درختوں کے ساتھ الٹی لٹکی قوم!

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

درختوں کے ساتھ الٹی لٹکی قوم!

Post by چاند بابو »

[center]درختوں کے ساتھ الٹی لٹکی قوم[/center]
[center]آفتابیاں …آفتاب اقبال[/center]

ڈیٹ لائن شیخوپورہ کی ایک خبر تھی کہ ایک پیر اپنے نوجوان مریدوں کو معاشی طور پر خوشحال کرنے کے لئے انہیں ایک انوکھی ریاضت کرواتا ہے اور وہ یہ کہ ان لڑکوں کو درختوں کے ساتھ الٹا لٹکا کر انہیں انتہائی ہیجان خیز انداز میں جھولے دیتا ہے۔ ہم پورا دن اس احمقانہ سے تصورپر غور کرتے رہے کہ بھلا درخت کے ساتھ الٹا لٹکنے کامعاشی خوشحالی کے ساتھ کیا تعلق ہوسکتا ہے، مگر کچھ پلے نہ پڑا، پھر آج رات ٹی وی پر چلنے والی ایک رپورٹ میں اس پیر کی زیارت بھی ہوگئی جو کم سن بچوں میں چمگادڑانہ صلاحیتیں اجاگر کرنے کا دلچسپ سلسلہ شروع کرچکا ہے۔ کیمرے کے آگے انٹرویو دیتے ہوئے مذکورہ پیرنے جتنی بھی گفتگو فرمائی اس کا سر پیر جوڑنے اور اس کا کوئی مطلب نکالنے کے لئے طویل عرصہ درکار ہے۔ منطق اور دلیل کے جھنجھٹ سے یکسر بے نیاز پیر صاحب خالص شیخوپوری انداز میں اپنی دیدہ و پوشیدہ کرامات بیان کرتے چلے جارہے تھے۔
درختوں سے لٹکے معصوم بچوں کو انتہائی خطرناک انداز میں تڑپتے اور پھڑکتے دیکھ کر ہمیں حیرت اس بات پر نہیں ہوئی کہ پیر صاحب نے پاکستان کے مستقبل کا کیا حشر کر رکھا ہے، بلکہ حیرت کا باعث وہ بے حس والدین تھے جو اپنے بچوں کو اس انتہائی خطرناک حرکت کی اجازت دے دیتے ہیں۔دماغی امراض کی ایک معروف ماہر جو اتفاق سے خود بھی ٹی وی پر یہ دلدوز مناظر دیکھ رہی تھیں ،کہتی ہیں کہ پیر صاحب مذکورکو چاہئے کہ کوئی مختلف اور قدرے معقول طریقہ وضع کریں جس سے ان کے مرید معاشی خوشحالی حاصل کرسکیں کیونکہ الٹے لٹک کر اس طرح پے درپے جھٹکے کھانے سے”برین ڈیمیج“ کااحتمال ستر فیصد بڑھ جاتا ہے۔
ویسے دیکھا جائے تو غربت ختم کرنے اور معاشی خوشحالی متعارف کروانے کے لئے ورلڈ بنک بھی تقریباً اسی قماش کی تدابیر پرعمل پیرا ہے۔یہ کمبخت بھی ہمیں ہر چوتھے پانچویں مہینے قرضے کی نئی قسط جاری کرنے کا عندیہ دے دیتا ہے اور ہمارے حکومتی اکابرین بھی درختوں کے ساتھ لٹک کر طرح طرح کی بہودگیاں کرنے لگتے ہیں۔ اس مد میں آج تک ہم جتنی رقم حاصل کرچکے ہیں اس کا پچاس فیصد اللے تللے پر خرچ ہوچکا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر پچاس فیصد بھی مناسب جگہ پر خرچہ ہوجاتا تو آج ہم ملائشیاء کے ہم پلہ ہوتے ، بہرحال حکمران اس حوالے سے اپنے حصے کا ”برین ڈیمیج“ تو کرواچکے ہیں مگر عوام کی باری اب آئی ہے کہ آگر آج نظر ڈالیں تو ان اقتصادی سیانوں نے سولہ کروڑ عوام کو بھی معاشی خوشحالی کا
سہانا خواب دکھا کر درختوں ،کھمبوں اور سولیوں کے ساتھ الٹا لٹکا رکھا ہے۔یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری و ساری ہے اور اس نے ہماری قوم کو ذہنی طور پر اس قدر سن کر ڈالا ہے کہ اب ہم میں نفع نقصان کی تمیز یکسر ختم ہوچکی ہے۔ مینجمنٹ کس چڑیا کا نام ہے ہمیں بالکل معلوم نہیں اگر حکومتی ،عوامی اور سیاسی حلقوں میں مس مینجمنٹ کے ورلڈ ریکارڈ دیکھنا مقصود ہوں تو لوگ پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ آپ کسی ایک ادارے پر بھی غور کرلیں، پچھلے پندرہ بیس سالوں میں ہم نے اس کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے جو ہلاکو خان مسلمانوں کی لائیبریریوں کے ساتھ کیا کرتا تھا۔کیا ہم نے کبھی اس پر غور کیا ہے کہ یہ دنیا کی واحد مملکت ہے کہ جہاں پچاس فیصد سے زائد ڈگریاں جعلی ہیں اور یہ جعلی ڈگری یافتگان نہایت کامیاب اور خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ ویسے تو ایٹمی قوت ہونا اور مختلف میدانوں میں ورلڈ چپمئن ہونا بھی ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں تھی کہ یہ معجزے بھی ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھے ہیں مگر اب ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ معجزے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکے ہیں، پچھلے دنوں وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایک محفل میں انکشاف کیا کہ ہر سال ڈویلپمنٹ بجٹ کا پچاس فیصد کرپشن کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ ڈویلپمنٹ کا کام چونکہ سی اینڈ ڈبلیو نام کا محکمہ کرتا ہے اور اس کے دائرہ کار میں ہرطرح کا تعمیراتی کام شامل ہے مگر افسوس صد افسوس کہ یورپی ماہرین تعمیر طنزاً یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جسے آج تک فٹ پاتھ بنانا بھی نہیں آیا۔سبحان اللہ کیسی شرمناک بات ہے ،ذرا غور کیجئے کہ کیا دنیا میں کوئی اور ملک بھی ایسا ہے جہاں ایک ایک ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ اونچا فٹ پاتھ اچانک چلتے چلتے ختم ہوجاتا ہے اور اگر آپ شومئی قسمت سے بے دھیان چلتے جارہے ہوں تو آپ کے ہاتھ پیر و دیگر اہم عضا بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں حالانکہقاعدہ یہ ہے کہفٹ پاتھ کو ہمیشہ بتدریج یعنی ڈھلوان کی شکل میں ختم کیا جاتا ہے مگر ہمیں ابھی تک یہی معلوم نہیں ہوسکا۔ بارش کا کھڑا پانی دیکھ کر خون مزید کھولتا ہے مگر کیا کریں آخر کس کس جگہ اپنے خون کو ناحق ابالا دیں۔ سو بہتر یہی ہے کہ درختوں اور کھمبوں وغیرہ کے ساتھ الٹے لٹک کر جھٹکے لیتے رہیں ہوسکتا ہے قسمتی اسی طرح ہی یاوری کردے۔

بشکریہ جنگ نیوز
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “نثر”