جنگل کا بادشاه ہوبو سیریز‎ ‎کا پہلا ناول

بچوں کے لئے دلچسپ اور سبق آموز کہانیوں کا سلسلہ
Post Reply
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

جنگل کا بادشاه ہوبو سیریز‎ ‎کا پہلا ناول

Post by ایکسٹو »

جنگل کا بادشاه ہوبو سیریز‎ ‎کا پہلا ناول


جنگل کا بادشاه‎ ‎
بچوں کےلیے۔۔۔۔۔تحریر ایم۔ایچ۔خان
پیش لفظ



پیش لفظ
ھمارے بچوں میں ٹارزن کی کہانیاں بے حد مقبول ھیں ٹارزن ایک انگریز مصنف کی تصنیف ہے جسے ہمارے یہاں کے مصنفین بڑھا چڑھا کر پیش کر رھے ھیں۔ بچوں کو یہ نہیں پتا ٹارزن آیا کدھر سے تھا میں نے ٹارزن کو مد نظر رکھ کر ایک نیا کردار ''ھوبو‎''‎تخلیق کیا ھے جو‎ ‎کہ ٹارزن کی خوبیاں لیے ھوئے ھے۔مجھے یقین ہے کہ یہ بچوں کے علاوه بڑوں کوبھی یقینن پسند آئے گا۔۔‎
ھوبو نام‎‏ کے‎ ‎کسی کردار کی کی کوئی کہانی ابھی تک مارکیٹ میں‎ ‎نہیں‎ ‎ھے۔یہ بلکل ایک نیا کردار اس کردار کی تخلیق میں اپنے پیج سرفروش سے کرنا چاھتا ھوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ کو ھوبو کی تخلیق پسند آئے تو اپنے قیمتی رائے سے ضرور نوازئے گا کہ ھوبو کی تخلیق آگے بڑھائی جائے یا نہیں۔۔۔۔ لیجئے اب اس نئے کردار کی پہلی قسط پڑھئے اور اپنی قیمتی رائے سے مطلع فرمایئے۔۔۔۔

