کل میری ملاقات ایک ایسے کردار سے ہوئی جس کے ٹوٹتے گھر کے پیچھےاپنوں کی انائیں اور جفائیں ہیں۔ ان سے متاثر ہو کر میں نے یہ نظم یا ایک منظوم افسانہ لکھا۔
پوجا تم بھی کرتے ہو پوجا میں بھی کرتی ہوں
دم تم بھی بھرتے ہو، دم میں بھی بھرتی ہوں
مگر
تم بادل بن کر مجھ پر برسنا چاہتے ہو
میں بادل بن کر تجھ میں سمٹنا چاہتی ہوں
تم بھی جلتے ہو مگر پروانہ بن کر
میں بھی جلتی ہوں مگر دیوانہ بن کر
میں تو
تمہاری راتوں میں گھل گھل کر اجالا کرتی ہوں
تمہارے ڈگمگاتے قدموں کو سنبھالا کرتی ہوں
مگر
تم انجانی راہوں پر دل بچھاتے چلے جاتے ہو
مجھے بھول کر کسی اور کو اپنانے چلے جاتے ہو
میں پھر بھی
اپنے آنسوؤں سے تمہارےجسم پہ لگے داغ دھوتی ہوں
تم میری باہوں میں سوتے ہو میں رات ساری روتی ہوں
میں کیسے بتاؤں
میں تو جنموں سے تیری باندی ہوں پگلے
اور تم مجھے قید کرنا چاہتے ہو
میں نے کیاکرنے ہیں آسمان کے ستارے
تیری گود کاا یک کونہ ہی میری کہکشاں ہے
تیرا دیابوجھ اُٹھائے پھرتی ہوں، آہ نہیں کرتی
مگر
تجھ سے میرے چند سپنو ںکا بوجھ اٹھایا نہیں جاتا
میرے سپنوں کا محور تم ہو
میرے سپنوں کا مرکز تم ہو
تیری حیا کی سرخی میری چاہت ہے
تیری آنکھوں کی مستی میری راحت ہے
میرا سپنا تیرے لئے جینا ہے
اور تیرا سپنا اوروں کے لئے جینا
آؤ
رونددوراہ کی دھول سمجھ کر اپنے پیروں سے
مگر کسی اور کے پیروں کا جوتا تو نہ بناؤ
چلو وعدہ کرتی ہوں
میں اپنی روح کو مار دیتی ہوں
اپنی غیرت کو جلا دیتی ہوں
اپنی انا کومٹا دیتی ہوں
مگر
پھر برستے رہنا بادل بن کر
اک بنجر زمین پر
سنگلاخ چٹانوں سے بھری
دھول سے اٹی
اک بنجر زمین
آؤ پھر ایک سی پوجا کرتے ہیں
تم بھی پجاری پتھروں کے
میں بھی پجاری پتھروں کی
تم بھی بھکاری پتھروں کے
میں بھی بھکاری پتھروں کی
پوجا تم بھی کرتے ہو پوجا میں بھی کرتی ہوں
مگر پتھروں کی
دم تم بھی بھرتے ہو، دم میں بھی بھرتی ہوں
مگر پتھروں کا
یہ بے روح جسموں کی کہانی میری نہیں ، تیری نہیں
یہ گھر گھر کی کہانی ہے
کہیں کسی رنگ میں کہیں
کسی انگ میں
ٹوٹتے بکھرتے گھروں کی کہانی
وارث اقبال
پوجا
-
- ماہر
- Posts: 605
- Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
- جنس:: مرد
- Location: کراچی، پاکستان
- Contact: