آل پاکستان گدھا کانفرنس - مستنصر حسین تارڑ

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

آل پاکستان گدھا کانفرنس - مستنصر حسین تارڑ

Post by چاند بابو »

[center]آل پاکستان گدھا کانفرنس [/center]
[center]مستنصر حسین تارڑ[/center]

ایک زمانے میں میں بہت بدنام تھا کہ یہ شخص انسانوں کے بارے میں کم کالم لکھتا ہے اور جانوروں کے بارے میں زیادہ لکھتا ہے۔ اسے انسانوں کی نسبت الو،گدھے، دریائی گھوڑے، مگر مچھ اور اودبلاؤ وغیرہ زیادہ پیارے ہیں۔ اس الزام سے بچنے کے لیے میں نے مسلسل انسانوںکے بارے میں کالم لکھے لیکن یہ بے نوازی نہ میرے کام آئی اور نہ ہی انسانوں کے کام آئی۔ انسان جیسے تھے ویسے ہی رہے بلکہ پہلے سے بھی بدتر ہوگئے لوگوں کی لاشیں کھمبوں پر لٹکانے لگے۔ انہیں ذبح کرنے لگے یا پھر اقلیتوں کی بستیوں پرحملے کرکے انہیں زندہ جلانے لگے تو اس صورت میں کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ میں پھر سے انسانوں کو ترک کرکے جانوروں کے قریب آجاؤں کہ وہ اس نوعیت کی ’’تہذیب یافتہ ‘‘ حرکات نہیں کرتے۔
میرا پچھلا کالم لاہور میں منعقد ہونے والی بھینس کانفرنس کے بارے میں تھا اور میں نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں بھینسوں کو ان کا وہ مقام مل جائے گا جس کی وہ حقدار ہیں اور انہیں پاکستان کا قومی جانور ڈکلیئر کردیا جائے گا اب سوچتا ہوں تو یہ صرف بھینس ہی نہیں جس کو ہم نے اس کا جائز مقام نہیں دیا بلکہ بے شمار دوسرے جانور بھی ہیں جن میںگدھے سرفہرست ہیں۔ میں گدھوں کی خوبیاں نہیں گنواؤں گا،اگر آپ خود بال بچوں والے ہیں تو آپ کو یقینا یاد ہوگا کہ آپ اپنے بیٹے سے لاڈ کرتے ہوئے اسے مخاطب کرتے ہوئے ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ’’اوئے گدھے ‘‘ بلکہ جب بہت ہی پیار آتا تھا تو اسے گدھے کا بچہ بھی کہہ دیتے تھے یہ سوچنے کی بات ہے کہ آپ اپنے چھوٹے بچوں کو لاڈ پیار سے یہ کبھی نہیں کہتے کہ اوئے مگر مچھ یا اوئے گھوڑے کے بچے صرف گدھے کے بچے کہتے ہیں تو اس سے گدھے کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ ہمارے ایک نزدیکی تارڑ عزیز ہیں جو ایک بلند عہدے پر فائز ہوئے اور نیک نام ہوئے۔ موصوف کے مزاج میں مزاح کی جو چاشنی ہے اس سے ایک دنیا آگاہ ہے۔ مثلاً ایک بار باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ میں پچھلے ہفتے اسلام آباد گیا تو جی ٹی روڈ کے راستے دس گھنٹے لگ گئے میں نے کہا کہ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ سڑک بہت خراب ہے، ٹریفک بھی بدنظمی کا شکار ہے تو کہنے لگے نہیں نہیں وجہ یہ نہیں تھی لیکن میرے ہمراہ جو میرے دوست تھے وہ درگاہوں وغیرہ پر سجدے کرنے کے شوقین ہیں۔ پیروں فقیروں کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں، فاتحہ پڑھ کر قبر کو بوسہ دینا نہیں بھولتے اس پر میں نے تعجب کا اظہار کیا کہ آخر لاہور سے اسلام آباد کے راستے میں اتنی اہم قبریں تو نہیں ہیں کہ دس گھنٹے لگ جائیں اس پر انہوں نے اپنی نورانی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک شرارتی مسکراہٹ سے کہا۔ دراصل راستے میں جہاں کہیں کوئی سپیڈ بریکر آتا تھا تو میرے دوست فوراً کار رکوا لیتے تھے۔ سپیڈ بریکر کے قریب ہو کر فاتحہ پڑھتے تھے اور اس کے ابھارپر عقیدت سے ہاتھ پھیرتے تھے یوں دس گھنٹے لگ گئے اب تم جانتے ہو کہ لاہور سے اسلام آباد تک جی ٹی روڈ پر کتنے سپیڈ بریکر ہیں یہی عزیز کہا کرتے تھے کہ گدھے کے بچے اور میرے بچے بچپن میں بہت خوبصورت ہوتے ہیں اور پھر بڑے ہوجاتے ہیں۔