ایم۔ایچ۔خان



افریقہ کے ان پھیلے ھوئےگھنے جنگلوں میں ھر طرف امن و امان تھا۔۔ سب جانور ھنسی خوشی اور مل جل کر ره رھے تھے۔۔۔۔
‎ ‎ھرچرند پرند درند ایک گھاٹ سے پانی پیا کرتا تھے۔۔۔۔ کسی جانور کو کسی سے کوئی شکایت نہیں تھی۔۔۔
ہرن‎ ‎دن بھر بلاخوف‎ ‎و خطرادھر ادھر کلانچیں بھرتے رہتے۔ان کو اپنے شکاریوں کی طرف سے کوئی خطره نہیں تھا۔
ننھے ننھے گلہری درختوں‎ ‎سے اتر کر بھاگ دوڑ کرتے رہتے۔بندر درختوں کی شاخوں پر جھولتے ھوئے کبھی کسی درخت پر جاتے کبھی کسی پر۔۔۔۔۔۔
ان جنگلوں پر شیر کی بجائے اک انسان کی حکومت تھی۔۔۔۔۔
اس انسان کا نام ہوبو تھا جس کو سب جانوروں نے مل کر جنگل کا بادشاه بنا‎یا تھا۔ہوبوکو بچن میں ایک بن مانسوں کے جوڑے نے پالا پوسا تھا۔ چونکہ بچہ انسانوں کا تھا اور بن مانس اور بندر دونوں انسانوں کی طرح ہوتے ‏ہیں اس لیے بندر کہتے یہ ‏ہماری طرح کا بندر ھے اور بن مانس کہتے‎یہ ‏ھمارا بچہ ہے کیونکہ ہم نے اسے پالا پوسا ھے۔۔۔۔
یوں بن مانسوں اوربندروں میں بحث چھڑ جاتی ایک دن ایک الو نے ان کی بحث سنی اور اس‎ ‎کا نام ہوبو یعنی ہوبہو‎)‎ہمشکل‎( ‎تجویز کر دیا اس طرح بندروں اور بن مانسوں کی یہ بحث ختم ہوئی اور سب الو کے تجویز کرده اس نام ہوبو سے متفق ہو گے۔‎ ‎
ہوبوجب‎ ‎تین‎ ‎ماه کا بچھ‎ ‎تھا تو اپنے‎ ‎ماں‎ ‎باپ کےساتھ اپنی ماں کی گود میں سمندری‎ ‎سفر پر نکلا تھا‎ ‎۔اس وقت کسے پتہ تھا کہ اس شیرخوار بچے کے ماں باپ سمندر کی بے رحم لہروں کا شکار‎ ‎ھو جائیں گے اور یہ بچہ جنگلوں کا بادشاه‎ ‎‏ بن جائے گا۔۔۔۔۔۔
جس‎ ‎بحری جہاز‎ ‎میں‎ ‎یہ ھوبو اپنے ماں باپ کے ساتھ سفر کر رھا وه افریقہ کے جنگلوں سے بہت دور سمندر میں ایک خطرناک طوفان کے کا شکار ھو گیاتھا۔ جہاز کے کپتان نے جہاز کو طوفان سے نکالنے کےلیے جہاز کا رخ جنگلوں کی طرف‎ ‎کے کنارے کی طرف موڑ‎ ‎دیا تھا مگرسمندرمیں‎ ‎آنے والا طوفان کوئی معمولی طوفان نہیں ہوتا‎ ‎اور‎ ‎یہ طوفان بھی کوئی معمولی نہیں تھا جہاز بری طرح ڈول رھا تھا۔۔۔
‎ ‎لوگوں کے چہرے خوف سے سیاه پڑ چکے تھے‎ ‎یہ خوف موت کا خوف تھا۔۔۔ سمندر کی بچھری ہوئی لہروں میں ڈوب مرنے کا خوف۔۔۔۔۔ جہاز جنگل کےکنارے کی طرف جانے ‏‎ ‎بجائے پہاڑوں کی طر مڑ گیا اور پہاڑیوں سے ٹکرا گیا۔۔۔۔
سمندری طوفان‎ ‎کی بچھری ہوئی لہریں جہاز کو اٹھا اٹھا کر پٹخ رھی تھیں۔۔۔۔ ہرطرف چیخ و پکار مچی ہوئی تھی جہاز کا ایک حصہ بری طرح تباه ہو گیأ تھا‎ ‎جس کی وجہ سے جہاز میں پانی بھرتا جا رھا تھا ہر طرف گہری تاریکی تھی ایسے میں طوفان کی‎ ‎آوازیں دلوں کو دھلا دیتی‎ ‎لوگوں کے کلیجے منہ کو آ رھے تهے۔۔۔۔۔‎ ‎ھرکوئی چیخے جا رھا تھا مگر طوفان کی موجوں کو کسی‎ ‎کی چیخوں پر رحم نہیں آ رھا تھا
ادھرہوبو کی ماں کو یقین ہو گیأ تھا کہ وه لوگ اب سمندری طوفان سے نہیں بچ سکیں گے اس‎ ‎لیے اس نے اپنے لخت‎ ‎جگر‎ ‎کو ایک لکڑی کے صندوق میں ڈالا اور خدا سے دعا کی
"اے میرے مالک میں نے اپنا بیٹا تیرے حوالے کیا۔۔۔۔ جیسے حضرت موسی علیہ السلام کی ماں نے حضرت موسی کو صندوق میں ڈال کر تیرے حوالے کیا تھا اور تو نے اس کی حفاظت کی تھی اے میرے مالک میں اپنا بیٹا بھی تیرے حوالے کر رھی ھوں تو میرے بچے کی بھی اسی طرح حفاظت کرنا۔۔۔۔۔‎ ‎جس طرح تو نے موسی علیہ السلام کی حفاظت کی تھی"
یہ کہہ کر اس نے‎ ‎صندوق سمندر کے حوالے کر دیا سمندر کی بچھری ہوئی لہریں صندوق کو پٹخ پٹخ کر کہیں دور لے گیئں اور کچھ‎ ‎ہی لمحوں بعد جہازمیں پانی بھرنے کی‎ ‎وجہ سے جہاز اپنے مسافروں سمیت سمندر‎ ‎کی تہوں میں غرق ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن سورج طلوع ہوا اور طوفان کا نام نشان تک نہ تھا طوفان اپنی ساری خوفناکی اپنے ساتھ لے گیا تھا اب سمندر کی موجوں میں سکون تھا۔۔۔۔۔ جیسے وه جہاز کے ہزاروں مسافروں کی قربانی لے کر خاموش ہو گیئں ھوں۔۔۔۔۔۔
صندوق سار ی رات سمندر کی بے رحم لہروں ‏میں اچھلتا‎ ‎ہوا سمندر کے کنارے سے جا لگا‎ ‎تھا۔۔۔۔ سمندر کی لہروں‎ ‎نے صندوق کی اپنے ریتلے کنارے پر پٹخ دیا ۔۔۔۔۔۔۔‎ ‎صندوق کے رخنوں سے ہوا کا گذر آسانی ہو جاتا‎ ‎تھا اور ہوبو کو سانس لینے کےلیے ہوا ملتی رھتی تھی۔۔ ھوبو بھوک سے بلک رھا تھا اور اپنی ماں سے دودھ لینے کےلیے رو رھا تھا۔۔۔۔ مگر اس کی ماں تو یہاں سے دور سمندر کی لہروں کا شکار ہو کر ہمیشہ کےلیے سمندر کی تہہ میں اتر چکی تھی یہاں ھوبو کی پکار سننے والا کوئی نہ تھا۔۔۔۔۔۔ دن آہستہ آہستہ نکلتا جا‎ ‎رھا تھا اور ھوبو بھی شاید تھک ھار کر خاموش ھو گیا یا پھر سو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جس جگہ ھوبو کا صندوق پڑا ھوا تھا اس طرف‎ ‎ایک بن مانسوں کے جوڑے کا گذر ھوا۔۔۔۔۔ بن مانس‎ ‎سمندر کے کنارےریت پڑے ھوئے‎ ‎صندوق کی طرف متوجہ ہو ئے اورآگے بڑھ کر صندوق اٹھا کرحیرت سے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے۔ان کےلیے یہ ایک نئی چیز نر بن مانس نے نے کسی طرح صندوق کا ڈھکن کھول دیا اور صندوق میں لیٹے ھوئے ھوبو کو حیرت سے دیکھنے لگا ماده بن مانس بھی‎ ‎چونک کرھوبو کو حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔ نربن‎ ‎مانس نے ھوبو کی ٹانگ پکڑ کر اسے صندوق سے باہر نکالا اور صندوق پرے پھینک کر ھوبو کو سونگنے لگا۔‎ ‎دوسرے ھی لمحہ اس کے چہرے پر غصہ کے آثار نمودار ھوئےاور اس نے ھوبو کو مروڑ دینا چاھا۔۔۔‎ ‎مگر‎ ‎خدا کی قدرت دیکھئے‎ ‎جسے الله رکھے اسے کو؎ چکھے الله نے ماده بن مانس کے دل میں مامتا کا جذبہ ڈال دیا‎ ‎۔ماده بن مانس جو ھوبو کو حیرت سے دیکھ رھی تھی اس نے نر بن مانس کا اراده بھانپ لیا ‏اور‎‏ جھٹ سے ھوبو کو نربن مانس سے چھین کر اپنے سینے سے چمٹا لیا۔نر بن مانس نے غصیلی نظروں سے ماده بن مانس کی طرف دیکھا مگر‎ماده بن مانس ہوبوکو لے کر‎ ‎دوسری طرف چل دی۔ نر بن مانس نے آگے بڑھ کر‎ ‎ھوبو کو ماده سے چھین کر مارنا چاھا مگر ماده بن مانس‎ ‎نے اسکو اس کےارادے سے باز رکھا اور اس کو دیکھ کرغرانے لگی جیسے کہہ رھی ھو آگے بڑھے تو چیر دوں گی یہ بچہ میرا ھے۔یہ‎ ‎میں‎ ‎کسی کو نہیں دوں گی۔۔۔ ماده بن مانس کی غراہٹ سن کراور ماده کی تیور دیکھ کر نر بن مانس‎ کچھ‎ ‎ٹھنڈا پڑا اور پیچھے ہٹ گیا۔۔۔۔۔۔ ماده بن مانس ہوبو کو اپنی چھاتی سے چمٹائے جنگل کی طرف چل دی۔۔۔۔۔۔‎ ‎ہوبو بن مانسوں کے اٹھانے کی وجہ سے اٹھ گیا تھا اور وه‎ ‎ماده بن مانس کی چھاتی سے چمٹا‎ ‎اس‎ ‎کو اپنی ماں سمجھ کراس کا دودھ پی‎ ‎رھا تھا ہوبو کو اپنا دودھ پیتے دیکھ ماده بن مانس پیار سے ھوبو کے سر پرہاتھ پھیرنے لگی‎ ‎شاید ماده بن مانس نے بھی ہوبو کو اپنا بچہ تسلیم کر لیا تھا۔کیونکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ کچھ دن پہلے اسی ماده بن مانس کا بچہ تیندوں کا شکار ہو گیا تھا یہ ماده مامتا کی ماری ہوئی تھی اس‎ ‎لیے اس نے ہوبو کو اپنا بچہ سمجھا ورنہ بن مانس اپنی نسل کے علاوه کسی جانور کو اپنے پاس‎ ‎بھٹکنے بھی‏ نہیں دیتے یہ جسامت کے لحاظ سے انسانوں جیسے ہوتے ہیں مگریہ بے حد طاقتور اور خطرناک جانور ھے۔۔۔۔
جب بن مانس بہت زیاده غصہ میں ہوتا ہے تو سینہ کوبی کرنے لگ جاتا ہے انسانوں کو تو یہ اپنے ہاتھوں کے پنجوں سے ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔۔۔۔
نر بن بانس ہوبو کو اپنے پنجوں سے ادھیڑنا چاہتا تھا مگر خدا کو یہ منظور نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔
ماده بن مانس ہوبو کو لے کر اپنے جھنڈ میں داخل ہوئی تو سب بن مانس حیرت سے ماده کے سینے پر چمٹے ہوئے ھوبو کو دیکھنے لگے۔۔۔‎ ‎کچھ بن مانسوں نے پاس آ کر ماده بن مانس سے ہوبو کو جھپٹنا چاہا مگر ماده بن مانس نے ہوبو کو تیزی سے پیچھے کر لیا اور اپنی‎ ‎کوه میں چلی گئی۔۔۔۔‎ ‎وه‎ ‎ہوبوکو دوسرے بن مانسوں سے بچانا چاھتی۔۔ کیونکہ وه ھوبو کو اپنے ہاتھ لگتے ہی چیر پھاڑ دیتے اس لیے وه ہوبو کو لے کر اپنی کوه میں چلی گئی اور اسے اپنا دوده پلانے لگی۔۔۔
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
اس طرح ہوبو ماده بن مانس کے زیر سایہ پروان چڑھنے لگا ماده بن مانس ہوبو کو ایک لمحہ‎ ‎کےلیے بھی خود سے دور نہ کرتی پہلے پہل تو‎ ‎جھنڈ کے دوسرے بن مانسوں نے ماده بن سے ہوبو کو چیھننے کی بہت کوشش کی مگر پھر وه بھی ہوبو سے مانوس ہوتے گے‎ ‎اور ہوبو کا خیال رکھنے لگے وه ہوبو کےلیے کیلے توڑ لاتے اور لا کر ہوبو کو دیتے۔۔۔۔۔۔ماده بن مانس ہوبو کو اپنے ساتھ ندی پر لے جاتی اور اسے نہلایا کرتی۔۔۔۔۔۔ ہوبو اب پانچ سال کا ہو چکا تھا‎ ‎مگر ماده بن مانس اب بھی ہوبو کو خود سے الگ نہ کرتی‎ ‎تھی ہوبو پر کئی بار تیندوں لگڑ بھگوں اور بھیڑیوں نے‎ ‎بھی حملے کئے تھے مگر ہر بار ماده بن مانس ھوبو کو بچا‎ ‎لیتی ہوبو کو بچاتے بچاتے کئ‎ ‎بار وه خود بھی زخمی ہوئی تھی۔۔۔۔ ہوبونے چونکہ بن مانسوں میں پرورش پائی تھی اور ایک ماده بن مانس کا دودھ پیا‎ ‎تھا۔۔۔ اس لیے وه انسانوں کی زبان سے نابلد تھا وه صرف جانوروں کی زبان سمجھ اور بول سکتا تھا وه بن مانسوں کی طرح بولا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
ہوبو کے بچن کے دوست پرندے ہوا کرتے تھے۔۔۔
جو ہوبو کے پاس بچپن سے آنے لگے تھے جو ہوبو کے اردگرد اکٹھا ہو کر چہچہایا کرتے ہوبو پرندوں‎ ‎سے مانوس ہونے لگا اور آہستہ آہستہ ان کی زبان بھی سیکھنے لگا تھا۔۔۔۔
ایک چھوٹے سے بچے کے پاس جو زبان بولی جائے وه وہی سیکھتا ھے۔۔‎ ‎
ہوبو اگر اپنے ماں باپ کے پاس رہتا تو انسانوں کی زبان سیکھ جاتا مگر وه جانوروں اور پرندوں میں رھا تھا اس لیے وه جانور اور پرندوں کی زبان سیکھ گیا۔
جب وه پانچ سال کا ہوا تو اس‎ ‎کی دوستی بندروں کے ساتھ ہو گی جو بہت شرارتی تھے۔۔
ہوبو کا‎ ‎سارا دن بندروں کے ساتھ مل کر شرارتیں کرتے اور درختوں پر اچھل کود کرتے‎ ‎گذر جاتا بندروں سے وه درختوں کی شاخوں پر جھولنا اور ایک درخت سے دوسرے درخت پراچھل کود کرنا سیکھ گیا تھا۔۔۔۔۔
بندر اس کا بہت خیال رکھا کرتے کیونکہ وه جسامت کے لحاظ سے انہی جیسا تھا‎ ‎وه اسے اپنا بھائی خیال کرتے۔۔۔۔‎
‏ بندر‎ ‎ھوبو‏کو اپنی نسل کا کہتے کرتے اور بن مانس کہتے اس کو ہم نے پالا پوسا ہے اور اس نے ایک ماده بن مانس کی دودھ پیا ہے اس لیے یہ ہم میں سے ہے۔۔۔۔۔۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: جنگل کا بادشاه ہوبو سیریز‎ ‎کا پہلا ناول

