انسانی زندگی کے مختلف ادور اور والدین کے نامناسب رویے

اگر آپ کسی سے گپ شپ لڑانا چاہتے ہیں تو یہاں آیئے۔ اپنے دوستوں سے ملاقات کیجئے اور ڈھیروں باتیں کیجئے
Post Reply
یاسر عمران مرزا
مشاق
مشاق
Posts: 1625
Joined: Wed Mar 18, 2009 3:29 pm
جنس:: مرد
Location: جدہ سعودی عرب
Contact:

انسانی زندگی کے مختلف ادور اور والدین کے نامناسب رویے

Post by یاسر عمران مرزا »

ہر انسان کی زندگی میں مختلف دور آتے ہیں، بچپن، لڑکپن، جوانی اور ادھیڑ عمری کے بعد بڑھاپا، بچپن اور لڑکپن میں دیکھ بھال کرنے کے لیے اللہ تعالی نے والدین کے دل میں اس قدر پیار دیا ہوتا ہے کے بچے کو بنا کسی مشکل کے نشونما پانا اور معاشرے کا حصہ بننا بہت آسان ہو جاتا ہے، اولاد جوان ہونے کے بعد ہر والدین اپنے بچوں کے لیے رفیق زندگی تلاش کرتے ہیں ، جو کہ ایک معاشرتی ذمہ داری بھی ہے، ایک دینی حکم بھی اور انسانی ضرورت بھی، لڑکیوں کو شادی کے بعد کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسکا احاطہ میں نہیں کر سکتا کیوں کہ میں ایک مرد ہوں، میں نہیں جانتا کہ لڑکیوں کے احساسات کیا ہوتے ہیں


مگر میں اپنے تجربے کی روشنی میں وہ مسائل ضرور بتا سکتا ہوں جو لڑکوں کے لیے پیدا ہوتے ہیں ، خاص کر ایسے لڑکوں کے لیے جو اپنی شریک حیات سے دور پردیس میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں

شادی کے فوری بعد کا عرصہ لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے بہت یاد گار اور حسین ہوتا ہے، اپنے شریک زندگی سے محبت ہو جاتی ہے جو کہ بالکل قدرتی بات ہے، ایسے میں والدین اور باقی بہن بھائیوں کی محبت کم نہیں ہوتی مگر صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ محبت کا اظہار کم ہو جاتا ہے کیوں کہ اب لڑکے کا وقت تقسیم ہو چکا ہے، کچھ اپنی بیوی کے لیے اور کچھ اپنے خاندان کے لیے، ایسے میں والدین ، بہن بھائی اور دوسرے عزیز و اقارب شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ لڑکا انہی بھول کر اپنی شریک حیات کو زیادہ ٹائم اور فوقیت دے سکتا ہے، اپنے پیٹ میں ۹ مہینے رکھنے والی ماں جو اپے بچے کی اک اک بات سمجھ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے، کہ اسے کیا پسند ہے وہ کیا محسوس کرتا ہے، کس وقت اسے کس چیز کی ضرورت ہے وہ بھی اس چیز کو نہیں سمجھتی کے نئے رشتے کا کچھ تقاضا بھی ہے، جس بیوی کے لیے لڑکا مجازی خدا کے رشتے پر فائز ہے اس بے چاری لڑکی کا بھی کوئی حق ہے، وہ اپنا گھر بار اپنے والدین چھوڑ کر صرف اس لڑکے کے لیے آئی ہے، اس کی ضروریات پوری کرنا، اسے وقت دینا ضروری ہے ، مگر ایسا نہیں ہوتا، والدین بھی لڑکے کی آزمائش میں لگ جاتے ہیں کہ کب وہ ایک چھوٹی سے غلطی کرے اور والدین اسے اس بات کا احساس دلا سکیں کہ وہ اپنی بیوی کو زیادہ وقت دے رہا ہے، اور اگر آپ کی قسمت اچھی نہیں اور آپ کو بیوی بھی ایسی مل جاتی ہے جو حالات کو نہ سمجھتے ہوے اپنا اک اک حق جتانے لگ جاتی ہے اور سارا وقت شکوے شکایتوں میں گزر رہا ہے پھر سمجھ لیں کہ آپ کی زندگی سخت مشکل میں گزرنی ہے


