شمشیر بے نیام از عنایت الله مکمل ناول

اردو زبان میں لکھی جانے والی اسلامی کتابیں، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
Post Reply
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

شمشیر بے نیام از عنایت الله مکمل ناول

Post by ایکسٹو »

فیس بک کے صفحے سرفروش کی جانب سے حضرت خالد بن ولید کی زندگی پر عنایت الله التمش کے سحر انگیز قلم سے لکھا‎ ‎مکمل ناول ''شمیشر بے نیام‎ ''‎اول دوم مکمل ناول حاضر خدمت ہے۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: شمشیر بے نیام از عنایت الله مکمل ناول

Post by ایکسٹو »

شمشیر بے نیام
قسط‎ ‎نمبر 1
وہ مسافر عرب کے صحرا میں اکیلا چلا جا رہا تھا۸ ہجری کے زمانے میں عرب کا وہ علاقہ جہاں مکہ اور مدینہ واقع ہےبڑا ہی خوفناک صحرا ہو اکرتا تھا۔ جلتا اور انسانوں کو جھلساتا ہوا ریگزار۔ ایک تو صحرا کی اپنی صعوبتیں تھیں دوسرا خطرہ رہزنوں کا تھا۔مسافر قافلوں کی صورت سفر کیا کرتے تھے لیکن یہ مسافر اکیلا چلا جا رہا تھا۔ وہ اعلیٰ نسل کے جنگی گھوڑے پر سوار تھا ۔ تفصیل سے پڑھئے
اس کی زِرہ گھوڑے کی زین کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔اس کی کمر سے تکوار لٹک رہی تھی اور اس کے ہاتھ میں برچھی تھی۔اس زمانے میں مردوں کے قد دراز، سینے چوڑے اور جسم گٹھے ہوئے ہوتے تھے، یہ اکیلا مسافر بھی انہی مردوں میں سے تھا لیکن جس انداز سے وہ گھوڑے کی پیٹھ پہ بیٹھاتھا ‘اس سے پتا چلتا تھا کہ وہ شہ سوار ہے اور وہ کوئی معمولی آدمی نہیں، اس کے چہرے پہ خوف کا ہلکا سا بھی تاثر نہیں تھا کہ رہزن اسے لوٹ لیں گے‘ اس سے اتنی اچھی نسل کا گھوڑا چھین لیں گے اور اسے پیدل سفر کرنا پڑے گا لیکن اس کے چہرے پہ جو تاثر تھا وہ قدرتی نہیں تھا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا ،یادوں سے دل بہلا رہا تھا یا کچھ یادوں کو ذہن میں دفن کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔آگے ایک گھاٹی آ گئی۔ گھوڑا چڑھتا چلا گیا ۔خاصی بلندی پر جاکر زمین ہموار ہوئی۔ سوا ر نے گھوڑا روک کر اسے گھمایا اور رکابوں پر کھڑے ہوکر پیچھے دیکھا ۔اسے مکہ نظر نہ آیا ۔مکہ افق کے نیچے چلا گیا تھا ۔”ابو سلیمان !“۔اسے جیسے آواز سنائی دی ہو۔ ”اب پیچھے نہ دیکھو، مکہ کو ذہن سے اتار دو، تم مردِ میدان ہو اپنے آپ کو دو حصوں میں نہ کٹنے دو،اپنے فیصلے پر قائم رہو،تمہاری منزل مدینہ ہے۔“اس نے مکہ کی سمت سے نگاہیں ہٹا لیں ۔گھوڑے کا رخ مدینہ کی طرف کیا اور باگ کو ہلکا سا جھٹکا دیا ۔گھوڑا اپنے سوار کے اشارے سمجھتا تھا ۔نپی تلی چال چل پڑا۔ سوار کی عمر 43 برس تھی لیکن وہ اپنی عمر سے جوان لگتا تھا۔” سلیمان “اس کے بیٹے کا نام تھا۔ اس کے باپ کانام” الولید“ تھا لیکن سوار نے ”خالد بن ولید “کے بجائے ”ابو سلیمان “کہلانا زیادہ پسند کیا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ تاریخ اسے ”خالد بن ولید“ کے نام سے یاد رکھے گی اور یہ نام اسلام کی عسکری روایات اور جذبے کا دوسرا نام بن جائے گا۔ مگر 43 برس کی عمر میں جب خالد مدینے کی طرف جا رہا تھا اس وقت وہ مسلمان نہیں تھا ۔چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کے علاوہ وہ مسلمانوں کے خلاف دو بڑی جنگیں ”جنگِ احد اور جنگِ خندق“ لڑ چکا تھا۔جب رسولِ کریم ﷺ پر 610 ءبروز سوموار پہلی وحی نازل ہوئی اس وقت خالد کی عمر 24سال تھی۔
س وقت تک وہ اپنے قبیلے بنو مخزوم کی عسکری قوت کا قائد بن چکا تھا۔ بنو مخزوم کا شمار قریشکے چند ایک معزز خاندانوں میں ہوتا تھا ۔قریش کے عسکری امور اسی خاندان کے سپرد تھے ۔قریش خالد کے باپ الولید کے احکام اور فیصلے مانتے تھے۔ 24 برس کی عمر میں یہ حیثیت خالد کو بھی حاصل ہو گئی تھی مگر اس حیثیت کو ٹھکرا کر خالد ابو سلیمان مدینے کو جا رہا تھا۔کبھی وہ محسوس کرتا جیسے اس کی ذات سے کوئی قوت اسے پیچھے کو گھسیٹ رہی ہو۔ جب وہ اس قوت کے اثر کو محسوس کرتا تو اس کی گردن پیچھے کو مڑ جاتی لیکن اس کی اپنی ذات سے ایک آواز اٹھتی ۔”آگے دیکھ خالد! تو ولید کا بیٹا تو ہے لیکن وہ مر گیا ہے اب تو سلیمان کا باپ ہے ۔وہ زندہ ہے۔“اس کے ذہن میں دو نام اٹک گئے” محمد)رسول اﷲﷺ( جو ایک نیا دین لے کر آئے تھے اور الولید “جو خالد کا باپ اور محمدﷺ اور آپﷺ کے نئے دین کا بہت بڑا دشمن تھا ۔باپ یہ دشمنی ورثے کے طور پہ خالد کے حوالے کر کے دنیا سے اٹھ گیا تھا۔خالد کے گھوڑے نے پانی کی مشک پر اپنے آپ ہی رخ بدل لیا تھا۔ خالد نے اُدھر دیکھا اسے گول دائرے میں کھجوروں کے درخت اور صحرا کے جھاڑی نما درخت نظر آئے گھوڑا اُدھر ہی جا رہا تھا۔نخلستان میں داخل ہو کر خالد گھوڑے سے کود گیا۔ عمامہ اتار کر وہ پانی کے کنارے دو زانو ہو گیا ۔اس نے پانی چلو بھر بھر کر اپنے سر پر ڈالا اور دو چار چھینٹے منہ پر پھینکے ۔اس کا گھوڑا پانی پی رہا تھا۔ خالد نے اس چشمہ سے پانی پیا جو صرف انسانوں کے استعمال کیلئے تھا ۔یہ ایک چھوٹا سا جنگل تھا ۔خالد نے گھوڑے کی زِین اتاری اور زِین کے ساتھ بندھی ہوئی چھوٹی سی ایک دری کھول کر جھاڑی نما درختوں کے جھنڈ تلے بچھائی اور لیٹ گےا۔وہ تھک گیا تھا ۔تھوڑی دیر کیلئے سو جانا چاہتا تھا مگر اس کے ذہن میں یادوں کا جو قافلہ چل پڑا تھا وہ اسے سونے نہیں دے رہا تھا۔ اسے سات سال پہلے کا ایک دن یاد آیا جب اس کے عزیزوں نے محمدﷺ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اس منصوبے میں خالد کا باپ الولید پیش پیش تھا۔وہ ستمبر 622ءکی ایک رات تھی ۔قریش نے رسولِ خداﷺ کو سوتے میں قتل کرنے کیلئے ایسے آدمی چنے تھے جو انسانوں کے روپ میں وحشی اور درندے تھے۔ خالد قریش کے سرکردہ خاندان کا جوان تھا اس وقت اس کی عمر ستائیس سال تھی ۔وہ حضورﷺ کے قتل کی سازش میں شریک تھا لیکن وہ قتل کے لئیے جانے والوں کے گروہ میں شامل نہیں تھا۔ اسے سات سال پہلے کی وہ رات گزرے ہوئے کل کی طرح یاد تھی ۔
وہ اس قتل پر خوش بھی تھا اور ناخوش بھی، خوش اس لیے کہ اس کے اپنے قبیلے کے ہی ایک آدمی نے اس کے مذہب کو جو بت پرستی تھی‘ باطل کہہ دیا اور اپنے آپ کو خدا کا پیغمبر کہہ دیا ۔ایسے دشمن کے قتل پر خوش ہونا فطری بات تھی۔اور وہ ناخوش اس لیے تھا کہ وہ اپنے دشمن کو للکار کر آمنے سامنے کی لڑائی لڑنے کا قائل تھا ۔اس نے سوئے ہوئے دشمن کو قتل کرنے کی کبھی سوچی ہی نہیں تھی بہرحال اس نے اس سازش کی مخالفت نہیں کی۔ لیکن قتل کی رات جب قاتل رسولِ خدا کو مقررہ وقت پر قتل کرنے گئے تو آپﷺ کا مکان خالی تھا۔ وہاں گھر کا سامان بھی نہیں تھا نہ آپﷺ کا گھوڑا تھا نہ اونٹنی ۔ قریش اس امید پر سوئے ہوئے تھے کہ صبح انہیں خوشخبری ملے گی کہ ان کے مذہب کو جھٹلانے اور انہیں اپنے نئے مذہب کی طرف بلانے والا قتل ہو گیاہے مگر صبح وہ ایک دوسرے کو مایوسی کے عالم میں دیکھ رہے تھے ۔پھر وہ سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے ”محمد کہاں گیا؟“رسولِ خداﷺقتل کے وقت سے بہت پہلے اپنے قتل کی سازش سے آگاہ ہوکر یثرب )مدینہ( کوہجرت کر گئے تھے۔ صبح تک آپ ﷺبہت دور نکل گئے تھے۔ خالد کے ذہن سے یادیں پھوٹتی چلی آ رہی تھیں۔ ذہن پیچھے ہی پیچھے ہٹتے ہٹتے سولہ برس دور جا نکلا613ءکی ایک شام رسولِ کریمﷺ نے قریش کے چند ایک سرکردہ افراد کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا،کھانے کے بعد رسولِ کریمﷺ نے اپنے مہمانوں سے کہا:”اے بنی عبدالمطلب! میں تمہارے سامنے جو تحفہ پیش کرنے لگا ہوں وہ عرب کا کوئی اور شخص پیش نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ اﷲ نے مجھے منتخب کیا ہے ۔مجھے اﷲ نے حکم دیا ہے کہ تمہیں ایک ایسے مذہب کی طرف بلائو ں جو تمہاری دنیا کے ساتھ تمہاری عاقبت بھی آسودہ اور مسرور کر دے گا۔“ اس طرح رسولِ خدا ﷺ نے پہلی وحی کے نزول کے تین سال بعد اپنے قریبی عزیزوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔خالد اس محفل میں نہیں تھا۔ اس کا باپ مدعو تھا۔ اس نے خالد کو مذاق اڑانے کے انداز میں بتایا تھا کہ عبد المطلب کے پوتے محمد )ﷺ(نے کہا ہے کہ کہ وہ اﷲ کا بھیجا ہوا نبی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ عبدالمطلب قریش کا ایک سردار تھا۔ الولید نے اپنے بیٹے خالد سے کہا ”بےشک محمد کا خاندان اعلیٰ حیثیت رکھتا ہے
لیکن نبوت کا دعویٰ اس خاندان کا کوئی فرد کیوں کرے؟ اﷲ کی قسم اور ہبل اور عزیٰ کی‘ میرے خاندان کا رتبہ کسی سے کم نہیں ،کیا نبوت کا دعویٰ کرکے کوئی ہم سے اونچا ہو سکتا ہے ؟‘
”آپ نے اسے کیا کہاہے؟“خالد نے پوچھا۔”پہلے تو ہم چپ ہو گئے۔ پھر ہم سب ہنس پڑے۔“الولید نے کہا۔” لیکن محمد کے چچا زاد بھائی علی نے محمد کی نبوت کو قبول کر لیا ہے۔“
خالد اپنے باپ کی طنزیہ ہنسی کو بھولا نہیں تھا۔خالد کو629ءکے ایک روز مکہ اور مدینہ کے راستے میں ایک نخلستان میں لیٹے ہوئے وہ وقت یاد آ رہا تھا۔ رسول اﷲﷺ جن کی نبوت کو قریش کے سردار قبول نہیں کر رہے تھے ۔اس نبوت کو لوگ قبول کرتے چلے جا رہے تھے۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی تھی ۔بعض مفلس لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا ۔اس سے نبی کریمﷺ کے حوصلے میں جان آ گئی اور آپﷺ نے اسلام کی تبلیغ تیز کردی ۔آپﷺ بت پرستی کے خلاف تھے ۔مسلمان ان تین سو ساٹھ بتوں کا مذاق اڑاتے تھے جو کعبہ کے اندر اور باہر رکھے ہوئے تھے۔طلوعِ اسلام سے پہلے عرب ایک خدا کو مانتے تھے اور پوجتے ان بتوں کو تھے انہیں وہ دیویاں اور دیوتا کہتے اور انہیں اﷲ کے بیٹے اور بیٹیاں مانتے تھے ۔وہ ہر بات میں اﷲ کی قسم کھاتے تھے۔قریش نے دیکھا کہ محمد ﷺکے جس دین کا انہوں نے مذاق اڑایا تھا وہ مقبول ہوتا جارہا ہے تو انہوں نے آپﷺ کی تبلیغی سرگرمیوں کے خلاف محاذ بنالیا اور مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا۔خالد کو یاد آ رہا تھا کہ اس نے اﷲ کے رسولﷺ کو گلیوں اور بازاروں میں لوگوں کو اکھٹا کرکے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے اور بتاتے دیکھا تھا کہ بت انہیں نہ فائدہ دے سکتے ہیں نہ نقصان ۔عبادت کے لائق صرف اﷲ ہے جو وحدہ لا شریک ہے۔رسولِ خدا ﷺ کی مخالفت کے قائد قریش کے چار سردار تھے۔ ایک تو خالد کا باپ الولید تھا ۔دوسرا نبی کریمﷺ کا اپنا چچا ابو لہب تھا ،تیسرا ابو سفیان اور چوتھا ابوالحکم تھا، جو خالد کا چچا زاد بھائی تھا۔ مسلمانوں پر سب سے زیادہ ظلم و تشدد اسی شخص نے کیا تھا، وہ جہالت کی حد تک کینہ پرور اور مسلم کش تھا اسی لیے مسلمان اسے” ابو جہل “کہنے لگے تھے ۔یہ نام اتنا عام ہوا کہ لوگ جیسے اس کا اصل نام بھول ہی گئے ہوں۔ تاریخ نے بھی اس پستہ قد، بھینگے اور لوہے کی طرح مضبوط آدمی کو ”ابو جہل “کے نام سے ہی یاد رکھا ہے۔خالد کو یہ یادیں پریشان کرنے لگیں ۔شاید شرمسار بھی۔ قریش کے لوگوں نے رسولِ خداﷺ کے گھرمیں کئی بارغلاظت پھینکی تھی۔ جہاں کوئی مسلمان اسلام کی تبلیغ کررہا ہوتا وہاں قریش کے آدمی جا پہنچتے اور ہلڑ مچاتے تھے ۔بد اخلاق اور دھتکارے ہوئے آدمیوں کو رسولِ خداﷺ کو پریشان کرتے رہنے کے کام پر لگا دیا گیا تھا ۔
خالد کو یہ اطمینان ضرور تھا کہ اس کے باپ نے محمدﷺ کے خلاف ایسی کوئی گھٹیا حرکت نہیں کی تھی ۔وہ دو مرتبہ قریش کے تین چار سرداروں کو ساتھ لے کر رسولِ خداﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس یہ کہنے گیا تھا کہ وہ اپنے بھتیجے )رسولِ خداﷺ کو(بتوں کی توہین اور نبوت کے دعویٰ سے روکے ،ورنہ وہ کسی کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا۔ ابو طالب نے ان لوگوں کو دونوں مرتبہ ٹال دیا تھا۔خالد کو اپنے باپ کی بہت بڑی قربانی یاد آئی ۔”عمارہ“ خالد کا بھائی تھا ۔وہ خاص طور پر خوبصورت نوجوان تھا ۔وہ ذہین تھا اور اس میں بانکپن تھا۔ خالد کے باپ الولید نے اپنے اتنے خوبصورت بیٹے عمارہ کو قریش کے دو سرداروں کے حوالے کیا اور انہیں کہا کہ اسے محمد کے چچا ابو طالب کے پاس لے جائو اور اس سے کہو کہ میرا بیٹا رکھ لو اور اس کے بدلے محمد )ﷺ(ہمیں دے دو۔ خالد اپنے باپ کے اس فیصلے پر کانپ اٹھا تھا اور جب اس کا بھائی عمارہ دونوں سرداروں کے ساتھ چلا گیا تھا تو خالد تنہائی میں جا کر رویا تھا۔”ابو طالب !“۔سرداروں نے عمارہ کو رسولِ کریم )ﷺ(کے چچا کے آگے کرکے کہا تھا۔” اسے تم جانتے ہو؟یہ عمارہ بن الولید ہے ۔تم یہ بھی جانتے ہو گے کہ بنو ہاشم نے جس کے تم سردار ہو، ابھی تک اس جیسا سجیلا اور عقلمند جوان پیدا نہیں کیا ۔یہ ہم ہمیشہ کیلئے تمہارے حوالے کرنے آئے ہیں۔ اسے اپنا بیٹا بنا کر رکھو گے تو یہ تمام عمر فرمانبردار رہے گا اور اگر اسے اپنا غلام بنائو گے تو قسم ہے اﷲ کی ‘تم پر اپنی جان بھی قربان کردے گا ۔“”مگر تم اسے میرے حوالے کیوں کررہے ہو؟“ابو طالب نے پوچھا ۔”کیا بنو مخزوم کی مائوں نے اپنے بیٹوں کو نیلام کرنا شروع کردیا ہے؟کہو‘اس کی کتنی قیمت چاہتے ہو؟“”اس کے عوض ہمیں اپنا بھتیجا محمد )ﷺ(دے دو۔“قریش کے ایک سردار نے کہا:” تمہارا یہ بھتیجا تمہاری رسوائی کا باعث بن گیاہے ۔اس نے تمہارے آبائو اجداد کے مذہب کو رد کرکے نیا مذہب بنا لیا ہے۔کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ اس نے قبیلے میں آدمی کو آدمی کا دشمن بنا دیا ہے
” تم میرے بھتیجے کو لے جا کر کیا کرو گے؟“ ”قتل۔“ قریش کے دوسرے سردار نے جواب دیا۔ ”ہم محمد)ﷺ( کوقتل کریں گے ۔یہ بے انصافی نہیں ہوگی ۔تم دیکھ رہے ہو کہ ہم تمہارے بھتیجے کے بدلے تمہیں اپنا بیٹا دے رہے ہیں ۔”یہ بہت بڑی بے انصافی ہو گی۔“ابو طالب نے کہا ۔”تم میرے بھتیجے کو قتل کرو گے اور میں تمہارے بیٹے کو پالوں گا اور اس پر خرچ کروں گا اور اسے بہت اچھی زندگی دوں گا ؟تم میرے پاس کیسا انصاف لے کر آئے ہو؟میں تمہیں عزت سے رخصت کرتا ہوں ۔“خالد نے جب اپنے بھائی کو اپنے سرداروں کے ساتھ واپس آتے دیکھا اور سرداروں سے سنا کہ ابو طالب نے یہ سودا قبول نہیں کیا تو خالد کو دلی مسرت ہوئی تھی۔
”محمد ﷺکا تم نے کیا بگاڑ لیا تھا ابو سلیمان؟ “خالد کی ذات سے ایک سوال اٹھا۔ اس نے خیالوں ہی خیالوں میں سر ہلایا اور دل ہی دل میں کہا :”کچھ نہیں ۔بے شک محمد)ﷺ( کا جسم طاقتور ہے لیکن رکانہ بن عبد یزید جیسے پہلوان کو اٹھا کر پٹخنے کیلئے صرف جسمانی طاقت کافی نہیں ۔“رکانہ بن عبدیزید رسولِ کریمﷺ کا چچاتھا جس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ یہ عرب کا مانا ہوا پہلوان تھا۔نا می گرامی پہلوان آئے جنہیں اس نے ایک ہی داؤ میں پٹخ کر اٹھنے کے قابل نہ چھوڑا ،وہ وحشی انسان تھا۔ صرف لڑنا مارنا جانتا تھا۔خالد کو وہ وقت یاد آنے لگا جب مسلمانوں کو دِق کرنے والے تین چار آدمیوں نے ایک دن رکانہ پہلوان کو خوب کھلایاپلایا اور اسے کہا تھا کہ” تمہارا بھتیجا محمد )ﷺ(کسی کے ہاتھ نہیں آتا ۔نہ اپنی تبلیغ سے باز آتا ہے نہ کسی سے ڈرتا ہے اور لوگ اس کے باتوں کے جادو میں آتے چلے جا رہے ہیں ۔کیا تم اسے سیدھا نہیں کر سکتے ؟“”کیا تم میرے ہاتھوں اس کی ہڈیاں تڑوانا چاہتے ہو؟“رکانہ نے اپنے چہرے پر مست بھینسے کا تاثر پیدا کرکے تکبر کے لہجے میں کہا تھا ۔”لاؤ اسے میرے مقابلے پہ ،لیکن وہ میرا نام سن کر مکہ سے بھاگ جائے گا۔نہیں نہیں۔ میں اس کے ساتھ لڑنا اپنی توہیں سمجھتا ہوں ۔“اس نے اکسانے والے آدمیوں کی بات نہ مانی ۔وہ کسی پہلوان کو اپنے برابر سمجھتا ہی نہیں تھا۔مسلمانوں کے دشمن خاموش ہو گئے لیکن سوچتے رہے کہ رسول ِخداﷺ کو رکانہ کے ہاتھوں گرا کر آپ )ﷺ(کا تماشہ بنایا جائے۔مکہ کے یہودی خاص طورپر رسولِ اکرمﷺ کے دشمن تھے ۔لیکن وہ کھل کر میدان میں نہیں آتے تھے ۔وہ خوش تھے کہ اہلِ قریش آپس میں بٹ کر ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے ہیں۔ انہیں پتا چل گیا کہ قریش کے کچھ آدمیوں نے رکانہ پہلوان کو اکسایا ہے کہ وہ رسولِ خداﷺ کو کشتی کیلئے للکارے ۔لیکن وہ نہیں مان رہا تھا۔ ایک روز رکانہ رات کے وقت ایک گلی سے گزر رہا تھا کہ اس کے قریب سے ایک بڑی حسین اور جوان لڑکی گزری۔چاندنی رات میں لڑکی نے رکانہ کو پہچان لیا اور مسکرائی ۔رکانہ وحشی تھا ۔وہ رک گیا اور لڑکی کا راستہ روک لیا۔”کیا تم جانتی ہو کہ عورت مرد کی طرف دیکھ کر مسکراتی ہے تو اس کامطلب کیا ہوتا ہے؟“رکانہ پہلوان نے پوچھا :”کون ہو تم؟“
”اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عورت اس مرد کو چاہتی ہے۔“اس جوان لڑکی نے جواب دےا ۔”میں سبت بنت ارمن ہوں۔“
”اوہ۔ارمن یہودی کی بیٹی۔“رکانہ نے کہا اور لڑکی کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کرکے بولا۔”کیا میرا جسم تجھے اتنا اچھا لگتا ہے اور کیا میری طاقت ۔“”تمہاری طاقت نے مجھے مایوس کردیا ہے ۔“سبت نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا ۔”تم اپنے بھتیجے محمد سے ڈرتے ہو ۔“”کون کہتا ہے؟“رکانہ نے گرج کر پوچھا۔”سب کہتے ہیں ۔“سبت نے کہا۔” پہلے محمد کو گراؤ۔ میں اپنا جسم تمہیں انعام میں دوں گی۔ “”اﷲ کے بیٹوں اور بیٹیوں کی قسم !تیری بات پوری کرکے تیرے سامنے آؤں گا۔“رکانہ نے کہا۔”لیکن تو نے غلط سنا ہے کہ میں محمد سے ڈرتا ہوں ۔بات یہ ہے کہ میں اپنے سے کمزور کے ساتھ لڑنا اپنی توہین سمجھتا ہوں لیکن تیری بات پوری کروں گا۔“مشہور مؤرخ ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے خود رکانہ پہلوان کوکشتی کیلئے للکارا تھا لیکن دوسرے مؤرخ ابن الاثیر نے جو شہادت پیش کی ہے وہ صحیح ہے کہ رکانہ نے محمدﷺ کو کشتی کیلئے للکارا اور اس نے کہا تھا:”میرے بھائی کے بیٹے !تم بڑے دل اور بڑی جرات والے آدمی ہو۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم جھوٹ بولنے سے نفرت کرتے ہو۔لیکن مرد کی جرات اور صداقت کا پتا اکھاڑے میں چلتا ہے۔آؤ میرے مقابلے میں اکھاڑے میں اترو۔ اگر مجھے گرا لو تو میں تمہیں اﷲ کا بھیجا ہوا نبی مان لوں گا،اﷲ کی قسم !تمہارا مذہب قبول کرلوں گا۔“”لیکن یہ ایک بھتیجے اور چچا کی کشتی نہیں ہو گی۔“ رسولِ خداﷺ نے رکانہ کی للکار کے جواب میں کہا ۔”ایک بت پرست اور سچے دین کے ایک پیغمبر کی لڑائی ہو گی،تو ہار گیا تو اپنا وعدہ نہ بھول جانا۔“مکہ میں یہ خبر صحرا کی آندھی کی طرح پھیل گئی کہ رکانہ پہلوان اور محمد)ﷺ( کی کشتی ہو گی اور جو ہار جائے گا وہ جیتنے والے کا مذہب قبول کر لے گا۔قریش کا بچہ بچہ مردوزن اور یہودی ہجوم کرکے آ گئے۔ مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی ۔وہ تلواروں اور برچھیوں سے مسلح ہو کر آئے ۔کیونکہ انہیں خطرہ محسوس ہو رہا تھا کہ قریش کشتی کو بہانہ بنا کر رسولِ خداﷺ کو قتل کر دیں گے۔“ عرب کا سب سے زیادہ طاقتور اور وحشی پہلوان رکانہ بن عبد یزید رسولِ کریمﷺ کے مقابلے پہ اترا۔ اس نے رسول ِ خداﷺ پر طنزیہ نظر ڈالی اور آپﷺ پر پھبتی کسی۔ آپﷺ مکمل خاموشی اور اطمینان سے رکانہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کردیکھتے رہے کہ وہ بے خبری میں کوئی داؤ نہ کھیل جائے۔
رِکانہ آپ )ﷺ(کے اردگرد یوں گھوما جیسے شیر اپنے شکار کے اردگرد گھوم گیا ہو اور اب اسے کھا جائے گا۔ ہجوم رسولِ اکرمﷺ کا مذاق اڑا رہا تھا۔ مسلمان خاموش تھے وہ دل ہی دل میں اﷲ کو یاد کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی تلواروں کے دستوں پہ ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔پھر نہ جانے کیا ہوا؟رسول ِاکرم ﷺ نے کیاداؤکھیلا؟ابن الاثیر کہتا ہے کہ آپﷺ نے رکانہ کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔ رکانہ زخمی شیر کی طرح اٹھا اور غرا کر آپﷺ پر حملہ آور ہوا۔آپﷺ نے پھر وہی داؤ کھیلا اور اسے پٹخ دیا۔ وہ اٹھا تو آپﷺ نے اسے تیسری بار پٹخا۔ بھاری بھرکم جسم تین بار پٹخا گیا تو کشتی جاری رکھنے کے قابل نہ رہا۔ رکانہ سر جھکا کر اکھاڑے سے نکل گیا۔ ہجوم پر سناٹا طاری ہو گیا اور مسلمان ننگی تلواریں اور برچھیاں ہوا میں لہرا لہرا اور اچھال اچھال کر نعرے لگا رہے تھے۔”چچا رکانہ۔“ رسول اﷲﷺ نے للکار کر کہا۔” اپنا وعدہ پورا کر اور یہیں اعلان کر کہ آج سے تو مسلمان ہے۔“رکانہ نے قبولِ اسلام سے صاف انکار کر دیا۔”یہ طاقت جسمانی نہیں تھی ۔“خالد نے نخلستان میں لیٹے لیٹے اپنے آ پ سے کہا۔ ”رکانہ کو یوں تین بار پٹخنا تو دور کی بات ہے۔ اسے کوئی پچھاڑ بھی نہیں سکا تھا۔“رسولِ اکرمﷺ کا تصور خالد کے ذہن میں نکھر آیا ۔وہ آپ)ﷺ( کو اچھی طرح سے جانتا تھا لیکن اب وہ محسوس کر رہاتھا جیسے وہ محمدﷺ کوئی اور تھے جنہیں وہ بچپن سے جانتا تھا۔ا س کے بعد آپ ﷺنے جو رخ اختیار کیا تھاا س میں خالد آپ ﷺکو نہیں پہچانتا تھا ۔نبوت کے دعویٰ کے بعد خالد کی آپﷺ کے ساتھ بول چال بند ہو گئی تھی۔ وہ آپ ﷺکے ساتھ دو دو ہاتھ کرنا چاہتا تھا ۔لیکن وہ رکانہ کی طرح پہلوان نہیں تھا۔ وہ میدانِ جنگ میں لڑنے والا اور لڑنے والوں کی قیادت کرنے والا جنگجو تھا لیکن اس وقت مسلمان فوج کی صورت میں لڑنے کے قابل نہیں تھے۔
جب مسلمان فوج کی صورت میں لڑنے کے قابل ہوئے اور قریش کے ساتھ ان کا پہلا معرکہ ہوا ۔اس وقت خالد کیلئے ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ وہ اس معرکے میں شامل نہیں ہو سکا تھا ۔ا سکا اسے بہت افسوس تھا ۔یہ معرکہ بدر کا تھا جس میں تین سو تیرہ مجاہدینِ اسلام نے ایک ہزار قریش کو شکست دی تھی۔خالد دانت پیستا رہ گیا تھا لیکن اس روز جب وہ اس نخلستان میں لیٹا ہوا تھا اسے خیال آیا کہ تین سو تیرہ نے ایک ہزار کو کس طرح سے شکست دے دی تھی؟
اس نے شکست کھاکہ آنے والوں سے پوچھا تھا کہ مسلمانوں میں وہ کون سی خوبی تھی جس نے انہیں فتح iاب کیا تھا؟ خالد اٹھ بیٹھا اور انگلی سے ریت پر بدر کے میدان کے خدوخال بنا کر قریش اور مسلمانوں کی پوزیشنیں اور معرکے کے دوران دونوں کی چالوں کی لکیریں بنانے لگا۔ باپ نے اسے فنِ حرب و ضرب کا ماہر بنادیا تھا۔ بچپن میں اسے گھڑ سواری سکھائی،لڑکپن میں اسے اکھڑ اور منہ زور گھوڑوں کو قابو میں لانے کے قابل بنایا۔ نوجوانی میں وہ شہسوار بن چکا تھا ،شتر سواری میں بھی وہ ماہر تھا۔ اس کا باپ ہی اس کا استاد تھا ۔اس نے خالد کو نا صرف سپاہی، بلکہ سالار بنایا تھا۔ خالد کو جنگ و جدل اتنی اچھی لگی کہ وہ لڑنے اور لڑانے کے طریقوں پر غورکرنے لگااور جوانی میں فوج کی قیادت کے قابل ہو گیا تھا۔اسے بدر کی لڑائی میں شامل نہ ہو سکنے کا افسوس تھا اور وہ انتقام کے طریقے سوچتا رہتا تھا لیکن اب اس کی سوچوں کا دھارا اور طرف چل پڑا تھا ۔مکہ سے روانگی سے کچھ عرصہ پہلے سے وہ اس سوچ میں کھو گیا تھا کہ رسولِ اکرمﷺ نے رکانہ پہلوان کو تین بار پٹخاتھا ۔بدر میں آپ ﷺنے محض تین سو تیرہ مجاہدین سے ایک ہزار کو شکست دی،یہ کوئی اور ہی قوت تھی لیکن بدر کے معرکے کے بعد اس کے دل میں مسلمانوںکے خلاف انتقام کی آگ سلگ رہی تھی۔مسلمان معرکہ بدر میں قریش کے بہت سے آدمیوں کو قیدی بنا کر لے گئے تھے ۔قریش کے سرداروں کیلئے تو یہ صدمہ تھا ہی ،اس کا بہت برا اثر خالد نے قبول کیا تھا ۔اسے یاد تھا کہ جب بدر کا معرکہ لڑا جا رہا تھا اور مکہ میں کوئی خبر نہیں پہنچ رہی تھی کہ معرکہ کا انجام کیا ہوا، مکہ کے لوگ بدر کی سمت دیکھتے رہتے تھے کہ ادھر سے کوئی سوار دوڑا آئے گا اور فتح کی خبر سنائے گا۔آخر ایک روز ایک شتر سوار آتا نظر آیا۔ لوگ اسکی طرف دوڑ پڑے ۔سوار نے عرب کے رواج کے مطابق اپنا کرتا پھاڑ دیا تھا اور وہ روتا آ رہا تھا۔ بری خبر لانے والے قاصد ایسے ہی کیا کرتے تھے ۔وہ جب لوگوں کے درمیان پہنچا تو اس نے روتے ہوئے بتایا کہ اہلِ قریش کو بہت بری شکست ہوئی ہے ۔جس کے عزیز رشتے دار لڑنے گئے تھے وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھ بڑھ کر ان کے متعلق پوچھتے تھے کہ وہ زندہ ہیں ،زخمی ہیں یا مارے گئے ہیں ؟شکست خوردہ قریش پیچھے آ رہے تھے۔ مارے جانے والوں میں سترہ افراد خالد کے قبیلے بنو مخزوم کے تھے اور ان سب کے ساتھ خالد کا خون کا بڑا قریبی رشتہ تھا۔ ابو جہل بھی مارا گیا تھا۔ خالد کا بھائی جس کا نام ولید تھا جنگی قیدی بن گیا تھا۔ابو سفیان جو کہ قریش کے سرداروں کا سردار تھا اور ا س کی بیوی ہند بھی موجود تھے ۔”کچھ میرے باپ اور میرے چچا کے متعلق بتا اے قاصد!“ ہند نے پوچھا۔”تمہاراباپ عتبہ ،علی اور حمزہ کے ہاتھوں مارا گیا ۔“قاصد نے کہا ۔”اور تمہارے چچا شیبہ کو اکیلے حمزہ نے قتل کیا ہے اورتمہارا بیٹا حنظلہ علی کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ “
ابو سفیان کی بیوی ہند نے پہلے تو علی اور حمزہ کو بلند آواز سے برا بھلا کہا پھر بولی۔” اﷲ کی قسم! میں اپنے باپ اور اپنے چچا اور اپنے بیٹے کے خون کا بدلہ لوں گی۔“ابو سفیان پر خاموشی طاری تھی۔خالد کا خون کھول رہا تھا۔ قریش کے ستر آدمی مارے گئے تھے اور جو جنگی قیدی ہوئے تھے ان کی تعداد بھی اتنی ہی تھی ۔خالد اٹھا ۔دری جھاڑکر لپیٹی اور گھوڑے کی زِین کے ساتھ باندھ کر سوار ہوا اور مدینہ کی سمت چل پڑا۔اس نے ذہن کو یادوں سے خالی کر دینا چاہا لیکن اس کا ذہن مدینہ پہنچ جاتا جہاں رسول اﷲﷺ تھے اور جو تبلیغِ اسلام کا مرکز بن گیا تھا۔ آپﷺ کا خیال آتے ہی اس کا ذہن پیچھے چلا جاتا اور اسے وہ منظر دکھاتا جس کے خالق حضورﷺ تھے۔اس کے ذہن میں ہند کے الفاظ یادآ ئے جو اس نے اپنے خاوند ابو سفیان سے کہے تھے: ”میں اپنے باپ اور چچا کو بھول سکتی ہوں۔“ ہند نے کہا تھا ۔”کیا میں اپنے لختِ جگر حنظلہ کو بھی بھول جاؤں؟ ماں اپنے بیٹے کو کیسے بھول سکتی ہے ؟اﷲکی قسم !میں محمد کو اپنے بیٹے کا خون معاف نہیں کروں گی۔یہ لڑائی محمد نے کرائی ہے۔ میں حمزہ اور علی کو نہیں بخشوں گی ۔وہ میرے باپ، میرے چچا اور میرے بیٹے کے قاتل ہیں۔“”میرے خون کو صرف میرے بیٹے کا قتل گرمارہا ہے ۔“ابو سفیان نے کہا تھا۔” مجھ پر اپنے بیٹے کے خون کا انتقام فرض ہو گیا ہے۔ میں سب سے پہلے یہ کام کروں گا کہ محمد کے خلاف زبردست فوج تیار کرکے اسے آئندہ لڑنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔“ مشہور مؤرخ اور وقائع نگار واقدی لکھتا ہے کہ اگلے ہی روز ابو سفیان نے تمام سرداروں کو بلایا ۔ان میں زیادہ تعداد ان سرداروں کی تھی جو کسی نہ کسی وجہ سے جنگِ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور ا ن میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی عزیز اس جنگ میں مارا گیا تھا۔ سب انتقام کاارادہ لے کر اکھٹے ہوئے ۔کیا مجھے زیادہ باتیں کرنے کی ضرورت ہے ؟ابو سفیان نے کہا۔” میرا اپنا جوان بیٹا مارا گیا ہے۔ اگر میں انتقام نہیں لیتا تو مجھے جینے کا کوئی حق نہیں۔“سب ایک ہی بار بولنے لگے۔ وہ اس پر متفق تھے کہ مسلمانوں سے بدر کی شکست کا انتقام لیا جائے ۔
”لیکن آپ میں سے کوئی بھی اپنے گھر میں نہ بیٹھا رہے ۔“خالد نے کہا۔” بدر میں ہم صرف اس لیے ذلت میں گھرے کہ سردار گھروں میں بیٹھے رہے اور ان لوگوں کو لڑنے بھیج دیا جو قریش کی عظمت کو نہیں سمجھتے تھے ۔“
”کیا میرے باپ کو بھی قریش کی عظمت کا خیال نہ تھا؟“خالد کے چچا زاد بھائی عکرمہ، جو ابو جہل کا بیٹا تھا۔ برہم ہوتے ہوئے کہا ۔”کیا صفوان بن امیہ کے باپ کو بھی قریش کی عظمت کا خیال نہ تھا ؟ تم کہاں تھے
الولید کے بیٹے؟“”ہم یہاں ایک دوسرے سے لڑنے کیلئے اکھٹے نہیں ہوئے ۔“ابو سفیان نے کہا۔” خالد! تمہیں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے تھی جس سے کوئی اپنی بے عزتی محسوس کرے۔“
”ہم میں سے کوئی بھی عزت والا نہیں رہا۔“ خالد نے کہا ۔”ہم سب اس وقت تک بے عزت رہیں گے جب تک ہم محمد)ﷺ( اور اس کے چیلوں کو ہمیشہ کیلئے ختم نہیں کر دےتے۔ مجھے اپنے گھوڑے کے سموں کی
قسم! میرے خون کی گرمی نے میری آنکھیں جلا دی ہیں۔ ان آنکھوں کو مسلمانوں کا خون ٹھنڈا کر سکتا ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ اب سردار آگے ہوں گے اور میں جانتا ہوں کہ میں میدانِ جنگ میں کہاں ہوں گا۔لیکن جنگ میں ہمارا جو سردار ہو گا میں اس کے حکم کا پابند رہوں گا اور اگر میں سمجھوں گا کہ مجھے سردار نے ایسا حکم دیا ہے جو ہمیں نقصان دے گا تو میں ایسا حکم نہیں مانوں گا۔“ سب نے متفقہ طور پر ابو سفیان کو اپنا سردار مقرر کیا۔اس سے ایک روز پہلے اہلِ مکہ کا ایک قافلہ فلسطین سے مکہ واپس آیا تھا ۔یہ تجارتی قافلہ تھا ۔مکہ کے باشندوں خصوصاً قریش کے ہر خاندان نے اس تجارت میں حصہ ڈالا تھا۔ اس قافلے میں کم و بیش ایک ہزار اونٹ تھے اور جو مال گیاتھا اس کی مالیت پچاس ہزار دینار تھی۔ قافلے کا سردار ابو سفیان تھا جس نے پچاس ہزار پر پچاس ہزار دینار منافع کمایا تھا۔قافلے سے واپسی کا راستہ مدینہ سے گزرتا تھا ۔مسلمانوں کو پتا چل گیا ۔انہوں نے پورے قافلے کو گرفتار کرنے کا ارادہ کیا اور ایک مقام پر قافلہ کو گھیرے میں لے لیا لیکن وہ زمین ایسی تھی کہ ابو سفیان نے ایک ایک آدمی اور ایک ایک اونٹ کو زمین کے اونچے نیچے خدوخال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گھیرے سے نکال دیا تھا۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: شمشیر بے نیام از عنایت الله مکمل ناول

Post by ایکسٹو »

قسط‎ ‎نمبر 2
خالد کا گھوڑا خراماں خراماں مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا مگر خالد کا ذہن پیچھے کو سفر کر رہا تھا ۔اسے اس وقت کا جب قریش انتقام کی اسکیم بنانے کیلئے اکھٹے ہوئے تھے ایک ایک لفظ جو کسی نے کہا تھا سنائی دے رہا تھا۔”اگر تم نے مجھے اپنی سرداری دی ہے تو میرے ہر فیصلے کی پابندی تم پر لازم ہے ۔“ابو سفان نے کہا ۔
”میرا پہلا فیصلہ یہ ہے کہ میں نے ابھی پچاس ہزار دینار منافع سب میں تقسیم نہیں کیا۔ وہ میں تقسیم نہیں کروں گا۔ یہ مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں استعمال ہو گا۔“”مجھے اور میرے خاندان کو یہ فیصلہ منظور ہے ۔“سب سے پہلے خالد نے کہا۔پھر ”منظور ہے ،ایسا ہی کرو، منظور ہے “کی آوازیں اٹھیں۔ ”میرا دوسراحکم یہ ہے۔“ ابو سفیان نے کہا کہ۔” جنگِ بدر میں ہمارے جو آدمی مارے گئے ہیں ان کے لواحقین آہ و زاری کر رہے ہیں ۔میں نے مردوں کو دھاڑیں مارتے اور عورتوں کو بَین کرتے سنا ہے۔ اﷲ کی قسم! جب آنسو بہہ جاتے ہیں تو انتقام کی آگ سرد ہو جاتی ہے ۔آج سے بدرکے مقتولین پرکوئی نہیں روئے گا ۔۔۔“”اور میرا تیسرا حکم یہ ہے کہ مسلمانوں نے بدر کی لڑائی میں ہمارے جن آدمیوں کو قید کیا ہے ان کی رہائی کیلئے کوئی کوشش نہیں کی جائے گی ۔تم جانتے ہو کہ مسلمانوں نے قیدیوں کی رہائی کیلئے ان کے درجے مقرر کر دیئے ہیں اور ان کا فدیہ ایک ہزار سے چالیس درہم مقرر کیا ہے ۔ہم مسلمانوں کو ایک درہم بھی نہیں دےں گے۔ یہ رقم ہمارے ہی خلاف استعمال ہو گی ۔“
خالد کو گھوڑے کی پیٹھ پہ بیٹھے اور مدینہ کی طرف جاتے ہوئے جب وہ لمحے یاد آ رہے تھے تو اس کی مٹھیاں بند ہو گئیں۔ غصے کی لہر اس کے سارے وجود میں بھر گئی۔ وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا تھا لیکن اب بھی اس کے اندر غصہ بیدارہو گیا تھا۔ اسے غصہ اس بات پہ آیا کہ اجلاس میں طے تھا کہ مسلمانوں کے پاس مکہ کا کوئی آدمی اپنے قیدی کو چھڑانے مدینہ نہیں جائے گا لیکن ایک آدمی چوری چھپے مدینہ چلا جاتا اور اپنے عزیز رشتے دار کو رہا کرا لاتا۔ ابو سفیان نے اپنا حکم واپس لے لیا۔ خالد کا اپنا ایک بھائی جس کا نام ولید تھا۔ مسلمانوں کے پاس جنگی قیدی تھا اگر اس وقت تک قریش اپنے بہت سے قیدی رہا نہ کرا لائے ہوتے تو خالد اپنے بھائی کی رہائی کیلئے کبھی نہ جاتا۔اسے اپنے بھائیوں نے مجبور کیا تھا کہ ولید کی رہائی کیلئے جائے ۔خالد کو یاد آ رہا تھا کہ وہ اپنے وقار کو ٹھیس پہنچانے پر آمادہ نہیں ہو رہا تھا لیکن اسے خیال آیا تھا ۔خیال یہ تھا کہ رسولِ کریمﷺ بھی اسی کے قبیلے کے تھے اور آپﷺ کے پیروکار یعنی جو مسلمان ہو گئے تھے وہ بھی قریش اور اہلِ مکہ سے تھے۔ وہ آسمان سے تو نہیں اترے تھے۔ وہ اتنے جری اور دلیر تو نہیں تھے کہ تین سو تیرہ کی تعداد میں ایک ہزار کو شکست دے سکتے ۔اب ان میں کیسی قوت آ گئی ہے کہ وہ ہمیں نیچا دکھا کر ہمارے آدمیوں کی قمتیں مقرر کر رہے ہیں ؟ ”انہیں ایک نظر دیکھوں گا۔“ خالد نے سوچا تھا۔” محمدﷺ کو غور سے دیکھوں گا۔“اور وہ اپنے بھائی ہشام کو ساتھ لے کر مدینہ چلا گیا تھا ۔اس نے اپنے ساتھ چار ہزار درہم باندھ لیے تھے ۔اسے معلوم تھا کہ بنو مخزوم کے سردار الولید کے بیٹے کا فدیہ چار ہزار درہم سے کم نہیں ہو گا ایسا ہی ہوا۔۔۔اس نے مسلمانوں کے ہاں جا کر اپنے بھائی کانام لیا تو ایک مسلمان نے جو قیدیوں کی رہائی اور فدیہ کی وصولی پر معمور تھا ۔کہا کہ چار ہزار درہم ادا کرو۔”ہم فدیہ میں کچھ رعایت چاہتے ہیں ۔“خالد کے بھائی ہشام نے کہا ۔”تم لوگ آخر ہم میں سے ہو ۔کچھ پرانے رشتوں کا خیال کرو ۔“”اب ہم تم میں سے نہیں ہیں ۔“مسلمانوں نے کہا ۔”ہم اﷲ کے رسولﷺ کے حکم کے پابند ہیں۔“”کیا ہم تمہارے رسول اﷲﷺ سے بات کر سکتے ہیں ؟“ہشام نے پوچھا ۔”ہشام !“خالد نے گرج کر کہا۔” میں اپنے بھائی کو اپنے وقار پر قربان کر چکا تھا ،مگر تم مجھے ساتھ لے آئے ۔یہ جتنا مانگتے ہیں اتنا ہی دے دو۔ میں محمد)ﷺ( کے سامنے جا کہ رحم کی بھیک نہیں مانگوں گا“ ۔اس نے درہموں سے بھری تھیلی مسلمانوں کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا ۔”گن لو اور ہمارے بھائی کو ہمارے حوالے کر دو۔“رقم گنی جا چکی تو ولید کو خالد اور ہشام کے حوالے کر دیا گیا۔ تینوں بھائی اسی وقت مکہ کو روانہ ہو گئے ۔راستے میں دونوں بھائیوں نے ولید سے پوچھا کہ”ان کی شکست کا باعث کیا تھا؟ “انہیں توقع تھی کہ ولید جو ایک جنگجوخاندان کا جوان تھا۔ انہیں جنگی فہم و فراست اور حرب و ضرب کے طور طریقوں کے مطابق مسلمانوں کی جنگی چالوں کی خوبیاں اور اپنی خامیاں بتائے گا مگر ولید کا انداز ایسا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ایسی تھی جیسے اس پر کوئی پراسرار اثر ہو۔ ”ولید کچھ تو بتاؤ۔“ خالد نے اس سے پوچھا۔”ہمیں اپنی شکست کا انتقام لینا ہے ۔قریش کے تمام سردار اگلی جنگ میں شامل ہو رہے ہیں۔ ہم اردگرد کے قبائل کو بھی ساتھ ملا رہے ہیں اور و ہ مکہ میں جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔“ ”سارے عرب کو اکھٹا کرلو خالد۔“ ولید نے کہا ۔”تم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکو گے ۔میں نہیں بتا سکتا کہ محمدﷺ کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے یا ان کا نیا عقیدہ سچا یا کیا بات ہے کہ میں نے ان کا قیدی ہوتے ہوئے بھی انہیں نا پسند نہیں کیا۔“”پھر تم اپنے قبیلے کے غدار ہو۔“ ہشام نے کہا۔” غدار ہو یا تم پر ان کا جادو اثر کر گیا ہے۔ وہ یہودی پیشوا ٹھیک کہتا تھا کہ محمد)ﷺ( کے پاس کوئی نیا عقیدہ اور نیا مذہب نہیں،اس کے ہاتھ میں کوئی جادو آگیا ہے“۔
”جادو ہی تھا ،ورنہ بدر میں شکست کھانے والے نہیں تھے۔“خالد نے کہا۔ولید جیسے ان کی باتیں سن ہی نہیں رہا تھا ۔اس کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور وہ مڑ مڑ کر مدینہ کی طرف دیکھتا تھا۔ مدینہ سے کچھ دورذی الحلیفہ نام کی ایک جگہ ہوا کرتی تھی۔ تینوں بھائی وہاں پہنچے تو رات گہری ہو چکی تھی۔ رات گزارنے کیلئے وہ وہیں رہ گئے۔صبح آنکھ کھلی تو ولید غائب تھا۔ اس کا گھوڑا بھی وہاں نہیں تھا ۔خالد اور ہشام سوچ سوچ کر اس نتیجے پر پہنچے کہ ولید واپس مدینہ چلا گیا ہے،انہوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی اثر تھا یہ اثر مسلمانوں کا ہی ہوسکتا تھا۔ دونوں بھائی مکہ آ گئے۔ چند دنوں بعد انہیں مکہ میں ولید کا زبانی پیغام ملا کہ اس نے محمدﷺکو خدا کا سچارسول تسلیم کر لیا ہے اور وہ آپﷺ کی شخصیت اور باتوں سے اتنا متاثر ہوا ہے کہ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے۔
مورخین لکھتے ہیں کہ ولید بن الولید رسولِ اکرمﷺ کے منظورِ نظر رہے اور انہوں نے مذہب میں بھی اور کفار کے ساتھ معرکہ آرائی میں بھی نام پیدا کیا۔خالد کو اس وقت بہت غصہ آیا تھا ایک تو اس کا بھائی گیا دوسرے چار ہزار درہم گئے ۔چونکہ قریش اور مسلمانوں کے درمیان خونی دشمنی پیدا ہو چکی تھی اس لیے مسلمانوں نے یہ رقم واپس نہ کی ۔رقم واپس نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ولید نے رسولِ کریمﷺ کو بتا دیا تھا کہ قریش مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاری کر رہے ہیں اور ا س کیلئے بے انداز درہم و دینار اکھٹے کیے جا چکے ہیں۔
خالد مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا۔ اسے افق سے ایک کوہان سی ابھری ہوئی نظر آنے لگی۔ خالد جانتا تھا یہ کیا ہے۔ یہ احد کی پہاڑی تھی جو مدینہ سے چار میل شمال میں ہے۔ اس وقت خالد ریت کی بڑی لمبی اور کچھ اونچی ٹیکری پر چلا جا رہا تھا۔اُحد۔ اُحد۔ خالد کے ہونٹوں سے سرگوشی نکلی اور اسے اپنی للکار سنائی دینے لگی۔” میں ابو سلیمان ہوں ! میں ابو سلیمان ہوں ۔“اس کے ساتھ ہی اسے ایک خونریز جنگ کا شوروغل اور سینکڑوں گھوڑوں کے ٹاپ اور تلواریں ٹکرانے کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔خالد یہ جنگ لڑنے کیلئے بیتاب تھا اور اس نے یہ جنگ لڑی-
خالد کا ذہن پیچھے ہی ہٹتا گیا۔چار ہی سال پہلے کا واقعہ تھا ۔
مارچ 625ء)شوال ۳ ہجری ( کے مہینے میں قریش نے مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے جو لشکر تیار کیا تھا وہ مکہ میں اکھٹا ہو چکا تھا اس کی کل تعداد تین ہزار تھی۔ اس میں سات سو افراد نے زِرہ پہن رکھی تھی۔ گھوڑ سوار دو سو کے لگ بھگ تھے اور رسد اور سامانِ جنگ تین ہزار اونٹوں پر لدا ہوا تھا۔ یہ لشکر کوچ کیلئے تیار تھا۔خالد کو ایک روز پہلے کی بات کی طرح یاد تھا کہ اس لشکر کو دیکھ کر وہ کس قدرخوش ہوا تھا۔ انتقام کی آگ بجھانے کا وقت آ گیا تھا اس لشکر کا سالارِ اعلیٰ ابو سفیان تھا اور خالد اس لشکر کے ایک حصے کا کمانڈر تھا۔ اس کی بہن بھی اس لشکر کے ساتھ جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ چودہ عورتیں اس لشکر کے ساتھ جانے کیلئے تیار تھیں ۔ ان میں ابو سفیان کی بیوی ہند بھی تھی، عمرو بن العاص کی اور ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کی بیویاں بھی شامل تھیں ۔ باقی سب گانے بجانے والیاں تھیں ۔سب کی آواز میں سوز تھا اور ان کے ساز دف اور ڈھولک تھے۔ ان عورتوں کا جنگ میں یہ کام تھا کہ جوشیلے اور جذباتی گیت گا کر سپاہیوں کا حوصلہ بلند رکھیں اور انکی یاد تازہ کرتی رہیں جو جنگِ بدر میں مارے گئے تھے۔خالد کو افریقہ کا ایک حبشی یاد آیا جس کا نام وحشی بن حرب تھا۔ وہ قریش کے ایک سردار جُبیر بن مُطعم کا غلام تھا۔ وہ دراز قد اور سیاہ رو اور طاقتور تھا۔ اس نے برچھی مارنے کے فن میں شہرت حاصل کی تھی۔ اس کے پاس افریقہ کی بنی ہوئی برچھی تھی۔ اس کا افریقی نام کچھ اور تھا ۔اسے عربی نام جُبیر نے اس کے جنگی کمالات دیکھ کر دیا تھا۔”بِن حرب! “کوچ سے کچھ دیر پہلے جُبیر بن مُطعِم نے اسے کہا۔”مجھے اپنے چچا کے خون کا بدلہ لینا ہے ۔شاید مجھے موقع نہ مل سکے ،میرے چچا کو بدر کی لڑائی میں محمد)ﷺ( کے چچا حمزہ نے قتل کیا تھا اگر تم حمزہ کو قتل کر دو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔“”حمزہ میری برچھی سے قتل ہو گا یا آقا!“وحشی بن حرب نے کہا۔یہ حبشی غلام اس طرف جا نکلا جہاں وہ عورتیں اونٹوں پر سوار ہو چکی تھیں جو اس لشکر کے ساتھ جا رہی تھیں۔”ابو وسمہ!“کسی عورت نے پکارا۔یہ وحشی بن حرب کا دوسرا نام تھا۔ وہ رک گیا۔ دیکھا کہ ابو سفیان کی بیوی ہند اسے بلا رہی تھی ۔وہ اس کے قریب چلا گیا۔”ابو وسمہ! “ہندنے کہا ۔”حیران نہ ہو، تجھے میں نے بلایا ہے۔ میرا سینہ انتقام کی آگ سے جل رہا ہے۔ میرا سینہ ٹھنڈا کردے۔“”حکم خاتون۔“غلام نے کہا۔” اپنے سالار کی زوجہ کے حکم پر اپنی جان بھی دے دوں گا۔“”بدر میں میرے باپ کو حمزہ نے قتل کیاتھا“۔ ہندنے کہا۔” تو حمزہ کو اچھی طرح پہچانتا ہے ،یہ دیکھ میں نے سونے کے جو زیورات پہن رکھے ہیں اگر تو حمزہ کو قتل کر دے گا تو یہ سب زیورات تیرے ہوں گے۔“وحشی بن حرب نے ہند کے زیورات پر نظر ڈالی تو وہ مسکرایا اور زیرِ لب پر عزم لہجے میں بولا۔” حمزہ کو میں ہی قتل کروں گا۔“
خالد کو اپنے لشکر کا کوچ یاد تھا۔ اسی رستے سے لشکر مدینہ کو گیا تھا۔ اس نے ایک بلند جگہ کھڑے ہو کر لشکر کو دیکھا تھا۔ اس کا سینہ فخر سے پھیل گیا تھا۔ اسے مدینہ کے مسلمانوں پر رحم آ گیا تھا لیکن اس رحم نے بھی اسے مسرت دی تھی۔ یہ خون کی دشمنی تھی ،یہ اس کے وقار کا مسئلہ تھا۔مسلمانوں کو کچل ڈالنا اس کا عزم تھا۔جنگِ احد کے بہت دن بعد اسے پتاچلا تھا کہ جب مکہ میں قریش اپنا لشکر جمع کر رہے تھے تو اطلاع رسولِ کریمﷺ کو مل گئی تھی اور جب یہ لشکر مدینہ کے راستے میں تھا تو رسولِ خدا ﷺکو اس کی رفتار ،پڑاؤ اور مدینہ سے فاصلے کی اطلاعیں مسلسل ملتی رہی تھیں۔ آپﷺ کو لشکر کے مکہ سے کوچ کی اطلاع حضرت عباسؓ نے دی تھی۔قریش کے اس لشکر نے مدینہ سے کچھ میل دور کوہِ احد کے قریب ایک ایسی جگہ کیمپ کیا تھا جو ہری بھری تھی اور وہاں پانی بھی تھا ۔خالد کو معلوم نہ تھا کہ مسلمانوں کے دو جاسوس اس لشکر کی پوری تعداد دیکھ آئے ہیں اور رسولِ کریمﷺ کوبتا چکے ہیں۔21مارچ 625ءکے روز رسولِ کریمﷺ نے اپنی فوج کو کوچ کا حکم دیا اور شیخین نامی ایک پہاڑی کے دامن میں جا خیمہ زن ہوئے۔ آپﷺ کے ساتھ ایک ہزار پیادہ مجاہدین تھے جن میں ایک سَو نے سروں پر زِرہ پہن رکھی تھی۔ مجاہدین کے پاس صرف دو گھوڑے تھے جن میں سے ایک نبیﷺ کے پاس تھا ۔اس موقع پر منافقین کے نفاق کا پہلا خطرناک مظاہرہ ہوا جو غداری کے مترادف تھا۔ مدینہ کے بعض ایسے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا جو دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ انہیں رسولﷺ نے منافقین کہا تھا۔ کسی کے متعلق یہ معلوم کرنا کہ وہ سچا مسلمان ہے یا منافق‘ بہت مشکل تھا ۔جب مجاہدین مدینہ سے شیخین کی پہاڑی کی طرف کوچ کرنے لگے تو ایک بااثر آدمی جس کا نام ”عبداﷲ بن ابی “تھا۔ رسول ﷺ کے ساتھ اس بحث میں الجھ گیا کہ قریش کا لشکر تین گنا ہے اس لیے مدینہ سے باہر جاکر لڑنا نقصان دہ ہو گا۔آپﷺ نے مجاہدین کے دوسرے سرداروں سے رائے لی تو اکثریت نے یہ کہا کہ شہر سے باہر لڑنا زیادہ بہتر ہوگا۔ آپﷺ عبداﷲ بن ابی کے ہی ہم خیال تھے لیکن آپﷺ نے اکثریت کا فیصلہ ہی منظور فرمایا اور کوچ کا حکم دے دیا۔ عبداﷲ بن ابی نے شہر سے باہر جانے سے انکار کر دیا اس کے پیچھے ہٹنے کی دیر تھی کہ لشکر میں سے تین سو آدمی پیچھے ہٹ گئے۔ تب پتا چلا کہ یہ سب منافقین تھے اور عبداﷲ ان کا سردار ہے۔اب تین ہزار کے مقابلے میں مجاہدین کی نفری صرف سات سو رہ گئی۔
رسول اﷲﷺ دلبرداشتہ نہ ہوئے اور سات سو ہی کو ساتھ لے کر کوہِ احد کے دامن میں شیخین کے مقام پر مجاہدiن کو جنگی ترتیب میں کردیا۔خالد نے ایک بلند ٹیکری پر کھڑے ہوکر مسلمانوں کی ترتیب دیکھی تھی اور اس نے اپنے سالار ابو سفیان کو بتا کر اپنے دستے کی جگہ طے کرلی۔رسولِ اکرمﷺ نے مجاہدین کو کم و بیش ایک ہزار گز لمبائی میں پھیلا دیا۔ پیچھے وادی تھی ۔مجاہدین کے ایک پہلو کے ساتھ پہاڑی تھی لیکن دوسرے پہلو پر کچھ نہیں تھا۔ اس پہلو کو مضبوط رکھنے کیلئے رسول ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کو قریب کی ایک ٹیکری پر بٹھا دیا ۔ان تیر اندازوں کے کمانڈر عبداﷲ بن جبیر تھے ۔”اپنی ذمہ داری سمجھ لو عبداﷲ ۔“رسولِ خداﷺ نے اسے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا ۔”اپنے عقب کو دیکھو، دشمن ہمارے عقب میں نقل و حرکت کر سکتا ہے جو ہمارے لیے خطرہ ہے ۔دشمن کے پاس گھڑ سوار زیادہ ہیں۔وہ ہمارے پہلو پر گھڑ سواروں سے حملہ کر سکتا ہے۔ اپنے تیرانداوں کو گھڑ سواروں پر مرکوز رکھو۔ پیادوں کا مجھے کوئی ڈر نہیں۔“ تقریباً تمام مستند مؤرخین جن میں ابن ہشام اور واقدی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ،لکھتے ہیں کہ رسولِ کریمﷺ نے عبداﷲ بن جبیر ؓکو واضح الفاظ میں کہا تھا” ہماراعقب صرف تمہاری بیداری اور مستعدی سے محفوظ رہے گا۔ تمہاری ذرا سی کوتاہی بھی ہمیں بڑی ذلت آمیز شکست دے سکتی ہے ۔یاد رکھو عبداﷲ! اگر تم دشمن کو بھاگتے ہوئے اور ہمیں فتح یاب ہوتے ہوئے دیکھ لو، تو بھی اس جگہ سے نہ ہلنا ۔اگر دیکھو کہ ہم پر دشمن کا دباؤ بڑھ گیا ہے اور تمہیں ہماری مدد کیلئے پہنچنا چاہیے تو بھی یہ جگہ نہ چھوڑنا۔ پہاڑی کی یہ بلندی دشمن کے قبضے میں نہیں جانی چاہیے ۔یہ بلندی تمہاری ہے ،وہاں سے تم نیچے اس تمام علاقے کے حکمران ہو گے جہاں تک تمہارے تیر اندازوں کے تیرپہنچیں گے۔“خالد نے مسلمانوں کی ترتیب دیکھی اور ابو سفیان کو بتایا کہ مسلمان کھلے میدان کی لڑائی نہیں لڑیں گے ۔ابو سفیان کو اپنی کثیر نفری پر ناز تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ لڑائی کھلے میدان میں یعنی لا محدود محاذ پر ہو تاکہ وہ اپنے پیادوں اور گھوڑوں کی افراط سے مجاہدینِ اسلام کو کچل ڈالے۔ خالد کو اپنے باپ نے جنگی چالوں کی تربیت بچپن سے دینی شروع کر دی تھی۔ دشمن پر بے خبری میں پہلو یا عقب سے جھپٹنا اور دشمن کو چکر دے دے کر مارنا اپنے دستوں کی تقسیم اور ان پر کنٹرول اس کی تربیت میں شامل تھا۔ جو اسے باپ نے دی تھی ۔اس نے تجربے کار سردار کی نگاہوں سے مجاہدین کی ترتیب دیکھی تو اس نے محسوس کیا کہ مسلمان فن و حرب کے کمالات دِکھا سکتے ہیں۔
ابو سفیان اپنی فوج کو مسلمانوں کے بالمقابل لے گیا۔ اس نے گھڑ سواروں کو مسلمانوں کے پہلوؤں پر حملہ کر نے کیلئے بھیجا ۔ایک پہلو پر خالد اور دوسرے پر عکرمہ تھا۔ دونوں کے ساتھ ایک سو گھڑ سوار تھے ۔تمام گھڑ سواروں کا کمانڈر عمرو بن العاص تھا۔ پیادوں کے آگے ابو سفیان نے ایک سو تیر انداز رکھے ۔قریش کا پرچم طلحہ بن ابو طلحہ نے اٹھا رکھاتھا ۔اس زمانے کی جنگوں میں پرچم کو دل جیسی اہمیت حاصل تھی۔ پرچم کے گرنے سے فوج کا حوصلہ ٹوٹ جاتا اور بھگدڑ مچ جاتی تھی۔قریش نے جنگ کی ابتداءاس طرح کی کہ ان کی صفوں سے ایک شخص ابو عامر فاسق آگے ہو کر مجاہدین کے قریب چلا گیا ۔اس کے پیچھے قریش کے غلاموں کی کچھ تعداد بھی تھی۔ ابو عامر مدینہ کا رہنے والا تھا۔ وہ قبیلہ اوس کا سردار تھا۔ جب رسولِ کریمﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ گئے تو ابو عامر نے قسم کھالی تھی کہ وہ آپ )ﷺ(کو اور تمام مسلمانوں کو مدینہ سے نکال کر دم لے گا۔ اس پر ایک بڑی ہی حسین یہودن کا اور یہودیوں کے مال و دولت کا طلسم طاری تھا۔ یہودیوں کی اسلام دشمن کارروائیاں زمین دوز ہوتی تھیں ۔بظاہر انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ دوستی اور فرمانبرداری کا معاہدہ کر رکھا تھا ۔ابو عامر انہی کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنا ہوا تھا۔ لیکن ان یہودیوں نے اسے قریش کا دوست بنا رکھا تھا۔ اب مجاہدین قریش کے خلاف لڑنے کیلئے مدینہ سے نکلے تو ابو عامر قریش کے پاس چلا گیا ۔اس کے قبیلہ اوس کے بہت سے آدمی رسولِ کریمﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کر چکے تھے اور وہ قریش کے مقابلے میں صف آراءتھے ۔ابو عامر آگے چلا گیا اور مجاہدین سے بلند آواز سے مخاطب ہوا ۔رسولِ کریمﷺ نے اسے فاسق کا خطاب دیا تھا۔ ”قبیلہ اوس کے غیرت مند بہادرو !“ابو عامر فاسق نے کہا۔” تم مجھے یقیناً پہچانتے ہو ۔میں کون ہوں ؟میری بات غور سے سن لو“
وہ اپنی للکار پوری نہ کر پایا تھا کہ مجاہدینِ اسلام کی صف سے قبیلہ اوس کے ایک مجاہد کی آواز گرجی ۔”او فاسق بدکار! ہم تیرے نام پر تھوک چکے ہیں ۔“خالد کو وہ وقت یاد آ رہا تھا۔ مجاہدینِ اسلام کی صف سے ابو عامر اور اس کے ساتھ گئے ہوئے غلاموں پر پتھروں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی ۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ پتھر برسانے والے قبیلہ اوس کے مجاہدین تھے۔ابو عامر اور غلام جو مجاہدین کے پتھروں کی زد میں تھے ایک ایک دو دو پتھر کھا کر پیچھے بھاگ آئے ۔
یہودی مدینہ میں بیٹھے لڑائی کی خبروں کا انتظار کر رہے تھے۔ جس یہودن کے طلسم میں ابو عامر گرفتار تھا وہ اپنی کامیابی کی خبر سننے کیلئے بے تاب تھی ۔اسے ابھی معلوم نہ تھا کہ اس کے حسن و جوانی کے طلسم کو مسلمانوں نے سنگسار کر دیا ہے۔ )اس سلسلے کی آنے والی اقساط میں یہودیوں اور قریش کی عورتوں کی زمین دوزکارروائیوں کی تفصیلی داستان سنائی جائے گی(
ابو عامر فاسق کے اس واقعہ سے پہلے وہ عورتیں جو قریش کے لشکر کے ساتھ گئی تھیں لشکر کے درمیان کھڑی ہو کر سریلی آوازوں میں ایسے گیت گا رہی تھیں جن میں بدر میں مارے جانے والے قریش کا ذکر ایسے الفاظ میں ایسی طرز میں کیا گیا تھا کہ سننے والوں کا خون کھولتا اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے ۔ان عورتوں میں سے ایک دو نے جوشیلی تقریر کی صورت میں بھی قریش کے خون کو گرمایا تھا۔
عورتوں کو پیچھے چلے جانے کاحکم ملا تو ابو سفیان کی بیوی ہند نے ایک گھوڑے پر سوار ہو کر ایک گیت گانا شروع کر دیا۔ اس کی آوا ز بلندتھی اور اس میں سوز بھی تھا ۔تاریخ لکھنے والوں نے اس گیت کے پورے اشعار قلم بند نہیں کیے ۔انہوں نے لکھا ہے کہ یہ گیت فحش تھا جس میں مردوعورت کے درپردہ تعلقات کا ذکر تھا۔ اشعار جو تاریخ میں آئے ہیں وہ اس طرح ہیں ۔ان میں جس عبدالدار کا نام آتا ہے ،یہ بنو عبدالدار ہے۔ بنو امیہ اسی کی ایک شاخ تھی بنو عبدالدار قریش کا بہت اونچا خاندان تھا۔
عبدالدار کے سپوتو!۔۔۔ہمارے گھرانو کے پاسبانو!۔۔۔۔ہم رات کی بیٹیاں ہیں۔۔۔ہم تکیوں کے درمیان حرکت کا کرتے ہیں ۔۔۔اس حرکت میں لطف اور لذت ہوتی ہے ۔۔۔تم دشمن پر چڑھ دوڑے تو ہم تمہیں اپنے سینوں سے لگالیں گی۔۔۔تم بھاگ آئے تو ہم تمہارے قریب نہیں آئیں گی ۔۔۔اس کے بعد ابو عامر فاسق پر مجاہدینِ اسلام کی طرف سے سنگ باری ہوئی اور اس کے فوراً بعد قریش نے مجاہدین پر تیر پھینکنے شروع کر دیئے ۔مجاہدین نے اس کے جواب میں تیر برسائے ۔خالد اپنے پہلو والے مسلمانوں کے پہلو پر حملہ کرنے کیلئے اپنے ایک سو سواروں کے ساتھ تیزی سے بڑھا اسے معلوم نہ تھا کہ بلندی پر تیر انداز چھپے بیٹھے ہیں ۔اس کے سوار بے دھڑک چلے آ رہے تھے۔ راستہ ذرا تنگ تھا ۔سواروں کو آگے پیچھے ہونا پڑا۔