Post by ایکسٹو »


اسی وجہ سے اکثر‎ ‎اوقات بن مانسوں اور بندرو؎ں میں‎ ‎بحث و تکرار چھڑ جاتی تھی
ایک دن بن مانسوں اور بندروں کے درمیان یہی بحث ہو رھی تھی کہ ایک الو کا گذا وھاں سے ہوا۔۔۔۔۔ یہ ایک عقل مند اور بوڑھا الو تھا۔۔۔۔۔ جنگل کے سب جانور اس کی عزت کیا کرتے تھے اور اپنے فیصلے اسی الو سے کروایا کرتے تھے۔۔۔۔
الو نے جب بندروں‎ ‎اور بن مانسوں کی بحث و تکرار سنی تو وه ان کے پاس جا کردرخت کی ایک ٹہنی پر جا بیٹھا اور بولا۔
‏‏‎''‎بھلے مانسوں کیوں ایک دوسرے کے ساتھ بحث کرتے ہوکیا مسئلہ ہے تمہارا مجھے بتاؤ میں‎ ‎سلجھا دوں گا تم دونوں فریقوں کا مسئلہ ‎تاکہ تم ‏بحث سے بچ سکو ''‎
''ارے جاؤ جاؤ الو میاں جا کر اپنا کام کر‎و
‎تم کون ہوتے ہو ہمارے مسئلوں میں ٹانگ اڑانے ‏والے ‏ہم اپنا مسئلہ خود حل کر لیں گے۔‎
ایک بندر بدتمیزی سے بولا‎''‎
''چپ کرو پنگلو بندر بڑوں سے اس طرح بدتمیزی نہیں کیا کرتے ایک بوڑھے بندر نے اس بندر کو ڈانتے ہوئے کہا اور پنگلو برا سے منہ بنا کر خاموش ہو گیا۔۔‎''‎
''الو میاں اگر تم یہاں آ ہی گے ہے تو ھمارے ایک فیصلہ کرتے جاؤ۔‎۔۔'‎‎ '‎ایک بن مانس نے الو کو مخاطب کر کے کہا۔۔۔
مجھے مسئلہ بتاؤ گے تو میں فیصلہ کروں ایسے کیسے کر دو فیصلہ۔۔۔۔۔‏‏‎ ‎الو نے کہا
وہی بتانے جا رھا ھوں۔۔۔۔ وہی بن مانس بولا
یہ‎ ‎اضل میں ہمارا بچہ ھے اور‎ ‎بچہ ہے ہماری ایک ماده نے اس کو اپنا دودھ پلایا اور اس کی پرورش کی۔ اب یہ کچھ بڑا ہوا تو اس پر بندروں نے اپنا حق جمانا شروع کر دیا۔۔۔
یہ سراسر جھوٹ ہے ان بن مانسوں نے ہمارا بچہ چورایا تھا اور بچپن میں اس کو ہم سے دور رکھا اب ہم جب اپنا بچہ بن مانسوں سے مانگتے ہیں تو یہ ہم سے بحث کرنے لگتے ہیں۔۔۔ ایک بندر غصیلے لہجے میں بولا
‎تم ہم پر جھوٹا الزام لگا رھے ھو۔ یہ تمہارا نہیں ہمارا بچہ ہے‎ ‎
میں تمہاری بوٹیاں نوچ لوں گا۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہم پر جھوٹا الزام لگانے کی‏۔۔۔۔۔۔‎"‎ ایک بن مانس غصے سے کانپتا ہوا بندروں کی جانب مکہ تان کر بولا۔
تم ہوتے کون ہو ہماری بوٹیاں نوچنے والے میں تمہاری دم کاٹ لوں گا۔۔ ایک بندر نے بن مانس کو دانت دیکھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
یہ سن کر وه بن مانس سیخ پا ہو گیا اور بندر کو پکڑنے کےلیے اس کی طرف جھپٹا۔۔۔
ارے۔۔۔۔۔ارے رکو اگر تم نے اسی طرح لڑنا تو مجھے کیوں بلایا۔۔۔۔۔ الو نے بن مانس کو روکتے ہوا کہا اور بن مانس جھنجھلا گیا‎ ‎اور‎ ‎الو کی طرف دیکھ کر دانت پیستے ہوئے بولا۔۔
تم کو بلایا کس گدھے نے تھا تم خود ہی دوسروں کی پھڈوں میں ٹانگ اڑاتے پھرتے ہوئے۔۔۔


لگتا اسی گدھے نے تم کو بلایا ھے۔۔۔۔ بندر نے دانت نکال کر بن مانس کی جانب اشاره کرتے ھوئے کہا۔۔۔۔
بندر کی بات سن کر بن مانس کا پاره مزید چڑھ گیا وه بندر کو پکڑنے کی اس کی طرف‎‏ پھر چھپٹا‎ ‎مگر بندر پھرتی سے قریبی درخت پر چڑھ کر اس کو چڑانے لگا۔‎ ‎بن مانس دانت پیس کر غرانے لگا۔
شاگلو بن مانس واپس آؤ‎ ‎تم مجھے الو سے بات کرنے دو۔۔۔ ایک بوڑھے بن مانس نے شاگلو سے کہا اور شاگلو بن مانس غراتا ہوا واپس آ گیا بندر اس کی طرف دیکھ کر ھنس رھے تھے۔۔۔
بندروں تم بھی چپ کرو مجھے بن مانس سردار کوالو سے بات کرنے دو آج فیصلہ ہو کر رھے گا کہ یہ بچہ بن مانس ھے یہ بندر۔۔۔ بندروں میں سے ایک بڑے بندر نے باقی بندروں کو‎ ‎ڈانتے ہوئے‎ ‎کہا ۔۔۔
اور دونوں فریق الو کے پاس جا کھڑے ہوئے۔
ہاں تو اب‎ ‎تم دونوں باری باری اپنا مسئلہ‎ ‎بیان کرو۔۔۔ الو نے ان دونوں کو مخاطب کر کے کہا۔
وه بچہ جو تم دیکھ رھے ہو۔۔۔ بن‎ ‎مانس نے ھوبو کی طرف اشاره کرکے کہنا شروع کیا
یہ اصل میں ہمارا بچہ ہے۔ یہ بچہ ہماری ماده‎ ‎کو ملا اور اس نے اس بچہ کو اپنا دودھ پلایا اور اس کی پرورش کی اس وقت کوئی بندر اس بچے کا وارث نہیں بنا اب جبکہ یہ بچہ پانچ سال کا ہوا ھے تو یہ بندر خود کو اس کا وارث کہنے لگے‎ ‎ہیں۔۔ بن مانس یہ نے الو کو بتایا۔۔
الو میاں میری‎ ‎بات سنو یہ بچہ ھمارا ھے اور بچے کو بن مانسوں نے بچپن میں اٹھا لیا تھا اورمجھے لگتا بن مانسوں نے اس کے جسم کی کھال اتار دی تھی اسی لیے اس بچے کی جسم پر بال نہیں ھیں۔۔ بندر نے بن مانس پر الزام عائد کیا۔
الو ان کی بات غور سے سن رھا تھا ان کی بات ختم ھوتے ہی ہوبو کی طرف دیکھ کر کچھ سوچنے لگا بھر بولا بن مانسوں اور بندروں تمہارے پاس کیا ثبوت ھے کہ یہ تمہارا بچہ‎ ‎ھے۔
ہمارے پاس اس کا ثبوت یہی ھے کہ ھماری ماده نے اس کو اپنا دودھ پلا کر بڑا کیا۔۔ اس لیے ھمارا ھی بچہ ھے۔۔۔۔۔ بن مانس نے کہا
ساتھ یہ بھی بتاؤ نا کہ تم نے اس بچے کی کھال اتار دی ھے ورنہ دراصل یہ ہمارا بچہ تھا۔‎ ‎بندر نے بن مانس کی طرف دیکھ کر طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
پھر وہی الزام لگا رھے ھو تم ہم پر۔ بن مانس نے بندر کو گھورا۔۔۔۔۔!!
تم پھرآپس میں‎ ‎لڑنے لگے آپس مت لڑو اور میری بات غور سے سنو یہ بچہ نہ بن مانسوں کا بچہ ھے اور نہ ھی بندروں کا یہ دراصل انسانوں کا بچہ جس کو بن مانس کہیں سے اٹھا لائے تھے اور اس کو اپنا دودھ پلا‎ ‎کر پالا پوسا ھے۔۔۔۔ الو نے کہا تو سب بن مانس اور بندر چونک کر الو کی طرف دیکھنے لگے جیسے اس کا دماغ خراب ھو گیا ھو۔

انسان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ انسان کیا چیز ہے۔۔۔۔۔‎ ‎کہیں تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا۔۔۔۔۔۔الو میاں۔۔۔۔۔۔۔اور ہمیں کیا پڑی کسی انسان کا بچہ اٹھانے کی۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
بن مانس نے برا سا منہ بنا کر کہا۔
انسان بھی الله کی ایک مخلوق ہے۔۔۔۔۔۔۔ جو صرف دو پاؤں پر چلتا۔۔۔۔۔۔ تم بن مانس اور بندر چار پاؤں پر‎ ‎بھی چل سکتے۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان صرف دو پاؤں پر چلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور خشکی پر رہتا ہے۔۔۔۔۔ الله نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انسان کو بڑا دماغ دیا ہے جس سے کام لے کروه ہم جانوروں‎ ‎اور پرندوں پر بھی حکومت کر سکتا ہے۔۔۔۔۔‎ ‎یہ بچہ بھی اسی انسان‎ ‎کا بچہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نا بن مانس ہے اور نہ بندر بلکہ یہ انسان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الو نے کہا
مگر اس کو پالا پوسا تو ہم نے ہے نا۔۔۔۔۔۔۔ اور اب ہم ہی اس بچے کے وراث ہیں۔۔۔۔۔ بن مانس نے کہا
تمہاری وه بات تو ٹھیک‎ ‎ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب یہ بچہ بڑا ہو گا ۔۔۔۔۔ یا جب اس کی نسل کے انسان اسے ملیں‎ ‎گے تو یہ تم کو چھوڑ کر چلا جاۓ گا۔۔۔۔۔۔۔ اور تم اس کو نہیں روک سکو گے۔۔۔۔۔۔۔۔ الو نے کہا
ہونہہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ جاؤ الو میاں ۔۔۔۔ کہاں کی ہانک رھے ہو۔۔۔۔۔ بھلا بندروں کا یہ بچہ انسانوں کا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔ بندر نے ھنکاره بھرکرکہا
میں سچ بول رہا بندر سردار۔۔۔۔ اگر تم‎ ‎دونوں فریق میری بات مانو۔۔۔۔۔۔۔ تو میں تم کوتمہاری بہتری کیلۓ ایک مشوره دوں۔۔۔۔۔۔۔ الو نے کہا تو بندر اور بن مانس دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
تم ہمیں کیا مشوره دو گے۔۔۔۔۔۔۔ الو میاں۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد بن مانس نے الو سے مخاطب ہو کر کہا
اگر تم دونوں فریق میرا مشوره مانو گے۔۔۔۔۔۔۔۔ تومیں دوں گا مشوره۔۔۔۔‎ ‎ورنہ نہیں۔۔۔۔۔۔ وعده کرو کہ تم میرا مشوره مانو گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الو نے کہا
الو کی بات سن کر دوسرے بندر اور بن مانس بھی آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے ۔۔۔ اور جس کےلیے یہ مشورات ہو رھے تھے وه ان سب کی بحث سے دور بندروں کے لاۓ ہوۓ کیلے کھانے میں مگن تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر خاموشی رھی بلآخر اس خاموشی کو بندر سردار نے توڑتے ہوۓ‎ ‎الو سے مخاطب ہو کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹهیک ہے۔۔۔۔۔۔ الو میاں۔۔۔۔ ہم‎ ‎تمہارے مشوره مانیں گے۔۔۔۔
ہاں ۔۔۔۔۔ الو میاں۔۔۔۔۔۔ ہم‎ ‎بھی تمہارے مشوره مانیں گے ۔۔۔ مگر تم اپنی بات تو پوری کرو اور اپنا مشوره تو بتاؤ۔۔۔۔۔۔ بن مانس سردار نے کہا اور بندر سردار بھی اس‎ ‎کی‎ ‎تائد میں سر ہلانے لگا
ہممممممم۔۔۔۔۔ اچھا تو بندروں اور بن مانسوں سنو۔۔۔۔۔۔ یہ بچہ چونکہ انسانوں کا ہے۔۔۔۔۔۔۔جس کو تم اپنی اپنی نسل کا سمجھتے ہو۔۔۔۔۔۔ اور انسان‎ ‎جسامت کے لحاظ سے بندروں اور بن مانسوں سے تھوڑی بہت مشہابت رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔ اس لیے تم اس بچے کا نام ،،ھوبہو،، یعنی ایک دوسرے سے ملتا جلتا۔۔۔۔۔۔۔ رکھ دو۔۔۔۔۔ اس طرح نہ تمہارا آپس میں جھگڑا ہو گا اور نہ انسانوں سے۔۔۔۔ الو نے کہا تو وہاں پر موجود سب جانور سوچ میں پڑ گۓ۔۔۔۔۔ ہر طرف سرگوشیاں ہونے لگیں۔۔۔۔۔ شاید سب جانور آپس میں صلح مشوره کر رھے تھے۔۔۔۔ پھر یہ سرگوشیاں اونچی اونچی بے ہنگم آوازوں میں بدلنے لگیں جنگل میں ایک شور بدتمیزی برپا ہو گیا۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر یہی صورت حال طاری رھی پھر بندروں کی طرف سے منظور ھے۔۔۔۔۔ ہمیں الو کا مشوره منظور ہے۔۔۔۔۔۔ کا شور سنائی دینے لگا۔۔۔۔ بن مانسوں نے جب دیکھا کہ بندر الو کے مشورے سے متفق ہو گۓ ہیں تو انہوں نے بھی منظور ھے کے نعرے لگانے شروع کر دیا اور جنگل ان سب کے نعروں سے گونج اٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس طرح ماده بن مانس کا دودھ پینے والے اس انسانی بچے کا نام ہوبہو رکھا گیا جو بعد میں بگڑ کر ہوبو بن کر ره گیا۔۔۔۔ اور یوں بندروں اور بن مانسوں کا روز روز کا جھگڑا اور بحث ختم ہوئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی جنگل پر ایک ظالم شیر کی حکومت ہوا کرتی تھی جو بے حد ظالم اور خطرناک شیر تھا۔۔۔ ہر چھوٹا بڑا جانور اس کے ظلم و ستم سے تنگ تھا۔۔۔۔۔ اس شیر کے بھیڑیوں کے ساتھ یارانے تھے۔۔۔۔۔ اور بی لومڑی اس کے خوشامدیوں میں تھیں۔۔۔۔ جو شیر کی خوشامد کر کے بے گناه جانوروں کو شیر کے ہاتھوں مروا دیا کرتی۔۔۔۔۔۔۔ بھیڑیوں نے‎ ‎پورے جنگل‎ ‎کا امن و امان تہہ بالا کر رکھا تھا۔۔۔ یہ خوانخوار بھیڑیۓ معصوم اور بے گناه جانورں کو بے دردی سے ادھیڑ دیا کرتےتھے۔ کوئی جانوران بھیڑیوں کا کچھ نہ بگاڑ پاتا اگر ظلم و ستم کا مارا کوئی جانور شیر کے پاس بھیڑیوں کی شکایت لے کر چلا بھی جاتا تو شیر بھیڑیوں کو سرزنش کرنے کی بجاۓ الٹا فریادی کو چیر پھاڑ دیتا اس لیے جانوروں نے شیر سے بھیڑیوں کی شکایت کرنا بھی چھوڑ دی۔۔۔۔۔۔ جب اس ظالم شیر اور بھیڑیوں‎ ‎کا ظلم و ستم حد سے بڑھنے لگا تو جنگل کے جانور آہستہ آہستہ‎ ‎یہ جنگل چھوڑ کر دوسرے جنگلوں‎ ‎کی طرف ہجرت کرنے لگے۔۔۔۔ یہ بات بی لومڑی نے شیر کے کان میں ڈال دی کہ جنگل کے جانور جنگل چھوڑ کر کہیں اور جا رھے ہیں تو اس نے بھیڑیوں کے سردار کو اپنے دربار میں طلب کر کے جنگلوں کی سرحدوں پر پہره دینے کا حکم دے دیا

اب جو کوئی جانور بھی جنگل چھوڑ کر جانے لگتا وه سرحد پر موجود خونخوار بھیڑیوں کا شکار ھو جاتا۔۔۔۔۔۔۔ بھیڑیۓ انہیں بےدردی سے چیر پھاڑ دیتے ظالم شیر نے پورے جنگل میں اعلان کروا دیا کہ جس جانور نے جنگل چھوڑ کر جانے کی کوشش کی اس کی پوری نسل چیر پھاڑ دی جاۓ گی۔۔۔۔۔۔۔ جانور اس ظالم شیر کا‎ ‎ظالمانہ حکم سن کر سہم گۓ تھے اور جنگل میں محسور ہوکر رہے‎ ‎گۓ تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ ظالم شیر نے بھیڑیوں سے مل کر جنگل چھوڑ کر جانے کی پاداش میں جانوروں سے بڑا خوفناک انتقام لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ظالم شیر یا بھیڑیوں کو جہاں کوئی جانور نظر آتا وه اسے بے دردی سے چیر پھاڑ دیا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ ظالم شیر اپنے خاندان کے جانور چیتوں‎ ‎کا بھی سخت دشمن تھا کسی چیتے کو شکار کی اجازت نہ تھی۔۔۔۔۔ ظالم شیر نے خونخوار بھیڑیوں سے مل کر پورے جنگل پر ہی قبضہ کر رکھا تھا۔۔۔۔۔۔ چیتے بھی اس ظالم شیرسے سخت نفرت کرتے تھے مگر وه شیر اور چیتوں کے مقابلے میں بے بس تھے۔۔۔۔ وه کھل کر شیر کی مخالفت نہیں کرسکتے تھے۔۔۔۔۔ شیر یا بھیڑیۓ جب بھی ان پر حملہ کرتے یہ چیتے مل کر ان کا مقابلہ کرتے اور انہیں مار بھگاتے۔۔۔۔۔۔ چیتے صرف اپنا دفاع کر سکتے تھے جنگل میں ظالم شیر کی حکومت کا خاتمہ ان کے بس کی بات نہیں تھی۔۔۔۔ انہوں نے اپنے علاقہ کا دفاع مضوبط بنا ھوا تھا۔۔۔۔
یہ ان دنوں کی بات تھی جب ہوبو باره سال کا ہو چکا‎ ‎تھا ایک دن‎ ‎وه‎ اسے ‎دودھ پلانے والی ماده بن مانس کے ساتھ جنگل میں دور کافی دور نکل گیا۔۔۔۔۔ اچانک ان کے سامنے بھیڑیوں کا پورا غول آ گیا۔۔۔۔۔ ماده بن مانس‎ ‎اور ہوبو بھیڑیوں کے اس غول کو دیکھ کر‎ ‎سہم‎ ‎گے۔۔۔۔۔‎ ‎انہوں نے ان ظالم بھیڑیوں کے ظلم کی کہانیاں دوسرے جانوروں سے سن رکھی تھی۔۔۔۔۔۔‏ بھیڑیۓ خونخوار آوازیں نکالتے گول دائرے کی شکل میں ان کی طرف بڑھنے لگنے۔۔۔ ماده بن مانس اور ھوبو کا ان بھیڑیوں سے بچنے کے کوئی چانس نہیں تھے۔۔۔۔۔۔۔‎ ‎بھیڑیوں نے ان کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا
ھوبو تم اس درخت پر چڑھ جاؤ جلدی۔۔۔۔ ورنہ یہ بھیڑیۓ تمہیں پھاڑ کھائیں گے۔ماده بن مانس‎ ‎نے ھوبو سے چیخ کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماں میں تم کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔۔۔۔۔۔۔ ہوبو نے کہا
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوبو میری خیر ھے تم ان موذیوں سے بچوں۔۔۔۔۔ دیکھو وه قریب آ رھے ہیں جلدی‎ ‎کرو۔۔۔۔۔ درخت پر چڑھ جاؤ۔۔۔۔۔۔‎ ‎جلدی۔۔۔۔۔۔۔ اپنی طرف بڑھتے بھیڑیوں کو دیکھ‏ ماده بن مانس چیخ کر بولی
بھیڑیۓ لمحہ با لمحہ اپنا گھیرا تنگ کرنے لگے۔۔ یہ دیکھ کر ہوبو نے جست لگائی اور اپنے قریبی درخت کی شاخ سے لٹک گیا۔۔۔۔۔ ایک بھیڑیۓ نے ہوبو کو‎ ‎درخت پر جاتے دیکھ کر اسے پکڑنے کےلیے ایک اونچی جست لگائی‎ ‎مگر اتنی دیر میں ھوبو اس کی دسترس سے اونچا ھو چکا تھا اور بھیڑیا دور جار گرا۔۔ھوبو ایک درخت کی ایک اونچی شاخ پر جا بیٹھا اور نیچے کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔۔
بھیڑیوں نے‎ ‎مل کر ماده بن مانس پر حملہ کر دیا ۔۔۔‎ ‎ماده بن مانس ان سے بچنے کےلیے اندھا دھند اپنے ہاتھ پاؤں چلانے اور خوفزده آواز میں چیخنے لگی مگر وه اس میں کامیاب نہ ہو سکی۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ بھیڑیوں نے اسے چاروں طرف سے گھیر‎ ‎کر حملہ کیا تھا‏ اور وه تعداد میں بھی زیاده تھے۔چند لمحوں میں بھیڑیوں نے ماده بن مانس کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔۔۔۔۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ماده بن مانس کی ادھ کھائی لاش پڑی ھوئی تھی جب ان ظالم بھیڑیوں کا پیٹ بھر گیا تو وه پیچے ہٹ کر بیٹھ گے اور درخت کے اوپر بیٹهے ھوبو کو دیکھنے لگے جو ماده بن مانس کا خوفناک انجام دیکھ کر خوف سے تھر تھر کانپ رھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چند بھیڑیوں نے درخت کے ارد گرد چکر لگانے شروع کر دیۓ شاید وه درخت پر چڑھنے کا رستہ ڈھونڈ‎ ‎رھے تھے۔۔۔۔ ہوبو یہ دیکھ مزید سہم گیا
کچھ دور ایک گھنے درخت پر بیٹھا ایک بندر بھی یہ خوفناک منظر دیکھ رھا تھا۔۔۔۔ وه بھی خوفزده ھو گیا تھا مگر ھوبو جتنا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ وه کسی نہ کسی طرح بھیڑیوں سے چھپتا چھپاتا ھوبو تک پہنچ گیا۔۔۔
ھوبو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بندر نے ھوبو کے پاس جا کر سرگوشی کی۔۔۔۔۔۔ ھوبو یکدم چونک کر بندر کی طرف مڑا اور اس کے منہ سے نہ چاھتے ھوۓ بھی ایک چیخ نکل گی۔۔۔۔ جو بھیڑیوں نے بھی سن لی تھی وه چونک کر ھوبو کی طرف دیکھنے لگے انہیں ھوبو کے ساتھ بیٹھا ھوا بندر نظر آ گیا تھا۔۔۔۔۔ وه بندر کو دیکھ کر غرانے لگے
اوه۔۔۔۔۔ ہوبو۔۔۔۔۔ تم نے بھیڑیوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔۔۔۔۔ میں نے احتیاط برتی تھی اس سلسلے میں کہ بھیڑیوں کو میری موجودگی کا احساس نہ ھو مگر تم نے ان کو ھوشیار کر دیا۔۔۔۔۔۔۔ خیرکوئی بات نہیں۔۔۔۔ دیکھا جاۓ گا۔۔۔۔ بندر بولا
ھوبو چپ رھا۔۔۔۔ کیونکہ وه بہت خوفزه تھا۔۔۔۔ بھیڑیۓ ان کو دیکھ کر مسلسل غرا رھے تھے۔۔۔
ھوبو۔۔۔۔۔۔۔۔ بندر نے ھوبو کا کندھا پڑ کر اسے جھنجھوڑا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں‎ ‎سے نکلو ورنہ یہ‎ ‎خوانخوار بھیڑیئۓ تمہیں زنده نہ چھوڑیں گے۔۔۔۔۔
مممم۔۔۔۔۔ مگر کیسے نکلوں۔۔۔۔ ھوبو ھکلا کر بولا
‎درختوں کی شاخوں پر جھولتے ھوۓ جس طرح میں آیا ھوں۔
بندر نے کہا۔
اوه۔۔۔۔۔۔ کیا تم کو یقین ھے کہ یہ بھیڑیۓ ھمارا پیچھا نہ کریں گے۔۔۔۔ ہوبو نے بھیڑیوں کی طرف اشاره کرتے ھوۓ کہا۔۔
ہم درختوں کی شاخوں پر جھولتے ہوۓ چھپ چھپ کر جائیں گے۔۔۔ مجھے یقین ھے کہ یہ ھمارا زیاده دیر تک پیچھا نہیں کریں گے۔۔۔۔!!
دد۔۔۔‎ ‎دیکھ‎ ‎لو کہیں یہ ہمارے پیچھا کرتے کرتے ھمارے قبیلے تک نہ پہچ جائیں۔۔۔ ہوبو ہکلایا
نہیں۔۔۔۔۔۔۔ ایسا نہیں ھو گا ۔۔۔۔۔ بندر بولا۔۔۔ ہم قبیلے میں داخل ہونے سے پہلے اپنا بہت سا وقت گھنے درختوں پر گذار‎ ‎دیں‎ ‎گے۔۔۔۔۔
ہممممم۔۔۔۔‎ ‎ہوبو بولا۔ ٹھیک ہے نکلو پھر یہاں سے۔۔۔
ٹھیک ھے تم میرے پیچھے آ؎ؤ۔۔۔بندر یہ کہہ کر درخت کی شاخوں کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔۔اور پھر شاخوں سے ہوتا ھو دوسرے درخت پھر جھول گیا ۔۔۔۔ ہوبو نے بھی اس کی تقلید کی اور اس کے پیچھے اسی انداز میں‎ ‎ہوتا ہوا دوسرے درخت پر پہنچ‎ ‎گیا۔۔۔
بھیڑیۓ انہیں اس طرح بھاگتے دیکھ کر خوفباک آوازیں نکالتے تیزی سے ان کی طرف بڑھے‎ ‎مگر بندر اور ہوبو درختوں کی شاخوں پر جھولتے آگے ہی آگے بڑھے جا رھے تھے۔۔۔۔

کچھ دیر یونہیں جھولتے ہوۓ وه گھنی جھاڑیوں والے سلسلے میں داخل ہو گے۔۔۔ وه دونوں بری طرح ہانپ رھے تھے۔۔۔۔۔۔
بب۔۔۔۔۔بس۔۔۔۔۔بس۔۔۔۔۔ مجھ ۔۔۔۔۔۔۔۔ سے اور نہیں بھاگا جاتا اس طرح۔۔۔۔۔ ہوبو ہانپتا ہوا بولا
کچھ دور یونہی آگے بڑھتے آؤ۔۔آگے گھنی جھاڑیوں والے سلسلے ہیں۔۔۔۔ وہیں ہمم چھپ سکیں گے۔۔۔۔ بندر نے چیختی ہوئی آواز میں کہا

کچھ دور جانے کے بعد وه ایک گھنے درخت‎ ‎کی شاخوں میں چھپ کر بیٹھ گئے نیچے سے دیکھنے پر انہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔ دونوں بری طرح ہانپ رھے تھے۔
میں ان بھیڑیوں سے دردناک انتقام لوں‎ ‎گا۔۔ ہوبو ہانپتا ہوا بولا۔
کیسے لو گے انتقام۔۔۔۔۔ بندر نے پھوچھا۔
تم کوئی ترکیب سوچو۔‎'‎
مم۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔ میں بھلا کیسے سوچ سکتا ہوں‎ ‎۔۔ میں تو بندر ہوں۔۔۔۔ بندر نے بوکھلا کر کہا۔
اونہہ۔۔۔۔۔۔ بندر ہو تو کیا ہوا سوچ نہیں سکتے ۔۔۔۔ ہوبو بولا
ہوبو۔۔۔۔ میں‎ ‎تو کہتا ہوں تم بھیڑیوں سے انتقام لینے کا خیال دل سے نکال دو۔۔۔۔ وه بہت خونخوار ہیں۔
کچھ بھی ہوں میں ضرور ان سے انتقام لوں گا ۔۔
مگر کیسے........بندر نے پوچھا
اونہہ۔۔۔۔ دیکھا جاۓ گا۔۔۔ ہوبو لاپرواہی سے بولا
بندر اسے تشویش آمیز نگاہوں سے دیکھنے لگا
تمہارے ذہن میں کیا ہے۔۔۔۔۔ ہوبو
انتقام۔۔۔۔ میرے ذہن میں صرف انتقام ہے۔۔
مگر انتقام لینے کےلیے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ بندر بولا
ہوں۔۔۔۔۔۔۔ تم ان بھیڑیوں کے بارے میں کیا جانتے ہو
بس اتنا ہی کہ ظالم بادشاه ان کا خاص دوست ہے اور ہر طرح سے ان کا خیال رکھتا ہے۔۔ بندر نے جواب دیا
اوه۔۔۔۔۔۔ کیا جنگل کے جانوروں نے اس ظالم شیر کے خاتمے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ ہوبو بولا
نہیں۔۔۔۔ سب جانور شیر اور بھیڑیوں سے ڈرتے ہیں۔۔۔ ان سے مقابلے کی کوئی جرات نہیں کرتا۔۔۔۔‎''‎
''کیا ڈر کر بیٹھنے سے یہ بہتر نہیں کہ ظلم کو مل کر ختم کر دیا جاۓ۔۔۔۔۔؟؟
''مگر کوئی جانور اس سے متفق ہو تو۔۔۔۔ سب جانوروں کے دل میں شیر اورخونخوار بھیڑیوں ‏کا ڈر ہے‎''‎
میں خاتمہ کروں گا اس شیر کا‎ ‎اور ان خونخوار بھیڑیوں کا۔۔۔۔ ہوبو غصیلے لہجے میں بولا
کیا تمہارا دماغ تو نہیں چل کیا بھلا تم اکیلے کیسے اس شیر اوران بھیڑیوں کا مقابلہ کرو گے۔۔۔۔ بندر نے حیرت سے ہوبو کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
بس دیکھتے جاؤ۔۔۔۔۔ میں کیا کرتا۔
مگر پھر بھی۔۔۔۔۔؟
کیا تم میرا ساتھ نہیں دو گے۔۔۔۔ ہوبو نے پوچھا
صرف میرے ساتھ دینے کیا ہو گا۔۔۔۔ میں اور تم‎ ‎کر ہی کیا سکیں گے۔۔۔۔ بندر بولا
بہت کچھ کر سکیں گے۔۔۔ پہلے ہميں تمہارے قبیلے‎ ‎والوں کو اپنے ساتھ ملانا ہو گا۔۔ ہوبو نے کہا
کیا وه مان جائیں گے۔ بندر نے پوچھا
اگر ہم منائیں گے تو ضرور مان جائیں گے۔ ہوبو بولا
یہاں کتنی دیر اور رکنا ہے
جب تک شام کے سائے نہ ڈھلنے لگیں۔ بندر نے کہا
بہت دیر ہو جاۓ گی سورج ڈھلنے میں ابھی کافی وقت پڑا ہے۔۔ ہوبو بولا
مجبوری ہے وقت گذارنا تو پڑے گا۔۔۔۔۔ بندر نے کہا
ہاممممممم۔۔۔ ہوبو ھنکاره بھر کر ادھر ادھر دیکھنے لگا
*****
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: جنگل کا بادشاه ہوبو سیریز‎ ‎کا پہلا ناول

Post by ایکسٹو »

