Page 1 of 1

کچھ - - - اقبال کی شاعری سے . . . . . .

Posted: Tue Mar 01, 2011 2:21 pm
by نورمحمد
[center] قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم

محفل نظم حکومت چہرہ زیبائے قوم
شاعر رنگیں نوا ہے دیدہ بینائے قوم

مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ


اقبال

بشکریہ‌: عبدالرحمن حنفی[/center]

Re: کچھ - - - اقبال کی شاعری سے . . . . . .

Posted: Fri Mar 04, 2011 4:26 pm
by نورمحمد
[center]مہدی برحق

سب اپنے بنائے ہوۓ زندان میں ہیں محبوس
خاور کے ثوابت ہوں کے افرنگ کے سیار

پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں
نے جدت گفتار ہے نے جدت کردار

ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم و پیچ
شاعر اسی افلاس تخیل میں گرفتار

دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت
ہو نگہ جس کی زلزلہ عالم افکار

اقبال
[/center]

Re: کچھ - - - اقبال کی شاعری سے . . . . . .

Posted: Mon Mar 07, 2011 10:17 am
by محمد شعیب
بہت خوب
اقبال کی شاعری کا کچھ مجموعہ یہاں پڑھیں.

Re: کچھ - - - اقبال کی شاعری سے . . . . . .

Posted: Mon Mar 07, 2011 12:43 pm
by نورمحمد
r;o;s;e r;o;s;e شکریہ شعیب بھائی r;o;s;e r;o;s;e

Re: کچھ - - - اقبال کی شاعری سے . . . . . .

Posted: Mon Mar 07, 2011 2:21 pm
by نورمحمد
[center]دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذّتِ فراغ
تکلیفِ پردہ داریِ زخمِ جگر گئی

وہ بادہ شبانہ کی سر مستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی

اڑتی پھرے ہے خاک مری کوۓ یار میں
بارے اب اے ہوا ہوسِ بال و پر گئی

دیکھو تو دل فریبیِ اندازِ نقشِ پا
موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی

ہر بو‌ل ہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروۓ شیوہ اہلِ نظر گئی

نظّارے نے بھی کام کیا واں نقاب کا
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی

فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی

مارا زمانے نے اسدللہ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئ[/center]

Re: کچھ - - - اقبال کی شاعری سے . . . . . .

Posted: Tue Mar 08, 2011 4:16 pm
by نورمحمد
[center]ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی

منصور کو ہوا لب گویا پیام موت
اب کیا کسی کے عشق کا دعوی کرے کوئی

ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی

میں انتہائے عشق ہوں تو انتہائے حسن
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی

عذر آفرین جرم محبت ہے حسن دوست
محشر میں عذر تازہ نہ پیدا کرے کوئی

چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں
پھر اور کس طرح انہیں دیکھا کرے کوئی

اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی

نظارے کو بہ جنبش مژگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی

کھل جائیں کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں
دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی[/center]


[center]اقبال[/center]

Re: کچھ - - - اقبال کی شاعری سے . . . . . .

Posted: Tue Mar 08, 2011 10:00 pm
by Zarah-e-bey Nishan
v;g v;g v;g v;g v;g

Re: کچھ - - - اقبال کی شاعری سے . . . . . .

Posted: Wed Mar 09, 2011 10:30 am
by نورمحمد
شکریہ شکریہ شکریہ

Re: کچھ - - - اقبال کی شاعری سے . . . . . .

Posted: Fri Mar 11, 2011 9:42 pm
by Zarah-e-bey Nishan
[center]اے آفتاب! روحِ روان جہاں ہے تو

شیرازہ بند دفتر کون و مکاں ہے تو

باعث ہے تو وجود و عدم کی نمود کا

ہے سبز ترے دم سے چمن ہت و بود کا

قائم یہ عنصروں کا تماشہ تجھی سے ہے

ہر شئے میں زندگی کا تقاضہ تجھی سے ہے

ہر شئے کو تری جلوہ گری سے ثبات ہے

تیرا یہ سوز و ساز سراپا حیات ہے

اے آفتاب! ہم کو ضیائے شعور دے

چشم خرد کو اپنی تجلی سے نور دے

ہے محفلِ وجود کا ساماں طراز تو

یزداں ساکناں نشیب و فراز تو

نے ابتداء کوئی نہ کوئی انتہا تیری

آزاد قید اول و آخر ضیاء تری[/center]

Re: کچھ - - - اقبال کی شاعری سے . . . . . .

