ہمارا کل اور آج فرق کیا ہے؟؟؟؟

دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ کچھ نیا، کچھ اچھوتا۔
Post Reply
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

ہمارا کل اور آج فرق کیا ہے؟؟؟؟

Post by چاند بابو »

السلام علیکم

پچھلے کچھ عرصے سے وقت کی بے حد کمی کے باعث اردونامہ کو وہ وقت نہیں دے پا رہا ہوں جو مجھے دینا چاہئے مگر اس میں میری مجبوری ہے کہ ایک تو بجلی کی ابتر صورتحال کچھ کرنے نہیں دیتی دوسرا جب بجلی آتی ہے تب مصروفیت اتنی ہو جاتی ہے کہ اردونامہ کھول ہی نہیں پاتا۔
مگر اس ساری صورتحال کا ایک اچھا پہلو یہ نکلا کہ میں اپنے پرانے شوق کی طرف تھوڑا سا لوٹ آیا۔
شروع سے ہی مطالعہ کا کچھ حد تک شوق رہا جو کمپیوٹر کے ساتھ ہی پسِ پردہ چلا گیا اگرچہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر کچھ حد تک مطالعہ جاری رہا مگر پھر بھی وہ بات وہ مزہ نا رہا جو کتاب میں ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک طرف تو بجلی کی صورتحال اتنہائی خراب ہو گئی دوسرا موسم شدید گرم ہوگیا جس کی وجہ سے ایک طرف تو پورا دن بجلی کی نظر ہونے لگا اور دوسری طرف پوری پوری رات مچھر اور گرمی کے ساتھ جنگ میں گزرنے لگی یعنی نا دن کو سکون نا رات کا چین رہا اور صورتحال ابھی بھی جوں کی توں ہے مگر یونہی بیٹھے بیٹھے ایک دن خیال آیا کہ اگر راتوں کو جاگنا ہی ہے تو کیوں نا ایسے طریقے سے جاگا جائے کہ اس کا کچھ فائدہ یا کچھ مزہ ہی لیا جائے۔
اس دن سے آج تک کتاب ہے ایمرجنسی لائیٹ ہے یا لیب ٹاپ میں کتاب ہے اور میں ہوں راتیں پھر سے آباد ہو گئیں باقی گھر والے مچھروں سے تنگ ہیں تو کوئی گرمی کو کوس رہا ہے اور ہم ہیں کہ کتاب پڑھتے ہیں بجلی آ جائے تو سو جاتے ہیں پھر چلی جائے تو پھر کتاب کھول لیتے ہیں۔
ان چند مہینوں میں بہت ساری کتابیں ایسی پڑھ ڈالیں جن کے بارے میں دل میں کچھ ملال سا تھا کہ یہ یا تو پڑھی ہی نہیں یا اگر پڑھیں بھی تو ان دنوں میں پڑھیں جب صرف کتاب پڑھنے کا شوق تو تھا مگر اتنی سوجھ بوجھ نہیں تھی کہ ان کا مقصد یا مفہوم بھی سمجھ سکتے کہ آخر لکھنے والا ہمیں سمجھانا کیا چاہتا ہے۔
ان میں چند بہت زخیم قسم کی کتابیں بھی ہیں مثلا شہاب نامہ، علی پور کا ایلی، راجہ گدھ، داستان ایمان فروشوں کی وغیرہ وغیرہ، بہرحال جو بھی ہے ہماری اب بجلی سے یاری ہو چکی ہے مچھر تنگ آ کر کاٹنا بند کرتے جا رہے ہیں کہ یہ ڈھیٹ ہے گھر والے پاگل سمجھنا شروع ہو گئے ہیں مگر میں خوش اور مطمئن ہوں کہ میں نے برے حالات کی کوکھ سے اچھے مقصد کا حصول کر لیا ہے۔

دراصل یہ ساری باتیں موضوع سے ہٹ کرہیں آپ لوگ چاہے اسے تمہید سمجھ لیں یا میری داستان سمجھ لیں مگر اسی بات نے مجھے آج مجبور کیا کہ میں اب جب رات کا ایک بج رہا ہے کچھ لکھوں۔

پچھلے کچھ عرصے سے التمش کی لکھی کتاب داستان ایمان فروشوں کی زیرِ مطالعہ ہے التمش صاحب ایک سچے پاکستانی تو تھے ہی مگر اس سے پہلے وہ ایک بہترین مسلمان کا دل اپنے سینے میں رکھتے تھے میری ذاتی کوئی معلومات نہیں ہیں کہ وہ کون تھے اور کہاں گئے، جو بات میں نے اوپر بیان کی ہے وہ ان کی تحریروں کا نچوڑ ہے۔
اپنی اس کتاب میں انہوں نے صلیبی جنگوں کے واقعات نقل کیئے ہیں جو سلطان نورالدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور کے ہیں، کتاب میں جہاں تاریخ کو قصے کہانیوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے وہیں پر اس میں مختلف ملکی و غیر ملکی، مسلم و غیر مسلم مورخین کی تحاریر سے استفادہ کرتے ہوئے تاریخ کو اس کی اصل شکل میں برقرار رکھنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔

موضوع سے ابھی بھی بات بہت دور ہے یوں کہئے کہ پہلا لفظ لکھنے سے پہلے جو کچھ میرے ذہن میں تھا وہ اب مجھے یاد بھی نہیں رہا ہے بلکہ یوں کہئے کہ جو میرے دل میں تھا کہ مجھے اپنے دوستوں کو اپنے مسلمان بھائیوں کو بتانا چاہئے اس کے لئے مجھے مناسب الفاظ ہی نہیں مل رہے ہیں اور میں یونہی ادھر ادھر کی مارے جا رہا ہوں کہ شاید کہیں سے بات شروع ہو سکے۔

دراصل اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میں نے اسوقت کے اور آج ہے حالات کا موازنہ بھی ساتھ ساتھ کرنے کی کوشش کی اور یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ اسوقت کے حالات جب صلیبی جنگیں لڑی جا رہی تھیں اور آج کا وقت جب اسلامی دنیا پر ہم سمجھتے ہیں کوئی خاص کڑا وقت نہیں ہے ہمارے اکثر اسلامی ممالک دولت سے مالا مال ہیں تو ہمارا اپنا ملک ایٹمی طاقت سے ان سب میں ممتاز ہے۔
مگر بدقسمتی کی انتہا ہے کہ آج ہم میں وہ جذبہ نا اپنے دین کے بارے میں ہے نہ اپنی دھرتی کے بارے میں۔
کتاب کی کہانی 1169 ہجری سے شروع ہوتی ہے جب سلطان صلاح الدین ایوبی کو مصر کا وائسرائے بنا کر بھیجا گیا اور اس نے وہاں پہنچتے ہی اسلام دشمن عناصر کا ناطقہ بند کر دیا۔

صلیبی جنگوں کی تاریخ میں ایک بات باربار اور اتنی شدت کے ساتھ ملتی ہے کہ کوئی بھی تھوڑی سی سوجھ بوجھ رکھنے والا اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ سب سے پہلی بات کہ مسلمانوں کے خلاف اس دور میں بھی تمام صلیبی مشترکہ طور پر جنگ میں حصہ لے رہے تھے حالانکہ مصر کا علاقہ سب کا مشترکہ علاقہ نہیں تھا۔ وہ سب لوگ صلیب کے نام پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے تھے اور اسی صلیب کو بلند رکھنے کے لئے وہ اپنے اپنے ملکوں سے فوج بھی لائے اور بیش بہا دولت بھی۔ ایک طرف انہوں نے وہاں کے ریگزاروں کو اپنے خون سے لال کر دیا تو دوسری طرف مسلمانوں کو خریدنے کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے۔

دوسری بات جو ان واقعات سے ملتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح ان جنگوں میں بھی یہودیوں نے عیسائیوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے کھل کا بیوقوف بنایا اور اپنی مسلم دشمنی ایسے طریقے سے نبھائی کہ عیسائیوں کا جانی و مالی نقصان یہودیوں سے کئی گنا زیادہ تھا مگر درپردہ سب لوگ صرف انہی کے مقاصد کے حصول کے لئے لڑ رہے تھے۔

تیسری بات صلیبی جنگوں کے دوران صلیبیوں نے ہماری امراء و حکمرانوں کو جن مختلف طریقوں سے زیر کیا ان میں عورت، شراب اور دولت تین ایسی اشیاء ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو اتنا نقصان پہنچایا جس کا ایک گنا بھی صلیبی ہمیں میدانِ جنگ میں نہیں پہنچا سکے تھے۔

ہمارے امراء کو دولت سے خریدا گیا جو اس سے بک نہیں سکے انہیں یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی بیٹیاں تک پیش کرنے سے گریز نہیں کیا اور آخر کار انہیں زیر کرکے ہی دم لیا،جو پھر بھی ان کے دام میں نہیں آسکے انہیں اپنے ان خریدے ہوئے امراء اور حکمرانوں سے ہی لڑوا دیا یا قتل کروا دیا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی تو مارچ 1193 کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا اور اپنی زندگی کو عالمِ اسلام کی سربلندی کے لئے کوشاں مجاہدین کے لئے ایک مثال بنا گیا، اس کے ساتھ ہی سمجھ لیا گیا کہ صلیبی جنگیں ختم ہو گئیں صلیبیوں کو شکست ہو گئی۔
یہ درست ہے کہ انہیں اس محاذ میں شکستِ فاش ہو گئی مگر یہ سمجھ لینا کہ صلیبی جنگیں ختم ہو گئیں، اسلام اور صلیب کا تصفیہ ہو گیا یہ بالکل باطل خیال ہے، صلیب آج ہی اسلام کو ختم کرنے کے جتن کر رہی ہے۔ ایوبی کے چلے جانے سے تو ان کا کام آسان ہو گیا وہ جو صحراوں اور ریگزاروں کو اپنی تلوار کی چمک سے خیرہ کر کے ان کے سانس روک دیا کرتا تھا وہ چلا گیا تو ان کی سانسیں تو پھر بحال ہوئیں۔

اپنے اردگرد ذرا نظریں تو دوڑایئے صلیبی جنگوں کے سارے ماحول میں سے صرف اور صرف دو چیزیں غائب ہوئی ہیں وہ ہے تلواروں کی چھنکار اور ایوبی کا جذبہ باقی سارے کا سارا منظر ابھی تک جوں کا توں ہے اور اس میں بجائے کوئی کمی آنے کے بہت تیزی اور زیادتی آ چکی ہے۔

کیا ہمیں نظر نہیں آ رہا ہے کہ آج ہمارے حکمران کن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، کیا یہ صلیب کے نمائندے نہیں جن کی منظوری سے ہماری حکومتیں بنتی اور بگڑتی ہیں، کیا ہمارے حکمرانوں کو روپے پیسے کا ایسا چسکا نہیں لگا دیا گیا جس کے لئے وہ اپنی اسلامی غیرت و ملی حمیت سب کا سودا کیئے بیٹھے ہیں کیا آج بھی یہود و نصری اپنی بیٹیاں ان کے محلوں میں داخل نہیں کر رہے ہیں تاکہ ان میں ایک مسلمان کے کردار کا اگر ایک ذرہ بھی رہ گیا ہے تو اسے یہ عورت ختم کر دے۔

کیا ہمارے امراء کے ہاں آج بھی بہترین قسم کی شرابیں پینا اور پلانا ایک فخر کا باعث نہیں سمجھا جاتا۔

