فیس بک
-
- منتظم اعلٰی
- Posts: 6565
- Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
- جنس:: مرد
- Location: پاکستان
- Contact:
Re: فیس بک
جاوید چودھری نے سرسید احمدخان کو ہیرو بنا کر پیش کیا ہے.
حالانکہ فتنہ انکار حدیث میں سرسید احمد خان پیش پیش تھا.
اور پھر آج ہمیں انگریز کی اس تعلیم نے فحاشی،عریانی،بےدینی اور کالجوں یونیورسٹیوں کی بے حیائی کے علاوہ کیا دیا ؟
حالانکہ فتنہ انکار حدیث میں سرسید احمد خان پیش پیش تھا.
اور پھر آج ہمیں انگریز کی اس تعلیم نے فحاشی،عریانی،بےدینی اور کالجوں یونیورسٹیوں کی بے حیائی کے علاوہ کیا دیا ؟
-
- مدیر
- Posts: 10960
- Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
- جنس:: مرد
- Location: اللہ کی زمین
- Contact:
-
- دوست
- Posts: 220
- Joined: Fri Jun 11, 2010 5:04 pm
- جنس:: مرد
- Location: House#05,Gulberg# 1, Peshawar Cantt
Re: فیس بک
نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔۔۔۔۔بولوں تو کیا بولوں۔۔۔۔۔لکھوں تو کیا لکھوں۔۔۔
ارے چاند بابو کس کونے کھدرے میں براہ جمان ہیں حضور ذرا اس دھاگے پر تشریف لائیو۔ ہم چشم براہ ہیں۔
ارے چاند بابو کس کونے کھدرے میں براہ جمان ہیں حضور ذرا اس دھاگے پر تشریف لائیو۔ ہم چشم براہ ہیں۔
قال را بہ گزار مرد حال شو
پیش مرد کامل پامال شو (روم)
پیش مرد کامل پامال شو (روم)
-
- مدیر
- Posts: 10960
- Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
- جنس:: مرد
- Location: اللہ کی زمین
- Contact:
Re: فیس بک
rohaani_babaa wrote:نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔۔۔۔۔بولوں تو کیا بولوں۔۔۔۔۔لکھوں تو کیا لکھوں۔۔۔
ارے چاند بابو کس کونے کھدرے میں براہ جمان ہیں حضور ذرا اس دھاگے پر تشریف لائیو۔ ہم چشم براہ ہیں۔
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22224
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: فیس بک
السلام علیکم
بہت معزرت خواہ ہوں کہ باوجود بارہا توجہ دلانے کے میری نظروں سے یہ موضوع اوجھل ہی رہا اور اچانک ہی آج نظر آ گیا۔
جاوید چوہدری نے اچھا لکھا ہے، اس کی دلیل بھی جاندار ہے لیکن میرا ذاتی خیال ان سے تھوڑا سا مختلف ہے۔
جب سرسید احمد خان نے کتاب کا جواب کتاب سے دیا تھا اس وقت اور اب کے حالات میں بڑا فرق ہے۔
تب سرولیم میور اس کی گورنری یا اس کی حکومت کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا کہ کوئی مسلمان بچہ اسکول جاتا ہے یا نہیں،
کیونکہ غلاموں کو عقل دینے اور انہیں علم دینے کی کوشش آقاؤں نے کبھی نہیں کی ماسوائے اسلام کے،
اب ان کی بلا سے مسلمان بچہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ انہیں تو ان کی دولت لوٹ کر اپنے ملک منتقل کرنا تھی اور اس کے لئے ان کے لئے یہ بات زیادہ فائدہ مند تھی کہ جہالت چھائی رہے اور وہ خاموشی سے اپنا کام کرتے رہیں،
لیکن آج کی صورتحال بہرحال تب سے بہت مختلف ہے، آج اگر ہم کہیں کہ فیس بک کو ہمارے بائیکاٹ سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تو یہ بات بالکل غلط ہے۔
تجزیہ نگار جیسے جیسے تجزیئے مرضی کرتے رہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ فیس بک کو مسلم دنیا کے اکثر افراد کے سرد رویئے کی بنا پر اچھا خاصہ نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے، اور کوئی بھی کاروباری ادارہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کے منافع میں سے ایک پائی بھی کم ہو۔
لیکن دوسری طرف چونکہ ان کا مقصد پیسہ کمانے سے بھی زیادہ مسلمان کی تذلیل اور ان کے افکار کا بگاڑ ہے اس لئے باوجود نقصان کے وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔
بہرحال میرے خیال میں آج کے دور میں جواب کا پہلا طریقہ اس کا بائیکاٹ ہی ہے لیکن اس کے بعد وہ طریقہ بھی ضرور ہونا چاہئے جو سرسید احمد خان نے اختیار کیا تھا۔
اگر ایک فیس بک نے ساری دنیا کے لوگوں کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے تو کیا ہم ایسی کوئی ویب نہیں بنا سکتے ہیں جو اس کے مقابلے میں کھڑی ہو سکے۔
رہا سوال سرمائے کا تو اگر حکمران اپنی تیل کی دولت ایک رات کی عیاشی کے لئے برج العرب جیسے محلوں میں خرچ کرسکتے ہیں تو کیا وہ ایک ایسی سائیٹ کے لئے سرمایا کاری نہیں کر سکتے ہیں جو کل کلاں ان کی دولت کو راتوں رات دگنی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
یہاں بل گیٹس کی ایک بات میرے ذہن میں آ رہی ہے، اس نے کہیں کہا تھا کہ اس صدی میں کوئی آدمی غریب پیدا ہو یہ اس کا قصور نہیں ہے لیکن اگر وہ اس صدی میں غریب مرے گا تو یہ اس کا قصور ہے، اس کی اس بات کا پس منظر یہی تھا کہ اس صدی میں کمپیوٹر سائنس کی حیرت انگیز ترقی نے جہاں مواصلات میں جدت پیدا کر دی ہے وہیں کمانے کے بہت سے حیرت انگیز طریقے بھی پیدا کر دیئے ہیں۔
یہاں گوگل کی مثال بہت واضع ہے، 1996 میں وجود میں آنے والی اس سائیٹ کی سال 2006 کی منافع کی سٹیسٹیمنٹ 3077 میلن ڈالر پر مشتمل تھی اور اب تک اس میں یقینا پانچ سو گنا اضافہ ہو چکا ہو گا۔
یہ تو تھی ان کی باتیں جو اس کے لئے سرسید احمد خان جیسی کوشش کر سکتے ہیں لیکن ہم جو ابھی ایسا نہیں کر سکتے ہیں وہ بائیکاٹ تو کر سکتے ہیں کہ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ برے کو دل سے برا جاننا بھی ایمان کی نشانی ہے۔لیکن اس بائیکاٹ سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہونے والا ہے، فیس بک کو نقصان تو ضرور ہو گا لیکن شاید ہمیں اس کا کوئی فائدہ نا پہنچ سکے۔
ہاں علاج اس مرض زوال کا صرف ایک ہے کہ اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھام لیں، قرآن و سنت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں۔ نبی کا لباس، نبی کا چہرا، بنی کی معاشرت، اور نبی کی زندگی کو اپنی زندگیوں میں زندا کردیں۔ پھر ان سرکش اقوام میں جو عقل والے ہوں گے وہ بھی یہ ضرور سوچیں گے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو باجود ہماری تمام تر کوششوں کے اپنے نبی سے اپنے تعلق کو توڑنے کے بجائے اور جوڑ رہے ہیں۔ پہلے وہ عقیدت سے سرشار نظر اتے تھے اب تو پورے کے پورے انکے رنگ میں رنگ ہیں۔جب دلوں اور میں اسلام آئے گا تو معاشرا بھی اسلامی بن جائے گا، خلافت ارزی بھی ملے گی اور آخروی کابیابیاں بھی ہاتھ آئیں گی، بس پہلا قدم اٹھانا نفس پر بھاری ہے لیکن اگے کی منزل آسان تر ہوتی جائے گی۔
بہت معزرت خواہ ہوں کہ باوجود بارہا توجہ دلانے کے میری نظروں سے یہ موضوع اوجھل ہی رہا اور اچانک ہی آج نظر آ گیا۔
جاوید چوہدری نے اچھا لکھا ہے، اس کی دلیل بھی جاندار ہے لیکن میرا ذاتی خیال ان سے تھوڑا سا مختلف ہے۔
جب سرسید احمد خان نے کتاب کا جواب کتاب سے دیا تھا اس وقت اور اب کے حالات میں بڑا فرق ہے۔
تب سرولیم میور اس کی گورنری یا اس کی حکومت کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا کہ کوئی مسلمان بچہ اسکول جاتا ہے یا نہیں،
کیونکہ غلاموں کو عقل دینے اور انہیں علم دینے کی کوشش آقاؤں نے کبھی نہیں کی ماسوائے اسلام کے،
اب ان کی بلا سے مسلمان بچہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ انہیں تو ان کی دولت لوٹ کر اپنے ملک منتقل کرنا تھی اور اس کے لئے ان کے لئے یہ بات زیادہ فائدہ مند تھی کہ جہالت چھائی رہے اور وہ خاموشی سے اپنا کام کرتے رہیں،
لیکن آج کی صورتحال بہرحال تب سے بہت مختلف ہے، آج اگر ہم کہیں کہ فیس بک کو ہمارے بائیکاٹ سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تو یہ بات بالکل غلط ہے۔
تجزیہ نگار جیسے جیسے تجزیئے مرضی کرتے رہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ فیس بک کو مسلم دنیا کے اکثر افراد کے سرد رویئے کی بنا پر اچھا خاصہ نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے، اور کوئی بھی کاروباری ادارہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کے منافع میں سے ایک پائی بھی کم ہو۔
لیکن دوسری طرف چونکہ ان کا مقصد پیسہ کمانے سے بھی زیادہ مسلمان کی تذلیل اور ان کے افکار کا بگاڑ ہے اس لئے باوجود نقصان کے وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔
بہرحال میرے خیال میں آج کے دور میں جواب کا پہلا طریقہ اس کا بائیکاٹ ہی ہے لیکن اس کے بعد وہ طریقہ بھی ضرور ہونا چاہئے جو سرسید احمد خان نے اختیار کیا تھا۔
اگر ایک فیس بک نے ساری دنیا کے لوگوں کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے تو کیا ہم ایسی کوئی ویب نہیں بنا سکتے ہیں جو اس کے مقابلے میں کھڑی ہو سکے۔
رہا سوال سرمائے کا تو اگر حکمران اپنی تیل کی دولت ایک رات کی عیاشی کے لئے برج العرب جیسے محلوں میں خرچ کرسکتے ہیں تو کیا وہ ایک ایسی سائیٹ کے لئے سرمایا کاری نہیں کر سکتے ہیں جو کل کلاں ان کی دولت کو راتوں رات دگنی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
یہاں بل گیٹس کی ایک بات میرے ذہن میں آ رہی ہے، اس نے کہیں کہا تھا کہ اس صدی میں کوئی آدمی غریب پیدا ہو یہ اس کا قصور نہیں ہے لیکن اگر وہ اس صدی میں غریب مرے گا تو یہ اس کا قصور ہے، اس کی اس بات کا پس منظر یہی تھا کہ اس صدی میں کمپیوٹر سائنس کی حیرت انگیز ترقی نے جہاں مواصلات میں جدت پیدا کر دی ہے وہیں کمانے کے بہت سے حیرت انگیز طریقے بھی پیدا کر دیئے ہیں۔
یہاں گوگل کی مثال بہت واضع ہے، 1996 میں وجود میں آنے والی اس سائیٹ کی سال 2006 کی منافع کی سٹیسٹیمنٹ 3077 میلن ڈالر پر مشتمل تھی اور اب تک اس میں یقینا پانچ سو گنا اضافہ ہو چکا ہو گا۔
یہ تو تھی ان کی باتیں جو اس کے لئے سرسید احمد خان جیسی کوشش کر سکتے ہیں لیکن ہم جو ابھی ایسا نہیں کر سکتے ہیں وہ بائیکاٹ تو کر سکتے ہیں کہ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ برے کو دل سے برا جاننا بھی ایمان کی نشانی ہے۔لیکن اس بائیکاٹ سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہونے والا ہے، فیس بک کو نقصان تو ضرور ہو گا لیکن شاید ہمیں اس کا کوئی فائدہ نا پہنچ سکے۔
ہاں علاج اس مرض زوال کا صرف ایک ہے کہ اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھام لیں، قرآن و سنت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں۔ نبی کا لباس، نبی کا چہرا، بنی کی معاشرت، اور نبی کی زندگی کو اپنی زندگیوں میں زندا کردیں۔ پھر ان سرکش اقوام میں جو عقل والے ہوں گے وہ بھی یہ ضرور سوچیں گے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو باجود ہماری تمام تر کوششوں کے اپنے نبی سے اپنے تعلق کو توڑنے کے بجائے اور جوڑ رہے ہیں۔ پہلے وہ عقیدت سے سرشار نظر اتے تھے اب تو پورے کے پورے انکے رنگ میں رنگ ہیں۔جب دلوں اور میں اسلام آئے گا تو معاشرا بھی اسلامی بن جائے گا، خلافت ارزی بھی ملے گی اور آخروی کابیابیاں بھی ہاتھ آئیں گی، بس پہلا قدم اٹھانا نفس پر بھاری ہے لیکن اگے کی منزل آسان تر ہوتی جائے گی۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
-
- دوست
- Posts: 220
- Joined: Fri Jun 11, 2010 5:04 pm
- جنس:: مرد
- Location: House#05,Gulberg# 1, Peshawar Cantt
Re: فیس بک
واہ چاند بابو واہ کیا اردو افروز تبصرہ فرمایا حضور نے
قال را بہ گزار مرد حال شو
پیش مرد کامل پامال شو (روم)
پیش مرد کامل پامال شو (روم)
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22224
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: فیس بک
بہت بہت شکریہ روحانی بابا اور علی عامر،
اتنی تعریف مت کیجئے کہ میں پٹاخہ مار جاؤں۔
اتنی تعریف مت کیجئے کہ میں پٹاخہ مار جاؤں۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22224
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: فیس بک
شکر ہے نیچے والا تحفو اور ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
-
- منتظم اعلٰی
- Posts: 6565
- Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
- جنس:: مرد
- Location: پاکستان
- Contact:
Re: فیس بک
چاند بابو wrote:شکر ہے نیچے والا تحفو اور ہے۔
پہلے وہی سوچا تھا.لیکن پھر کسی مصلحت کی بناء پر وہ آئیڈیا ترک کر دیا.
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22224
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: فیس بک
میں نے تو شکر کیا ہے لیکن اب آپ شکر کیجئے کہ اگر وہی لگا دیتے تو اس وقت اردونامہ سے باہر کھڑے ہمارا منہ تک رہے ہوتے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
-
- کارکن
- Posts: 33
- Joined: Sun Aug 01, 2010 9:27 pm
Re: فیس بک
کسی کو اتفاق ہو نا ہو ... جاوید چودھری کے دلائل ٹھوس اور مضبوط ہیں !!!
ہر فرد کو اختلاف رائے کا حق ہے لیکن اس پر تنقید کرنا مناسب نہیں !!!
فیس بک بائیکاٹ کے حوالے سے ھر کسی کا نکتہ نظر الگ الگ ہے ...... میرے خیال میں جاوید چودھری نے بہت اچھا لکھا ہے اور تو اور یہ کہنا بالکل بھی مناسب نہیں کہ انہوں نے سر سید کو ہیرو بنا کر پیش کیا ہے... سر سید کے افکار و نظریا ت سے لاکھ اختلاف سہی لیکن ان کا یہ عمل لایق تحسین ہے !!!!
معافی کا خواستگار !!!
ہر فرد کو اختلاف رائے کا حق ہے لیکن اس پر تنقید کرنا مناسب نہیں !!!
فیس بک بائیکاٹ کے حوالے سے ھر کسی کا نکتہ نظر الگ الگ ہے ...... میرے خیال میں جاوید چودھری نے بہت اچھا لکھا ہے اور تو اور یہ کہنا بالکل بھی مناسب نہیں کہ انہوں نے سر سید کو ہیرو بنا کر پیش کیا ہے... سر سید کے افکار و نظریا ت سے لاکھ اختلاف سہی لیکن ان کا یہ عمل لایق تحسین ہے !!!!
معافی کا خواستگار !!!
-
- دوست
- Posts: 220
- Joined: Fri Jun 11, 2010 5:04 pm
- جنس:: مرد
- Location: House#05,Gulberg# 1, Peshawar Cantt
Re: فیس بک
چاند بابو مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ آپ تھوڑی سے تعریف سے ہی اتنا پھول جاتے ہو کہ پٹاخے کی مانند ڈز کرجاتے ہو بہرحال معلومات میں اضافہ کرنے کا شکریہ ہم آئندہ اپنے ساتھ روحانی پھکی لیکر آیا کریں گے تاکہ آپ کی تبخیر معدہ کا مسئلہ وقتی طور پر درست رہے اور آپ کہیں بھری اردو محفل میں ڈز کرکے فضائی آلودگی کا سبب بن جائیں:Dچاند بابو wrote:بہت بہت شکریہ روحانی بابا اور علی عامر،
اتنی تعریف مت کیجئے کہ میں پٹاخہ مار جاؤں۔
قال را بہ گزار مرد حال شو
پیش مرد کامل پامال شو (روم)
پیش مرد کامل پامال شو (روم)
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22224
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: فیس بک
شکریہ آپ کی روحانی پھکی کے دلاسے کا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو