داستان خواجہ بخارا کی

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
Post Reply
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

داستان خواجہ بخارا کی

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]

داستان خواجہ بخارا کی


مترجم: ممتاز مفتی


[/center]
Last edited by سیدتفسیراحمد on Sun Sep 14, 2008 6:57 am, edited 6 times in total.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
ہمیں یہ کہانی ابو عمر احمد ابن محمد سے ملی جس کو اس نے محمد ابن علی ابن رفع سے سنا تھا جو علی ابن عبدالعزیز کا حوالہ دیتا ہے جو ابوعبید القاسم ابن سلام کا حوالہ دیتا ہے جس نے اس کو اپنے استادوں کی زبانی سن کر بیان کیا تھا جن میں سے آخری استاد عمر ابن الخطاب اور ان کے بیٹے عبداللہ رحمۃ اللہ علیھ کو سند کے طور پر پیش کرتا ہے

ابن حزم "قمری ہار"


میں اس کتاب کو اپنے دوست مومن عادلوف کی پاکیزہ اور لافانی یاد سے موسوم کرتا ہوں جو ۱۸ اپریل۱۹۳۰ کو ایک دشمن کی مہلک گولی کا شکار ہوئے۔

ان میں خواجہ نصر الدین کی بہت سی خصوصیات تھیں۔ عوام کے لئے بےلوث ایثار، ہمت، شریفانہ فراست اور ایماندارانہ زکاوت۔ میں نے یہ کتب لکھتے وقت رات کے سناٹے میں کئی بار ایسا محسوس کیا کہ جیسے عادلوف کا سایہ میرے پاس کھڑا ہے اور میرے قلم کی رہنمائی کر رہا ہے۔ پہاڑی قشلاق (گاؤں) نانائی میں ان کا انتقال ہوا اور کانی بادم میں وہ آرام کر رہے ہیں۔ تھوڑے ہی دن ہوئے میں ان کی قبر پر گیا تھا۔ بہار کی گھاس اور پھولوں سے ڈھکی ہوئی قبر کے چاروں طرف بچے کھیل رہے تھے اور وہ ابدی نیند سو رہے تھے۔ وہ میرے دل کی پکار نہیں سن رہے تھے۔۔۔


[hr]
کہتے ہیں کہ ایک بیوقوف اپنے گدھے کی باگ ڈور سنبھالے چلا جا رہا تھا۔ گدھا اس کے پیچھے چل رہا تھا۔

(شہرزاد کی ۳۸۸ویں رات) [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

  • باب اول
    [hr]

    خواجہ نصر الدین کی ۳۵ ویں سالگرہ سڑک ہی پر ہوئی۔

    دس سال سے زیادہ انہوں نے جلاوطنی میں گزارے تھے، شہر شہر، ملک ملک کی سرگردانی کرتے، سمندروں اور ریگستانوں کو پار کرتے۔ جہاں رات آجاتی سوجاتے۔ ننگی زمین پر کسی گڈرئے کے چھوٹے سے الاؤ کے پاس کسی کھچاکھچ بھری ہوئی سرائے میں، جہاں تمام رات گرد آلود دھندلکے میں اونٹ لمبی لمبی سانسیں لیتے، اپنے کو کھجلاتے اور گھنٹیاں بج اٹھتیں یا کسی دھوئیں اور کالک سے بھرے چائے خانے میں ادھر ادھر لیٹے ہوئے سقوں، بھک منگوں، ساربانوں اور اسی طرح کے غریب لوگوں کے پاس جو پو پھٹتے ہی شہر کے بازاروں اور تنگ سڑکوں کو اپنی پرشور ہانک پکار سے بھر دیتے ہیں۔

    بہت سی راتیں انھوں نے کسی امیر ایرانی عہدے دار کے حرم میں نرم ریشمی گدوں پر داد عیش دے کر بھی گذاری تھیں جبکہ گھر کا مالک اپنے برقندازوں کو ساتھ لے کر سارے چائے خانوں اور کارواں سرایوں میں ملحد اور آوارہ گرد خواجہ نصر الدین کی تلاش میں سرگرداں ہوتا تھا تاکہ اس کو پکڑ کر نوکیلے تیز چوبی ستون پر بٹھا سکے۔۔۔ کھڑکی کی جھلملی سے آسمان کی تنگ پٹی دکھائی دیتی، ستارے مرجھا جاتے، نرم اور نم باد صبا صبح کی آمد آمد کا اعلان کرتی ہوئی پتیوں میں سرسراتی اور کھڑکی کی کگر پر قمریاں خوشی سے کوکو کرکے چونچوں سے پر صاف کرتیں۔ خواجہ نصرالدین تھکی ہوئی حسینہ کو بوسہ دے کر کہتے:

    "میرے در بےبہا، الوداع۔ اب جانے کا وقت آ گیا۔ مجھے فراموش نہ کر دینا۔"

    [hr]
    حسینہ اپنے سڈول بازوؤں کو ان کی گردن میں حمائل کرکے التجا کرتی:

    "ٹھہرو! کیا تم ہمیشہ کے لئے جدا ہو رہے ہو؟ لیکن کیوں؟ اچھا سنو، آج رات کو میں اندھیرا پھیلتے ہی بڑھیا کو تمھیں لانے کے لئے پھر بھیجونگی۔"

    "نہیں، میں مدتوں ہوئے یہ بات بھول چکا ہوں کہ ایک چھت کے نیچے دو راتیں کیسے گذاری جاتی ہیں۔ مجھے جانا ہی ہے۔ بڑی عجلت ہے۔"

    "جانا کہاں ہے؟ کیا کسی دوسرے شہر میں تم کو ضروری کام ہے؟ تم کہاں جا رہے ہو؟"

    "میں نہیں جانتا۔ لیکن روشنی کافی پھیل چکی ہے۔ شہر کے پھاٹک کھل چکے ہیں اور پہلے کارواں باہر نکل رہے ہیں۔ سن رہی ہو نا، اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز؟ جب میں یہ آواز سنتا ہوں تو جیسے کوئی جن میرے پیروں میں سنیچر پیدا کر دیتا ہے اور میں نچلا نہیں بیٹھ سکتا۔"

    "اگر ایسا ہے تو جاؤ" ملول ہو کر حسینہ کہتی ہے، وہ اپنی لمبی لمبی پلکوں پر آنسوؤں کو چھپا نہیں پاتی " لیکن جانے سے پہلے کم از کم اپنا نام تو بتاتے جاؤں۔"

    [hr]
    "میرا نام؟ اچھا تو سنو، تم نے یہ رات خواجہ نصرالدین کے ساتھ بتائی ہے۔ میں خواجہ نصرالدین ہوں، بےچینی پھیلانے اور نفاق کے بیج بونے والا، ایسی ہستی جس کے سر پر بڑا انعام ہے۔ ہر روز نقیب عام جگہوں اور بازاروں میں میرے بارے میں اعلان کرتے پھرتے ہیں۔ کل وہ تین ہزار تومان دے رہے تھے اور مجھے لالچ لگا کہ میں اس قیمت پر خود اپنا سر بیچ دوں۔ تم ہنس رہی ہو، میری پیاری۔ اچھا مجھے آخری بار اپنے ہونٹ چومنے دو۔ اگر میں تم کو تحفہ دے سکتا تو زمرد دیتا لیکن زمرد تو میرے پاس نہیں ہے۔ لو یہ ایک حقیر سا سفید پتھر بطور نشانی ہے!"

    وہ اپنی پھٹی ہوئی قبا پہنتےھیں جو الاؤں کی چنگاریوں سے جا بجا جلی ہوئی ہے اور چپکے سے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ دروازے پر کاھل اور بیوقوف خواجہ سرا پگڑی باندھے اور اوپر اٹھی ہوئی خمدار نوکوں والی جوتیاں پہنے، پڑا خراٹے لے رہا ہے۔ وہ محل کے سب سے بیش بہا خزانے کا لاپروا نگہبان ہے۔ آگے چل کر بھی قالینوں اور نمدوں پر پہرے دار خراٹے بھر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے ننگے خنجروں کے تکئے بنا رکہے ہیں۔ خواجہ نصرالدین پنجوں کے بل رینگتے اس طرح صاف بچ نکلتے ہیں جیسے ذرا دیر کے لئے وہ کوئی نظر نہ آنے والا چھلاوہ بن گئے ہیں۔

    اور پھر ایک بار سفید پتھریلی سڑک ان کے گدھے کے تیز رفتار سموں کے نیچے گونجتی اور چنگاریاں دیتی ہے۔ نیلے آسمان سے سورج دنیا کو منور کر رہا ہے۔ خواجہ نصرالدین اس سے آنکھ ملا سکتے ہیں۔ شبنم آلود کھیتوں، ویران ریگستانوں میں جہاں ریت کے تودوں کے درمیان اونٹوں کی سفید ہڈیاں چمکتی ہیں، ہرے بھرے باغون اور جھاگ دار دریاؤں، بے برگ و بے گیاہ پہاڑیوں اور مسکراتے ہوئے سبزہ زاروں میں خواجہ نصرالدین کے نغمے گونجتے ہیں۔ وہ پیچھے ایک نظر ڈالے بغیر، جو کچھ پیچھے چھٹ گیا ہے اسپر افسوس کئے بغیر اور پیش آنے والے خطرے سے ڈرے بغیر آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

    [hr]
    لیکن جو شہر انھوں نے ابھی ابھی چھوڑا ہے اس میں ان کی یاد ہمیشہ تازہ رہتی ہے۔ ملا اور عمائدین کے چہرے ان کا نام سنتے ہی غصے سے سرخ ہو جاتے ہیں۔ سقے، ساربان، جولاھے، ٹھٹھیرے اور گھوڑوں کی کاٹھیاں بنانے والے راتوں کو چائے خانوں میں جمع ہو کر خواجہ نصرالدین کے بارے میں ایسی کہانیوں سے ایک دوسرے کا دل بہلاتے ہیں جن میں ہمیشہ خواجہ کی جیت ہوتی ہے۔ حرم کی افسردہ حسینہ سفید پتھر کو غور سے دیکھتی رہتی ہے اور اپنے مالک کی آواز سنتے ہی اس کو ایک سیپ کے صندوقچے میں چھپا دیتی ہے۔

    "اف" ہانپتا اور غراتا ہوا موٹا عہدے دار اپنی زربفت کی قبا اتارنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتا ہے "اس کمبخت بدمعاش خواجہ نصرالدین نے تو ہم سب کو عاجز کر دیا ہے۔ اس نے سارے ملک میں ہنگامہ اور تہلکہ مچا رکھا ہے۔ آج ہی مجھے اپنے پرانے دوست صوبہ خراساں کے لائق گورنر کا خط ملا ہے۔ سوچو تو ذرا، اس بدذات خواجہ نصرالدین نے ان کے شہر میں مشکل سے قدم رکھا ہی ہوگا کہ آھنگروں نے یکدم محاصل دینا بند کرئے، سرائے والوں نے پہرے داروں کو مفت کھلانے سے انکار کر دیا۔ اور سب سے بڑھکر تو یہ کہ اسلام کو ناپاک کرنے والے، اس چور، ولدالزنا نے یہ جرآت کی کہ گورنر کے حرم میں داخل ہو کر ان کی محبوب بیوی کو ورغلایا۔ سچ مچ دنیا میں ایسا شریر آدمی کبھی نہیں ہوا تھا! افسوس کہ ناھنجار نے میرے حرم کا رخ نہیں کیا ورنہ اس کا سر اس وقت بڑے چوک پر کسی بانس سے لٹکتا ہوتا۔"

    حسینہ پراسرار انداز سے مسکراتی ہے اور خاموش رہتی ہے۔

    [hr]
    اس دوران میں خواجہ نصرالدین کے گدھے کے تیز رفتار سموں سے سڑک گونجتی اور چنگاریاں دیتی ہے اور خواجہ کے نغموں کی آواز اس میں گھل مل جاتی ہے۔

    اس دس سال میں نہ جانے کہاں کہاں سرگردان رہے۔ بغداد، استنبول، طہران، بخشی سرائے، اچمی ادزین، طفلس، دمشق اور تریپیزوند۔ وہ ان شہروں سے بخوبی واقف ہو چکے تھے اور ان کے علاوہ بھی بہت سے دوسرے شہروں کو جانتے تھے اور ہر جگہ اپنی ناقابل فراموش یادگارین چھوڑی تھیں۔

    اب وہ اپنے شہر، بخارا شریف واپس جا رہے تھے۔ ان کو امید تھی کہ وہ اپنی لامحدود آوارہ گردی ترک کرکے کسی دوسرے نام سے سکھ چین سے وہاں رہ سکیں گے۔

    اختتام ۔ باب اول
[center]Image اور اردونامہ کی پیشکش
[/center]
Last edited by سیدتفسیراحمد on Fri Aug 01, 2008 11:18 am, edited 3 times in total.
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

بہت خوب تفسیر بھائی ، جاری رکھیئے۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

بہت خوب تفسیر بھائی۔ ہم لوگ دوسرے باب کا انتظار کریں گے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

  • باب نمبر2
    [hr]
    انھوں نےسوداگروں کے ایک بڑے کارواں کےساتھ جس میں وہ شامل ہوگئے تھے بخارا کی سرحد میں قدم رکھا اور سفر کے آٹھویں دن بہت دور سامنے دھندلکے میں اس بڑے اور مشہور شہر کےجانے پہچانےمینار دیکھے۔

    پیاس اور گرمی سے پریشان ساربانوں نے ایک زور دار نعرہ بلند کیا اور اونٹوں نے اپنی رفتار تیز کر دی۔ سورج غروب ہو رہا تھا اور جلدی کی ضرورت تھی تاکہ پھاٹک بند ہونے سے پہلے بخارا میں داخل ہوا جاسکے۔ خواجہ نصرالدین کارواں میں سب سے پیچھے، گرد کے گھنے اور بھاری بادل میں لپٹے چل رہے تھے۔ یہ تو ان کی اپنی پاک گرد تھی جس کی مہک دوسرے دور دراز ملکوں کی گرد سے کہیں اچھی تھی۔ چھینکتے کھانستے ہوئے وہ اپنے گدھے سے برابر کہہ رہے تھے:

    "دیکھ، ہم آخر کار گھر پہنچ گئے نا! خدا کی قسم یہاں کامیابیاں اور مسرتیں ہماری منتظر ہیں۔"

    کارواں ٹھیک اس وقت شہر کی فصیل کے قریب پہنچا جب پہرے دار پھاٹک بند کر رہے تھے۔ "خدا کے لئے ٹھہریے!" ۔ کارواں کا سردار ایک طلائی سکہ دکھا کر دور ہی سے چلایا۔ لیکن پھاٹک بند ہوچکے تھے، زنجیریں جھنکار کے ساتھ چڑھا دی گئیں اور میناروں پر نگہبانوں نے توپوں کے مورچے سنبھال لئے۔ تازہ ہوا کے جھونکے آنے لگے، دھندلکے آسمان میں گلابی شفق مرجھا گئی، باریک ہلال بہت صاف ابھر آیا اور شام کی خاموشی میں بےشمار میناروں سے مؤذنوں کی تیز اور پرسوز آوازیں مومنوں کو مغرب کی نماز کی دعوت دینے لگیں۔

    سوداگر اور ساربان نماز کے لئے جھک گئے اور خواجہ نصرالدین چپکے سے اپنے گدھے کو لیکر ایک کنارے چلے گئے۔

    " یہ سوداگر تو بجا طور پر خدا کے شکرگزار ہیں" انھوں نے کہا "انھوں نے آج دن میں ڈٹ کر کھانا کھایا ہے اور رات کو بھی کھائیں گے لیکن میں نے اور تو نے، میرے وفادار گدھے، نہ تو دن کو کھانا کھایا ہے اور نہ رات ہی کو کھائیں گے۔ اگر اللہ ہمارے شکرئے کا خواھاں ہے تو وہ مجھ کو ایک قاب پلاؤ اور تجھ کو ایک گھٹا گھاس بھیج دے".

    [hr]
    انھوں نے سڑک کے کنارے ایک درخت سے گدھے کو باندھ دیا اور خود بھی اس کے برابر ننگی زمین پر پتھر کا تکیہ بنا کر لیٹ گئے۔ آسمان کی اندھیری وسعتوں میں جھانکے ہوئے انھوں نے ستاروں کا جھلملاتا ہوا جال دیکھا۔ وہ ستاروں کے ہر جھرمٹ سے بخوبی واقف تھے۔ ان دس برسوں میں انھوں نے نہ جانے کتنی بار کھلے آسمان کو دیکھا تھا! ان کو ہمیشہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے خاموش غور و فکر کے ان دانش مندانہ خیالات نے ان کو امیروں سے بھی زیادہ امیر بنا دیا ہے۔ چاہے امیر آدمی سونے کے ظروف میں ہی کھانا کیوں نہ کھاتاھو پھر بھی وہ لازمی طور پر رات چھت کے نیچے گذارتا ہے۔ اس لئے وہ نصف شب کے سناٹے میں خنک، نیلگوں، ستاروں سے بھرے ہوئےدھندلکے کے درمیان زمین کی پرواز سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔

    اس دوران میں شہر کی دندانے دار فصیل کے باہر کارواں سرایوں اور چائے خانوں میں بڑے برے کڑاھوں کے نیچے آگ روشن ہو چکی تھی اور بھیڑیں جو ذبح ہونے کے لئے کھینچی جا رہی تھیں بے حد غم آلود آواز میں ممیا رہی تھیں۔ تجربے کار خواجہ نصرالدین نے پہلے ہی سے سوچکر اپنے رات کے آرام کا انتظام ایسی جگہ کیا تھا جو ہوا کے رخ کے خلاف تھی تاکہ کھانے کی اشتھا آمیز خوشبو ان کو نہ چھیڑ سکے۔ بخارا کے قوانین کو اچھی طرح جانتے ہوئے انہوں اپنی تھوڑی سی جمع پونجی بچالی تھی تاکہ کل وہ شہر کے پھاٹک پر محصول ادا کر سکیں۔
    کافی دیر تک وہ کروٹیں بدلتے تھے لیکن ان کو نیند نہ آئی۔ اس بے خوابی کا سبب بھوک نہ تھی بلکہ تلخ خیالات تھے جو ان کو بےچین اور پریشان کر رہے تھے۔

    ان کو اپنے وطن سے محبت تھی۔ وہ اس کو سب سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ یہ سانولے تپے ہوئے چہرے پر سیاہ داڑھی رکھنے والاچالاک اور زندہ دل انسان جس کی صاف آنکھوں سے شرارت کی جھلک تھی، اپنی پھٹی پرانی قبا، داغ دھبوں سے بھری ٹوپی اور خستہ حال جوتے پہنے بخارا سے جتنا ہی زیادہ دور آوارہ گردی کرتا رہا اتنا ہی زیادہ وطن سے اس کا پیار بڑھتا چلا گیا اور وطن اس کو یاد آتا گیا۔ جلا وطنی کے زمانے میں اس کو ان تنگ سڑکوں کی یاد آتی جہاں دونوں طرف کی کچی دیواروں سے رگڑ کھائے بغیر ارابے نہیں گزر سکتے تھے، ان بلند میناروں کی جن کی روغن کی ہوئی اینٹوں کی ڈیزائن دار چوٹیاں طلوع و غروب آفتاب کے وقت عکس سے شعلہ ور ہو جاتی تھیں اور ان قدیم اور متبرک چنار کے درختوں کی جن کی شاخوں میں سارسوں کے بڑے بڑے کالے گھونسلے جھولتے تھے۔ اس کو حور کے سرسراتے ہوئے درختوں کے سائے میں نہروں کے کنارے چہل پہل والے چائے خانوے، بہت زیادہ گرم باورچی خانوں میں دھوئیں اور کھانے کی خوشبو اور بازاروں کی رنگین گہما گہمی یاد آتی۔ اس کو اپنے وطن کی پہاڑیاں اور جھرنے، گاؤں، کھیت، چراگاھیں، ریگستان ایک ایک یاد آتئے اور بغداد یا دمشق میں جب وہ اپنے کسی ہم وطن کو دیکھتا تو وہ اس کی ٹوپی یا لباس کی وضع قطع سے پہچان لیتا اور ایک لمحہ کے لئے خواجہ نصرالدین کے دل کی دھڑکن اور سانس کی آمد رفت رک جاتی۔

    [hr]
    واپسی پر خواجہ نے اپنے ملک کو اس سے زیادہ بدحال پایا جیسا کہ چھوڑا تھا۔ بڈھّے امیر کا زمانہ ہوئے انتقال ہو چکا تھا۔ پچھلے آٹھ سالوں میں نئے امیر نے بخارا کو تقریبا تباہ کر دیا تھا۔ خواجہ نصرالدین نے ٹوٹے پھوٹے پل، سورج سے جھلسی، بری طرح سے بوئی ہوئی گیہوں اور جو کی کمزور فصلیں اور آبپاشی کی خشک نالیاں دیکھیں جو گرمی سی سوکھ کر چٹخ گئی تھیں۔ کھیتوں میں جھاڑ جھنکار اگے تھے اور ویران تھے، پانی کی کمیابی سے باغات خشک پڑے تھے، کسانوں کے پاس نہ تو اناج تھا اور نہ مویشی، سڑکوں پر فقیروں کی قطاریں ان لوگوں سے بھیک مانگتی نظر آتی تھیں جو خود انہی کی طرح محتاج تھے۔
    نئے امیر نے ہر گاؤں میں سپاھیوں کا ایک ایک دستہ تعینات کر دیا تھا اور حکم دیا تھا کہ اس کے مفت کھانے پینے کی ذمہ داری گاؤں والوں پر ہے۔ اس نے بہت سی مسجدوں کی بنیاد ڈلوا دی اور پھر حکم دیا کہ عام لوگ ان کو تکمیل تک پہنچائیں۔ نیا امیر بہت زاھدو پاکباز تھا اور سال میں دو بار انتھائی مقدس اور پاکیزہ بزرگ شیخ بہاالدین کے مزار کی زیارت میں ناغہ نہیں کرتا تھا جو بخارا کے قریب ہی تھا۔ چار رائچ ٹیکسوں میں اس نے تین اور محصولوں کا اضافہ کیا تھا۔ اس نے ہر پل پر چنگی ناکہ بنوا دیا تھا، تجارتی اور قانونی کاروائیوں کے لئے ٹیکس پر اضافہ کر دیا تھا اور گھٹیا سکے بنوائے تھے۔۔۔ حرفتیں تباہ ہو رہی تھیں اور تجارت پر زوال آیا ہوا تھا۔ خواجہ نصرالدین کے لئے اپنے پیار وطن کو واپسی خوش کن نہ تھی
    ۔
    صبح سویرے مؤذنوں کی اذان پھر تمام میناروں سے گونجی۔ پھاٹک کھل گئے اور کارواں گھنٹیوں کی گونج میں آھستہ آھستہ شہر میں داخل ہوا۔

    [hr]
    پھاٹک سے گذر کر کارواں ٹھہر گیا۔ سڑک کو پہرے داروں نے روک رکھا تھا۔ وہ بڑی تعدادمیں تھے۔ کچھ تو اچھے کپڑے اور جوتے پہنے تھے اور کچھ جن کو ابھی تک امیر کی ملازمت میں موٹے ہونے کا موقع نہیں ملا تھا ننگے پیر اور نیم عریاں تھے۔ وہ شور مچا کر ایک دوسرے کو ڈھکیل رہے تھے اور لوٹ مار کی تقسیم کے لئے پہلے سے جھگڑنے لگے تھے۔ آخرکار ٹیکس کلکٹر صاحب ایک چائے خانے سے برآمد ہوئے، لحیم شحیم، چہرے پر نیند کے آثار، ریشمی قبا پہنے جس کی آستیوں پر چکنئی کے داغ تھے، ننگے پیر سلیپروں میں ڈال لئے تھے۔ پھولا ہوا چہرہ بداعتدالیوں اور بدکاریوں کی چغلی کھا رہا تھا۔ اس نے سوداگروں پر للچائی ہوئی نگہ ڈالی اور بولا:
    "خوش آمدید، سوداگرو! اللہ آپ کو کاروبار میں کامیاب کرے! یہ جان لیجئے کہ امیر کا حکم ہے کہ اگر کوئی بھی اپنے سامان کی چھوٹی سی چیز بھی چھپائے گا تو اس کو ڈنڈوں سے مار مار کر ہلاک کر دیا جائے گا۔"

    حیران و پریشان سوداگروں نے خاموشی سے اپنی خضاب لگی ہوئی داڑھیوں کو سہلایا۔ ٹیکس کلکٹر پہرے دواروں کی طرف مڑا جو بے چین ہو رہے تھے اور اپنی موٹی انگلیوں سے اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی پہرے دار ہانکتے پکارتے اونٹوں پر ٹوٹ پڑے۔ بھیڑ بھاڑ اور عجلت میں ایک دوسرے سے دھکم دھکا کرکے انھوں نے اپنی تلواروں سے بالوں کے رسے کاٹ دئے اور شور مچاتے ہوئے گانٹھوں کو کاٹ کر کھول دیا۔ سڑک پر زربفت، ریشم اور مخمل کے کپڑے، مرچ، چا، عنبر کے باکس، گلاب کے قیمتی عطر کے کنٹر اور تبت کی دوائیں پھیل گئیں
    ۔
    خوف نے سوداگروں کی زبان میں قفل لگا دیا تھا۔ دو منٹ میں معائنہ ختم ہو گیا۔ پہرے دار اپنے افسر کے پیچھے صف آرا ہو گئے، ان کی قبائیں پھولی ہوئی تھیں۔ اب سامان اور شہر کے اندر داخل ہونے کی اجازت کے لئے ٹیکس وصول کیا جانے لگا۔ خواجہ نصرالدین کے پاس کوئی تجارتی سامان نہ تھا اور ان کو صرف داخلے کا ٹیکس ادا کرنا تھا۔

    "تم کہاں سے آرہے ہو اور کس کام سے؟" ٹیکس کلکٹر نے دریافت کیا۔

    محرر نے کلک کا قلم دوات میں ڈبویا اور خواجہ نصرالدین کا بیان رجسٹر میں قلم بند کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔

    [hr]
    "حضور عالی، میں ایران سے آرہا ہوں۔ یہاں بخارا میں میرے کچھ عزیز رھتے ہیں۔"

    "اچھا" ٹیکس کلکٹر بولا۔ "تو تم اپنے عزیزوں سے ملنے آئے ہو۔ اس صورت میں تمھیں ملاقاتی کا محصول ادا کرنا ہوگا"۔
    "لیکن میں ان سے ملاقات کرنے تھوڑی ہی آیا ہوں" خواجہ نصرالدین نے جلدی سے جواب دیا۔ " میں ضروری کام سے آیا ہوں۔"

    "کام سے!" ٹیکس کلکٹر نے زور سے کہا اور اس کی آنکھیں جل اٹھیں۔ "تب تو تم ملاقات اور کام دونوں کے لئے آئے ہو۔ ملاقاتی کا ٹیکس ادا کرو، کام کا ٹیکس ادا کرو اور اس خدا کی راہ میں مسجدوں کی آرائش کے لئے عطیہ دو جس نے تم کو راستے میں رھزنوں سے محفوظ رکھا۔"

    "اچھا تو یہ ہوتا کہ وہ اب مجھے محفوظ رکھتا کیونکہ رھزنوں سے بچنے کی تدبیر تو میں خود کر سکتا تھا" خواجہ نصرالدین نے سوچا لیکن اپنی زبان کو روکے رہے کیونکہ انھوں نے حساب لگایا کہ اس بات چیت کا ہر حرف ان کو دس تنگے سے زیادہ کا پڑ رہا ہے۔ انھوں نے اپنی پیٹی کھولی اور پہرے داروں کی گھورتی ہوئی حریصانہ آنکھوں کے سامنے شہر میں داخلے کا ٹیکس، مہمان ٹیکس، کاروباری ٹیکس اور مسجدوں کی آرائش کے لئے عطیہ کی رقم گنی۔ ٹیکس کلکٹر نے گھور کر پہرے داروں کو دیکھا جو ہٹ گئے۔ محرر اپنی ناک رجسٹر میں گھسیڑے کلک کے قلم سے لکھتا رہا۔

    تمام محاصل ادا کرنے کے بعد خواجہ نصرالدین روانہ ہی ہونے والے تھے کہ ٹیکس کلکٹر نے دیکھا لیا کہ کچھ سکے ان کی پیٹی میں باقی رہ گئے ہیں۔

    "ٹھہرو!" اس نے حکم دیا " اور تمھارے گدھے کا ٹیکس کون ادا کریگا؟ اگر تم اپنے عزیزوں سے ملنے جا رہے ہو تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ گدھا بھی اپنے عزیزون سے ملنے جا رہا ہے۔"

    "دانا افسر، آپ بجا فرماتے ہیں" خواجہ نصرالدین نے اپنی پیٹی پھر سے کھولتے ہوئے بڑی خاکساری سے کہا " واقعی، بخارا میں میرے گدھے کے عزیزوں کی بڑی اکثریت ہے ورنہ جیسا انتظام یہاں ہے اس سے تو آپ کے امیر کو کب کا تخت سے اتار دیا گیا ہوتا اور آپ، حضور، اپنے حرص کی وجہ سے بہت دن پہلے ہی چوبی ستون پر نظر آتے۔"

    [hr]
    قبل اس کے کہ ٹیکس کلکٹر حواس مجتمع کر سکے خواجہ نصرالدین اچک کر اپنے گدھے پر آئے اور اس کو سرپٹ بھگاتے ہوئے قریب ترین گلی میں رفوچکرہو گئے۔

    "اور تیز، اور تیز" وہ برابر گدھے سے کہتے جارہے تھے "اور تیز، میرے وفادار گدھے، اور تیز ورنہ تیرے مالک کو ٹیکس میں اپنا سر دینا پڑجائےگا۔"

    خواجہ نصرالدین کا گدھا بڑا سمجھدار تھا۔ وہ ہر بات سمجھتا تھا۔ اس کے لمبے کانوں نے شہر کے پھاٹک کا غل غپاڑہ اور پہرے داروں کی ہانک پکار سن لی تھی اس لئے وہ سڑک سے بےنیاز بھاگتا رہا اور اتنی تیز رفتاری سے کہ اس کا مالک کاٹھی سے چمٹا ہوا تھا، اس کے بازو گدھے کی گردن میں حمائل تھے اور اس کے پیر اوپر کھنچے ہوئے تھے۔ زور زور بھونکتے ہوئے کتے ان کے پیچھے دوڑتے، مرغیاں چاروں طرف بکھر جاتیں اور راھی دیواروں سے چپک کر کھڑے ہوجاتے، اپنا سرھلاتے اور ان کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کردیکھتے۔

    اس دوران میں شہر کے پھاٹک پر پہرے داروں نے مجمع میں اس بے دھڑک آزاد خیال کی تلاش کر رہے تھے۔ سوداگر مسکرا رہے تھے اور ایک دوسرے سے چپکے چپکے کہہ رہے تھے:

    " یہ جواب تو بس خواجہ نصرالدین ہی دے سکتے تھے۔"

    دوپہر ہوتے ہوتے یہ قصہ سارے شہر میں پھیل گیا۔ بازار میں تاجر چپکے چپکے گاھکوں سے بیان کر نے لگے جو اس کو دوسروں تک پہنچاتے اور سب ہنستے اور ہمیشہ یہ کہتے:

    "یہ الفاظ تو خواجہ نصرالدین ہی کو زیب دیتے ہیں۔"

    کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ الفاظ خود خواجہ نصرالدین کے ہیں، کہ وھی مشہور و معروف لاثانی خواجہ نصرالدین اس وقت شہر میں بھوکا پیاسا، خالی جیب آوارہ گردی کر رہا ہے اور اپنے عزیزوں اور پرانے دوستوں کو تلاش کر رہا ہے جو اس کو کھلاتے پلاتے اور پناہ دیتے۔
    اختتام ۔ باب نمبر2
Last edited by سیدتفسیراحمد on Sun Sep 14, 2008 6:58 am, edited 1 time in total.
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

بہت خوب۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

  • باب نمبر3
    [hr]
    خواجہ نصرالدین کو بخارا میں نہ تو عزیز ملے اور نہ پرانے دوست ہی۔ ان کو اپنے باپ کا گھر تک نہ ملا جہاں وہ پیدا ہوئے تھے اور پل بڑھ کر جوان ہوئے تھے، نہ تو وہاں وہ سایہ دار باغ تھا جہاں خزاں کے صاف دنوں میں سنہری پتیاں ہوا میں سرسراتی تھیں اور پھل بھدابھد زمین پر گرتے تھے، جہاں چڑیاں چہچہاتی تھیں اور سورج کی کرنیں خوشبودار گھاس پر ناچتی تھیں، جہاں شہر کی مکھیاں مرجھاتے ہوئے پھولوں سے آخری خراج وصول کرتے ہوئے بھن بھناتی تھیں اور جہاں نہر گنگناتی ہوئی بہتی تھی اور لڑکے سے اپنی نہ ختم ہونے والی پراسرار کہانیاں کہتی رہتی تھی۔۔۔ اب یہ جگہ ویران تھی، کوڑے کرکٹ، خاردار جھاڑیوں سے بھری ہوئی، آگ سے جلی ہوئی اینٹوں، گرتی ہوئی دیواروں اور سڑتی ہوئی چنائی کے ٹکڑے پھیلے ہوئے تھے۔ خواجہ نصرالدین کو ایک چڑیا، ایک شہد کی مکھی تک نظر نہ آئی۔ صرف پتھروں کے ڈھیر کے نیچے سے جہاں انھوں نے ٹھوکر کھائی تھی اچانک ایک چکنی سی رسی برآمد ہوئی، سورج کی روشنی میں ہلکی سی چمکی اور پھر پتھروں کے نیچے غائب ہو گئی۔ یہ تھا سانپ، ایسی ویران جگہوں کا تنہا اور ڈراؤنا باسی جن کو ہمیشہ کے لئے انسان ترک کر دیتا ہے۔

    خواجہ نصرالدین بڑی دیر تک سر جھکائے کھڑے رہے۔ ان کے دل پر غم کے بادل چھا گئے ہتے۔

    سخت کھانسی کی آواز سے چونک کر وہ مڑے۔

    ایک بڈھا غربت و فکر سے جھکا ہوا اس ویرانے کے پار راستے پر چلا آتا تھا۔ خواجہ نصرالدین نے اس کو روکا:

    "بڑے میاں، رحمت ہو تم پر، خدا تم کو صحت و خوشحالی کا طویل زمانہ عطا کرے۔ مجھے بتاؤ کہ اس ویران جگہ پر کس کا مکان تھا؟"
    "یہ کاٹھی بنانے والے شیر محمد کا گھر تھا" بڈھّے نے جواب دیا "میں اس کو اچھی طرح جانتا تھا۔ یہ شیر محمد مشہور خواجہ نصرالدین کا باپ تھا جس کے بارے میں، اے مسافر، تو نے یقینا بہت کچھ سنا ہوگا۔"

    ھاں میں نے کچھ تو اس کے بارے میں سنا ہے ۔ لیکن یہ تو بتاؤ یہ کاٹھی بنانے والا شیر محمد جو مشہور خواجہ نصرالدین کا باپ تھا کہاں چلا گیا اور اس کا خاندان کہاں ہے؟

    اتنے زور سے نہیں ، میرے بیٹے ، بخارا میں لاکھوں جاسوس ہیں ۔ اگر انھوں نے کہیں ہماری بات سن لی تو بس مصیبتوں کا ٹھکانہ نہیں رہے گا ۔ شاید تم بہت دور سے آئے ہو اور نہیں جانتے کہ ہمارے شہر میں خواجہ نصرالدین کا نام لینا سخت منع ہے ۔ یہ بات آدمی کو جیل میں ڈالنے کے لئے کافی ہے ۔ ذرا قریب آ جاؤ ۔ میں تمھیں بتاؤں گا ۔

    اپنی پریشانی چھپاتے ہوئے خواجہ نصرالدین اس کے قریب جھک گئے ۔

    یہ بڈھّے امیر کے زمانے کی بات ہے ۔ بڈھّے نے کھانستے ہوئے شروع کیا۔ خواجہ نصرالدین کی جلاوطنی کو ڈیڑھ سال ہوئے تھے کہ بازار میں یہ افواہ پھیل گئی کہ وہ ناجائز طور پر چُھپ کر بخارا واپس آ گئے ہیں اور یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں اور امیر کے خلاف ہجویہ نظمیں لکھ رہے ہیں ۔ یہ افواہ امیر کے محل تک پہنچی اور پہرے داروں نے خواجہ نصرالدین کی تلاش شروع کر دی لیکن وہ نہیں ملے ۔ تب امیر نے حکم دیا کہ ان کے باپ ، دو بھائیوں ، چچا اور دور کے رشتے داروں اور دوستوں کو پکڑ لیا جائے ۔ ان کو اس وقت تک اذیت پہنچانا تھی جب تک وہ خواجہ نصرالدین کا پتہ نہ بتائیں ۔ الحمد لللہ ان کو اتنا ہمت و استقلال حاصل ہوا کہ انھوں نے اپنی زباں بند رکھی اور ہمارے خواجہ نصرالدین امیر کے ہاتھ نہ آئے ۔ لیکن ان کے باپ ، کاٹھی بنانے والے شیر محمد اذیتوں سے چُور ہو کر جلد ہی اس دُنیا سے چل بسے اور ان کے عزیزوں اور دوستوں نے امیر کے غیض و غضب سے بچنے کے لئے بخارا چھوڑ دیا اور پتہ نہیں کہ اب کہاں ہیں ۔ پھر امیر نے حکم دیا کہ ان کے گھر تباہ کر دئے جائیں اور ان کے باغ تہس نہس کر دئے جائیں تاکہ خواجہ نصرالدین کی یاد لوگوں کے ذھن سے یکسر محو ہو جائے ۔

    ” لیکن ان پر ظلم و ستم کیوں ڈھایا گیا؟ “خواجہ نصرالدین نے چیخ کر کہا ۔ ان کے رُخساروں پر آنسو بہہ چلے لیکن بڈھّے نے یہ آنسو نہیں دیکہے کیونکہ اس کی نگاہ کمزور تھی ۔ ” ان پر کیوں ظلم و ستم ڈھایا گیا؟ خواجہ نصرالدین تو اس وقت بخارا میں تھے ہی نہیں ۔ میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں! “

    چیک یہ جگہ خرابی

    یہ کہہ کر بُڈھا کراہتا اور کھانستا ہوا اپنے راستے پر ہو لیا ۔ خواجہ نصرالدین نے اپنا چہرہ ہاتھوں سے ڈھک لیا اور گدھے کے پاس چلے گئے۔

    انھوں نے گدھے کے گلے میں باھیں ڈال دیں اور اپنا بھیگا ہوا چہرہ اس کی گرم اور بساھندی گردن سے دبا دیا۔

    ” آہ ، میرے اچھے ، سچے دوست“خواجہ نصرالدین نے کہا” دیکھو اب میرا عزیز و قریب کوئی نہیں باقی رہ گیا ۔ صرف تُو اس آوارہ گردی میں میرا مستقل اور وفا دار ساتھی ہے۔“

    جیسے گدھے نے اپنے مالک کے رنج و غم کو سمجھ لیا ہو ، وہ خاموش کھڑا ہو گیا ۔ بلکہ ایک تنکے کو جو اس کے ہونٹوں سے لٹک رہا تھا چبانا بند کر دیا ۔

    بہر حال ایک گھنٹے بعد خواجہ نصرالدین اپنے غم پر قابو پاچکے تھے اور آنسو چہرے پر خُشک ہو گئے تھے۔

    ” کوئی پرواہ نہیں!“ انھوں نے گدھے کی پیٹھ کو تھپ تھپاتے ہوئے کہا۔ ” کوئی پرواہ نہیں ! مجھے بخارا میں ابھی تک فراموش نہیں کیا گیا ہے۔ لوگ مجھ کو ابھی تک جانتے اور یاد کرتے ہیں۔ ہم کچھ دوست پا ہی لینگے۔ اور امیر کے بارے میں ایسی نظمیں لکھیں گے کہ وہ اپنے تخت پر غصے سے پُھول کر پھٹ ہی جائیگا اور اس کی گندی آنتیں محل کی آراستہ دیواروں کو داغدار بنا دیں گی۔ آ ! میرے وفادار گدھے ، آگے بڑھ !“

    اختتام ۔ باب نمبر3
Last edited by سیدتفسیراحمد on Sun Sep 14, 2008 6:59 am, edited 1 time in total.
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

لا جواب۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
باب چار

[hr]
سہ پہر کا سناٹے کا وقت تھا اور بڑی امس تھی ۔ گرد آلود سڑک ، پتھروں ، کچی دیواروں اور باڑوں سے امس پیدا کرنے والی گرمی نکل رہی تھی اور خواجہ نصرالدین کے چہرے کا پسینہ پونچھنے سے پہلے ہی خُشک ہو جاتا تھا۔

وہ جانی پہچانی سڑکوں ، چائے خانوں اور میناروں کو دیکھ کر متاثر ہو رہے تھے ۔ دس سال کے اندر بخارا میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی ۔ ہمیشہ کی طرح کچھ خارشتئے کُتے پانی کے حوضوں کے کنارے پڑے سو رہے تھے، اور ایک عورت ادا کے ساتھ جُھکی ہوئی اور اپنے نقاب کو سانولے ہاتھ سے جس کے ناخون رنگے ہوئے تھے ایک طرف ہٹا کر تنگ گلے کی قلقل کرتی ہوئی صراحی میلے پانی میں ڈال رہی تھی ۔

کھانا کہاں سے اور کیسے حاصل کیا جائے ، یہ ایک مسئلہ تھا ۔ خواجہ نصرالدین نے کل سے تیسری بار اپنا پٹکا زور سے کسا۔

” کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا چاہئے“ انھوں نے کہا ” آ ، میرے وفادار گدھے ، ذرا رُک کر سوچیں اور یہاں خوش قسمتی سے ایک چائے خانہ بھی ہے ۔“

انھوں نے اپنے گدھے کی لگام کھول دی اور گھوڑے باندھنے کی جگہ کے پاس جو گھاس پڑی تھی چرنے کے لئے اسے چھوڑ دیا ۔ پھر اپنی قبا کے دامنوں کو سمیٹتے ہوئے وہ نہر کے کنارے بیٹھ گئے جہاں گدلا پانی موڑوں پر قلقل کرتا اور جھاگ دیتا ہوا بہہ رہا تھا۔

”کہاں ، کیوں اور کہاں سے یہ پانی بہتا ہے پانی اس کی بابت نہ تو جانتا ہے اور نہ سوچتا ہے“ خواجہ نصرالدین نے افسردگی کے ساتھ سوچا۔ ”مٰن بھی آرام اور گھر سے بیگانہ ہوں اور نہ تو یہ جانتا ہوں کہ کہاں جا رہا ہوں ۔۔ میں بخارا کیوں آیا؟ میں کل کہاں جاؤں گا ؟ اور میں اپنے کھانے کے لئے آدھا تانگا کہاں سے لاؤں؟ کیا مجھے اب بھی بُھوکا رہنا پڑے گا ؟ لعنت ہو اس ٹیکس کلکٹر پر! اس نے تو مجھے صاف ہی کر دیا۔ اور پھر دیدہ دلیری تو دیکھو کہ مجھ سے رھزنوں کا ذکر کر رہا تھا !“

اسی لمحے انھوں نے اس آدمی کو دیکھا جو ان کی مصیبتوں کا باعث بنا تھا ٹیکس کلکٹر گھوڑے پر سوار چائے خانے آرہا تھا۔ اس کے خوبصورت عرب سرنگ گھوڑے کو دو پہرے دار لگاموں سے تھامے ہوئے تھے ۔ گھوڑے کی سیاہ آنکھوں میں شریفانہ سی چمک تھی ۔ اس کی گردن کمان کی طرح کشیدہ تھی اور وہ اپنے نازک پیروں پر اس نزاکت اور چھل بل سے چل رہا تھا کہ اس کے اُوپر مالک کا پُھولا پھالا بدن قابلِ نفرت معلوم ہو رہا تھا۔ پہرے داروں نے ادب کے ساتھ اپنے افسر کو گھوڑے سے اُترنے میں مدد دی۔ وہ چائے خانے میں چلا گیا جہاں انتھائی غلامانہ ذھنیت رکھنے والا چائے خانے کا مالک اس کو ریشمی گدوں تک لے گیا اور وہ بیٹھ گیا ۔ پھر چائے خانے کے مالک نے اپنی بہترین چاء تیار کی اور ایک نفیس پیالے میں جو چینی دستکاری کا نمونہ تھا ٹیکس کلکٹر کے سامنے چاء پیش کی۔

” یہ سب میرے خرچ سے خاطر مدارات ہو رہی ہے“خواجہ نصرالدین نے سوچا۔ ٹیکس کلکٹر نے خوب چاء پی اور جلد ہی گدوں پر ڈھیر ہو گیا۔ چائے خانہ اس کی غراھٹ ، اور ہونٹ چاٹنے کے چٹاخوں سے گونجنے لگا۔ دوسرے لوگوں نے اپنی آوازیں مدھم کر دیں کہ کہیں اس کی نیند میں خلل نہ پڑے۔ پہرے دار اس کے دونوں طرف بیٹہے ٹہنیوں سے مورچھل کر رہے تھے تاکہ مکھیاں اس کو پریشان نہ کر سکیں ۔ جب ان کو یقین ہو گیا کہ ٹیکس کلکٹر گہری نیند سو رہا ہے تو انھوں نے ایک دوسرے کی طرف آنکھ ماری ، گھوڑے کی لگام اُتار دی ، اس کے سامنے گھاس کا ایک گٹھ کھول دیا اور ایک حقہ اُٹھا کر چائے خانے کے اندر والے تاریک حصے میں چلے گئے ۔ ذرا دیر بعد خواجہ نصرالدین نے حشیش کی بھینی بو محسوس کی ۔ پہرے دار آزادی کے ساتھ اپنے مشغلے میں پڑے ہوئے تھے ۔

” اچھا ، اب یہاں سے چلتے پڑنا چاہئے“شہر کے پھاٹک پر صبح کا واقعہ یاد کر کے یہ ڈرتے ہوئے کہ کہیں پہرے دار انھیں پہچان نہ لیں خواہ نصرالدین نے فیصلہ کیا ۔ ” پھر بھی مجھے آدھا تانگا کہاں سے ملے گا ؟ اے مسبب الاسباب تو نے نہ جانے کتنی بار خواجہ نصرالدین کی مدد کی ہے ، اس پر ایک نظر کرم اور!“ ٹھیک اسی وقت کسی نے ان کو پکارا ”ارے ، تم!“


خواجہ نصرالدین نے مُڑ کر دیکھا تو سڑک پر ایک بہت سجی ہوئی بند گاڑی دیکھی۔ اس کے پردوں سے ایک آدمی بڑا عمامہ اور قیمتی خلعت پہنے جھانک رہا تھا۔ قبل اس کے کہ یہ اجنبی، جو کوئی امیر سوداگر یا عہدے دار تھا کچھ کہے خواجہ نصرالدین سمجھ گئے کہ ان کی دعا رائگاں نہیں گئی۔ حسب معمول قسمت نے ان کی طرف مشکل کے دوران مسکرا کر دیکھا ہے۔

"مجھے یہ گھوڑا پسند ہے" امیر اجنبی نے عرب گھوڑے کو تعریف کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے غرور سے کہا "کیا یہ گھوڑا بکاؤ ہے؟"

"دنیا میں کوئی ایسا گھوڑا نہیں جو بکاؤ نہ ہو" خواجہ نصرالدین نے مبہم سا جواب دیا۔

"غالبا تمھاری جیب بالکل خالی ہے" اجنبی کہتا گیا "میری بات غور سے سنو۔ مجھے نہیں معلوم یہ گھوڑا کس کا ہے، کہاں سے آیا ہے اور اس کا پہلا مالک کون تھا۔ میں تم سے یہ سب نہیں پوچھتا۔ تمھارے گردآلود کپڑوں کو دیکھ کر میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم کہیں دور سے بخارا آئے ہو۔ بس یہی میرے لئے کافی ہے۔ سمجھتے ہو نا؟"

خواجہ نصرالدین نے خوشی سے سر ہلادیا۔ ان کی سمجھ میں فورا ہی آگیا کہ یہ امیر آدمی کیا کہنا چاہتا ہے۔ بس وہ یہ چاہتے تھے کہ کوئی احمق مکھی ٹیکس کلکٹر کی ناک یا گلے میں نہ رینگ جائے اور اس کو نہ جگا دے۔ ان کو پہرے داروں کی زیادہ فکر نہ تھی کیونکہ جو گھنا سبز دھواں چائے خانے کے اندورنی حصے سے نکل رہا تھا وہ پتہ دیتا تھا کہ پہرے دار اپنے مشغلے میں مستھیں۔

"تمھیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے" امیر اجنبی نے غرور اور شان کے لہجے میں اپنی بات جاری رکھی "اس پھٹی پرانی قبا میں تم کو اس گھوڑے کی سواری زیب نہیں دیتی بلکہ یہ بات خطرناک بھی ہو گی کیونکہ ہر ایک کو تعجب ہوگا کہ اس بھک منگے کے پاس اتنا عمدہ گھوڑا کہاں سے آیا؟ تم کو آسانی سے جیل کا دروازہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔"

"حضور، آپ بجا فرماتے ہیں" خواجہ نصرالدین نے خاکساری سے ہاں میں ہاں ملائی " یہ گھوڑا یقینا میرے لئے بہت بڑی چیز ہے۔ میں اپنے پھٹے پرانے لباس میں ساری عمر گدھے کی سواری کرتا رہا ہوں۔ میں اس گھوڑے پر سواری کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔"

اس کا جواب امیر اجنبی کو پسند آیا۔

"یہ اچھی بات ہے کہ تم غریب ہوتے ہوئے غرور سے اندھے نہیں ہو۔ غریب آدمی کو خاکسار اور مسکین ہونا چاہئے کیونکہ خوبصورت پھول حسین بادام کے درخت کو زیب دیتے ہیں ویرانے کی خاردار جھاڑیوں کو نہیں۔ اب بتاؤ، تمھیں یہ تھیلی چاہئے؟ اس میں پورے پورے چاندی کے تیس سو تنگے ہیں۔"

"مجھے چاہئے!" خواجہ نصرالدین نے جلدی سے کہا اور اس کی سانس یکدم رک گئی کیونکہ ایک مکھی ٹیکس کلکٹر کی ناک میں رینگ گئی تھی جس سے اس کو چھینک آگئی تھی اور اس نے کروٹ لی تھی۔ " میرا خیال یہ تو یہی ہے! چاندی کے تین سو تانگوں سے کون انکار کر سکتا ہے؟ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے سڑک پر تھیلی پڑی مل جائے!"

"ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے تم کو کوئی اور چیز سڑک پر ملی ہے" اجنبی نے اس طرح مسکراتے ہوئے کہا جیسے وہ سب کچھ جانتا ہے۔ "لیکن سڑک پر جو کچھ تمھیں ملا ہے، میں اس سے اس تھیلی کا تبادلہ کرنے کو تیار ہوں۔ یہ رہے تین سو تانگے۔"

اس نے تھیلی خواجہ نصرالدین کو دے دی اور اپنے نوکر کو اشارہ کیا، جو خاموشی سے کھڑا یہ گفتگو سن رہا تھا اور اپنی پیٹھ چابک سے کھجلا رہا تھا۔ جب نوکر گھوڑے کی طرف جا رہا تھا تو خواجہ نصرالدین نے اس کی ہنسی اور اس کے چپٹے، چیچک سے داغدار چہرے اور تھرکتی ہوئی آنکھوں سے اندازہ لگایا کہ وہ بھی اپنے مالک سے کم بدمعاش نہیں ہے۔

"ایک ہی سڑک پر تین مکار، ذرا زیادہ ہوئے۔ بس مجھے یہاں سے چلتا بننا چاہئے" خواجہ نے فیصلہ کیا۔

امیر اجنبی کی شرافت اور فیاضی کو سراہتے ہوئے وہ اچک کر اپنے گدھے پر بیٹہے اور اس کو اتنی زور کی ایڑ لگائی کہ گدھا اپنی تمام کاھلی کے باوجود ہوا ہو گیا۔

جب خواجہ نصرالدین نے مڑ کر دیکھا تو نوکر عرب گھوڑے کو گاڑی میں باندھ رہا تھا اور جب دوبارہ وہ مڑے تو امیر اجنبی اور ٹیکس کلکٹر ایک دوسرے کی ریش مبارک نوچ رہے تھے اور پہرے دار ان دونوں کو الگ کرنے کی بے سود کوشش کر رہے تھے۔

عقلمند آدمی دوسروں کے جھگڑوں میں اپنی ٹانگ نہیں اڑاتا۔ خواجہ نصرالدین گلی کوچوں کا چکر لگاتے جا رہے تھے، یہاں تک کہ انھوں نے محسوس کیا کہ اب تعاقب کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور انھوں نے گدھے کی لگام کھینچ کر رفتار کم کر دی۔

"رک، ارے رک جا" انھوں نے کہنا شروع کیا "اب کوئی جلدی نہیں ہے۔۔۔"

اچانک انھوں نے بالکل قریب ہی تیز اور خطرناک ٹاپوں کی آواز سنی۔

"ارے، بھاگ میرے وفادار گدھے! بھاگ! مجھے یہاں سے جلدی لے چل!" انھوں نے للکار کر کہا۔ لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔ ایک موڑ سے گھوڑ سوار کود کر سڑک پر آگیا۔

یہ وھی چیچک رو نوکر تھا۔ وہ گاڑی سے کھولے ہوئے گھوڑے پر سوار تھا۔ اپنے پیر جھلاتے ہوئے وہ خواجہ نصرالدین سے آگے نکل گیا اور اچانک گھوڑے کو سڑک پر روک کر راست روک دیا۔

"بھلے آدمی، مجھے نکل جانے دو" خواجہ نصرالدین نے خاکساری سے التجا کی "ایسی تنگ سڑکوں پر گھوڑا سیدھا لے چلنا چاہئے، آرا بیڑا نہیں۔"

"اچھا" نوکر نے طنزیہ ٹھٹھا لگا کر کہا "اب تم کال کوٹھڑی سے نہیں بچ سکوگے! جانتے ہو اس عہدے دار نے جو گھوڑے کا مالک ہے، میرے مالک کی آدھی داڑھی نوچ لی ہے اور میرے مالک نے اس کی ناک لہولہان کر دی ہے؟ کل امیر کی عدالت میں تمھاری پیشی ہوگی۔ سچ مچ، تمھارے برے دن آگئے!"

"تم کہہ کیا رہے ہو؟" خواجہ نصرالدین نے حیرت سے کہا " یہ معزز لوگ کیوں اس بری طرح لڑ پڑے؟ اور تم نے مجھے کیوں روکا؟ میں نے کے جھگڑے میں ثالث نہیں بن سکتا۔ وہ خود جس طرح چاہیں اس کا فیصلہ کریں۔"

"اچھا، بس چپ کرو" نوکر نے کہا "لوٹو، تمھیں گھوڑے کے لئے جواب دھی کرنی ہوگی۔"

"کیسا گھوڑا؟"

"تم پوچھتے ہو؟ وھی گھوڑا جس کے لئے تم کو میرے مالک نے چاندی کے سکوں کی تھیلی دی ہے۔"

"خدا کی قسم تم غلطی کر رہے ہو" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔ "اس معاملے سے گھوڑے کا کوئی سروکار نہیں۔ خود فیصلہ کرو۔ تم نے تو ساری گفتگو سنی ہے ۔ تمھارے مالک شریف اور فیاض آدمی ہیں۔ وہ ایک غریب کی مدد کرنا چاہتے تھے اور انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں چاندی کے تین سو تنگے لینا چاہتا ہوں اور میں نے کہا کہ ضرور۔ لیکن رقم دینے سے قبل انہوں نے میرے انکسار اور خاکساری کی یہ معلوم کرنے کے لئے آزمائش کی کہ آیا میں اس انعام کے لائق ہوں یا نہیں۔ انھوں نے کہا "میں یہ نہیں پوچھتا کہ یہ گھوڑا کس کا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔" دیکھو نا، وہ جاننا چاہتے تھے کہ آیا جھوٹے غرور میں اس کو میں اپنا گھوڑا بتا دوں گا۔ میں چپ رہا اور یہ فیاض اور شریف انسان خوش ہوا۔ پھر انھوں نے کہا کہ ایسا گھوڑا میرے لئے ایک بہت بڑی چیز ہوگا اور میں نے ان سے اتفاق کیا۔ اس سے بھی وہ خوش ہوئے۔ پھر انھوں نے کہا کہ میں نے سڑک پر وہ چیز پائی ہے جس کا تبادلہ چاندی سے کیا جاسکتا ہے، ان کا اشارہ اسلام کے لئے میرے جوش اور مضبوط عقیدے کی طرف تھا، جو میں نے مقدس مقامات کی زیارت کے لئے سفر کرکے حاصل کیا تھا۔ اور اس کے بعد انھوں نے مجھے انعام دیا، اس نیک کام میں ان کی نیت یہ تھی کہ جنت میں ان کے داخلے کے لئے میں اس پل کے ذریعہ آسانی ہو جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے، جیسا کہ قرآن شریف ہم کو بتاتا ہے۔ میں اپنی سب سے پہلی دعا میں اللہ سے یہ درخواست کروں گا کہ اس کارخیر کیوجہ سے تمھارے مالک کے لئے اس پل پر کٹہرا لگوا دیا جائے۔ "

نوکر نے یہ لمبی تقریر غور سے سنی اور چابک سے اپنی پیٹھ کھجلاتا رہا۔ آخر ممیں اس نے چالاکی سے دانت نکالتے ہوئے کہا جس سے خواجہ نصرالدین گھبرا گئے:

"مسافر، تم ٹھیک ہی کہتے ہو۔ حیرت ہے کہ میں فورا ہی یہ کیوں نہیں سمجھ گیا کہ میرے مالک سے تمھاری بات چیت کا کیسا نیک مطلب ہے؟ لیکن چونکہ تم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ تم میرے مالک کو دوسری دنیا میں پل پار کرنے میں مدد دو گے، تو اگر یہ پل کے دونوں طرف کٹہرا ہو تو اس سے زیادہ حفاظت ہوگی۔ میں بھی بہت خوشی سے اپنے مالک کے لئے دعا کرونگا تاکہ اللہ پل کے دوسری طرف بھی ان کو کٹہرا عطا فرمائے۔"

"تو کرو نا دعا!" خواجہ نصرالدین نے زور سے کہا "تمھیں روکتا کون ہے؟ تمھارا تو ایک طرح سے یہ فرض بھی ہے۔ کیا قرآن میں ہدایت نہیں کی گئی ہے کہ غلاموں اور ملازموں کو روزانہ اپنے مالک کے لئے کسی خاص انعام کے مطالبے کے بغیر دعا کرنی چاہئے؟"

"اپنا گدھا موڑو" نوکر نے سختی سے چلا کر کہا اور اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا کر خواجہ نصرالدین کو دیوار تک دبا دیا۔ " اب جلدی کرو، میرا وقت ضائع مت کرو۔"

"رکو" خواجہ نصرالدین نے جلدی سے بات کاٹ کر کہا۔ "میں نے ابھی اپنی بات نہیں ختم کی ہے۔ میں تانگوں کی تعداد کے مطابق تیس سو الفاظ کی دعا پڑھنے والا تھا لیکن اب میں سوچتا ہوں کہ ڈھائی سو الفاظ کی دعا کافی ہوگی۔ میری طرف کا کٹہرا ذرا پتلا اور چھوٹا ہوگا۔ اور تم پچاس الفاظ کی دعا پڑھو گے اور خدا حکیم مطلق ہے، وہ بہتر جانتا ہے کہ تمھاری طرف کا کٹہرہ اسی لکڑی سے کیسے بنایا جائے۔"

"کیا" نوکر نے کہا "میرا کٹہرا تمھارے کٹہرے سے پانچ گنا چھوٹا کیوں ہو؟"

"لیکن وہ انتھائی خطرناک حصے میں ہوگا" خواجہ نصرالدین نے جلدی سے کہا۔

"نہیں" نوکر نے فیصلہ کن انداز طور پر کہا " میں ایسے چھوٹے کٹہرے پر رضامند نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پل کا ایک حصہ بلا کٹہرے کے ہوگا۔ میں اس خطرے کے خیال سے ہی کانپ اٹھتا ہوں جو میرے مالک کو ہوگا۔ میرے رائے میں ہم دونوں کو ڈیڑھ ڈیڑھ سو الفاظ کی دعا پڑھنی چاہئے تاکہ دونوں طرف کٹہرے کی لمبائی ایک ہی ہو۔ چاہے وہ پتلا ہی کیوں نہ ہو لیکن دونوں طرف سے حفاظت تو ہوگی۔ اور اگر تم اس پر تیار نہیں ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم میرے مالک کی برائی کے خواھاں ہو اور چاہتے ہو کہ وہ پل سے گر پڑیں۔ اچھا، میں لوگوں کو پکارتا ہوں اور تم جلد ہی کال کوٹھری میں ہوگے۔"

"پتلا کٹہرہ!" خواجہ نصرالدین نے گرم ہو کر کہا، ان کو محسوس ہو رہا تھا گویا ان کے پٹکے میں تھیلی کلبلا رہی ہے۔ " جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس سے تو یہی اچھا ہے کہ ٹہنیوں کا کٹہرہ بنا دیا جائے! تمھاری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ایک طرف کا کٹہرہ زیادہ موٹا اور مضبوط ہونا چاہئے تاکہ اگر تمھارے مالک کا پیر لڑکھڑائے اور وہ گرنے لگیں تو ان کو کچھ سہارا لینے کو تو مل جائے۔"

"تمھارے منہ سے تو سب سچ ہی سچ نکل رہا ہے" نوکر نے خوش ہو کر کہا "میری طرف کا کٹہرا موٹا ہونے دو اور میں دو سو الفاظ کی دعا پڑھنے کی تکلیف بھی گورا کر لوں گا۔"

"شاید تم اس کو تین سو تک لے جانا پسند کرو" خواجہ نصرالدین نے زہر میں بجہے ہوئے لہجے میں کہا۔

آخرکار جب وہ ایک دوسرے سے رخصت ہوئے تو خواجہ کی تھیلی آدھی ہلکی ہوچکی تھی۔ وہ دونوں اس پر راضی ہو گئے تھے کہ جنت کو جانے والے پل کی حفاظت اس آدمی کے مالک کے لئے دونوں طرف ایسے کٹہروں سے ہونی چاہئے جو مضبوطی اورموٹائی دو میں برابر ہوں۔

"خدا حافظ، اے انتھائی مہربان، وفادار اور نیک ملازم جو اپنے مالک کی روح کی بخشائش کے لئے اتنا فکرمند ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بحث و مباحثے میں تم خواجہ نصرالدین سے مات نہیں کھاؤ گے۔"

"اس کا ذکر تم نے کیوں کیا؟" نوکر نے پوچھا، اس کے کان کھڑے ہو گئے تھے۔

"کچھ نہیں۔۔۔ بس خیال آگیا" خواجہ نصرالدین نے اپنے آپ سوچتے ہوئے جواب دیا "یہ معمولی آدمی نہیں ہے۔"

"ممکن ہے کہ تم اس کے دور کے رشتے دار ہو؟" نوکر نے پوچھا۔ "یا شاید تم اس کے خاندان کے کسی فرد کو جانتے ہو؟"

"نہیں، میری اس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور میں خواجہ نصرالدین کے کسی عزیز کو بھی نہیں جانتا۔"

"سنو، میں تمھیں کان میں ایک بات بتاؤں" نوکر نے کاٹھی سے جھکتے ہوئے کہا۔ "میں اس کا رشتے دار ہوں۔ دراصل اس کا چچیرا بھائی۔ ہم نے اپنا بچپن ساتھ ساتھ گذارا ہے۔"

خواجہ نصرالدین کے شبہے کی تصدیق ہو گئی اور انھوں نے اپنی زبان روک لی۔ نوکر اور قریب جھک آیا:

"اس کا باپ، دو بھائی اور چچا تو مرچکے ہیں۔ شاید تم نے اس کی بابتہ سنا ہو، مسافر؟"

لیکن خواجہ نصرالدین اب بھی چپ رہے۔

"امیر نے ایسا ظلم ڈھایا!" نوکر نے مکاری سے کہا۔

پھر بھی خواجہ چپ ہی رہے۔

"بخارا کے تمام وزیر احمق ہیں!" نوکر نے غیر متوقع طور پر کہا۔ وہ لالچ سے بالکل بے صبر ہو رہا تھا کیونکہ حکومت آزاد خیال لوگوں کی گرفتاری کے لئے کافی انعام دیتی تھی۔ لیکن خواجہ نصرالدین نے زبان پر مہر سکوت لگا لی۔

"اور ہمارا معزز امیر بھی احمق ہے!" اس آدمی نے کہا "اور یہ بھی یقینی نہیں ہے کہ اللہ کا وجود ہے!"

لیکن خواجہ نصرالدین نے اپنا منہ نہیں کھولا حالانکہ ایک تیز و تلخ جواب ان کی زبان پر تھا۔ نوکر کو بڑی ناامیدی ہوئی۔ اس نے زور سے کوستے ہوئے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دو چھلانگوں میں موڑ پر غائب ہو گیا۔ اب سناٹا ہو گیا۔ صرف ساکن ہوا میں گھوڑے کے سموں سے اٹھنے والی گرد سنہرے دھند کی طرح معلق تھی جس کو گرم اور ترچھی کرنیں چیر رہی تھیں۔

"اچھا، لیجئے مجھے رشتہ دار بھی مل گیا" خواجہ نصرالدین خود سوچ کر مسکرائے۔ "بڈھّے نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔ بخارا میں جاسوس مکھیوں کی طرح بھرے ہوئے ہیں۔ ذرا احتیاط کی ضرورت ہے۔ پرانی کہاوت ہے کہ "مجرم زبان کے ساتھ سر بھی کٹ جاتا ہے۔"

اس طرح وہ گدھے پر کافی دیر تک آگے چلتے تھے، کبھی اپنی تھیلی کی آدھی کائنات کھونے کے بارے میں سوچتے اور کبھی ٹیکس کلکٹر اور مغرور اجنبی کے درمیان جھگڑے کو یاد کرکے ہنستے۔
[/list]
Last edited by سیدتفسیراحمد on Sun Sep 14, 2008 7:00 am, edited 1 time in total.
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

بہت ہی شاندار ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

  • باب پانچ

    [hr]

    جب خواجہ نصرالدین شہر کے دوسرے سرے پر پہنچ گئے تو وہ رکے، اپنا گدھا ایک چائے خانے کے مالک کے سپرد کیا اور تیزی کے ساتھ ایک طعام خانے پہنچے۔
    وہاں بڑی بھیڑ تھی، کھانے کی مہک ہر طرف پھیلی تھی۔ تندور روشن تھے اور شعلے لپک رہے تھے جو باورچیوں کی پسینے سے تر پیٹھوں کو اور چمکا دیتے تھے۔ باورچی کمر تک ننگے کام کر رہے تھے۔ وہ ادھر ادھر دوڑ رہے تھے، شور کر رہے تھے، ایک دوسرے کو دھکیل رہے تھے اور باورچی خانے میں کام کرنے والے چھوکروں کی گدی پر دھپ بھی جما دیتے تھے۔ گھبرائی گھبرائی آنکھوں والے چھوکرے ادھر ادھر بھاگ بھاگ دھکا پیل، غل اور ہنگامے میں اضافہ کر رہے تھے۔ لکڑی کے ناچتے ہوئے ڈھکنوں والے بڑے بڑے دیگچوں سے کھدبدانے کی آواز آرہی تھی، چھت کے قریب بھاپ کے گھنے بادل جمع تھے جہاں لاتعداد مکھیاں بھنبھارہی تھیں۔ اس دھندلکے میں گھی زوروں سے سنسنا اور ابل رہا تھا، انگیٹھیوں کی دیواریں لال بھبھوکا ہو کر چمک رہی تھیں اور سیخوں سے چربی ٹپک کر کوئلے پر گر رہی تھی اور نیلگوں دھوئیں دار شعلے بھڑکا کر جل جاتی تھی۔ یہاں پلاؤ پک رہا تھا، بوٹی کے کباب بھونے جا رہے تھے، اوجھڑی ابل رہی تھی اور پیاز، مرچ، گوشت اور دنبے کی دم کی چربی سے بھرے ہوئے سموسے سینکے جا رہے تھے۔ چربی تندور میں پگھل کر سموسوں سے نکل پڑتی تھی اور چھوٹے چھوٹے بلبلے بناتی تھی۔
    بڑی مشکل سے خواجہ نصرالدین کو ایک جگہ ملی جہاں ان کو اس طرح کسمسا کر بیٹھنا پڑا کہ جن لوگوں کو انھوں نے اپنی پیٹھ اور پہلو سے دبایا تھا وہ چیخ اٹھے۔ لیکن کوئی ناراض نہیں ہوا، کسی نے ایک لفظ بھی ان کو نہیں کہا اور نہ وہ خود ہی بڑبڑائے۔ ان کو ہمیشہ سے بازار کے طعام خانوں کی ایسی گرماگرم بھیڑ بھکڑ، یہ تمام چیخ پکار، ہنسی مذاق، قہقہے، غل غپاڑہ، دھکم دھکا، زوردار کھانس کھنکار اور ان سیکڑوں آدمیوں کے کھانا کھانےکی آوازیں جو دن بھر کی شدید محنت کے بعد کھانے میں انتخاب کی تاب نہیں رکھتے اور ان کے طاقتور جبڑے ہر چیز کو چبا ڈالتے ہیں، خواہ وہ گوشت ہو یا ہڈی۔ ہر سستی اورافراط سے ملنے والی چیز کو سخت معدہ قبول کر لیتا ہے۔ خواجہ نصرالدین نے بھی خوب جی بھر کر کھایا۔ وہ ایک جگہ بیٹھ کر تین پلیٹ شوربہ، تین پلیٹ پلاؤ اور دو درجن سموسے کھا گئے۔ سموسے ختم کرنے میں ذرا کوشش کرنی پڑی پھر بھی کھا لیا کیونکہ خواجہ کا یہ قاعدہ تھا کہ جس چیز کی قیمت ادا کرتے تھے اس کو پلیٹ میں نہیں چھوڑتے تھے۔
    آخر کار انہوں نے دروازے کا رخ کیا اور جب کسی طرح کہنیوں سے راستہ بنا کر وہ کھلی ہوا میں پہنچے تو پسینے سے نہائے ہوئے تھے۔ ان کے بازو اور پیر ایسے کمزور اور نرم ہو رہے تھے جیسے وہ کسی حمام میں ابھی ابھی کسی ہٹے کٹے غسال کے ہاتھ سے چھٹکارا پآ کر نکلے ہوں۔ کھانے اور گرمی سے بھاری پن محسوس کرتے ہوئے وہ اس چائے خانے تک پیر گھسیٹتے پہنچے جہاں انھوں نے اپنا گدھا چھوڑا تھا۔ انھوں نے چائے لانے کے لئے کہا اور نمدے پر مزے میں دراز ہو گئے۔ ان کی آنکھیں بند ہو گئیں اور ان کے دماغ میں پرسکون اور خوشگوار خیالات آنے لگے:
    "اس وقت میرے پاس کافی رقم ہے۔ اس کو کسی دوکان میں لگا دینا اچھا رہے گا۔ ساز یا برتن بنانے کی دوکان میں۔ میں دونوں حرفتیں جانتا ہوں۔ اب آوارہ گردی چھوڑ دینا چاہئے۔ کیا میں دوسروں سے کم عقل ہوں؟ کیا میں کسی مہربان اور حسین لڑکی کو بیوی نہیں بنا سکتا؟ کیا میرے بیٹا نہیں ہوسکتا جس کو میں گود میں لے کر کھلاؤں؟ پیغمبر صاحب کی ریش مبارک کی قسم، ننھا شریر بڑھکر پکا بدمعاش ہوگا اور میں اس کو اپنی سوجھ بوجھ ضرور اس کو ادا کر سکوں گا۔ بس، میں نے طے کر لیا۔ خواجہ نصرالدین نے اپنی بے سکون زندگی ختم کر دی۔ اب ابتدا کے لئے میں کمھار کا کام کروں یا ساز بنانے والے کا۔۔۔"
    انھوں نے حساب لگانا شروع کیا۔ اچھی دوکان کے لئے کم از کم تین سو تانگوں کی ضرورت ہوگی لیکن ان کے پاس تو صرف ڈیڑھ سو تھے۔ انھوں نے چیچک رو ملازم پر لعنت بھیجی:
    "اللہ اس لٹیرے کو اندھا کرے۔ اس نے مجھ سے وہ لے لیا جس کی مجھے زندگی شروع کرنے کے لئے ضرورت تھی!"
    ایک مرتبہ پھر قسمت نے ان کا ساتھ دیا۔ "بیس تانگے" کسی نے اچانک زور سے کہا۔ پھر ایک تانبے کی تھالی میں پانسے کے گرنے کی آواز آئی۔


    --------------------------------------------------------------------------------

    برساتی کے نالے کے کنارے اور بالکل اس جگہ کے قریب جہاں گھوڑے باندھے جاتے تھے اور جہاں ان کا گدھا بندھا تھا آدمیوں کا ایک چھوٹا سا حلقہ بنا ہوا تھا۔ چائے خانے کا مالک ان کے پیچھے کھڑا ان کے سر کے اوپر سے گردن بڑھا بڑھا کر دیکھ رہا تھا۔
    "جوا ہو رہا ہے!" خواجہ نصرالدین نے اپنی کہنیوں پر اٹھتے ہوئے اندازہ لگایا۔ "وہ قطعی جوا کھیل رہے ہیں! ذرا دیکھوں تو دوسر ہی سے سہی۔ میں کھیلونگا نہیں۔ میں کوئی احمق ہوں؟ لیکن عقلمند آدمی احمقوں کو کھیلتے تو دیکھ ہی سکتا ہے۔"
    وہ اٹھ کر جواریوں کے پاس گئے۔
    "احمق ہیں یہ لوگ" انھوں نے چپکے سے چائے خانے کے مالک سے کہا "جیتے کے لالچ میں اپنی آخری کوڑی تک لگا دیتے ہیں۔ کیا پیغمبر صاحب نے جوے کی ممانعت نہیں کی ہے؟ خدا کا شکر ہے کہ میں اس مہلک برائی سے پاک ہوں۔۔۔ لیکن اس لال بالوں والے جواری کی قسمت کتنی اچھی ہے! اس کو متواتر چار بار جیت ہو چکی ہے۔۔ دیکھو، دیکھو۔ وہ پانچویں مرتبہ بھی جیت گیا! اس کو دولت کے جھوٹے تصور نے ورغلایا ہے جبکہ غربت اس کے راستے میں گڈھا کھود چکی ہے۔ ارے کیا؟ اس نے چھٹی مرتبہ بازی مار لی۔ میں نے ایسی قسمت کبھی نہیں دیکھی۔ دیکھو، وہ پھر داؤں لگا رہا ہے۔ سچ ہے، انسان کی حماقت کی کوئی انتھا نہیں۔ آخر کار وہ متواتر کب تک جیتا کریگا؟ اسی طرح لوگ جھوٹی قسمت پر بھروسہ کرکے تباہ ہوتے ہیں! اس لال بالوں والے آدمی کو سبق دینا چاہئے۔ اگر یہ ساتویں بار بھی جیتا تو میں اس کے خلاف داؤں لگاؤنگا حالانکہ میں دل سے ہر قسم کے جوے کے خلاف ہوں۔ا گر میں امیر بخارا ہوتا تو بہت دن ہوئے اس کو ممنوع قرار دے چکا ہوتا!"
    لال بالوں والے جواری نے پانسہ پھینکا اور ساتویں بار بھی بازی اس کے ہاتھ رہی۔
    خواجہ نصرالدین نے بڑے عزم کے ساتھ قدم بڑھایا۔ کھلاڑیوں کو کندھے سے الگ ہٹادیا اور حلقے میں کھیلنے کے لئے بیٹھ گئے۔


    --------------------------------------------------------------------------------

    "میں تمھارے ساتھ کھیلنا چاہتا ہوں" انھوں نے خوش قسمت جیتے والے سے کہا، انھوں نے پانسے اٹھائے اور ان کا ہر رخ سے اپنی تجربے کار نگاھوں سے جائزہ لیا۔
    "کتنے سے؟" لال بالوں والے نے بھاری آواز سے پوچھا۔ اس کے بدن میں جھرجھری دوڑ گئی۔ وہ اپنی خوش قسمتی سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا جو تھوڑی دیر کے لئے اس کو نصیب ہو گئی تھی۔
    خواجہ نصرالدین نے جواب میں اپنی تھیلی نکالی۔ شدید ضرورتوں کے لئے پچیس تانگے الگ کر لئے اور پھر تھیلی خالی کر لی۔ تانبے کی تھالی پر چاندی کی جھنکار ہوئی۔ جواریوں نے داؤں کا پراشتیاق شور سے خیر مقدم کیا۔ اونچے داؤں سے کھیل شروع ہو رہا تھا۔
    لال بالوں والے آدمی نے پانسے لیے اور ان کو بڑی دیر تک ہلایا، وہ ان کو پھینکتے ہوئے جھجک رہا تھا۔ ہر ایک سانس روکے تھا، حتی کہ گدھے نے بھی اپنا تھوتھن آگے بڑھا دیا تھا اور کان کھڑے کر لئے تھے۔ صرف جواری کی مٹھی میں پانسوں کی کھنکھناہٹ کی آواز ہو رہی تھی۔ اس خشک کھنکھناہٹ نے خواجہ نصرالدین کے پیروں اور پیٹ میں ایک تھکن آمیز کمزوری پیدا کر دی۔ آخرکار لال بالوں والے نے پانسہ پھینکا۔ دوسرے کھلاڑیوں نے گردن بڑھا کر دیکھا اور پھر اس طرح پیچھے گرگئے جیسے وہ سب ایک ہی آدمی ہوں، ان کے سینوں سے نکل رہی ہو۔ لال بالوں والے جواری کا چہرہ زرد ہو گیا اور اس نے بھینچے ہوئے دانتوں سے ایک آہ کی۔ پانسے میں صرف تین نقطے نظر آرہے تھے یعنی ہار قطعی تھی کیونکہ دو کا پانسہ اسی طرح کم گرتا تھا جیسے بارہ کا۔ باقی ہر پانسہ خواجہ نصرالدین کے حق میں تھا۔
    پانسے کو مٹھی میں ہلاتے ہوئے خواجہ نصرالدین نے دل ہی میں قسمت کا شکریہ ادا کیا کہ آج وہ اتنی مہربان تھی۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ قسمت بڑی متلون مزاج اور من موجی ہے اور اگر اس کو ذرا بھی تنگ کرو تو فورا دغا دے جاتی ہے۔ قسمت نے یہ فیصلہ کیا کہ خواجہ نصرالدین کو اس خود اعتمادی کے لئے سبق دے اور ان کے گدھے کو اپنا ہتھیار بنایا یا زیادہ ٹھیک یہ کہنا ہوگا کہ ان کے گدھے کی دم کو جس کا سرا کانٹوں اور گوکھروؤں سے مرصع تھا۔ گدھنے نے جواریوں کی طرف سے پیٹھ موڑ کر جو اپنی دم ہلائی، تو اس کے مالک کے ہاتھ میں جالگی۔ پانسہ ہاتھ سے چھوٹ کر گرا اور لال بالوں والا جواری ایک زوردار نعرہ لگا کر آنا فانا تھالی پر گرا اور ساری رقم پر چھا گیا۔


    --------------------------------------------------------------------------------

    خواجہ نصرالدین نے دو پھینکے تھے۔
    وہ بڑی دیر تک خاموش بیٹہے اپنے ہونٹ چلاتے رہے۔ ان کی تکتی ہوئی آنکھوں کے سامنے ساری دنیا ڈگمگا اور تیر رہی تھی اور کان عجیب آوازوں سے بج رہے تھے۔
    اچانک وہ اچک کر اٹہے اور ڈنڈا لیکر بے تحاشہ گدھے کو پیٹنے لگے۔ وہ اسے کھونٹے کے چاروں طرف دوڑا رہے تھے۔
    "منحوس گدھا! ولد الزنا! بدبودار جانور، دنیا کی تمام مخوقات کے لئے لعنت!" خواجہ نصرالدین گرج رہے تھے "اپنے مالک کے پیسے سے جوا ہی کھیلنا کیا کم تھا نہ کہ اس کو ہار بھی جانا۔ خدا کرے تیری شیطانی کھال پھٹ جائے! اللہ کرے تیرے راست میں ایساگڑھا آئے کہ تیرا پیر ٹوٹ جائے! نہ معلوم تو کب مرے گا کہ تیری منحوس صورت سے مجھے چھٹکارا ملے گا!"
    گدھا رینکنے لگا۔ جواریوں میں قہقہہ پڑا اور لال بالوں والے نے تو سب سے زور کا قہقہہ لگایا۔ اس کو اپنی خوش قسمتی پر قطعی بھروسہ وھ چکا تھا۔
    "آؤ پھر کھیلیں" اس نے خواجہ نصرالدین سے کہا جب تھک کر ان کی سانس پھول چکی اور انھوں نے ڈنڈا پھینک دیا۔
    " آؤ کچھ بازیاں اور ہو جائیں ۔ ابھی تو تمہارے پاس پچیس تانگے ہیں۔"
    یہ کہہ کر اس نے اپنا بایاں پیر پھیلا کر اس کو ہلایا۔ گویا اس طرح اس نے خواجہ نصرالدین کے لئے حقارت کا اظہار کیا۔
    " کیوں نہیں؟" خواجہ نے یہ سوچتے ہوئے جواب دیا کہ اب ایک بیس تانگے تو ضایع ہو ہی چکے ، رہے باقی پچیس تانگے ، ان کا جو حشر ہو۔
    انھوں نے لاپروائی سے پانسہ پھینکا اور جیت گئے۔


    --------------------------------------------------------------------------------

    " پوری رقم رہی!" لال بالوں والے نے ہاری ہوئی رقم تھالی میں پھنیکتے ہوئے تجویز کی۔ خواجہ نصرالدین پھر جیت گئے۔
    لال بالوں والے کو یقین ہی نہیں آتا تھا کہ قسمت نے اس سے اس طرح منہ پھیر لیا ہے " ساری رقم رہی!"
    متواتر سات مرتبہ اس نے کہا اور ہر مرتبہ وہ ہارا۔ ساری تھالی رقم سے بھر گئی۔ جواری بالکل خاموش بیٹہے تھے ۔ ان کی شعلہ ور آنکھیں صرف اس اندرونی آگ کی آئینہ دار تھیں جو ان کو جلائے ڈال رہی تھی۔
    "اگر شیطان تمہاری مدد نہیں کر رہا ہے تو تم ہر بار تو نہیں جیت سکتے!" لال بالوں والے نے چلا کر کہا " کبھی تو ہارو گے!" لو یہ تھالی میں رہے تمھارے ایک ہزار چھ سو تانگے۔ تم پھر ایک بار ساری رقم داؤں پر لگاؤ گے؟ یہ رہی وہ رقم جس سے کل میں اپنی دوکان کے لئے بازار سے سامان خریدنے والا تھا۔ میں تمھارے خلاف یہ ساری رقم داؤں پر لگاتا ہوں!"
    اس نے ایک تھیلی نکالی جس میں سونے کے سکے بھرے تھے ۔
    ” اپنا سونا تھالی میں رکھو“خواجہ نصرالدین نے جوش میں آ کر زور سے کہا۔
    اس چائے خانے میں اتنا زبردست داؤں کبھی نہیں لگا تھا۔ چائے خانے کا مالک تو اپنی ابلتی ہوئی کیتلیوں کو بھی بھول گیا ۔ جواری زور زور سے ہانپ رہے تھے۔ لال بالوں والے نے پہلے پانسہ پھینکا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں کیونکہ وہ ڈر رہا تھا ۔
    ” گیارہ!“ سب ایک ساتھ مل کر چلائے۔ خواجہ نصرالدین نے سمجھ لیا کہ اب بازی ہاری ہی سمجھو۔ صرف بارہ کا پانسہ ہی اس کو بچا سکتا تھا ۔
    ” گیارہ ! گیارہ !“ لال بالوں والا جواری خوشی سے بے ساختہ دہرا رہا تھا۔ ” دیکھو نا ، میرے گیارہ ہیں ! تم ہار گئے ! تم ہار گئے!“
    خواجہ نصرالدین سر سے پیر تک ٹھنڈے پڑ گئے ۔ انھوں نے پانسے لے کر ان کو پھینکنے کی تیاری کی۔ پھر یکا یک انھوں نے اپنا ہاتھ روک لیا۔


    --------------------------------------------------------------------------------

    ” گھوم جا“ اس نے اپنے گدھے سے کہا ”تو نے تین کے پانسے کے خلاف ہرایا ہے تو اب گیارہ کے خلاف جتا، نہیں تو میں تجھے قصاب گھر دکھاؤنگا۔“
    انھوں نے گدھے کی دُم بائیں ہاتھ سے پکڑ کر دائیں ہاتھ پر ماری جس میں پانسے تھے۔
    سارے لوگوں کے غُل سے چائے خانہ گُونج گیا ۔ چائے خانے کے مالک نے اپنا دل تھام لیا اور زمین پر گر گیا ، وہ اتنے زبردست دھکے کو نہ برداشت کر سکا۔
    پانسے میں بارہ دکھائی دے رہے تھے۔
    لال بالوں والے کی آنکھیں حلقوں سے نکلی پڑتی تھیں اور اس کے بے خون چہرے پر چمک رہی تھیں ۔ وہ آھستہ سے اُٹھا اور لڑکھڑاتا ہوا چلا۔ وہ بار بار چلا رہا تھا ”تباہ ہو گیا، تباہ ہو گیا میں!“
    کہا جاتا ہے کہ اس دن سے لال بالوں والا پھر شہر میں نہیں دکھائی دیا۔ وہ ریگستان میں بھاگ گیا اور وہاں اس کے بال بڑھ گئے اور صورت وحشتناک ہو گئی۔ وہ ریت اور کٹیلی جھاڑیوں کے درمیان مارا مارا پھرتا اور برابر یہی چیختا رہتا ”تباہ ہو گیا میں!“ یہاں تک کہ گیدڑوں نے اس کا خاتمہ کر دیا ۔ لیکن کسی نے اس کا ماتم نہیں کیا کیونکہ وہ ظالم اور نا انصاف تھا اور اس نے اعتبار کرنے والے سیدھے سادے لوگوں کو ہرا کر بڑا نقصان پہنچایا تھا۔
    جہاں تک خواجہ نصرالدین کا تعلق ہے انھوں نے اپنی جیتی ہوئی نئی دولت کو خورجینوں میں ڈالا اور اپنے گدھے کو لپٹا کر اس کے گرم تھوتھن کو زور سے چُوما ، اس کو کچھ مزےدار تاؤ ، تازہ نان کھلائی جس پر گدھے کو تعجب ہوا کیونکہ چند منٹ پہلے

    مالک کا برتاؤ برعکس رہ چکا تھا۔
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

بہت ہی عمدہ ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

باب نمبر 6

[hr]
[list]اس دانشمندانہ اصول پر عمل کرتے ہوئے کہ ان لوگوں سے دور ہی رھنا چاہئے جو یہ جانتے ہوں کہ تم اپنی پونجی کہاں رکھتے ہو خواجہ نصرالدین نے چائے خانے میں تضیعِ اوقات نہیں کیا اور بازار کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہ بار بار پیچھے مُڑ کر دیکھتے جاتے تھے کہ کوئی ان کا پیچھا تو نہیں کر رہا ہے کیونکہ جواریوں اور چائے خانے کے مالک کے چہروں پر بد نیتی کے آثار نظر آرہے تھے ۔
حالات تو بہت خوشگوار تھے ۔ اب وہ کوئی بھی دوکان خرید سکیں گے ، دو دوکانیں ، تین دوکانیں اور انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ یہی کریں گے ۔
” میں چار دوکانیں خرید لوں گا ، برتن بنانے کی ، ساز بنانے کی ، درزی اور موچی کی دوکانیں ۔ ہر ایک میں دو کاریگر لگا دوں گا ، بس میرا کام پیسہ جمع کرنا رہ جائے گا ۔ دو سال میں امیر بن جاؤں گا ۔ ایک مکان خرید لوں گا جس کے باغ میں فوارے ہوں گے ۔ میں ہر جگہ چہچہاتی ہوئی چڑیوں کے سونے کے پنجرے ٹانگونگا ، اور میرے دو شاید تین بیویاں ہوں گی اور ہر ایک سے تین تین بیٹے۔۔۔“
انھوں نے اپنے کو خیالوں کے خوشگوار سیلاب میں بہنے دیا ۔ اس دوران میں گدھے نے لگام کی گرفت نہ محسوس کر کے اپنے مالک کے ہوائی قلعے سے فائدہ اُٹھایا۔ جب وہ ایک چھوٹے سے پُل پر پہنچے تو دوسرے گدھوں کی طرح اسے پار کرنے کی بجائے وہ ایک طرف مُڑا اور سیدھا خندق کے اُوپر سے جست لگا گیا۔
”۔۔۔اور جب میرے بچے بڑے ہو جائیں گے تو میں ان کو اکٹھا کر کے کہوں گا۔۔۔“ خواجہ نصرالدین خیالات کی دنیا میں اس طرح اُڑے چلے جارہے تھے ” لیکن میں ہوا میں اُڑ کیوں رہا ہوں؟ کیا خُدا نے مجھ کو فرشتہ بنا کر پَر عطا کر دئے ہیں؟"
دوسرے لمحے آنکھوں سے نکلتی ہوئی چنگاریوں نے خواجہ نصرالدین کو یقین دلا دیا کہ ان کے پَر نہیں ہیں۔ کاٹھی سے اچھل کر اپنی سواری سے کچھ گز آگے وہ سڑک پر دراز تھے۔
جب وہ گرد میں لت پت کراھتے ہوئے سڑک سے اُٹہے تو گدھا ان کے پاس آگیا۔ وہ اپنے کان دوستانہ انداز میں ہلا رہا تھا اور اس کے چہرے پر انتھائی معصومانہ تاثرات تھے جیسے وہ اپنے مالک کو مدعو کر رہا ہو کہ وہ پھر کاٹھی پر واپس آ جائے۔
”ارے تو، جو میرے پلے پڑا ہے صرف میرے گناھوں کی سزا نہیں بلکہ میرے باپ ، دادا ، پردادا کے گناھوں کے لئے بھی ، کیونکہ اسلامی انصاف کے نقطہ نظر سے ایک آدمی کو صرف اپنے گناھوں کے لئے اتنی بھاری سزا دینا نامنصفانہ بات ہوگی!“ خواجہ نصرالدین نے کہا۔ ان کی آواز غصے سے کانپ رہی تھی ”مکڑے اور لکڑ بگہے کا بچہ ! ارے تو۔۔۔“
لیکن اب انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ تھوڑی ہی دُور پر ایک تباہ شدہ دیوار کے سائے میں بیٹہے ہوئے ہیں اور وہ چُپ ہو گئے۔
کوسنے اور گالیاں خواجہ نصرالدین کی زباں پر آ کر رُک گئیں۔ انھوں نے سوچا کہ ایسے آدمی کو جس کی دیکھنے والوں کی موجودگی میں ایسی مضحکہ انگیز اور بر گت بنی ہو اپنی حالت پر خود سب سے زور سے ہنسنا چاہئے۔ انھوں نے ان آدمیوں کی طرف جو بیٹہے تھے آنکھ ماری اور اپنی پوری سفید بتیسی نکال کر ہنس پڑے۔
”ارے“انھوں نے زندہ دلی کے ساتھ زور سے کہا”کتنی زور دار اُڑان رہی میری! اچھا بتاؤ کتنی قلابازیان میں نے کھائیں۔ مجھے تو ان کے شمار کرنے کا موقع نہیں ملا۔ بدمعاش کہیں کے!“ وہ خوش دلی کے ساتھ گدھے کو تھپ تھپانے لگے حالانکہ دل تو یہ چاہتا تھا کہ اس کو چار چوٹ کی مار دیں۔ ”یہ بڑا شریر ہے! بس ذرا نگاہ چُوکی اور یہ دکھا گیا اپنے ہتھکنڈے!“
خواجہ نصرالدین زندہ دلی کے ساتھ ہنسے لیکن ان کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ کوئی اور ان کے ساتھ نہیں ہنسا۔ لوگ خاموش سر جھکائے اور اداس بیٹہے تھے اور عورتیں جن کی گود میں بچے تھے چُپکے چُپکے آنسو بہا رہی تھیں۔

[hr]
” کچھ گڑبڑ ہے“ خواجہ نصرالدین نے سوچا۔
وہ ان آدمیوں کے پاس گئے اور ایک سفید ریش آدمی کو مخاطب کیا جس کا چہرہ مریل سا تھا ”معزز بزرگ ، مجھے بتائیے کیا بات ہے ؟ میں یہاں نہ تو مُسکراہٹ دیکھتا ہوں اور کوئی قہقہہ سنتا ہوں اور یہ عورتیں کیوں رو رہی ہیں؟ آپ لوگ سڑک کے کنارے اس گرد اور گرمی میں کیوں بیٹہے ہیں؟ کیا آپ لوگوں کو اپنے گھروں کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھنا نہیں سہاتا؟“
” گھروں میں ان لوگوں کے لئے بیٹھنا اچھا ہے جن کے گھر ہوتے ہیں“ بڈھّے نے ملول ہو کر جواب دیا۔ ” ارے مسافر، ہمسے مت پوچھ۔ ہم پر بڑی بپتا ہے اور تُو کسی طرح بھی ہماری مدد نہیں کر سکتا ہے۔ جہاں تک میرا سوال ہے میں بُڑھا اور معزور ہوں اور خُدا سے دُعا کرتا ہوں کہ میرے لئے جلدی موت بھیج دے۔“
”ایسا کیوں کہتے ہیں آپ؟“ خواجہ نصرالدین نے ملامت کرتے ہوئے کہا ”انسان کو کبھی اس طرح نہیں سوچنا چاہئے ۔ مجھے اپنی مصیبت بتائیے اور میری بری حالت پر مت جائیے ۔ شاید میں آپ کی مدد کر سکوں۔“
” میری کہانی مختصر ہے ۔ صرف ایک گھنٹہ پہلے جعفر سود خور ہماری سڑک سے امیر کے دو پہرے داروں کے ساتھ گذرا۔ میں اس کا قرضدار ہوں اور کل اس کو ادا کرنا ہے۔ اس لئے انھوں نے مجھ کو اس گھر سے نکال دیا ہے جہاں میں نے اپنی پوری زندگی گذاری ہے۔ میرے نہ تو کوئی خاندان ہے اور نہ سر چھپانے کی کوئی جگہ۔۔۔ اور میری ساری پونجی۔ میرا گھر، باغ، مویشی اور انگوروں کے چمن کل جعفر نیلام کر دیگا۔"
بڈھّے کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس کی آواز کانپنے لگی۔
"اور کیا قرض بہت زیادہ ہے؟" خواجہ نصرالدین نے پوچھا۔
"بہت زیادہ! میں اس کا ڈھائی سو تانگوں کا قرضدار ہوں!"
"ڈھائی سو تانگے!" خواجہ نصرالدین نے حیرت سے کہا۔" اور ان کم بخت ڈھائی سو تانگوں کے لئے آدمی موت کی تمنا کرتا ہے۔ اچھا، اچھا، اب اپنے کو سنبھالو" انھوں نے گدھے کی طرف مڑ کر کہا اور خورجین کھولی "اچھا، میرے معزز دوست، یہ رہے ڈھائی سو تانگے، جاؤ، یہ سود خور کو دو اور لات مار کر اس کو اپنے گھر سے نکالدو، زندگی کے باقی دن امن چین اور ہنسی خوشی سے گذاردو۔"

[hr]
چاندی کے سکوں کی جھنکار سن کر سارے گروہ میں جان پڑ گئی۔ بڈھّے کی تو زبان ہی بند ہو گئی۔ اس نے آنسو بھری شکرگذار آنکھوں سے خواجہ کی طرف دیکھا۔
"دیکھو نا؟ اور تم اپنی مصیبت مجھے نہیں بتا رہے تھے" خواجہ نصرالدین نے آخری سکہ گنتے ہوئے کہا۔ ساتھ ہی وہ سوچ رہے تھے "کوئی بات نہیں، آٹھ کاریگروں کی بجائے میں صرف سات ہی نوکر رکھوں گا اور وہ بہت کافی ہی ہوں گے۔
اچانک ایک عورت جو بڈھّے کے پاس ہی بیٹھی تھی خواجہ نصرالدین نے پیروں پر گرپڑی اور ڈاڑھیں مار کر روتے ہوئے اپنا لڑکا ان کی طرف بڑھا دیا: "دیکھئے" اس نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا "یہ بیمار ہے۔ اس کے ہونٹ خشک ہیں اور چہرہ جل رہا ہے۔ میرا بے کس ننھا سڑک پر مر جائے گا کیونکہ مجھے بھی گھر سے نکال دیا گیا ہے۔"
خواجہ نصرالدین نے لڑکے کا دبلا پتلا، زرد چہرہ دیکھا، پھر اس کے شفاف ہاتھ اور بیٹہے ہوئے لوگوں کے چہروں پر نظر ڈالی۔ اور ان کے جھریوں پڑے، مصیبتوں سے مرجھائے چہروں اور متواتر گریہ و زاری سے، دھندلی آنکھوں سے ان کو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی جلتی ہوئی چھری ان کے دل میں اتر گئی ہے۔ اچانک ان کا گلا رندہ گیا۔ غم و غصے سے خون کی گرم لہر ان کے چہرے پر دوڑ گئی۔ انھوں نے اپنا رخ موڑ لیا۔
"میں بیوہ ہوں" عورت نے اپنی داستان جاری رکھی "میرا شوہر چھ مہینے ہوئے مر گیا۔ وہ سود خور کا دوسو تانگوں کا قرضدار تھا۔ قانون کے مطابق میں اس قرض کی ذمے دار ہوں۔"
"واقعی لڑکا بیمار ہے" خواجہ نصرالدین نے کہا۔ "یہ رہے دو سو تانگے۔ جلدی سے گھر جاؤ اور اس کے سر پر ٹھنڈی پٹی رکھو اور یہ پچاس تانگے اور ہیں۔ جاؤ کسی حکیم کو بلاؤ اور دوا خریدو۔"
خود انھوں نے سوچا "میں چھ ہی کاریگروں سے کام چلاسکتا ہوں۔"