Posted: Fri Mar 11, 2011 10:06 pm
by افتخار
zub;ar :lol:

Re: کچھ - - - اقبال کی شاعری سے . . . . . .

Posted: Fri Mar 11, 2011 11:40 pm
by Zarah-e-bey Nishan
ایک تحریر میری نظر سے گزری تو میں نے منا سب سمجھا کے دوستوں کے ساتھ اس کو شئیر کیا جائے۔

اقبال کو نوبل انعام کیوں نہیں ملا؟

علامہ اقبال اور رابندر ناتھ ٹیگور ہندوستان کے دو عظیم ہم عصر شاعر تھے جن کا کلام ایک ہی زمانے میں مشہور ہوا۔

شاعری کی حدود سے نکل کر سیاسی اور سماجی میدان میں بھی دونوں شخصیات بیسویں صدی کے اوائل میں ایک ساتھ نمودار ہوئیں لیکن یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ عمر بھر دونوں کی ملاقات کبھی نہیں ہوئی۔

علامہ اقبالؔ کے مداحوں کو اس بات کا ہمیشہ قلق رہا ہے کہ ہندوستان کے اولین نوبل انعام کا اعزاز اقبال کے بجائے ٹیگور کو حاصل ہوا۔ شاید اس ’’ زیادتی‘‘ کی تلافی ہو جاتی اگر بعد کے برسوں میں اقبال کو بھی اس انعام کا مستحق قرار دے دیا جاتا لیکن 1913ء سے 1938ء تک کے 25 برسوں میں ایک بار بھی نوبل کمیٹی کی توجہ اقبال پر مرکوز نہ ہو سکی۔

چونکہ نوبل کمیٹی کی تمام دستاویزات اور خط و کتابت پر پچاس برس تک اخفاء کی پابندی رہتی ہے اس لئے سن ساٹھ کے عشرے تک یہ محض ایک راز تھا اور اس پر ہر طرح کی چہ می گوئیاں ہوتی تھیں۔ اسے ایک سوچی سمجھی سازش بھی قرار دیا جاتا تھاکہ علامہ اقبالؔ کو نوبل پرائیز سے کیوں محروم رکھا گیا تھا۔

1963ء میں پرانے دستاویزات کے سامنے آنے پر کھلا کہ کمیٹی نے کوئی سازش نہیں کی تھی اور نہ علامہ اقبال کی نامزدگی کا جھگڑا کبھی پیدا ہوا تھا۔ لیکن اگر بنگال کے شاعر رابندر ناتھ کا نام کمیٹی کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے تو اقبال کی نامزدگی میں کیا قباحت تھی؟ پرانے دستاویزات اس سلسلے میں کوئی واضح رہنمائی نہیں کرتے۔

سن 1914ء کے اوائل میں تیار ہونے والی ایک رپورٹ میں نوبل کمیٹی کے چیئرمین ہیرلڈ ہئیارن نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ میں چھڑنے والی جنگ کی ممکنہ تباہ کاری کو دیکھتے ہوئے کمیٹی سوچ رہی تھی کہ نوبل انعام ایسے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہئے جو جنگ اور تباہی کے پر چارک ہوں۔

کمیٹی کو احساس تھا کہ نوبل انعام حاصل کرنے والا ادیب راتوں رات شہرت کے آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ ظاہر ہے ان تحریروں کا اثر دنیا کے سبھی باشندوں پرپڑتا ہے۔

ہیرلڈ ہئیارن نے مختلف ماہرین کے آراء پیش کرنے کے بعد رپورٹ میں خیال ظاہر کیا کہ ادب کا نوبل انعام دیتے وقت اس امر کو بطور خاص مد نظر رکھنا چاہئے کہ یہ انعام کسی قوم پرستانہ مصنف کونہ چلا جائے یعنی کسی ایسے قلم کار کو جو ایک مخصوص قوم کے ملی جذبات کو ابھار کر دنیا پر چھا جانے کی ترغیب دے رہا ہو۔

ظاہر ہے کہ اقبال کی شاعری کا بیشتر حصہ اسلام اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو یاد کرنے اور اسے بحال کرنے کی شدید خواہش کا مظہر ہے۔ اقبال اپنی ملت کو اقوام مغرب سے بالاتر سمجھتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں قوم رسول ہاشمی جن عناصر سے مل کر بنی ہے وہ دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں پائے جاتے۔

اگرچہ پہلی جنگ عظیم سے قبل بھی یورپ کے سلسلے میں اقبال کسی خوشی فہمی کا شکار نہیں تھے لیکن جنگ کے بعد یورپ کے بارے میں ان کی تلخی مزید بڑھ گئی۔

