کیا دہلی کی تاریخی مسجد بچ سکے گی؟

کچھ اعلانات کچھ پیغامات آپ کے نام
Post Reply
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

کیا دہلی کی تاریخی مسجد بچ سکے گی؟

Post by رضی الدین قاضی »

ایس اے ساگر کے قلم سے


شاہجہاں آباد عرف پرانی دہلی کی اکبرآبادی مسجد ایک مرتبہ پھر سرخیوں میں ہے ۔اس مرتبہ میٹرو ریل کے ہتھکنڈوں میں پھنسی یہ تاریخی مسجد جو 1857کی جنگ آزادی کے دوران مجاہدین آزادی کی نسبت سے برطانوی سامراج کے عتاب کا شکار ہوکر شہید ہوئی ‘14جون2012کی رپورٹ کے مطابق اب آثار قدیمہ کے رحم وکرم پر ہے جبکہ حقائق اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ آج کا سبھاش پارک دراصل ایڈورڈ پارک کی جدید شکل ہے جس کے نیچے وہ تاریخی مسجد ہے جسے معروف مغل شہنشاہ شاہجہاں کی بیگم اکبرآبادی نے 17ویں صدی عیسوی میں تعمیر کروائی تھی ۔تاریخ کی کتابوں میں اکبر آبادی مسجد کے نام سے معروف اس مقام پر آج میٹرو ریلوے کے بھاری بھرکم اوزار آزمائے جارہے ہیں جبکہ صدائے احتجاج بلند کرنے والوں میں حسب سابق حاجی شعیب اقبال ‘ دہلی رکن قانون ساز اسمبلی‘ مٹیا محل کے علاوہ اور کوئی نظر نہیں آرہا۔ اس سلسلہ میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمارت کے تباہ ہوجانے کی صورت میں‘ جیسا کہ انگریزوں نے اپنے اقتدارکا فائدہ اٹھاتے ہوئے تاریخ کی صورت مسخ کی ہے‘کیا مسجد کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے؟

میٹرو اسٹیشن بنا تومسجد کی باقیات کا کیا ہوگا؟

جامع مسجدکے مشرقی دروازہ شاہی گذر گاہ تھی جہاں سے بادشاہ مسجد میں داخل ہوتا تھا۔اسی دروازے کے قریب دہلی میٹرو نے اپنا اسٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔آثار الصنادید کے’ محافظوں‘ نے جامع مسجد میٹرو اسٹیشن کیلئے تجویز کردہ جگہ کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرنا شروع کردیا ۔’آثار الصنادید کے محافظ‘ یاسابق ڈپٹی اسپیکر دہلی اسمبلی اورایم ایل اے حاجی شعیب اقبال نے26مئی 2011کو پریس کانفرنس کے دوران مسلمانان دہلی کو باخبر کرنے کیلئے دہلی حکومت کی اس سازش سے آگاہ کیاتھا۔ زمینی لیڈر ہونے کے ناطے ان کی بات علاقے کے عوام و خواص دونوں طبقوں میںوہ اثر رکھتی ہے جو کم از کم آج کے کسی اور لیڈر کو وہاں نصیب نہیں ہے بلکہ آئندہ بھی شاید کسی کو نصیب نہ ہو۔ سننے والوں کو ممکن ہے اس میں مبالغہ محسوس ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو جدوجہدحاجی شعیب اقبال اس علاقے کیلئے کرتے رہے ہیں وہ اپنے آپ میں بے مثال شمار کی جاتی ہے۔ شعیب اقبال طویل عرصہ سے اس تاریخی مسجد کی تعمیر نو کیلئے کوشاں ہیں ۔ انھوںنے اخبار نویسوں کو متوجہ کیا کہ دہلی حکومت نے دریاگنج میں میٹروشروع کرنے کا جو منصوبہ بنایا ہے اس کا اسٹیشن تاریخی اکبر آبادی مسجد پر قائم کیا جائے گا ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں شاہ جہانی دور کی اکبرآبادی مسجد ہوا کرتی تھی اور جسے انگریزوں نے 1857کی جنگ آزادی کے بعد محض اس وجہ سے شہید کردیا تھا کہ جدوجہد آزادی کے دوران اس مسجد میں بڑی تعداد میں مجاہدین آزادی جمع ہوئے تھے۔واضح رہے کہ آج کے نیتا جی سبھاش پارک کی زمین پر یہ مسجد بی بی اکبر آبادی نے تعمیر کرائی تھی جومغلیہ تاجدار شاہ جہاں کی بیگمات میں سے تھیں۔یہ مسجد تقریباً ویسی ہی تھی جیسی چاندنی چوک کی فتح پوری مسجد ہے۔حالانکہ برسوں سے یہ بات چل رہی ہے کہ جب ایم سی ڈی اپنے جامع مسجد ری ڈیولپمنٹ پلان پر عمل شروع کرے تو اس دوران کھدائی کرکے اس مسجد کی بنیاد اور اس کے آثار کو منظر عام پر لائے جو کہ اس پلان کا ایک حصہ بھی ہے۔اب یہ بات دیگر ہے کے ایم سی ڈی آج تک اپنے اس پلان کو شروع نہیں کرسکی۔ جہاں تک مسجد کے باقیات کا تعلق ہے وہ ابھی تک سبھاش پارک کے نیچے مدفون ہیں جسے میٹرو کے ہتھوڑے برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اسے سبھاش پارک توآج کہاجاتا ہے جبکہ اس سے قبل اسے علاقے کے بچے بڑے سبھی گھوڑے والا باغ کہا کرتے تھے۔ باغ میں جہاں آج نیتا جی سبھاش چندر بوس کا مجسمہ نصب ہے وہاں ایڈورڈ گھوڑے پر سوار نظر آتا تھا۔آخری مرتبہ جب میرا گذر اس نام نہاد پارک میں ہوا تو وہاں بے شمار چرسیوں‘ بھکاریوں اور اسی انداز کے لوگوں کا مسکن نظر آرہا تھاجبکہ’ آثارالصنادیدکے محافظوں‘ کوپہلے ہی یقین تھا کہ اگر اس جگہ پر میٹرو اسٹیشن کیلئے کھدائی کا کام شروع کردیاگیا تو اس مسجد کے باقیات کو ڈھونڈنے کے بارے میںامکانات ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائیں گے۔ گذشتہ برس آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا بھی یہ کہنا تھا کہ اگر اس جگہ پر میٹرو اسٹیشن کی تعمیر کےلئے کام شروع ہوگیاتو ڈی ایم آر سی زمین کو کاٹنے کیلئے جس طرح کی تکنیکیں استعمال کرے گی ان سے وہاں مسجد ہونے کے تمام ثبوت ختم ہوجائیں گے جبکہ دہلی میٹرو کے حکام نے طفلانہ تسلی دی تھی کہ وہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ اسٹیشن کی تعمیر کے دوران وراثتی ڈھانچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔اسے طفلانہ تسلی اس لئے بھی کہا جاسکتا ہے کہ ڈی ایم آر سی کے ایک ترجمان نے پہلے ہی پلہ جھاڑ لیا ہے کہ کہ میٹرو اسٹیشن کیلئے انھوںنے اسکیننگScaning کی مدد سے اس زمین کے نیچے کا جائزہ لیا ہے اور انھیں وہاں کوئی ڈھانچہ نظر نہیں آتا ۔ہوتا تو یہ کہ اس اسکیننگ کے عمل میں مسلم ماہرین اور قائدین کو بھی شریک کیا جاتالیکن ایسی کسی پیش رفت کی اطلاع میڈیا کی پہنچ سے باہر ہے۔ پھربھی اگر آثار قدیمہ کے ماہرین یا وراثتی ادارے وہاں کوئی باقیات دریافت کرلیتے ہیں تو انہیں اس پر کوئی’ اعتراض‘ نہیں ہوگا۔اور وہ اپنا مجوزہ میٹرو اسٹیشن وہاں سے چند میٹر اور آگے لیجانے پر غور کریں گے۔سوال یہ ہے کہ جس مسجد کے یقینی شواہد ثابت ہیں اس کے تعلق سے ’غور‘ کرنے کا جھنجھنا کیوں مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھمایا جارہا ہے جبکہ مجوزہ اسیٹشن اسی تاریخی اکبر آبادی مسجد پر قائم کیا جائے گا ۔ذرائع کے مطابق اس قبل حکومت نے مجوزہ اسٹیشن ’پردہ والا باغ‘ پر بنانے کا منصوبہ تیارکیا تھا مگراب حکومت نے گویاجان بوجھ کرسبھاش پارک یا مسجد اکبر آبادی پر بنانے کی سازش تیار کی ہے تاکہ مسجد کا نام ونشان باقی نہ رہے ۔شعیب اقبال نے میڈیا کے روبرو 1850کا نقشہ ودیگر دستاویز دکھاتے ہوئے کہاتھا کہ وہ گذشتہ کئی سال سے مسلسل اس مسجد کی بازیابی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ پیر کو دہلی کابینہ کی میٹنگ میں یہ فیصلہ لیاگیا کہ مسجد اکبری آبادی پر ہی میٹرو اسٹیشن بنایا جائے گا ۔انہوں نے انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت مسجد پر اسٹیشن بنانے کا خواب دیکھنا بند کردے ‘یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا جائے گا ۔میں خود آگے آکر مسجد کی تعمیر کا کا م شروع کراﺅں گا ۔اگر حکومت میں ہمت ہے تواکبرآبادی مسجد کی تعمیر روک کر دکھائے ‘اس کیلئے میں کسی بھی طرح کی قربانی دینے کو تیار ہوں ۔انہوں نے کہاتھا کہ ہم میٹرو کی مخالفت نہیں کرتے مگر اسٹیشن بنانا ہی ہے توسبھاش پارک کے علاوہ کئی جگہ خالی پڑی ہیں وہاں میٹرو اسٹیشن بنائیں ‘مسجد پر ہی اسٹیشن بنانا کیوں طے کیا گیا؟ اس کا جواب حکومت کو دینا چاہئے جبکہ ڈی یو اے سی اور جامع مسجد ڈیولپمنٹ پلان کے چیف پردیپ سچ دیوا نے بھی مسجد پر اسٹیشن بنانے کی سخت مخالفت کی اور مسجد کی باز یابی کی بات کہی ہے ۔انہوں نے سابقہ پلان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسجد پرپہلے پارکنگ بنانے کا منصوبہ تھا جس کی ہم نے شدید مخالفت کی اور اب اس مسجد کے آثار بھی ختم کرنے کی سازش ہورہی ہے جس سے مسلمانوں میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی ہے جبکہ اس مسجد کا نقشہ انگلینڈ کے ایک میوزیم میں بھی رکھا ہے ۔یہ مسجد کی 2مینار وں اور3 گنبد وں پر مشتمل تھی جوچاندنی چوک کے کنارے پر بنی مسجدپوری مسجد کے طرز کی تھی ۔کسی نے اکبرآبادی مسجد نہ بھی دیکھی ہوتو وہ لال قلعے کے سامنے آج بھی فتح پوری مسجددیکھ سکتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملہ کو میں نے کئی مرتبہ اسمبلی میں اٹھایا اور وزیر اعلی سے بھی بات کی مگر وزیر اعلی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے برعکس دو روز قبل یہاں اسٹیشن بنانے کیلئے ہری جھنڈی دکھا دی ۔ میںنے وزیر اعلی کو پیغام دے دیا ہے کہ کسی صورت میں مسجد پر اسٹیشن نہیں بننے دیں گے ۔حکومت اپنے ارادے کو ترک کرے ورنہ ہم تحریک چلائیں گے ۔شاہجہانی جامع مسجد کے قریب سبھاش پارک میں تاریخی اکبرآبادی مسجد کے بارے میں آج بھی تایخ گواہ ہے کہ اسے 1857میں انگریزی حکومت نے اسی لئے منہدم کردیا تھا کہ یہ مسجد مجاہدین آزادی کا مرکز بنی ہوئی تھی ۔اس مسجد کا ذکر 1850کے اس نقشہ میں ہے جسے خود انگریزوں نے تیار کیا تھا ۔یہی نہیں دہلی حکومت کے ذریعہ تیارہ کردہ جامع مسجد کی ڈیولپمنٹ پلان میں بھی اس مسجد کا نام درج ہے اس کے باوجود حکومت دہلی انگریزوں سے بھی دو ہاتھ آگے نکلتے ہوئے اسی شاہی مسجد کا نام ونشان مٹانے منصوبہ بناچکی ہے ۔
[center]Image[/center]
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: کیا دہلی کی تاریخی مسجد بچ سکے گی؟

Post by میاں محمد اشفاق »

رضی الدین قاضی بھائی بہت دکھ ہوتا ہے کہ کافر مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اصل میں ان کا مقصد مسلمانوں کی انفرادیت سے فائدہ اٹھانا ہے اور اسلام کو تو نہیں بلکہ آج کے مسلمان کو حزمیت کا ذائقہ چکھانا ہے اس کے لئے وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم مسلمان آج کسی بھی پلیٹ فارم پر مجتمع نہیں ہیں اگر ہم مسلمان کسی جھنڈے تلے اکھٹا ہو جائیں تو کسی کافر میں جرات نہیں ہو گی کہ وہ کسی مسلمان تو کیا کسی غریب نا مسلم کی زمین پر بھی قبضہ نہیں کر سکیں گے حضرت عمر کا دور ہمارے لئے اس کی ایک اعلی مثال ہے۔
دعا ہے کہ اللہ ہم مسلمانوں کو ایک اچھا مسلمان بنائے تو ہی ہم اسلام کا صیح حق ادا کر سکیں گے۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Re: کیا دہلی کی تاریخی مسجد بچ سکے گی؟

Post by رضی الدین قاضی »

بجا فرمایا محترم اشفاق بھائی آپ نے.

اللہ رب العزت ہمیں نیک اور ایک بنادے. آمین
[center]Image[/center]
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: کیا دہلی کی تاریخی مسجد بچ سکے گی؟

Post by اضواء »

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بہت ہی افسوس ناک خبر ہے ...
رضی بھیا
جو سلوک ہندوں نے مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہے لگتا ہے یہ ایک کھلی سازش ہے
وہ تو ہمیشہ سے ہی یہ ہی چاہتے ہے کے اسلام کو کمزور کردیا جائےاب مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ
ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جدوجہد سے اپنے حق کے لیئے آواز اُٹھائے اور
آپس میں تعاون برقرار رکھے

ہماری تو دعاء ہے کے اسلام پوری دنیا پر
غالب ہو اورلا إله إلا الله" و"محمدرسول الله" کی آواز ہمیشہ بلند رہے یارب ....
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Re: کیا دہلی کی تاریخی مسجد بچ سکے گی؟

Post by رضی الدین قاضی »

آج مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد نہیں ہے

بلکہ یوں کہا جائے کہ مسلمان بکھرے ہوئے ہیں اسی کا فائدہ کافر اٹھا رہے ہیں

اس دور میں خلیفہ نظام کی ضرورت ہے
[center]Image[/center]
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: کیا دہلی کی تاریخی مسجد بچ سکے گی؟

Post by بلال احمد »

لیکن نظام خلافت کیلئے حکمران بھی ویسا ہونا چاہیے
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Re: کیا دہلی کی تاریخی مسجد بچ سکے گی؟

Post by رضی الدین قاضی »

بلال احمد wrote:لیکن نظام خلافت کیلئے حکمران بھی ویسا ہونا چاہیے

بلال بھائی درست فرمایا آپ نے


اگر سعودی حکمران خلافت کا اعلان کر دیں تو بات بن سکتی ہے.
[center]Image[/center]
Post Reply

Return to “اعلانات / پیغامات”