خالد سوچ سمجھ کر اپنے سوار دستے کو اس پہلو پر لایا تھا۔ اپنے باپ کی تربیت کے مطابق اسے بڑی خود اعتمادی سے توقع تھی کہ وہ ہلہ بول کر مسلمانوں کو اس پوزیشن میں لے آئے گا کہ وہ پسپا ہو جائیں گے اور اگر جم کر نہ لڑے تو قریش کے گھوڑوں تلے کچلے جائیں گے ۔مگر مسلمانوں کے پہلو سے اس کے سوار ابھی دور ہی تھے کہ اوپر سے تیر اندازوں نے اس کے اگلے سواروں کو نا آگے جانے کے قابل چھوڑا نہ وہ پیچھے ہٹنے کے قابل رہے ۔ایک ایک سوار کئی کئی تیر کھا کر گرا اور جن گھوڑوں کو تیر لگے انہوں نے خالد کے سوار دستے کیلئے قیامت بپا کردی۔ پیچھے والے سواروں نے گھوڑے موڑے اور پسپا ہو گئے۔
ادھر قریش کی عورتوں نے دف اور ڈھولک کی تھاپ پر وہی گیت گانا شروع کر دیا جو ہند نے اکیلے گایا تھا۔” عبدالدا ر کے سپوتو! ہم رات کی بیٹیاں ہیں ہم تم تکیوں کے درمیان “
مؤرخ واقدی لکھتا ہے کہ عربی جنگجوؤں کے اس وقت رواج کے مطابق ایک ایک جنگجو کے لڑنے کا مرحلہ آیا۔ سب سے پہلے قریش کے پرچم بردار طلحہ بن ابو طلحہ نے آگے جا کر مجاہدین ِ اسلام کو للکارا کہ اس کے مقابلے کیلئے کسی کو آگے بھیجو ۔”آ میرے دین کے دشمن !“حضرت علیؓ نے تند ہوا کے جھونکے کی طرح آگے آ کر کہا۔” میں آتا ہوں تیرے مقابلے کیلئے ۔“
طلحہ اپنے قبیلے کا پرچم تھامے تلوار لہراتے ہوئے بپھرا ہوا آیا مگر ا س کا وار ہوا کو چیرتا ہوا گزر گیا ۔وہ ابھی سنبھل ہی رہا تھا کہ حضرت علیؓ کی تلوار نے اسے ایسا گہرا زخم لگایا کہ پہلے اس کا پرچم گرا پھر وہ خود گرا ۔قریش کا ایک آدمی دوڑا آےا اور پرچم اٹھا کر پیچھے چلا گیا۔ علیؓ اسے بھی گرا سکتے تھے مگر انفرادی مقابلوں میں یہ روا نہ تھا۔ طلحہ کو اٹھا کر پیچھے لے آئے۔ اس کے خاندان کا ایک اور آدمی آگے بڑھا۔
میں انتقام لینے کا پابند ہوں ۔“وہ للکار کر آگے گیا۔” علی آ میری تلوار کی کاٹ دیکھ۔“ حضرت علیؓ خاموشی سے اس کے مقابلے پر آگئے ۔دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک چکر کاٹا۔ پھر ان کی تلواریں اور ڈھالیں ٹکرائیں اور اس کے بعد سب نے دیکھا کہ حضرت علیؓ کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے اور ان کا مد مقابل زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا۔
پھر قریش کے متعدد آدمی باری باری للکارتے ہوئے آگے بڑھے۔ مجاہدین کے مقابلے میں مرتے گئے۔ قریش کا سالارِ اعلیٰ ابو سفیان اپنے آدمیوں کو گرتا دیکھ کر غصے سے بے قابو ہو گیا۔ جنگی دستور کے مطابق اسے انفرادی مقابلے کیلئے نہیں اترنا چاہیے تھا کیونکہ وہ سالار تھا۔ اس کے مارے جانے سے اس کی فوج میں ابتری پھیل سکتی تھی لیکن وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا وہ گھوڑے پر سوار تھا۔ اس نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور للکارتا ہوا آگے چلا گیا۔ اس کی بیوی ہند نے اسے جاتے دیکھا تو اپنے اونٹ پر سوار ہو کر آگے چلی گئی اور بڑی بلند آواز سے وہی گیت گانے لگی ۔جس کے اشعار یہ بھی تھے کہ تم بھاگے آئے تو ہم تمہیں اپنے قریب نہیں آنے دیں گی۔“ابو سفیان گھوڑے پر سوار تھا لیکن اس کے مقابلے کیلئے جو مسلمان آگے آیا وہ پیادہ تھا۔ تاریخ اسے ”حنظلہ بن ابو عامرؓ“ کے نام سے یاد کرتی ہے ۔ابو سفیان کے ہاتھ میں لمبی برچھی تھی۔ کسی کو بھی توقع نہیں تھی کہ تلوار والا ،پیادہ برچھی والے گھڑسوار سے زندہ بچ جائے گا۔ ابو سفیان کا گھوڑا حنظلہؓ پر سر پٹ دوڑا آیا ۔ابو سفیان نے برچھی تول کر پھر تاک کر ماری لیکن حنظلہؓ پھرتی سے ایک طرف ہو گیا ۔اس طرح تین مرتبہ ہوا۔ تیسری مرتبہ ابو سفیان کا گھوڑا نکل گیا تو حنظلہؓ اس کے پیچھے دوڑ پڑا ۔گھوڑا رک کر پیچھے کو مڑا تو حنظلہؓ اس تک پہنچ چکا تھا ۔ابو سفیان اسے دیکھ نہ سکا ۔حنظلہؓ نے گھوڑے کی اگلی ٹانگوں پر ایسا زور دار وار کیا کہ گھوڑا گر پڑا ۔ابو سفیان دوسری طرف گرا ۔حنظلہؓ اس پر حملہ کرنے کو آگے بڑھا تو ابو سفیان گرے ہوئے گھوڑے کے اردگرد دوڑ دوڑ کر اپنے آپ کو بچانے لگا اور اس کے ساتھ ہی اس نے قریش کو مدد کیلئے پکارا۔ قریش کا ایک پیادہ دوڑا آیا۔ مسلمان اس غلط فہمی میں رہے کہ یہ آدمی ابو سفیان کو اپنے ساتھ لے جائے گا لیکن اس نے بے اصولی کا مظاہرہ کیا۔ پیچھے سے حنظلہ ؓپر وار کر کے اسے شہید کر دیا ۔ابو سفیان اپنی صفوں میں بھاگ گیا۔
آخری مقابلے کیلئے قریش کی طرف سے عبدالرحمٰن بن ابو بکر آیا۔ مؤرخ واقدی نے یہ واقعہ اس طرح بیان کیا ہےکہ عبدالرحمٰن بن ابو بکر کی للکار پر اس کے والد حضرت ابو بکر صدیقؓ جو اسلام قبول کرکے رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ تھے۔ تلوار نکال کر اپنے جوان بیٹے کے مقابلے کیلئے نکلے۔
”آ گے آ مسلمان باپ کے کافر فرزند !“حضرت ابو بکر صدیقؓ نے للکار کر کہا۔رسولِ کریمﷺ نے دیکھاکہ باپ بیٹا مقابلے پر اتر آئے ہیں تو آپﷺ نے دوڑ کر حضرت ابو بکر صدیقؓ کو روک لیا ۔”تلوار نیام میں ڈالو ابو بکر “۔رسولِ کریمﷺ نے فرمایااور ابو بکر صدیقؓ کو پیچھے لے گئے۔خالد کو جنگ کا شوروغل اب بھی سنائی دے رہاتھا۔ وہ منظر اس کی آنکھوں نے اپنی پلکوں میں محفوظ کر رکھا تھا ۔انفرادی مقابلے ختم ہوتے ہی قریش نے مسلمانوں پر ہلہ بول دیا۔ رسولِ اکرمﷺ نے احد کی پہاڑی کو اپنے عقب میں رکھا ہوا تھا۔ اس لیے مجاہدینِ اسلام کو عقبی حملے کا خطرہ نہیں تھا ۔آمنے سامنے کا معرکہ خونریز تھا۔ مسلمانوں کی نفری بہت تھوڑی تھی۔ اس کمی کو انہوں نے جذبہ تیغ زنی کے کمالات سے پورا کر دیا۔ اگرقریش کو نفری کی افراط حاصل نہ ہوتی تو وہ مسلمانوں کے آگے نہیں ٹھہر سکتے تھے ۔وہ نفری کے زور پر لڑ رہے تھے ۔خالد کی نظر رسولِ کریمﷺ پر تھی۔ آپﷺ ایک پہلو پر تھے ۔یہی پہلو تھا کہ جس پر خالد کو حملہ کرنا تھا۔اب کے اس نے اپنے سواروں کو یہ حکم دیا کہ وہ گھوڑوں کو سر پٹ دوڑاتے تنگ راستے سے آگے نکل جائیں اور مسلمانوں کے پہلو پر ہلہ بولیں مگر عبداﷲ بن جبیرؓ کے پچاس تیر اندازوں نے سواروں کو اس طرح پسپا کر دیا کہ وہ چند گھوڑے اور زخموں سے کراہتے ہوئے گھڑ سواروں کو پیچھے چھوڑ گئے۔معرکہ عروج پر تھا۔ صرف ایک آدمی تھا جو لڑ نہیں رہا تھا۔ وہ میدان ِ جنگ میں برچھی اٹھائے یوں گھوم پھر رہا تھا جیسے کسی کو ڈھونڈ رہا ہو۔ وہ وحشی بن حرب تھا۔ وہ حمزہ ؓکو ڈھونڈ رہاتھا ۔حمزہ ؓکو قتل کرنے کے اس کیلئے دو انعام تھے۔ ایک یہ کہ اس کا آقا اسے آزاد کر دے گا اور دوسرا ابو سفیان کی بیوی ہند کے وہ زیورات جو اس نے پہن رکھے تھے ۔اسے حمزہؓ نظر آ گئے وہ قریش کے ایک آدمی سبا بن عبدالعزیٰ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ عرب میں رواج تھا کہ ختنہ عورتیں کیا کرتی تھیں ۔مؤرخ ابن ہشام کے مطابق ا سلام سے پہلے ہی عربوں میں ختنہ کا رواج موجود تھا۔ حمزہؓ نے جس سبا کو للکارا تھا اس کی ماں ختنہ کیاکرتی تھی ۔”ختنہ کرنے والی کے بیٹے “حمزہ ؓنے اسے للکارا۔”ا دھر آ اور مجھے آخری بار دیکھ لے۔“ سبا بن عبدالعزیٰ حمزہؓ کی طرف بڑھا ۔غصہ سے اس کا چہرہ لال تھا ۔وہ تلوار اور ڈھال کی لڑائی کا ماہر تھا ۔حمزہؓ بھی کچھ کم نہ تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے اور ایک دوسرے پر وار کرنے لگے۔دونوں کی ڈھالیں وار روک رہی تھیں ۔وہ پینترے بدل بدل کر وار کرتے تھے ۔لیکن ڈھالیں تلواروں کے رستے میں آجاتی تھیں۔