1970ء کی ایک غزل میں اقبال نے کہا تھا: دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے۔

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہی زر کم عیار ہو گا

نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا

سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا

1914ء کی ایک رپورٹ میں نوبل کمیٹی کے چیئر مین خیال ظاہر کرتے ہیں کہ سیاسی اتھل پتھل ایک عارضی مرحلہ ہے۔ ادب کو ان وقتی مصلحتوں سے ماوراء ہو کر عالمی اور دائمی اقدار کا دامن تھامنا چاہیے۔

کم و بیش یہی وہ خیالات تھے جن کی بنیاد پر مہاتما گاندھی کے نوبل پرائز کا راستہ بھی عرصہ دراز تک رکا رہا لیکن گاندھی کے کیس میں کم از کم چار مرتبہ ان کا نام کمیٹی کے سامنے آیا اور اس پر خاص بحث بھی ہوئی بلکہ نئی تحقیق کے مطابق تو 1948ء میں انہیں انعام ملنے ہی والا تھا کہ ان کی ناگہانی موت واقع ہو گئی۔

علامہ اقبال کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ 1913ء میں ٹیگور کو انعام ملنے کے ربع صدی کے بعد تک اقبال زندہ رہے لیکن نوبل کمیٹی نے کبھی ان کے نام پر غور نہیں کیا۔ اقبال کی شہرت کا سورج اس وقت نصف النہار پر تھا اور یہی وہ زمانہ تھا جب اقبال کو حکومت برطانیہ نے ’’سر‘‘ کا خطاب عطا کیا تھا، اگرچہ یہاں بھی ٹیگور انہیں مات دے گئے کیونکہ ٹیگور کو سرکا خطاب سات برس پہلے 1915ء میں ہی مل گیا تھا۔

ٹیگور مادری زبان کو مقدس سمجھتے تھے۔ ایک بار جب وہ اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علموں کی دعوت پر پنجاب آئے تو طالب علموں نے ان کے استقبال کے لئے ان کا معروف بنگالی ترانہ گانا شروع کر دیا۔ ٹیگور نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے زیادہ خو شی ہو گی اگر آپ پنجاب کی کوئی سوغات پیش کریں۔ چنانچہ ٹیگور کی خدمت میں ہیر وارث شاہ کے چند بند، ہیر کی روائیتی طرز میں پیش کئے گئے۔ ٹیگور مسحور ہو کر رہ گئے اور محفل کے اختتام پر بولے میں زبان تو نہیں سمجھتا لیکن جتنی دیر ہیر پڑھی جاتی رہی میں مبہوت رہا اور مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے کوئی زخمی فرشتہ فریاد کر رہا ہو۔

ٹیگور کو اقبال سے بھی یہی شکوہ تھا کہ اس نے اپنی مادری زبان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ بقول ٹیگور اگر اقبال نے فارسی اور اردو کی بجائے پنجابی کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا ہوتا تو آج پنجابی ایک پر مایہ زبان تو ہوتی۔

اقبال کے سلسلے میں ٹیگور کا یہ بیان ایک نوبل انعام یافتہ شاعر کا بیان بھی تھا۔ ایک ایسے شاعر کے بارے میں جو اس اعزاز سے محروم رہا۔

یہ بیان تھا ’سر‘ کا خطاب ٹھکرا دینے والے ایک شخص کا، اس شخص کے بارے میں جس نے انگریزی کے عطا کردہ اس خطاب کو عمر بھر سینت سینت کے رکھا۔

علامہ اقبالؔ کی شعری کائنات یقیناً ٹیگور کے شعری احاطے سے بہت بڑی تھی کیونکہ شعر اقبال کا ایک سرا اگر بطون ذات میں تھا تو دوسرا وسعت کائنات میں تھا۔

Re: کچھ - - - اقبال کی شاعری سے . . . . . .

Posted: Sat Apr 09, 2011 5:26 pm
by نورمحمد
شکریہ بھائی ، ، بہت بہترین شیئرنگ ہے جناب

Re: کچھ - - - اقبال کی شاعری سے . . . . . .

Posted: Thu Apr 14, 2011 3:20 pm
by نورمحمد
[center]امامت { علامہ اقبال }
تونے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اَسرار کرے

ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضروموجود سے بیزار کرے

موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رُخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دُشوار کرے

دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

فتنہء ملتِ بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
(ضرب کلیم)
[/center]

Re: کچھ - - - اقبال کی شاعری سے . . . . . .

Posted: Thu Apr 14, 2011 5:25 pm
by اعجازالحسینی
:clap: :clap: :clap: :clap: