اہلیانِ وطن کو جشنِ آزادی مبارک ہو

اپنے ملک کے بارے میں آپ یہاں کچھ بھی شئیر کر سکتے ہیں
Post Reply
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

اہلیانِ وطن کو جشنِ آزادی مبارک ہو

Post by چاند بابو »

[center]Image[/center]

[center]پانی میں ڈوب رہی ہے میری دھرتی یہ ارضِ وطن
میں کس زبان سے کہوں آزادی مبارک[/center]


14 اگست آ گیا ، وہ دن لاکھوں مسلمانوں کی قربانیاں رنگ لائیں اور وہ اپنا الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ایک ایسا وطن جہاں وہ اپنی مرضی سے رہ سکتے ہیں ایک ایسا وطن جہاں ہر کوئی اپنا ہو گا جہاں کوئی غیر نہیں ہو گا، وہ وطن جہاں مسلمان آپس میں بھائی چارے سے رہیں گےجہاں کوئی تفرقہ بازی نہیں ہو گی، جہاں کسی مسلمان پر کوئی روک ٹوک نہیں ہو گی۔اور اس وطن کو حاصل کرنے کے لئے لاکھوں نے اپنی جانیں لٹا دیں لاکھوں نے اپنے سر کے سہاگ خوشی خوشی لٹا دیئے، لاکھوں ماؤں نے اپنی گود اجاڑ ڈالی۔
اور بلاآخر پاکستان بن گیا، ایک ایسا وطن جو ان لاکھوں کے خون سے سینچا گیا تھا جس سے ان لاکھوں جانوں کےخواب وابستہ تھے، یہاں آنے والی ہر آنکھ اپنوں کے غم میں اشکبار تھی لیکن اپنی مٹی کی تاثیر ہی کچھ ایسی تھی کہ سب کچھ بھول گیا انہیں اپنا وطن مل گیا انہیں اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی۔ یہاں واقعی وہ بھائی چارہ دیکھا گیا جو چودہ سو سال پہلے دنیا میں پہلی باردیکھا گیا اور 14 اگست 1947 میں دوسری بار یہی مناظر دیکھے گئے ۔
یکایک جیسے تلاطم خیز سمندر کو سکون آ گیا ہو جیسے بپھری موجوں کو قرار آ گیا ہو، ہر کسی کی زندگی میں چین نے بسیرا کر لیا ہر کوئی اپنی مرضی کی زندگی
جینے لگا، کسی پر کوئی روک ٹوک نہ تھی کوئی تفرقہ بازی نا تھی ہر کوئی اپنے ہر فعل میں آزاد تھا۔

پھر ایک رات اچانک اس وطن کی طرف ایک بار پھر ہندو بنئے نے لالچی آنکھ اٹھائی، پچھلے زخم تازہ ہو گئے ، زخموں سے خون رسنے لگا، وہ پود جنہوں نے یہ وطن اپنے خون سے سینچا تھا گو بوڑھی ہو گئی تھی لیکن ان کی آنکھوں میں ایک بار پھر خون اتر آیا، اپنے نوجوان بیٹوں کی آنکھوں میں یہ خون اتار کر ان بوڑھوں نے ان سے زندہ واپس نا آنے کی قسمیں لے کر انہیں دشمن کے مقابلے میں بھیج دیا۔ ماؤں نے زخمی شیرنیوں کا روپ دھار لیا اور اپنے شیروں کو اس گیدڑ کی بوٹیاں نوچ لینے کے لئے ایک بار پھر اپنی گود سے اتار دیا۔
اور پھر سارا عالم گواہ ہے کہ ان اللہ کے شیروں نے ایسے عالم میں لڑائی کی کہ تاریخ کنگ ہو کر رہ گئی ایک ایک کمپنی کے ساتھ چند جوانوں نے لڑائی کی اور انہیں اپنے ہی ملک کی سرحدوں سے بھی پیچھے دھکیل دیا، اپنی زندگی سے زیادہ انہیں اپنے باپ کی وہ خون آشام آنکھیں اور اپنی ماؤں کی وہ قرب بھری راتیں یاد آ رہی تھیں جو آزادی کے قصے سناتے ہوئے گزرا کرتی تھیں۔
پھر یوں ہوا کہ ان شیروں نے اپنی ماؤں کے سینے ٹھنڈے کر دیئے اپنے باپوں کے چہرے پر اطمینان کی جھلک دیکھنے کے لئے انہوں نے خاکی وردیوں کو لہو لہو کر لیا اور انہیں اپنے کفن میں بدل دیا لیکن اپنے وطن پر اپنے آباء کے خوابوں پر آنچ تک نہ آنے دی اور تاریخ نے دیکھا کہ ہندوبنیا جو راتوں رات انہیں مٹی میں ملانا چاہتا تھا ایک بار پھر اپنے زخم چاٹتا ہوتا بھاگ نکلا۔

کچھ سال آرام سے گزرے قربانیاں دینے والے گزر گئے بچے جوان ہو گئے جوان بوڑھے ہو گئے، لیکن زخمی بھیڑیے کے زخم تازہ کے تازہ رہے اور وہ کوئی بھی وار کرنے کے لئے تلملاتا رہا، پھر ایک موقع اس کے ہاتھ لگا اپنوں کو اپنوں سے لڑوا کر اپنا مقصد حاصل کرنے کی ایسی انوکھی چال چلی کہ سب دھنگ رہ گئے، ایسے میر جعفر میر صادق پیدا ہو گئے جنہوں نے اپنوں کو اپنوں کا دشمن بنا دیا، ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ بلند ہوا اور اس معصوم قوم کو ایک بار پھر آگ اور خون میں لت پت کر دیا گیا لیکن اس بار دونوں طرف خون اپنا ہی بہا اور زخمی بھیڑیا خاموشی سے اپنا کام کر گیا، بھائی بھائی سے جدا ہو گیا، باپ نے بیٹے کو چھوڑ دیا، عقل تو آئی لیکن بہت دیر ہو گئی بہت کچھ ایسا ہو گیا جس کی تلافی ممکن نہیں تھی۔

پھر بڑی تیزی سے سب کچھ تبدیل ہونے لگا، وطن تو وہی تھا مٹی کی خوشبو میں بھی کوئی تبدیلی نا آئی تھی، پانی بھی ویسا ہی پاکیزہ تھا لیکن دلوں میں کھوٹ پیدا ہونا شروع ہو گیا، غیروں نے ایسی چال چلی کے بھائی بھائی پر شک کرنے لگا، وقت گزرتا گیا ساتھ ہی ساتھ یہ جذبے بھی پروان چڑھتے گئے، اور پھر میری مٹی نے وہ دن بھی دیکھے جب مسلمان مسلمان کو کافر کہنے لگے، بھائی بھائی کو مارنے لگا، دلوں میں نفرتوں نے ڈیرے ڈال لئے، پنجابی سندھی بلوچی پٹھان آپس میں دست و گریبان ہو گئے، یہ وقت ان کے لئے بڑا زرخیز تھا جن کی آنکھوں میں پہلے دن سے ہی یہ ملک کھٹکتا تھا وہ سب متحد ہو کر ادھر چڑھ دوڑے ، کوئی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے آیا تو کوئی پنجابیوں کا خیرخواہ بن کر، کسی نے سندھیوں کی رہنمائی کا بیڑا اٹھایا تو کسی نے بلوچیوں کے حقوق کی آواز بلند کی اور پھر ہم نے وہ دن دیکھے جن ہمارے وہی نوجوان جو اس ہندو بنئے کے آگے ایسے صف آراء تھے جیسے جیسے سیسہ پلائی دیوار آج وہی ان کے بہکاوے میں آ کر اپنے جسم سے بم باندھے کسی مسجد کے دروازے پر کھڑے ہیں تو کبھی کسی مندر کی تباہی کے لئے تیار۔

خدایا کیسا قہر ٹوٹ پڑا میرے وطن پر کہ خواب بالکل الٹ کر رہ گئے سکون غارت ہو گیا، چین کی نیند قصہِ پارینہ بن گئی۔

ایک ملک جس کے بنانے والے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے لئے الگ وطن حاصل کرنا چاہتے تھے ان کی اولادوں نے کیا کر دیا انہوں نے اس ملک میں سے چن چن کر اللہ اور اس کے رسول کے نام لیواوں کو ماردیا۔ جو یہاں قرآن و سنت کی بات کرتے تھے انہیں زیرِ زمین پہنچا دیا گیا۔اور وہ جو یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے اور اسے برا سمجھ بھی رہے تھے اپنے حصے کا کام کرنے سے قاصر رہے اور چپکے بیٹھے رہے۔

پھر اس خدا کو شاید غصہ آ گیا، ایسا غصہ کہ اپنے فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کی بستیاں الٹ کر رکھ دو، اور ہم نے دیکھا کہ آن کی آن میں ہزاروں انسانی بستیوں کے نیچے سے زمین سرک گئی لاکھوں انسان قہرِ خداوندی کا نشانہ بن گئے، زلزلے نے چند منٹوں میں شہروں کے شہر زندہ انسانوں سے خالی کر دیئے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اس عذابِ الہٰی سے ڈرتے اور اللہ تعالٰی سے رجوع کرتے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے استغفار کرتے لیکن بڑی جلدی ہم یہ سب بھول گئے اور ایک بار پھر اسی ڈگر پر رواں دواں ہو گئے جس کی بدولت عذابِ الہٰی کا شکار بنے تھے۔

اب ایک بار پھر اللہ تعالٰی ہم سے ناراض ہیں اور اس بار اس کا غصہ پانی کی شکل میں ہم پر نازل ہوا، تاریخ کے بد ترین سیلاب نے ارضِ پاک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ایک بار پھر ہزاروں بستیاں پانی میں ڈوب کر اپنا نشان تک کھو بیٹھی ہیں، لاکھوں نہیں کروڑوں انسان کھلے آسمان تلے تپتے سورج کی کرنوں کی لپیٹ میں ہیں، لیکن افسوس ابھی بھی ہم شاید سمجھ نہیں پائے ہیں ابھی بھی ہم اسے اپنے اعمال کا بدلہ ماننے کو تیار نہیں ہیں بلکہ اسے ایک قدرتی آفت کا نام دے رہے ہیں۔

مسلمانوں خدا کے لئے سمجھ جاؤ اب بہت کم وقت باقی ہے خدارا اپنا قبلہ درست کر لو ورنہ بہت جلد صفحہ ہستی سے تمہارا نام مٹ جائے گا، اور جسے تم اپنی مٹی سمجھتے ہو خدا تم سے وہ چھین کر تمہارے دشمن کو دے دے گا۔

جشن مناؤ لیکن یہ ضرور بتا دو کس بات کا جشن مناؤ گے،
کیا اس 14 اگست کو اپنوں کی ہزاروں لاشوں پر کھڑے ہو کر جشن مناؤ گے۔
یا اپنے کروڑوں بھائیوں کو ڈوبتے دیکھ کر خوشی سے رقص کر گے۔
یاد رکھو، اللہ تعالٰی کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے اور گمان بھی نہیں ہوتا جس طرف سے اس کا قہر ٹوٹ پڑتا ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
طارق راحیل
دوست
Posts: 282
Joined: Thu Nov 06, 2008 9:19 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی
Contact:

Re: اہلیانِ وطن کو جشنِ آزادی مبارک ہو

Post by طارق راحیل »

لہو میں ڈوب رہی ہے فضا ارضِ وطن
میں کس زبان سے کہوں “جشن آزادی مبارک“
محمّد طارق راحیل
علی خان
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 2628
Joined: Fri Aug 07, 2009 2:13 pm
جنس:: مرد

Re: اہلیانِ وطن کو جشنِ آزادی مبارک ہو

Post by علی خان »

میری طرف سے بھی اردونامہ ٹیم کو جشن آزادی مبارک،

Image
میں آج زد میں ہوں خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں .
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: اہلیانِ وطن کو جشنِ آزادی مبارک ہو

Post by اعجازالحسینی »

میری طرف سے بھی آپ سب کو جشن آزادی مبارک
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
rohaani_babaa
دوست
Posts: 220
Joined: Fri Jun 11, 2010 5:04 pm
جنس:: مرد
Location: House#05,Gulberg# 1, Peshawar Cantt

14اگست

Post by rohaani_babaa »

سیلاب،غربت،بم دھماکے،فوجی آپریشنز اور تخریب کاروں کی تخریبی کاروائیوں سے بچ جانے والے تمام بچے کچھے پاکستانیوں کو 14اگست مبارک ہو
قال را بہ گزار مرد حال شو
پیش مرد کامل پامال شو (روم)
Post Reply

Return to “پاک وطن”