[hr]
لیکن اسی لمحے ایک قد آور لمبی داڑھی والا پتھر کٹا ان کے قدموں پر گر پڑا۔ کل اس کا سارا خاندان جعفر کے چار سو تانگوں کے قرض کے لئے غلاموں کی طرح بکنے والا تھا۔
"پانچ کاریگر واقعی کم ہوئے" خواجہ نصرالدین نے ایک بار پھر اپنی خورجین کھولتے ہوئے سوچا۔ ابھی اس کو انھوں نے پھر باندھا ہی تھا کہ دو عورتیں ان کے پیروں پر تھیں۔ ان کی کہانیاں بھی ایسی دل دوز تھیں کہ خواجہ نصرالدین کا ہاتھ اتنی کافی رقم دینے سے نہ رکا جو سود خود کا قرض ادا کرنے کے لئے کافی تھی۔ پھر یہ دیکھ کر کہ باقی جو رقم رہ گئی ہے وہ تین کاریگر رکھنے کےک لئے مشکل سے کافی ہوگی، انھوں نے سوچا کہ اب دوکانوں کا خیال بےکار ہے اور انھوں نے فیاضی کے ساتھ جعفر سود خور کے دوسرے قرض داروں میں رقم بانٹ دی۔
اب خورجین میں پانچ سو سے زیادہ تانگے نہ رہ گئے ہوں گے۔ اس وقت خواجہ نصرالدین نے ایک طرف ایک ایسا آدمی بیٹھا دیکھا جس نے مدد کی التجا نہیں کی تھی اور وہ دیکھنے سے ہی مصیبت زدہ معلوم ہوتا تھا۔
"ارے تم، سننا تو!" خواجہ نصرالدین نے پکار کر کہا۔ "اگر تمھارے اوپر مہاجن کا قرض نہیں ہے تو تم یہاں کیوں بیٹہے ہو؟"

[hr]
"میں اس کا قرض دار ہوں" آدمی نے بھاری آواز میں کہا "کل میں پابہ زنجیر غلاموں کے بازار تک جاؤنگا۔"
"تم خاموش کیوں رہے؟"
"اے فیاض اور مہربان مسافر! میں نہیں جانتا کہ آپ کون ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ مقدس بزرگ بہاؤالدین ہوں جو غریبوں کی مدد کرنے کے لئے اپنے مزار سے اٹھ کر آئے ہیں یا خود ہارون رشید۔ میں نے آپ کی مدد نہیں مانگی کیوں کہ آپ ابھی تک کافی خرچ کر چکے ہیں اور میرا قرض سب سے زیادہ ہے یعنی پانچ سو تانگے۔ میں ڈر رہا تھا کہ اگر آپ نے مجھ کو یہ رقم دے دی تو بڈھوں اور عورتوں کے لئے کافی نہ بچے گا۔"
"تم حق پرست، شریف اور ایماندار انسان ہو" خواجہ نصرالدین نے بہت متائثر ہو کر کہا "لیکن میں بھی حق پرست، شریف اور ایماندار ہوں اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کل تم پابہ زنجیر غلاموں کے بازار نہیں جاؤ گے۔ اپنا دامن بڑھاؤ۔"
انھوں نے اپنی خورجین کا آخری سکہ تک دے دیا۔ یہ آدمی اپنی قبا کا دامن بائیں ہاتھ سے سنبھال کر خواجہ نصرالدین سے دائیں ہاتھ سے لپٹ گیا اور اپنا آنسوؤں سے تر چہرہ ان کے سینے میں دبادیا۔

[hr]
"واقعی تم نے اپنے گدھے پر سے مزے میں قلابازی کھائی تھی" اچانک قدآور لمبی داڑھی والے پتھر کٹے نے زور کا ٹھٹھا مار کر کہا۔ اس پر اور دوسرے لوگ بھی قہقہے لگانے لگے۔ مرد موٹھی بھاری آوازوں سے اور عورتیں اپنی باریک آواز، بچے مسکرا کر خواجہ نصرالدین کی طرف ہاتھ پھیلانے لگے جو سب سے زور سے ہنس رہے تھے۔
"ھاھاھا!" خواجہ ہنس رہے تھے اور خوشی سے دہرے ہوئے جا رہے تھے۔ "تم نہیں جانتے کہ یہ کس قسم کا گدھا ہے! بڑا کمبخت ہے یہ گدھا!"
"نہیں، نہیں" بیمار بچے والی عورت نے کہا "اپنے گدھے کو ایسا نہ کہو۔ وہ سب سے زیادہ ہوشیار، انتھائی شریف اور دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی گدھا ہے۔ اس کا جیسا گدھا نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ میں تو اپنی ساری زندگی اس کی دیکھ بھال کرنا پسند کروں گی، اس کو بہترین اناج کھانے کودوں گی، اس پر کام کا بوجھ کبھی نہ ڈالوں گی، اس کو کھرارے سے صاف کرونگی اور دم میں کنگھا کروں گی۔ کیونکہ اگر یہ لاجواب گدھا، جو گلاب کی سی خوبیاں رکھتا ہے، خندق کے اوپر سے جست نہ لگاتا اور تم کو کاٹھی سے نہ اتار پھینکتا تو اے مسافر، تم جو ہمارے لئے تاریکی میں سورج بن گئے ہو، ہم کو دیکہے بغیر یہاں سے گزر جاتے اور ہم تم کو روکنے کی جرآت بھی نہ کر سکتے۔"
"ٹھیک ہی کہتی ہے" بڈھّے نے بڑی سنجیدگی سے کہا "ہم اپنی نجات کے لئے اس گدھے کے بہت کچھ احسان مند ہیں۔ سچ مچ یہ دنیا کے لئے باعث ناز ہے اور گدھوں کے درمیان ہیرے کی طرح درخشاں۔"
پھر سب نے گدھے کی خوب خوب تعریفیں شروع کر دیں اور اس کے نان، جوار کے لائے، سوکھی خوبانیاں اور شفتالو کھلانے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔ گدھا اپنے دم کی مورچھل سے پریشان کرنے والی مکھیوں کو اڑاتا جاتا اور سنجیدگی سے ان لوگوں کے ہدیے قبول کرتا رہا لیکن وہ گھبرا گھبرا کر اس چابک کو بھی دیکھتا جاتا تھا جو خواجہ نصرالدین چپکے چپکے اسے دکھا رہے تھے۔
دن ڈھل چلا تھا، سائے لمبے ہوتے جارہے تھے۔ لال ٹانگوں والی سارسیں غل مچاتی اور پر پھڑپھڑاتی اپنے گھونسلوں کو لوٹ رہی تھیں جہاں ان کے بچے اپنی حریص، کھلی ہوئی چونچیں ان کی طرف بڑھا دیتے تھے۔

[hr]
خواجہ نصرالدین ان لوگوں سے رخصت ہوئے، سب نے جھک کر ان کا شکریہ ادا کیا۔
"ہم آپ کے شکرگذار ہیں، آپ نے ہمارے دکھ درد کو سمجھا۔"
"کیسے نہ سمجھتا؟" خواجہ نے جواب دیا "آج ہی چار دوکانیں اور آٹھ کاریگر جو میرے لئے کام کر رہے تھے، ایک مکان جس کے باغ میں فوارے اچھلتے تھے اور گانے والی چڑیاں سونے کے پنجروں میں درختوں سے لٹکی تھیں میرے ہاتھ سے جاتے رہے۔ میں تم لوگوں کی بات کیسے نہ سمجھتا!"
بڈھّے نے اپنے پوپلے منہ سے کہا "مسافر، میرے پاس تمھارا شکریہ ادا کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ صرف ایک چیز ہے جو میں نے گھر چھوڑتے وقت ساتھ لے لی تھی۔ یہ ہے قرآن پاک۔ لو اسے لے لو، یہ دنیا میں تمھارے لئے مشعل ہدایت بنے گا۔"
خواجہ نصرالدین کو مقدس کتابوں سے کوئی سرکار نہیں تھا۔ پھر بھی انھوں نے اس خیال سے قرآن لے لیا کہ بڈھّے کے جذبات کو ٹھیس نہ لگے، اس کو اپنی خورجین میں رکھا اور اچک کر کاٹھی پر پہنچ گئے۔
"آپ کا نام؟ آپ کا نام؟" سب ایک ساتھ چلائے۔ "اپنا نام تو بتاتے جائیے تاکہ ہم آپ کے لئے دعا کر سکیں۔:
تم لوگوں کو میرا نام جاننے کی کیا ضرورت ہے؟ حقیقی نیکی کے لئے شہرت نہ چاہئے۔ جہاں تک دعا کا تعلق ہے تو اللہ کے پاس اچھے کاموں کی خبر پہنچانے کے لئے مقدس فرشتوں کی کثیر تعداد ہے۔ اگر یہ فرشتے سست اور لاپرواہ ہیں اور زمین پر نیک و بد اعمال کے شمار کی بجائے نرم بادلوں پر سوتے رھتے ہیں تو آپ کی دعائیں بھی بیکار ہوں گی کیونکہ اللہ معتبر اشخاص کی تصدیق کے بغیر ان کو نہیں سنے گا۔"
جب خواجہ بول رہے تھے تو ایک عورت نے گھٹی ہوئی آہ سی بھری۔ یہی دوسری عورت نے بھی کیا۔ پھر بڈھا چونکا اور خواجہ نصرالدین کو گھورنے لگا۔ لیکن خواجہ کو جلدی تھی اور انھوں نے کوئی توجہ نہ کی۔
"خدا حافظ! تم امن چین سے رھو اور خوشحال ہو۔"
لوگوں کی دعا کے ساتھ وہ سڑک کے موڑ پر غائب ہو گئے۔
باقی لوگ خاموش کھڑے تھے۔ صرف ایک خیال ان کی آنکھوں میں چمک رہا تھا۔ اس خاموشی کو بڈھّے نے توڑا۔ اس نے بڑی سنجیدگی سے متائثر کن لہجے میں کہا:
"دنیا میں صرف ایک ہی آدمی یہ کام کر سکتا تھا۔ ہاں، اور دنیا میں صرف ایک آدمی ایسی باتیں کہہ سکتا تھا اور دنیا میں صرف ایک آدمی کی روح ایسی ہے جس کی روشنی اور گرمی غریبوں اور مظلوموں کے دلوں کو منور کرتی ہے اور گرمی بخشتی ہے اور یہ آدمی ہیں ہمارے۔۔۔"
"زبان بند رکھو!" ایک آدمی نے جلدی سے لقمہ دیا "کیا تم بھول گئے کہ دیواروں کی آنکھیں ہوتی ہیں اور پتھروں کے کان، ابھی ہزاروں کتے ان کے پیچھے پڑ جائیں گے۔"
"تم ٹھیک کہتے ہو" تیسرے آدمی نے کہا "ہمیں اپنی زبانیں بند رکھنی چاہیئں کیونکہ اس وقت ان کی حالت ایسی ہے کہ وہ ایک تنے ہوئے رسے پر چل رہے ہیں۔ ذرا سا دھکا بھی ان کی تباھی کا باعث ہو سکتا ہے۔"
"چاہے وہ میری زبان کھینچ لیں میں ان کا نام نہیں بتاؤنگی!" بیمار بچے والی عورت نے کہا۔
"میں بھی خاموش رھوں گی" دوسری عورت نے کہا "مجھے موت آجائے جو میں بھولے سے بھی ان کو رسے تک پہنچاؤں۔"
غرض سب نے اس طرح کی باتیں کہیں سوائے قد آور لمبی داڑھی والے پتھر کٹے کے جو ذرا ذود فہم نہ تھا۔ جو کچھ اس نے سنا تھا اس سے نہ کچھ سمجھ سکا کہ آخر اس مسافر کے پیچھے کتے کیوں پڑجائیں گے۔ وہ نہ تو کوئی قصاب ہے اور نہ قورمہ بیچنے والا۔ پھر اگر مسافر تنے ہوئے رسے پر چلنے والا ہے تو اس کا نام زور سے کیوں نہ لینا چاہئے۔ اور وہ عورت اپنے محسن کو رسے تک پہنچانے پر مرنے کو کیوں ترجیح دیتی ہے جو ان کے پیشے کے لئے ضروری ہے؟ اب پتھر کٹا بالکل حیران ہوچکا تھا۔ وہ زور سے کھنکھارا، ایک گہرہ سانس لیکر فیصلہ کیا کہ اس کے بارے میں بالکل نہ سوچے ورنہ وہ پاگل ہو جائے گا۔
اس دوران خواجہ نصرالدین کافی فاصلہ طے کر چکے تھے لیکن اب بھی ان کی آنکھوں کے سامنے ان غریبوں کے سوکہے ہوئے چہرے پھر رہے تھے۔ ان کو بیمار بچہ برابر یاد آرہا تھا، اس کے بخار سے تپتے ہوئے رخسار اور خشک ہونٹ۔ انھوں نے اس سفید ریش بڈھّے کے بارے میں سوچا جس کو گھر سے نکال دیا گیا تھا اور ان کے دل کی گہرائیوں سے شدید غصے کا سیلاب امنڈ پڑا۔
"ذرا ٹھہر تو سہی، سود خور، ذرا ٹھہر!" وہ بڑبڑائے اور ان کی کالی آنکھوں میں ایک خطرناک شعلہ لپکا۔ "میں تمہاری حالت بری بنادوں گا۔ اور امیر جہاں تک تیرا تعلق ہے" وہ بڑبڑاتے گئے" کانپ کر زرد پڑجا کیونکہ میں، خواجہ نصرالدین بخارا آگیا ہوں! میرے بدحال لوگوں کا خون چوسنے والی بدذات اور ہولناک جونکو! او خونخوار حریص بھیڑیو! اے گندے گیدڑو! تم ہمیشہ تو پروان نہیں چڑھوگے اور نہ لوگ ہی ہمیشہ پریشان حالی میں مبتلا رہیں گے! اور جہاں تک جعفر سود خور تیرا تعلق ہے، میرا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شرمسار رہے گا اگر میں ان تمام مصیبتوں کا عوض تجھ سے نہ چکا لوں جو تو غریبوں پر توڑتا ہے۔"
[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

باب نمبر 7

[hr]
[list]خواجہ نصرالدین نے جو دنیا کے بہت سے نرم گرم برداشت کر چکے تھے، اپنے وطن میں پہلا دن بہت بےچینی اور سانحوں سے بھرا ہوا گذارا۔ وہ تھک گئے تھے اور چاہتے تھے کہ کوئی ایسی الگ تھلگ جگہ مل جائے جہاں آرام کر سکیں۔
"نہیں" انھوں نے ایک تالاب کے گرد جمع لوگوں کا مجمع دیکھ کر ایک آہ بھری۔ "ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے آج میری قسمت میں آرام نہیں ہے! یہاں کچھ ہو گیا ہے۔"
تالاب سڑک سے تھوڑے فاصلے پرتھا اور خواجہ نصرالدین آسانی سے اس کو چھوڑ کر آگے جاسکتے تھے لیکن وہ ایسے آدمی نہیں تھے کہ کسی لڑائی جھگڑے اور ہنگامے کے موقع کو ہاتھ سے جانے دیں۔
گدھا بھی جو ان کے ساتھ مدتوں رھتے رھتے اپنے مالک کے طور طریقوں سے خوب آشنا ہوچکا تھا خود ہی تالاب کی طرف مڑ گیا۔
"کیا معاملہ ہے؟" گدھے کو مجمع میں گھسیڑتے ہوئے خواجہ نے چلا کر پوچھا "کیا کسی کا قتل ہو گیا ہے؟ کیا کوئی لٹ گیا؟ راستہ دو، راستہ!"
وہ بھیڑ کو چیرتے ہوئے تالاب کے کنارے تک پہنچ گئے جو سبز کائی سے ڈھکا ہوا تھا۔ وہاں انھوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ کنارے سے چند قدم کے فاصلے پرایک آدمی ڈوب رہا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ پانی کے اوپر آتا اور پھر اندر چلا جاتا اور پانی سے بڑے بلبلے نکلنے لگتے۔
"ارے احمقو!" خواجہ نصرالدین نے کہا "یقینا تم اس کی قیمتی قبا اور ریشمی عمامے سے دیکھ سکتے ہو کہ یہ آدمی یا تو کوئی ملا ہے یا امیر عہدے دار؟ اور کیا تم کو ملاؤں اور عمائدین کے طریقے نہیں معلوم ہیں کہ ان کو پانی سے کس طرح گھسیٹا جائے؟"

[hr]
"تم خود گھسیٹ لو نا اور اگر طریقہ جانتے ہو تو بچالو" مجمع میں شور ہوا "جاؤ، بچاؤ! وہ پھر اوپر آگیا ہے!"
"ٹھہرو" خواجہ نصرالدین نے کہا "میں نے ابھی اپنی تقریر ختم نہیں کی ہے۔ میں یہ پوچھتا ہوں کہ تم نے کبھی کسی ملا یا امیر عہدے دار کو کسی کو کچھ دیتے دیکھا ہے؟ تو اے جاھلو وہ صرف لیتے ہیں۔ اس لئے ان کو ذرا ترکیب سے بچانا چاہئے، یعنی ان کی مزاجی خصوصیات کے لحاظ سے۔ اب ذرا دیکھنا مجھے۔"
"لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے!" مجمع سے آوازیں آئیں "اب وہ اوپر نہیں آئے گا۔"
"کیا تمھارے خیال میں پانی کی دیویاں کسی ملا یابڑے افسر کو اتنی آسانی سے قبول کر لیں گی؟ نہیں تم غلطی پر ہو۔ پانی کی دیویاں اس سے نجات پانے کی پوری کوشش کرینگی۔"
خواجہ نصرالدین زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے اور اطمینان سے انتظار کرنے لگے۔ وہ تہہ سے بلبلوں کو اوپر آتے اور کنارے تک تیرتے دیکھ رہے تھے جن کو ہلکی ہوا اس طرف ڈھکیل رہی تھی۔
آخر کار وہ سیاہ شکل آھستہ آھستہ گہرائیوں سے ابھری۔ ڈوبتاآدمی سطح پر دکھائی دیا۔ اگر خواجہ نصرالدین نہ ہوتے تو وہ آخری بار اوپر آیا ہوتا۔
"ارے، یہ لو!" خواجہ نصرالدین ہاتھ بڑھا کر چلائے "یہ لو!"
ڈوبتے ہوئے آدمی نے انتھائی بدحواسی میں ہاتھ کو مضبوط پکڑ لیا۔ خواجہ نصرالدین کا اس کی مضبوط گرفت کیوجہ سے منہ بگڑ گیا۔
بچائے ہوئے آدمی نے انگلیاں چھڑانے میں کافی وقت لگ گیا۔
تھوڑی دیر تک وہ بے حس و حرکت پڑا رہا۔ وہ سیوار اور بدبودار کائی سے ڈھکا ہوا تھا جس سے اس کا چہرہ چھپ گیا تھا۔ پھر اس کے منہ، ناک اور کانوں سے پانی نکلنے لگا۔
"میرا بٹوہ!۔ میرا بٹوہ کہاں ہے؟" وہ کراہ رہا تھا اور اس وقت تک اسے چین نہ آیا جب تک بٹوہ اس کے پاس نہ پہنچ گیا۔ پھر آھستہ آھستہ اس نے گھاس پھونس جھاڑی اور اپنی قبا کے دامن سے چہرہ صاف کیا۔ خواجہ نصرالدین پیچھے ہٹ گئے۔ چپٹی ٹوٹی ناک، چوڑے چوڑے نتھنوں اور پھلی آنکھ نے اس کا چہرہ خوفناک بنا دیا تھا۔ آدمی کبڑا بھی تھا۔

[hr]
"یہ رہے!" مجمع نے غل مچایا اور خواجہ نصرالدین کو آگے بڑھا دیا۔
"ادھر آؤ، میں تم کو انعام دینا چاہتا ہوں" آدمی نے اپنے پانی سے بھرے ہوئے بٹوے میں ہاتھ ڈالا اور مٹھی بھر چاندی کے سکے نکالے "حالانکہ یہ کوئی بہت ہی لاجواب یا غیر معمولی بات نہیں ہے کہ تم نے مجھ کو نکال لیا۔ میں خود ہی نکل آتا" اس نے ناشکرے پن سے اضافہ کیا۔
جب وہ بات کر رہا تھا تو معلوم نہیں کمزوری یا کسی دوسرے سبب سے اس کی مٹھی آھستہ سے کھلی اور سکے اس کی انگلیوں سے پھسل کر ہلکی جھن جھناھٹ کے ساتھ بٹوے میں پھر جا رہے۔ صرف ایک سکہ اس کے ہاتھ میں بچ رہا، نصف تانگے کا۔ا یک آہ سرد بھرتے ہوئے اس نے یہ سکہ خواجہ نصرالدین کی طرف بڑھایا۔
"یہ لو اور بازار جا کر اپنے لئے ایک قاب پلاؤ خرید لینا۔"
"یہ تو ایک قاب پلاؤ خریدنے کے لئے کافی نہیں ہے" خواجہ نصرالدین نے کہا۔
"اچھا، کوئی بات نہیں، بلا گوشت کے سادے چاول ہی سہی۔"
"دیکھتے ہو نا" خواجہ نصرالدین نے پاس کھڑے لوگوں کو مخاطب کیا " میں نے تو اس کی فطرت کے مطابق ترکیب سے اس کی جان بچائی۔"
پھر وہ اپنے گدھے کے پاس چلے گئے۔
راستے میں ان کو ایک لمبے، چھریرے اور مضبوط بازوؤں والے آدمی نے روکا، اس کا چہرہ روکھا تھا۔ اس کے بازو کالک اور کوئلے سے سیاہ ہورہے تھے اور اس کے پٹکے میں لوھار کی سنسی لگی ہوئی تھی۔
"کیا ہے، بھئی لوھار؟" خواجہ نصرالدین نے پوچھا۔
"دیکھو" لوھار نے ان کو ناراضگی کے ساتھ اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا "تمھیں معلوم ہے کہ تم نے کسی کو بچایا ہے؟ اور وہ بھی آخری وقت، جب اس کو کوئی نہیں بچاسکتا تھا؟ تمھیں معلوم ہے کہ تمھارے اس فعل کیوجہ سے کتنے آنسو بہیں گے؟ پتہ ہے کہ کتنے آدمی اپنے گھر بار، کھیتوں اور انگور کے بغیچوں سے محروم ہو جائیں گے یا غلاموں کے بازار میں پہنچ جائیں گے اور وہاں سے پابہ زنجیر خیوا کی شاہراہ پر نظر آئیں گے!"

[hr]
خواجہ نصرالدین حیرت سے اس کا منہ تک رہے تھے۔ انھوں نے کہا "بھائی لوھار! تمھاری بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ کیا کوئی انسان کہلانے کا مستحق اور مسلمان ڈوبتے ہوئے آدمی کے پاس سے گذر جائے گا اور اس کی مدد کے لئے ہاتھ نہ بڑھائے گا؟"
"تو تمھارا خیال ہے کہ آدمی کو تمام زہریلے سانپ بچھوؤں اور بھیڑیوں کو بچانا چاہئے؟" لوھار نے زور سے کہا۔ پھر اس کو کچھ خیال آیا اور اس نے کہا "کیا تم یہیں کے رھنے والے ہو؟"
"نہیں، میں دور دراز سے آیا ہوں۔"
"تو پھر تم نہیں جانتے کہ جس آدمی کی جان تم نے بچائی ہے وہ بہت بدذات اور خون چوسنے والا ہے اور بخارا کا ہر تیسرا آدمی اس کی وجہ سے نالاں اور گریاں ہے!"
خواجہ نصرالدین کے دماغ میں ایک ہولناک خیال چمک اتھا۔
"لوھار!" وہ یہ ڈرتے ہوئے رک گئے کہ کہیں ان کا خیال صحیح نہ ثابت ہو "اس آدمی کا نام مجھے بتا دو۔"
"تم نے جعفر سود خور کو بچایا ہے، خدا اس کی زندگی اور عاقبت دونوں خراب کرے! خدا کرے کہ اس کی چودہ نسلوں تک کے سڑے زخم ہوں!" لوھار نے جواب میں کہا۔
" کیا کہا؟" خواجہ نصرالدین چلائے "تم کیا کہہ رہے ہو؟ ہائے افسوس، افسوس! کیسی شرمناک بات میں نے کی! کیا میرے ہاتھوں نے اس سانپ کو پانی سے نکالا؟ سچ مچ اس گناہ کا کوئی ازالہ نہیں ہوسکتا! افسوس، شرف کی بات ہے!"
اس کی ندامت سے لوھار متائثر ہو کر ذرا نرم پڑا۔

[hr]
"مسافر، چپ کرو، اب کیا ہو سکتا ہے۔ تم اس وقت تالاب تک کیوں پہنچے۔ تمھارا گدھا سڑک پر ہی اڑ کر کیوں نہیں رک گیا؟ سود خور کو ڈوبنے کا موقع مل جاتا۔"
"یہ گدھا!" خواجہ نصرالدین نے کہا "اگر یہ سڑک پر رکتا ہے تو صرف میری خورجینیں پیسے سے خالی کرانے کے لئے کیونکہ اگر وہ بھری ہوں تو اس کے لئے بھاری ہو جاتی ہیں۔ لیکن جب میری بدنامی کا سوال ہوتا ہے، سود خور کو بچانے کا، تو یقین کرو کہ یہ گدھا ضرور مجھے وقت پر وہاں پہنچائے گا!"
"ھاں" لوھار نے اتفاق کیا "لیکن جو کچھ ہوا وہ واپس نہیں لیا جاسکتا۔ سود خور کو اب تالاب میں واپس نہیں ڈھکیلا جاسکتا۔"
خواجہ نصرالدین چونک پڑے۔
"مجھ سے ایک برا کام ہو گیا لیکن میں اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرونگا! سنو! بھائی لوھار، میں قسم کھاتا ہوں کہ جعفر سودخور کو میں ڈبوؤں گا۔ میں اپنے والد کی ریش مبارک کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ ہاں، میں اس کو اسی تالاب میں ڈبوؤنگا! لوھار! میری قسم یاد رکھنا۔ کیونکہ میں فضول بات نہیں کرتا۔ سود خور ڈوبیگا! اور جب تم اس کے بارے میں بازار میں سننا تو یہ سمجھ لینا کہ میں نے بخارا شریف کے شہریوں کے سامنے اپنے جرم کا خمیازہ پورا کر دیا ہے!"
[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

داستان خواجہ بخارا کی

Post by سیدتفسیراحمد »

  • (۸)
    جب خواجہ نصرالدین بازار پہنچے تو شفق کی روشنی ٹھنڈے اور خوشبودار دھند کی طرح شہر پر چھاتی جا رہی تھی۔

    چائے خانوں میں خوشگوار الاؤ جلنے لگے تھے اور جلد ہی پورے بازار کو روشنیوں نے اپنے آغوش میں لے لیا۔ کل ایک بڑا بازار ہونے والا تھا۔ اونٹوں کے کارواں جوق در جوق چلے آرہے تھے۔ جب کوئی کارواں اندھیرے میں غائب ہوجاتا تو اس کی سریلی، صاف اور اداس گھنٹیوں کی آواز بڑی دیر تک ہوا میں گونجتی رہتی اور جب دور یہ آواز غائب ہو جاتی تو دوسرا کارواں چوراہے پر آجاتا اور اس کی گھنٹیاں بجنے لگتیں اور اداس گیت سنانے لگتیں۔ یہ اس طرح جاری تھا جیسے رات خود دنیا کے کونے کونے سے لائی ہوئی آوازوں سے بھر گئی ہو اور آھستہ آھستہ گنگناتی، تھرتھراتی اور کراہتی ہو۔ ہندوستان، ایران، عرب، افغانستان اور مصر کی ان دیکھی گھنٹیاں گونج رہی تھیں۔ خواجہ نصرالدین ان کے نغمے سن رہے تھے اور یہ محسوس کر رہے تھے کہ وہ ان کو تاابد سن سکتے ہیں۔ قریب ایک چائے خانے میں طنبورہ بج رہا تھا اور اس کا ساتھ دوتارے کے تار دے رہے تھے۔ کسی ان دیکہے گائک نے اپنی صاف آواز ستاروں تک پہنچادی تھی۔ وہ اپنی محبوبہ کے بارے میں گآ کر اس کا شکوہ کر رہا تھا۔

    اس پرنغمہ فضا میں خواجہ نصرالدین رات بھر ٹھہرنے کی جگہ تلاش کر رہے تھے۔

    "میرے پاس اپنے اور گدھے کے لئے آدھا تانگا ہے" انھوں نے ایک چائے خانے کے مالک سے کہا۔

    "آدھے تنگے میں تم رات تو یہاں گذار سکتے ہو" مالک نے کہا "لیکن کمبل نہیں ملے گا۔"

    "اور میں اپنا گدھا کہاں باندھوں؟"

    "مجھے گدھے سے کیا مطلب؟"

    چائے خانے کے قریب کوئی باندھنے کی جگہ نہ تھی۔ خواجہ نصرالدین نے دیھکا کہ برساتی کے نیچے ایک آنکڑہ نکلا ہوا ہے اور یہ بغیر دیکہے کہ آنکڑہ کس چیز میں لگا ہے انھوں نے اپنا گدھا اس میں باندھ دیا۔ چائے خانے کے اندر پہنچتے ہی وہ دراز ہو گئے کیونکہ وہ تھک کر چور ہو چکے تھے۔

    وہ ابھی اونگھ ہی رہے تے کہ ان کو اپنا نام سنائی دیا اور انھوں نے آنکھیں کھول دیں۔

    قریب ہی کچھ آدمی جو بازار آئے تھے ایک چھوٹے سے حلقے میں بیٹہے چا پی رہے تھے۔ ان میں ایک ساربان تھا، ایک گلہ باد اور دو کاریگر۔ ان میں ایک مدھم آواز میں کہہ رہا تھا:

    "خواجہ نصرالدین سے یہ بھی موسوم ہے۔ ایک دن وہ بغداد میں بازار سے گذر رہے تھے کہ انھوں نے ایک باورچی خانے میں غل غپاڑہ سنا۔ جانتے ہی ہو کہ ہمارے خواجہ نصرالدین کتنے کھوجی آدمی ہیں وہ اندر پہنچ گئے۔ وہاں انھوں نے دیکھا کہ موٹا، لال چہرے والا باورچی خانے کا مالک ایک فقیر کی گدی میں ہاتھ دیکر اسے ہلا رہا تھا۔ وہ فقیر سے پیسے طلب کر رہا تھا لیکن فقیر کچھ دینے سے انکار کر رہا تھا۔

    "یہ ہنگامہ کیوں ہے؟" ہمارے خواجہ نصرالدین نے پوچھا " تم دونوں کیوں جھگڑ رہے ہو؟"

    یہ ہنگامہ کیوں ہے؟ ہمارے خواجہ نصرالدین نے پوچھا۔ "تم کیوںجھگڑ رہے ہو؟"

    "یہ بدمعاش، کمینہ، چور، اس کی آنتیں سڑیں، مالک نے چیخ کر کہا "میرے باورچی خانے میںآیا، اپنی بغل سے نان کا ایک ٹکڑا نکالا اور بڑی دیر تک اس کو انگیٹھی کے اوپر سینکتا رہا یہاں تک کہ نان میں بوٹی کے کبابوں کی خوشبو آگئی اور وہ زیادہ نرم اور مزے دار ہو گئی۔ پھر یہ روٹی چٹ کر گیا۔ اور اب، اس کے دانت گریں، کھال پھٹ جائے، پیسے نہیں دیتا ہے!"

    "یہ سچ ہے؟" خواجہ نصرالدین نے درشتی سے پوچھا۔ فقیر اتنا ڈرا ہوا تھا کہ اس کے منہ سے کوئ بات ہی نہ نکلی اور اس نے صرف سر ہلا دیا۔ "جانتے ہو، یہ غلط بات ہے" خواجہ نصرالدین نے کہا"یہ غلط بات ہے کہ کسی کی ملکیت کا مفت استعمال کیا جائے"۔

    "سن رہا ہے نا، یہ معزز اور لائق صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟" باورچی خانے کے مالک نے خوش ہو کر کہا۔

    "تمھارے پاس پیسے ہیں؟" خواجہ نصرالدین نے فقیر سے پوچھا۔ فقیر نے اپنا ایک ایک پیسہ نکال کر خواجہ نصرالدین کے حوالے کر دیا۔ باورچی خانے کے مالک نے اپنا چکٹا ہاتھ پیسے لینے کے لئے بڑھایا۔

    "حضت، ذرا رکئے" خواجہ نصڑالدین نے کہا۔ "پہلے اپنا ذرا اپنا کان ادھر لائیے۔"

    "اور کافی دیر وہ سکوں کو مٹھی میںلئے مالک کے کان میں بجاتے رہے۔ پھر انھوں نے فقیر کو پیسے واپس دیتے ہوئے کہا "اطمینان سے جاؤ، سائیں جی!"

    "کیا!" باورچی خانے کا مالک چلایا " "لیکن مجھے تو پیسے ملے ہی نہیں۔"

    "اس نے تم کو پورے دام دئے ہیں" خواجہ نصرالدین نے کہا "اب تم دونوںبرابر ہو۔ اس نے تمھارے بوٹی کے کباب سونگہے اور تم نے اس کے سکوں کی جھنکار سنی"

    سب سننے والے زور سے ٹھٹھا مار کر ہنسے۔ ان میں سے ایک آدمی نے جلدی سے سب کو روک کر کہا "اتنے زور سے نہیں ورنہ وہ سمجھ جائیں گے کہ ہم خواجہ نصرالدین کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔"

    "ان کو کیسے پتہ ہے؟" خواجہ نصرالدین نے مسکراتے ہوئے سوچا "دراصل یہ بغداد کا نہیں بلکہ استنبول کا واقعہ ہے۔ پھر ان کو کیسے معلوم ہوا؟"

    پھر دوسرے آدمی نے، جو گلہ بان کے لباس میں تھا اور رنگین پگڑی باندھے ہوئے تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ بدخشاں کا رھنے والا ہے اپنا قصہ مدھم آواز میں شروع کیا:

    "کہا جاتا ہے کہ ایک دن خواجہ نصرالدین ایک ملا کی باڑی کے پاس سے گذر رہے تھے۔ ملا کچھ کدو ایک بورے میں بھر رہا تھا۔ لالچ میں آ کر اس نے بورے میں اتنے کدو بھر لئے تھے کہ بورے کو لے جانا تو الگ رہا اس کو اٹھانا تک ممکن نہ تھا۔ وہ ادھر ادھر تک رہا تھا کہ بورا گھر کیسے پہنچے۔ اس نے ایک راہ گیر کو دیکھا اور بہت خوش ہوا۔

    "سنو بیٹے، کیا تم یہ بورا میرے گھر تک پہنچا دوگے؟"

    اس وقت خواجہ نصرالدین کے پاس پیسے نہیں تھے۔ انھوں نے ملا سے پوچھا "تم مجھے کیا دو گے؟"

    "بیٹا، پیسے کیوں مانگتے ہو؟ بورا لے جاتے وقت راستے میں تم کو میں تین انتھائی حکیمانہ قول بتاؤں گا جن سے تمھیں زندگی میںمسرت نصیب ہوگی۔"

    "میں یہ قول ضرور سنوں گا" خواجہ نصرالدین نے سوچا۔ ان کو بڑا اشتیاق پیدا ہو گیا تھا۔ وہ بورے کو کاندھے پر لاد کر چل پڑے۔ راستہ پہاڑی پر تھا اور ڈھلوان کے پاس۔ خواجہ نصرالدین دم لینے کے لئے رکے۔ ملا نے بہت سنجیدہ اور پراسرار انداز میں کہا: "اچھا، پہلا قول سنو کیونکہ آدم کے زمانے سے لے کر اب تک اس سے بڑا حکیمانہ قول ساری دنیا میں نہیں پیدا ہوا ہے۔ اگر تم اس کے معنوں تک پہنچ گئے تو سمجھو کہ گویا الف لم کے رمز سے واقف آگاہ ہو گئے جس سے ہمارے پیغمبر اور ہادی حضرت محمد نے قرآن شریف کے دوسرے سورے کی ابتدا کی ہے۔ غور سے سنو! اگر تم سے کوئی یہ کہے کہ سواری پر چلنے سے پیدل چلنا بہتر ہے تو اس کی بات مت مانو۔ بیٹے میرے الفاظ نہ بھولنا اور برابر دن رات ان پر غور کرنا اور تب تم اس کی دانش مندی کی گہرائیوں تک پہنچ سکو گے۔ لیکن یہ قول تو دوسرے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیںہے جو مین تمھیں اس درخت کے قریب بتاؤں گا۔ دیکھو، وہ رہا آگے۔"

    "ذرا ٹھہرو تو، ملا صاحب"خواجہ نصرالدین نے سوچا اور پسینے سے شرابور وہ بورے کو درخت تک لے گئے۔

    ملا نے ایک انگلی اٹھا کر کہا: "دوسرا قول سنو کیونکہ اس کا انحصار پورے قرآن، نصف شریعت اور ایک چوتھائی طریقت پر ہے۔ جو آدمی اس کو سمجھ لیگا وہ نیکی اور سچائی کے راستے سے کبھی نہیں ہٹے گا۔ اس لئے بیٹے، اس قول کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہو کہ یہ تمھیں مفت حاصل ہو رہا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اگر کوئی تم سے یہ کہے کہ غریب کی زندگی امیر سے آسان ہے تو مت یقین کرو۔ لیکن یہ دوسرا قول تو تیسرے کے پاسنگ نہیں، تیسرا قول ایسا منور ہے کہ اس کا مقابلہ بس سورج کی چکا چوند کر دینے والی روشنی اور بحر ذخار کی گہرائی سے کیا جاتا ہے۔ میں یہ قول تم کو اپنے گھر کے پھاٹک پر بتاؤنگا۔ آؤ جلدی کریں، کیونکہ اب میں دم لے چکا ہوں۔"

    "مولانا ذرا ٹھہرئے!" خواجہ نصرالدین نے کہا۔ " میں آپ کا تیسرا قول بوجھ گیا۔ آپ اپنے گھر کے پھاٹک پر مجھے سے یہ کہیں گے کہ ہوشیار آدمی ہمیشہ بیوقوف آدمی سے اپنے کدو بھرے بورے مفت ڈھلوا لیتا ہے۔"

    "ملا حیرت سے پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔ خواجہ نصرالدین نے ٹھیک کہا تھا۔

    "اب ملا صاحب میرا واحد قول سنئے جو آپ کے تمام قولوں کے برابر ہے" خواجہ نصرالدین نے اپنی بات جاری رکھی " اور قسم ہے پیغمبر صاحب کی کہ میرا قول ایسا چکاچوند کرنے والا اور گہرا ہے کہ اس کا انحصار سارے اسلام، قرآن، شریعت اور طریقت اور بہت سی کتابوں پر ہے، بودھ، عیسائی اور یہودی مذاھب کی کتابوں پر بھی۔ ملا صاحب، سچے مذھب کی مجھے تعلیم اور ہدایت دینے والے بزرگ، اب میں آپ کے سامنے ایسے ناقابل تردید دانش مندانہ قول کا انکشاف کرونگا جس سے بہتر نہ تو پہلے کبھی تھا اور نہ آئندہ ہوگا۔ لیکن ذرا اس کے لئے پہلے سے تیاری کر لیجئے تاکہ آپ بے قابو نہ ہو جائیں کیونکہ اس سے آدمی آسانی سے پاگل بن سکتا ہے۔ یہ قول ایسا ہی متحیرکن، عجیب اور اتھاہ ہے۔ ملا صاحب، اپنے دماغ کو فولاد بنا کر اس کو سنئے۔ اگر کوئی آپ سے کہے کہ یہ کدو ٹوٹے نہیں ہیں تو اس کے منہ پر تھوک دیجئے، اس کو جھوٹا کہہ کر اپنے گھر سے نکال دیجئے!"

    یہ کہہ کر خواجہ نصرالدین نے بورا اٹھایا اور اس کو ڈھلوان سے نیچے چھوڑ دیا۔ کدو بورے سے لنڈھک کر باہر آ گئے اور پتھروں سے ٹکراتے، اچکتے اور کھڑکھڑاتے نیچے چلے گئے۔

    "ارے ہائے، ہائے" ملا فریاد کرنے لگا "کیسا نقصان ہوا، تباہ ہو گیا!" پاگلوں کی طرح وہ چیخنے، گریہ و زاری کرنے اور اپنا چہرہ نوچنے لگا۔

    "دیکھئے نا"خواجہ نصرالدین نے کہا "میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میرا قول ممکن ہے آپ کو پاگل بنا دے!"۔

    سننے والوں میں پھر قہقہہ گونجا۔

    کونے میں گرد آلود، جوئیں بھری چٹائی پر لیٹے لیٹے خواجہ نصرالدین نے سوچا:

    "اچھا تو انھوں نے یہ بھی سن رکھا ہے! لیکن کیسے؟ راستے پر تو بس ہم دونوں تھے۔ ملا اور میں اور میں نے کسی سے بھی نہیں کہا۔ شاید جب ملا کو یہ پتہ چلا ہوگا کہ کون اس کے کدو لے جا رہا تھا تو اس نے لوگوں سے کہا ہوگا۔"

    اب تیسرے نے اپنا قصہ شروع کر دیا:

    "ایک دن خواجہ نصرالدین شہر سے اس ترکی کے گاؤں لوٹ رہے تھے جہاں وہ رھنے لگے تھے۔ وہ تھک کر ایک چشمے کے کنارے لیٹ گئے اور پانی کی قلقل کی آواز اور بہار کی مہک دار ہوا میں بلاارادہ سوگئے۔ انھوں نے خواب میں یہ دیکھا کہ وہ مر گئے ہیں۔ "اگر میں مر گیا ہوں" انھوں نے فیصلہ کیا " تو تو مجھے حرکت کرنی چاہئے اور نہ آنکھیں کھولنی چاہئیں۔" اس لیے وہ بالکل ساکت نرم گھاس پر پڑے رہے اور انہیں یہ محسوس ہوا کہ مردہ ہونا کوئ یبری بات نہیں ہے کیونکہ اس طرح فانی دنیا کے وجود کی تمام فکروں اور جھگڑوں سے جو متواتر پریشان کرتی رہتی ہیں آزاد ہو کر اطمینان سے لیٹا جاسکتا ہے۔

    "کچھ مسافروں نے جو ادھر سے گذر رہے تھے، خواجہ نصرالدین سے کو دیکھا۔

    "دیکھو!" ایک نے کہا "مسلمان ہے۔"

    "مر گیا ہے" دوسرا بولا۔

    "ہمیں اسے قریب ترین گاؤں لے چلنا چاہئے" تیسرے نے کہا۔

    یہ وھی گاؤں تھا جہاں خواجہ نصرالدین جا رہے تھے۔

    آدمیوں نے کئی شاخیں کاٹ کر ایک اسٹریچر سا بنا لیا اور اس پرخواجہ نصرالدین کو لٹا دیا۔ وہ ان کو لے کر بہت دیر تک چلتے رئے اور خواجہ صاحب آنکھیں بند کئے ایسے مردے کی طرحپڑے رہے جس کی روح جنت کے دروازے تک پہنچ چکی ہو۔

    اچانک اسٹریچر رک گیا۔ راھی ایک دریا پار کرنے کے بارے میں بحث کرنے لگے۔ ایک نے تجویز پیش کی کہ دائیں طرف جانا چاہئے، دوسرے نے کہا بائیں اور تیسرے نے کہا سیدھے دریا کے پار۔ خواجہ نصرالدین نے ذرا سی آنکھ کھول کر دیکھا کہ یہ لوگ دریا کے سب سے گہرے، انتھائی تیز باؤ والے اور بہت ہی خطرناک حصے کے پاس کھڑے ہیں جہاںبہت سے لاپروا لوگ ڈوب چکے تھے۔

    "مجھے اپنی پروا نہیں"خواجہ نصرالدین نے سوچا "کیونکہ میں تو مر چکا ہوں اور اب میں چاہے قبر میںلیٹوں یا دریا کی تہہ میں، کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن ان مسافروں کو ضرور آگاہ کر دینا چاہئے کیونکہ وہ میرے اوپر مہربان ہونے کی وجہ سے اپنی جان گنوا سکتے ہیں۔ ان کو آگاہ نہ کرنا میرے لئے بڑی ناشکری کی بات ہوگی۔"

    وہ اسٹریچر پر ذرا سا ابھرے اور ندی کی طرف اشارہ کرکے دھیمی آواز میںبولے "مسافرو، جب میںزندہ تھا تو میں دریا کو حور کے ان درختوں کے پاس پار کیا کرتا تھا۔" یہ کہہ کر انھوں نے اپنی آنکھیں پھر بند کر لیں۔ مسافروں نے خواجہ نصرالدین کا شکریہ ادا کیا اور بخشائش کی دعائیں کرتے ان کے اسٹریچر کو لیکر پھر آگے بڑھ گئے۔"

    جب سننے والے اور کہانی کہنے والا دونوں ہنس رہے تھے اور ایک دوسرے کو کہنیاں مار رہے تھے، خواجہ نصرالدین ناراض ہو کر بڑبڑا رہے تھے:

    "ان لوگوں نے سب گڈ مڈ کر دیا ہے۔ اول تو میں نے یہ خواب کبھی نہیںدیکھا کہ میں مر گیا ہوں۔ میں اتنا احمق نہیںھوںکہ میں یہ نہ سمجھ سکوں کہ مردہ ہوں یا زندہ۔ ارے، مجھے یہ تک یاد ہے کہ ایک پسو مجھے کاٹ رہا تھا اور میرا دل چاہتا تھا کہ کاش میں کھجلا سکتا۔ یقینا یہ اس بات کا صاف ثبوت ہے کہ میں زندہ تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مجھے پسو کے کاٹنے کا احساس نہ ہوتا۔ بات صرف یہ تھی کہ میں بہت تھک گیا تھا اور چلنا نہیں چاہتا تھا۔ مسافر مضبوط تھے اور ان کے لئے یہ کوئی بات نہ تھی کہ وہ ذرا اپنے راستے سے ہٹ کر مجھے گاؤں پہنچا دیں۔ لیکن جب انھوںنے دریا کو ایسی جگہ سے پار کرنا چاہا جہاں تین آدمیوںکے ڈباؤ بھر پانی تھا تو میں نے ان کو روک دیا۔ مجھے تو ان کے خاندانوں کا خیال تھا اپنے خاندان کا نہیں کیونکہ میرا خاندان تو ہے ہی نہیں۔ اور مجھے فوراً اپنی ناشکری کا تلخ پھل چکھنا پڑا کیونکہ میرے بروقت انتباہ پر شکرگذار ہونے کی بجائے مجھے مسافروں نے اسٹریچر سے نکال پھینکا اور مکوں سے میری خاطرکی۔ وہ میری خوب مرمت کرتے اگر میرے تیزرفتار پیروں نے میری مدد نہ کی ہوتی۔واقعی، عجیب بات ہے، لوگ سچ کو کیسا توڑ موڑلیتے ہیں!"

    اس دوران میں چوتھے آدمی نے اپنا قصہ چھیڑ دیا:

    "خواجہ کے بارے میںیہ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک بار وہ تقریباً چھ مہینے تک ایک گاؤں میں رہے جہاں وہ اپنی ذھانت اور حاضر جوابی کیوجہ سے کافی مشہور ہو گئے تھے۔۔۔"

    خواجہ نصرالدین کے کان کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے یہ آواز کہاں سنی تھی۔ بہت بلند نہیں لیکن صاف اور ذرا بھاری اور حال ہی میں۔۔۔ شاید آج ہی۔۔۔ انھوں نے بہت کوشش کی لیکن یاد نہ آیا۔

    آدمی نے اپنی داستان جاری رکھی:

    "ایک دن صوبے کے گورنر نے اس گاؤں کو اپنا ہاتھی بھیجدیا جہاں خواجہ نصرالدین رھتے تھے۔ گاؤں والوں کو ہاتھی کی خوراک مہیا کرنی اور اس کی دیکھ بھال کرنی تھی۔ ہاتھی بڑا کھاؤ تھا۔ چوبیس گھنٹے میں اس نے پچاس دھرے جو، پچاس دھرے باجرہ، پچاس دھرے مکئی اور ایک سو گٹہے گھاس ہڑپ کر لی۔ دو ہفتے میںگاؤں والوں کا سارا ذخیرہ ہاتھی کی نذر ہو گیا۔ وہ بالکل تباہ اور سخت پریشان ہو گئے۔ آخر کار انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خواجہ نصرالدیین کو گورنر کے پاس یہ التجا لیکر بھیجیں گے کہ اپنا ہاتھی واپس بلالے۔

    اب انھوں نے خواجہ نصرالدین سے درخواست کی اور وہ اس پر تیار ہو گئے۔ انھوں نے اپنے گدھے پر کاٹھی کسی، جس کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ ضدی، بدمزاج اور کاھل ہونے میں وہ گیدڑ، مکڑی، سانپ اور مینڈک کا مجموعہ ہے۔ کاٹھی کس کر خواجہ نصرالدین گورنر سے ملنے چل دئے لیکن جانے سے پہلے وہ گاؤں والوں سے یہ طے کرنا نہیں بھولے کہ ان کی خدمات کا معاوضہ کیا ہوگا۔ دراصل انھوں نے اتنی بڑی رقم لی کہ بہتوںکو اپنا گھربار بیچنا پڑا اور خواجہ نصرالدین کیوجہ سے وہ محتاج ہو گئے۔"

    "ھونہہ" اس کونے سے آواز آئی جہاں خواجہ نصرالدین نمدے پر پڑے اپنے غصے کو ضبط کرنے کے لئے کروٹیں بدل رہے تھے۔

    آدمی نے داستان جاری رکھی:

    "تو خواجہ نصرالدین محل پہنچے۔ وہ بڑی دیر تک خدمتگاروں اور ملازموں کے جمگھٹے میںکھڑے رہے جو اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ حضور گورنر صاحب ان پر بھی وہ نظر ڈالیں جو کسی کے لئے مسرتیں اور کسی کے لئے تباھی لاتی تھی۔ اور جب گورنر نے خواجہ نصرالدین کی طرف رخ کرنے کی عنایت فرمائی تو خواجہ نصرالدین ان کی شان وشوکت دیکھ کر ایسا ڈرے اور بدحواس ہوئے کہ ان کے پیر گیدڑ کی دم کی طرح کانپنے لگے اور ان کی رگوں میں خون جم سا گیا۔ وہ پسینے میں بالکل شرابور ہو گئے اور رنگ سفید پڑ گیا۔"

    "ھونہہ" پھر کونے سے آواز آئی لیکن داستان گو نے اس کی پروا کئے بغیر بات جاری رکھی:

    "تم کیا چاہتے ہو؟" گورنر نے اپنی بلند اور گونجدار آواز میں جس میں شیر کی گرج تھی، پوچھا۔ ڈر کی وجہ سے خواجہ نصرالدین کی زبان بند ہو گئی۔ لکڑبگھے جیسی گھگھیائی ہوئی آواز سے انھوں نے کہا "حضور عالی، ہمارے صوبے کو منور کرنے والے سورج اور چاند، ہمارے صوبے کے تمام باشندوں کو خوشیاں اور مسرتیں بخشنے والے، اپنے اس ادنی خادم کی، جو آپ کے محل کی چوکھٹ پر اپنی داڑھی سے جھاڑو دینے کے قابل بھی نہیںھے، ایک بات سنئے۔ اے آفتاب تاباں! ہمیں آپ نے یہ عزت بخشی ہے کہ اپنا ایک ہاتھی ہمارے گاؤں کو کھلانے پلانے اور دیکھ بھال کے لئے بھیج دیا ہے۔ اس لئے ہم لوگ ذرا پریشان ہیں۔۔۔"

    گورنر نے غصے سے ناک بھوں چڑھائی۔ خواجہ نصرالدین اس کے سامنے اس طرح جھک گئے جیسے آندھی سے سرکنڈا جھک جاتا ہے۔

    "تمجھے کیا پریشانی ہے؟" گورنر نے پوچھا۔ "بول، یا تیرے گندے اور ذلیل تالو میں زبان چپک گئی ہے؟"

    "آ، آ، آپ۔۔۔ آپ" ڈرپوک خواجہ نصرالدین ہکلا رہے تھے "ہم لوگ پریشان ہیں، اے آفتاب تاباں، کہ ہاتھی تنہائی محسوس کر رہا ہے۔ بےچارہ بہت رنجیدہ ہے اور سارا گاؤں اس کو غمگین دیکھ کر ملول ہو گیا ہے۔ اے اشرف الاشرافین، زینت ارض اسی لئے میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ ہمارے اوپر مزید عنایات کریں اور ایک ہتھنی بھیج بھی بھیج دیں۔

    "گورنر اس درخواست سے بہت خوش ہوا اور فورا اس کی تکمیل کا حکم دیا۔ اپنی مسرت کا اظہار کرنے کے لئے اس نے خواجہ نصرالدین کو اپنے جوتے کا بوسہ لینے کی اجازت دی جس کو خواجہ نصرالدین نے اتنے جوش و خروش سے کیا کہ گورنر کے جوتے کی پالش اڑ گئی اور خواجہ نصرالدین کے ہونٹ کالے ہو گئے۔۔۔"

    یہاں داستان گو کو خود خواجہ نصرالدین کی گرجتی ہوئی آواز نے روک دیا۔

    "جھوٹا کہیں کا!" خواجہ نصرالدین چلائے۔ "گندے، خارشئےکتے، تیرے ہونٹ، تیری زبان اور اندر سے سارا بدن برسر اقتدارد لوگوں کے جوتے چاٹتے چاٹتے سیاہ ہو گئے ہیں۔ خواجہ نصرالدین نے کبھی اور کسی جگہ حاکموں کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ تو خواجہ نصرالدین کو بدنام کرتا ہے۔ مسلمانو، اس کی بات مت سنو! اس کو نکال دو!"

    وہ اس افترا پرداز سے نبٹنے کے لئے لپکے لیکن چپٹے، چیچک بھرے چہرے اور زرد تھرکنے والی آنکھوں کو پہچان کر اچانک رک گئے۔ یہ تو وھی نوکر تھا جس نے گلی میں ان سے جنت کے پل پر کٹہروں کی لمبائی کے بارے میں تکرار کی تھی۔

    "اھا!" خواجہ نصرالدین نے زور سے کہا۔ "پہچان گیا تجھ کو اپنے مالک کے زر خرید اور خیرخواہ خادم! اور اب یہ بھی جان گیا تیرے ایک اور مالک بھی ہے جس کا نام تو نے چھپا رکھا ہے٬ بتا خواجہ نصرالدین کو چائے خانے میں برا بھلا کہنے کے لئے تجھ کو امیر سے کتے پیسے ملتے ہیں۔ کتنے پیسے خبر رسانی کے لئے ملتے ہیں اور ہر آدمی کے لئے جس کے ساتھ تو غداری کرتا ہے تجھ کو کیا ملتاھے؟ ہر سزا پانے والے اور جیل کی کال کوٹھری میں ڈالے جانے والے اور پابہ زنجیر کئے جانے والے اور غلام بنائے جانے والے کے لئے تجھے کیا دیا جاتا ہے؟ اے امیر کے جاسوس اور خبررساں میں تجھے پہچان گیا!"

    جاسوس نے جو ابھی تک ڈر کے مارے بے حس اور خاموش تھا اچانک تالی بجائی اور زور سے کہا:

    "پہرے دارو، ادھر آؤ!"

    خواجہ نصرالدین نے اندھیرے میں پہرے داروں کے دوڑنے، نیزوں کی کھڑکھڑاھٹ اور ڈھالوں کی جھنکار سنی۔ ایک لمحہ ضایع کئے بغیر وہ کود کر ایک طرف ہو گئے، انھوں نے چیچک رو جاسوس کو جو ان کا راستہ روکے کھڑا تھا زمین پر گرا دیا تھا۔

    لیکن اب انھوں نے چوک کے دوسری طرف سے پہرے داروں کے قدموں کی آواز سنی۔ جس سمت بھی وہ بھاگتے ان کا سامنا پہرے داروں سے ہوتا۔ ایک لمحے کے لئے انھوں نے سوچا کہ اب بچ کر نکلنا ممکن نہیں ہے۔

    "مصیبت آگئی، پھنس گیا میں" وہ زور سے چلائے "الوداع میرے وفادار گدھے!"

    لیکن اسی وقت ایک ایسا غیر متوقع واقعہ ہوا جو بخارا میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور کبھی فراموش نہ کیا جائے گا کیونکہ بڑا زبردست ہنگامہ ہوا اور تباھی آئی۔

    اپنے مالک کی غم انگیز چیخیں سن کر گدھا ان کی طرف دوڑا لیکن اس کے پیچھے ایک بڑا پیپا بھی صحن میں اچھلتا کودتا چلا۔ خواجہ نصرالدین نے لاعلمی میں اپنے گدھے کو اس پیپے کے آنکڑے سے باندھ دیا تھا جو چا خانے کا مالک بڑے تہواروں پر گاھک بلانے کے لئے پیٹا کرتا تھا۔ پیپا ایک پتھر سے ٹکرایا اور بھڑبھڑایا اور گدھے نے پیچھے مڑ کر دیکھا، پیپا پھر بھڑبھڑایا۔ گدھے نے سوچا کہ بھوت پریت اس کے مالک کا خاتمہ کرکے اب اس کی بھوری کھال کے پیچھے پڑے ہیں۔ وہ دھشت سے رینکا اور اپنی دم اٹھا کر بےتحاشا چوک کے پار بھاگا۔

    اسی وقت ایک کارواں کے آخری پچاس اونٹ جن پر چینی کے برتن اور تابنے کی چادریں لدی تھیں چوک میں داخل ہورہے تھے۔ رینکنے کی دھشتناک آؤاز اور ایک جانور کی اچھل کود سے جو اندھیرے مٰں سیدھا ان سے ٹکرا گیا خوفزدہ اونٹ ادھر ادھر بھاگے۔ چینی کے برتن اور جھن جھناتی ہوئی تانبے کی چادریں نیچے آرہیں۔

    ایک لمحے میں پورے بازار میں اور ساتھ کی سڑکوں پر ایسا زبردست ہنگامہ اور گڑبڑ ہوا جس کی مثال نہیں ملتی۔ گرجنے، بجنے، ٹکرانے، چیخنے، بھونکنے، غرانے اور ٹوٹنے پھوٹنے کی آوازیں سب مل کر ایک ہنگامہ بن گئیں۔ ہر ایک بدحواس ہو گیا۔ سیکڑوں اونٹ، گھوڑے اور گدھے اپنے کھونٹوں سے تڑآ کر اندھیرے میں تانبے کی چادروں کے درمیان شور کرتے بھاگ رہے تھے اور ساربان و سائیس مشعلیں لئے شور و غل کرتے ادھر ادھر دوڑ رہے تھے۔

    لوگ اس ہنگامے سے جاگ پڑے اور نیم عریاں ادھر ادھر دوڑنے لگے۔ وہ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے۔ ان کی رنج و غم اور مایوسی سے بھری ہوئی آوازیں اندھیرے میں گونج رہی تھیں کیونکہ وہ سوچ رہے تھے کہ قیامت آگئی ہے۔
    مرغ بانگ دے رہے تھے اور اپنے پر پھڑپھڑا رہے تھے۔ ہنگامہ اتنا بڑھا کہ سارے شہر اور اس کے مضافات تک پھیل گیا۔ آخر کار شہر کی فصیل پر توپیں گرجنے لگیں کیونکہ شہر کے پہرے داروں نے سمجھا کہ دشمن نے بخارا پر حملہ کر دیا ہے اور محل کی توپیں بھی چھوٹنے لگیں کیونکہ محل کے پہرے داروں نے خیال کیا کہ بغاوت ہو گئی ہے۔ بےشمار میناروں سے مؤذنوں کی غم انگیز پریشان کن اذان گونجی۔ اندھیرے میں قطعی ہنگامہ برپا تھا، کسی کو پتہ نہ تھا کہ کدھر جائے۔

    اور اس تاریکی اور ہنگامے کے قلب میں خواجہ نصرالدین بھاگ رہے تھے۔ وہ بڑی صفائی سے بھڑکے ہوئے گھوڑوں اور اونٹوں سے بچتے، پیپے کی آواز کے ذریعہ اپنے گدھے کا پیچھا کر رہے تھے۔ وہ گدھے کو اس وقت تک نہ پکڑ سکے جب تک کہ رسی ٹوٹ نہ گئی اور پیپا اونٹوں کے پیروں سے لگ کر کسی طرف لنڈھک نہ گیا۔ پیپے سے بچنے کے لئے جو اونٹ بدحواس ہو کر بھاگ رہے تھے انھوں نے شامیانے، چائے خانے اور چھوٹی چھوٹی دوکانیں گرا دیں۔

    خواجہ نصرالدین کو گدھے کی تلاش میں بڑی دیر لگتی لیکن اتفاق سے ایک دوسرے سے سامنا ہو گیا۔ گدھا پسینے سے شرابور سر سے پیر تک کانپ رہا تھا۔

    "چل، جلدی چل، یہاں بڑا غل غپاڑہ ہو رہا ہے" خواجہ نصرالدین نے گدھے کو کھینچتے ہوئے کہا "یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اگر کسی چھوٹے گدھے سے کوئی پیپا باندھ دیا جائے تو بڑے شہر میں کتنا بڑا ہنگامہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ دیکھ، تو نے کیا کیا ہے! یہ سچ ہے کہ تو نے مجھے پہرے داروں سے بچالیا، لیکن مجھے بخارا کے شہریوں پر افسوس آتا ہے۔ یہ سب گڑ بڑ ٹھیک کرنے میں ان کو صبح ہو جائے گی۔ ہمیں کہاں کوئی خاموش اور پرامن جگہ مل سکتی ہے؟"

    خواجہ نصرالدین نے رات ایک قبرستان میں گذارنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی یہ دلیل بجا تھی کہ چاہے جتنا ہنگامہ کیوں نہ ہو، مردے نہ تو بھاگیں گے اور نہ چیخیں چلائیں گے یا مشعلیں لیکر دوڑیں گے۔

    ہنگامہ پرور اور عوام کو اکسانے والے خواجہ نصرالدین نے اپنے شہر میں واپسی کا پہلا دن اسی طرح گذارا جو ان کے خطاب کے لئے سزاوار تھا۔ انھوں نے اپنے گدھے کو ایک قبر کے پتھر سے باندھ دیا اور خود ایک قبر پر دراز ہو گئے اور جلدی سوگئے۔ اس دوران میں شہر میں ہنگامہ، غل شور، گھڑگھڑاہٹ اور توپوں کی گرج کافی دیر تک جاری تھی۔

    اختتام باب 8
Last edited by سیدتفسیراحمد on Thu Sep 18, 2008 3:28 am, edited 1 time in total.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

(۹)

صبح سویرے جب ستارے دھندلے پڑنے لگے اور اندھیرے سے ھلکے ھلکے خط و خال ابھرنے لگے تو سیکڑوں جاروب کش، بڑھئی اور تھوئی بازار کے چوک میں جمع ھوگئے اور خوب زوروں سے کام شروع کردیا۔ انھوں نے گرے ھوئے شامیانے کھڑے کیے، پلوں کی مرمت کی، باڑوں میں ٹوٹی پھوٹی جگہیں ٹھیک کیں، تمام لکڑی کے ٹکڑے اور ٹوٹے برتن اس طرح صاف کجئے کہ سورج کی پہلی کرنوں کو بخارا میں اتنے بڑے ھنگامے کا کوئی نام و نشان نہ ملا۔

بازار کھل گیا۔

قبرستان میں رات بھر اچھی طرح آرام کرنے کے بعد خواجہ نصرالدین اپنے گدھے پر سوار چوک آئے۔ وھاں خوب زوروں کی چہل پہل تھی اور بازار بہت سی زبانوں اور قوموں والے رنگین مجمع سے بھرا ھوا تھا۔ "ھٹو بچو، ھٹو بچو!" خواجہ نصرالدین کو اپنی آواز سوداگروں، ساربانوں، بہشتیوں، حجاموں، آوارہ درویشوں، فقیروں، بازار میں دانت اکھاڑنے والوں (جو اپنے پیشے کے زنگ آلود اور دھشتناک آلات لئے ھلا رھے تھے) کی آوازوں میں گم ھوگئی۔ رنگا رنگ قبائیں، عمامے، گھوڑے کی جھولیں اور قالین، چینی، عربی، ھندستانی، منگولیائی اور بہت سی دوسری زبانیں اس بھیڑ بھکڑ اور غل غپاڑے میں گڈ مڈ ھو رھی تھیں۔ ایسی گرد اڑ رھی تھی کہ آسمان چھپ گیا تھا۔ چوک میں لوگوں کا تانتا بندھا تھا جو اپنا سامان بازار میں لگا رھے تھے اور ان کی ھانکیں عام ھنگامے میں اضافہ کر رھی تھیں۔ کمھار چھوٹی چھوٹی چھڑیوں سے اپنے برتن بجا بجا کر اور راہ گیروں کا دامن تھا کر التجا کر رھے تھے کہ وہ ان برتنوں کی صاف کھنک سنیں۔ اس طرح وہ انھیں خریدنے کی ترغیب دے رھے تھے۔ ٹھٹھیروں کی قطار میں تانبے کی چمک چکاچوند کررھی تھی اور ان چھینیوں اور ھتھوڑیوں کی آواز فضا میں گونج رھی تھی جن سے وہ کشتیوں اور صراحیوں پر نقش و نگار بنا رھے تھے، ساتھ ھی وہ اپنی دستکاری کی تعریف بھی کرتے جاتے تھے اور پڑوسیوں کے کام کی برائی۔ سونار چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں چاندی پگھلا رھے تھے، سونے کے تار کھینچ رھے تھے اور چمڑے کے گولوں کے ذریعہ قیمتی ھندوستانی جواھرات کو جلا دے رھے تھے۔ کبھی کبھی ھوا کا ھلکا سا جھونکا آتا اور عطر سازوں کی طرف سے خوشبو کی زوردار لپٹ آتی جہاں گلاب کا عطر، عنبر اور مشک اور مختلف قسم کے مسالے فروخت ھوتے تھے۔ ایک طرف رنگا رنگ، پھول پتیاں اور شبیہیں بنے ھوئے ایران، دمشق اور کاشغر کے قالین، گھوڑے کی رنگین جھولیں، سستی اور بیش قیمت دونوں طرح کی یعنی معمولی اور بہترین گھوڑوں کےلئے لامحدود قطاروں میں چلی گئی تھیں۔

خواجہ نصرالدین ریشم والوں، ساز بنانے والوں، اسلحہ بیچنے والوں اور رنگ ریزوں کی لائنوں، غلاموں کے بازار اور اون تیار کرنے والوں کی طرف سے گذرے۔ اور یہ سب صرف بازار کی شروعات تھی کیونکہ سیکڑوں اور قطاریں آگے تھیں۔ خواجہ نصرالدین اپنے گدھے پر مجمع میں جتنا ھی گھستے گئے اتنی غل غپاڑہ، طول تکرار، چیخ پکار اور طے توڑ کی آوازیں اور زیادہ کان پھاڑنے لگیں۔ ھاں یہ وھی بازار تھا۔ بخارا کا مشہور اور لاجواب بازار جس کی مثال نہ تو دمشق میں تھی اور نہ خود بغداد میں۔

آخر کار وہ ان قطاروں کے جھمیلے سے باھر نکلے اور امیر کا محل دیکھا جو ایک روزن دار فصیل سے گھرا ھوا تھا۔ چاروں کونوں کے کناروں پر عرب اور ایرانی کاریگروں نے بڑی مہارت سے برسوں میں رنگا رنگ پچی کاری کی تھی۔

محل کے پھاٹک کے باھر رنگ برنگی خیمے پھیلے ھوئے تھے۔ پھٹے پرانے شامیانوں کے نیچے لوگ گرمی سے تھک کر چٹائیوں پر لیٹے یا بیٹھے تھے۔ کچھ اکیلے ھی تھے اور کچھ اپنے خاندان کے ساتھ۔ عورتیں بچوں کو کھلا رھی تھیں، کھانا پکا رھی تھیں، پھٹی ھوئی قباؤں اور گدوں کی مرمت کر رھی تھیں۔ نیم عریاں بچے ادھر ادھر دوڑ رھے تھے، غل مچا رھے تھے۔ وہ آپس میں جھگڑتے اور ٹھوکر کھا کر گرتے تھے اور گستاخی سے اپنے بدن کا وہ حصہ محل کی طرف کیے ھوئے تھے جس کو چھپانا چاھئے۔ مرد سو رھے تھے یا کوئی گھریلو کام کر رھے تھے یا پھر چائے دانیوں کے گرد بیٹھ کر گپ لڑا رھے تھے۔ "ارے، یہ لوگ تو شاید یہاں کئی دن سے ھیں!"خواجہ نصرالدین نے سوچا۔

ان کی توجہ دو آدمیوں کی طرف گئی جن میں ایک گنجا اور دوسرا داڑھی والا تھا۔ دونوں اپنے اپنے شامیانوں کے نیچے کھری زمین پر لیٹے تھے۔ دونوں کے درمیان کھونٹے سے ایک سفید بکری بندھی تھی جو ایسی دبلی پتلی تھی کہ بس اس کی پسلیاں کھال پھاڑ کر نکلتی ھوئی معلوم ھوتی تھیں۔ وہ بڑے غمگین لہجے میں ممیا رھی تھی اور کھونٹے کو کتر رھی تھی جس کو وہ ابھی تک آدھا کھا چکی تھی۔

خواجہ نصرالدین فطرتا کھوجی واقع ھوئے تھے اس لئے وہ سوال کئے بغیر نہ رہ سکے:

"سلام علیکم، بخارا کے شہریو! بتائیے کہ آپ لوگ خانہ بدوشوں میں کب سے شامل ھوگئے ھیں؟"

"مسافر، ھماری ھنسی نہ اڑاؤ!" داڑھی والے نے جواب دیا "ھم خانہ بدوش نہیں ھیں بلکہ تمھاری ھی طرح نیک مسلمان ھیں۔"

"لیکن اگر آپ نیک مسلمان ھیں تو اپنے گھر میں کیوں نہیں رھتے؟ محل کے پھاٹک پر کیا انتظار ھے؟"

"ھم اپنے بادشاہ اور مالک امیر کے منصفانہ فیصلے کے منتظر ھیں جن کی آب و تاب آفتاب کو بھی شرماتی ھے۔"

"اچھا" خواجہ نصرالدین نے طنز کو چھپائے بغیر کہا۔ "تو کیا آپ اپنے بادشاہ اور مالک، امیر کے منصفانہ فیصلے کا جنکی آب و تاب آفتاب کو شرماتی ھے کافی دنوں سے انتظار کر رھے ھیں؟"

"مسافر، ھم چھ ھفتے سے انتطار کر رھے ھیں" گنجا بولا "یہ داڑھی والا جھگڑیلو، اللہ اس کو مارے، شیطان اس کو دفعان کرے ” یہ داڑھی والا جھگڑیلو میرا بڑا بھائی ھے۔ ھمارے والد کا انتقال ھوا ۔ انھوں نے کچھ ملکیت چھوڑی ۔ ھم نے سب کچھ تقسیم کر لیا ھے سوائے اس بکری کے ۔ اب امیر اس کا فیصلہ کریں گے کہ یہ کس کی ھونی چاھئے۔“

” لیکن وہ بقیہ ملکیت کہاں ھے جو تم کو وراثت میں ملی ھے؟“

” ھم نے وہ سب نقد کرلیا۔ درخواست لکھنے کے لئے عرضی نویس کو دینا پڑتا ھے پھر درخواست لینے والے منشی ، پہرے داروں اور بہت سے لوگوں کو۔۔“

گنجا یکایک اچک کر اُٹھا اور ایک گندے ، ننگے پیر درویش سے ملنے کے لئے لپکا جو مخروطی ٹوپی پہنے تھا اور اس کے پہلو سے کشکول لٹک رھی تھی۔

”میرے لئے دعا کیجئے، اے بزرگ! دعا کیجئے کہ فیصلہ میرے حق میں ھو!“

درویش نے پیسے لے لئے اور دعا شروع کر دی۔ جیسے ھی وہ اپنی دعا کے آخری الفاظ تک پہنچا گنجے نے اس کی کشکول میں ایک سکہ اور ڈال دیا تاکہ وہ دعا کو از سرِ نو شروع کر سکے۔

