صدر زرداری نے سابق ساتھی کا کاروبار تباہ کر دیا

اپنے ملک کے بارے میں آپ یہاں کچھ بھی شئیر کر سکتے ہیں
Post Reply
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

صدر زرداری نے سابق ساتھی کا کاروبار تباہ کر دیا

Post by چاند بابو »

[center]ذاتی بدلہ لینے کے لئے صدر زرداری نے سابق ساتھی کا کاروبار تباہ کرنے کا حکم دے دیا[/center]

چار سال تک صبر کا مظاہرہ کرنے کے بعد صدر آصف علی زرداری کا پیمانہ آخرکار لبریز ہو ہی گیا ہے اور انہوں نے پاکستان مسلم لیگ نواز کو حال ہی میں جوائن کرنے والے پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر انور بیگ کے خلاف سخت انتقامی کاروائیوں کا حکم دے دیا ہے اور پہلے مرحلے میں ان کا کاروبار تباہ کرنے کے لیے ان کی ستر سالہ پرانی خاندانی اوورسینر ورکرز کمپنی کے خلاف سرکاری طور پر کاروائی شروع کر دی گئی ہے۔
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز پاکستانی کی طرف سے لیے گئے اس ایکشن کے بعد دو سو کے قریب پاکستانی ورکرز کو سعودی عرب اور قطر جانے سے روک دیا گیا ہے جو انور بیگ کی کمپنی کے ذریعے وہاں ورک پرمٹ پر جارہے تھے۔
انور بیگ کی کمپنی جان محمد اینڈ سنز جو کہ 1943 میں قائم کی گئی تھی، پاکستان میں اپنی ساکھ کی بیناد پر چند اچھی کمپنیوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے اور اچھی کاروباری پریکٹس کی وجہ سے پاکستان کے اندر اور باہر اس کمپنی کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کمپنی کو انیس سو تراسی میں اس وقت کے وزیر لیبر چوہدری ظہور الہی نے مبارکباد کا پیغام بھی بھیجا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ایوان صدر کے حکم پر اس کمپنی کے آپریشن روکنے کا حکم دیا گیا ہے اس وقت اس محکمے کے وزیر اور کوئی نہیں بلکہ چوہدری وجاہت حسین ہی ہیں۔
انور بیگ وہ پہلے سیاستدان ہیں جن کے خلاف صدر زرداری نے ذاتی رنجش کی بنیاد پر کارروائی کا حکم دیا ہے جس کا مقصد انہیں پاکستان مسلم لیگ نواز کو جوائن کرنے پر سزا دینا مقصود ہے۔ اس سلسلے میں ان کے کاروبار کو نقصا ن پہنچانے کے لیے سرکاری ادارے بیورو آف امیگریشن کو استعمال کیا گیا ہے۔انور بیگ نے سلمان اکرم راجہ کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے جنہیں پاکستان میں اپنی قابلیت اور علمیت کی وجہ سے کافی سراہا اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق انور بیگ کو بتایا گیا تھا کہ انہیں چوہدری شجاعت حیسن اور پرویز الہی کے خلاف ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرنے کی سزا دی جارہی ہے اور ان کے بھائی وجاہت حسین جو کہ لیبر کے وفاقی وزیرہیں کے حکم پر بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز نے یہ کارروائی کی ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے چوہدری شجاعت حیسن نے انور بیگ کو وضاحت دی تھی کہ ان کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں بلکہ احکامات ’اوپر‘ سے آئے ہیں۔ اوپر سے مراد ایوان صدر تھا۔
جب اس معاملے کی تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ واقعی اس معاملے میں چوہدری برادرز کا کوئی کردار نہیں۔ معلوم ہوا کہ صدر زرداری کی ایک خاتون سیکرٹری جو کہ ایوان صدر میں ان کے سیاسی معاملات دیکھتی ہیں نے بیورو آف امیگریشن کے سربراہ کو ایوان صدر بلایا تھا اور انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ انور بیگ کی کمپنی جان محمد اینڈ سنز کو ’درست کیا جائے‘۔ ہدایات ملنے کے بعد بیورو کے افسران نے اسی دن ایک انسپکشن ٹیم انور بیگ کے دفتر بھیجی جس نے ایک رپورٹ مرتب کی اور اس رپورٹ کو بنیاد بنا کر پروٹیکٹرز آف امیگریشن کو یہ ہدایات جاری کی گئی کہ وہ فوراً جان محمد اینڈ سنز کے ساتھ کاروبار بند کردیں جس کا مطلب تھا کہ آئندہ ان کی کمپنی پاکستانی ورکرز کو ملک سے باہر نہیں بھیج سکے گی۔
ذرائع کے مطابق بیورو آف امیگریشن نے انور بیگ کی کمپنی پر تین انتہائی مضحکہ خیز الزامات لگا کر انہیں شو کاز نوٹس جاری کیا۔ اس شو کاز میں کہا گیا ہے کہ انور بیگ نے اپنی کمپنی کا بورڈ دفتر کے باہر لگایا تو ہوا ہے لیکن اسے نمایاں طور پر نہیں لگایا گیا۔ اس طرح ایک اور الزام لگایا گیا ہے کہ یہ کاروباری دفتر ہے لیکن انور بیگ ایک سیاستدان ہیں اور ان کے اس دفتر میں سیاسی گفتگو بھی ہوتی ہے اور تیسرا الزام یہ لگایا گیا ہے کہ وہ یوروگائے ملک کے اعزازی کونسلر ہیں اور اس کا دفتر بھی وہیں واقع ہے۔
بیورو آف امیگریشن کے کمالات اور پھرتی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بارہ جون کو انسکپشن کرائی گئی، اگلے دن تیرہ جون کو یہ شو کاز نوٹس جاری کیا گیا اور تیرہ تاریخ کو ہی بیورو آف امیگریشن نے پروٹیکٹر آف امیگریشن کو ہدایات جاری کردیں کہ آج سے جاں محمد اینڈ سنز سے کاروبار بند کر دیا جائے۔ اور یوں انور بیگ کو اتنا وقت بھی نہیں دیا گیا کہ وہ ان الزامات کا جواب دیتے اور اس کے بعد کوئی کارروائی کی جاتی۔
اگرچہ انور بیگ کو سرکاری طور پر کوئی اطلاع نہیں کہ گئی لیکن بیورو آف امیگریشن کو تیرہ جون کو ایک خط کے ذریعے ڈپٹی ڈائریکٹر شاہدہ اکبر نے یہ ہدایات جاری کیں کہ جان محمد اینڈ سنز کی کاروباری سرگرمیوں کو فورا روک دیا جائے۔
ذرائع کہتے ہیں کہ صدر زرداری کو انور بیگ سے اس وقت سے ذاتی عناد ہے جب دو ہزار دو کے انتخابات کے بعد وہ کوشش کررہے تھے کہ مولانا فضل الرحمن پاکستان کے مشترکہ وزیراعظم بن جائیں اور پیپلز پارٹی ان کی حمایت کرے۔ جنرل مشرف بھی مولانا فضل الرحمن کو وزیراعظم بنانے پر تیار ہوگئے تھے اور صرف پیپلز پارٹی کیطرف سے اجازت کا انتظار تھا۔ صدر زرداری کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کی یہ ڈیل ہوئی تھی کہ اگروہ وزیراعظم بن گئے تو انہیں بہت جلد جیل سے رہا کر دیا جائے گا۔ تاہم اس دوران میں بے نظیر بھٹو نے قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمن کو وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر ووٹ دینے سے انکار کر دیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ نوگیارہ حملوں کے بعد ، مولانا کو طالبان کا حامی سمجھا جاتا ہے اور امریکہ اور مغربی قوتیں ان کے وزیراعظم بننے پر خوش نہیں ہوں گی۔
اس پر جیل میں قید زرداری کو بتایا گیا کہ بے نظیر بھٹو تو مولانا فضل الرحمن کو وزیراعظم کے لے ووٹ دینے پر تیار ہوگئی تھیں لیکن انور بیگ نے پاکستان میں امریکی سفیر کا ایک پیغام انہیں پہنچایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کو وزیراعظم بنانے کے لیے پیپلز پارٹی انہیں ووٹ نہ ڈالے۔ زرداری کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ اگر مولانا فضل الرحمن وزیراعظم بن جاتے تو وہ دو ہزار چار کی بجائے دو ہزار دو میں ہی ہی رہا ہوجاتے اور وہ آج تک اپنے ان دو سالوں کی جیل کا ذمہ دار انور بیگ کو سمجھتے ہیں۔
تاہم انور بیگ نے اس بات کی کئی دفعہ وضاحت کی ہے کہ انہیں کبھی بھی امریکی سفیر نے اس طرح کا کوئی پیغام نہیں دیا تھا۔ انور بیگ کا کہنا تھا کہ بھلا بینظر بھٹو کیسے محض ان پر اتنے بڑے معاملے میں اعتبار کر لیتیں جب تک وہ خود امریکن سفیر سے کنفرم نہ کرتیں۔ انور بیگ کا کہنا تھا کہ امریکہ نے کبھی بھی مولانا کو وزیراعظم ببنے سے نہیں روکا تھا۔ پیپلز پارٹی نے انہیں ووٹ اپنی وجوہات کی وجہ سے نہیں دیے تھے نہ کہ کسی کے کہنے پر۔
تاہم انور بیگ کی یہ وضاحت کبھی بھی صدر زرداری کو مطمئن نہ کر سکی اور بینظر بھٹو کے قتل کے بعد جب وہ پارٹی کے چیئرپرسن بنے تو انہوں نے پہلے امین فہیم کو وزیراعظم بنانے کا اعلان کیا لیکن بعد میں مکر گئے۔ ان لحموں میں انور بیگ اپنے دوست امین فہیم کے ساتھ کھڑے رہے جس کا زرداری کو خاصا رنج بھی تھا۔ زرداری نے اپنے ایک قریبی دوست فیصل بٹ کو انور بیگ کے پاس بھیجا بھی تھا کہ وہ امین فہیم کا ساتھ چھوڑ دیں تاہم انور بیگ نے پرانی دوستی کا لحاظ رکھتے ہوئے امین فہیم کا ساتھ نہ چھوڑا۔
تاہم انور بیگ کو امین فہیم نے اس وقت مایوس کیا جب انہوں نے اپنی دوسری بیگم کو ایوان صدر بھیج کر صدر زرداری سے معافی مانگ لی اور وزارت کا حلف اٹھا لیاجب کہ امین فہیم نے انور بیگ اور نواب یوسف تالپور جیسے قریبی دوستوں کا سیاسی کیرئر داؤ پر لگادیا کہ انہیں مڑ کرپوچھا تک نہیں۔ اس اثناء میں صدر زرداری نے رضا ربانی کو کہا کہ وہ انور بیگ سے کہیں کہ وہ سینیٹ سیٹ سے استعفیٰ دے دیں۔ تاہم رضا ربانی کے سمجھانے پر زرداری راضی ہوگئے کہ چند ماہ کی بات ہے جب وہ ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ یوں دو ہزار نو مارچ میں انور بیگ سینیٹ سے ریٹائرڈ ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی ان کا سیاسی کیرئرتقریبا ختم ہو کر رہ گیا اور پیپلز پارٹی کے تمام دروازے ان پر بند کر دیے گئے۔
اس سے پہلے جب بھی انور بیگ صدر زرداری سے ملنے جاتے تھے تو وہ ان کی ٹائیوں کے رنگوں پر شدید اعتراض کرتے تھے کہ انہوں نے فلاں ٹائی کیوں پہنی ہوئی ہے۔ متعدد دفعہ رخسانہ بنگشں جو کہ صدر زرداری کی سیاسی سیکرٹری ہیں، نے انور بیگ کو سمجھایا تھا کہ باس کو ان کی رنگین ٹائیوں سے چڑ ہے لہذا بہتر ہوگا کہ وہ بغیر ٹائی کے زرداری ہاوس آیا کریں جہاں وہ صدر بننے سے پہلے پارٹی میٹنگز کرتے تھے۔ انور بیگ کو آج تک علم نہیں ہے کہ جناب زرداری کو ان کی ٹایؤں کے رنگوں سے کیوں چڑ تھی۔
اس دوران پیپلز پارٹی میں اپنا سیاسی مسقبل ختم ہوتے دیکھ کر انور بیگ کی ملاقاتیں نواز شریف اور شہباز شریف سے شروع ہوگئیں اور انہوں نے انور بیگ کو پارٹی جوائن کرنے کی دعوت دی جو کہ انہوں نے چند ماہ پہلے قبول کر لی۔ اس پر صدر زرداری شدید ناراض تھے کہ انور بیگ نے نواز لیگ کو جوائن کر لیا ہے جو ان کے نردیک پیپلز پارٹی کی بے عزتی کے برابر ہے کہ پیپلز پارٹی کا کوئی بھی بندہ نواز لیگ کو جوائن کرلے۔ انور بیگ اگر عمران خان کو جوائن کرلیتے جیسے کہ ان کے کچھ مزاکرات عمران خان سے ہوئے بھی تھے، تو صدر زرداری شاید اتنا ردعمل نہ دکھاتے جتنا انہوں نے انور بیگ کے نواز لیگ کو جوائن کرنے پر دکھایا۔
یوں اب اور کوئی کمزوری نہ پاکر انور بیگ کو سبق سکھانے کے لیے ایوان صدر سے ہدایات جاری کیں کہ ان کا ستر سالہ خاندانی کاروبار تباہ کر دیا جائے اور اس سلسلے میں ایوان صدر نے بیورو آف امیگریشن کو استعمال کیا ہے۔
ایک مبصر کے بقول انور بیگ کا کاروبار بند کرانے کے لیے ان پر بیورو آف امیگریشن نے یہ بھی دلچسپ الزام لگایا گیا ہے کہ ان کے دفتر میں سیاسی سرگرمیاں ہوتی ہیں لہذا ان کا لائسنس کینسل کرنے کے لیے کاروائی کی جارہی ہے۔ جب کہ بدھ کو ہی صدر زرداری کو لاہور ہائی کورٹ نے پانچ ستمبر تک مہلت دی ہے کہ وہ ایوان صدر میں اپنی سیاسی سرگرمیاں بند کردیں وگرنہ ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ یوں صدر زرداری اور انور بیگ میں ایک چیز مشترک ہے کہ ان کے مخالفوں کو ان کے اپنے اپنے دفتر میں سیاسی سرگرمیوں پر اعتراض ہے ۔ انور بیگ کے خلاف بیورو آف امیگریشن اگر قانون کا سہارا لے رہا ہے تو لاہور ہائی کورٹ آئین کی آڑ میں یہ وار صدر زرداری پر کر رہی ہے۔
رؤف کلاسرہ
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: صدر زرداری نے سابق ساتھی کا کاروبار تباہ کر دیا

Post by بلال احمد »

مطلب گندی ذہنیت آخری وقت میں‌ بدلے لینا شروع ہوگئی ہے be;a be;a be;a
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: صدر زرداری نے سابق ساتھی کا کاروبار تباہ کر دیا

Post by میاں محمد اشفاق »

ارے بھائی اس میں حیرت کی کیا بات ہے کیا اس سے بڑھ کر کوئی توقع کر سکتا ہے اس بندے سے
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
Post Reply

Return to “پاک وطن”