سقوط ڈھاکہ کا سبق اور دفاع وطن کیلئے ہماری سیاسی‘ عسکری قیاد

اپنے ملک کے بارے میں آپ یہاں کچھ بھی شئیر کر سکتے ہیں
Post Reply
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

سقوط ڈھاکہ کا سبق اور دفاع وطن کیلئے ہماری سیاسی‘ عسکری قیاد

Post by اعجازالحسینی »

قوم آج 16؍ دسمبر کو وطن ِعزیز کے دولخت ہونے کا سوگ متحدہ پاکستان سے وابستہ یادوں کو تازہ کرتے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہونیوالی سنگین غلطیوں کا اعادہ نہ ہونے دینے کا عہد کرتے ہوئے 39ویں یومِ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں منا رہی ہے۔ بلاشبہ آج کے دن کا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور ہمیں آئندہ کیلئے بھی اپنے مکار اور شاطر دشمن بھارت کی ایسی سازشوں سے ہوشیار رہنے اور ان سازشوں کا بروقت توڑ کرتے رہنے کی تلقین کرتا بھی نظر آتا ہے جو 16؍ دسمبر 1971ء کو پاکستان کے ایک بڑے حصے کو ہم سے جدا کرنے کا باعث بنی تھیں اور اس وقت کی بھارتی زنانی وزیراعظم اندرا گاندھی کو یہ بڑ مارنے کا موقع ملا تھا کہ آج ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔
بزدل اور شاطر ہندو بنیاء قیادت نے تو قیام پاکستان کے وقت ہی اسے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا تھا اور نہرو نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے گا اور اگلے چند سالوں میں ہی دوبارہ بھارت کے ساتھ شامل ہونے پر مجبور ہو جائیگا۔ ان کا اشارہ امور مملکت کی انجام دہی کے معاملہ میں ممکنہ انتظامی کمزوریوں کی جانب تھا‘ جس کی بنیاد پر وہ یہ نتیجہ اخذ کئے بیٹھے تھے کہ پاکستان کی قیادت اس ملک خداداد کو سنبھال نہیں پائے گی۔ اکھنڈ بھارت کے زعم میں مبتلا ہندو بنیاء کیلئے تو پاکستان کا قیام ایک بہت بڑا صدمہ تھا‘ کیونکہ تشکیل پاکستان سے ہندوستان کی سرحدوں کے وسعت پانے کے بجائے اسکی ٹکڑوں میں تقسیم کی بنیاد پڑ گئی تھی‘ اس لئے ہندو بنیاء کی جانب سے شروع دن سے ہی پاکستان کی سالمیت کیخلاف سازشوں میں مصروف ہونا فطری عمل تھا۔ انہوں نے برصغیر میں مسلمان بادشاہوں کے ہزار سالہ اقتدار کے خاتمہ کے بعد اسی نیت اور خبث باطن کی بنیاد پر ہندوستان کے مسلمانوں کو عملاً غلام بنا کر ان کا عرصۂ حیات تنگ کیا کہ کہیں پھر ان میں ہندوئوں پر غالب آکر حکمرانی کرنے کی خو پیدا نہ ہو جائے‘ اسی متعصبانہ انتقامی سوچ کے تحت ہندوئوں نے مسلمانوں کی مذہبی آزادیاں ہی سلب نہ کیں‘ ان پر ملازمتوں اور روزگار کے دروازے بھی بند کر دیئے اور اچھی تعلیم سے بھی انہیں محروم رکھا تاکہ کوئی مسلمان اپنی تعلیم کے بل بوتے پر کسی بڑے عہدے پر فائز نہ ہو سکے۔
یقیناً جبر کے اس ماحول کے ردعمل میں ہی ہندوستان کے مسلمانوں کے ذہنوں میں دو قومی نظریہ اجاگر ہوا اور یہ احساس پیدا ہوا کہ ان کا متعصب اور مکار ہندو بنیاء کے ساتھ کسی صورت گزارا نہیں ہو سکتا‘ چنانچہ جب انگریز سے ہندوستان کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو مسلمانوں نے اسی وقت طے کرلیا کہ انہوں نے انگریز سے ہی نہیں‘ ہندو سے بھی آزادی حاصل کرنی ہے۔ خوش قسمتی سے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کی شکل میں ایسی بے لوث قیادت میسر آگئی جو ہندوستان میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء و اجراء کے جذبے سے معمور تھی اور مسلمانوں کے اچھے مستقبل کیلئے فکرمند بھی۔ چنانچہ ہندو کے تعصب کی بنیاد پر اجاگر ہونیوالے دو قومی نظریے سے تحریک پاکستان کی شکل میں برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ قطعۂ اراضی کے حصول کا جذبہ مستحکم ہوا جس کیلئے مصور پاکستان علامہ اقبالؒ نے 1930ء میں اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں پاکستان کے خدوخال اجاگر کئے۔ حالات سے مایوس ہو کر مستقل طور پر انگلستان میں مقیم ہونیوالے محمدعلی جناحؒ کو واپس آنے اور تحریک آزادی کیلئے مسلم لیگ کی قیادت کرنے پر مجبور کیا چنانچہ اقبالؒ کی بے لوث کوششوں کے نتیجہ میں محمدعلی جناحؒ ہندوستان واپس آئے اور علامہ اقبالؒ کی فراہم کی گئی گائیڈ لائن کی روشنی میں برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے اپنی فہم و بصیرت کے بل بوتے پر ہندو بنیاء کی شاطرانہ چالوں کا مقابلہ اور توڑ کرتے ہوئے قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد سات سال کے مختصر عرصہ میں تشکیل پاکستان کا خواب حقیقت کے روپ میں ڈھال دیا‘ جو ہندو بنیاء کی بہت بڑی شکست تھی۔
اگر قائداعظمؒ کچھ عرصہ مزید زندہ رہتے تو ملک خداداد کی بنیادیں اتنی مضبوط بن جاتیں کہ ہندو بنیاء کو اسکی سالمیت کیخلاف کوئی سازش کرنا تو کجا‘ اسکی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت بھی نہ ہوتی۔ مگر بدقسمتی سے قائداعظمؒ کے انتقال کے بعد ملک پر انگریز اور ہندو کے ٹوڈی جاگیرداروں‘ انکے وظیفہ خواروں‘ ملائوں اور دوسرے مفاد پرست سیاست دانوں کا غلبہ ہو گیا‘ جنہوں نے اپنے مفادات اور اقتدار کی خاطر سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے گٹھ جوڑ کرکے ملک میں ماورائے آئین فوجی حکمرانیوں کا راستہ کھول دیا اور بالآخر انہی گھنائونی سازشوں کے نتیجہ میں 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ہندو کی پروردہ مکتی باہنی کے پیدا کردہ حالات کے باعث قوم کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور پاکستان کے دولخت ہونے کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ صرف یہی نہیں‘ پاک فوج کے کمانڈر جنرل نیازی کے گیدڑ ہندو جرنیل کے آگے سرنڈر کرنے اور مشرقی پاکستان میں تعینات پاک فوج کے تمام افسران اور جوانوں کے جنگی قیدی بننے کی ہزیمت بھی اٹھانا پڑی۔
یہ عظیم سانحہ تو ہم سے مکار دشمن کی سازشوں سے ہمہ وقت ہوشیار اور مستعد رہنے اور اپنی حربی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ملک کی سالمیت کو ناقابل تسخیر بنانے کا تقاضہ کرتا ہے تاکہ پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی متعصب اور جنونی ہندو کی کوئی سازش اور خواہش پوری نہ ہو سکے۔ مکار دشمن کی ایسی سازشوں کو بھانپتے ہوئے ہی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے پاکستان کو ایٹمی قوت سے سرفراز کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا اور نعرہ لگایا تھا کہ ہم روکھی سوکھی کھا لیں گے مگر پاکستان کو ایٹمی قوت ضرور بنائیں گے۔ یقیناً اس جذبے نے ہی جنونی ہندو کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھا اور بھٹو‘ ضیاء الحق‘ غلام اسحاق خان‘ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی کاوشوں کے تسلسل کے نتیجہ میں میاں نواز شریف کے ہاتھوں بالآخر وطن عزیز ایٹمی طاقت سے ہمکنار ہوا چنانچہ سقوط ڈھاکہ کے بعد بے شک باقیماندہ پاکستان کو ہضم کرنے کیلئے بھی ہندو بنیاء کی رال ٹپکتی رہی اور اس نے پاکستان کی سالمیت پر وار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا مگر ہماری ایٹمی صلاحیتیں اسکے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنتی رہیں۔
آج 39ویں یوم سقوط ڈھاکہ کے موقع پر ہماری حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاہیے کہ ایٹمی قوت ہو کر بھی ہم رال ٹپکانے والے اپنے کمینے دشمن کے عزائم سے کیا ہم وطن عزیز کو محفوظ اور اسکے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے قابل ہو چکے ہیں۔ موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اس معاملے میں ہمیں وطن عزیز کی کوئی حوصلہ افزاء صورتحال نظر نہیں آرہی۔ آج وطن عزیز‘ مکار ہندو ہی نہیں‘ امریکہ‘ بھارت‘ اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ کی مکروہ صہیونی سازشوں میں بھی گھرا ہوا ہے‘ جنہیں ہماری ایٹمی صلاحیتیں ایک آنکھ نہیں بھا رہیں اور وہ حیلے بہانے سے ہماری ایٹمی تنصیبات تک رسائی حاصل کرنے کی سازشوں میں کھلم کھلا مصروف نظر آتے ہیں۔ آج جنونی ہندو لیڈر شپ کی سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکیاں ہی نہیں‘ گزشتہ چار سال سے جاری امریکی ڈرون حملے بھی ہماری سالمیت کو کمزور بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ ہماری جن مسلح افواج کو دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کیلئے ہمہ وقت چوکس اور مستعد ہونا چاہیے‘ انہیں اس خطے میں امریکی مفادات کی جنگ میں جھونک کر اپنے ہی شہریوں کیخلاف اپریشن پر لگا دیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں ہمارے مکار دشمن بھارت کو بھی ہماری دفاعی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے اور دہشت گردی کے ذریعہ بدامنی کی فضا پیدا کرکے پاکستان کی سالمیت کو کمزور کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ آج وطن عزیز جن حالات سے گزر رہا ہے‘ خدا نہ کرے‘ یہ سقوط ڈھاکہ جیسے بلکہ اس سے بھی بدتر حالات نظر آتے ہیں کہ اب ہماری سرزمین پر بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ نے ہی اپنی سازشوں کے جال نہیں بچھائے‘ امریکی میرینز اور بلیک واٹر کے ارکان بھی یہاں دندناتے اور دہشت گردی کی گھنائونی کارروائیوں میں ملوث نظر آتے ہیں۔ جرنیلی حکمرانوں کے تو اپنے مقاصد ہوتے ہیں کہ انکے اقتدار کی جڑیں عوام میں نہیں ہوتیں‘ مگر آج کرپشن کی دلدل میں دھنسے قومی خزانے کی لوٹ مار اور اپنے اللے تللوں اور عیش و عشرت میں مصروف ہمارے منتخب جمہوری حکمرانوں کو بھی ملک سے زیادہ اپنے اقتدار کی بقاء کی فکر لاحق نظر آتی ہے۔
اگرچہ گزشتہ روز نیشنل کمانڈ اتھارٹی کی میٹنگ میں ملکی سلامتی پر حرف نہ آنے دینے اور ایٹمی ڈیٹرنس پر کسی قسم کی امتیازی پالیسی قبول نہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے تاہم اس وقت ملک کی سالمیت کو چاروں جانب سے جو سنگین خطرات لاحق ہیں اور امریکی سرپرستی میں بھارت اپنی جنگی دفاعی صلاحیتوں میں جدید اسلحہ کے ڈھیر لگا کر جس جنونیت کے ساتھ اضافہ کر رہا ہے‘ اسکے پیش نظر ہمیں قومی اتحاد و یکجہتی کی بھی سخت ضرورت ہے جبکہ ہماری موجودہ قیادتیں قومی اتحاد کا جذبہ ابھارنے والی صلاحیتوں سے عاری نظر آتی ہیں۔ چنانچہ دہشت گردی کا عفریت ہی نہیں‘ اندرونی عدم استحکام کی فضا بھی وطن عزیز کی سالمیت کو پارہ پارہ کرنے کیلئے دشمن کی سازشوں کی تکمیل میں ممدومعاون ہو سکتی ہے۔ اس تناظر میں سقوط ڈھاکہ ہمارے لئے ایسا سبق ہونا چاہیے جو ہمیں نہ صرف اس سانحے کی یاد دلاتا رہے بلکہ آئندہ ایسی کسی غلطی کے سرزد نہ ہونے دینے کو بھی یقینی بنائے جو سقوط ڈھاکہ جیسے قومی سانحہ پر منتج ہوتی ہے۔ اب ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہماری تجارت بنگلہ دیش کے ساتھ ہو‘ اسکے طلبہ پاکستان آکر پڑھیں اور ہم دوبارہ کم سے کم کنفیڈریشن آف پاکستان کا روپ دھار لیں۔
موجودہ بحران حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی اور وفاقی وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی کو برطرف کر دیا۔ حامد سعید کاظمی پر حج کرپشن کے الزامات جبکہ اعظم سواتی کو منع کرنے کے باوجود حج کرپشن بارے بیان بازی پر برطرف کیا گیا۔ جے یو آئی (ف) نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا جبکہ الطاف حسین نے پارٹی کو ممکنہ انتخابات کی تیاری کی ہدایت کر دی۔
کرپشن کے ناسور نے ملکی معیشت کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ جائز و ناجائز کاموں میں کرپشن ایک معمول ہے۔ اس دفعہ حج کے مقدس فریضہ کے موقع پر حجاج کرام کے ساتھ جو زیادتی ہوئی۔ اس نے حکومت کے لئے بہت سارے مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ وزیراعظم کو چاہئے تو یہ تھا کہ جس وقت حج کرپشن کی خبر ان تک پہنچی اسی دن وزیر مذہبی امور کو برطرف کر دیتے تاکہ حکومت کو ان گھمبیر مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ یا کاظمی صاحب کو ان الزامات کے باعث خود ہی استعفیٰ دے دینا چاہئے تھا لیکن نہ تو وزیر مذہبی امور نے استعفیٰ دینے کی زحمت گوارا کی نہ ہی وزیراعظم نے اس کرپشن کیس کو سیرئس لیا لیکن سپریم کورٹ کے سوموٹو ایکشن کے بعد گیلانی صاحب نے اعظم سواتی اور حامد سعید کاظمی کو برطرف کر دیا۔ اعظم سواتی کی برطرفی کو بنیاد بنا کر جے یو آئی (ف) حکومتی اتحاد سے الگ ہو گئی۔ اب پیپلز پارٹی کا اقتدار خطرے میں نظرآتا ہے۔ چند روز قبل وزیر قانون سندھ ذوالفقار مرزا نے حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے خلاف سخت بیان دئیے انہیں بھتہ خور اور عوام کا قاتل کہا۔ تاجروں کو کہا کہ آپ بھتہ خوروں کو ووٹ دیتے ہیں، اب ان سے ہی امن کی بات کریں۔ ان الزامات کے بعد ایم کیو ایم نے مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے غور شروع کر دیا ہے قائد ایم کیو ایم نے پارٹی رہنمائوں کو ممکنہ انتخابات کی تیاری کی ہدایت کر دی ہے۔
حکومتی کشتی اس وقت بھنور میں پھنس چکی ہے۔ دور دور تک سلامتی سے کنارے لگنے کی صورت نظر نہیں آتی حکمران جماعت اپنی نااہلیوں اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے اقتدار سے محروم نظر آ رہی ہے۔ بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں تک نوبت کیسے پہنچی؟ کیا صدر اور وزیراعظم اتنے ہی بے بس ہو چکے ہیں کہ وہ کرپشن کو کنٹرول نہیں کر سکتے یا وہ لُٹو اور پُھٹو کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔ نمبر گیم شروع ہو چکی ہے، بے قدروں کی قدر بڑھنے لگی ہے۔ اگر گیلانی صاحب کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جائے تو ایم این اے کے ضمیر خریدنے کے لئے سرکاری خزانے کے منہ کھول دئیے جائیں گے جس کا نقصان عوام کو اٹھانا پڑے گا۔ بعض ذرائع سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن وزارت مذہبی امور ملنے کے بدلے قلابازی کھا سکتے ہیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ وہ کون سی منطق لڑا کر ہارے ہوئے مقدمے کو جیتتے ہیں لیکن اس تمام تر صورتحال کے ذمہ دار حکمران ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو نااہل ثابت کرکے جمہوریت کی گاڑی کو ریورس کرنا شروع کر دیا ہے۔ طالع آزما ایسے موقعوں کے منتظر ہوتے ہیں۔ لڑائی جھگڑا ملک کے حق میں بہتر نہیں جمہوریت کی گاڑی اچھی بری چلتی رہنی چاہئے۔ اگر موجودہ حکمران کے اس کے اہل نہیں تو کسی اور کو موقع دیں تاکہ جمہوریت کا سلسلہ چلتا رہے۔
نوائے وقت
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
افتخار
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 11810
Joined: Sun Jul 20, 2008 8:58 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: سقوط ڈھاکہ کا سبق اور دفاع وطن کیلئے ہماری سیاسی‘ عسکری

Post by افتخار »

تاریخ شیر کرنے کا شکریہ
Post Reply

Return to “پاک وطن”