لیکن اگر آپ کو اپنا شریک زندگی ایسا ملتا ہے جو آپ کی بات اور آپ کی مشکلات سمجھتا ہے تو پھر آپ ضرور حالات سے اچھی طرح مقابلہ کر کے اپنا وقت احسن طریقے سے نبھا سکتے ہیں, خیر بات ہو رہی تھی والدین کی، اس موضوع پر میں اگر لب کشائی کروں تو بہت سے لوگ سمجھیں گے کہ میں ایک نافرمان اور نالائق اولاد ہوں، جس اپنے والدین سے محبت نہیں ہے، میں اس بات کا جواب یہی دوں گا کہ جب آپ زندگی کے اس دور میں آئیں گے اور ان حالات سے گزریں گے تو پھر آپ ان باتوں کو سمجھیں گے، سعودی عرب، مصر اور بہت سے دوسرے ممالک میں مشترکہ خاندانی نظام کو ترک کر دیا گیا ہے صرف اسی لیے کیوں کہ اس نظام میں بے شمار خامیاں ہیں، یورپ والے تو پہلے ہی اس نظام سے ناآشنا ہیں ہر رشتے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، اور انسان پر عمر کے مختلف ادوار میں احساسات اور جذبات مختلف ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے جو چیز آپ اپنی شریک حیات کے لیے مناسب سمجھ رہے ہیں وہ آپ کے والدین کو ناگوار گزرے، کیوں کہ ان کی عمر کے لحاظ سے ان کے احساسات مختلف ہیں، اور مشترکہ خاندانی نظام میں ایسے واقعات کثرت سے ہوتے ہیں

والدین کی طرف سے سختی، بار بار آزمائش، ناگواری کا اظہار والدین اور بچوں میں خلییج بھی پیدا کر سکتا ہے اور جس بات کا انہیں ڈر ہوتا ہے (کہ ان کا بیٹا انہیں چھوڑ کر بیوی کی طرف مائل نہ ہو جائے) وہ بات ہونے کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں، ہر مسئلے کا حل سختی اور غصہ سے نہیں نکالا جا سکتا، کبھی کبھی اپنے بچوں کی من مانی یا غلطی کو سخت رویہ کی بجائے اگر پیار سے سلجھا دیا جائے تو ہو سکتا ہے اگلی بار وہ اس غلطی کو نہ دھرائے میں مانتا ہوں کہ والدین کی خدمت کرنا اور ان کے ساتھ رہنا ہمارا فرض ہے، آپ ضرور والدین سے ملیں ، انہیں اکیلا نہ چھوڑیں، ان سے روز ملنے جائیں، ان کے پاس بیٹھیں، مگر مشترکہ نظام میں بار بار چپقلشیں ہوتی ہیں پسند اور ناپسند کا ٹکرائو ہوتا رہتا ہے۔

اگر کبھی لڑکا اور لڑکی اپنی من مانی کر لیں تو والدین اپنی بہو کو قصوروار ٹھراتے ہیں، کہ ہمارا بیٹا تو ایسا نہیں تھا، بہو نے اسے ایسا کر دیا ، اس پر تعویز کر دیے، ہمارے بیٹے کو اپنے قابو میں کر لیا اور یقین مانیں جب اگر آپ پردیس میں ملازمت کرتے ہیں تو آپ کے چھٹی گزار کے چلے جانے کے بعد آپ کے جانے کے بعد آپکی شریک حیات کو سب کچھ سہنا اور برداشت کرنا پڑے گا، اس سے تلخی سے بات کرنا، اور اس کو ہر مشکل کا ذمہ دار ٹھرانا وغیرہ، اس لیے سب سے بہتر طریقہ تو یہی ہے کہ آپ اپنی شریک حیات کے لیے بھی اپنے ساتھ رہنے کا بندو بست کریں یا پھر خود پردیس چھوڑ کر اپنے ملک میں اپنے رزق کا بندو بست کر لیں

