سفر نامہ: پریوں کی تلاش

اردو زبان میں لکھے گئے مضامین پرمبنی کتب
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

سفر نامہ: پریوں کی تلاش

Post by وارث اقبال »

میں ایک مختلف نوعیت کا سفر نامہ لکھ رہا ہوں جس کی منزل پریوں کی تلاش ہے. +پ کو کچھ وقفوں کے بعد اس کی ایک قسط مل اکرے گی. اردو نامہ پہلافورم ہے جس پر میں یہ سفرنامہ چھپنے سے پہلے بھیج رہا ہوں. امید ہے کہ میرا یہ سفر نامہ سفرنامہ کی تاریخ میں ایک نیا باب ثابت ہو گا.

اب کے سفر ہی اور تھا‘ اور ہی کچھ سراب تھے
دشتِ طلب میں جا بجا‘ سنگِ گرانِ خواب تھے
خوابوں کے چاند ڈھل گئے تاروں کے دم نکل گئے
پھولوں کے ہاتھ جل گئے‘ کیسے یہ آفتاب تھے!
سیل کی رہگزر ہوئے‘ ہونٹ نہ پھر بھی تر ہوئے
کیسی عجیب پیاس تھی‘ کیسے عجب سحاب تھے!
عمر اسی تضاد میں‘ رزقِ غبار ہو گئی
جسم تھا اور عذاب تھے‘ آنکھیں تھیں اور خواب تھے
صبح ہوئی تو شہر کے‘ شور میں یوں بِکھر گئے
جیسے وہ آدمی نہ تھے‘ نقش و نگارِ آب تھے
آنکھوں میں خون بھر گئے‘ رستوں میں ہی بِکھر گئے
آنے سے قبل مر گئے‘ ایسے بھی انقلاب تھے
ساتھ وہ ایک رات کا‘ چشم زدن کی بات تھا
پھر نہ وہ التفات تھا‘ پھر نہ وہ اجتناب تھے
ربط کی بات اور ہے‘ ضبط کی بات اور ہے
یہ جو فشارِ خاک ہے‘ اِس میں کبھی گلاب تھے
اَبر برس کے کھُل گئے‘ جی کے غبار دُھل گئے
آنکھ میںرُونما ہوئے‘ شہر جو زیرِ آب تھے
درد کی رہگزار میں‘

پس منظر:
زندگی ایک سفر ہے اور سفر سے ہی مربوط۔ لیکن کچھ سفر ایسے ہوتے ہیں جو روح میں اس طرح رچ بس جاتے ہیں کہ اُن کی یادیں سرمایہ ٔ حیات کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سفر نہیں حاصل سفر ہوتا ہے۔ جسے پانے کے لئے ہم کتنے ہی خواب دیکھتے ہیں اور کتنی ہی تدبیریں کرتے ہیں تب جا کر وہ حاصلِ سفر نصیب ہوتا ہے۔
میں جس سفر کی داستان رقم کرنے جارہاہوں وہ ایک ایسا سفر ہےجس کی یادیں حاصلِ سفر سے کہیں زیادہ سفر کی وجہ سے میرا سرمایہ ٔ حیات بن گئیں۔ اس سفر میں نہ وقت کی قید تھی اورنہ منزلوں کا کوئی واضح تعین۔ سفر کے دوران کسی بھی موڑ پر فیصلہ کیا اور راہِ سفر بدل لی۔ اس سفر کے یادگار ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ میں نےاپنے بچوں کے ساتھ اس سفر کے خواب دیکھے تھے اور پھر اس خواب کی تعبیر پانے کے لئے کتنا ہی انتظار کیا تھا۔ یوں اس سفر کے یادگار ہونے کی ایک وجہ میرے ہم سفر بھی تھے۔
یہ ایک سفر ہی نہیں تھا بلکہ ایک جستجو اورکھوج بھی تھا۔ یہ جستجوکسی سوغات کے حصول کے لئے نہیں تھی بلکہ ہر اس شے کو پانے کے لئے تھی جو اچھوتی ہویا عجیب ۔ چاہئے تاریخ کے بوسیدہ اوراق ہوں ، یا لوگوں کےروئیے؛ اجناس اور کھانے کی چیزیں ہوں یا طرزِ رہائش وزیبائش؛ داستانیں ہوں یا کہانیاں؛ ٹوٹی پھوٹی خستہ حال دیواریں ہوں یا جدید عمارات، صوفیوں اور مریدوں کے عقیدت بھرے قصے ہوں یا شاعروں ادیبوں کی باتیں۔ بس جو ملا جھولی میں ڈال لیا ۔
اس سفر کو قلمبند کرنے کی دو وجوہات ہیں ۔ پہلی تو یہ کہ جب میں نے بے گھری اور سفر کی اتنی صعوبت اٹھائی ہے اور انواع واقسام کی معلومات سے جھولی بھری ہے تو پھر اُ سے دوسروں تک ضرورپہنچایا جائے۔ دوسری وجہ ایک واقعہ تھا جو جھیل سیف الملوک پر پیش آیا جس نے مجھے مجبور کیاکہ میں یہ سفر ضرور قلمبند کروں۔
نانی یا ایک پری

خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

بات بھی ایک عجیب بات ہوتی ہے،کبھی ہوتی ہی نہیں جب ہو جائے تو پہاڑوں سے گرتا ہو ا جھرنا بن جاتی ہے اور ختم ہونے کانام ہی نہیں لیتی۔ کبھی کسی سینے پر یوں گرتی ہے جیسے زمین پر کیمیکل زدہ بارش اور کبھی کسی حسینہ کے لبوں کی مسکراہٹ بن کر اندر ایک انجانی سی کھلبلی مچا دیتی ہے۔ یہ بات ہی ہےجس سے ایک نئی بات نکلتی ہے اور کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔کبھی نئے گھر بسانے کا سبب بنتی ہے اور کبھی بسے بسائے گھر اجاڑ نے کی وجہ بن جاتی ہے۔ یہ بات ہی تھی جو بڑھتے بڑھتے باتیں بن گئی اور انہی باتوں کو کسی ذی فہم نے کہانی کا نام دے دیا۔ نہ باتیں ختم ہوئیں نہ کہانیاں ، نہ باتوں کی قدر کم ہوئی اور نہ ہی کہانیوں کی افادیت میں کمی آئی۔ کہانیوں سے کہانیاں بنتی گئیں اور باتوں سے باتیں ۔ یوں یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
میں جب بھی کسی بات کی بات کر نا چاہتا ہوں تو اُس کی کوئی نہ کوئی کڑی میری نانی اماں کی باتوں سے جا ملتی ہے۔ سرِ شام ہی ہمارے گھر کے درو دیوار میں ان کی بھاری اور سحر انگیز دیوتاؤں جیسی آواز گونج جاتی ، ’’ بچو! جلدی کرو کھانا کھا لو ، بستر میں آجاؤ اورپھر میں تمہیں ایک نئے دیس کی بات سناؤں گی۔ ‘‘ نئی بات کے چکر میں ہم کھانا بھی کھا لیتے اور وقت پر بستر میں بھی پہنچ جاتے اور ہماری ماں چیخنے چلانے کے کرب سے بھی بچ جاتیں۔ میری نانی انبالہ کی تھیں چنانچہ انبالہ اُن کی باتوں ، لباس ، مسکراہٹوں اور آہوں میں یوںرچا بساتھا جس طرح دودھ میں شکر ۔ کبھی ہم دودھ کے لالچ میں شکر کھا لیتے اور کبھی شکر کے لالچ میں دودھ پی لیتے۔
اُن کی باتوں میں ایک نہر ضرور ہوتی تھی جسے وہ ندی کہتی تھیں ۔ وہ اکثر بتایا کرتی تھیں کہ اُن کے انبالہ والے گھر کے قریب سے ایک ندی گذرتی تھی جسے لوگ بڈھی کہتے تھے۔‘ ہم ان سے سوال کرتے ’’ اماں یہ بڈھی کیا ہوتی ہے ۔‘‘ وہ جواب دیتیں ، ’’ جیسے تمہاری اماں بڈھی اور ابا بڈھے۔ ‘‘ ہم سب بیک زبان بولتے، ’’ نہیں اماں۔ ‘‘ ایک دن ہمارے ابا جی نے یہ بتا کراس جھگڑے کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا کہ لاہور میں بھی ایک بڈھا دریا ہے ۔ جو دریا سوکھ جاتا ہے اُسے بڈھا دریا کہا جاتا ہے۔ نانی اماں جب پریوں
کی کہانیاں سناتیں تو مجھے تو اُن پر ایک پری ہونے کا گمان ہوتا۔ اور میں سوچتا کہ نانی اماں بھی کسی دیس کی پری ہی ہوں گی جنہیں کسی جن نے نانی اماں بنا دیا۔ بھلا اتنی کہانیاں کوئی نانی اماں کیسے یاد رکھ سکتی ہیں۔ اور اور تو اور انہیں ہماری ہر شرارت اور مستی کا پہلے سے ہی علم ہوتا۔ بھلا ایک نانی اماں ایسا کس طرح کر سکتی ہیں۔
ایک بوری اور ایک سوٹ کیس
نا جانے اللہ کے ہاں اس میں کیا مصلحت تھی کہ عین جوانی میں ہماری چاند جیسی نانی اماں کی دودھ جیسی سفید چادر پر بیوگی کا داغ لگ گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد مالکِ کائنات نے اُن سے دیکھنے کی صلاحیت بھی واپس لے لی۔لیکن بیوگی اور اندھیرے ان کی علم سے محبت کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔
نانی ہمارے ماموں کے پاس شور کوٹ میں رہتی تھیں لیکن ان کا زیادہ وقت ہمارے ساتھ گزرتا ۔ ہم ابا جی کی سرکاری ملازمت کی وجہ سے شہر شہر پھرتے رہتے۔ ہم جہاں بھی رہے، جہاں بھی گئے نانی ہمارے پاس پہنچ جایا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں : لورالائی ، خضدار اور مستونگ تک نانی بغیر کسی خوف و خطر سفر کرتی رہیں۔ یہ اُن کا حوصلہ تھا کہ جس کے سامنے اُن کی آنکھوں کے اندھیرے شکست کھا چکے تھے یاپھر ہماری محبت جو اُن کی انگلی پکڑ کر اُن کی انجانی راہوں پر رہنمائی کرتی رہی۔
نانی اماں کو کتابوں سے عشق تھا۔ دو چیزیں اس نابینا عورت کے ہمراہ شہر شہر گھومتی تھیں ۔ یہ تھیں ایک بوری اور ایک سوٹ کیس ۔ بوری جس میں ان کی کتابیں اور بڑی بڑی تسبیحاں ہوا کرتی تھیں اور سوٹ کیس میں ان کا کفن ۔ اس کے علاوہ ضرورت کی کوئی شے ان کے ہمراہ نہ ہوتی۔ حتی ٰ کہ لباس بھی نہیں۔ وہ اپنا لباس اپنے ساتھ نہیں رکھتیں ،جہاں جاتیں وہیں کا لباس زیبِ تن کر لیتیں ۔ جب وہ شورکوٹ ہوتیں تو اپنا آبائی لباس گھاگرا اور کرتی پہنا کرتی تھیں۔ جب ہمارے پاس آتیں تو شلوار قمیض زیبِ تن کر لیتیں ۔
نانی اماں کی قربت نے ہمیں نہ صرف کہانیوں کی قربت بخشی بلکہ ہمیں کتابوں سے اُنس بھی عطا کیا ۔ انہوں نےہیر رانجھااور سسی پنوں جیسی مشہور داستانیں ہمیں اس طرح سنائیں اور پڑھوائیں کہ ہمارے اندر عشق کاجراثیم ایساپیدا ہواکہ ہم سراپا عشق ہو گئے۔
یہ بوری ہمارے لئے پہلا کُتب خانہ تھا جس سے ہم نےدین اور دنیا کی تعلیم کا آغاز کیا۔ اور یہ سوُٹ کیس ہمارے لئے روحانی تعلیم
کے کسی مدرسہ سے کم نہ تھا۔ جس میں رکھے چھ گز کپڑے سے ہم نے یہ جانا کہ دنیا فانی ہے، انسان کی بساط کیا ہے، انسان کتنا بیچارہ ہے کہ اُسے یہ تک یقین نہیں کہ وقت ِآخراُس کے تن پر یہ چند گز لباس ہوگا بھی یا نہیں۔ اُسے اپنے کسی کا قرب تو کیا اغیار کی مسیحائی بھی نصیب ہو گی یا نہیں۔ اس کی قبر کو اپنوں کی آشنا قبروں کی قربت ملےگی یا دیار ِغیر کا کوئی انجانا شہرِ خموشاں اُس کا آخری مسکن ٹہرے گا۔ یا پھر یہ بھی نہیں۔
شورکوٹ سے پاکستان کے کسی بھی علاقہ میں اکیلے پہنچ جانے والی اس نابینا عورت نے ۱۹۸۳ میں اپنے حوصلے ہار دئیے اور شیخوپورہ کوہمیشہ کے لئے اپنا آخری مسکن بنا لیا۔ دنیا کے لئے توایک عورت اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئیں لیکن ہمارے لئے محبت و شفقت سے بھرا علم و عرفان کااک دبستان دو گز زمین کی قید میں چلاگیا۔
خلاصہ یہ کہ پریوں جیسی ہماری نانی اماں انبالہ کے کسی گاؤں کے کھیتوں میں کھیلتےکھلاتے ڈولی میں بیٹھ کر شور کوٹ کے ایک گاؤں میں چلی آئیں اور وہاں سے ٹرین میں بیٹھ کر وہ شیخوپورہ پہنچیں جہاں کا ایک نگرِ خموشاں انہیں اتنا پسند آیا کہ وہیں کی ہو رہیں۔
پریوں کی تلاش کا فیصلہ
نانی کی کہانیوںمیں ایک کہانی تھی ’ سیف الملوک ‘ ۔ ہماری اکثر داستانوں کی طرح یہ داستان بھی ایک شہزادہ اور ایک پری کے عشق کی ایک منظوم داستان ہے۔ اس کے شاعر ہیں میاں محمد بخش ۔ سیف الملوک ایک داستان ہی نہیں ہے بلکہ ہر خاص و عام کے لئے دبستانِ علم سے کم نہیں۔ ان کے انتہائی شہرت کے حامل دو اشعار کا ذکر کر کے آگے بڑھتے ہیں کیونکہ آگے جا کر اس داستان پر میں نے کہنے کے لئے کافی کچھ سنبھال رکھا ہے۔
جاری ہے بفضل خدا
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: سفر نامہ: پریوں کی تلاش

