روزویل کا واقعہ :: اڑن طشتریاں کیا ہیں؟؟

خلا میں جھانکئے اور دیکھئے انسان علم کی کس معراج تک جاپہنچا
Post Reply
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

روزویل کا واقعہ :: اڑن طشتریاں کیا ہیں؟؟

Post by چاند بابو »

آخر کار دوسری عالمی جنگ اپنے انجام کو پہنچی اور اپنے پیچھے ایسی تباہ کاریاں چھوڑ گئی جس کی مثال پوری دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، خاص طور سے جب کہ ایٹم بم سے دو جاپانی شہر “ہیروشیما” اور “ناگاساکی” پوری طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے اور دنیا دہل کر رہ گئی..

اور پھر دنیا نے ایک نئے دور کا آغاز کیا..

“یورپ” اور “ایشیا” قیدیوں اور مالِ غنیمت کی تقسیم کے بعد تعمیرِ نو کے کاموں میں لگ گئے، اور افریقہ ایک طویل جنگ میں گھسیٹے جانے کے بعد جس میں کہ اس کا دور تک کوئی لینا دینا نہیں تھا اپنی اکھڑی سانسیں سمیٹنے لگا..

رہا امریکہ تو اس کے تو گویا پر ہی نکل آئے اور وہ اپنی نئی طاقت کا مظاہرہ مختلف جشن مناکر کرنے لگا..

دن گزرتے گئے..

اور سب کچھ ٹھہر گیا..

لیکن امریکہ اپنے آپ کو دنیا کی سپر پاور کے طور پر دیکھنے اور برتاؤ کرنے لگا کیونکہ اس کے پاس ایسے ایٹمی ہتھیار تھے جو کسی اور کے پاس نہیں تھے چنانچہ دنیا کی کوئی بھی طاقت اس سے ٹکرانے کی ہمت نہیں کر سکتی تھی..

تقریباً دو سال بعد منگل 24 جون 1947ء کو امریکی نوجوان تاجر “کینتھ آرنلڈ” ریاست واشنگٹن کے وسطی پہاڑی سلسلے رینئر (Rainier) کے پہاڑ “مائٹی” کے بجھے لاوے کی چوٹی کے گرد اپنے دو انجن والے جہاز سے چکر لگا رہا تھا، مطلع بالکل صاف تھا اور آسمان بادلوں سے خالی تھا، وہ اس علاقے میں پراسرار طور پر غائب ہوئے امریکی فضائیہ کا ایک جہاز تلاش کر رہا تھا، امریکی فضائیہ نے جہاز یا اس کا ملبہ تلاش کرنے پر پانچ ہزار ڈالر کے انعام کا اعلان کیا تھا..

موسم تلاش کے کام کے لیے انتہائی موزوں تھا چنانچہ “کینتھ” تلاش کے کام میں پوری طرح سے کھویا ہوا تھا کہ اچانک..

اچانک کہیں سے سورج کی روشنی اس کے چہرے پر منعکس ہوئی..

یہ سوچتے ہوئے کہ شاید کسی اور جہاز سے سورج کی روشنی اس کے چہرے پر منعکس ہوئی تھی جو اس کے جہاز کے برعکس اڑان بھر رہا تھا، اس نے فوراً جہاز کو اڑانے پر اپنی توجہ بحال کی..

مگر ہر چیز بالکل خاموش تھی..

تا حدِ نظر ایسا کوئی جہاز نہیں تھا جس سے سورج کی روشنی منعکس ہوتی..

لیکن وہاں افق پر، کینتھ نے کسی چیز کی حرکت محسوس کی..

وہ اسے کوئی جانے پہچانے جہاز نہیں لگے، بلکہ کچھ الگ سی پلیٹیں سی تھیں جو تقریباً اسی کی سمت اڑان بھر رہی تھیں..

اس کے اندازے کے مطابق جو چیز وہ دیکھ رہا تھا وہ تقریباً اس سے ایک ہزار میل دور تھی، بلکہ شاید اگر مطلع صاف نہ ہوتا تو وہ انہیں دیکھ ہی نہیں پاتا، تاہم روشنی کے انعکاس کو کوئی اور وجہ دیتے ہوئے اس نے فضائیہ کے جہاز کی تلاش پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی..

لیکن وہ چیزیں واقعی بہت تیزی سے حرکت کر رہی تھیں..

چند ہی لمحوں میں وہ اس سے صرف تین سو میل کے فاصلے پر آگئی تھیں..

اسے لگا جیسے وہ براہِ راست اسی کی طرف ہی بڑھ رہی تھیں..

اس کا اندازہ ٹھیک ہی تھا..

وہ اجسام واقعی اسی کی سمت ہی بڑھ رہے تھے.. اور ایسی رفتار میں جو اس نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی..

اور پھر بہت قریب آنے پر کینتھ نے ان اجسام کو براہِ راست غور سے دیکھا، بعد میں انہیں بیان کرتے ہوئے اس نے کہا:

- کوئی واضح ابھار نہیں تھے.. نہ منہ.. نہ دم اور نہ ہی پر، صرف پوری طرح سے گول پلیٹیں، حیران کن حد تک چمکتی ہوئیں، حتی کہ وہ بہت طویلے فاصلے سے سورج کی روشنی منعکس کر رہی تھیں، وہ نو تھے اور ایک ہی صف میں فوجی لائن کی طرح اڑ رہے تھے، ان کا اڑنے کا انداز بہت عجیب تھا، وہ ایسی اڑتی ہوئی طشتریاں لگ رہے تھے جیسے انہیں پانی کی سطح پر ڈال دیا گیا ہو..

اس کے ان آخری الفاظ ہی سے ایک مقامی صحافی نے “اڑن طشتری” (Unidentified flying object UFO) کی اصطلاح اچک لی جس سے آج تک عوامی سطح پر یہ نا معلوم اجسام جانے جاتے ہیں..

جب اگلے ہفتے “کینتھ کا واقعہ” شائع ہوا تو اس کا بہت شدید ردِ عمل سامنے آیا، امریکی معاشرے کو ایک طرح سے صدمہ سا لگا..

اچانک، جب وہ پوری طرح سے جنگ جیت کر لوٹے تھے اور خود کو سپر پاور سمجھنے لگے تھے، اس طرح کا ایک واقعہ یہ بتا رہا تھا کہ انسان کائنات میں اکیلا نہیں تھا، بلکہ کوئی دوسری سمجھدار مخلوق بھی تھی جو ان سے زیادہ ترقی یافتہ ٹیکنالوجی رکھتی تھی اور ان کے آسمان پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے آئے تھی..

جہاں خبر نے بہت سوں کو پریشان کردیا، وہیں بعض لوگوں نے اسے پوری طرح سے مسترد کردیا، ڈر، انکار، یا شاید انسانی غرور کی وجہ سے جو اپنے سے زیادہ کسی بھی دوسری طاقتور مخلوق کا وجود برداشت نہیں کر سکتا..

سرکاری اور عسکری ذرائع بالکل خاموش رہے، ان کے پاس ایک دوسری شہادت بھی تھی جسے میڈیا کی مناسب کوریج نہیں ملی تھی، مگر وہ “کینتھ آرنلڈ” کی شہادت سے پریشان کن حد تک ملتی تھی..

“اوریگن” میں سونا تلاش کرنے والے ایک شخص نے بتایا کہ اس نے چمکتے ہوئے نو گول اجسام دیکھے تھے جو بہت تیزی سے اڑ رہے تھے، ان کے گزرتے وقت اس کا قطب نما گویا پاگل سا ہوگیا تھا..

اس آدمی نے اپنی شہادت تین بج کر نو منٹ پر ریکارڈ کرائی، جبکہ “کینتھ آرنلڈ” کے بیان کے مطابق وہ نو اجسام اس کے پاس سے پورے دو بج کر انسٹھ منٹ پر گزرے تھے..

اس کا مطلب تھا کہ جب سونا تلاش کرنے والے نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا اس وقت اسے امریکی تاجر کے بیان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا..

اور پھر اڑان کے ماہرین کی رسمی رپورٹ میں جو اسی کی دہائی میں ہی شائع ہوسکی کے آخر میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ: “کینتھ آرنلڈ” جیسے سنجیدہ اور پابند تاجر نے ان اڑتے ہوئے اجسام کو دیکھنے کا دعوی کیوں کیا تھا اگر اس نے واقعی نہیں دیکھے تھے؟!

لیکن صحافتی اور رسمی دونوں مواقف کے با وجود، اچانک امریکہ کو ایک عجیب سا بخار چڑھ گیا..

اڑن طشتریوں کا بخار..

امریکہ کے طول وعرض میں اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کی ساڑھے آٹھ سو سے زیادہ رپورٹیں موصول ہوئیں..

ہر کسی نے انہیں دیکھنے کا دعوی کیا، بلکہ بعض نے تو تصویریں بھی اتاریں..

یکم جولائی 1947ء کو ایک انتہائی محترم اور قابلِ اعتبار شخص کی شہادت سامنے آئی، یہ تھے “بوکریک” کی ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے چیئر مین “میکس ہوڈ” جس نے بتایا کہ اس نے آسمان میں ٹیڑھا میڑھا راستہ اختیار کرتی ہوئی ایک اڑن طشتری دیکھی تھی..

اُسی رات، ٹھیک گیارہ بجے، ملٹری پولیس کے انچارج “ایڈون ایزلی” نے شہر کی انٹیلی جنس کے ذمہ دار میجر “جیس مارسل” (Jesse Marcel) کو فون کرکے تیزی سے کہا:

- جتنی جلدی ہوسکے آجاؤ.. تمہیں یقین نہیں آئے گا کہ ہم یہاں کیا دیکھ رہے ہیں..

“جیس” فوراً اس کی طرف نکل کھڑا ہوا، ابھی وہ راستے ہی میں تھا کہ اس نے آسمان میں “V” کی شکل کا ایک چمکتا ہوا مجموعہ جنوب کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا، وہ پریشانی سے بڑبڑایا:

- یہ ہے کیا؟! ہمارے جہاز اس رفتار سے تو نہیں اڑ سکتے.

یہ کہانی اڑن طشتریوں کے وجود کی تصدیق کرتی نظر آئی، تاہم بعد میں میجر “جیس” نے خود اسے جھٹلا دیا، ایسا لگتا تھا جیسے اسے ایسا کہنے کے لیے سخت آرڈر ملا ہو..

سات جولائی 1947ء کی صبح، ریاست نیو مکسیکو کے چھوٹے سے شہر “روزویل” میں، فضائیہ کے ائیر بیس سے دو سو میل کے فاصلے پر سے “ولیم روڈز” – جو ایک معمولی سیلز مین تھا – نے کام پر جاتے ہوئے ایک اڑن طشتری کی تاریخ کی پہلی تصویر اتاری..

“ولیم” نے اسی دن فلم کو دھوکر تصویر طبع کی تاکہ مقامی اخبار کو دے سکے، اسے امید تھی کہ اگلے دن یہ خبر اخبار کی اہم ترین خبر ہوگی اور دھماکہ کر دے گی..

مگر یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اگلے دن کے اخبار میں “ولیم روڈز” کی خبر کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی کیونکہ پورا “روزویل” ہی دھماکے کی زد میں آنے والا تھا..

ایک ایسا دھماکہ جس کی کسی نے توقع نہیں کی تھی..

* * *

7 جولائی 1947ء کو شام کے ٹھیک چار بجے ریاست “نیو میکسیکو” کے شہر “بوکریک” کے ایک مقامی ریڈیو سٹیشن میں “لیڈیا سیلبی” معمول کے دفتری امور انجام دے رہی تھی جب اچانک فون کی گھنٹی بج اٹھی..

ریڈیو سٹیشن کے محدود بجٹ کی وجہ سے “لیڈیا” ٹیلی فون آپریٹر اور ٹیلکس بھیجنے کا کام بھی کیا کرتی تھی، چنانچہ اس نے فون اٹھایا، دوسری طرف “جونی میک بوائل” تھا جو “روزویل” میں اپنی بہن کے ساتھ ایک ریڈیو سٹیشن چلاتا تھا..

جونی کے ریڈیو سٹیشن میں ٹیلکس مشین نہیں تھی چنانچہ جب بھی کوئی اہم خبر ہوتی وہ “لیڈیا” کے سٹیشن فون کیا کرتا تھا تاکہ وہ اپنی ٹیلکس مشین کے ذریعے بڑے سٹیشنوں کو خبر ٹیلی کاسٹ کردے، چنانچہ “لیڈیا” نے اسے “جونی” کی طرف سے ایک معمول کی کال سمجھتے ہوئے ٹیلکس مشین کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا دیا، مگر اس بار اسے سخت حیرت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ دوسری طرف “جونی” انتہائی تیزی سے چلاتے ہوئے بات کر رہا تھا:

- “لیڈیا”.. اچھی طرح سے سنو.. “روزویل” کے قریب ایک اڑن طشتری گری ہے.. میں وہیں تھا.. میں نے اسے خود دیکھا ہے.. وہ ایک بہت بڑی الٹی پلیٹ کی طرح لگ رہی ہے.. ایک طرف سے اس کا ایک حصہ تباہ ہوگیا ہے.. کچھ کسان بھی وہاں ہیں.. ایک نے اسے کھینچنے کی کوشش بھی کی.. مگر فوج وہاں پہنچ گئی ہے.. لگتا ہے وہ اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں.. سارا علاقہ بند ہے..

وہ یک لمحے کے لیے اپنی سانسیں سمیٹنے کے لیے رکا پھر دوبارہ ہکلاتے ہوئے بولا:

- “لیڈیا”.. میں جو کہہ رہا ہوں تم نشر کر رہی ہو نا؟!

اپنے تجربے کی وجہ سے “لیڈیا” کا ہاتھ خود بخود ہی ٹیلکس کے بٹن دبائے چلا جارہا تھا جیسا کہ ہر دفعہ ہوتا ہے، اس نے تیزی سے کہا:

- یقیناً.. بات پوری کرو..

جونی نے تیزی سے بات پوری کی:

- وہ کوئی چھوٹے آدمیوں کی بات کر رہے ہیں.. یہ ریکارڈ کرو.. اس پلیٹ میں چھوٹے آدمی ہیں.. فوج اندر سے ان کی لاشیں نکال رہی ہے.. وہاں کم سے کم دو لاشیں ہیں..

ٹیلی کاسٹ جاری رکھتے ہوئے “لیڈیا” نے دلچسبی سے پوچھا:

- کیا تم نے انہیں خود دیکھا ہے؟!

اسے “جونی” سے فوری جواب کی توقع تھی، مگر فون کی دوسری جانب اسے اچانک شور سنائی دینے لگا، دور سے آتی ہوئی آوازیں، کسی چیز کے ٹکرانے کی آواز اور پھر لڑائی کی آوازیں..

اسی وقت ٹیلکس مشین نے ٹیلی کاسٹ بند کردی اور ایک مختصر پیغام وصول کیا جو بار بار تیزی سے دہرایا جانے لگا:

- رابطہ فوراً روک دو.. ٹیلی کاسٹ بند کردو..

وہ حیرت اور پریشانی کی سی ملی جلی کیفیت میں پیغام کو دیکھنے لگی، اتنے میں ایک بار پھر “جونی” کی آواز فون پر گونجی:

- “لیڈیا” میں نے جو بتایا ہے اسے نشر مت کرنا.. فوراً ہر چیز مٹا دو.. کچھ بھی نشر مت کرو.. جو کچھ تم نے سنا ہے اسے بھول جاؤ.. تم سمجھ رہی ہو نا؟!

یہ کہہ کر اس نے اپنی عادت کے بر خلاف تیزی سے فون کاٹ دیا، “لیڈیا” پریشانی کے عالم میں سوچنے لگی:

- آخر “روزویل” میں ہوا کیا ہے؟!

اور یہ صرف اسی کا سوال نہیں تھا، بلکہ یہ وہ سوال ہے جو آج تک ہر سطح پر گونجتا رہا ہے..

اس سوال کا جواب مقامی اخبار “روزویل ڈیلی ریکارڈ” (Roswell Daily Record) نے دینے کی کوشش کی، آٹھ جولائی کی اشاعت میں اخبار نے سرخی لگائی: “روزویل” میں اڑن طشتری گر گئی..

[center]Image[/center]

اگر اخبار نے یہ خبر شائع نہ کی ہوتی تو شاید کسی نے بھی آج تک “روزویل” کے واقعے کے بارے میں کچھ نہ سنا ہوتا..

اسی آٹھ جولائی کی صبح چھ بجے میجر “مارسل” اور کیپٹن “کیویٹ” فضائیہ کے ائیر بیس میں اپنے باس سے ملنے آئے، انہوں نے باس کو ایک فٹ لمبا اور چھ انچ چوڑا دھات کا ایک ٹکڑا دکھایا اور بتایا کہ یہ ٹکڑا اس اڑن طشتری کے ملبے کا حصہ ہے جو “روزویل” کے پاس گری تھی..

دھات کا وہ ٹکڑا بہت عجیب تھا، اس کا وزن انتہائی کم تھا جو اس کے حجم سے میل نہیں کھاتا تھا، اس کے با وجود دھات کا وہ ٹکڑا انتہائی سخت تھا حتی کہ میجر “مارسل” جو اپنی طاقت کے لیے جانے جاتے تھے اپنی تمام تر کوششوں کے با وجود اسے کسی طرح بھی موڑنے میں ناکام رہے تھے..

تینوں حضرات نے واقعے کے بارے میں کچھ دیر گفت وشنید کی، اور پھر باس نے بات کو فیصلہ کن کرتے ہوئے کہا:

- یہ چیز واقعی کمال ہے، پلاسٹک اور دھات کا عجیب امتزاج معلوم ہوتی ہے جو میں نے اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی، تاہم جو احکامات مجھے آج صبح ملے ہیں وہ صاف اور فیصلہ کن ہیں.

باس نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا:

ہم اس معاملے پر پھر کبھی گفتگو نہیں کریں گے اور اسے ہمیشہ کے لیے بھول جائیں گے جیسے یہ ہوا ہی نہیں.. سمجھ گئے.

دونوں حضرات کے سامنے قبول کرنے اور دھات کا وہ عجیب سا ٹکڑا اپنے باس کے حوالے کرنے اور اپنا منہ بند رکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا..

مگر ہمیشہ کے لیے نہیں..

1994ء میں کیپٹن “کیویٹ” نے سارا قصہ “واشنگٹن پوسٹ” کے ایڈیٹر کو سنایا جس نے اس وقت اس معاملے کو بہت اہمیت دی تھی..

خود “روزویل” میں بھی مقامی اخبار میں خبر کی اشاعت کے بعد امریکہ کی مختلف ریاستوں سے ہزاروں لوگ اڑن طشتری کے گرنے کی جگہ دیکھنے اور مقامی لوگوں کی کہانیاں سننے کے لیے آئے حالانکہ فوج نے وہاں سے ہر چیز غائب کردی تھی..

پندرہ جولائی یعنی پورے سات دن بعد امریکی فوج نے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ “روزویل” میں جو کچھ گرا تھا وہ ایک موسمیاتی بلون (balloons) کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا..

اور اس بیان کا ہر کسی نے خوب مذاق اڑایا..

اگر معاملہ صرف ایک موسمیاتی بلون اور تجربات کا تھا تو فوج نے یہ بتانے کے لیے ایک ہفتہ تک کیوں انتظار کیا؟!

اور پھر اس وقت پورا علاقہ کیوں بند کردیا گیا؟!

چنانچہ کسی نے فوج کے بیان پر یقین نہیں کیا، ان لوگوں نے بھی نہیں جو کائنات میں دوسری کسی سمجھدار تہذیب کے وجود پر یقین نہیں رکھتے..

مگر لوگ “روزویل” کے واقعے کے بارے میں بات کرتے رہے..

سوال اٹھاتے رہے..

اور تحقیق کرتے رہے..

“روزویل” کے واقعے اور اس سے جڑے فوج کے خفیہ کردار پر سینکڑوں رپورٹیں منظرِ عام پر آئیں..

اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حقائق منظرِ عام پر آنا شروع ہوگئے..

1980ء میں “چارلز بیرلٹز” (Charles Berlitz) اور “ولیم مور” (William L. Moore) نے اپنی مشہور کتاب “روزویل کا واقعہ” (The Roswell Incident) پیش کی جس میں انہوں نے اس واقعے سے متعلق تمام تحقیقات جمع کیں..

اتنے سالوں کے بعد پہلی بار “بیرلٹز اور ولیم” نے ان لاشوں کی طرف توجہ دلائی جو 1947ء میں اس اڑن طشتری میں پائی گئی تھیں..

اور پہلی بار ہی “بیرلٹز اور ولیم” نے امریکی حکومت پر الزام لگایا کہ حکومت نے اڑن طشتری کے ان دو پائلٹوں کی لاشیں چھپا رکھی ہیں، اس طرح وہ امریکی قوم اور پوری دنیا سے دوسرے سیاروں میں موجود تہذیبوں کی حقیقت چھپا رہی ہے..

اگرچہ “بیرلٹز اور ولیم” کے الزامات کی وسیع بنیادوں پر تائید کی گئی تاہم امریکی حکومت نے “بیرلٹز اور ولیم” کے الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا..

شاید یہی وجہ اس معاملے کو مزید پر اسرار بناتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حقیقت کو اور پختہ کرتی ہے..

“روزویل” کے واقعے پر امریکی حکومت کی مکمل خاموشی..

اگرچہ حکومت نے ساٹھ کی دہائی میں اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کی اطلاعات کی تصدیق کے لیے “نیلی کتاب” کمیٹی تشکیل دی تھی جو اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ کوئی ایسی حالت ہے جو انسانوں کے ادراک سے ماوراء ہے، تاہم وہی حکومت بغیر کسی معلوم وجہ کے “روزویل” کے واقعے سے متعلق ہر بات نظر انداز کرتی رہی..

اور “بیرلٹز” کی کتاب نے فروخت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے، کتاب کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہوئیں، “بیرلٹز” نے بتایا کہ امریکی عسکری خفیہ مقامات میں سے ایک مقام علاقہ۵١ (Area 51) بھی ہے جس میں سائنسدانوں نے ان دو خلائی مخلوقات کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کر کے انہیں تیس سالوں سے وہیں محفوظ کر رکھا ہے.

لیکن امریکی حکومت مسلسل نظر انداز کرتی رہی..

اور ایک دن اچانک “روزویل” کے واقعے کی تصدیق کرنے کے لیے ایک نا قابلِ یقین ثبوت منظرِ عام پر آگیا..

ایسا ثبوت جس نے شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی تھی..

* * *

1994ء میں اومنی میگزین (OMNI) نے اپنے تمام قارئین سے درخواست کی کہ وہ “روزویل” کے مشہور واقعے کے رازوں سے پردہ اٹھانے کے لیے امریکی حکومت کو درخواستیں ارسال کریں..

اور واقعی امریکی حکومت کو کروڑوں درخواستیں ارسال کی گئیں مگر پھر بھی امریکی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی..

اور اچانک ثبوت منظرِ عام پر آگیا..

آٹھ ملی میٹر کی پرانی طرز کی ایک فلم جو ایک سابقہ پائلٹ نے پچاس سالوں سے چھپا رکھی تھی اور مرنے سے پہلے اسے منظرِ عام پر لانے کا فیصلہ کر لیا تھا..

فلم ایک دھماکے سے کم نہیں تھی..

یہ ایک پوری فلم تھی جس میں ایک انسان نما غیر انسانی مخلوق کا تفصیلی پوسٹ مارٹم دکھایا گیا تھا جسے “روزویل” میں اڑن طشتری کے گرنے کے بعد انجام دیا گیا تھا..

اس زمانے میں عالمی میڈیا اپنی ترقی کے عروج پر تھا، چنانچہ اکثر ٹی وی چینلوں پر پوری فلم دکھائی گئی اور اس پر بحث کے لیے سینکڑوں پروگرام مرتب کیے گئے..

فلم پر ماہرین کی رائے حیران کن تھی..

سینما گرافی کے ایک ماہر نے یقین دلایا کہ فلم کا خام مادہ واقعی چالیس کی دہائی سے تعلق رکھتا ہے، اور جو کاپی اس کے پاس ہے اسے 1946ء اور 1948ء کے درمیان فلمایا گیا تھا، اس نے فلم کو خرد بین سے بھی چیک کیا اور اپنا تصدیقی سرٹیفیکیٹ پیش کیا..

ہالی وڈ کے سینما ٹِرک کے ماہرین نے اعلان کیا کہ یہ فلم ایک سینما ٹِرک نہیں ہوسکتی کیونکہ دنیا کا کوئی بھی ماہر اتنی حیران کن تفصیل سے اعضاء اور خلیے نہیں بنا سکتا..

بلکہ انہوں نے اعلان کیا کہ اگر یہ فلم ایک سینما ٹِرک ہے تو وہ اسے بنانے والے کو ہالی وڈ کے تمام سٹوڈیوز کا منیجر مقرر کرنے کے لیے تیار ہیں جسے چھ نہیں سات ہندسوں میں تنخواہ دی جائے گی..

جب بات طب کی آئی تو معاملہ اور بھی دلچسب ہوگیا..

“سین فرانسوا” کے طبی مرکز کے سرجن ڈاکٹر “کیرل ویشٹ” نے ایک براہ راست ٹیلی کاسٹ میں کروڑوں لوگوں کے سامنے یقین دلایا کہ اپنے وسیع تجربے کے با وجود اس نے اپنی پوری زندگی میں ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی تھی جو اس مخلوق سے مشابہت رکھتی ہو..

فلم میں ہو رہے کام کے بارے میں ایک سوال پر ڈاکٹر “ویشٹ” نے بتایا کہ یہ ایک درست پوسٹ مارٹم ہے اور جو لوگ اسے انجام دے رہے ہیں وہ حقیقی ماہرین ہیں جو ایک عظیم کام کر رہے ہیں..

ڈاکٹر “ویشٹ” نے مخلوق کے جسم کی ترکیب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انسانی جسم سے کافی مختلف ہے، ہر ہاتھ اور پاؤں میں چھ انگلیاں ہیں اور ہر آنکھ میں ایک اضافی پلک ہے جس طرح کچھ پرندوں میں ہوتی ہے، پھیپڑا تین برابر ٹیوبز کی طرح منقسم ہے اس کے علاوہ کوئی واضح جنسی اعضاء نظر نہیں آرہے..

ڈاکٹر نے مزید کہا کہ یہ سب دنیا کی کسی بھی مخلوق میں نہیں پایا جاسکتا..

ٹشوز کے ماہر ڈاکٹر “ایس. ایم. میلران” نے یقین دلایا کہ انہیں ایک لمحے کے لیے بھی یہ شک نہیں کہ جو کچھ وہ سکرین پر دیکھ رہے ہیں حقیقی نہیں، اگرچہ یہ انسان نہیں ہے تاہم اس کے اعضاء ایک دوسرے سے اس طرح سے میل کہاتے ہیں کہ انہیں بناوٹی طور پر صرف کوئی ماہر ہی تیار کر سکتا ہے..

اس کے با وجود بہت سے لوگ فلم کو ماننے سے انکاری ہیں..

بلکہ “روزویل” کی پوری کہانی کو ایک سفید جھوٹ قرار دیتے ہیں..

فلم پر سینکڑوں اعتراضات کیے گئے جن میں مثال کے طور پر فلم میں ٹیلی فون کی تار اور سرجری کے سامانی کی میز پر اعتراض کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ اس زمانے سے بہت بعد کے زمانے کی ہیں جس زمانے میں فلم کو تیار کیے جانے کا دعوی کیا جا رہا ہے..

