی رہتیں۔ جونہی نذیر اُن کے سامنے آتا تووہ جائے نماز رکھ کر اُس پر رہی سہی پھونکیں مارتیں اور کہتیں ، ’’ کاکی کھانا لے آ ،پیٹ حلق کو آ رہا ہے بےچارے کا۔‘‘

اُس دن تو نذیر جماعت میں ہوتے ہوئے بھی جماعت سے باہر تھا۔ بس سپنے ہی سپنے جنہوں نے اُسے گھیر رکھا تھا۔ جیسے اُسے آج ہی زندگی کا وہ سب کچھ ملنے والا ہے جس کا اُس نے سوچ رکھا تھا۔ اُسے جلدی تھی ایکیڈمی جانے کی ۔ کیونکہ آّج اُسے اکیڈمی سے پہلی تنخواہ ملناتھی۔
وہ کالج سے فارغ ہو کر بس میں بیٹھا سوچ رہا تھا ۔ اماں نے ان کے لئے کتنی قربانیاں دی ہیں۔۔ اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑا ، ساری زندگی تنگی میں گزارا کیا۔ اپنے بچوں کو پالا۔ جب بھی کسی پر کوئی بھی مصیبت آئی اماں کا دست مبارک اُ س کی طرف بڑھ گیا۔ جب بھی کوئی پریشان ہوا تو اماں کی ہی گود اُس کے لئے جائے امان بنی۔ وہ بیمار ہو ں یا صحت مند سب کی خدمت میں جتی رہتیں ۔ نہ اُس نے کبھی مسلا چھوڑا نہ نہ کوئی مسئلہ ، نہ عبادت چھوڑی نہ خدمت۔ اپنوں کی ہی نہیں جو بھی دروازے پر آگیا خالی ہاتھ نہ گیا۔
نذیر نے اپنی پہلی تنخواہ لی اور سیدھا سنار کے پاس گیا۔ اماں کا قرض بھی تو اتارناتھا۔
تنخواہ تو ساری کی ساری لگ گئی لیکن جب وہ اماں کو انگوٹھیاں پہنارہا تھا تو اُس سے خوشی سنبھالی نہیں جا رہی تھی۔ لگتاتھا جیسے اُس نے کائنات حاصل کر لی ہو۔ اماں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دیکھ کر تو وہ بھی اپنے جذبات قابو میں نہ رکھ سکا۔ اُس نے خود سے کہا اماں میں تیرے قرض نہیں اتار سکتا، میرا رواں رواں تیرے احسانوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اگر میں شمار کرنا بھی چاہوں تو نہ کر سکوں ۔ تو میرے درد مٹاتی رہی میں تیرے ایک درد بھی نہ مٹا سکا، تو سہارے دیتی رہی میں تیرا سہارا نہ بن سکا۔
اماں نے انگوٹھیاں پہن تو لیں لیکن نا چاہتے ہوئے۔ کبھی کہتیں،
’’ میں نے تو کہا تھا جب وکیل بنو گے تب دینا۔ ‘‘
کبھی کہتیں، ’’ دلہن کو دے دو اس کا حق زیادہ ہے۔ ‘‘
کچھ نہ بن پایا تو کہنے لگیں ،
’’ اپنی نکی کے لئے رکھ لو۔۔۔ شادی میں کام آئیں گی ۔ ‘‘ لیکن سب نے زبردستی پہنا ہی دیں۔

نذیر پریشان تھا، ڈاکٹر نے آپریشن کا کہہ دیا ہے۔ اماں کو جب پتہ چلا تو انہوں نے انگوٹھیاں اتار کر نذیر کو دیتے ہوئے کہا،
’’ پریشان نہیں ہونا۔۔ یہ لے لو۔۔۔ اور دلہن کا علاج کرواؤ۔۔ اللہ خیر کے دن دکھائے۔‘‘
’’ اماں ابھی تو چار دن بھی نہیں ہوئے۔‘‘
’’ خیر ہے ، کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ تو زیادہ نہ سوچ ‘‘
نذیر نے ہچکچاتے ہوئے ایک انگوٹھی لے لی۔
اماں کو شوگر نے آن گھیرا تھا۔۔ ان سے چلا بھی نہیں جاتا تھا۔ نظر بھی کمزور ہو گئی تھی ۔ ایک دن انہوں نے نذیر کو بلا کر کہا،
’’ مجھے لگتا ہے میرا وقت قریب ہے۔ لڑکوں کاکیاہوتا ہے وہ تو کچھ کر ہی لیتے ہیں ، توں نکی کے سسرال کو کہہ کر آکہ کڑی کے دن لے لیں۔‘‘
’’ لیکن اماں وہ تو ابھی پڑھ رہی ہے۔‘‘
’’ ہوجائے گی پڑھائی ۔۔ اپنے گھر جا کر بھی پڑھ لے گی۔ کون سا جاہلوں میں جارہی ہے۔ ‘‘
’’ لیکن اماں ۔۔ کاکا ابھی کچھ نہیں کرتا ۔۔ میری اکیڈمی سے اتنا کہاں کہ ۔۔۔۔۔ ‘‘
’’ او توں فکر نہ کر ۔۔ میرے چار کنگن ہیں۔۔ اسی دن کے لئے رکھے تھے۔۔، اور ہاجراں کے پاس کمیٹی بھی ڈالی ہے۔ چار سال ہو گئے ہیں ایک بھی کمیٹی میں نے نہیں لی۔ میں نے پکا کیا تھا کہ نکی کی شادی پر لوں گی ۔۔ مل ملا کر۔ پورا ہو ہی جائے گا۔ بس تم تیاری کرو۔ ‘‘
اُ س دن تو نذیر کا جی چاہتاتھا کہ وہ اماں کے پیروں میں پڑا رہے اور اتنا روئے کہ اندر سے سارا پانی نکل جائے۔۔ اماں کیاہے تُو۔۔ تُوکوئی فرشتہ ہے۔۔۔ یا کوئی ماورائی طاقت ۔۔ ہر مشکل میں کام آتی ہے۔۔ نہ گھبراتی ہے نہ گھبرانے دیتی ہے۔۔ تیرے ہاتھ میں کیا چھپا ہواہے جو سارے کام نمٹا لیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ خود اُف تک نہیں کرتی اور دوسروں کی اُف سن نہیں سکتی ، تو کوئی پری ہے کسی اور دیس کی تُو اس دیس کی نہیں ہو سکتی ، تیری ادائیں ، تیری وفائیں سب کسی اور دیس کی ہیں۔ تو نے اثبات ہی سیکھا ہے ، نفی تو تیرے پاس سے نہیں گذرا۔
تو مدرسہ بھی ہے اور معلم بھی ، تو مسیحا بھی ہے اور مسیحائی بھی ۔۔۔۔ نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔ تو فقط ماں ہے۔۔ بس ماں ۔۔ اور میری ماں ۔
ادھر سے اماں کی بیماری تھی کہ بڑھتی جارہی تھی۔۔۔ اب تو وہ چل پھر بھی نہیں سکتی تھیں ۔ ہاتھ پیر اتنے کمزور ہو گئے تھے جیسے کسی پودے کی شاخیں ۔۔۔ اور نرم اتنےجیسے روئی کے گالے۔۔۔۔۔بس وہ دن پورے کر رہی تھیں۔۔۔ نہ ہونے کے برابر کھاتیں، سوئے جاگے گھر کے تمام کاموں میں شریک رہتیں ، کبھی گردن ہلا کر ، کبھی ہاتھ کے اشارے سے اپنے مشوروں سے بھی نوازتی رہتی ۔۔۔۔۔۔۔نہ ہائے کرتیں نہ اُف ۔۔۔۔۔۔
نذیر کی وکالت کا آخری سال کم ہوتے ہوتے مہینے میں سمٹا ، مہینہ ہفتوں میں اور پھر وہ دن بھی آ گیا جب وہ وکیل بن گیا۔ اُس دن اماں نے ضد کر کےمٹھائی کھائی تھی۔ کیسے نہ کھاتیں ان کی زندگی کا مشن ، ان کی زندگی کاارمان پوراہوا تھا۔ کچھ دن تو یوں لگا جیسے وہ صحت یاب ہو رہی ہیں لیکن پھر ان کی صحت گرنا شروع ہو گئی۔
نذیر کو اماں کی صحت کی پریشانی تو تھی ہی لیکن ا س سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ اگر اماں کو کچھ ہو گیا تو وہ کیا کرے گا۔ اُ س نے اپنی دلہن سے کہا تھا،
’’ ابھی تو میری آمدن بھی شروع نہیں ہوئی ، اماں ہیں کہ جانے کے لئے تیاری کر رہی ہیں ۔ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو سب کچھ کیسےہو گا ۔۔۔۔‘‘
ا س کی دلہن نے نذیر کو سمجھاتے ہوئے کہا ،
’’ لو کیسے ہوگا کیا۔۔۔جیسے دنیا کرتی ہے۔ آپ خوامخواہ پریشان ہو رہے ہیں اللہ انہیں زندگی دے انہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔ لیکن اگر کوئی برا وقت آگیا تو آپ نے پریشان نہیں ہونا ۔ میں نے بلقیس کے ہاں کمیٹی اسی شرط پر ڈالی تھی کہ اگر اماں کو ہسپتال جاناپڑا تو وہ ہمیں کمیٹی دے دے گی۔۔‘‘
نذیر سن کر خوش ہو گیا ۔ ’’ ارے تم تو پوری کی پوری اماں پر گئی ہو۔‘‘
’’ کیوں نہیں ہر عورت میں اماں چھپی ہوتی ہے۔‘‘
خدا کا کرنا ایسا ہو اکہ نذیر کی وکالت چل نکلی ۔۔ اور چار کیس ایسے ملے کہ نذیر کے ہاں گاڑی بھی آگئی۔ اس نے گاڑی میں اماں کو بٹھاتے ہوئے کہا،
’’ اماں اب پریشان نہیں ہونا ۔۔ جب بھی ڈاکٹر کے پاس جانا ہو تو گاڑی میں جانا ۔‘‘
’’ ارے باولے ۔۔۔ اللہ نہ کرے مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے ۔۔ اور جہاں مجھے جانا ہے وہاں تیری یہ گاڑی نہیں جا سکتی۔ ‘‘
نذیر اماں کی بات سن کر رونے لگا ، ’’ اماں ایسی باتیں نہ کیا کر۔ اللہ تمہیں میری عمر بھی دے دے۔ ‘‘
’ ایسے ہی اللہ تمہاری عمر مجھ بڑھیا کو لگا دے۔۔ اللہ تمہیں اپنے بچوں کے سروں پر سلامت رکھے۔ ‘‘
شہر آنا جان بہت مشکل تھااس لئے نذیر اپنے خاندان کے ساتھ شہر میں ہی آ بسا ۔ وہ اس لئے بھی مطمئن تھا کہ اماں کا علاج اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے کروا سکتا تھا۔ لیکن کچھ بھی نہ ہوا ، نہ اماں کی نظر لوٹی نہ صحت۔
اُ س دن سب کچھ اپنے معمول کے مطابق تھا۔ سورج نکلنے سے پہلے مرغ کی بانگ ، مسجد میں دردو و سلام کا ورد ، پرندوں کا حمدو ثنا ، لوگوں کے گھروں کے باہر گاڑیوں کے ہارن کی آوازیں ، اسکول جاتے ہوئے بچوں کی شرارتیں ، دفتروں کو بھاگتے ہوئے والدین ، گداگروں کے دعائیہ نعرے سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔
نہیں تھا تو ابا جی کے کمرے میں۔۔ جہاں معمول اپنی بقا کی لڑائی لڑ تے ہوئے مات کھا رہا تھا۔ آج اماں نے صبح چار بجے کی بجائے ۵ بجے چائے پی تھی۔ آج انہوں نے ابا جی سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ آج اباجی کا چائے پینے کو دل نہیں کر رہا تھا۔ انہوں نے دو دفعہ دلہن کو بلا کر چائے منگوائی تھی لیکن پی نہیں تھی۔ آج نذیر کے چھوٹے بیٹے نے پہلی دفعہ اسکول جانے سے انکار کیا تھا۔ آج بہت دنوں بعد نذیر کو کسی عدالت میں نہیں جانا تھا۔ اُس نے رات ہی کہہ دیا تھا کہ صبح اُ س نے چھٹی کرنی ہے۔
دلہن اباجی کو چائے دینے گئیں تو روتی ہوئیں واپس آئیں ۔
’’ نذیر اماں جی۔۔‘‘
’’ کیا ہوا ؟‘‘
کہہ کر وہ اباجی کے کمرے میں بھاگا۔
اماں چھت کی طرف منہ کر کے سوئی ہوئی تھیں۔ نذیر نے دیکھتے ہی کہا،
’’ آپ سب لوگ ایسے ہی پریشان ہو جاتے ہیں۔ دیکھیں تو سہی وہ سو رہی ہیں۔‘‘
لیکن جب اُ س نے اماں کے پاؤں کو ہاتھ لگایا تو وہ ٹھنڈا تھا۔ اس کے دماغ میں لگی مشین نے فوراً کہا،
’’ اماں گئیں ۔‘‘
اس نے سینے پر سر رکھ دیا، سینہ کسی بند کمرے کی طرح جامد، ساکت دیوار محسوس ہوا۔
وہ وہیں بیٹھ گیا۔۔۔۔ اُسے لگا کہ اُس کے اندر سے کچھ نکل گیا ہو، اُسے زندگی کی چھت زمین بوس ہوتے ہوئے محسوس ہوئی۔
’’ نذیر اُٹھ جا ئیں ڈاکٹر کو بلا لیں اماں نہیں رہیں۔‘‘
اُس نے ماں کے سینے سے سر اٹھایا اور کھڑا ہونے کی کوشش کی ۔لیکن لڑکھڑا کر پھروہیں بیٹھ گیا۔۔۔ اُسے لگا جیسے ماں اُسے اٹھنے نہیں دے رہی تھیں۔۔اپسے لگا جیسے وہ کہہ رہی ہوں کوئی ضرورت نہیں ڈاکٹر کو بلانے کی۔۔۔ میں ٹھیک ہوں ۔۔۔ وہ اکثر ایسے ہی تو کہتی تھیں۔ ۔۔۔ لیکن اماں یہ بھی ضروری ہے ۔۔۔ وہ یہی کہا کرتا تھا۔۔۔۔۔ اُس نے ماتھا ماں کی چارپائی پر ٹکا لیا لیکن کچھ نرم اور گداز سا احساس پا کر سر اٹھا لیا۔ دیکھا کہ
اماں کا ایک ہاتھ اُس کے سامنے لٹک رہا تھا۔
سفید ہاتھ جس پر سبز رگیں اور ہڈیاں الگ الگ دکھائی دے رہی تھیں۔
اُس ہاتھ کی درمیان والی انگلی میں سونے کی انگوٹھی جگمگا رہی تھی۔ شاخ جیسی باریک انگلی سے نکلنے کے لئے تیار۔
اُس نے ماں کا یہ ہاتھ تھاما ، انگوٹھی کو کس کر دبایااورہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا۔
ماں تیرے ہاتھ کی جگہ میرا سر ہے ماں ، ماں مجھ سے یہ عنایت، یہ کرم نہ چھین ماں ۔
ماں تیری دعاؤں کا حصار۔۔۔۔ اب میری حفاظت کون کرے گا۔۔۔۔۔۔ تیری گودکا مسکن۔۔۔۔۔۔ اب میرے دکھ کون سنے گا۔۔۔۔۔۔۔
سر پر ماں کا ہاتھ سر پررکھے وہ روتا رہا اور انگوٹھی جھل مل جھل مل کرتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتہ نہیں وہ رو رہی تھی یامسکرا رہی تھی۔
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: انگوٹھیاں

Post by میاں محمد اشفاق »

واہ بہت ہی خوب جناب، شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

Re: انگوٹھیاں

Post by وارث اقبال »

ہائے لوگ عہدَ حبس میں ہوا تلاش کرتے ہیں . اک ہم ہیں کہ عہدَ صبا میں حبس تلاش کرتے ہیں.
میں اس قحط کتب بینی میں
پھر ایک افسانہ لے آیا
بہروں کے اس شہر میں
پھر ایک ترانہ لے آیا
میں بازار غلاماں میں پھر
بیچنے کواک دیوانہ لے آیا
وارث اقبال
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”