Post by محمد شعیب »

شئرنگ کا شکریہ
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

Re: سفر نامہ: پریوں کی تلاش قسط 2

Post by وارث اقبال »

پریوں کی تلاش کا فیصلہ
نانی کی کہانیوںمیں ایک کہانی تھی ’ سیف الملوک ‘ ۔ ہماری اکثر داستانوں کی طرح یہ داستان بھی ایک شہزادہ اور ایک پری کے عشق کی ایک منظوم داستان ہے۔ اس کے شاعر ہیں میاں محمد بخش ۔ سیف الملوک ایک داستان ہی نہیں ہے بلکہ ہر خاص و عام کے لئے دبستانِ علم سے کم نہیں۔ ان کے انتہائی شہرت کے حامل دو اشعار کا ذکر کر کے آگے بڑھتے ہیں کیونکہ آگے جا کر اس داستان پر میں نے کہنے کے لئے کافی کچھ سنبھال رکھا ہے۔
دنیا تے جو کم نہ آوے اوکھے سوکھے ویلے
اس بے فیضی سنگی نالوں بہتر یار اکیلے
باغ بہاراں تے گلزاراں، بن یاراں کس کاری
یار ملن دکھ جان ہزاراں شکر کراں لکھ واری
ترجمہ: دنیا میں جو دکھ سکھ میں کام نہ آئے، اس بے فیضی دوست سے بہتر ہے کہ ہم اکیلے ہی رہیں۔ دوستوں کے بغیر باغ بہار اور گلزار کا کوئی فائدہ نہیں۔ یار مل جائے تو دکھ درد دور ہوجاتے ہیں۔ اور میں ہزارہا شکر کرتا ہوں۔
ہمارے لئے اس کہانی میں دو باتیں باعث کشش تھیں کہ سیف الملوک نے ملکہ خاتون کو اپنی جان پر کھیل کر ایک زور آور جن کی قید سے نجات دلائی تھی ۔ دوسری وجہ ٔ کشش تھی جھیل سیف الملوک ۔ جس پر پریاں اترتی ہیں۔
.زندگی خود سکھاتی ہے اور خود رہنمائی کرتی ہے۔ جوں جوں زندگی کے پودا بڑھتا گیا۔ جھیل سیف الملوک کے بارے میں معلومات اور کہانیوں میں اضافہ ہوتا گیا ۔ یوں جھیل سیف الملوک ہی نہیں اُس پر اُترنے والی پریوں کو دیکھنے کا مقصد بھی ہمارے اندرتقویت پکڑتا گیا۔ جب بھی کوئی دوست یا آشنا جھیل سیف الملوک جاتا تو میں اُس سے اس جھیل سے متعلق کہانیاں بہت غور سے سنا کرتا ۔ یوں میرے دماغ کی تجوری میں تصاویر کا بے پناہ خزانہ جمع ہوتا گیا ۔ خزانہ کی موجود ہو تو صاحبِ خزانہ بے چینی و بے قراری سے کس طرح دور رہ سکتا ہے۔ یہ خزانہ خود تازیانہ بن گیا اور میرے شوق کا گھوڑا آگے بڑھتا گیا لیکن افسوس منزل نصیب نہ ہوئی ۔جھیل سیف الملوک کی پریوں سے ملاقات کا خواب حقیقت نہ بن سکا ۔ کبھی تعلیمی مصروفیات ، کبھی روزگارِ حیات ، کبھی صحت، اور کبھی کوئی اور مسئلہ ہمارے خواب کی تعبیر کے راستے میں وجۂ رکاوٹ بنتا رہا۔
بہر حال یہ بھی حقیقت ہے کہ شوق، جذبہ اورولولہ ہو تو اسباب پیدا ہو ہی جاتے ہیں ۔ ایک دن میں نے اپنے بچوں کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا کہ ا س سال ہم موسمِ گرما کی چھٹیوں میں جھیل سیف الملوک ضرور جائیں گے۔ بس پھر کیا تھا حالات بنتے گئے اور وہ دن بھی آگیاجس دن ہم اپنی گاڑی پر اسبابِ ضروری لاد کر گھر سے نکل پڑے۔ منزل تھی جھیل سیف الملوک اور اس کے اردگرد پریوں کی تلاش۔
شہزادی
جب میں مڈل اسکول میں تھا تو میرے بہت سے دوستوںمیں ایک دوست اشتیاق بھی ہوا کرتا تھا۔ اللہ اُسے زندگی دے، اُس کے ابا کا موٹر سائیکلوں کا شو روم تھا۔ جب بھی ان کے پاس کوئی نئی گاڑی آتی تو وہ ہمیں آ کر بتاتا، ’’ کل میں نے اسپورٹس چلائی ،کیا شہزادی گاڑی ہے۔ کل میں نے نسان چلائی کیا شہزادی گاڑی ہے۔ ‘‘ اُس نے گاڑی چلائی تھی یا نہیں لیکن ہم بچپن کے بھول پنے میں اس کی باتوں پر اسی طرح یقین کر لیتے جس طرح اس تماشا کرنے والے کی باتوں پر جو تماشا دکھاتے ہوئے ہر پانچ منٹ بعد لو گو کویہ خبر دیتا تھا کہ کچھ ہی دیر میں انہیں سنہری سانپ کی دید کا موقع ملے گا۔ اشتیا ق سچ کہتا تھا یا جھوٹ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اُس نے ہمیں خیالوں ہی خیالوںمیں گاڑی چلانا ضرور سکھا دیا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمیں پریوں ،شہزادیوں کو دیکھنے کے شوق کاٹیکاضرور لگا دیا ۔
میں جب بھی موٹر وے پر پہنچتا ہوں تو مجھے اشتیاق ضرور یاد آتا ہے۔ اس سڑک پر آ کر میرے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے ، ’’ واہ کیا شہزادی سڑک ہے۔ ‘‘ اس شہزادی سڑک پر آ کر اشتیاق کے علاوہ مجھے دو شخص اور یاد آتے ہیں ، ایک ہمارے مہربان نواز شریف صاحب اور دوسرا شیرشاہ سوری۔
کہاجاتا ہے کہ شیرشاہ سوری نے جب جی ٹی روڈ بنائی تو سب سے پہلے اُس سڑک کومحفوظ بنانے کے انتظامات کئیے ، پھراُس نے مسافروں کے لئے جائے قیام و طعام وغیرہ کو ممکن بنایا ۔ یہی خصوصیات ہمیں موٹر وے میں ملتی ہیں۔ جب گاڑی کے ٹائر اپنی اس میزبان کے لبوں کو چومتے ہیں تومسافر کو تحفظ ، امن، قانون کی حکمرانی اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سے اطمینان کابھی احساس ہوتا ہے۔ مجھ جیسوں کو یہ احساس کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے جو اپنی روزمرہ استعمال کی سڑکوں سے اُکتائے اور بےزار ہوتے ہیں۔ اندرون ملک سڑکوں اور گلیوں کاڈسا جب اس سڑک پر آتا ہے تو اُسے کچھ دیر کے لئے یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنےوطنِ عزیز کی سرزمین ِ پاک پر موجود ہے یا دیارِ غیر میں۔ جب یقین آتا ہے تو پھر واہ واہ کر اُٹھتا ہے، واہ کیا پاکستانی ہیں چاہیں تو کیمیکل ملا کر دودھ بڑھا لیں اور چاہیں تو سنگلاخ چٹانوں کا سینہ چیر کر دودھ کی نہریں بہادیں۔جہاں تک اس سڑک پر آنے والے مسافروں کا تعلق ہے تو انہیں دیکھ کر تو شانِ قدرت یاد آجاتی ہے۔ کیا پاکستانی ہیں،جنہوں نے زندگی میں کبھی بھی قانون کی پاسدار ی نہ کی ہو وہ یہاں آ کر ایسے پاسدارِ قانون بن جاتے ہیں جیسے ابھی دودھ سے دُھل کر آئے ہوں۔
خیر بات توہورہی تھی اُس سڑک کی۔ جب ہم اس سڑک کو اپنی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے ہم سلیٹی رنگ کے ایک دریا میں بہے جا رہے ہوں۔ اس دریا کے کناروں پر اُگے ہوئے درخت ہر ساعت ایک نیا رنگ رنگ بدلتے ہیں اور کھیت ہر موڑ پر نیا لباس زیبِ تن کرتے ہیں۔
بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس سٹرک کی لمبائی چھ سو انہتر کلو میٹر ہے اور یہ ایشیا کی پہلی موٹر وے ہے۔ اس سڑک کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ اس میں کچھ ایسے خطرناک نقص ہیں جنہیں پوری دنیا کے انجنئیرز ٹھیک نہیں کرپائے لیکن داد طلب ہیں پاکستانی انجنئیرز جنہوں نے اس سڑک کو بے خطر بنایا ہوا ہے۔اس سڑک کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ہنگامی حالات میں اسے جنگجو طیاروں کے رن وے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
چپس کی چر چر
میرے دو عدد برخورداروں نے حسبِ عادت ٹول پلازہ عبور کرتے ہی اپنی پسند کا میوزک ’ آن ‘ کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں مجھے شک ہونے لگا کہ انہوں نے اس دفعہ بھی ہمارے ساتھ ہاتھ کر دیا ہے۔ میوزک کی تیاری کا کام اپنے ذمہ لے کر یو ایس پی ڈرائیو میں سارا میوزک اپنی پسند کا بھر رکھا ہے۔ پھر بھی مجھے یقین تھا کہ آٹے میں نمک برابر ہمارا حصہ ضرور رکھا ہو گا۔ اس لئیے میں انتظار کرنے لگا اس لمحے کا جب آٹے میں سے نمک برامد ہوگا۔ لیکن ہمیشہ کی طرح ہمیں اس لمحے کا بس انتظار ہی رہا۔ اور ہم بے میوزک ہی سڑک کے کنارے درختوں کے بدلتے رنگوں کی ہیت اور ترتیب پر غور کرتے رہے۔ موٹر وے کے ارد گرد بسے دیہات ، اُن کے گھر ، گھروں میں بندھے جانور اور گھروں کے باہر پھیلے سر سبز کھیت اور ان کی شادابی ایک جادوگر کی طرح مسافر کو اپنے سحر میں قید کر لیتے ہیں ۔ یوں موٹر وے ایک اچھی میزبان سڑک کے طور پر بھی ابھر کر سامنے آتی ہے جو اپنے رنگ بدل بدل کر اپنے مہمان کو اکتاہٹ اور بےزاری سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ یہ چلتے چلتےکہیں سے اونچی ہو جاتی تو کہیں سے نیچی، کہیں سے چھوٹی سڑکوں پر چڑھائی کرتی ہے تو کہیں نہروں دریاؤں کو مسخر کرتی ہے، کہیں ٹہرے پانی کی طرح بن جاتی ہے کہیں چھلانگیں لگاتی ہے۔ اگر اس کا مہمان ذرا سی بھی جمالیاتی حسن رکھتا ہے تو وہ اس سڑک کے ارد گرد بدلتے رنگوں سے اپنے دماغ کو ترو تازہ ضرور کرتا ہے۔
میری مسز نے بھی اچھی مصروفیت تلاش کر لی تھی۔ آج انہوں نے فیس بک کے استعمال کے تمام ریکارڈ توڑنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ اور اپنے ان ان دوستوں رشتہ داروں کو بھی پوسٹس بھیجنا شرو ع کر دیں جنہیں کم ہی یاد کیا جاتا ہے۔ ہماری گاڑی میں پانچویں سوار تھے عابد جنہیں گاڑی چلانے کا اعزاز حاصل تھا۔ چونکہ باہر سورج اپنی ساری حشر سامانیوں کے ساتھ براجمان تھا اس لئیے عابد اے سی سے اٹکھیلیوںمیں مصروف تھے اور کوشش کر رہے تھے کہ گاڑی میں بیٹھا ہر شخص اے سی سے بھرپور فائدہ اُٹھا سکے۔ ٹشو پیپر سے اپنی دھوپ کی عینک کو صاف کر کے اپنی ستواں ناک پر سجانا ان کا دوسرا محبوب مشغلہ تھا۔ کبھی کبھی اپنی نشست کی ایڈجسمنٹ بھی کرتے تاکہ پیچھے بیٹھے بھائی جان سے سنیں ،’’ عابد میرا خیال ہے کہیں رک جائیں۔‘‘
میرے دونوں بیٹے موسیقی کے ساتھ ساتھ اس خوراک پر بھی ہاتھ صاف کرنے پر مصروف تھے جو انہوں نے ایک پٹرول پمپ کی ٹک شاپ سے حاصل کی تھی۔ پیپسی کے کھلنے اور چپس کے چرنے کی آوازیں بے مزا اور بے رنگ موسیقی میں اپنا ہی رنگ بھر رہی تھیں۔ میں آنکھین بند کرتا تو مجھے یوں لگتا جیسے افریقہ کے کسی خاندان کی بیٹی کی مہندی کی تقریب میں موجود ہوں جہاں نہ بولیاں سمجھ آتی ہیں نہ،موسیقی اور سچ پوچھیں تو حرکات بھی۔ ویسےیہ پاپی جی تو آنکھیں بند رکھنے پر ہی بضد تھا۔ کیوں نہ افریقنوں کی حر کات سے کچھ دیر مزید لطف اُٹھا لیاجائے۔ پر فیومز ، کار فریشنرز کی خوشبو میں چپس اور پیپسی کی خوشبو نے گاڑی کاماحول کافی بہتر رکھاہوا تھا۔
سورج کارخ میری مسز کی طرف تھا جواُن کے لئے خاصی مشکلات پیدا کر رہا تھا اور میں اضافی بلائینڈز کا رخ بدل بدل کر انہیں احساس دلارہا تھا کہ مجھے ان کی اسکن کا کافی خیال ہے۔
Post Reply

Return to “اردومضامین”