اس سب کے با وجود امریکی حکومت حسبِ سابق معاملے کو پوری طرح نظر انداز کرتی رہی..

1996ء میں “وِڈمارک انٹرٹینمنٹ” نامی کمپنی نے اس پروگرام کے ساتھ جو اس کی صحت پر بحث کرتا ہے فلم کے حقوق حاصل کر کے اسے “خلائی مخلوق کی تشریح – حقیقت یا دھوکہ” (Alien Autopsy – fact or fiction) کے نام سے مارکیٹ میں جاری کردیا جو انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے..

[center]Image[/center]

[center]پوسٹ مارٹم کی مکمل رپورٹ[/center]
[center][utvid]http://www.youtube.com/watch?v=QzmmlaZ9b9I[/utvid][/center]

[center]تجزیاتی ویڈیو 1[/center]
[center][utvid]http://www.youtube.com/watch?v=ThEIkSo5Rc0[/utvid][/center]

[center]تجزیاتی ویڈیو 2[/center]
[center][utvid]http://www.youtube.com/watch?v=4BoPsrf7Hdg[/utvid][/center]

لگتا ہے کہ کائنات میں کسی عاقل مخلوق کے وجود کے یقین کا تعلق انسان کی طبیعت سے تعلق رکھتا ہے.. یا ممکنہ طور پر اس کے جینیاتی ورثے سے..

کیونکہ ان سب حقائق کے با وجود ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو کائنات میں انسان کے علاوہ کسی دوسری عاقل مخلوق کے وجود سے انکار کرتے ہیں..

بلکہ اس خیال پر محض گفتگو کرنے کو بھی تیار نہیں..

شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی حکومت “روزویل” کے واقعے کی تصدیق کرنے یا اس کے ہونے سے ابھی تک انکاری ہے..

فلم کے جاری ہونے کے بعد جب امریکی حکومت پر تجاہلِ عارفانہ کا الزام زور پکڑ گیا تو امریکی حکومت، اس کی وزارتِ دفاع پینٹاگن اور فضائیہ نے 1997ء میں ایک مضحکہ خیز بیان یہ کہہ کر جاری کیا کہ یہ بیان “روزویل” کے واقعے سے متعلق تمام بحث کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردے گا..

امریکی فضائیہ نے – جس نے یہ یقین دلایا کہ وہ پہلی بار کوئی عسکری راز افشا کر رہی ہے – اپنے بیان میں کہا کہ سات جولائی 1947ء کو “روزویل” میں جو گرا تھا وہ ایک خفیہ تجرباتی جہاز تھا جس میں کچھ پتلے رکھ گئے تھے تاکہ ان کا ایمرجنسی لینڈنگ ٹیسٹ کیا جاسکے، مگر کسی خرابی کی وجہ سے جہاز پتلوں سمیت گرگیا، اور چونکہ اس زمانے میں اڑن طشتریوں کی افواہیں عام تھیں اس لیے جہاز کو اڑن طشتری اور اس میں موجود پتلوں کو خلائی مخلوق سمجھ لیا گیا..

“روزویل” میں گرنے والی شئے کے طور پر فضائیہ نے کچھ گول سی چیزوں کی تصاویر دکھائیں جن کے ہیلی کاپٹر نما پر تھے اور لکڑی کے کچھ پتلے دکھائے جنہیں کوئی بچہ بھی پہچاننے میں غلطی نہیں کر سکتا تھا..

بیان ہر طرح سے مضحکہ خیز تھا جس پر یقین کرنے سے زیادہ ہنسنے کو دل چاہتا تھا.. لگتا تھا کہ یہ ڈرامہ لکھنے والا خالصتاً ایک “فوجی دماغ” تھا جس کا علم وادب سے دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا..

اور پھر بیان کا ماہرین نے بھی تجزیہ کیا جنہوں نے کچھ نئے سوال اٹھائے..

کیا یہ ضروری تھا کہ فضائیہ ایسا بیان دینے کے لیے پچاس سال انتظار کرتی جبکہ مسافر بردار اور جنگی جہازوں کے میدان میں ہوئی بے پناہ ترقی کے مقابلے میں وہ خفیہ جہاز پرانے ٹائر سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا تھا؟!

اور پھر بیان فلم کے منظرِ عام پر آنے اور بازاروں میں دستیاب ہونے کے بعد ہی کیوں آیا؟!

اس سے پہلے کیوں نہیں آیا؟!

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ بیان اس فلم کے بارے میں کیا کہے گا جس پر تمام ماہرین متفق ہیں کہ اسے 1947ء میں ہی شوٹ کیا گیا تھا؟!

صاف ظاہر تھا کہ بیان معاملے کو رفع دفع کرنے اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کی ایک احماقہ کوشش تھی چنانچہ لوگوں نے اس نئے بیان کو مسترد کردیا جس طرح کہ انہوں نے نصف صدی قبل پرانے بیان کو ماننے سے انکار کردیا تھا..

بلکہ بیان نے معاملہ کو مزید مہمیز کیا..

اور ایک نیا سوال اٹھایا..

حکومتیں ہمیشہ کائنات کی دوسری عاقل مخلوقات سے اپنے روابط کیوں چھپاتی ہیں؟!

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حکومتیں ایسا اس لیے کرتی ہیں تاکہ ان مخلوقات کی طرف سے کبھی جنگ یا قبضے کے اندیشے سے لوگ خوف میں مبتلا نہ ہوں..

مگر عالمی شہرت یافتہ طبیعات دان ڈاکٹر “کارل ساگان” کی رائے ذرا مختلف ہے جو شاید آپ کی دلچسبی کا باعث ہو..

وہ کہتے ہیں:

- “روزویل” کی اڑن طشتری سے امریکہ نے جو ٹیکنالوجی حاصل کی اس نے بعد میں امریکہ کی سائنسی اور صنعتی ترقی میں بہت بڑا کردار ادا کیا، چنانچہ وہ “روزویل” کی اڑن طشتری کا معاملہ اس لیے چھپا رہا ہے تاکہ دوسرے ممالک اس ٹیکنالوجی سے استفادے کے حق کا مطالبہ نہ کردیں اور تاکہ اس کی ہیبت بر قرار رہ سکے..

ڈاکٹر “ساگان” کی رائے واقعی منطقی معلوم ہوتی ہے، اگر “روزویل” کا واقعہ سچ ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ ایسی کسی ترقی یافتہ اڑن طشتری کی ٹیکنالوجی کا حصول کسی بھی ملک کو ایک ایسے نئے مقام پر پہنچادے گا جہاں کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا..

اور امریکہ ہمیشہ سے یہی چاہتا آرہا ہے..

برتری اور انفرادیت..

بہرحال، حقائق کچھ بھی ہوں، ایک بات یقینی ہے کہ نصف صدی سے کچھ پہلے ایک ایسا عجیب وغریب واقعہ ضرور ہوا تھا جس کی صدا آج تک گونج رہی ہے..

“روزویل” میں.


تحریر بشکریہ مکی کا بلاگ تبدیلیاں و حوالہ جات چاند بابو

حوالہ جات:
[link]http://www.dailymail.co.uk/news/article ... visit.html[/link]
[link]http://www.gryp.fsnet.co.uk/et10.htm[/link]
[link]http://en.wikipedia.org/wiki/Roswell_UFO_Incident[/link]
[link]http://www.cufos.org/ros.html[/link]
[link]http://www.ufos-aliens.co.uk/cosmicroswell.htm[/link]
[link]http://www.ufocasebook.com/Roswellpictures.html[/link]

اڑن طشتریوں کی حقیقت بارے مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب کی تحریر:
[link]http://4.bp.blogspot.com/_iwebvBeNZrQ/S ... lubaba.jpg[/link]
[link]http://2.bp.blogspot.com/_iwebvBeNZrQ/S ... lubaba.jpg[/link]
[link]http://3.bp.blogspot.com/_iwebvBeNZrQ/S ... Lubaba.jpg[/link]
[link]http://4.bp.blogspot.com/_iwebvBeNZrQ/S ... Lubaba.jpg[/link]
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
علی خان
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 2628
Joined: Fri Aug 07, 2009 2:13 pm
جنس:: مرد

Re: روزویل کا واقعہ :: اڑن طشتریاں کیا ہیں؟؟

Post by علی خان »

ماجد بھائی. شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ.
میں نے خود مولانا ابولبابہ صاحب کی یہی کتاب پڑھی ہے. جسکا نام دجال کون.کب. کہاں ہے.
میں خود بھی اسکی چند صفحات یہاں انشاء اللہ شیر کروںگا.
جسمیں حضرت دانیال علیہ السلام کی کچھ پیشنگوئیوں کا ذکر ہے. جو ہہودیوں کے متعلق ہے.
جسمیں 2012 کے متعلق کچھ پیشنگوئی کی گئی ہے. جو اس کتاب میں صفحہ نمبر 82 سے لیکر صفحہ نمبر 110 تک ہیں.
میں آج زد میں ہوں خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں .
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: روزویل کا واقعہ :: اڑن طشتریاں کیا ہیں؟؟

Post by چاند بابو »

جی جزاک اللہ اشفاق بھیا آپ کی شئیرنگ کا شدت سے انتظار رہے گا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “سپیس سائنس”