داڑھی والا بے چینی سے اُٹھا اور مجمع میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔ کافی تلاش کے بعد اس کی نظر ایک اور درویش پر پڑی جو پہلے والے سے زیادہ گندا اور چیتھڑوں میں تھا اس لئے زیادہ بزرگ بھی تھا۔ اس درویش نے کافی بڑی رقم طلب کی۔ داڑھی والے نے کچھ طے توڑ کرنا چاھا لیکن درویش نے اپنی ٹوپی کے نیچے ٹٹول کرمٹھی بھر چیلڑ برآمد کئے۔ داڑھی والا یہ دیکھ کر فوراً اس کی کرامات کا قائل ھو گیا اور مطلوبہ رقم مان لی۔ اس نے اپنے چھوٹے بھائی پر فاتحانہ نظر ڈالتے ھوئے رقم گنی۔

درویش نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر زور زور سے دعا شروع کی۔ اس کی بھاری بھرکم آواز میں پہلے درویش کی مدھم آواز غائب ھو گئی۔

گنجے نے پریشان ھو کر اپنے درویش کو چند سکے اور دئے ، داڑھی والے نے بھی یہی کیا اور دونوں درویشوں نے ایک دوسرے کو شکست دینے کے لئے وہ چیخم دھاڑ کی کہ غالباً اللہ میاں نے فرشتوں کو آسمان کی کھڑکیاں بند کرنے کا حکم دے دیا ھوگا۔ بکری برابر کھونٹے کو کترے جا رھی تھی اورغمگین لہجے میں ممیا رھی تھی ۔

گنجے بھائی نے اس کے سامنے تھوڑی سی گھاس ڈال دی جس پر داڑھی والا زور سے چیخا:

”اپنی گندی بدبو دار گھاس میری بکری کے پاس سے لے جاؤ !“

اس نے لات مار کر گھاس الگ ھٹا دی اور بکری کے سامنے بھوسے کی ناند لگا دی۔

” نہیں!“ گنجا غصے میں چلایا۔ ”میری بکری تمھارا بھوسا نہیں کھائے گی!“

اب ناند بھی گھاس کے پاس پہنچ گئی۔ وہ ٹوٹ گئی اور بھوسا سڑک کی مٹی میں مل گیا۔

دونوں بھائی سخت غصے میں دست و گریباں ھو گئے۔ وہ زمین پر لوٹ رھے تھےاور ایک دوسرے کی گھونسوں اور گالیوں سے خاطر کر رھے تھے۔

”دو بیوقوف لڑ رھے ھیں، دو دھوکے باز دعا کر رھے ھیں اور بکری بے چاری بھوکوں مر رھی ھے“ خواجہ نصرالدین نے سر ھلاتے ھوئے کہا ”ارے نیک بخت اور محبت کرنے والے بھائیو ، اِدھر دیکھو! اللہ نے اس جھگڑے کا فیصلہ اپنے طور پر کر دیا۔ اس نے بکری کو تم سے لے لیا۔“

بھائیوں کو ھوش آیا اور انھوں نے ایک دوسرے کو چھوڑ دیا۔ وہ اپنے خون آلود چہرے لئے بڑی دیر تک مُردہ بکری کو گُھورتے رھے۔ آخر کار گنجے نے کہا:

” اس کی کھال تو نکال لینا چاھئے۔“

” یہ میں کرونگا“داڑھی والا جلدی سے بولا ۔

” تم کیوں کرو گے؟“دوسرے نے پوچھا۔ اس کا گنجا سر غصے سے سرخ ھو رھا تھا ۔

” بکری میری ھے اور اسی لئے اس کی کھال بھی۔“

” نہیں ، میری ھے! “

قبل اس کے کہ خواجہ نصرالدین کچھ بولیں دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا پھر زمین پر لوٹ رھے تھے۔ ایک لمحے کے لئے بھاری مٹھی میں سیاہ بالوں کا گچھا نظر آیا جس سے خواجہ نصرالدین نے نتیجہ اخذ کیا کہ بڑے بھائی کی داڑھی کا کچھ حصہ غائب ھو چکا ھے۔

نا امیدی سے ھاتھ جھٹک کے خواجہ نصرالدین آگے بڑھ گئے ۔

ایک لوھار ان کی طرف آرھا تھا۔ اس کے پٹکے میں ایک سنسی لگی ھوئی تھی ۔ یہ وھی لوھار تھا جس نے خواجہ نصرالدین سے ایک دن پہلے تالاب پر باتیں کی تھیں۔

” سلام علیکم، آھنگر!“ خواجہ نصرالدین نے خوشی سے کہا ۔ ” ھماری ملاقات پھر ھوگئی۔ حالانکہ مجھے ابھی اپنا وعدہ پورا کرنے کا موقع نہیں ملا ھے۔ آھنگر، تم یہاں کیا کر رھے ھو؟ کیا تم بھی امیر سے اپنے انصاف کا مطالبہ کرنے آئے ھو؟

” ایسے انصاف سے بھلا کیا ھوسکتا ھے؟“ لوھار نے افسردگی سے کہا۔ ” میں لوھاروں کی لائن سے فریاد لے کر آیا ھوں۔ ھم کو پندرہ پہرے دار دئے گئے جنھیں ھمیں تین مہینے تک کھلانا پلانا تھا۔ “

” ایک سال گذر چکا ھے اور وہ اب بھی ھمارے اُوپر مسلط ھیں۔ اس وجہ سے ھم بڑا نقصان اُٹھا رھے ھیں۔“

” اور میں رنگریزوں کی طرف سے آیا ھوں“ ایک آدمی بیچ میں بولا جس کے ھاتھوں پر رنگ کے دھبے تھے اور جس کے چہرے کا رنگ زھر آلود بھاپ کی وجہ سے جس میں وہ صبح سے شام تک سانس لیتا تھا سبزی مائل ھو گیا تھا۔ ” میں بھی اسی طرح کی فریاد لے کر آیا ھوں۔ ھم کو پچیس پہرے دار ملے ھیں ۔ ھمارا کاروبار تباہ ھو گیا اور نفع بہت کم ھو گیا۔ شاید امیر ھمارے اُوپر رحم کھا کر ھمیں اس ناقابل برداشت بار سے چھٹکارا دلا دیں۔“

”آخر تم بیچارے پہرے داروں کو کیوں ناپسند کرتے ھو؟ “ خواجہ نصرالدین نے زور سے کہا ” سچ مچ، وہ بخارا کے سب سے زیادہ برے اور لالچی لوگ تو نہیں ھیں۔ تم لوگ بلا شکایت کئے امیر ، اس کے تمام وزراءاور عمائدین کو کھلاتے ھو، تم دو ھزار ملاؤں اور چھ ھزار درویشوں کو کھانا دیتے ھو۔ تو آخر پہرے دار ھی کیوں بھوکے رھیں؟ کیا تمھیں یہ کہاوت معلوم نہیں کہ جہاں ایک گیدڑ کو کھانا ملا وھاں دس فوراً اور آجاتے ھیں۔ آھنگر اور رنگ ریز تمھاری شکایت میری سمجھ میں نہیں آتی۔“

”آھستہ سے“ آھنگر نے چاروں طرف دیکھتے ھوئے کہا ۔

رنگ ریز نے خواجہ نصرالدین کی طرف ملامت آمیز نظروں سے دیھا اور کہا ”مسافر تم خطرناک آدمی ھو۔ تمھارے الفاظ میں نیکی نہیں ھے۔ لیکن ھمارے امیر عقلمند اور فیاض ھیں۔“

وہ رک گیا کیونکہ اچانک قرناؤں اور نقاروں کی آواز گونج اُٹھی ۔ جیسے ھی محل کے پھاٹک کے پیتل سے منڈھے دروازے آھستہ آھستہ کھلے خیموں کا سارا رنگا رنگ جنگل جاگ اُٹھا۔

”امیر ! امیر!“ ھر طرف غلغلہ ھوا اور لوگ اپنے امیر کو دیکھنے چاروں طرف سے محل کی طرف دوڑ پڑے ۔ خواجہ نصرالدین نے اگلی صفوں میں ایک معقول جگہ چن لی۔

پہلے پھاٹک سے نقیب اعلان کرتے ھوئے نکلے ” امیر کے لئے راستہ دو ، مقدس امیر کے لئے راستہ دو! مجاھد دین کے لئے راستہ دو! “

ان کے بعد پہرے دار آئے جو اپنے ڈنڈوں سے دائیں بائیں ان لوگوں کی پیٹھوں اور سروں پر بارش کر رھے تھے جو اشتیاق میں بہت قریب آگئے تھے۔ مجمع کے درمیان ایک چوڑا راستہ بن گیا۔ اب نقارے ، شہنائیاں ، طنبورے اور قرنائیں لئے موسیقار آئے۔ اس کے بعد زریں ریشمی لباس میں ، مرصع مخملی نیاموں میں ھلالی شمشیریں لگائے دستہ برآمد ھوا ۔ پھر دو ھاتھی نکلے جن کے سروں پر لمبی کلغیاں تھیں۔ آخرمیں ایک بہت ھی مرصع اور سجی ھوئی پالکی نمودار ھوئی جس میں خود باعظمت امیر ایک بھاری زریں نمگیرے کے نیچے تشریف فرما تھے۔

اس منظر کو دیکھ کر مجمع سے ایک غلغلہ بلند ھوا جیسے کہ چوک پر کوئی ھوا کا جھونکا آ گیا ھو اور سب لوگ زمین پر سجدے میں جھک گئے کیونکہ امیر کا حکم تھا کہ اس کی تابعدار رعایا اپنے کو امیر کا بندہ بے دام خیال کرے اور اس سے آنکھیں نہ چار کرے ۔ پالکی کے آگے آگے خدام دوڑ دوڑ کر قالین بچھائے جاتے تھے ، دائیں طرف شاھی مورچھل بردار کاندھے پر مورچھل رکھے چل رھا تھا اور بائیں طرف بڑی سنجیدگی اور شان سے ترکی کا سنہرا حقہ لئے حقے بردار تھا۔

جلوس کے پیچھے حصے میں پیتل کے خودوں ، سپروں ، نیزوں ، تیر کمانوں اور ننگی تلواروں سے لیس پہرے دار تھے۔ سب سے آخر میں دو چھوٹی توپیں تھیں۔ سارا جلوس دوپہر کی تیز دھوپ سے چمچما رھا تھا۔ سورج نے جواھرات ، سونے چاندی کے زیورات ، پیتل کے خودوں ، سپروں اور سفید فولادی ، ننگی تلواروں کو آئنیے کی طرح چمکا دیا تھا۔۔۔ لیکن اس سجدے میں پڑے ھوئے زبردست مجمع میں نہ تو جواھرات چمک رھے تھے اور نہ سونا حتٰی کہ تانبے تک کی چمک نہ تھی ۔ غرض کوئی ایسی چمک دمک نہ تھی جو دل کو خوش کرسکتی ھو۔ وھاں تو صرف چیتھڑے ، غربت اور بھوک تھی۔ اور جب امیر کا پُرتکلف جلوس اس گندے ، جاھل اور کچلے ھوئے لوگوں کے سمندر کے درمیان سے گذر رھا تھا تو ایسا معلوم ھوتا تھا جیسے گدڑی میں لعل ھو۔

قالینوں سے سجا ھوا اُونچا چبوترہ جہاں سے امیر اپنی وفادار رعایا پر عنایت کی بارش کرنے والے تھے پہلے ھی چاروں طرف سے پہرے داروں سے گِھر چکا تھا اور نیچے سولی کے میدان میں جلاد بڑے زوروں کے ساتھ امیر کے احکام کی تعمیل کے لئے تیاری کر رھے تھے ۔ وہ سلاخوں کی لچک اور ڈنڈوں کی مضبوطی کی جانچ کر رھے تھے، چمڑے کے کوڑے طشتوں میں بھگو رھے تھے ، سولیاں نصب کر رھے تھے ، کلہاڑیاں تیز کر رھے تھے اور زمین میں تیز نوکوں والے ستون گاڑ رھے تھے ۔ اس کا منتظم شاھی پہرے داروں کا داروغہ ارسلان بیک تھا جس کی بربریت کا چرچا بخارا سے باہر دُور دُور پھیل چکا تھا ۔ وہ لال چہرے ، بھاری جسم اور کالے بالوں والا آدمی تھا۔ اس کی داڑھی سینے پر اپنا گھنا سایہ کئے ھوئے ناف تک لٹک رھی تھی اور اس کی آواز اونٹ کی بلبلاھٹ سے ملتی جلتی تھی۔ وہ بڑی فیاضی کے ساتھ گھونسوں اور لاتوں کی بارش کر رھا تھا۔ اچانک وہ بہت نیچا جھکا اور چاپلوسی سے کانپنے لگا۔

آھستہ آھستہ جھولتی ھوئی پالکی چبوترے تک پہنچی اور امیر نے اس کے پردے ھٹاتے ھوئے اپنے درشن رعایا کو دئے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 10

Post by سیدتفسیراحمد »

(۱۰)

تقدس مآب امیر بہر حال ایسا کچھ صورت دار نہیں تھا۔ اس کا چہرہ جس کی تشبیہ اکثر درباری شعراء تابدار ماہِ کامل سے دیتے تھے پلپلے خربوزے سے زیادہ مشابہہ تھا۔ وہ اپنے وزیروں کے سہارے سنہرے تخت پر جلوہ فرمانے کے لئے پالکی سے اُترا۔ خواجہ نصرالدین نے دیکھا کہ درباری شعراء کے دعوؤں کے برعکس وہ بالکل سرو سہی قد نہ تھا۔ اس کا جسم موٹا اور بھاری تھا ، اس کے ہاتھ چھوٹے اور پیر اتنے ٹیڑھے تھے کہ اس کی قبا سے بھی یہ عیب نہیں چھپ رھا تھا۔

وزراء اس کے دائیں طرف کھڑے ھوگئے ۔ ملاؤں اور عمائدین کو بائیں طرف جگہ ملی ، نیچے احکام نویس اپنے رجسٹر اور دواتیں لئے جمے تھے اور درباری شعراء نے تخت کے پیچھے اس طرح نیم حلقہ بنا لیا تھا کہ ان کی نظر اپنے آقا کی گدی پر رھے۔ شاھی مورچھل بردار مورچھل جھلنے لگا۔ حقے بردار نے سنہری نال اپنے مالک کے ھونٹوں سے لگا دی۔ چبوترے کو گھیرے ھوئے زبردست مجمع دم بخود کھڑا تھا۔ خواجہ نصرالدین رکابوں کے اُوپر اُٹھے اور اپنی گردن نکال کر غور سے سننے لگے۔

امیر نے اُونگھتے ھوئے سر ھلایا۔ پہرے داروں نے دو حصوں میں تقسیم ھوکر گنجے اور داڑھی والے دونوں بھائیوں کو راستہ دیا جن کی باری تھی۔ وہ گھٹنوں کے بل گھسٹتے ھوئے چبوترے تک گئے اور زمین تک لٹکتے ھوئے قالین کو بوسہ دیا۔

”اٹھو !“ وزیر اعظم بختیار نے کہا۔

دونوں بھائی اٹھے لیکن ان کی یہ جرأت نہ ھوئی کہ وہ اپنی قباؤں کی دُھول جھاڑ دیں۔ خوف نے ان کی زبان اس طرح پکڑ لی تھی کہ وہ ھکلا رھے تھے اور ان کی بات سمجھ میں نہیں آرھی تھی ۔ لیکن بختیار آخر بہت تجربے کار وزیر تھا۔ وہ ایک نظر میں ساری صورت حال بھانپ گیا۔

” تمھاری بکری ھے کہاں؟“ اس نے بے چین ھو کر بیچ میں لقمہ دیا۔

گنجے بھائی نے جواب دیا ” وزیر اعلی نسب، وہ تو مر چکی، اللہ نے اس کو اپنے پاس بلا لیا ۔ لیکن کھال کا مالک کون ھے؟ “

بختیار امیر کی طرف مڑا۔

” کیا حکم ھے اے شاہِ دانش وراں؟“

امیر نے بالکل بے تعلقی سے جمائی لیکر آنکھیں بند کر لیں ۔ بختیار بڑے ادب سے بھاری سفید دستار والا سر جھکایا:

”مالک، میں نے فیصلہ آپ کے چہرے سے معلوم کر لیا ! سنو“ وزیر نے بھائیوں کی طرف مڑ کر کہا ۔ وہ گھٹنوں کے بل جھک گئے اور امیر کی عقل، انصاف اور مہربانی کا شکریہ ادا کرنے کے لئے کمر بستہ ھو گئے ۔ بختیار نے فیصلے کا اعلان کرنا شروع کیا اور احکام نویس اپنے اپنے بڑے رجسٹروں میں اس کے الفاظ لکھنے کے لئے اپنے قلم دوڑانے لگے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

” امیر المومنین، آفتاب جہاں، باعظمت امیر، خدا ان پر رحمتیں نازل کرتا رھے ان کا یہ فیصلہ ھے کہ اگر بکری کو اللہ نے لے لیا ھے تو کھال انصاف کے مطابق زمین پر اللہ کے نائب یعنی خود عظیم ا میر کی ملکیت ھونی چاھئے۔ اس لئے بکری کی کھال نکال کر اس کو سکھانا اور پکانا چاھئے اور محل میں لا کر شاھی خزانے کے حوالے کرنا چاھئے۔“

بھائیوں نے بدحواس ھو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا، مجمع میں چُپکے چُپکے کُھسر پُھسر ھونے لگی۔ بختیار نے اپنا حکم زوردار اور صاف آواز میں جاری رکھا :

” اس کے علاوہ مدعیان دو سو تانگے مقدمے کے اخراجات ، ڈیڑھ سو تانگے محل کا ٹیکس ، پچاس تانگے احکام نویسوں کا خرچ ادا کریں اور مسجدوں کی آراستگی کے لئے بھی چندہ دیں۔ یہ تمام رقم نقدی یا کپڑوں یا کسی اور قسم کی جائداد کی صورت میں فوراً وصول کی جائے۔ “

ابھی بختیار نے اپنی بات ختم بھی نہیں کی تھی کہ ارسلان بیک کے اشارے پر پہرے دار دونوں بھائیوں پر ٹوٹ پڑے ، ان کے پٹکے کھول دئے ، جیبیں باھر نکال کر جھاڑ لیں ، قبائیں تار تار کر دیں اور جوتے اتار کر ان کو ننگے پیر اور نیم عریاں کر کے گردن پکڑ کر ڈھکیل دیا۔

یہ سارا قصہ چُٹکی بجاتے ھو گیا ۔ فیصلہ کا اعلان ھوتے ھی درباری شاعروں نے تحسین و مرحبا کے نعرے لگائے

” دانا امیر، داناؤں کے دانا ! دانائے روزگار!“

تخت کی طرف اپنی گرنیں بڑھا بڑھا کر وہ اس طرح کی تعریفیں دیر تک کرتے رھے۔ ان میں سے ھر ایک چاھتا تھا کہ اس کی آواز سب سے بلند ھو کر امیر کے گوش گذار ھو سکے۔ اس دوران میں چبوترے کے چاروں طرف مجمع خاموش کھڑا ھمدردی اور افسوس کے ساتھ دونوں بھائیوں کو دیکھ رھا تھا۔

”پرواہ مت کرو! “ خواجہ نصرالدین نے بڑے سنجیدہ لہجے میں دونوں بھائیوں سے کہا جو ایک دوسرے سے چمٹے دھاڑیں مار کر رو رھے تھے ۔ ” بہر حال چوک پر چھ ھفتے انتظار کا وقت ضایع نہیں گیا۔ تمھارا فیصلہ منصفانہ اور رحیمانہ ھے کیونکہ کیونکہ ھر ایک جانتا ھے کہ دنیا بھر میں ھمارے امیر سے زیادہ دانشمند ، زیادہ رحیم اور کوئی نہیں ھے، اور اگر کسی کو اس میں شک ھو ۔۔۔“ یہاں انھوں نے چاروں طرف اپنے آس پاس کے لوگوں کو دیکھا اور کہا ” تو پہرے داروں کو بلانے میں دیر نہ لگے گی۔ اور وہ؟ ھاں ، وہ شبہ کرنے والے مردود کو جلادوں کے حوالے کر دیں گے جو آسانی سے اسے بتا دیں گے کہ وہ کس طرح غلط راستے پر چل رھا ھے۔ ارے بھائیو! اطمینان سے گھر جاؤ۔ اب کبھی اگر تمھاری لڑائی کسی مرغی کے بارے میں ھو تو پھر امیر کی عدالت میں آنا ۔ لیکن ذرا پہلے اپنے مکانات، انگور کے چمن اور کھیت بیچ لینا ، نہیں تو ٹیکس نہیں ادا کر سکو گےاور اس سے امیر کے خزانے کو نقصان ھوگا جس کا خیال ھی ھر وفادار رعایا کے لئے ناقابلِ برداشت ھونا چاھئے۔“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

” کاشکہ ھم اپنی بکری کے ساتھ ھی ختم ھو جاتے“ بھائیوں نے آنسو بہاتے ھوئے کہا ۔

” کیا تمھارے خیال میں آسمان پر بیوقوف کافی تعداد میں نہیں ھیں؟“ خواجہ نصرالدین نے پوچھا ۔ ” معتبر آدمیوں نے مجھے بتایا ھے کہ آجکل جنت و جہنم دونوں احمقوں سے بھرے پڑے ھیں اور اب اور نہیں لئے جارھے ھیں۔۔۔ بھائیو، میں تمھارے لئے ابدیت کی پیشین گوئی کرتا ھوں۔۔۔ اب یہاں سے رفو چکر ھو جاؤ کیونکہ پہرے دار ادھر دیکھ رھے ھیں اور تمھاری طرح میں لافانی ھونے پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔“

دونوں بھائیوں نے زور زور سے سسکیاں بھرتے، اپنا چہرہ نوچتے اور سڑک کی زرد خاک اپنے سروں پر اُڑاتے چلے گئے۔

اب لوھار امیر کے سامنے حاضر ھوا۔ اس نے اپنی شکایت بھاری گرجدار آواز میں پیش کی ۔ وزیر اعظم بختیار نے امیر کی طرف دیکھا:

” اعلٰیٰ حضرت ، کیا حکم ھوتا ھے؟“

امیر سو رھا تھا اور اس کے کھلے ھوئے منہ سے خراٹے صادر ھو رھے تھے ۔ بختیار ذرا بھی نہ جھجکا اور بولا:

”جہاں پناہ ، میں نے آپ کا حکم چہرے سے معلوم کرلیا ھے۔ “

اور اس نے شان کے ساتھ اعلان کیا :

”خدا کی طرف سے جو رحیم و کریم ھے ، امیر المومنین اور ھمارے آقا نے جو اپنی رعایا کی فکر سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں رھتے اس کو یہ عزت دے کر بڑی مہربانی اور عنایت کا اظہار کیا ھے کہ وہ امیر کے پہرے داروں کی دیکھ بھال اور کھانے پینے کا انتظام کر سکے۔ یہ سہولت دیکر امیر نے بخارا شریف کے شہریوں کو یہ باعزت موقع دیا ھے کہ وہ ھر روز اور ھر گھنٹے اپنے امیر کے لئے جذبہ احسان و شکر کا اظہار کر سکیں۔ اس قسم کی عزت ھمارے پڑوسی ملکوں کے باشندوں کو حاصل نہیں ھے لیکن لوھاروں کی قطار نے اپنی سعادت مندی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس کے بر عکس آھنگر یوسف نے عقبٰی کے عذابوں اور گنہ گاروں کے لئے بال سے باریک پُل کی پرواہ کئے بغیر ڈھٹائی سے اپنی ناشکری کا اظہار کیا ھے۔ مزید برآں، اس کو یہ جرأت ھوئی کہ وہ اپنی شکایت آقا و مولا ، تقدس مآب امیر کے سامنے لائے جن کا نور آفتاب کو بھی ماند کرتا ھے۔“

”اس لئے ھمارے تقدس مآب امیر نے عنایت فرما کر یہ فیصلہ صادر فرمایا ھے کہ آھنگر یوسف کو دو سو درے لگائے جائیں۔ اس سے اس کو بلاشبہ توبہ کا خیال آئے گا جس کے بغیر اس پر جنت کے دروازے کھلنا ممکن نہیں ھیں۔ جہاں تک آھنگروں کی قطار کا سوال ھے تقدس مآب امیر نے اپنی مزید عنایت و مہربانی کا اظہار کیا ھے اور بیس اور پہرے دار وھاں رھنے اور کھانے پینے کے لئے بھیج دئے ھیں۔ اس طرح وہ ھر روز اور ھر گھنٹے ھمارے امیر کی دانشمندی اور رحم و کرم کی تعریف کرنے کی خوش نصیبی سے محروم نہ ھوں گے۔ یہ ھے ان کا فیصلہ ، خدا ان کو اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے لئے بہت دنوں تک سلامت رکھے۔“
Post Reply

Return to “اردو ناول”