ایک بار لاہور کے ڈیفنس میں میں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک گدھا گاڑی والا سنگ مرمر کی ٹائلیں گاڑی پر لاد رہا ہے اوران کا وزن اتنا ہے کہ پورے کا پورا گدھا ہوا میں معلق ہوچکا ہے اور بے بسی سے ٹانگیں چلا رہا ہے۔ باقاعدہ گدھا بھی نہیں تھا گدھے کا بچہ تھا تو مجھے بہت ترس آیا اور میں نے اس کے مالک سے کہا کہ بھائی یہ بے زبان جانور ہے ریڑھی پر اتنا وزن تو نہ لوڈ کرو کہ یہ بے چارہ ہوا میں معلق ہو کر ٹانگیں چلانے لگے تو وہ ہنس کربولا صاحب آپ نہیں جانتے کہ یہ اس لمحے زندگی سے بہت لطف اندوز ہورہا ہے بلکہ ہوا میںریلیکس کررہا ہے اور یوں ٹانگیں چلانے سے اس کی تھکن دور ہورہی ہے۔ ٹائلیں لوڈ کرنے کے بعد گاڑی والے نے ہوا میں معلق گدھے کو کان سے پکڑ کر نیچے کیا اس کے پاؤں زمین تک نہیں لایا اور اس سے پیشتر کہ وہ گاڑی کے بوجھ سے پھربلند ہوجاتا وہ اچک کر گاڑی کے اگلے حصے پر بیٹھ گیا اور یوں اس کے وزن سے گاڑی بیلنس میں آگئی اورگدھا نہایت مزے سے کان ہلاتا سڑک پر رواں ہوگیا۔
گدھوں کے بارے میں طرح طرح کی ناروا افواہیں پھیلائی جاتی ہیں کہ وہ احمق ہوتے ہیں، بیوقوف ہوتے ہیں اورگدھے ہوتے ہیں مثلاً وہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کا گدھا اگر مکہ گیا توپھر بھی گدھا ہی رہا تو یہ کیسی بے ہودہ بات ہے ایک تو ابن مریم کاگدھا ہونا کیا کم اعزاز کی بات ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اگر مکہ جاتا ہے تو گدھا ہی رہتاہے تو ذرا فرمائیے وہ اور کیا ہوجاتا ہاتھی یا لومڑ ہوجاتا اس نے گدھا ہی رہنا تھا ہمارے جیسے لاکھوںانسان جب حج وعمر کرنے جاتے ہیں، مکہ معظمہ جاتے ہیں تو وہ انسان ہی رہتے ہیں ناں کچھ اور تو نہیں ہوجاتے تو پھر گدھے کو اس سلسلے میں مطعون کرنا چہ معنی خیر عیسیٰ ؑ کے بعد تاریخ کا سب سے نامور گدھا ملا نصیرالدین کا تھا جو انسانوں سے زیادہ دانش رکھتا تھا چنانچہ میں تہہ دل سے یہ سمجھتا ہوں کہ گدھوں کو معاشرے میں ایک معزز مقام ملنا چاہیے اور میں ان گدھوں کی بات نہیں کی جو زندگی کے بیشتر شعبوں میں معزز مقام حاصل کرچکے ہیں اور فوری طور پر اگر بین الاقوامی طور پر نہ سہی مقامی طور پر ایک آل پاکستان گدھا کانفرنس کا اہتمام کرنا چاہیے اس احتیاط کے ساتھ کہ ان دنوں ادیبوں کی بین الاقوامی کانفرنس نہ ہورہی ہو ورنہ بعد میں کون تلاش کرتا رہے گا کہ کون کون ہے۔
کہتے ہیں کہ گدھے کو کھونٹنے کے قریب لے جاکر اس کی رسی کھونٹے سے باندھتے نہیں کھلی چھوڑ دیتے ہیں اور گدھا احمق ہوتا ہے کہ ساری رات یہ سمجھتا رہتا ہے کہ میں بندھا ہوا ہوں اور وہ اسی مقام پر کھڑا رہتا ہے ہم اس سلسلے میں گدھے کو ہی کیوں موردالزام ٹھہراتے ہیں جب کہ امریکہ نے پاکستان کو بھی اپنے کھونٹے سے باندھا نہیں چکمہ دیا ہوا ہے کہ تم بندھے ہوئے ہو اور ہم ہیں کہ اسی مقام پر ہمیشہ سے کھڑے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ بندھے ہوئے ہیں اپنی جگہ سے ہلتے نہیں فرمانبرداری سے کان البتہ ہلائے جاتے ہیں تو پھرہم میں اور گدھوں میں کچھ فرق تو نہ ہوا، گدھوں کو مورد الزام مت ٹھہرائیے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “نثر”