خوابوں کی پرورش

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

خوابوں کی پرورش

Post by وارث اقبال »


خوابوں کی پرورش
اسماعیل سٹریٹ گاڑیوں سے لدی ہوئی تھی ۔ جس کو جہاں جگہ ملی وہیں سینگ سمودئیے۔ چونکہ کچھ وزرا اور وی وی آئی مہمانوں کی آمد بھی متوقع تھی اس لئیے اسماعیل اسٹریٹ کو آنے والے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر پولیس نے ڈیرا جما رکھاتھا اور مہمانوں کی صورت میں آنےوالے دہشت گرد حُسن پر بھی خاص نگاہ رکھی ہوئ تھی۔
سیٹھ اسماعیل کا گھر یہاں ہونے کی وجہ سے اس اسٹریٹ کو اسماعیل سٹریٹ کہا جاتا تھا۔ پچھلے کئی دنوں سے اس محل نما گھر کی صفائی ستھرائی کاکام جاری تھا۔ بیرونی دیوار کی بیلوں سے لے کر دروازوں اور کھڑکیوں تک کو ایک نیا روپ دینے کی کامیاب کوشش کی گئی تھی۔
گھر کے اندر مرکزی دروازے سے داخل ہونے والےمہمانوں کو گھر کے رہائشی حصہ کے پچھواڑے میں سوئمنگ پول تک پہنچا نے کے لئے قالین کی ایک لمبی راہداری بچھائی گئی تھی۔ جس کے دونوں طرف انواع واقسام کے پھولوں سے لدے گملے رکھے گئےتھے۔ سوئمنگ پول کےارد گرد نیم دائرہ کی شکل میں آرام دہ کرسیاں بچھائی گئی تھیں ۔ ان کے بالکل سامنے سوئمنگ پول کے ایک کونے میں ایرانی قالینوں سے ڈھکا، قیمتی صوفوں سے بھرا اور پھولوں سےآراستہ اسٹیج ہر کسی کی توجہ کا مرکز تھا۔ اگرچہ سوئمنگ پول کے کناروں پر چہار اطراف قمقمےجھلملا رہے تھے تاہم اس کے کناروں پر رکھی بڑی روشنیاں اسٹیج کی طرف رخ کئیے پورے اسٹیج کو بقئہ نور بنائے ہوئے تھیں۔
مختلف رنگوں کے لباس میں ملبوس خواتین و حضرات خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
گہرے نیلے رنگ کی ساڑھیوں میں ملبوس کچھ دوشیزائیں چاندی کی طشتریوں میں مختلف اقسام کے مشروب سجائے ہر مہمان کے سامنے جاتیں، میز پر گلاس رکھتیں ، مشروب کی قسم پوچھتیں اور جھک کر گلاس میں مشروب انڈھیلتے ہوئے ساڑھی کے بلاؤز کے کھلے گریبان کے ذریعے اپنے حسن کی صراحی کے چند گھونٹ محض خاطرِ ذائقہ مہمان کی آنکھوں میں اس طرح انڈھیل دیتیں جیسے مے خانے میں پیتل کی صراحی اپناخمار چاندی کے جام کی نظر کر دیتی ہے۔
جب تقریب اپنے عروج پر پہنچی تو سیٹھ اسماعیل کے گھر کا یہ حصہ جنت کا منظر پیش کر نے لگا۔
مختلف اقسام کی خوشبوؤں سےرچےجسموں کی خوشبوئیں ناک سے گزر کربحرِ دماغ کی گہرائیوں تک تلاطم برپا کر رہی تھیں ۔
مختصر یہ کہ اس تقریب میں حُسن کی فراوانی اتنی کہ اچھے خاصے فرزانوں کو بھی دیوانہ کر دے ، مشروب ایسے کہ سارے غم بھلا دیں اور مستی ایسی کہ انسان یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائے کہ جو کچھ ہے آج ہی کی رات ہے۔
شیخ اسماعیل کی بیٹی غزل کی بیسویں سال گرہ منائی جا رہی تھی۔ شیخ اسماعیل کی بیوی بیٹی کو جنم دیتے ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئی تھی اس لئیے شیخ اسماعیل نے اُسےانتہائی لاڈ پیار سے پالا تھا۔ اُس کے باپ نے اُس کی پیدائش پر سوچ سمجھ کرہی غزل نام رکھا تھا۔جب وہ جوان ہوئی تو اُس کا وجود سر تاپا، خان مومن خان مومن کی غزل میں ڈھل چکا تھا۔
حُسن ایسا کہ تعریف جہاں سے بھی شروع کریں تعریف ہار مان لے اور تمام صفاتی الفاظ اور تشبیہات سر جھکا لیں۔ بس یوں جانئیے کہ سرو جیسے قد کاٹھ کا مالک ایک ایسا بُت کہ جسے آسمانی سنگ تراشوں نے کوہ ِہمالیہ کی کسی برف پوش وادی میں بیٹھ کر برف سے تراشا ہو اور پھر قدرت نے اُس کےاندر آگ بھر دی ہو۔
آج تو سالگرہ تھی۔ سبز رنگ کی ساڑھی میں سے جھانکتے گلابی بازو بار بار ساڑھی کے پلو سے ڈھانپنے کی کوشش کے باوجود کتابِ حسن کی پوری داستان بیان کر رہے تھے۔
آج کی تقریب میں اعلان کیاگیا کہ غزل بی بی کل سے کپڑا بنانے کی ایک فیکڑی سنبھال کر اپنی عملی زندگی کا آغاز کریں گی۔
رنگوں ، مستیوں، حشر سامانیوں اور جلوں سے لبریز یہ تقریب بہت سوں کے دلوں کو زخمی کرتے ہوئے رات دیر گئےتک اختتام کو پہنچی تو غزل دانتوں میں سگریٹ دبائے، دو نازنینوں کے کندھوں کا سہارا لئیے اپنے کمرے میں پہنچی۔ اُ س کی مدہوش آنکھوں کی سرخی میں آنے والی زندگی کی کئی تصویریں اس طرح تیر رہی تھیں جس طرح میٹھے پانی کی جھیل میں مہاجر پرندے۔
فیکڑی کے مرکزی گیٹ کے اندر ایک سڑک سیدھی فیکڑی کے مرکزی دفاتر تک جا رہی تھی۔ اس سڑک کو سرخ قالین سے ڈھانپا گیا تھا۔ اس قالین کے دونوں طرف اس فیکڑی میں کام کرنے والا ہرمزدور اور افسر انگلیوں میں پھولوں کے ہار لٹکائے اس انتظار میں کھڑا تھا کہ میڈم غزل کی کومل ، نازک اور مر مریں صراحی دار گردن کو اُسی کا ہار چھوئے گا۔
خواتین مزدور گوٹوں اور کناریوں سے سجی طشتریوں میں پھول لئیے کھڑی تھیں ۔ رات فیکڑی کے مزدوروں کو چھٹی نہیں دی گئی تھی ۔وہ سارا دن اور ساری رات اپنی نئی میڈم کے استقبال کی تیاریاں کرتے رہے، لیکن افسر ابھی بھی مطمئن نہیں تھے۔ جس افسر کے ہتھے اُس کا کوئی ماتحت چڑھ جاتا جھاڑ دیا جاتا۔
