پانچ ہزار کا نوٹ

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

پانچ ہزار کا نوٹ

Post by وارث اقبال »

پانچ ہزار کا نوٹ وارث اقبال
کیفے ٹیریا کے باہرگلاب کے پھولوں کے باغیچے میں سردیوں کی تیز دھوپ اور جنوری کے مہینے کی مخصوص خنکی کا راج تھا۔ سالِ نو کے نووارد طلبا آنکھوں میں کامیابی کی چمک لئے چائے اور کافی کی چسکیاں لے رہے تھے۔ کیفے ٹیریاکے اندر سے شامی کبابوں کے تلے جانے کی بھڑکیلی خوشبو نے اس باغیچہ کے ماحول کو گرما رکھا تھا۔ لگتا تھا آج پھر شامی کبابوں کی مانگ عروج پر ہے۔
صابر بھی باغیچہ کے ایک کونے میں بیٹھا اپنے دوست شہزور کو پرائمری اسکول سے یونیورسٹی تک کی کہانی سنا رہا تھا۔ دونوں دوست ایک دوسرے کو اپنے اُن سپنوں کے بارے میں بتا رہے تھے جن کو پانے کے لئے انہوں نے دن رات ایک کر دیا اور پھر کہیں جا کر انہیں اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔
شہزور اور صابر کی دوستی نے ابھی تک صرف سات دنوں کی ہی مسافت طے کی تھی لیکن دونوں کو یوں لگتا تھا جیسے وہ بچپن سے ہی ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔
’’ مجھے تو سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں۔ کس کے پاس اتناوقت ہے کہ ضائع کرے۔ ‘‘ صابر نے بہت سے پھولوں میں سے ایک کو مرکزِ نگاہ بناتے ہوئے کہا۔
’’ نہ بھئی نہ ہم تو یونیورسٹی کی سیاست پر چھانے کے لئےآئے ہیں۔ تم دیکھناکل میرے نام کے نعرے یونیورسٹی کی ہر راہداری سے لے کر کمروں کے دریچوں تک گونجیں گے۔ ‘‘
شہزور نے سیاست دانوں کی طرح ہاتھوں کو لہرا کر اپنے مقاصد کا اعلان کیا۔ گرچہ ابھی اُسے صابر کے سوا کوئی دوسرا جانتا تک نہ تھا لیکن ارادے بڑے مضبوط تھے۔
’’ اللہ کرے۔‘‘ صابر نے پلیٹ سے ایک شامی کباب اُٹھاتے ہوئے کہا۔ شہزور اُسے غور سے تکتا رہا ۔ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ صابر نےدعا دی تھی یا طنز کیا تھا۔ وہ سامنے رکھی ہوئی میزکی طرف جھکا ، شامی کبابوں کی خالی پلیٹ کے قریب بائیں کہنی رکھ کر، اپنے بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کے درمیان اپنے چہرے کی ٹھوڑی پھنسا کر کچھ دیر صابر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا رہا اور پھر دائیں ہاتھ سے اُ س کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا جس دن میرے آگے اور ارد گرد بیٹھے ہوؤں نے میری شعلہ بیانی کے چند لمحے چکھ لئے تو دیکھنا یہ سب میرے پیچھے چل پڑیں گے۔ ‘‘
’’ ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن مجھے یہاں ہی جگہ دینا۔‘‘ صابر نے اُس کے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’ او، تُو تو میرا جگڑ ہے۔ گٹوں میں گوڈوںمیں جہاں جگہ ملی آ جانا۔ ‘‘ صابر نے اُٹھتے ہوئے اصلاح کی کوشش کی۔
’’ چل کلاس میں چلیں جگڑ۔ ‘‘
شہزور کو سمجھ نہیں آئی ،اور
’’ ہاں جگڑ ‘‘
کہہ کر صابر کے ساتھ چل پڑا۔
ایک سال میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں ۔ شہزور یونیورسٹی کی یونین کا سرگرم رکن بن چکا تھا اور صابر کا چچا زاد یعقوب بھی یونیورسٹی میں آ گیا تھا۔ گاؤں میں تو ان کی خاندانی دشمنی اتنی زیادہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے لیکن یہاں اپنی دشمنی کو چھپانا اور سچے رشتہ داروں کی طرح رہنا اُن کی مجبوری تھی۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے ،ہنستے کھیلتے لیکن دونوں کے اندر دشمنی میں وہی گہرائی تھی جو ان کے خاندان میں پہلے دو قتلوں کے بعد ہر فرد میں تھی۔

لائبریری کی کتابوں کی مخصوص خوش بو لائبریری میں چاروں اطراف پھیلی ہوئی تھی ۔ صابر ایک کتاب لئے خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا ۔ اُس کی نظریں کتاب پر تھیں ، لیکن دل دروازے کی دہلیز پر تھا ۔ انتظار تھا شہزادی کا ۔
وہ نام کی ہی شہزادی نہیں تھی بلکہ اس کا آنا جانا ، اٹھنا بیٹھنا ، بولنا چلنا، عمل دخل سب شہزادیوں جیسا تھا۔ اُس کے عاشقوں کی قطار بھی بہت لمبی تھی جو اُ س کی رعایا کی طرح اُس کے ناز نخرے اٹھانے کی دوڑمیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو میں ہمہ تن مصروف رہتے۔ وہ بہت احتیاط سے چلتی، چیونٹی تک کو اپنے پیروں سے بچا کر گذرتی، ہر کسی کے ساتھ ایک طرح کا برتاؤ کرتی لیکن ناجانے کیوں کئی عاشقوں کے دل اُس کے ناز نخروں کا بوجھ نہ برداشت کرتے ہوئے مسلے جا چکے تھے۔ کئی اپنی پڑھائی لکھائی چھوڑ کر اُسی کے گن گانے میں لگے رہتے ، کئی شاعر بن گئے اور کئی اُس کے راستوں کے مسافر ۔ انہی میں صابر بھی شامل تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یعقوب بھی ۔
لائبریری کا دروازہ کھلا، وہ آئی، کتابوں کی کئی الماریوں کا طواف کیا اور کیٹس کی شاعری کی ایک کتاب اُٹھا کر ایک گوشے میں جا بیٹھی۔ ورق پر ورق بدلتا رہا اور کیٹس کی شاعری اُ س کے اندر اُترتی رہی ۔
صابر اشفاق احمد کی کتاب پکڑ کر بیٹھاتھا لیکن ورق گردانی دیباچہ پر ہی تھمی ہوئی تھی۔ آنکھیں سامنے بیٹھی کندن سے بنی مورت کا طواف کر رہی تھیں۔ زمرد کے رنگین لباس میں ملبوس وہ زمرد میں جڑے کندن کی طرح دھک رہی تھی۔
کتاب پر جھکی پلکیں جھک کر کچھ زیادہ ہی لمبی ہو گئی تھیں ۔ جیسے جیسے شاعری کامزاج بدلتا ویسے ویسے اُس کے چہرے کے رنگ بدلتے ۔ کبھی گلابی، کبھی سرخ۔ صابر اُس کی ہر ادااور ہر جنبش پر اس طرح غور کر رہا تھا۔ جیسے کہانی پڑھنے والا کہانی کو سمجھنے اور اُس سے لطف اُٹھانے کے لئے کہانی کے ہر جملے ہر لفظ پر غور کرتا ہے۔
وہ حُسن کی اِس کتاب کو پڑھ ہی نہیں رہا تھا ، بلکہ حفظ بھی کر رہاتھا۔۔۔۔ ہر زیر اور زبر کے ساتھ۔
اُ س وقت تو اُ س کا کلیجہ منہ کو آجاتا جب شہزادی اپنی گلابی زبان کی نوک باہر نکالتی، اُس پر اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی پھیرتی اور کتاب کا صفحہ پلٹ دیتی۔ اُس کے ہاتھ کی درمیانی انگلی میں رسی بسی سونے کی ایک چھوٹی سے انگوٹھی کے بطن میں رکھا چھوٹا سا ہیرا اُس کے ہاتھ کی ہر جنبش پر جھلملا اٹھتا۔ ایک طرف اشفاق احمد کی کتاب کا دیباچہ دیباچہ ہی رہا اور دوسری طرف کیٹس کی کتاب کے کئی صفحات آگے بڑھتے ہوئے دماغ میں کود کر نوک دل پر جا بیٹھے ۔
وہ آج کا یہ خزانہ لے کر اُٹھی اور لائبریری سے چلی گئی۔ وہ کیا گئی کائناتِ حُسن لائبریری سے اُٹھ گئی۔ اب کیا رہا باقی ۔صابر نے بھی اپنی ادھوری کیا اَن پڑھی کتاب ویسی ہی ویسی واپس رکھ دی جیسی اُٹھائی تھی۔

بارش نے موسم کا رنگ کیا بدلا یونیورسٹی کی فضا ہی بدل دی ۔ کیفے ٹیریا کا باغیچہ قہہقوں سے گونجنے لگا اور شامی کبابوں کی خوشبو ماحول میں گنگنانے لگی ۔ صابر چائے کا یک کپ سامنے رکھے اپنی شہزادی کو تک رہا تھا۔ دور بیٹھے یعقوب کے شاطر دماغ نے ساری کی ساری کہانی پڑھ لی تھی۔ نا جانے اُس کے دماغ میں کیا اُٹھاکہ وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر صابر کے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔ صابر نے اُ س کا آنا نظر انداز کرتے ہوئے ٹھنڈی چائے کے گھونٹ اس طرح اندر انڈھیلنا شروع کر دئیے جیسے تپتی دھوپ میں کوئی گرمی کا مارا سینے کی گرمی پرٹھنڈے شربت سے چھڑکاؤ کرتا ہو۔
’’ وہ میری ہے ۔ ‘‘ یعقوب کے منہ سے نکلا جملہ سیدھا صابر کے دل کو لگا کچھ دیر کے لئے دل رکا ، ہاتھ تھمے اور چائے کاکپ لبوں کے قریب جا کر رک گیا۔ اُس نے یعقوب کی طرف دیکھا ، اپنی گہری آنکھوں میں چھپا ہوا عزم اُ س کی آنکھوں میں شعاؤں کی طرح پھینکا اوراُٹھ کر کھڑا ہو گیا، کچھ کہنے کے لئے یعقوب کی طرف دیکھا لیکن کچھ نہ کہااور چلنے کے لئے قدم آگے بڑھایا۔ ابھی چندہی قدموں کی مسافت طے کی تھی کہ یعقوب تیزی سے اُس کے قریب آیا اور صابر کے کان کے قریب منہ لا کر بولا ، ’’ وہ میری ہے۔ تُو تو اُس کے جوتوں کے برابر بھی نہیں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئےاُس نے چلتے ہوئے صابر کے پاؤں کے سامنے اس طرح پاؤں رکھاکہ صابر لڑکھڑا کر نیچے گر پڑا۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے سنہری پٹیوں سے سےآراستہ نیلے رنگ کےجوتے تھے، جن میں سے سفیدپاؤں نیلی جھیل میں کھلے کنول کے پھولوں کی طرح جھانک رہے تھے ۔
صابر جب گرا تواُس کا ایک ہاتھ شہزادی کے پاؤں پر پڑا۔
’’ تمہاری جگہ تو یہ ہے۔ ‘‘ گرتے ہوئے صابر کے کانوں نے یعقوب کا یہ جملہ سنا ۔ صابر نے شہزادی کے پاؤں کی طرف دیکھا تو اُ س کے دماغ سے ایک جملہ چل کر اُس کے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر گیا۔
’’ کاش عمر اسی درِ حُسن پر گزرے ، عمر کیا ۔۔۔جان بھی اسی مے خانے کی دہلیز پر نکلے ۔ ‘‘ یہ فقط ایک جملہ نہ تھا، نہ محض ایک دعا ۔۔۔یہ تو ایک عزم تھا اور حاصلِ زندگی ۔
ابھی وہ پہلے سحر سے ہی نہ نکلا تھا کہ دومرمریں ہاتھ اُ س پر بجلی بن کر گرے ۔
’’ اوہ! یہ کیسے ہوا۔۔۔ اٹھئے پلیز ۔ ‘‘
’’ پھولوں کے پاس پانی تھا شاید پاؤں پھسل گیا ۔‘‘ یعقوب نے اپنی شاطر مسکراہٹ سے صابر پر حملہ کرتے ہوئےاُس کا ہاتھ تھام کر اُسے اُٹھانے کی کوشش کی ۔‘‘
’’ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ایک کانٹے سے الجھ گیا تھا۔ ‘‘ صابر نے اُٹھتے ہوئے کہا۔
’’ یہاں بیٹھئے ۔‘‘ شہزادی نے ایک کرسی صابر کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔
شکریہ جی‘‘
’’ چلو بھیا چلیں جماعت سے دیر ہورہی ہے۔ ‘‘
’’دشمن کرے کولیاں تے مولا کرے سولیاں ۔ آج تو جماعت چھوڑنے کا شرعی عذر سامنے ہے۔ کون کافر ہے جو جماعت میں جائے۔ ‘‘ صابر نے یعقوب کے کان کے قریب منہ کر کے انتہائی رازداری سے کہا۔
جملے کی تپش تھی کہ یعقوب کے کان کیا اُس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور وہ کچھ کہے بغیر ہی وہاں سے کھسک گیا۔
بس ۔۔۔۔۔۔پانی میں پتھر گرا، پتھر سے لہریں بنیں ، اور لہروں سے لہروں کا ملن شروع ہو گیا۔ تعارف اور پسند ناپسند سے بات چلتے چلتے دو روحوں کے ایک ہی منزل کے تعین تک جاپہنچی ۔ عالم ِ ارواح میں ایک ساتھ رہنے والی دو روحیں چند ہی مہینوں میں ایک دوسرے کے اتنا قریب آگئیں کہ عہد وپیمان بندھے ، ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں اور پھر ایک ہو گئیں۔
اس سارے عمل میں یعقوب بھی ارد گرد موجود رہا لیکن نہ زیادہ کچھ کہہ سکا نہ کر سکا ، بس دیکھتا رہا اور سنتا رہا۔ البتہ اُ س کے اندر ایک ورد ابھی بھی جاری تھا، ’’ شہزادی میری ہے اور بس میری ۔ ‘‘
کیفے ٹیریا میں عید ملن پارٹی ہو رہی تھی ۔خوب ہلچل تھی ۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں اپنا حصہ ڈال رہا تھا۔
شہزادی اور صابر ایک کونے میں بیٹھے تھے۔ دونوں کے سامنے پیپسی سے لبالب شیشے کے گلاس رکھے تھے۔ شہزادی نے پنکھڑی جیسے لبوں کی لپ اسٹک کے جامنی نشان ایک گلاس پر چھوڑتے ہوئے صابر سے پوچھا، ’’ مجھے عیدی نہیں دینی جناب نے ۔‘‘
صابر ایک دم اُس کی آنکھوں کے سحر سے باہر آیا اور بولا ، ’’ کاش! آسمان پر جتنے تارے ہیں اتنی عیدیں ہوں اور ہر عید پر میں تمہیں عیدی دوں ۔‘‘
’’ میں نے شاعری نہیں مانگی عید مانگی ہے۔ جناب جی۔‘‘
شہزادی کا جواب مکمل ہوا ہی نہ تھا کہ صابر کے ہاتھ میں پانچ ہزار کا یک نوٹ اس کی جیب سے اُ س کے ہاتھ میں آ گیا چکا تھا۔
’’ واہ ! تم تو سنجیدہ ہو گئے۔ ‘‘ شہزادی نے پانچ ہزار کا نوٹ دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں لیکن ایک شرط ہے۔ ‘‘
’’ پیار میں کوئی شرط نہیں ہوتی، جان بھی مانگو تو دے دیں۔ ‘‘ شہزادی نے ہنستے ہوئے کہا
’’ اسلام میں خود کشی حرام ہے ۔۔۔ اورویسے بھی فی الحال مجھے مرنے کا کوئی شوق نہیں۔ ‘‘
’’ اچھابشرط تاؤ ۔‘‘
شرط یہ ہے کہ جب تم میری سیج پر آؤ تو یہ نوٹ تمہارے پاس ہو۔ ‘‘
’’ منظور‘‘ ، شہزادی نے یہ کہتے ہوئے اُ س کی انگلیوں میں پھنسا نوٹ اُچک لیا۔ پھر کچھ سوچ کر واپس کرتے ہوئے کہا، ’’ اس پر دستخط کر دو۔ ‘‘
صابر نے نوٹ پر دستخط کر دئیے ۔
شہزادی نے نوٹ لیا اور پرس میں رکھنے لگی تو صابر نے کہا۔
’’ ارے ! تم بھی تو دستخط کرو۔ ‘‘
بڑی بے اعتباری ہے بھئی۔ ‘‘ شہزادی نے صابر کے ہاتھ سے قلم لیتے ہوئے کہا۔
’’ لو جی میگنا کارٹا سائن ہوا۔ ‘‘صابر نے شہزادی نے کا گرم ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔

شادی ہال اپنی معمول کی روشنیوں کے ساتھ بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ شہر کی بڑی بڑی شخصیات کی شرکت کی وجہ سے پروٹوکول کی گاڑیوں کے سائرن شادی ہال کے احاطےمیں آ کر خاموش ہو جاتے۔ آج ڈی سی او کرامت خان کی بیٹی شہزادی سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہونے کی خوشیاں تو منا ہی رہی تھی ساتھ ساتھ اُ س کی مخروطی انگلی منگنی کی انگوٹھی پہننے کے لئے بھی بے قرار تھی۔
صابر اور شہزادی اسٹیج پر دلہا دلہن کی طرح سج دھج کر بیٹھے تھے۔
کچھ ہی دیر میں وہ لمحہ بھی آگیا جب صابر کے ہاتھوں نے ایک انگوٹھی شہزادی کی انگلی کی نذر کی اور شہزادی نے ایک انگوٹھی صابر کی انگلی میں جڑ دی۔
جو اپنا دل وجان کسی کی نذر کر چکا ہو اُ س کے لئے انگوٹھی کی کیا حیثیت تھی، لیکن یہ تو رسمِ دنیا تھی جو نبھانا تھی۔
ہال تالیوں کی آوازوں سے گونجنے لگا ۔ آ تشبازی اور مبارک مبارک کی آوازوں نے ہال کو گھیر لیا۔
یونیورسٹی کے وہ ساتھی جو کسی زمانے میں شہزادی کی راہوں میں آنکھیں بچھائے گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے وہ بھی صابر اور شہزادی کو آ آ کر مبارک دے رہے تھے۔انہی میں یعقوب بھی شامل تھا۔ جب وہ مبارک دینے کے لئے صابر کے پاس پہنچا تو صابر نے اُسے ہاتھ سے پکڑ کر اسٹیج پر کھینچا اور سینے سے لگا کر ساری دشمنیوں کے خاتمے کا سندیسہ دیا لیکن کتے کی دم کب سیدھی ہوتی ہے ۔ وہ گلے ملا اور صابر کے کان میں ایک جملہ پھونک دیا، آج اس جملے میں ایک نئے جملے کا ٹانکا بھی لگاہوا تھا۔
’’ شہزادی میری ہے اور بس میری ۔ میری نہیں تو کسی کی بھی نہیں۔ ‘‘
صابر نے ایک جھٹکے سے اُسے اپنے سینے سے الگ کیا جیسے اُسے بجلی کا جھٹکا لگ گیا ہو ، اُس کے کان غصے سے لال ہو گئے اور ہاتھوں کی انگلیاں اکٹھی ہو کر مکا بن گئیں مگر دماغ اُس کے مکے اور یعقوب کے دانتوں کے درمیان حائل ہو گیا۔ اُ س نے ایک لمبی سانس لی اور مہمانوں سے ملنے میں مصروف ہو گیا۔

گاؤں میں نمبردار کے ہاں گاؤں کے سب خاندانوں کے بڑے بزرگ اکٹھے ہورہے تھے۔ سفید پگڑیاں پہنے یہ وہ نمایاں لوگ تھے جو اپنے اپنے خاندان کے نمائندہ تھے۔ ان کی آواز پر سب لبیک کہتے تھے۔ ان میں بڑے چوہدری صاحب بھی شامل تھے جن کی بزرگی اور تجربہ کے سب گرویدہ تھے وہ جو کہہ دیتے سب کو منظور ہوتا۔ بڑا ، چھوٹا ، تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ کوئی بھی ان کے فیصلوں سے انکار کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ آج صابر اور یعقوب کے خاندانوں کے درمیان جاری دشمنی کے اختتام کا دن تھا۔
بڑے چوہدری صاحب نے اپنی سفید داڑھی میں اپنی انگلیوں سے بار بار کنگھی کرتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ جہانگیر خاں اور دستگیر خان کے خاندانوں کے درمیان جاری دشمنی کا یہی حل ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رشتے طے کریں۔ چنانچہ دونوں خاندانوں کے مشورے سے یہ طے پایا کہ جہانگیر خان اپنی پوتی زینب بیبی کا عقد دستگیر کے خان کے پوتے یعقوب خان اور دستگیر خان کی پوتی عائشہ کا عقد جہانگیر خان کے پوتے یاسر خان سے کر دیا جائے۔ اس جمعہ کو یہ نکاح ہو جائیں گے۔
گاؤں کے سبھی لوگ خوش تھے سوائے صابر کے جو کبھی بھی نہیں چاہتا تھا کہ اُ س کی بہن کانکاح مکار یعقوب اور اُ س کے بھائی کا نکاح یعقوب کی بہن سے ہو۔ لیکن بڑوں کے فیصلے کے سامنے اُس نے سرِ تسلیم خم کرد یا۔ جونہی فیصلہ کا اعلان ہوا یعقوب صابر کے پاس آیا اور اُسے گلے ملتے ہوئے بولا ، ’’ سالا صاحب ! ابھی تک ناراض ہیں ، اب ہم پکے رشتہ دار ہیں۔ چھوڑو یار دشمنیاں، پیار کی باتیں کرو اب تو میں یہ بھی نہیں کہتا ، شہزادی میری ہے شہزادی میری ہے، میری نہیں تو کسی کی بھی نہیں۔ ‘‘
اُس کے لبوں کی مسکراہٹ اور مونچھوں کی اُٹھان اُ س کے دل کا حال بیان کر رہی تھی ۔ اُس کے اندر کاپاپی انسان کھل کر سامنے آرہا تھا۔
’’ میں نے بڑی کوشش کی ہے۔۔۔ اس دشمنی کو ختم کرنے کے لئے، بڑی مشکل سے میں نے اپنے گھر والوں کوراضی کیا، تمہارے دادا تو مان ہی نہیں رہے تھے میں نے انہیں آنے والی نسلوں کا واسطہ دیا تو وہ مانے۔ ‘‘
اُ س کے بعد اُ س نے اونچی آواز میں ایک قہقہ لگایا، ’’ آہ! شہزادی ۔۔۔۔۔‘‘ باقی جملہ وہ اندر پیتے ہوئے چلا گیا۔

محل نما سرکاری گھر رنگ برنگے قمقموں کی روشنیوں میں خود ایک قمقمہ بنا ہوا تھا۔ ایک کونے میں لڑکیاں ڈھولک کی تاپ پر یہ گیت گا رہی تھیں۔۔


مہندی لاون آیاں تینوں بھینا ں تے بھرجائیاں
کچھ چاچیاں تایاں، کجھ اپنیاں تے پرایاں
شہزادی کا چہرہ حیا سے اور ہاتھ حنا سے دھک رہے تھے۔سکھیاں اٹکھیلیاں کر رہی تھیں۔ شہزادی نےا پنی آنکھیں حنا والے ہاتھوں پر جما رکھی تھیں جہاں اُسے اپنے کل کے سپنوں کی تصویریں دکھائی دے رہی تھیں ۔ پیار کی اینٹوں اور پیار کی مٹی سے بنا ایک پیارا گھر ، پیار سے پیارا گھر اُس میں صابر کا پیار اور میرا پیار مل کر پیار کو جنم دے گا۔ وہ شرما گئی۔
صبح سے کتنی ہی رسمیں ہوئیں، بارات آئی تو اُس نے بارات کو دیکھ کر کہا ’’ صابر تیری بارات ہے یا تاروں کا کارواں ہے جس میں چاند نے اجالاکر رکھا ہے۔‘‘
صابر کی گرم قربت اور قہقہوں کی نرمی میں دودھ پلائی کی رسم ہوئی اور پھر فضاؤں میں ایک نغمہ گونجا جس نے اُسے اداس کر دیا ’’ چڑیا دا چنبہ‘
ساڈا چڑیاں دا چمبا وے بابلا ! اساں اُڈ جاناں
ساڈی لمبی اُڈاری وے بابل کیس دیس جاناں
شہزادی کی جھیل جیسی آنکھیں چھلک پڑیں وہ ابا، اماں اور بھائیوں کے کندھوں پر سر رکھ کر بہت روئی۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ اُن سے جدا ہو رہی تھی بلکہ اس لئے کہ وہ اُس کے بغیر کیسے جیئں گے۔ کیونکہ اس گھر کا تو پتا بھی اُس کی اجازت کے بغیر حرکت نہیں کرتا تھا پھر یہ گھر کیسے چلے گا۔
’’ ابا تو ہر کام کا مشورہ مجھ سے کرتے تھے۔ اب کس سے کریں گے۔ امی کو دوا کون کھلائے گا۔ ‘‘
کچھ ایسی ہی سوچیں اور درد لئے وہ صابر کی دنیا کے اُڑن کھٹولے میں بیٹھ گئی۔ کچھ ہی دیر میں اُسے لگا کہ وہ اپنے دل کا ایک حصہ کچھ دور چھوڑ آئی تھی۔
سسرال کی دہلیز پر قدم رکھا تو یہاں کی رسمیں شروع ہو گئیں ، دروازے میں تیل گرا یا گیا ، ساس اور نندوں نے ناز اُٹھائے ، دیوروں نے کنکھیوں سے حسن کی دیوی کو دیکھ کر بھائی کی قسمت پر رشک کیا اور اپنے لئے ایسی ہی دلہن کے خواب دیکھناشروع کر دئیے۔ ایک نے تو یہاں تک سوچ لیا ، ’’ میں تو بھابی کو ابھی کہہ دوں گا میرے لئے اپنے جیسی دلہن لاناآپ کاکام ہے۔ ‘‘
سیج پر بیٹھی تو یوں لگا جیسے کسی کی گود میں بیٹھ گئی ہو، شرما کر جسم سمٹ گیا، رسموں کے ساتھ ساتھ ملنا ملانا، تصویریں بنوانے کا عمل چلتا رہا۔پھر وہ لمحہ بھی آگیا جب اس کمرے میں سوائے اُس کے اور کوئی نہ تھا اور اُس کی آنکھیں دروازے پر لگی ہوئی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں دروازہ کھلا ، اُ س کے ارمانوں کا شہزادہ اندر داخل ہوا، چپکے سے دروازہ بند کیا اور شہزادی کی توقع کے خلاف صوفے پر جاکر بیٹھ گیا۔
سیج کی چھت سے لٹکتی پھولوں کی بڑی بڑی اور گھنی لڑیوں کے پیچھے بیٹھے صابر کو وہ اچھی طرح دیکھ بھی نہیں سکتی تھی۔ بس ایک شائبہ ساتھا۔ کچھ ہی دیر بعد صابر اٹھا اور واش روم میں چلا گیا ۔ واپس آ کر سیج پر جانے کی بجائے وہ پھر صوفہ پر جا بیٹھا ۔
’’ اب تو شہزادی کو بہت برا لگا یہ کیا مزاق ہے، یہ کیسا امتحان ہے۔۔۔۔۔۔ اوپر سے یہ لڑیاں ‘‘ اس کا دل چاہ رہا تھا کھینچ کر پرے کردوں ۔
صابر نے صوفہ پر بیٹھے بیٹھے ایک سگریٹ پیا اور پھر ٹیرس کا دروازہ کھول کر باہر چلا گیا۔
وہ جلد ہی واپس آگیا اور سیج پر آ کر شہزادی کے پیروں کی طرف سیدھا چت لیٹ گیا۔
’’ شہزادی، ‘‘ اُس نے شہزادی کے مہندی سے سجے بائیں پاؤں کو چھوا تو شہزادی کو خوشگوار سی گدگدی کا احساس ہوا۔
شہزادی نے ’’ ہون ‘‘ کہہ کر پاؤں پیچھے کر لیا۔
’’ شہزادی ‘‘ صابر نے اُس کے بائیں پائل کو ہلاتے ہوئے کہا۔
’’ ہوں‘‘
’’ کیسا لگ رہا ہے۔ ‘‘ اتنی دیر سےپہلاجملہ سن کر شہزادی کو غصہ تو بہت آیا لیکن ضبط کر کے بولی ، ’’ اپنے دل سے پوچھو۔ ‘‘
’’ ہاں ، شہزادی کتنے انتظار کے بعد یہ دن آیا ہے۔‘‘ اُس نے انگڑائی لی اور کروٹ بدل کر اوندھے منہ لیٹ گیا۔
’’ ہوں‘‘
’’ نیند آرہی ہے تمہیں، سونا نہیں آج تو بہت باتیں کرنا ہیں۔‘‘ اُس نے شہزادی کی ٹانگ پر نازک سی چٹکی کاٹتے ہوئے کہا۔
شہزادی نے دل میں سوچا ، ’’یہ کیاکر رہا ہے ۔ آج کوئی ڈرامہ سوچ کر آیا ہے۔ دل تو چاہتا ہے کہ چانٹا لگا کر جواب دوں لیکن کیاکروں مجازی خدا ہے۔ ‘‘
’’مجھے تو بہت نیند آرہی ہے ۔‘‘ اُس کا ہاتھ شہزادی کے ایک پاؤں پر آکر رک گیا۔
’’ جی تو چاہتا ہے ایسے چانٹے لگاؤں کہ ساری نیند پل میں اُڑ جائے۔‘‘ شہزادی نے سوچا لیکن حیا نے اُس کے ہونٹ سی دئیے ۔
’’ بس کرونا ۔۔ یہ مذاق ختم کرو، اب مجھ سے انتظار نہیں ہوتا۔ ‘‘ناچاہتے ہوئے بھی یہ جملہ اس کے لبوں سے باہر کھسک ہی آیا، لیکن صابر نے کچھ جواب نہ دیا۔
شہزادی کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ صابر پر گھونسوں کی بارش کر دے لیکن حیا اُ س کے آڑے آتی رہی۔
پھر ضبط نہ ہوا
دیکھو صابر ا ُٹھ جاؤ، مجھے اب اور پریشان نہ کرو۔۔۔۔میری محبت کا امتحان نہ لو کہیں ایسا نہ ہو کہ میں حیا کا دامن چھوڑ کر تم پر بارش بن کر برس جاؤں ۔
اس نے گھونگھٹ کی اوڑھ میں سے صابر کو دیکھا جو اوندھے منہ سو رہا تھا۔
میں سمجھی ، تم نے کبھی میرا امتحان نہیں لیا ، میری محبت کو پرکھا نہیں۔ شاید تمہارے پرکھنے کا یہی انداز ہو تو پھر اچھا اگر تم یہی چا ہتے ہو تو یہی سہی لو میں بھی امتحان کے لئے تیار ہوں۔
اُس نےاپنا پورا گھونگھٹ درست کیا،گھٹنوں کو سینہ سے لگایا ، ان پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر بیٹھ گئی۔
پتہ نہیں وہ کب تک جاگتی رہی اور کب نیند کی آغوش میں چلی گئی۔

وہ سکتے کے عالم میں میت کے پیروں کی طرف بیٹھی ان پیروں کو تکے جا رہی تھی جو دھاری دار کھیس سے کچھ باہر اور کچھ اندر تھے۔ ایک پاؤں کے تلوے بالکل سامنے تھے ۔ اس کی نگاہیں ان تلوں پر جمی ہوئی تھیں۔ ان تلوں کی لالی ابھی تک قائم تھی۔ دوسرے پاؤں کا اوپری حصہ کھیس سے باہر تھا جس کی انگلیوں سے اوپر سنہری کھسے کے نشان ابھی تک اس کی دن بھر کی مصروفیت کی گواہی دے رہے تھے ۔ پاؤں کے اسی حصے پر کھسے کے اندرونی حصے نے نیلے رنگ کے کچھ نشانات بھی چھوڑے ہوئے تھے جو اکثر نئے کھسوں کی عادت میں شامل ہے۔
لوگ آ رہے تھے جارہے تھے لیکن شہزادی کی نگاہیں ان پیروں پر جمی تھیں۔ عورتیں آتیں اور بیٹھی ہوئی شہزادی سے گلے مل کر بین ڈالتی آگے بڑھ جاتیں لیکن شہزادی کی پتھر جیسی نگاہیں ان پیروں پر جمی ہوئی تھیں۔ اس کی خشک جھیل جیسی آنکھوں کے کناروں کا کاجل پھیل کر اس کی گلابی رخساروں کے اوپری حصوں تک پھیل گیا تھاجیسے جھیل کی کائی باہر تک پھیلی ہو۔ ناک کے دائیں کنارے پر سوراخ کچھ زیادہ ہی نمایاں تھا لگتا تھا وہ اس نتھ کے نہ ہونے پر احتجاج کر رہا تھا جو کچھ گھنٹے پہلے اتاری گئی تھی۔ کان خالی مکان جیسے اتنے ویران کے بڑے سے بڑے دل والا بھی بین ڈالنے پر مجبور ہو جائے ۔ سفید چادر میں لپٹی شہزادی گٹھری بنی بیٹھی تھی ۔ اس کی کسی پیاری نے اُس کے مہندی سے بھرے ہوئے ہاتھ تو چھپا دئیے تھے لیکن مہندی سے سجے پاؤں نہ چھپا سکی۔
مہندی سے بنائے گئے بیل بوٹوں سے سجے پیروں کے اوپری حصے کسی مندر کی محرابوں کا منظر پیش کر رہے تھے۔ کسی کےوہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مورتی پوجا کے دن ہی یہ مندر ویران کھنڈر بن جائے گا۔
’’ لکھے کو کون مٹا سکتا ہے۔‘‘ ’’ کیسا قہر ہے ظالموں نے شین جوان ایک ہلے میں ہی مار دیا۔ ‘‘
’’ نصیبوں جلی ہے گھر میں قدم کیارکھا گھر کو آگ لگا دی۔‘‘
’’ کیسا فرشتوں جیسا حسن ہے جو ماند پڑ گیا۔‘‘
’’ نظر تھی کہ کھا گئی۔ صبح سے ہی کچھ نہ کچھ عجیب ہ رہا تھا ۔‘‘
ہر مرد و زن اس سانحہ کو اپنے اپنے انداز میں دیکھ رہا تھا لیکن وہ بے چاری بس اپنے محبوب کے پیروں کو تکے جارہی تھی۔
کچھ لوگ آئے اور صابر کی میت کواُٹھا کر لے جانے لگے۔ ’’ کہاں لے جارہے ہو میرے صابر کو۔ ‘‘ آنسوؤں سے لتھڑی ہوئی بوڑھی ماں نے پوچھا۔ ’’ غسل دینے لے جارہے ہیں اماں جی! کسی نے جواب دیا۔
’’ صبح تو غسل کیا تھا اس نے۔۔۔ یہ غسل کے بغیر تو اپنے کمرے سے باہر نہیں آتا تھا۔ میں نے اسے سکھایا ہے غسل ۔۔۔۔۔۔۔ اُٹھ بیٹا ! جا، جا کر غسل کر۔۔۔ اُٹھ میرا بچہ۔۔‘‘
دیوانی ماں منتیں کرتی پھر بے ہوش ہو گئی، پھر پانی کے چھینٹوں کا استعمال او ر ایک مرتبہ پھر اُس کے لباس پر گرے آنسو اور پانی ایک ہو گئے۔
ہے تو پانی ہی ایک قہقہے لگاتے ہوئے برستا ہے اور ایک قہقے جلاتے ہوئے برستا ہے۔
ایک نالے نالیوں اور جھرنوں کو پھلانگتے ہوئے نکلتا ہے اور ایک جسم کی رگوں کو چیرتا ہوا نکلتا ہے۔
’’ نہ لے جاؤ میرے ویر کو میرے بھائی کو۔‘‘ سارے معاملات سے باخبر اور رو رو کر نڈھال بہن بھی چیخنے لگی۔ ’’ نہ لے جاؤ میرے صابر بھائی کو۔‘‘
یہ آواز بت بنی شہزادی کے کانوں سے گذر کر ناجانے کہاں جا کر ٹکرائی کہ اُس کی آنکھوں میں ایک جنبش پیدا ہوئی۔
’’ ہائے میرا صابر۔۔۔‘‘ سن کر دوسری جنبش پیدا ہوئی، اُس کی آنکھیں ارد گرد ہر طرف اس طرح اور اس تیزی میں گھومیں جیسے ہنگامی حالات میں ریڈار ۔
سامنے صابر کی ماں کو ہوش میں لانے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔
اُس کے دماغ میں سب کچھ فلم کی طرح چلنا شروع ہوگیا۔ اُسے اپنی ٹانگ میں صابر کی چٹکی کی لمس اور پیار محسوس ہوا۔ اپنے پیروں کے قریب صابر کی سانسوں کی گرمی محسوس ہوئی، وہ تیزی سے اُٹھی ، چادر پھینکی اور چیختی ہوئی بھاگی،
’’ کوئی گانا نہ اتارے میرے صابر کا۔‘‘
وہ بھاگتے ہوئے اُس جگہ پہنچی جہاں صابر کو غسل دینے کی تیاری ہو رہی تھی۔
صابر پورے کا پورا اُ س کے سامنے تھا۔ گانے والا ہاتھ لٹک رہا تھا ۔ اُس نے بڑھ کر ہاتھ اُٹھایا اُسے چوما، آنکھوں سے لگایا، گالوں پر مارا ، سینے پر مارا،’’ نہیں صابر نئیں۔۔۔‘‘
کسی نے پیچھے سے پکڑا ، صبر کرو بیٹی۔‘‘
اُس نےگانے والے ہاتھ کو کئی دفعہ چومتے ہوئے گانا اُتارنا شروع کیا اور پھر چیخ پڑی۔
لگتا تھاکوئی آتش فشاں پھٹ پڑا ہو۔ کسی نے لوہا پگھلانے والی بھٹی کا دھانہ کھول دیا ہو۔
’’ نئیں صابر نئیں تو نئیں جا سکتا، تو نئیں جاسکتا، لوگو! دو قبریں بنوا دو میں اس کے بغیر نئیں رہ سکتی ۔۔ مجھے زہر دے دو، میری روح مجھ سے نہ چھینو۔۔ صابر اب کون میرا ہے ، میرا بسیرا لُٹ گیا ۔۔میرے ارمانوں کا خون ہو گیا، ۔۔۔۔۔ اُٹھ صابر اُٹھ تو نے وعدہ کیاتھا تومیری پوجا کرے گا۔ تو نے ساتھ نبھانے کی قسمیں کھائی تھیں۔ میری جان ، میری شان ، میری آن، اُٹھ جا۔۔۔۔۔‘‘
’’ پاگل نہ بن کڑئیے صبر کر۔‘‘ کسی عورت نے اُسے کھینچتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں میں پاگل ہوں ، میں پاگل تھی، میں پاگل ہوں ، لوگو! مجھے پتھر مارو، مجھے زنجیریں پہنا دو ، مجھے کسی غار میں بند کر دو لیکن مجھ سے میرا صابرنہ چھینو۔ تم سوئے رہے صابر میں جاگتی رہی۔ مجھے بتا تو دیتے میں بھی سو جاتی ۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھ آگے کر صابرمیں تیرا گاناکھولوں ۔‘‘
وہ گانے والے ہاتھ پر گر ہی گئی۔
’’ میرا گھونگھٹ کب اٹھاؤگے صابر۔ مجھے گلے کب لگاؤ گئے صابر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے پیروں میں مجھے بھی جگہ دے دو۔ لوگو! مجھےبھی غسل دے دو ۔‘‘
وہ صابر کے ٹھنڈے یخ جسم کے ساتھ چمٹ گئی ۔
کچھ عورتوں نے اُسے کھینچ کر لے جانے کی کوشش کی۔ ’’ ظا لمو ! ایک رات تو اُسے میرے پاس رہنے دو۔۔ ‘‘
’’ صبر کرمیر ابیٹاصبر کر۔‘‘
ایک ادھیڑ عمر شخص جس کا اپنا اندر آنسو پی پی کر بھر چکا تھا۔ یہ صابر کا باپ تھا۔ پھر وہ ایک اپنے جیسے اپنے پیارے کے کندھوں پر سر رکھ کر بے قابو ہو گیا، جیسے کوئی دریا ضبط کے سارے کنارے توڑ دے ۔ یہ مضبوط کندھے شہزادی کے ابا کے تھے جو اب مضبوط نہیں رہے تھے ۔
’’ بیٹا! کھول گانااور جا اندر۔‘‘
وہ اُٹھی پھر کچھ سوچ کر بیٹھ گئی۔ اُس نے گانا کھولا ، اُسے کئی دفعہ چوما اور گانا ہوا میں لہراتی ہوئی بولی۔
’’ لوگو! سُن لو، اندر والو !سُن لو ، باہر والو! سن لو، ایک گانے کابدلہ ایک گانا نہیں ہو گا، ایک گانے کے بدلے دس گانے ہوں گے ۔ میں اس گاؤں میں اس وقت تک نہیں آؤں گی جب تک دشمنوں کے دس گانے نہ لے آؤں ۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر کی طرف بھاگی۔ لیکن مرے ہوئے صابر کو گوارہ نہ ہوا کہ اُس کی عزت بے گھر ہو۔ وہ صابر کے پاؤں سے ٹکرائی اور اُس کا سر سامنے دیوار پر جا ٹکرایا۔وہ چکرائی اور لڑکھڑاتے ہوئے ربڑ کی ایک گڑیا کی طرح عین صابر کے پیروں میں جا گری۔ ۔ اس کے منہ سے آخری جملہ نکلا ،
’’ ایک گانے کے بدلے دس گانے۔‘‘
صابر کی بہن کی نگاہیں جھک گئیں کچھ دیر جھکی رہیں۔۔۔۔۔۔۔ پھر اُ س کی جھکی نگاہوں نے اپنی آنکھوں کی پتلیوں سے ایک جملہ چُنا جو سب نے سنا اور بے قریب المرگ شہزادی نے بھی ۔
’’ ہاں ایک کے بدلہ دس گانے۔‘‘
وہ اٹھی ، یعقوب پر ٹوٹ پڑی اور اُس کی چادر کے اندر چھپے ہوئے مہندی والے ہاتھوں میں نا جانے کب سے رکھاہوا خنجر یعقوب کے جسم کے کتنی ہی بار آر پار ہوگیا ۔
پھر وہ کھڑی ہوئی ، اُ س نے اپنے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ’’ بد ذات ، حرامی ۔۔۔ ایک کے بدلے دس گانے‘‘
یہ کہہ کر اُس نے یعقوب کے خون سے بھرا ہوا خنجر اپنے پیٹ میں اُتار لیا۔
جونہی خنجر اُ س کے جسم کے آر پار ہوا وہ پیچھے کی طرف گری تو اس کا سر ساکت بت بنی ماں کے قدموں میں جا گرا ۔
اُ س نے گرتے ہوئے موت کی دہلیز پر بیٹھی اپنی ماں کے قدموں میں یہ آخری جملہ رکھ دیا ، ’’ ہاں ماں۔۔ سچ اے نہ ۔۔۔ ہک دے بدلے دس گانے۔ ہاں ماں۔۔۔۔‘‘
شہزادی کی بند پلکوں میں جنبش پیدا ہوئی اس کے سامنے اُس کا مہندی سے سجاہاتھ تھا۔ جس کی بند مٹھی میں سے پانچ ہزار کے نوٹ کا ایک کونہ جھانک رہا تھا۔ اُس کےپورے جسم میں ایک لہر سی دوڑی، جسم نے ہاتھ اوپر اٹھا یا اور لیکن ہاتھ کسی بے جان شے کی طرح دھڑسے زمین پر آ گرا۔
دو دن سے بند مٹھی کھلی، پانچ ہزار کانوٹ اپنی جگہ سے ہلااور صابر کے دائیں پاؤں پر جا ٹکا۔ شہزادی کے جسم میں ایک لرزش ہوئی اُس کے دماغ سے ایک جملہ نکلا اور اُس کے رگ و پے میں دوڑ گیا۔

’’ میں اب تیری ہتھیلی پر کسی اور کا نوٹ نہیں دیکھ سکتا۔ اِسے سیج پر لے کر آنا۔ ‘‘

پتیوں جیسے ہونٹوں کے سرخ نقش اس نوٹ پر سُنبل کے پتوں کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔ پتہ نہیں یہ پتے ایک رات میں گرے تھے یا کئی برسوں میں۔
نوٹ : درجِ بالا افسانہ سرائیکی شاعری کے ایک اقتباس '' بین " سے متاثر ہو کر لکھا گیا.
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

Re: پانچ ہزار کا نوٹ

Post by nizamuddin »

کیا کہنے جناب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت خوبصورت تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔ زبردست
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
اریبہ راؤ
کارکن
کارکن
Posts: 183
Joined: Tue Jun 09, 2015 3:28 am
جنس:: عورت

Re: پانچ ہزار کا نوٹ

Post by اریبہ راؤ »

واللہ
بہتربن ھے .......!!

Sent from my SM-G310HN using Tapatalk
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

Re: پانچ ہزار کا نوٹ

Post by nizamuddin »

بہت عمدہ تحریر ۔۔۔۔۔۔ شیئرنگ کا شکریہ
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
یاسین وڑائچ
کارکن
کارکن
Posts: 3
Joined: Sun Jun 28, 2015 2:38 pm
جنس:: مرد

Re: پانچ ہزار کا نوٹ

Post by یاسین وڑائچ »

v;g

Mashallah Bht Alla
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”