اگر یہ سب کچھ ایسے ہی ہے تو ذرا سوچئے کہ ان سب کی کڑیاں کہاں ملتی ہیں، بہت آزاد خیالی سے سوچیئے مگر پھر بھی ان تمام باتوں کی کڑیاں صلیبی ممالک تک پہنچیں گی اسرائیل تک پہنچیں گیں، اس سے تھوڑا پیچھے پہنچ جایئے یہ کڑیاں عرب کے ان ریگزاروں میں لڑنے والے عیسائیوں اور یہودیوں تک جا پہنچیں گیں اور اگر آپ تھوڑا اور پیچھے چلے جائیں تو یہ کڑیاں خطہ عرب میں اس دینِ حق کے علمبردار حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پتھر مار مار کر لہولہان کر دینے اور ان کا معاشی و اقتصادی بائیکاٹ کردینے والے یہودو نصرای تک جا پہنچیں گی۔

تو پھر جنگ کب ختم ہوئی تھی صلیب اور اسلام میں صلح کب ہوئی تھی، نہیں کبھی نہیں ہوئی تھی نہ تب ختم ہوئی تھی نہ اب ختم ہوئی ہے اور نہ ہی تاقیامت ہو سکے گی ان کی جنگ ازل سے ابد تک رہے گی۔بدلہ ہے تو صرف اندازِ جنگ بدلہ ہے مگر وہ بھی کچھ زیادہ نہیں بدلہ جو زیادہ بدلہ وہ ہمارا رویہ بدلہ ہے ہماری اسلامی غیرت بدلی ہے، ہمارے جذبات بدلے ہیں اور یاد رکھو یہ صلیبی اسلام کاتو نہ آج تک کچھ بگاڑ سکے ہیں اور نہ تاقیامت بگاڑ سکیں گے مگر تمہیں انہوں نے کہیں کا نہیں چھوڑا تمہیں اپنے حربوں سے انہوں نے وہ دھوبی کا کتا بنا ڈالا ہے جو نہ اپنے قبول کرتے ہیں اور نا بیگانے۔
حکمرانوں کو تو عورت شراب اور دولت نے زیر کر لیا اور عوام کے لئے روشن خیالی اور گلوبل ازم کا شوشہ چھوڑ کر ہماری غیرت کو مار دیا گیا اور آج ہماری یہ حالت ہو چکی ہے کہ اسی روشن خیالی اور گلوبل ازم کے خیالات کی ماری ہماری نوجوان نسل کو یہودی اور نصرانی اپنے سب سے اچھے دوست نظر آ رہے ہیں، انہیں یہ تو نظر آ جاتا ہے کہ اسلامی تنظیمیں دنیا کا امن تباہ کر رہی ہیں مگر اس امن کے نام پر اسلامی دنیا کو تہس نہس کرتے یہودی اور عیسائی انہیں نظر ہی نہیں آتے ہیں۔ مدارس میں زیرِ تعلیم نام نہاد عسکریت پسندوں تک پر ان روشن خیالوں کی نظر ہے مگر انہیں فلسطین میں جلتے گھر سکول، مرتے بچے، جوان بوڑھے اور عورتیں نظر نہیں آتی ہیں۔ نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کو مختاراں مائی کے ساتھ ہونے والے ظلم کی خبر تو ہو جاتی ہے اور اس کی بازگشت ساری دنیا میں سنائی دینے لگتی ہے مگر انہیں عراق، کویت، فلسطین و افغانستان میں انہی صلیبی فوجیوں کے ہاتھوں لٹتی اپنی لاکھوں معصوم بہنوں میں سے ایک بھی نظر نہیں آتی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ان عیسائیوں اور یہودیوں نے جسے اپنے قریب کر لیا ان کا کچھ بھی نا چھوڑا، اور آج ہم ان کے سب سے اہم اتحادی ہونے کے دعوے کرنے کو فخر کی علامت سمجھتے ہیں اور امن کی کوششوں کے نام پر اپنے ہی بھائیوں کے گلے انہیں پیش کرتے ہیں کہ انہیں کاٹو شوق سے مگر ان کی قیمت مال و زر کی شکل میں ہمیں مل جانی چاہئے، عافیہ جیسی اپنی بیٹیوں کو ہم اس امید کے ساتھ ان کے حوالے کر دیتے ہیں کہ اس کی قیمت زیادہ لگے گی۔

اور ان کی ہٹ دھرمی اور ہمارے حکمران ٹولے پر کنٹرول کی کیفیت یہ ہے کہ ان کے سپاہی ہمارے ملک میں آتے ہیں شرِعام تباہی مچاتے ہیں، ریمنڈ جیسے ہزاروں لوگ یہاں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔
ہمارے غدار پیسے کے لئے ہمارے ہی ملک کے قیمتی ترین راز ان کے ہاتھوں بیچتے ہیں تو ان کے لئے محترم ٹھہرتے ہیں اور اگر ہم انہیں پکڑ کا سزا دیتے ہیں تو ہمیں ہی برے انجام کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہےکہ امریکہ ہر حال میں شکیل آفریدی جیسے غدار کو حاصل کرلے گا۔


حکمرانوں سے تو مجھے کوئی امید نہیں، بڑے بوڑھوں کا اب یہ کام نہیں کہ وہ میدان جنگ میں اپنی گردنیں کٹواتے رہیں جب کہ ان کی جوان اولادیں بدی، گناہ اور لذت کی دلدل میں دھنسی گھر بیٹھی ہو۔
امید ہے تو مجھے انہی جوانوں سے ہے کہ خدارا اپنے اصل کو پہچانو اپنے دشمن کی شناخت کر لو اٹھو اپنے اجداد کی زندگی کا مطالعہ کر کے ان یہود و نصرای کو پہچان لو، سلطان صلاح الدین ایوبی اور سلطان نور الدین زنگی ہمیشہ اس بات کا درس دیتے تھے کہ صلیبی کبھی مسلمان کا دوست نہیں ہو سکتا وہ تمہارے قریب صرف اپنے مقاصد کے حصول کے لئے آتا ہے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے بعد اور اس کے دوران وہ تمہارا سب سے بڑا دشمن رہتا ہے۔ کاش ہم سلطان صلاح الدین ایوبی کی باتوں کو مان لیں۔
ارے چلو اگر سلطان صلاح الدین ایوبی اور سلطان نور الدین زنگی کی بات نہیں ماننی تو اپنی نبی کی بات ہی مان لو اپنے رب کی بات کو ہی سچا جان لو کہ یہودونصرای کبھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔

اس درخواست کے ساتھ اپنی بات سمیٹتا ہوں کہ خدا کے لئے امت مسلمہ کے نوجوانوں اپنے دشمن کو پہچانو اور اس ذہنی پستی سے نکل آؤ جس میں تمہیں دھکیل دیا گیا ہے،کوشش تو کرو اللہ کوشش کرنے والوں کی مدد خود کرے گا۔
تاریخ جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی کے یہ ایمان افروز واقعات بیان کرتی ہے وہیں پر یہ بھی بتاتی ہے کہ وہ اپنی نوجوانی میں تم سے بھی دو ہاتھ آگے تھا، عیش پرست، شراب و موسیقی اور رقص و سرود کا دلداہ مگر اپنے چچا کے ساتھ پہلی ہی جنگ میں شرکت کے بعد اللہ تعالٰی نے اسے ایمان و یقین کی روشنی دی وہ اپنے دشمن کو پہچان گیا اپنے مقصد کو پہنچ گیا اور پھر اس عیاش نوجوان میں سے ایک ایسا مجاہدِ اسلام نکلا جیسا خطہ عرب ایک لمبا عرصہ ہوا دیکھنے کو ترس گیا تھا، ساری عمر اس کی تلوار اسلام کی سربلندی اور یہودونصرای کی سرکوبی کے لئے اٹھی ہی رہی۔

اٹھو جوانوں صلاح الدین ایوبی بن جاؤ گھروں کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں محاذ پر جانے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنی اپنی فیلڈ میں ایوبی جیسی سوچ اپنا لو دنیا کے ہر محاذ پر اپنے بھائیوں کو جگا دو، ہر راہ میں ان صلیبیوں کے لئے کانٹے بو ڈالوں ان کی ٹیکنالوجی انہی کے خلاف استعمال کرو ان کے منصوبے بے نقاب کر دو اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں سرخرو ہو کر جانا تاکہ روزِ حشر ہمارے آقا مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم فخر سے بتا سکیں کہ میرا یہ بیٹا میرے دین کی سربلندی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہا ہے۔

یاد رکھو یہ سانسیں امانت ہیں انہیں اس کے لئے استعمال کرو جس نے یہ جان تمہیں دی ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: ہمارا کل اور آج فرق کیا ہے؟؟؟؟

Post by میاں محمد اشفاق »

اسلام علیکم چاند بھائی !

پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کروں گا کہ آپ نے بہت ہی اہم موضوع کی طرف ہم سب کی توجہ دلائی تو میں کم علم بھی کچھ کہنا فرض سمجھتا ہوں جس کتاب کا ذکر آپ نے کیا ہے اس کتاب کو میں نے بھی پڑھا ہے ! اور میں آپ کی بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں ۔ہم جتنی بھی تاریخی کتب کا مطالعہ کریں تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمان قوم جتنی حضور sw: کے دور میں ابھری اتنی ہی ان کے بعد پستی میں چلی گئی آپس میں نا اتفاقی دوسروں کی نسبت مسلمانوں میں ذیادہ پائی جاتی ہے ؟ اسکی ایک تاریخی مثال محمد بن قاسم جیسے ناقابل یقین انسان کا قتل بھی ہے اور بھی ایسے کئی واقعات ہیں جن سے تاریخ کی کتب بھری پڑی ہیں۔
میں نے کل ہی ایک کتب کا مطالعہ کیا ہے (فردوس ابلیس) اس میں کئی ناقابل یقین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جیسے کہ حشیشین کا اور اس کے بانی حسن بن صباح کا تاریخ گواہ ہے کہ وہ اکیلا شخص اپنی ساری ذندگی میں ہمیشہ مسلمانوں کو شکست دیتا رہا اس نے دنیا میں جنت بنائی اور مسلمانو ں کے کئی نامور علما اور سپہ سالار وں کے قتل کا باعث بنا جس کی مثال آج تک نہیں ملتی ! اگر ہم غور کریں تو ہمیں ہم مسلمانوں کی تمام کمزوریاں کو جان سکتے ہیں ‘ اسلام‌ کو عورت اور پیسہ ہی نے سب سے ذیادہ نقصان پہنچایا بے شک عور ت ہمارے لئے معزز ہے آپ جان سکتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی مسلم ملک ایسا نہیں ہے جو کہ کسی نہ کسی پابندی کا شکار نہ ہو ۔امریکا کیا چیز ہے آج سے سو سال پہلے اس کا نام و نشان نہیں تھا آج وہ تمام مسلمانوں پر پابندی لگا رہا ہے میں نے ایک ٹاک شو میں سنا تھا کہ امریکا کی پارلیمینٹ کے کئی رکن مکہ اور مدینہ پر بھی حملہ کر دینا چاہتے ہیں اور مسلمان کچھ نہیں کر سکیں گے کیونکہ وہ لوگ مسلمانوں کا ایمان بھی خرید لیتے ہیں ۔ ایک کذاب تھا جس کا نام غالبا ء ابن طاہر تھا اس نے مکہ پر حملہ کیا اور وہ خانہ کعبہ سے ہجر اسود اٹھا کر مصر لے گیا جہاں اس نے ایک مسجد ہجر بنائی تھی وہ چاہتا تھا کہ مسلمان اب وہاں حج کرنے آیا کریں اس نے 10 سال حج کو بند کئے رکھا اور لگ بھگ 24 سال ہجر اسود کو اپنی تحویل میں رکھا آخر کا ر مسلمانوں کو اس کو 25000 کے لگ بھگ دینار دے کر ہجر اسود واپس لانا پڑا اس کے ساتھ اللہ تعالی نے جو کیا وہ اک الگ بات ہے مگر آپ اس بات سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ مسلمان کتنے طاقتوار ہیں ہم لوگوں سے ذیادہ ان لوگوں کا ایمان ذیادہ پختہ تھا میں نے جس واقعہ کا ذکر کیا ہے وہ ٍ غالباء 725 ہجری کا ہے
آج ہم میں کتنا ایمان ہے ہم سب خوب جانتے ہیں !
ان سب کی وجہ کیا ہے جو اللہ تعالی ہماری مدد نہیں کرتے کیونکہ ہم عیش پرست اور فحاشی کو پسند کرنے والے اور اسلام سے بہت ہی دور ہو گئے ہیں
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

Re: ہمارا کل اور آج فرق کیا ہے؟؟؟؟

Post by پپو »

آپ دونوں احباب کا شکریہ کہ اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی اور تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کیا مگر کیا اب حال کو اس کے حال پر چھوڑ دیں یا اپنی جگہ تیاری رکھیں کہ اسیا وقت پھر آئے گا یہ سوال بڑا اہم ہے اور گہری فکر کا متقاضی ہے اس لیے میرا خیال ہے مسلمان کو ہر وقت تیار رہنا چاہیے اور اپنی زندگی کو اسلامی قالب میں ڈھالنا چاہیے
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: ہمارا کل اور آج فرق کیا ہے؟؟؟؟

Post by میاں محمد اشفاق »

میں تو پاکستان کے قانون سے ہی اختلاف کرتا ہوں
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
موجو
کارکن
کارکن
Posts: 13
Joined: Sat Aug 15, 2009 10:45 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: ہمارا کل اور آج فرق کیا ہے؟؟؟؟

Post by موجو »

السلام علیکم
التمش کا اصل نام تو میرا خیال ہے کہ عنایت اللہ ہے اور ان کا حکایت ڈائجسٹ اب بھی شائع ہورہا ہے.
آپ نے اچھی تحریر لکھی ہے
شکریہ
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ہمارا کل اور آج فرق کیا ہے؟؟؟؟

Post by چاند بابو »

محترم موجو صاحب میں بھی پہلے یہی سمجھتا تھا کہ التمش اور عنائت اللہ ایک ہی ہیں مگر یہ ایک نہیں ہیں بلکہ دو الگ الگ شخصیات ہیں۔
بات اتنی سی ہے کہ التمش نے یہ داستان ایمان فروشوں کی لکھی اور بغیر شائع کروانے کے عنایت اللہ صاحب کے حوالے کر دی جو انہوں نے قسط وار اپنے ماہنامے حکایت میں شائع کی اور تکمیل ہونے کے بعد اسے باقاعدہ کتابی شکل دی۔
مگر مصنف کے نام کی جگہ التمش کا نام ہی لکھا اور باقی یہ تفصیل جو میں نے بتائی ہے وہ دیبایچے میں موجود ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
موجو
کارکن
کارکن
Posts: 13
Joined: Sat Aug 15, 2009 10:45 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: ہمارا کل اور آج فرق کیا ہے؟؟؟؟

Post by موجو »

بھائی جان شکریہ
ایک بہت بڑی غلط فہمی دور کرنے کا
اس کا مطلب ہے
اور ایک بت شکن پیدا ہوا
بھی شائد التمش کی ہی ہے
میرا خیال ہے کہ ادارہ حکایت سے ان کی معلومات مل سکتی ہیں
Post Reply

Return to “دنیا میرے آگے”