اسی طرح والدین کو سب بچوں کے ساتھ ایک جیسا پیار رکھنا چاہیے، اگر وہ کسی ایک بچے کو زیادہ توجہ دیتے ہیں تو دوسرے بچوں کو خود بخود زیادہ پیار پانے والے بچے سے حسد اور نفرت ہو جائے گی، حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے جب یوسف کو زیادہ پیار ملنے پر حسد میں مبتلا ہو گئے تو آج کل کے انسان کیا چیز ہیں، آخر پر میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ میری ان باتوں کا مقصد قطعی یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے والدین پر توجہ کم کر دیں، بلکہ سب رشتوں کے ساتھ انصاف کریں، اپنے والدین کی خدمت کریں ، ان سے بدتمیزی کرنے سے بچیں، ان کی ڈانٹ ہنس کر سہ لیں، اللہ تعالی آپ کو یقینن اس بات کا اجر دیں گے بہت شکریہ
شازل
مشاق
مشاق
Posts: 4490
Joined: Sun Apr 12, 2009 8:48 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: انسانی زندگی کے مختلف ادور اور والدین کے نامناسب رویے

Post by شازل »

آپ نے ایک عام رویئے کی جانب توجہ دلائی ہے
شادی کے بعد ایسا ہونا لازمی ہے کہ بیٹا بیوی کی طرف توجہ دینے لگ جاتا ہے اور ماں باپ کو اگنور کرنے لگ جاتا ہے ، جسے والدین بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں ، بہو ان کی نظر میں اس خلیج کا سبب ہوتی ہے اور پھر ساس اور بہو تو ویسے بھی آگ اور پانی ہوتے ہیں.
ہمارے ہاں روایتی ساس اور روایتی بہو ہوتی ہے، ساس سمجھتی ہے کہ چند روز میں آنے والی بہو نے ان سے بیٹا چھین لیا ہے اور وہ پہلے صبح سویرے ماں سے ملنے آتا تھا لیکن اب بہو نے ایسی پٹی پڑھائی ہے کہ وہ کہ وہ ماں باپ کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا.
رشتوں‌کے یہ تانے بانے الجھتے سلجھتے رہتے ہیں، لیکن خدا کا شکر ہے کہ خاندانی سسٹم اپنی بقا قائم رکھے ہوئے ہے
اچھی تحریر کے لیے شکریہ
انصاری آفاق احمد
مشاق
مشاق
Posts: 1263
Joined: Sun Oct 25, 2009 6:48 am
جنس:: مرد
Location: India maharastra nasik malegaon
Contact:

Re: انسانی زندگی کے مختلف ادور اور والدین کے نامناسب رویے

Post by انصاری آفاق احمد »

اسلام علیکم
جناب محترم آپ کی تحریر بہت اچھی ہے. معاشرے کی ایک اہم خرابی کی جانب اِس نے روشنی ڈالی ہے. آپ کی تحریر میں جن باتوں کا ذکر ہے اسمیں ایک بات "مشترکہ خاندانی نظام" جسے ہم غیر اسلامی نظام کہیں تو درست ہوگا. ناجائیز تو نہیں مگر بہت ساری قباحتیں اپنے اندر سمیٹے ہوئے. اس نظام کی کوئی مثال دور صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم الجمعین میں مجھے تو نہیں ملی اور کئی جگہ دریافت کیا مگر کسی نے اس کی مثال نہیں بتائی. ہاں تربیتِ اولاد میں جو ترتیب آتی ہے. اس پر غور کرنے سے مزید اس نظام کی نفی ہوتی ہے. اب میں بہت علمی آدمی تو ہوں نہیں کہ مکمل مضمون و حوالہ دوں، اشارہ کردیتا ہوں. کہ اسمیں بچّہ اس عمر کا ہو تو اسکو کلمہ سیکھانا،نماز پڑھانا، مارنا، اسکی شادی کرکے اسکا ہاتھ پکڑ کر دعا دینا، اور پھر اسکو علاحیدہ کردینا یہ سب ہے.
اب آئیے آپ کی دوسری الجھن یا مشکل کی جانب جس میں ساس سسر بہو اور بیٹا کا ایک محاذ قائیم ہوتا ہے. سب سے اوّل تو میں یہ کہوں گا. کہ یہ مسائیل ہر ایک کے ہرگز نہیں. ہاں بہت ساروں کے ہیں. ماں باپ بیٹے بہو ہی کی بات نہیں. ایسے مسائیل تو بھائیوں اور بہنوں کے بیچ بھی پیدا ہوتے ہیں، ماں باپ کی پہلی اولاد اور پھر دیگر اولادوں میں بھی یہ اختلاف ہوتا ہے کہ والدین اسے زیادہ اہمیت دیتے ہیں مجھے کم.اب یہاں اللہ تعالٰی کا نظام کام کرتا ہے. اور وہ "پرانے" یعنی بڑی اولاد میں شفقت بردباری ایثاراور بڑی بہنوں میں اسکے ساتھ ساتھ ممتا پیدا کرتا. چھوٹوں میں بڑوں کو آئیڈیل بنانے کا اور اپنے بڑے بھائی بہنوں پر ناز کا جذبہ پیدا کرتا.جس سے تلخیاں کم ہوکر آپسی پیار و اخوت پیدا ہوجاتی ہے.
اب اس بات کو سوچئیے کہ کیا ماں کی ممتا، باپ کی شفقت، جو کہ اصل ماخذ ہے، جس کے پرتو سے بھائی بہینوں میں اخوت و محبت جاگتی ہے کیا وہ خود اتنی بودی ہے.کہ اپنی اولاد اور بہو کے لئیے کام نہ کرے؟؟؟
آپ نے اپنا تجربہ بیان کیا، میں اپنا کرتا ہوں، اور میرا تجربہ انفرادی نہیں اجتماعی سمجھ لیجیئے کیوں کہ بندہ ایسی مصالحاتی مجلسوں میں اپنے بڑوں کے زیر سایہ بہت شرکت رہتا ہے، جو گھریلو اختلافات کے حل کے لئیے منعقد کی جاتیں ہیں.
ان اختلافات کی بنیادی وجوہات میں سب سے پہلی وجہ جہالت ہے. لیکن جہالت سے آپ دنیاوی تعلیم کی کمی کو نہ لیں اصل جہالت ہے دینی علوم کی کم جانکاری اور اس بھی بڑھ کر جانکاری ہونا مگر عملی بے راہروی. انانیت.خود غرضی، چغلخوری، دنیا کی چمک دمک کو دامن میں سمیٹنے کا جذبہ یا ہوس، فضول خرچی، غلط راہنمائی، وغیرہ
اوّل الذکر دو خرابیاں مشترکہ ہیں. یعنی ماں باپ کی جوڑی میں بھی بہو بیٹے میں بھی. اسکے بعد کی خرابیاں عمومی طور سے کچھ بہو میں کچھ بیٹے میں، اور ایک بڑی خرابی بہو کی ماں میں ملتی ہے وہ ہے غلط راہنمائی. اگر میں ان سامنے آنے والی خرابیوں پر مختصر بھی لکھوں تو ایک مستقل کتاب تیارہوجائے گی.
صرف اتنا خلاصہ لکھتا ہوں کہ جناب یہ جو بیٹے اور بہو ہیں نہ انکے سامنے صرف اپنا مستقبل ہوتا ہے اور وہ بھی انتہائی قریب اور چمک دمک والا. ماں باپ کے سامنے اپنی ساری اولاد ہوتی ہے. ساتھ ہی ساتھ اور دیگر اقرباء بھی. ان کی نظر مستقبل قریب پر ہی نہیں بعید پر بھی ہوتی ہے.اور وہ بھی کسی ایک اولاد کے لئیے نہیں سارے اوپر لکھے لوگوں کے ساتھ، جب آپ انکی نظر سے یہ دیکھیں گیں تو انکی روک ٹوک، جو قبیح محسوس ہوتی ہے.اسکی خوبی سامنے آجائے گی.لیکن میں جانتا ہوں، اور میرا تجربہ بھی یہی ہے کہ اولاد کو ایسی نظر اسی وقت ملتی ہے جب اللہ تعالٰی اسکے ساتھ بھلائی کرنا چاہتے ہیں. اور اس کے اعمال ایسے ہوں جو اللہ تعالٰی کی بھلائی کھیچنے والے ہوں ورنہ اسکی آنکھ پر خود اللہ تعالٰی پٹّی باندھ دیتے ہیں. اور اسے اپنی ہی سوچ عین ثواب محسوس ہوتی ہے. اور یہ بات اللہ تعالٰی کی جانب سے سزا ہے. والدین کا روّیہ روک ٹوک والا وہی ہے. جسکو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہُ نے اپنی خلافت کے اوّلین فرائض میں شامل کیا وہ یہ کہ طاقت ور سے لیکر کمزور کو اسکا حق دلانا.
یا اللہ تعالٰی بدگمانی سے بد اعمالی سےغیبت سےعافیت کے ساتھ بچا.
Image
یاسر عمران مرزا
مشاق
مشاق
Posts: 1625
Joined: Wed Mar 18, 2009 3:29 pm
جنس:: مرد
Location: جدہ سعودی عرب
Contact:

Re: انسانی زندگی کے مختلف ادور اور والدین کے نامناسب رویے

Post by یاسر عمران مرزا »

شازل wrote:آپ نے ایک عام رویئے کی جانب توجہ دلائی ہے
شادی کے بعد ایسا ہونا لازمی ہے کہ بیٹا بیوی کی طرف توجہ دینے لگ جاتا ہے اور ماں باپ کو اگنور کرنے لگ جاتا ہے ، جسے والدین بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں ، بہو ان کی نظر میں اس خلیج کا سبب ہوتی ہے اور پھر ساس اور بہو تو ویسے بھی آگ اور پانی ہوتے ہیں.
ہمارے ہاں روایتی ساس اور روایتی بہو ہوتی ہے، ساس سمجھتی ہے کہ چند روز میں آنے والی بہو نے ان سے بیٹا چھین لیا ہے اور وہ پہلے صبح سویرے ماں سے ملنے آتا تھا لیکن اب بہو نے ایسی پٹی پڑھائی ہے کہ وہ کہ وہ ماں باپ کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا.
رشتوں‌کے یہ تانے بانے الجھتے سلجھتے رہتے ہیں، لیکن خدا کا شکر ہے کہ خاندانی سسٹم اپنی بقا قائم رکھے ہوئے ہے
اچھی تحریر کے لیے شکریہ
جی شازل
خاندانی نظام اپنی خوبیوں اور خامیوں سمیت ہمارے ہاں قائم ہے.
بہت شکریہ آپ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا
یاسر عمران مرزا
مشاق
مشاق
Posts: 1625
Joined: Wed Mar 18, 2009 3:29 pm
جنس:: مرد
Location: جدہ سعودی عرب
Contact:

Re: انسانی زندگی کے مختلف ادور اور والدین کے نامناسب رویے

Post by یاسر عمران مرزا »

محترم آفاق احمد ، وعلیکم السلام
بہت خوبصورت اور مناسب باتیں لکھی آپ نے . جو مجھے پڑھ کر اچھی لگیں. میں یہ تحریر اس سے قبل اپنے بلاگ پر بھی لکھ چکا ہوں لیکن اس قدر خوبصورت جواب کسی تبصرہ نگار نے نہیں دیا.
اسلام علیکم
جناب محترم آپ کی تحریر بہت اچھی ہے. معاشرے کی ایک اہم خرابی کی جانب اِس نے روشنی ڈالی ہے. آپ کی تحریر میں جن باتوں کا ذکر ہے اسمیں ایک بات "مشترکہ خاندانی نظام" جسے ہم غیر اسلامی نظام کہیں تو درست ہوگا. ناجائیز تو نہیں مگر بہت ساری قباحتیں اپنے اندر سمیٹے ہوئے. اس نظام کی کوئی مثال دور صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم الجمعین میں مجھے تو نہیں ملی اور کئی جگہ دریافت کیا مگر کسی نے اس کی مثال نہیں بتائی. ہاں تربیتِ اولاد میں جو ترتیب آتی ہے. اس پر غور کرنے سے مزید اس نظام کی نفی ہوتی ہے. اب میں بہت علمی آدمی تو ہوں نہیں کہ مکمل مضمون و حوالہ دوں، اشارہ کردیتا ہوں. کہ اسمیں بچّہ اس عمر کا ہو تو اسکو کلمہ سیکھانا،نماز پڑھانا، مارنا، اسکی شادی کرکے اسکا ہاتھ پکڑ کر دعا دینا، اور پھر اسکو علاحیدہ کردینا یہ سب ہے.
میں ان سبھی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں، واقعی مشترکہ خاندانی نظام کی مثال تاریخ اسلام میں کہیں نہیں ملتی بلکہ میرے خیال سے یہ بس برصغیرکی حد تک ہی رائج ہے. اور واقعی اس میں انسان کی زندگی کئی طرح سے متاثر ہوتی ہے.
اب آئیے آپ کی دوسری الجھن یا مشکل کی جانب جس میں ساس سسر بہو اور بیٹا کا ایک محاذ قائیم ہوتا ہے. سب سے اوّل تو میں یہ کہوں گا. کہ یہ مسائیل ہر ایک کے ہرگز نہیں. ہاں بہت ساروں کے ہیں. ماں باپ بیٹے بہو ہی کی بات نہیں. ایسے مسائیل تو بھائیوں اور بہنوں کے بیچ بھی پیدا ہوتے ہیں، ماں باپ کی پہلی اولاد اور پھر دیگر اولادوں میں بھی یہ اختلاف ہوتا ہے کہ والدین اسے زیادہ اہمیت دیتے ہیں مجھے کم.اب یہاں اللہ تعالٰی کا نظام کام کرتا ہے. اور وہ "پرانے" یعنی بڑی اولاد میں شفقت بردباری ایثاراور بڑی بہنوں میں اسکے ساتھ ساتھ ممتا پیدا کرتا. چھوٹوں میں بڑوں کو آئیڈیل بنانے کا اور اپنے بڑے بھائی بہنوں پر ناز کا جذبہ پیدا کرتا.جس سے تلخیاں کم ہوکر آپسی پیار و اخوت پیدا ہوجاتی ہے.
اب اس بات کو سوچئیے کہ کیا ماں کی ممتا، باپ کی شفقت، جو کہ اصل ماخذ ہے، جس کے پرتو سے بھائی بہینوں میں اخوت و محبت جاگتی ہے کیا وہ خود اتنی بودی ہے.کہ اپنی اولاد اور بہو کے لئیے کام نہ کرے؟؟؟
آپ نے اپنا تجربہ بیان کیا، میں اپنا کرتا ہوں، اور میرا تجربہ انفرادی نہیں اجتماعی سمجھ لیجیئے کیوں کہ بندہ ایسی مصالحاتی مجلسوں میں اپنے بڑوں کے زیر سایہ بہت شرکت رہتا ہے، جو گھریلو اختلافات کے حل کے لئیے منعقد کی جاتیں ہیں.
ان اختلافات کی بنیادی وجوہات میں سب سے پہلی وجہ جہالت ہے. لیکن جہالت سے آپ دنیاوی تعلیم کی کمی کو نہ لیں اصل جہالت ہے دینی علوم کی کم جانکاری اور اس بھی بڑھ کر جانکاری ہونا مگر عملی بے راہروی. انانیت.خود غرضی، چغلخوری، دنیا کی چمک دمک کو دامن میں سمیٹنے کا جذبہ یا ہوس، فضول خرچی، غلط راہنمائی، وغیرہ
میں مانتا ہوں ، والدین اولاد کے لیے سب سے خوبصورت اور مخلص رشتہ ہوتے ہیں لیکن والدین بھی تو انسان ہوتے ہیں.اور انسان خطا کا پتلا ہے... والدین کا احترام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اولاد ان کی زیادتیوں پر بھی اف نہ کرے لیکن اولاد بھی انسان ہوتی ہے ، اسے بھی اللہ تعالی نے عقل اور سمجھ عطا کی ہوتی ہے، اور اسی عقل کے مطابق اس درست اورغلط‌ کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے. عقل عمر کی محتاج نہیں ہوتی. اب یہ کہاں لکھا ہے کہ ایک بوڑھا انسان ہر صورت میں ایک نوجوان سے زیادہ عقل مند ہوتا ہے. تو عقل یہ کہتی ہے اگر والدین غلطی پر ہوں تو انہیں سمجھایا جائے.
جیسے ایک واقعہ جو ہم سب نے سنا ہی ہو گا، کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی کے دور میں ایک لڑکی اپنی ماں‌کے بار بار کہنے پر دودھ میں پانی نہیں ملاتی. کہ اللہ دیکھ رہا ہے .وہ فیصلہ اس لڑکی نے عقل کی بنیاد پر ہی کیا.

اسی طرح اکثر موقعوں پر والدین اپنے سخت رویے یا مقابلہ بازی سے اپنے اور اولاد کے درمیان دوریاں پیدا کر لیتے ہیں. شادی کے بعد بیٹے کو اپنی بیوی کے کچھ حقوق بھی پورے کرنے ہوتے ہیں کیوں کہ وہی آگے چل کر مستقبل کے ماں باپ ہوں گے . اس لیے یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ بیٹا ماںباپ کے حقوق تو پورے کرے لیکن اپنا کنبہ ، جس کی بنیادی کڑیاں میاں اور بیوی ہیں ، جو مستقبل کی ایک مکمل فیملی ہے اسے صحیح طریقے سے نہ چلائے. تو جہاں ماں باپ زیادتی کر رہے ہوں وہاں انہیں بتانا بھی ضروری ہے اور اگر وہ نہ سمجھیں تو بغیر بدتمیزی کیے اپنے آپ کو اس نظام سے دور کر لینا چاہیے. آپ کے بعد میں بچے ہونے ہیں کیوں ان کا بچپن تلخیوں کی نظر کریں فضول میں.
اور آپ نے جو پہلی بات کہی کہ سب کہ یہ حالات نہیں ہوتے، بالکل درست، معاشرے میں ہر فرد کے حالات دوسرے سے مختلف ہیں.

میں تمام ماں باپ کے رویوں پر یہ تحریر نہیں‌لکھ رہا، بلکہ صرف انہی کے لیے جو اپنے بچوں کو بدلتی ہوئی عمر کے لحاظ سے سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں.

آخر میں آپکا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ایک متوازن اور مثبت تبصرہ کیا.
یاسر عمران مرزا
مشاق
مشاق
Posts: 1625
Joined: Wed Mar 18, 2009 3:29 pm
جنس:: مرد
Location: جدہ سعودی عرب
Contact:

Re: انسانی زندگی کے مختلف ادور اور والدین کے نامناسب رویے

Post by یاسر عمران مرزا »

اس تحریر کو ایک بار پھر سامنے لا رہا ہوں. مزید کوئی صاحب اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرنا چاہیں تو خوش آمدید. :)
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: انسانی زندگی کے مختلف ادور اور والدین کے نامناسب رویے

Post by بلال احمد »

محترم یاسر بھائی آپکی تحریر ابھی نظر سے گزری ہے. پڑھی بھی تو بہت عمدہ لگی.

میں زیادہ علم والا بلکل نہ ہوں (یہ حقیقت ہے نہ کہ بڑاپن) کچھ اپنے خیالات ہیں جو کہ انشاءاللہ لکھوں‌گا.


ایک مرتبہ پھر شیئرنگ کیلئے شکریہ ;fl;ow;er;
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
یاسر عمران مرزا
مشاق
مشاق
Posts: 1625
Joined: Wed Mar 18, 2009 3:29 pm
جنس:: مرد
Location: جدہ سعودی عرب
Contact:

Re: انسانی زندگی کے مختلف ادور اور والدین کے نامناسب رویے

Post by یاسر عمران مرزا »

بلال احمد wrote:محترم یاسر بھائی آپکی تحریر ابھی نظر سے گزری ہے. پڑھی بھی تو بہت عمدہ لگی.

میں زیادہ علم والا بلکل نہ ہوں (یہ حقیقت ہے نہ کہ بڑاپن) کچھ اپنے خیالات ہیں جو کہ انشاءاللہ لکھوں‌گا.


ایک مرتبہ پھر شیئرنگ کیلئے شکریہ ;fl;ow;er;
بلال بھائی . پسند کرنے کا شکریہ . امید ہے آپ جلد اپنے خیالات شئر کریں گے.
Post Reply

Return to “باتیں ملاقاتیں”