پھر فیکڑی کا دروازہ کھلا ۔ اندر چار گاڑیاں داخل ہوئیں، سب تیار ہو کر کھڑے ہوگئے۔ ان میں سیٹھ اسماعیل کے دفتر کا چوکیدار اصغر اور اس کی بیٹی بھی تھی۔ اصغرنے تہیہ کیا ہوا تھا کہ وہ میڈم کو ہار ضرور پہنائے گا۔ کیوں نہ پہناتا، جب سیٹھ اسمعیل چھوٹی سی منی سی گڑیاجیسی غزل کو دفتر لایا کرتے تھے تو وہی ا س بے ماں بچی کا دھیان رکھا کرتا تھا۔ اُسے گود میں لے کر فیڈر پلاتے دیکھ کر سیٹھ اسماعیل کہا کرتے تھے ، ’’ بچے! تم تو اس کی ماں ہو۔ اگر تم نہ ہوتے تو شاید یہ آج اپنی ماں کے پاس ہوتی۔ ‘‘
جب گاڑیاں فیکٹری کے گیٹ کے اندر داخل ہوئیں تو وہ گاڑیوں کے ساتھ بھاگتا ہوا ،کبھی دائیں کبھی بائیں، کبھی راہداری کے بیچ، عورتوں اور مردوں کی قطاروں کی دیواروں کو پھلانگتا ہوا دفتروں کے سامنے کھڑے لوگوں میں شامل ہو گیا۔ جونہی غزل گاڑی سے اُتریں، وہ تیزی سے آگے بڑھااوردونوں ہاتھوں میں جھولتاہوا ہار میڈم کی گردن کی طرف اچھال دیا مگر ہار جُوڑے میں جاکر رک گیا، ’’ میڈم، ویل کم۔‘‘ کچھ افسروں نے آگے بڑھ کر کہا، فضا تالیوں سے گونج اُٹھی اور انہی تالیوں میں ایک تھپڑ کی آواز بھی تھی جو شایدکسی اور نے نہیں سنی تھی سوائے اصغر اور اس کی بیٹی کے، جنہیں تھپڑ کی آواز میں کوئی اور آواز سنائی نہ دی تھی۔
’’ بدتمیز جاہل ،ایڈیٹ تمہیں اتنا نہیں پتہ کہ مجھے پھولوں سے الرجی ہے۔ پاپاآپ کو میرا کوئی خیال نہیں۔‘‘ بپھری غزل نے پھولوں کا دھاگا کھینچ کر توڑا تو زمین پر گرتے ہوئے ارمانوں کی شبنم سے بھیگے ہوئے چند پھول سیٹھ اسماعیل کے ہاتھوں میں بھی آگئے۔
اصغر کو تویوں لگا جیسےاسپیکر پر اُ س کے مرنے کا اعلان ہواہو۔
سیٹھ اسماعیل کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔اُس نے اصغر کی طرف دیکھا لیکن شرمنگی کے بوجھ تلے دبی پلکیں جھک گئیں۔ زبان فقط ایک جملہ ہی ادا کر پائی ، ’’ سوری بچے۔۔۔‘‘ پتہ نہیں یہ جملہ کس کے لئے تھا بیٹی کے لئے یا اپنی فیکٹری کے اُ س مزدور کے لئےجسے وہ بچہ کہہ کر پکارتا تھا۔ اُس کی زیرک اور دانا آنکھوں میں فیکڑی کے مستقبل کی ساری تصویر آگئی جس میں اب کوئی بچہ نہیں تھا صرف مزدور تھا۔ جو فیکڑی کو وقت دیتا ہے اور فیکڑی اُسے دال روٹی۔
غزل کو فیکڑی سنبھالے ایک سال ہو چکا تھا۔ اُس نے فیکٹری کی ہر شے بدل کر رکھ دی تھی۔ پرانی مشینوں کی جگہ نئی آگئیں،بوڑھے مزدوروں کی جگہ جوان مزدوروں نے لے لی اور فیکڑی کے کئی حصوں کو نئی زیب و زینت بھی دےدی گئی۔
آج وہ اپنے دفتر کے لئے کچھ نئے لوگوں کے انٹرویو کر رہی تھی۔ان انٹرویوز میں اُس کے سیکرٹری کا انٹرویو بھی تھا۔
صبح سےانٹرویو شروع ہوئے اور دوپہر سر کو آئی لیکن کوئی امیدوار اُس کی جھیل جیسی آنکھوں میں جگہ نہ بنا سکا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد انٹرویو کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔
غزل نے فائل کے صفحات اُلٹتے ہوئےبیٹھنے کی اجازت کے طالب امیدوار کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ’’ ہوں تو ایم بی اے کیا ہوا ہے۔‘‘
’’ جی۔‘‘ اُمیدوار نے جواب دیا۔
’’ کافی دیر ہو گئی ہے۔‘‘ غزل نے فائل کے کسی صفحہ کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ جی۔‘‘ ۔‘‘ اُمیدوار نے جواب دیا۔
’’ کوئی نوکری ملی نہیں یا کی نہیں۔۔‘‘ فائل ابھی تک غزل کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھی۔
اُمیدوار نے خاموشی کا طلسم توڑتے ہوئے کہا، ’’ ایک ملی تھی جی۔ چھوڑ دی۔‘‘
اُمیدوار کی سحر انگیز آواز نے غزل کو گردن اُٹھانے پر مجبور کر دیا۔ اُس کے سامنے ایک خوش شکل جوان نظریں جھکائے بیٹھا ہوا تھا۔
’’ کیوں؟‘‘ اُس نےسوال کیا اور جواب کی طالب ہوئی۔
امیدوارنظریں جھکائے بولا، ’’ وہاں ترقی کے مواقع کم تھے۔۔ جی۔‘‘
غزل نے اپنے دائیں بازو کی کوہنی میز پر رکھی اور اپنی ٹھوڑی ہاتھ کی ہتھیلی پر جما کر بولی، ’’ واہ! تو کیا یہاں تم میینجر بن جاؤ گے۔‘‘
’’ جی ہاں جی ۔۔۔۔ ‘‘
اُمیدوار کا جواب کافی دلچسپ بھی تھا اور غصہ دلانے والا بھی۔
غزل نے فائل بندکرتے ہوئے اپنے غصہ کے بے لگام گھوڑے کو روکا اور لمبا سانس لےکر بولی، ’’ جناب یہاں مینیجر صاحب موجود ہیں اور بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ ‘‘
’’ میم میں نے کب کہا کہ وہ اچھاکا م نہیں کر رہے۔لیکن جب آپ کے مینیجر ریٹائر ہو جائیں گے تو کسی کوتو اُن کی جگہ آنا ہے نا۔۔جی۔‘‘ امیدوار نے نظریں جھکائے جواب دیا۔
’’ تو کل کو اگر میں۔۔۔‘‘ غزل اُ س کی فائل اُس کی طرف دکھیلتے ہوئے خود بھی مزید آگے سرک آئی۔سوال کی گرمی اور اس کے بدن سے اٹھنے والی خوشبو کےببولے نے کچھ لمحے کے لئے امیدوار کو ساکت کر کے رکھ دیا۔
وہ پیچھے ہٹی ، ’’ مشکل سوال تھا۔‘‘
اُمیدوا ہوش میں آیا ، اُس نے اپنی جھکی نظریں ایک ساعت کے لئے اوپراُٹھائیں اور پھر جھکا کر بولا، ’’ اس دنیامیں بہت کچھ ہوتاہے میم۔۔‘‘
’’ واہ !بڑے اونچے خواب دیکھتے ہومسٹر۔۔۔۔۔ کلیم، ‘‘ وہ پھرآگے کو کھسک آئی۔
’’ میں خواب دیکھتا ہی نہیں ہوں جی کچھ خوابوں کی پرورش بھی کرتا ہوں۔ ‘‘
’’ ارے واہ ! کیا بات ہے ؟ اپنے خوابوں کو گھاس کھلاتے ہو یابرگر ۔‘‘ اُس نے طنز کیا،
’’ خون جگر دے کر جی ۔۔۔۔ آپ نے بھی بہت سے خواب پالے ہوں گے۔ ‘‘
اس بار اُس کی آنکھوں کی پتلیوں کے کھلنے کا وقفہ کچھ زیادہ تھا۔ اس دوران اُس کی آنکھوں کے فعال اور حساس ترین کیمرےنےسر سے لے کر ٹھوڑی تک میم کی تصویر لے لی تھی۔
یہ تصویر اُس کے دماغ کے کمرے میں سب سے نمایا ں جگہ جا کر آویزاں ہو گئی۔
’’ ہمارے خواب۔۔۔ ہمارے خواب۔۔‘‘ لپ اسٹک سے لدے ہونٹ کھلےتو لمبی لمبی پلکیں بھی وا ہوگئیں لیکن ایک دھچکے کہ ساتھ ہونٹ بھی بند ہوئےاور پلکیں بھی جھک گئیں جیسے اچانک ا ُنہوں نے سانپ دیکھ لیا ہو۔ کلیم نے بھی عین اُسی لمحے اپنی بادامی آنکھیں پوری طرح کھولی تھیں۔ اس تصادم میں جھیل جیسی کاجل سے بھری جادوئی آنکھیں تیرتے ہوئے سرخ ڈوروں سے بھری بادامی آنکھوں کے سامنے زیر ہو گئیں ۔
وہ آگے بڑھی، ’’ اوکے کلیم صاحب،مبارک ہو ، آپ کل سے جائن کیجئے۔ ملک صاحب سے مل لیجئے وہ آپ کو ہمارے اصول اور کام کا انداز سمجھا دیں گے۔ ‘‘
’’ جی میم ‘‘ ، کلیم نظریں جھکائے کمرے سے باہر نکل گیا۔ انٹرویو کا سلسلہ رک گیااور کمرا دھوئیں کی مختلف شبیہوں سے بھر گیا۔ جن میں کلیم کے خوابوں کی کچھ دھندلی سی شبیہیں بھی تھیں۔۔۔بے جان، بےآواز، بے معنی اور اجنبی۔
سوئمنگ پول کے گرد لان کے پودے لہرا لہرا کر بارش کی نوید سنا رہے تھے۔ پرندوں نے بھی بارش کے استقبال کی تیاریاں کر رکھی تھیں۔ آسمان پر بدلیوں کا ملن ہو رہا تھا ۔ جوں ہی ایک بدلی دوسری کے اندر اُترتی اس کا رنگ بدل جاتا اور دیکھتے ہی دیکھتے بدلیوں کا یہ ملن رنگ لایا ،آسمان کا رنگ بدلا ، گہرا ہوا اور پھر سیاہ ۔ کچھ ہی دیر میں مون سون کی پہلی بارش کے بے تاب قطرے پیاسی زمین پر گرے تو زمین نےانہیں اپنے اندر سمو لیا۔
گرمی کی ستائی ہر شےباہر نکل آئی ۔ یہاں تک کہ بارش کا رومان ٹھنڈے یخ کمرے میں بیٹھی غزل کو بھی باہر کھینچ لایا۔ جب وہ سوئمنگ پول کے کنارے پر کھڑی ہوئی تو بارش کےکچھ شریر قطروں نے اُ س کا گداز بدن چھوتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو بھی دعوت دے ڈالی۔۔۔۔۔۔۔اور پھر کچھ ہی دیر میں غزل بارش کا حصہ بن گئی۔
وہ آنکھیں بند کئیے ہاتھ پھیلائے لان میں یو ں کھڑی تھی جیسے کوئی پری اپنے پری زاد کا انتظار کر رہی ہو۔پیاسی زرخیز زمین نے اپنا آپ بارش کے سپرد کر دیا اور پھر بارش زمین کے بدن پر اس طرح ٹہلنے لگی جس طرح کسان اپنی فصل کا جوبن دیکھ کر اُس کے کناروں پر ٹہلتا ہے۔ بارش کے پانی نےغزل کی سیاہ پھول دار شرٹ سمیت اندر تک سارے کپڑوں کو روند کر رکھ دیا تھا۔ کچھ دیر لان میں چکر لگانے کے بعد وہ سوئمنگ پُول کے کنارے بیٹھ گئی۔ لیکن بارش اُس کے حُسن کے جلوے مزید برداشت نہیں کر سکتی تھی ، اوپر سے ٹھندی ہوا جو اُس کی ہڈیوں تک پہنچ رہی تھی۔ مجبور ہو کر وہ اپنے سینے پر دونوں بازوؤں جما کر اندر بھاگی۔
برآمدے میں اپنے نشان چھوڑتے ،کمرے کے قالین کوپانی پانی کرتے وہ ڈریسنگ روم کی طرف بڑھی لیکن دیوار پر آویزاں ایک قدِ آدم آئینے نے اُس کا ہاتھ تھام کر روک لیا۔ اُس نے دیکھا آئینہ میں ایک قیامت کھڑی تھی ، بارش میں بھیگی ہوئی قیامت، اُس کے سرخ رخساروں پر پانی کے قطرےیوں براجمان تھے جیسے اناروں پر شبنم۔
سیاہ زلفیں اپنی ترتیب توڑ کر آوارہ گھٹاؤں کی طرح اُس کی گردن سےیوں لپٹی تھیں جیسے گردن کا ہی حصہ ہوں۔
اُس کے لباس سے پانی نچڑ نچڑ کر پیروں تک جا رہا تھا۔ زین کی پینٹ کے اوپر جو بھی کپڑا تھا وہ بارش نے اس طرح روندا تھا کہ اُس کے تار تار سے گلابی رنگ تڑپ ٹرپ کر باہر آرہا تھا اور پانی کے قطرے اُس رنگ میں جذب ہو رہے تھے۔
اُس نے اپنی شرٹ کی سلوٹوں کو سینے پر نیچے کی طرف کھینچ کر اور دائیں بائیں ہاتھ پھیر کربرابر کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ا س کوشش میں گلابی سنگِ مر مر کی مورت کی لکیریں مزید واضح ہو گئیں ۔
آئینے میں بسی مورت پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے ہوئے اُس نے کہا، ’’ یہ حسن کہاں سے اُمڈ آیا غزل ؟ تم اتنی حسین ہو مجھے تو پتہ ہی نہ تھا، تمہارا بدن ۔۔۔۔ تمہارا ایک ایک انگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم پرستان کی شہزادی ہو۔۔۔۔۔ نہیں تم آسمان سے اُترا ہوا فرشتہ ہو۔۔۔۔نہیں نہیں تم صرف غزل ہو جو ایک ہی ہے۔ کلیم تمہاری غزل ۔۔۔۔۔۔۔ صرف تمہاری۔۔۔۔ دیکھو اس طرف سے ‘‘ اس نے اپنا رخ بدلتے ہوئے کہا، ’’ یہاں سے، یہاں سے۔۔۔۔۔ اس آفاقی پیرہن میں کہاں کیا کمی ہے۔۔۔۔جو تم نے اسے کبھی آنکھ بھر کر نہیں دیکھا۔۔۔۔۔ دو سال کے عرصہ میں۔۔۔۔ تم ایک قدم بھی آگے نہ بڑھے۔ تمہیں کیوں نہیں پتہ چلتا کہ میں بھی کچھ خوابوں کی پرورش کررہی ہوں۔ ۔ تمہاری جھکی ہوئی نگاہیں ہر روز میرا تن من جلاتی ہیں۔۔۔ ۔ تمہاری جھکی ہوئی نگاہیں اُنہیں اُن خوابوں کوروز نئی زندگی دیتی ہیں۔ میں بھی انہیں خون ِ جگردے کر پال رہی ہیں۔۔۔ لیکن یہ خواب میرے تو نہ تھے۔۔ میں کتنی پاگل ہوں تمہارے خواب پال رہی ہوں اور تمہیں خبر تک نہیں۔‘‘
اُس کی آنکھوں سے چند ریشمی قطرےبرآمد ہوئے اور شعلوں کی طرح دھکتے رخساروں کو چھوتے ہوئے، گریبان سے گذرتے ہوئے دل پر جا رکے۔ ہتھیلیوں سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔۔۔۔تو۔۔۔۔ آنسوؤں کی بدلیاں ایک دوسرے میں جذب ہونے لگیں ، کچھ ہی دیر میں اُس کےآسمانِ جسم کا رنگ شعلوں کی طرح لال ہو گیا اور پھرایسی جھڑی لگی کہ ساری رات خوابوں کی چھت ٹپکتی رہی۔
’’ میم میں چاہتا ہوں ہم اپنی ویونگ کپیسٹی بڑھا کر ایک دو انٹرنیشنل برینڈز کی بِٹ بھی اٹھا لیں۔ میں نے ایک جگہ دیکھی ہے جہاں بہت کپیسٹی ہے ،آپ بھی دیکھ لیں تو میں اس پر کام شروع کروں۔ اور میم یہ دیکھیں یہ ایک۔۔۔۔ ‘‘
کلیم نے ایک فائل میم کی طرف موڑتے ہوئے کہا جو کرسی کو پیچھے کی طرف موڑے پچھلی دیوار پر لگی تصویر کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ ’’ بے وقوف جاہل یہ نہیں سمجھ پایا کہ مجھے ان فیکٹریوں سے دلچسپی نہیں۔۔‘‘ اُس نے سوچا اور سگریٹ کے دھوئیں سے ایک شکل بناتے ہوئے کلیم سے کہا، ’’ مینیجر صاحب ! آپ مینیجر ہیں جو چاہئیں کریں۔ اور اپنے۔۔۔۔۔‘‘
اپنا جملہ نامکمل چھوڑ کر وہ کھڑی ہوئی اور دیوار پر لگی تصویر کو سیدھا کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ اس دوران اس کے دماغ میں جملے کا باقی حصہ تیر رہاتھا، ’’ ۔۔۔۔۔ اپنے خواب مکمل کرو۔۔ جلدی ۔۔کلیم اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔‘‘
’’ میم میں کرتا ہوں۔‘‘ کلیم یہ کہہ کر آگے بڑھا۔ تصویر کی طرف ہاتھ بڑھائے توغزل کا شانہ اس کی بائیں کوہنی سے ٹکر ا گیا،
اُ سے نہیں معلوم کیسے ہوا ، وہ لڑکھڑایا، اُس کا یک ہاتھ میم کے شانے پر تھا اور دوسرا میز پر، اُس کے چہرے کے عین سامنے میم کی صراحی دار گردن کا نچلا حصہ تھا مگر حیا نے اُ سکی نگاہوں کو رکنے کی اجازت نہ دی اُس کی پلکیں فوراً اوپر اٹھیں ، ’’ سوری میم۔‘‘ لیکن وہ کچھ کہے بغیر بت بنی کھڑی اُسے دیکھتی رہی۔
کلیم تیزی سے وہاں سے ہٹا اوراپنی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔ اُس کے ماتھے سے پسینے کے چند قطرے اُس کی ناک تک پہنچے اور کچھ اُ س کی آنکھوں میں۔ اُس کے گال دھکتے انگارے بن گئےتھےاورہاتھ پیر برف ۔اُس نے ایک آنکھ ملتے ہوئے دوسری سے میم کی طرف دیکھا، جس کی نگاہیں اُس پر گڑی ہوئی تھیں۔
’’ میں چلتا ہوں میم۔۔۔۔ ‘‘
’’ نہیں بیٹھو۔‘‘ وہ بیٹھ گیا۔
کمرے میں کچھ دیر خاموشی رہی ۔ غزل نے دراز میں سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور ایک سگریٹ سلگا کر بولی ، ’’ اور تمہارے خوابوں کا کیاحال ہے؟‘‘ اُ س کی آواز میں لرزش تھی ، نکاہت تھی، مدہوشی تھی اور التجا بھی۔
پھیلے کاجل سے لدی آنکھوں میں روح تک اُتری ہوئی اندر کی دیوانگی اور وحشت صاف نمایا ں تھی۔ کلیم نےجب اس وحشت کو محسوس کیا تو اُس کے دماغ سے اُٹھنے والی خوف کی لہراُ س کی ٹانگوں تک جا پہنچی ۔
’’ میم آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے۔‘‘ کلیم نے ایک ساعت کے لئے نگاہیں اُٹھا کر پوچھا۔
’’ کہاں تک پہنچے تمہارے خواب۔‘‘ غزل نے ایک نقلی سی مسکراہٹ اپنے چہرے پہ سجائی۔ دروازے پر دستک ہوئی اور سیٹھ اسماعیل کمرے میں داخل ہوئے۔ کلیم سلام دعا کر کے کمرے سے باہر چلا گیا۔
’’ اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔‘‘ اُس نے ڈائری میں لکھا۔
’’ میں کیا کروں، میرے خوابوں میں تو تم تھی ہی نہیں۔۔۔۔۔ میری آنکھیں تو صحرا کی مانند بے آب و گیاہ تھیں، وہ تو خالی تھیں، تُو کہاں سے آ کر بس گئی۔۔۔۔۔۔۔میرے خوابوں کو چکناچُور کرنے والی۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ مجھ سے غلطی ہو گئی جو میں نےتمہیں اپنی آنکھوں میں بسایا۔۔۔۔‘‘ اُس کا قلم رک گیا۔
’’ لیکن کلیم تم نے خود ہی اپنے خوابوں کی قربانی دی تھی۔ تو نے خود ہی اس احمقانہ محبت کو اتنا پالا کہ وہ تمہارے خوابوں پر بھی حکومت کرنے لگی۔ ‘‘ اندر پیدا ہونے والی کشمکش لفظوں کی صورت میں کلیم کی ڈائری پر منتقل ہو رہی تھی۔
’’ نہیں ۔۔۔نہیں۔۔۔۔ میں تم سے معافی مانگ لوں گا۔۔۔۔۔ میں اپنا تابناک مستقبل اور خواب نہیں چھوڑوں گا۔ میری آنکھیں خالی عمارت کی مانند ہیں، ان میں کوئی نہیں بستا۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
پھر اندر سے آواز آئی، ’’ بستا ہے جھلے، بستا ہے وہ جسے ابھی دو دن پہلے تم نے کنول کاپھول کہا تھا۔‘ اُ س کی معصوم نگاہوں کا سامنا کس طرح کر پاؤ گے۔‘‘
’’ لیکن میں اُس کا بھی تو سامنانہیں کر سکتا جسے میں روز ایک اخبار کی طرح پڑھتا ہوں ، ایک ایک خبر کی حرارت محسوس کرتا ہوں ہوں ،اورپھر اپنی ساری محسوسات کواُسی کمرے میں چھوڑ کرآجاتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوابوں کو پالنے کے لئے خون جگر دینا پڑتا ہے۔۔ دے دوں گا میں اپنے جگر کے لہو کی قربانی، لیکن اپنے خوابوں کو پورا کروں گا۔‘‘
کلیم کی جھکی نگاہوں نے آج تک غزل کی جتنی تصویریں لی تھیں سب اُ س تصویر کے ساتھ جا کر آوایزاں ہو گئیں جو اُس کے دل کے نہاں خانے میں کہیں آویزاں تھی۔

اُس نے ڈائری بند کی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن نیند کہاں۔ اُس نے ساری رات ٹہلتے، بیٹھتے ،لیٹتے ، اُٹھتے ، اور پانی پیتے پیتےگذاردی ۔
پچھلے پہر کہیں آنکھ لگی تو خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ ایک سرمئی رنگ کی شبہیہ ہاتھ میں تلوار لئیے خوفناک چہروں والے بہت سے آدمیوں سےلڑ رہی ہے ۔۔۔ چیخ رہی ہے۔۔۔۔ میں تمہارے سارے خوابوں کو مار دوں گی۔۔۔۔۔ سب کو مار دوں گی ۔۔۔ تمہارا خواب صرف میں ہوں میں۔۔۔ ۔ کیونکہ میرا خواب تم سے ہے۔۔۔۔
صبح جب کلیم آفس پہنچا تو خبر ملی کہ میم کی طبیعت خراب ہے۔ چنانچہ وہ وہیں سے میم کے گھر چلا گیا۔مہمان خانے میں بیٹھا تھا کہ خانساماں نے پیغام دیا کہ غزل بے بی فرما رہی ہیں صاحب کو اندر لے آؤ۔۔ اس گھر کے راستے اُس کے لئے کوئی نئے نہیں تھے اس لیا بلا توقف میم کے کمرے پر جا دستک دی،’’ آجاؤ‘‘ اجازت ملنے پر وہ اندر چلا گیا۔
غزل گٹھنے پر گٹھنا رکھے صوفے کی پشست سے ٹیک لگائے ایک ہاتھ میں ایش ٹرے اور دوسرے میں سگریٹ تھامے بیٹھی تھی۔ کلیم کو پاس دیکھ کر سگریٹ ولا ہاتھ اُس کی طرف بڑھا دیا۔ کلیم نے پہلے آہستگی سے اُس کے دائیں ہاتھ سے سگریٹ لیا اور پھر اپنا دایاں ہاتھ اُ س کے ہاتھ کی نذر کر دیا۔
اُس کی انگلیوں کا جوش اور تپاک کلیم کے ہاتھ کے اوپری حصہ پر نشان چھوڑتے ہوئے اُس کے دل تک پہنچ گیا۔ غزل نے ادھ کھلی آنکھوں سے اُسے دیکھا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
کلیم نے بیٹھتے ہوئے ایک نظر اُس کی طرف دیکھا، نیلے رنگ کے سونے کےلباس میں وہ کوئی جل پری دکھائی دے رہی تھی۔ کلیم کی آنکھیں اٹھتی ، اور جھک جاتیں۔ اصل میں وہ اُسے اُس شرارتی بچے کی طرح دیکھ رہاتھا جو کھڑکیوں، درزوں اور سوراخوں سے کسی کے گھر کا اندرونی حصہ دیکھ کرخوش ہو رہےہوں۔ ۔۔۔۔ حُسن اور عشق کا یہی فسانہ ہے۔۔ حسن دید کا اور عشق دیدار کا دیوانہ ہوتاہے۔

ہمیشہ کی طرح غزل نے ہی بولنے میں پہل کی۔
’’کیا حال ہے دفترمیں؟‘‘
’’ جی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب آپ کی طبیعت کا پوچھ رہے تھے۔‘‘ کلیم نے بہت احتیاط سے جواب دیا اور پھر خود ہی اس میں اضافہ کیا ۔
’’ خیریت ہے میم ،، کیا ہوا۔۔۔۔۔ کوئی بخار وغیرہ‘‘
’’ نہیں بس کچھ بے آرامی ہے۔‘‘ غزل نے سگریٹ والے ہاتھ کی درمیانی انگلی سے ماتھے کا درمیانی حصہ ناک کی سیدھ میں اوپر تک سہلاتے ہوئے کہا۔ اس دوران کلیم کی نگاہوں نے ہونٹوں سے پیروں تک کا اُس کا جائزہ لے ڈالا۔ آج نہ وہ حشر سامانی تھی اور نہ ہی وہ بے تابی ۔ جب دل مرجھا جائے تو جسم بھی مرجھا جایا کرتے ہیں۔
’’ میم ۔۔۔ کیابات ہے کہ کوئی پریشانی۔۔۔۔۔‘‘ کلیم نے پوچھا۔
’’ نہیں بس کسی کے خوابوں کے پورا ہونے کا انتظار ہے۔‘‘
اگرچہ کلیم صورتِ حال بھانپ چکاتھا لیکن پھر بھی اُ س نے احتیاط اور آہستگی سے پوچھ ہی لیا۔
’’ کس کے خواب میم۔۔۔‘‘
کلیم کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا جواب دے۔
’’ مجھے تم نے پاگل کر دیا ہے کلیم، تمہاری جھکی ہوئی نظروں نے میرا اندر جھلس کر رکھا ہوا ہے۔ میں تمہارا پیچھا کرتے کرتےتھک گئی ہوں کلیم ، میں تمہاری آنکھوں میں اترنا چاہتی ہوں ،میں تمہارے سینے پر سر رکھ کرسونا چاہتی ہوں۔ میں ۔۔۔۔‘‘
غزل کا اظہارِ محبت کلیم کے لئے کوئی نیا نہیں تھا وہ تو روز اُس کی آنکھوں میں اس اظہار کا پوسٹر لگا دیکھتا تھا لیکن وہ انجان بنا رہا۔
’’ م م م میم۔۔۔ یہ کیاکہہ رہی ہیں آپ۔‘‘
حسبِ عادت کلیم کی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں جن کے عین سامنے نیلے رنگ کے شفون میں سے جھانکتی ہوئی غزل کی پنڈلیاں تھیں۔
’’ اپنی آنکھیں اُٹھاؤ۔۔ کلیم اور مجھے دیکھو۔۔۔‘‘ وہ اُٹھ کر کلیم کے پاس صوفے سے اُتر کر نیچے بیٹھ گئی ۔
’’ لو کلیم میں تمہیں یہ بھی نہیں کہتی کہ نگاہیں اٹھاؤ ، دیکھو میں تمہاری جھکی ہوئی نگاہوں کے سامنے آ گئی ہوں اب تو دیکھو، اب اس غزل کی طرف دیکھو جو صرف تمہارے لئیے بنی ہے۔ اپنے خوابوں کو دیکھو کلیم جنہیں تعبیر مل رہی ہے۔ میری آنکھوں میں دیکھو کلیم۔‘‘
کلیم کی اوپر والی پلکیں نچلی پلکوں کے اور قریب آ گئیں۔ یہ ادا غزل کو اچھی نہیں لگی ۔ جن پلکوں کے دروازے کے اندر جھانکنے کے لئے وہ نیچے اتری تھی وہ اب بھی اس قابل نہ تھیں کہ وہ ان کے اندر جھانک سکے۔
’’ مجھے اور نہ تڑپاؤ کلیم ، میں نہ سو سکتی ہوں نہ جاگ سکتی ہوں، مجھے چین نہیں، مجھے ہر طرف صرف تم دکھائی دیتے ہو۔۔آخر تمہیں میں کیوں نظر نہیں آتی۔ تمہیں اپنے پیچھے بھاگتی غزل کیوں دکھائی نہیں دیتی۔ تمہیں میرے بدن کی آہیں کیوں سنائی نہیں دیتیں۔دیکھو کلیم دیکھو۔۔۔۔۔ یہ بدن صرف تمہارے لئیے بنا ہے۔ ‘‘ اُس نے اپنی شرٹ کو گریبان سے پکڑ کر اس زور سے کھینچا کہ وہ کسی کمرے کے دروازےکی طرح کھل گئی، درواز کیا کھلامورتیوں سے بھرے کسی سنگ تراش کا کمرا کھل گیا۔گلابی رنگ کے اس کمرے کی ہر مورتی گلابی تھی ، قابلِ دید، لائقِ ستائش اور دیوانہ کر دینے کے لئے کافی ۔
جی تو کلیم کا چاہا کہ وہ اُسے سینے سے لگا لے اور کہے ، ’’ غزل تم میرے دل کے نہاں خانے کی ہر دیوار پرآویزاں ہو۔۔۔ میرے خوابوں کا نام غزل ہی تو ہے۔‘‘
لیکن اُس کے اندر بیٹھی مورتی نے اُ س کی زبان کو کس کر پکڑ لیا اور اور اُس کے جسم کو بے حرکت کر دیا۔
غزل اُٹھی اور کلیم کے اتنا قریب آگئی کہ اُ س کی سانسوں نے مدہوش کلیم کے اندر گہرائی تک رسائی حاصل کر لی اور وہ اُس کے دل کے نہاں خانے تک جا پہنچی ۔ کلیم کو یہ لگا کہ مورتی اور غزل میں لڑائی شروع ہو گئی ہے۔
’’ آج مجھے ان آنکھوں میں جھانکنے دو، مجھے ان آنکھوں میں خود کو دیکھنے دو۔ مجھے ان آنکھوں میں اترنے دو۔ کلیم‘‘ اُس نے ہونٹ کلیم کی پلکوں پر رکھ دئیے۔ اتنی نزدیکی ، اُس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا، اُسے یوں لگا کہ گلشئیر پر سورج آن گرا ہو اور گلیشئیر قطرہ قطرہ نہیں دریا کی طرح بہہ رہا ہو۔ اُسے لگا کہ غزل اور مورتی کی لڑائی انجام کو پہنچنے والی ہے۔۔۔۔
پھر کلیم کو لگا کہ مورتی نے ایک کتاب کلیم کی طرف پھینکی ہو، اس کتاب کا یک ورق بکھر نے لگا۔
اُس کےوعدے ، اُس کی قسمیں، اُ س کی منتیں اُس کی سماجتیں، سب اُس کے سامنے تھا ۔ وہ ایک جھٹکے سے اُٹھا، اپنے سارے حوصلے جمع کئیے اور بولا،
’’ نہیں میم یہ آنکھیں اس سے زیادہ نہیں کھل سکتیں ، یہ پلکیں اس سے زیادہ نہیں اٹھ سکتیں۔ان آنکھوں کے مندر میں کوئی اور مورتی بیٹھی ہے۔‘‘
یہ سننا تھا کہ غزل رزمیہ نظم بن گئی، اُس کی ساری وحشت باہر آگئی ،اس کی آنکھیں دھکتے انگارے بن گئے اور اس نے کلیم کے گریبان کو پکڑ کر کہا،
’’ کون ہے وہ پاپی، اُسے جرات کیسے ہوئی ، میں اس کی جان لے لوں گی۔ میں اُس کا خاندان برباد کر دوں گی۔ اور میں تمہیں کھا جاؤں گی کلیم، تم نے یہ سوچا بھی کیسے۔ ‘‘ اُس کے لب کلیم کے ٹھنڈے گال کی طرف بڑھے۔۔۔۔۔۔
پھر پتہ نہیں کیا ہوا، اُس کے دماغ میں کیا چلا کہ اُس نے اپنی آواز کو دھیما کرتے ہوئے اور اپنا سر کلیم کے شانے پر لٹاتے ہوئے پوچھا،
’’ کون ہے وہ کلیم کون ہے وہ ۔۔۔۔‘‘
’’ کیا وہ مجھ سے زیادہ حسین ہے،‘‘
’’ نہیں میم ، ‘‘
’’مجھ سے زیادہ دولت مند ہے۔‘‘
’’ نہیں میم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
’’پھر کیا ہے وہ۔۔۔۔۔ ‘‘
’’میری محبت ہے میم ۔۔۔۔ ‘‘
دھکتا سورج پگھلتے گلیشئیر سے اُڑا اور ریزہ ریزہ ہو گیا۔
اُ س نے کلیم کا گریبان چھوڑا اور دوسرے صوفے پر جا کر بیٹھ گئی۔ ۔ اُس کا سر اُس کے گھٹنوں میں تھا۔ وہ ایسے بچہ کی طرح رو رہی تھی جس کا کوئی انتہائی پیارا کھولنا ٹوٹ گیاہو۔ اُسے یوں لگ رہا تھاجیسے زندگی ختم ہو گئی ہو۔
اُس نے تواپنا ہر خواب کلیم کے خوابوں کی نظر کر دیا تھا۔ اُسے پتہ ہی نہ تھا جس جھولی میں وہ اپنے خواب ڈال رہی تھی وہ خالی تھی۔ اب وہاں کوئی خواب نہ تھا۔ جن آنکھوں میں وہ خود کو دیکھنا چاہتی تھی وہاں کوئی اور قابض تھا۔
’’ میں محبت کی ماری، اندھی، بے وقوف۔۔۔۔ اتنی بے خبر۔۔۔ میری آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں، مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کب کوئی آیا اور کلیم کی آنکھوں کا مکین بن گیا۔‘‘ وہ گھٹنوں میں سر دئیے خود کو کوس رہی تھی۔
کلیم اس کے پاس گیاپلیز میم۔‘‘
’’ میم نہیں غزل کہو کلیم ۔۔‘‘ اُ س نے روتے ہوئے ہونٹ چباتے ہوئےکہا،
’’ میم ۔۔۔۔۔۔غ غ ز ل ۔۔۔۔۔ غزل میم
وہ مڑی اور اُس نے اپنا سر کلیم کے سینے پر رکھ دیا۔۔۔ کچھ ہی دیر میں اُ س کے آنسو کلیم کی شرٹ کو چیرتے ہوئے اُ س کے دل تک جا پہنچے اور کلیم کی آنکھیں تر ہونے لگیں لیکن اُس کی آنکھوں کے مکین نے اُس کے سارے آنسو اُچک لئیے اور پلکوں کی کھڑکیاں بند کر دیں۔
’’تمہارے خوابوں کا کیا ہوگا، کلیم۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔‘‘
’’ وہ دیکھنا چھوڑ دئیے۔۔۔۔ ‘‘
’’ا س کا مطلب یہ ۔۔۔ کہ خواب تمہارے تھے کلیم ۔۔۔۔اور پالتی میں رہی،
خواب تمہارے تھے کلیم اور جگر کا لہو میں پلاتی رہی ۔۔۔۔۔وہ تمہارے خوابوں میں کیسے آگئی۔۔۔ ‘‘ ا
ُس نے کلیم کا سینہ پیٹتے ہوئے کہا۔
’’پتہ نہیں میم ۔۔۔۔۔۔‘‘
کون ہے وہ ۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے سراُٹھاتے ہوئے کہا،
میم شاید آپ سن نہیں سکیں گی۔‘‘

’’ اب باقی کیارہ گیا ہے کلیم۔۔۔۔۔مجھ سے میرا کلیم چرانے والا جادوگر کون ہے ۔۔۔‘‘
وہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئی ، اپنی ہتھیلیوں سے اپنے رخساروں پر بہتے اپنے آنسو خشک کرنے کی ناکام کوشش کی،
’’ چلو اتنا تو مان لو تمہاری روح میری ہے اگر کسی نے یہ جسم چرا لیاتو یہ اُ س کی قسمت۔۔۔۔۔۔ میرا کلیم میرے پاس ہے جسے کوئی نہیں چرا سکتا۔ بتاؤ کون ہے وہ؟ ‘‘
اُس نے اچھل کر کلیم کے دائیں گال پر اپنی لپ اسٹک کے نشان چھوڑ تے ہوئے کہا۔ اور ٹشو کے ڈبے کی طرف بڑھی۔
کلیم کو لگا کہ غزل کا قد اُس سےکہیں زیادہ بڑھ گیا ہے، یہ پاگل لڑکی اندر سے کتنی دانا اور بینا ہے، ک یہ پاگل ، دیوانی کتنی بڑی ہے یار۔۔۔
’’ مجھ سے بہت بڑی بہت عظیم۔‘‘
’’ عائشہ میم۔۔۔ ‘‘
’’ کون عائشہ۔۔۔۔۔۔۔ میری سیکرٹری میم ۔۔۔۔ ‘‘
’’ ارے وہ عائشہ۔۔۔۔‘‘‘ اُ س نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، ’’ اچھی ہے، پیاری ہے۔۔۔۔۔۔ کیوں نہ ہو میرے کلیم کی پسند ہے۔ کب آئی تمہاری آنکھوں میں ۔ ‘‘
’’ جب میں مینجر بناتھا اور آپ نے پارٹی دی تھی۔‘‘
صبح کا سورج شام کی گود میں اتر رہا تھا۔
کلیم روتی کرلاتی غزل کو چھوڑ کر چلا آیا ۔
وہ رات قیامت کی رات تھی ، فیصلوں کی رات تھی کلیم کے لئے بھی اور غزل کے لئے بھی۔
اگلے دن غزل دفتر آتے ہی سیدھے کلیم کے دفتر چلی گئی۔ وہی بانکپن وہی چلن، نہ بے چارگی ، نہ ملامت نہ پچھتاوہ۔ البتہ میک اپ سے لدے چہرے کے نیچے اُس کے اپنے ساری کہانی پڑھ سکتے تھے۔
وہ عائشہ کے ڈیسک پر رکی،
’’ کب کر رہی ہو کلیم سے شادی؟‘‘
عائشہ تو اُس کی اچانک آمد اور یہ بات سُن کر کنگ ہو گئی۔
پھر حوصلہ کر کے بولی،
’’مجھے کیا پتہ میم۔‘‘
’’ تمہیں ہی تو پتہ ہے جانِ من۔۔۔ تمہاری آنکھیں بتا رہی ہیں تم بہت ذہین ہو۔۔‘‘
’’جی میم‘‘
’’مجھے کلیم بہت پیارا ہے۔۔۔۔۔ میں نے اُ س کے خواب پالے ہیں۔۔۔۔۔ خون جگر دے کر۔۔۔ دیکھنا وہ خواب دیکھتا ہی رہے۔‘‘
’’ جی میم‘‘ اُس نے سر ہلا کر جواب دیا
’’ میری جان تاریخ بتا دینا میں خود کلیم کوتمہارے حوالے کروں گی ۔ ‘‘
غزل نے عائشہ کی گال پر چٹکی کاٹ کر اپنے جذبات کا جام اُس کے اندر انڈھیل دیا۔ لیکن عائشہ نے زہر سمجھ کر اُگل دیا۔
عائشہ کو ایک چٹکی کا تحفہ دے کر وہ دفتر سے نکل گئی۔ یہ ایک چٹکی ہی نہیں تھی بلکہ اُس تعلق کا بھی اظہار تھا جوکلیم کی وجہ سے اُ س کے ساتھ اُستوار ہو گیا تھا ایسے مسافروں کی طرح جن کی منزل ایک ہو لیکن راستہ مختلف۔
ہوٹل مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ غزل اسٹیج پر مائیک لئیے کھڑی تھی۔ گلابی ساڑھی میں ملبوس وہ جنت سے اتری ہوئی ایک پاکیزہ حور لگ رہی تھی۔ اُس کے ہونٹ بولنے کے لئے کھلے تو ہال میں خاموشی چھا گئی وہ بولی۔
’’ ہم اپنے مینیجر کلیم صاحب کی محنت اور اخلاص کی قدر کرتے ہیں آج ہماری کمپنی چار ملوں کی مالک ہے تو یہ کلیم صاحب کی دیانتداری اور محنت کا نتیجہ ہے۔ اس لئیے ہم نے فیصلہ کیاہے کہ ہم انہیں اپنی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کرتے ہیں، اب کلیم صاحب اس کمپنی کے نصف شئیرز کے مالک ہوں گے۔ آئیے کلیم صاحب۔‘‘
کلیم کی نگاہیں اس فائل پر تھیں جو غزل کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن قدم جمے ہوئے تھے۔
پھر ایک آواز ہال میں گونجی،
’’ آئیے کلیم صاحب اپنے خوابوں کی فائیل لے لیجئے جو دیکھے آپ نے اور پرورش کسی اور نے کی۔ آئیے۔۔‘‘
کلیم آگے بڑھا اور فائیل تھام لی
اچانک عائشہ بھاگتی ہوئی اسٹیج پر آئی۔۔۔۔ میں نے بھی کچھ خواب پالے ہیں ۔۔۔۔ میم غزل
ہال ایک طمانچہ کی آواز سے گونج اُٹھا،
اُ س نے غزل کے چہرے کو ہاتھ میں لے کر زور سے دبایا ،
’’ آئینہ دیکھئے میم جی۔۔۔۔۔ آپ کی گال پر وہی نشان ہیں جو میرے باپ کے گال پر تم نے لگائے تھے اور وہ یہ نشان لئیے قبر میں چلا گیا۔‘‘
اُس نے کلیم کے ہاتھ سے فائل چھینی اور اس کو ٹکڑوں میں بدل دیا۔
وہ کلیم کو کھینچتے ہوئے اسٹیج سے نیچے کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ غزل سمیت سب مہمان بت بنے کھڑے تھے۔
کلیم نے مڑ کرغزل کی طرف دیکھااور اُس کی نگاہوں نے غزل کی کئی تصویریں بنا ڈالیں جو اُس کے دل کے نہاں خانے میں رکھی ہوئی تصویروں میں جا کر مل گئیں۔
غزل نے پہلی دفعہ اُس کی پوری کھلی پلکوں کو دیکھا، پہلی دفعہ اُس کی آنکھوں کے اندر جھانکا۔ بادامی آنکھوں کی میٹھے پانی کی جھیل میں گلابی لباس میں ملبوس ایک حور تیر رہی تھی۔جو کلیم کےخوابوں کے بکھرے اوراق سمیٹ رہی تھی۔
پھر نہ وہ آنکھیں دکھائی دیں ،نہ ان میں بسے خواب لیکن وہ اپنا خون جگر پلا کران خوابوں کی پرورش کرتی رہی۔
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: خوابوں کی پرورش

Post by بلال احمد »

شیئرنگ کے لیے شکریہ
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: خوابوں کی پرورش

Post by اضواء »

شئیرنگ پر آپ کا شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

Re: خوابوں کی پرورش

Post by وارث اقبال »

افسانہ خوابوں کی پرورش پر اہل فکر و دانش کی رائے کا منتظر ہوں. افسانہ کے بارے میں +پ کی رائے میرے لئے بہت کار+مد ہے اور اغلی منزلوں کے تعین میں ممدو معاون ہے اس لئیے رائے ضرور دیجئے.
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

Re: خوابوں کی پرورش

Post by nizamuddin »

خوبصورت تحریر کے لئے ڈھیروں داد و تحسین
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”