اگلے دن ہوبو اور اپنے ساتھی بندر بندر کے‎ ‎ساتھ اس کے قبیلے میں موجود تھا۔۔۔۔اس کے ساتھی بندر نے اپنے قبیلے والوں کو ہوبو اور ماده بن مانس پر گذرنے والا سارا واقعہ بتا دیا تھا۔۔ جس سن کر سب بندروں نے افسوس کا اظہار کیا۔۔
ہوبو اور اس کے ساتھی بندر نے بندر قبیلے والوں کو شیر اور بھیڑیوں کے خلاف‎ ‎بغاوت پر اکسایا تھا مگر کچھ بندرو کے علاوه باقی سب نے ھوبو کی بات ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ وه شیر اور بھیڑیوں سے بہت زیاده خوفزده تھے
انہوں نے ھوبو کو بھی شیر اور بھیڑیوں سے ٹکر نہ لینا کا بہت کہا مگر ھوبو نہ مانا وه بھیڑیوں سے انتقام لینا چاہتا تھا اور ظالم شیر کی حکومت کا تختہ الٹ کر ظلم و ستم کا خاتمہ کرنا چاہتا تھا۔
اگلی صبح بندروں کے سردار نے ھوبو کو اپنے پاس طلب کر کے پوچھا میں نے سنا ہے کہ تم بھیڑیوں اور شیر سے انتقام لینا چاھتے ھو۔۔
جی سردار آپ نے بلکل ٹھیک سنا۔۔ میں بھیڑیوں سے اپنی ماں کا انتفام لینا چاھتا ہوں اور شیر کے ظلم و ستم سے جنگل کے جانوروں کو نجات دلانا چاھتا ھوں۔۔۔۔ ہوبو نے کہا
اوں۔۔۔ تمہاری بات تو ٹھیک ہے مگر تم اکیلے کیا کر سکو گے۔۔۔۔ بندر سردار بولا
جب آسمان والا مدد کرے تو کوئی بھی جانور کچھ بھی کر سکتا ہے۔۔‎ ‎ہوبو نے جواب دیا
دیکھو ہوبو تم ابھی بچے ہو تم شیر اور بھیڑیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکوگے۔۔۔ الٹا وه تمہیں چیر پھاڑ دیں گے۔۔۔۔ اس لیے تم شیر اور بھیڑیوں سے انتقام لینا کی بات بھول جاؤ۔۔۔ بندر سردار نے کہا
نہیں سردار اگر ان کا جلد خاتمہ نہ کیا گیا تو کل وه آپ کا میرا اور دوسرے قبیلے والوں کا خاتمہ کر دیں گے۔۔ آج انہوں نے میری ماده بن مانس ماں کو ہلاک کیا ہے کل وه آپ کا بھی یہی حال کر سکتے ہیں۔۔۔ ظالم کے ظلم کو پھیلنے سے پہلے ہی ظالم کا خاتمہ کر دینا چاہیۓ تاکہ مخلوق خدا ظالم‎ ‎کے ظلم و ستم سے بچ سکے ۔۔۔۔۔ ہوبو نے جواب دیا
ہوبو میں تمہاری باتیں سمجھ سکتا ہوں مگر تمہاری اس حرکت سے شیر اور بھیڑیۓ ہمارے خلاف ہو جائیں گے اور سب سے پہلے ہم ہی پر حملہ کر کے ہمارے قبیلہ تہس نہس کر دیں گے۔۔۔۔ میں تمہارے لیۓ اپنے قبیلے کا خاتمہ نہیں کروانا چاہتا۔۔۔۔ اس لیے میں تمہیں ایک بار پھر روکوں گا۔۔ بندر سردار نے کہا
معافی چاہتا ہوں سردار مگر میں ہر حال میں ان ظالموں کا خاتمہ کر کے رھوں گا۔۔۔ ہوبو نے پرعزم لہجے میں جواب دیا۔
اگر تم باز نہیں آؤ گے تو میں تمہیں اپنے قبیلے سے نکال دوں گا۔۔ بندر سردار بولا۔
مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا آپ بے شک مجھے اپنے قبیلے سے نکال دو۔۔۔۔ ہوبو بولا
ہمممممممم۔۔۔ تو ٹھیک ہے تم آئینده ہمارے قبیلے کا رخ نہ کرنا ورنہ ہم تم کو اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔۔۔۔۔ بندر سے سردار نے کہا
ٹھیک ہے سردار میں چلتا ہوں اور آپ سے ایک بات ضرور کہوں گا کہ‎ ‎ایک نہ ایک دن آپ بھی ظالم کے ظم‎ ‎کا نشانہ بن سکتے ہیں۔۔ تھوڑی سے قربانی دے کر اگر ظالم کا خاتمہ کر دیا جاۓ تو بہتر رہتا ہے‎ ‎ورنہ ظالم کا ظلم بڑھتا ہی جاتا ہے۔۔۔۔۔ باقی آپ کی مرضی۔۔۔۔ ہوبو یہ کہہ کر چل پڑا۔
ہوبو اور سردار بندر کی باتیں ہوبو کا ساتھی بندر اور دوسرے بندر بھی سن رھے تھے۔۔۔۔ جو جو ہوبو کے ساتھ متفق تھے انہوں نے بھی ہوبو کا ساتھ‎ ‎دینے اور ہوبو کے ساتھ جانے کا اعلان کر دیا یہ سب بندر ہوبو کے بچپن کے دوست تھے جو اس وقت ہوبو کے ساتھ کھیلا کرتے تھے جب ہوبو تین سال کا تھا ان بندر کی کل تعداد سات تھی اور ان میں ایک کل والا بندر بھی تھا جو کل ہوبو کے ساتھ رھا تھا اور اسے بھیڑیوں کے چنگل سے بچا لایا تھا۔۔
یہ سب‎ ‎قبیلہ بدر کر دیۓ گۓ تھے۔۔۔۔ ہوبو ان کو اپنے ساتھ لے کر قبیلے سے نکل گیا۔۔ باقی سب بندر پیچھے سے ہوبو اور اس کے ساتھیوں کو جاتا دیکھتے رہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظالم شیر اپنے دربار میں بیٹھا اپنے سامنے رکھے تازه ہرن کا گوشت کھا رہا تھا اس کے پاس بہت سے بھیڑیۓ مؤدب کھڑے تھے۔۔۔۔
بادشاه سلامت آپ کا اقبال بلند ہو۔۔۔۔۔ ان چیتوں کا خاتمہ جلد ہو جانا چاہیۓ۔۔۔۔۔ یہ ہر وقت حضور کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں اور حضور کے خلاف دوسروں جانوروں کو اکساتے رہتے ہیں۔۔۔ اگر ان کا خاتمہ جلد نہ کیا گیا تو دوسرے جانوروں کے دل سے حضور کا ڈر نکل جاۓ گا۔۔۔۔ ایک بھیڑیۓ نے شیر کو‎ ‎فرشی سلام کرتے ہوۓ کہا
تم اب تک ان کم بخت چیتوں کا خاتمہ نہیں کر سکے۔۔۔ شیر گرج‎ ‎کر بولا
حضور وه ہم سے ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور ہمیں بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔۔ ہمارے بہت سے ساتھی ان کے ساتھ لڑائی میں مارے گۓ۔۔۔ ہم نے بہت بار ان پر حملے کیۓ ہیں مگر وه ہر بار ہم سے متحد ہو کر لڑتے ہیں۔۔ بھیڑیۓ نے جواب دیا
تو تم کہنا کیا چاہتے ہو کیا ہم ان کو ان کے جرم کی سزا نہ دیں۔۔۔ ان کی ہمت کیسے ہوۓ ہماری شان میں گستاخی کرنے کی۔۔۔ شیر زور سے گرجا
بادشاه حضور اگر آپ اپنی فوج کے شیروں کو ہمارے ساتھ چیتوں پر حملے کرنے کےلیے بھیج دیں تو ہم سب مل کر چیتوں کا خاتمہ کر سکیں گے ورنہ ان سے مقابلہ کرنا اکیلے ہم‎ ‎بھیڑیوں کے بس کی بات نہیں۔۔۔ بھیڑیۓ نہ کہا
تمہیں ہماری فوج کے جتنے شیروں کی ضرورت ہو اپنے ساتھ لے جاؤ اور چیتوں کا پورا قبیلہ تہس نہس کر دو تاکہ پھر کوئی ہمارے خلاف بغاوت کرے کی جرائت نہ کر سکے۔۔۔ ہم آج ہی اپنی فوج کے شیروں کو تمہاری مدد کرنے کا حکم دیتے ہیں۔۔۔۔ شیر گرج دار آواز میں بولا اس کے ساتھ ہی اس کی کھوپڑی پر ایک ناریل‎ ‎اس زور سے پڑا کے اس کی کھوپڑی ناچ اٹھی۔۔ اس کے بعد تو اس کی کھوپڑی پر ناریلوں کی بارش ہونے لگی۔ دوسرا تیسرا چوتھا تڑاتڑ اس کی کھوپڑی پر ناریل پڑ رہے تھے۔۔۔ شیر اس اچانک پڑنے والی افتاد پربری طرح بوکھلا اٹھا اور زور زور سے دھاڑنے لگا اس کو دن میں‎ ‎ہی ہر طرف تارے ناچتے ہوۓ دیکھائی دے رھے تھے بھیڑیۓ بھی شیر پر پڑنے والی اس اچانک افتاد سے‎‏ بوکھلا کر ادھر ادھر دیکھنے لگے
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: جنگل کا بادشاه ہوبو سیریز‎ ‎کا پہلا ناول

Post by ایکسٹو »

بھیڑیۓ ابھی ادھر ادھر دیکھ ہی رھے تھے کہ ان پر بھی ناریل برسنے لگے۔ بھیڑیۓ اس سے اور زیاده بوکھلا گۓ اور انہیں دم دبا کر بھاگنے میں ہی عافیت نظر آئی۔۔ چند لمحوں بعد میدان بھیڑیوں سے خالی ھو چکا تھا اب وہاں صرف شیر ره گیا جس پر ابھی تک ناریل پڑ رھے تھے اور وه دھاڑتا ھوا اپنی دم پکڑنے کی کوشش کر رھا تھا جیسے سارا قصور دم ہی کا ہے‎ ‎اور‎ ‎دم ہی اس پر ناریل‎ ‎برسا رھی ھو۔
اچانک وھاں ہنسی کی آواز سنائی دی اور شیر چونک کر رک گیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔۔
ھاھاھاھاھا۔۔۔ رک کیوں گے اے پاگل شیر۔۔ پکڑو پکڑو اپنی دم۔۔۔ شاباش۔۔۔ اسی لمحے شیر کے سامنے والے درخت کی شاخ سے ھوبو نمودار ھو کر شیر سے مخاطب ھوا۔ شیردرخت کی شاخ پر بیٹھے ھوبو کو دیکھ کر زور زور سے گرجنے لگا۔
ارے۔۔۔۔۔۔ او بھائی شیر ۔۔۔۔۔ کیوں اس طرح چیخ چیخ کر اپنا حلق پھاڑ رھے ھو۔۔۔۔ خاموش رھو۔۔ ہوبو ہنستا ھوا بولا۔ اس کو ہنستا دیکھ کر شیر کا غصہ ساتویں آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا۔۔اور وه زور سے گرج کر بولا
او۔بد بخت تو کون ہے۔۔۔ ذرا درخت سے نیچے اتر میں تجھے تیری گستاخی کا مزه چکھاتا ھوں
‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‎'' ‎ابے او احمق شیر میں شیر نہیں ہوں جو درخت سے اتر کر تیرے سامنے کھڑا ھو جاؤ۔۔۔۔ اگر تو شیر ھے تو درخت پر آ۔۔۔۔ اگر تو درخت پر نہ آ سکا تو میں سمجھو گا کہ تو شیر نہیں گیدڑ ہے۔۔ ہوبو نے کہا۔۔
''تمہیں پتا ہے شیر درخت پر نہیں چڑھ سکتا اگر ہمت ہے تو نیچے آ پھرمیں تجھے بتاتا ھوں۔۔۔ کہ میں شیر ھوں یا گیڈر۔۔۔۔ شیر گرجا اس کے منہ سے غصے کی شدت سے جھاگ‎ ‎بہنے لگی
جنگل کے ظالم بادشاه شیر کی حالت اس وقت اس کتے جیسی ھو رھی ہے جس کی دم پر مچھر نے کاٹ لیا اور وه اپنی دم پر بیٹھے مچھر کو پکڑنے کی کوشش کر رھا ھو۔۔ھوبو قہقہہ لگا کر بولا
او۔۔۔۔ بدبخت میں تیرا خون پی جاؤں۔۔۔۔ بس ایک بار تو میرے ہاتھ تو آ ۔۔۔۔ شیر پھر گرجا
اگر درخت پر چڑھ سکتا ھو تو آ جاؤ۔۔۔ اور آ کے پی کے لو میرا خون۔۔۔ ھوبو شیر کو چڑاتا ھوا بولا‎ ‎پھر گرج کو بولا
سن اے۔۔۔ ظالم شیر۔۔۔۔۔۔ میں تیرے ظلم سے خلق خدا کو نجات دلانے آیا ھوں۔۔۔‎ ‎تو نے بہت ظلم کر لیۓ جنگل کے جانوروں پر اب تیرا آخری وقت آ چکا ہے اپنے زندگی کے دن گن لے۔۔۔۔۔
کیا۔۔ پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔۔۔۔۔ ھاھاھاھا۔۔۔۔ اک بندر چلا شیر کا شکار کرنے ۔۔۔ میں تیرے بندروں کی پوری نسل ہی ختم کر دوں گا۔۔۔ نا رھے گا بانس نہ بجے کی بانسری۔۔۔۔۔ شیر نے کہا‎ ‎وه ھوبو کو بندر سمجھ رھا تھا
بلی کے خواب میں چھیچھڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو مجھے تو پکڑ نہیں‎ ‎سکا۔۔۔ میری نسل ختم کرنے کی بات کر رھا ھے۔۔۔۔۔۔ ھوبو نے ہنس کر کہا اور ساتھ ہی اپنے ہاتھ میں پکڑا ایک ناریل شیر کے سر پر جڑ دیا جو شیر کی کھوپڑی پر جا لگا۔ ھوبو نے بن مانسوں کی طرح ایک نعره لگایا۔۔ ھاھوھاھوھاھوھاھوھاھوھاھو۔۔۔ اور اپنا سینے پیٹنے لگا ھوبو کے نعرے لگاتے ہی‎ ‎درختوں پر چھپے ھوبو کے ساتھی بندروں نے شیر کو ناریل مارنأ شروع کر دیۓ۔۔۔۔ شیر نے اب وہاں سے بھاگنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی اور دھاڑتا ھوا پیچھے ہٹنے لگا جھاڑیوں کی قریب جاتے ہیں وه بھاگ کھڑا ھوا
پنگو بندر تم اس‎ ‎شیر کے پیچھے جاؤ اور دیکھو یہ کہاں جاتا ھے اور کیا کرتا ھے۔۔ ھوبو نے شیر کو بھاگتے دیکھ ایک تیز سرگوشی کی ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی دوسرے درخت کی شاخیں ہلیں اور وہاں سے ایک بندر نکل کر اس طرف جھول گیا جدھر شیر گیا تھا۔۔
مانکی بندر تم سب بندر میرے درخت پر آ جاؤ ھوبو نے کہا۔
تھوڑی دیر میں اس کے گرد سات بندر جمع ھو چکے تھے۔۔
ہاں تو ساتھیوں اب سے ہمارا یہی ٹھکانا ہے۔۔ اب ہم نے یہیں رھنا ھے۔۔۔۔ ھوبو نے کہا تو سب بندر اس کا منہ تکنے لگے۔۔
مگر۔۔۔۔ یہاں تو ظالم شیر اپنا دربار لگاتا ھے۔۔ ھم کیسے ره سکیں گے یہاں۔۔۔ ایک بندر ھکلا کر بولا
ھاں تو پھر کیا ھوا پہلے وه یہاں اپنا دربار لگایا کرتا تھا اب ھم لگانا شروع کر دیں۔۔۔ ھوبو بولا
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے۔۔۔۔۔ جیسے ہی ھم نیچے اتریں گے شیر اور اس کے ساتھی ھمیں چیر پھاڑ ڈالیں گے۔۔۔ ایک اور بندر بولا
فکر نہ کرو۔۔۔۔۔۔ ھم درختوں پر ره لیں گے۔۔۔ اور جیسے ہی شیر اور اس کے درباری بھیڑیا یہاں آئیں گے آج کی طرح پھر انہیں بھاگا دیں گے۔۔۔ ھوبو بولا
مگر پھر بھی۔۔۔ ہم یہاں نہیں ره سکیں
یار تم خاموش ھو جاؤ۔۔۔ دیکھا جاۓ گا۔۔۔ھوبو بے پرواھی سے بولا
اب یہ دیکھنا شیر اور اس کے ساتھی یہاں کب واپس آتے ہیں۔۔۔ تم بندر ناریل جمع کرواور اپنی اپنی جگہوں پر چھپ کر بیٹھ جاؤ۔۔ جیسے ہی شیر اور اس کے ساتھی یہاں آئیں ان کو‎ ‎ناریل مار مار کر بھگا دینا۔۔۔ ھوبو نے کہا اور بندر اثبات میں سر ھلاتے ھوۓ وہاں سے اٹھنے لگے۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
Post Reply

Return to “بچوں کی کہانیاں”