عمران ہارون دوستی خاتمے کے قریب؟ رؤف کلاسرا کا تجزیہ

ملکی اور غیرملکی واقعات، چونکا دینے والی خبریں اور کچھ نیا جو ہونے جا رہا ہے
Post Reply
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

عمران ہارون دوستی خاتمے کے قریب؟ رؤف کلاسرا کا تجزیہ

Post by چاند بابو »

[center]عمران ہارون دوستی خاتمے کے قریب؟ رؤف کلاسرا کا تجزیہ[/center]

[center]Image[/center]

میانوالی کے جلسے میں ہارون الرشید کا موجود نہ ہونا اور ان کے دو شدید ناقدین اور میرے دوست حامد میر اور سیلم صافی کا وہاں موجود ہونا بہت سارے لوگوں کے نزدیک ایک ایسا اشارہ ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان اور ہارون الرشید کی دو دہائیوں پر محیط دوستی آخر اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے۔ سب کے ذہنوں میں ایک سوال ڈنک مار رہا ہے کہ حامد میر اور سلیم کے ساتھ ہارون الرشید کو کیوں نہیں بلایا گیا۔ اس طرح صرف حامد میر اور سیلم ہی کیوں، باقی صحافی کیوں نہیں ؟ یہ سوال اس لیے کیا جارہا ہے کہ اس کا ایک بیک گراونڈ ہے جسے ہم یہاں سمجھنے کی کوشش کرتے ہں۔
یہ کوئی اتفاق نہیں تھا بلکہ پورا ایک پلان تھا جس کا شاید میرے دوستوں حامد میر اور سیلم صافی کو بھی علم نہ ہو کیں کہ صرف انہیں ہی میانوالی کے جلسے میں کیوں لے جایا گیا ۔ عمران خان نئے نئے سیاسی دوستوں کو تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ اب نئے صحافی دوست بھی تلا ش کر رہا ہے ۔ اس لیے مجھے لگ رہا ہے کہ عمران پاکستان کے قابل احترام کالم نگار ہارون الرشید کا” بوجھ ” اپنی سیاسی کشتی سے اتارنا چاہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ عمران کو یہ بات کسی نے سمجھا دی ہے کہ جب تک ہارون الرشید ان کے حق میں کالم لکھتا رہے گا یا پھر ٹی وی چینلز پر نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے لیڈورں سے اس کے نام پر لڑتا رہے گا ، پاکستانی میڈیا اس پر تنقید بڑھاتا چلا جائے گا۔ لگتا ہے کہ عمران کو اب یہ پٹی پڑھائی گئی ہے کہ بہتر ہوگا کہ ایک چلاک سیاستدان کی طرح وہ لوگوں کو استعما ل کرنے کا فن سیکھے ۔ اس کو اب وہ رویہ رکھنا چاہیے جو صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی نے بابر اعوان کے ساتھ روا رکھا ہے کیونکہ سیاست کے سینے میں دل نہیں مفادات ہوتے ہیں۔
شاید اب تک عمران اس مشورے پر عمل کرنے کو تیار نہیں تھا لیکن جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی جیسے نئے لیڈروں نے اسے یہ فیصلہ کرنے میں خاصی مدد دی ہے کہ اگر عمران نے میڈیا میں اپنی پی آر بہتر کرنی ہے تو پھر پہلی فرصت میں اسے دو صحافیوں کو اپنے ساتھ میانوالی کے جلسے میں لے جانے کی ضرورت ہے اور جب یہ دو صحافی اس کے ساتھ ہوں تو پھر اسے ہارون الرشید کو میانوالی نہیں بلانا چاہیے۔
عمران مان گیا !!
میرے دوستوں سیلم صافی اور حامد میر کے ساتھ ہارون الرشید کے تعلقات تقریبا ختم ہو چکے ہیں۔ میری اطلاعات ہیں کہ بو ل چل بھی بند ہے۔ حالانکہ کسی دور میں ہارون الرشید، دونوں حامد میر اور سیلم صافی کے پروگرامز کے مستقل مہمان ہوتے تھے۔ کچھ زیادتی ہارون الرشید نے اپنے کالموں میں میرے ان دوستوں کے ساتھ کی تو رعایت حامد میر اور سیلم صافی نے بھی نہیں کی۔ یوں لڑائی کھل کر سامنے آگئی۔ دلچسپ بات ہے کہ لڑائی کی وجہ بھی عمران خان ہے۔ سیلم صافی نے اپنے انٹرویو میں عمران سے پوچھ لیا کہ اسے تو وہ لو گ ( صحافی) دفاع کر تے ہیں جن کے پاکستانی فوج کے ساتھ تعلقات ہیں۔ سیلم کا اشارہ ہارون الرشید کی طرف تھا جن کے جنرل کیانی سے گہرے مراسم ہیں اور ہارون صاحب ان کو چھپاتے بھی نہیں۔ پچھلے دنوں چھ گھنٹے تک ان کی ملاقات جنرل کیانی سے ان کے گھر پر ہوئی جو سنا ہے کہ صبح گئے تک چلی۔
ہارون الرشید اس سوال پر صافی سے شدید ناراض ہوئے کہ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہی عمران کا سیلم کو انٹرویو دینے کے لیے راضی کیا تھا اور سیلم نے اسے ہی رگید دیا۔ بغیر کسی کا نام لیے ہارون الرشید کے قریبی حلقوں کا خیال ہے کہ جس دن جی ایچ کیو میں جنرل کیانی نے صحافیوں کو ایک بریفنگ کے بعد ان کا ہاتھ پکڑا اور اپنے دفتر چائے پلانے لے گئے تو اس کے بعد بہت سارے صحافی ان کے دشمن ہو گئے تھے۔جب کہ ہارون الرشید کے ناقد سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی کالم نگار اپنے کسی کالم میں اپنی رائے جنرل کیانی یا عمران یا جنرل پاشا پر دے دیں تو وہ ان پر اپنے کالموں میں نہ صرف دفاع کرتے ہیں بلکہ الٹا ان پر حملے بھی کرتے ہیں۔ یوں ہارون الرشید کے تعلقات سب سے خراب ہوگئے ہیں۔ میں خود کئی دفعہ ہارون صاحب سے اس بات پر خاصی بحث کر چکا ہے کہ آپ کئی دفعہ زیادتی کر جاتے ہیں لیکن حد ادب کی حد آتے ہی میں ان کے سامنے خاموش ہو جاتا ہوں۔
تاہم عمران پر اپنی پارٹی کے اندر سے دباؤ بڑھنا شروع ہو گیا تھا کہ اسے اگر پاکستانی میڈیا میں اپنے حامی پیدا کرنے ہیں تو پھر اسے ہارون الرشید سے جان چھڑانی ہو گی کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سارے لوگ عمران پر جان بوجھ کر تنقید کر رہے ہیں جس سے پارٹی کی مقبولیت کا گراف بڑی تیزی سے نیچے آرہا ہے۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہارون کو اس طرح پیچھے دھکیلا جائے جیسے تحریک انصاف کے پرانے ورکرز کو اٹھا کر پھینکا گیا۔ عمران میں بھی کسی حد تک ہر کامیاب سیاستدان کی طرح کچھ خود غرضانہ خوبیاں موجود ہیں اور اس کا مظاہرہ اس وقت سامنے آیا جب سیلم صافی نے اپنے ایک پروگرام میں عمران سے کہا کہ ان کے پارٹی کے پرانے ورکز گلا کرتے ہیں کہ انہوں نے نئے لوگ لا کر انہیں بالکل بھلا دیا تھا۔ برے وقتوں میں قربانیاں انہوں نے دی تھیں جب کہ چوری کھانے والے مجنوں کوئی اور ہیں۔ اس پر عمران نے ایسا جواب دیا جس نے مجھے بھی حیران کر دیا۔ عمران نے کہا کہ اگر وہ پرانے لوگ اس چکر میں تھے کہ انہوں نے فائدے اٹھانے ہیں تو پھر بہتر ہے کہ وہ پارٹی میں نہ رہیں۔ کیا ایک سیاسی آدمی اس طرح اپنے پرانے وفادار ساتھیوں کی تنقید کا جواب دیتا ہے ؟
واقف حال کہتے ہیں کہ ہارون الرشید کو cut to size کرنے کا ٹھیکہ عمران خان کے کزن حفیظ اللہ نیازی نے اٹھایا جن کا نام کبھی ہارون الرشید کے ہر دوسرے کالم میں ہوتا تھا اور ہارون کی وجہ سے لوگوں نے انہیں جاننا شروع کیا تھا۔ نیازٰی صاحب جن سے میری بھی اچھی یاد اللہ ہے، نے سیلم صافی کو لاہور سے فون کیا کہ وہ ہر قیمت پر میانوالی جلسے میں جائیں گے۔ سیلم صافی نے حامی نہ بھری توجاوید ہاشمی خود صافی کو گھر سے لینے اسلام آباد پہنچ گئے۔ اس طرح حامد میر کو بھی گھیرا گیا اگرچہ حامد ہمیشہ فیلڈ میں جانے کو تیار رہتے ہیں۔
ان دونوں کو میانوالی ساتھ لے جانے کا مقصد تھا کہ لوگوں، میڈیا اور عوام میں یہ پیغام جائے کہ آئندہ عمران کو ہارون الرشید کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے۔ یہ ایک طرح سے اعلان لاتعلقی تھا کہ عمران کا ہارون الرشید کی صحافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سب کو علم تھا کہ پچھلے دنوں ہارون الرشید، سیلم صافی اور حامد میر نے ایک دوسرے کے خلاف سخت کالم بھی لکھے لہذا بہتر سمجھا گیا کہ عمران کو ہارون الرشید کے اثرات سے نکالنے کے لیے ان دو کالم نگاروں کو ساتھ لے جانا ضروری تھا جن کی آج کل ہارون سے بول چال تک نہیں تھی۔ حامد اور سیلم کو میانوالی کے جلسے میں خاصا پروٹوکول بھی دیا گیا تاکہ ہارون کو بھی پیغام بھیجا جا سکے کہ عمران صحافت میں کسی کا دوست نہیں ہے اور ہارون الرشید کا تو بالکل نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ حامد، صافی کے ساتھ ہارون الرشید کو کیوں نہیں بلایا جا سکتا تھا ؟
تاہم مزے کی بات ہے کہ واپسی پر حامد میر، ملتانی پیر شاہ محمود قریشی کی گاڑی میں سوار تھے تو سیلم صافی جاوید ہاشمی کی گاڑی میں۔ جب یہ دونوں گاڑیاں موٹر وے پر چکری پر پہنچیں تو دونوں کا پٹرول ختم ہوگیا حالانکہ گاڑیوں کے ڈرایؤر مسلسل قریشی اور ہاشمی کو یاد دلا رہے تھے کہ پٹرول ختم ہو رہا ہے۔ شاید دو گدی نشین انتظار کر رہے تھے کہ صافی اور حامد میر ملتان کے ان پیروں کو اپنی جیب سے پٹرول ڈلوا دیں گے۔ اس طرح گاڑیوں میں اسلام آباد سے جاتے اور میانوالی سے واپسی پر کھانے کو کوئی چیز نہ تھی کہ بندہ کوئی سینڈوج ہی رکھ لیتا ہے۔ دو گدی نشیوں جو کبھی بہاء الدین زکریا کی گدی کے ملکیت پر لڑے تھے، کے درمیان پھنسے میرے دوست حامد میر اور سیلم صافی نہ صرف بھوکے رہے بلکہ موٹر وے پر بغیر پٹرول بھی کھڑے پائے گئے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان کو یہ توقع ہے کہ حامد میر اور سیلم صافی اس کے حق میں ایسے لکھنا شروع کر دیں گے جیسے ہارون الرشید پورے یقین اور ایمان کا حصہ بنا کر لکھتے ہیں۔ ہارون رشید پر اس وجہ سے خاصی تنقید بھی ہوتی ہے کہ وہ صحافت سے زیادہ سیاست کرتے ہیں۔ لیکن وہ پھر بھی اپنے عزم پر قائم ہیں۔ میرا خیال ہے اگر کسی نے عمران کو یہ پٹی پڑھا دی ہے تو پھر وہ غلطی پر ہیں کیونکہ حامد میر اور سیلم ہرگز ایسا نہیں کریں گے۔ اگر ان دونوں نے ایک پیرا عمران کے حق میں لکھ بھی دیا تو وہ اگلے دس پیرے اس کے خلاف لکھیں گے تاکہ وہ اپنے آپ کوغیرجانبدار ثابت کر سکیں۔ اس میں حامد میر یا صافی کا قصور بھی نہیں کیونکہ صحافی کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ خبر ہو یا کالم وہ اسے نیوٹرل کرنے کے چکر میں رہتا ہے۔ لہذا اسے حامد اور سیلم کی طرف سے مزید تنقیدی مضامین کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ اب میرے ان دونوں قابل احترام دوستوں نے یہ ثابت کرنا ہے کہ انہیں میانوالی کے جلسے میں جانے کے بعد عمران کا حامی نہ سمجھ لیا جائے۔
جہاں تک ہارون الرشید کی بات ہے، میرا خیال ہے عمران خان کو غلط مشورے دیے جا رہے ہیں۔ میرا دوست سیلم صافی بھی یہ بات مانتا ہے کہ جتنا عمران کا دفاع ہارون الرشید نے اپنے کالموں اور ٹی وی شوز میں کیا ہے اس کا عشر آشیر بھی کوئی کالم نگار نہیں کر سکے گا۔ عمران شاید بھول گیا ہے کہ اس نے خود اپنی نئی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ پندرہ برس تک اکیلا لڑتا رہا ہے اور صحافیوں میں اگر کسی کو اس نے خود ان برے وقتوں کا دوست لکھا ہے تو وہ ہارون الرشید ہے۔ عمران کے علاوہ اس کی پارٹی میں کون تھا جو اس کے حق میں بات کر سکتا ؟ یا اس میں اہلیت ہوتی کہ وہ پییپلز پارٹی اور نواز لیگ کے خون کو گرمانے والے عابدی اور عابد شیر علی جیسے لیڈورں کا مقابلہ کر سکتا ؟ یہ حوصلہ ہارون ہی کر رہا تھا اور اس کے لیے میرے جیسے صحافی ان پر تنقید بھی کرتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ عمران کے بعد اگر اس کی پارٹی کے لیے بغیر کسی لالچ کے لیے کوئی اس کا مقدمہ لڑا ہے تو وہ ہارون الرشید ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اگر آج عمران کے پیچھے عوام نکل آئی ہے تو اس میں اسکی اپنی بے پناہ محنت اور حوصلے کے ساتھ ساتھ ہارون الرشید کا زیادہ نہیں تو بیس سے تیس فیصد ہاتھ ضرور ہے کہ اس بندے نے پہلے دن سے اس کے حق میں لکھا ہے اور کوئی سینٹ کا ٹکٹ یا سفیر بننے کے لے نہیں لکھا۔ اس نے عمران کو کچھ مالی فائدہ دیا ہوگا ، لیا نہیں ہے۔ شاید عمران کو یاد نہ ہو کہ انہی میانوالی کے راستوں پر وہ اور ہارون الرشید اکیلے سفر کرتے تھے جب ان تاریک دنوں میں عمران کے ساتھ کوئی چائے پینے کو راضی نہیں ہوتا تھا۔ سب اسے بیوقوف سمجھتے تھے اور اکیلا ہارون اسے سمجھدار سمجھتا اور میرے جیسے اس کے ناقدوں سے لڑتا بھی تھا۔
لگتا ہے کہ عمران سجھدار ہو گیا ہے ۔ سمجھداری کا پہلا ثبوت اس نے ہارون الرشید کو میانوالی کے جلسے سے دور رکھ کر دیا ہے ! دیکھنا یہ ہے کہ کیا میرے مہربان دوست ہارون رشید کو بھی اپنے دوست عمران کی” مجبوری” اور اس کا بھیجا ہوا پیغام سمجھ میں آتا ہے یا وہ اپنی پندرہ سالہ پرانی ضد پر قائم رہتے ہیں ۔ یہ پوری کہانی لکھنے کے بعد پتہ نہیں کیوں میرا جی چاہ رہا ہے کہ میں عمران کو اپنی فیورٹ فلم Braveheart کا وہ تاریخی ڈائیلاگ سناؤں جب سلطنت برطانیہ کا بوڑھا بادشاہ اپنے بیٹے کی باتوں سے مایوس ہو کر چلا اٹھتا ہے you are not a King, but try to act like one My son.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: عمران ہارون دوستی خاتمے کے قریب؟ رؤف کلاسرا کا تجزیہ

Post by محمد شعیب »

عمران خان کا معاملہ اب کچھ یوں ہے

سوف تری اذانکشف الغبار
افرس تحتک ام الحمار

ترجمہ: جب دھول چھٹے گی تو پتہ چلے گا کہ گدھے پر سوار تھے یا گھوڑے پر.

روس کے خلاف جب تک جنگ جاری رہی حقائق پوشیدہ تھے. جب جنگ ختم ہوئی تو پتہ چلا کہ کیا کیا گیم ہوئی. اسی طرح ابھی پاکستان میں سیاست کا دنگل جما ہوا ہے. جب سب کچھ ہو جائے گا تب پول کھلیں گے ...
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: عمران ہارون دوستی خاتمے کے قریب؟ رؤف کلاسرا کا تجزیہ

Post by بلال احمد »

شیئرنگ کا شکریہ
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
شازل
مشاق
مشاق
Posts: 4490
Joined: Sun Apr 12, 2009 8:48 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: عمران ہارون دوستی خاتمے کے قریب؟ رؤف کلاسرا کا تجزیہ

Post by شازل »

بہرحال رؤف کلاسرا کا تجزیہ درست ہو یا نہ ہو ایک دن عمران نے اس بندے کو ایسا دھکا دینا ہے کہ پھر یہ اٹھنے کے قابل نہیں‌ رہے گا.
Post Reply

Return to “منظر پس منظر”