اس وقت وحشی بن حرب جھکا ہوا ہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اسے زمین اور جھاڑیوں نے اوٹ دے رکھی تھی۔ حمزہ ؓاپنے دشمن کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ سبا کے سوا انہیں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔وحشی ان کے قریب پہنچ گیا۔ برچھی نشانے پر پھینکنے کا وہ ماہر تھا۔ وہ اتنا قریب ہو گیا جہاں سے اس کی برچھی خطا نہیں جا سکتی تھی ۔وہ اٹھ کھڑا ہوا اور برچھی کو ہاتھ میں تولا پھر اسے پھینکنے کی پوزیشن میں لایا۔ حمزہؓ نے سبا پر یکے بعددیگرے تزی سے دو تین وار کیے ۔آخری وار ایسا پڑا کہ حمزہ ؓکی تلوار سبا کے پیٹ میں اتر گئی۔ حمزہؓ نے تلوار اس کے پیٹ سے اس طرح نکالی کہ اس کا پیٹ اور زیادہ پھٹ گیااور وہ حمزہؓ کے قدموں میں گر پڑا۔ حمزہؓ ابھی سنبھلے ہی تھے کہ وحشی نے ان پر پوری طاقت سے برچھی پھینکی۔ فاصلہ بہت کم تھا ۔برچھی حمزہ ؓکے پیٹ میں اتنی زیادہ اتر گئی کہ اس کی انی حمزہؓ کی پیٹھ سے آگے نکل گئی ۔حمزہؓ گرے نہیں ۔انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا انہیں وحشی دِکھائی دیا۔ حمزہ ؓبرچھی اپنے جسم میں لیے ہوئے وحشی کی طرف بڑھے۔ وحشی جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا رہا۔ حمزہؓ چار پانچ قدم چل کر گر پڑے۔ وحشی ان کے جسم کو ہلتا جلتا دیکھتا رہا ۔جب جسم کی حرکت بند ہو گئی تو وحشی ان تک آیا ۔وہ شہید ہو چکے تھے۔ وحشی نے ان کے جسم سے برچھی نکال لی اور چلا گیا ۔اب وہ ہند اور اپنے آقا جبیر بن مطعم کو ڈھونڈنے لگا۔خالد کو وہ معرکہ یاد آ رہا تھا اور اس کے دل پر بوجھ سا بڑھتا جا رہا تھا۔اس کا گھوڑا چلا جا رہا تھا۔ وہ نشیبی جگہ سے گزر رہا تھا اس لیے احد کی پہاڑی کی چوٹی اس کی نظروں سے اوجھل ہو گی تھی ۔اسے اپنے قبیلے کی عورتیں یاد آئیں جو قریش اور ان کے اتحادی قبائل کو جوش دِلا رہی تھیں ۔خالد کویاد آیا کہ وہ معرکہ کا نظارہ کرنے کیلئے ایک بلند جگہ چڑھ گیا تھا۔ اسے مسلمان عورتیں نظر آئیں۔ مسلمان اپنے جن زخمیوں کو پیچھے لاتے تھے انہیں عورتیں سنبھال لیتی تھیں ان کی مرہم پٹی کرتیں اور انہیں پانی پلاتیں ۔مسلمانوں کے ساتھ چودہ عورتیں تھیں جن میں حضرت فاطمہ ؓ بھی تھیں۔پھر یوں ہوا کہ قلیل تعداد مجاہدین ،کثیر تعداد کفار پر غالب آ گئے۔ قریش کا پرچم بردار گرا تو کسی اور نے پرچم اٹھا لیا ،وہ بھی گرا ۔پرچم کئی بار گرا۔ آخر میں ایک غلام نے پرچم اٹھا کر اونچا کیا لیکن وہ بھی مارا گےا۔ پھر مسلمانوں نے قریش کو پرچم اٹھانے کی مہلت نہ دی۔ قریش کے جذبے جواب دے گئے۔
خالد نے ان کی پسپائی دیکھی اور یہ بھی دیکھا تھا کہ مسلمان ان کا تعاقب کر رہے ہیں۔ قریش اپنے کیمپ میں بھی نہ ٹھہرے۔ اپنا مال و اسباب چھوڑ کر افراتفری کے عالم میں بھاگ گئے ۔یہاں سے جنگ کے بعد کا مرحلہ شروع ہو گیا۔ مسلمانوں نے فتح کی خوشی میں اور انتقامی جذبے کے تحت قریش کے کیمپ کو لوٹنا شروع کر دیا۔ وہ فتح و نصرت کے نعرے لگا رہے تھے۔ قریش ایسے بوکھلا کہ بھاگے کہ انہیں اپنی عورتوں کا بھی خیال نہ رہا۔ وہ پیدل بھاگی جا رہی تھیں۔ لیکن مسلمانوں نے ان کی طرف آنکھ اٹھا کہ بھی نہ دیکھا ۔قریش کے گھڑ سواروں کے ایک دستے کا کمانڈر عکرمہ اور دوسرے کا خالد تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے پہلوؤں پر حملہ کرنا تھا مگر جنگ کا پانسا بری طرح پلٹ گیا تھا۔ عکرمہ اور خالد نے پھر بھی اپنے اپنے سواروں کو وہیں رکھا جہاں انہیں تیاری کی حالت میں کھڑا کیا گیا تھا۔ خالد کو اس کیفیت میں بھی توقع تھی کہ وہ شکست کو فتح میں بدل دے گا لیکن جس راستے سے اسے گزرنا تھا وہاں مسلمان تیر انداز تیار کھڑے تھے ۔ان مسلمان تیر اندازوں نے اپنی بلند پوزیشن سے دیکھا کہ قریش بھاگ گئے ہیں اور ان کے ساتھی مال غنیمت جمع کر رہے ہیں تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑنے لگے ۔ان کے کمانڈر عبداﷲ بن جبیر ؓنے انہیں کہا کہ” اپنے رسول ﷺ کی حکم عدولی نہ کرو۔ آپﷺ کا حکم ہے کہ آپﷺ کی اجازت کے بغیر یہاں سے کوئی نہ ہٹے ۔“”جنگ ختم ہو گئی ہے ۔“تیر انداز شور مچاتے ہوئے پہاڑی سے اتر نے لگے ۔”مالِ غنیمت مالِ غنیمت فتح ہماری ہے۔“ عبداﷲ بن جبیر ؓکے ساتھ صرف نو تیر انداز رہ گئے تھے۔
خالد نے یہ منظر دیکھا تو اسے ایسا لگا جیسے خواب دیکھ رہا ہو۔ وہ یہی چاہتا تھا ۔وہ تیر اندازوں کو دیکھتا رہا۔ جب وہ قریش کے کیمپ میں پہنچ گئے تو اس نے اس پہاڑی )عینین(پر حملہ کر دیا جہاں پر عبداﷲ بن جبیرؓ اور ان کے نو تیر انداز رہ گئے تھے۔ خالد انہیں نظر انداز بھی کر سکتا تھا لیکن ان سے وہ انتقام لینا چاہتا تھا۔ اس کے گھڑ سوار پہاڑی پر چڑھتے جا رہے تھے۔ اوپر سے تیر انداز تیزی سے تیر برسا رہے تھے۔
عکرمہ نے خالد کو عینین پر حملہ کرتے دیکھا تو وہ بھی اپنے سوار دستے کو وہیں لے گیا اور ا سکے گھوڑے ہر طرف سے اوپر چڑھنے لگے ۔ ۔۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: شمشیر بے نیام از عنایت الله مکمل ناول

Post by ایکسٹو »

قسط‎ ‎نمبر.....3
سواروں کے پاس بھی تیر کمانیں تھیں۔ وہ اوپر کو تیر چلا رہے تھے۔ لیکن اتنے گھڑ سواروں کو روکنا اوپر والوں کیلئے ممکن نہ تھا۔ سوار اوپر چلے گئے ۔تیر انداز دست بہ دست لڑائی بھی لڑے اور سب زخمی ہو کر گرے۔ خالد نے زخمیوں کو پہاڑی سے نیچے پھینک دیا۔ عبداﷲ بن جبیر ؓبھی شہید ہو گئے ۔وہاں سے خالد اور عکرمہ نے اپنے گھڑ سواروں کو اتارا اور ا س مقام پر آگئے جہاں سے مسلمانوں نے لڑائی کی ابتداءکی تھی۔ خالد کے حکم پر دونوں نے مل کر مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ مسلمان لڑنے کی حالت میں نہیں تھے لیکن رسولِ کریمﷺ نے مجاہدین کی کچھ تعداد کو اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا ۔یہ مجاہدین گھڑ سواروں کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔
قریش کے ساتھ جو عورتیں آئی تھیں وہ بھاگ گئی تھیں لیکن عمرہ نام کی ایک عورت وہیں کہیں چھپ گئی تھی ۔اس نے جب قریش کے گھڑ سواروں کو مسلمانوں پر حملہ کرتے دیکھا تو اسے قریش کا پرچم زمین پر پڑا نظر آ گیا ۔اس عورت نے پرچم اٹھا کر اوپر کر دیا۔ ابو سفیان نے اپنے بھاگتے ہوئے پیادوں پر قابو پا لیا تھا۔ اس نے ادھر دیکھا تو اسے اپنا پرچم لہراتا ہوا نظر آ گیا۔ اس نے ہبل زندہ باد اور عزیٰ زندہ باد کے نعرے لگائے اور پیادوں کو واپس لاکر مسلمانوں کو گھیرے میں لے لیا۔ خالد کو وہ وقت یاد آ رہا تھا۔ وہ رسولِ کریمﷺ کو ڈھونڈ رہا تھا اور آج چار برس بعد وہ مدینہ جا رہا تھا۔ اس کے ذہن پر رسولِ کریمﷺ کا غلبہ تھا ۔
اُحد کی پہاڑی افق سے ابھرتی آ رہی تھی اور خالد کا گھوڑا خراماں خراماں چلا جا رہا تھا۔ خالد کی ذہنی کیفیت کچھ ایسی ہوتی جا رہی تھی جیسے اسے آگے جانے کی کوئی جلدی نہ ہو اور کبھی وہ لگام کو یوں جھٹکا دیتا جیسے اسے بہت جلدی پہنچنا ہو،لیکن جس منزل کو وہ جا رہا تھا وہ منزل ابھی اس پر پوری طرح واضح نہیں ہوئی تھی۔ کبھی اسے یوں لگتا جیسے ایک مقناطیسی قوت ہے جو اسے آگے ہی آگے کھینچ رہی ہے اور کبھی وہ محسوس کرتا جیسے اس کے اندر سے اٹھتی ہوئی ایک قوت اسے پیچھے دھکیل رہی ہے۔”خالد!“ اسے ایک آواز سنائی دی ۔جو اس کے اندر سے اٹھتی تھی لیکن اسے حقیقی سمجھ کر اس نے گھوڑے کی باگ کھینچی اور آگے پیچھے دیکھا وہاں ریت کے سوا کچھ بھی نہ تھا لیکن آواز آ رہی تھی ۔”خالد کیا یہ سچ ہے جو میں نے سنا ہے؟“خالد نے اس آواز کو پہچان لیا ۔یہ اس کے ساتھی عکرمہ کی آواز تھی۔
ایک ہی روز پہلے اسے عکرمہ کہہ رہا تھا ”اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ محمد)ﷺ( خدا کا بھیجا ہوا نبی ہے تووہ خیال دل سے نکال دو ۔محمد)ﷺ( ہمارے بہت سے رشتے داروں کا قاتل ہے۔ اپنے قبیے کو دیکھ جو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے محمد )ﷺ(کو قتل کرنے کی قسم کھائے ہوئے ہے۔“ خالد نے لگام کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور گھوڑا چل پڑا ۔اس کا ذہن پھر چار برس پیچھے چلا گیا جب وہ احد کے معرکے میں رسولِ کریمﷺ کو ڈھونڈ رہا تھا ۔وہ قریش کی اس قسم کو پورا کرنے کا عزم لیے ہوئے تھا کہ رسول اﷲﷺ کو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے قتل کرنا ہے۔ اسے یاد آرہا تھا کہ مسلمانوں کے تیر اندازوں نے جب عینین کی پہاڑی چھوڑ دی تھی تو اس نے ا س پہاڑی پر حملہ کرکے عبداﷲ بن جبیرؓ اور ان کے نو تیر اندازوں کو جو رسول اﷲﷺ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے وہاں رہ گئے تھے ختم کیا تھا۔ مسلمانوں کے ہاتھوں سے بھاگے ہوئے قریش پھر واپس آ گئے تھے اور انہوں نے اپنے آپ کو منظم کر لیا تھا۔مسلمان یہ معرکہ ہار چکے تھے اور یہ اپنے رسول اﷲﷺکی حکم عدولی کا نتیجہ تھا۔ خالد اور ابو جہل کا بیٹا عکرمہ فنِ حرب و ضرب کے ماہر تھے۔ ان کیلئے ایک ایک مسلمان کو قتل کرنا اب مشکل نہیں رہا تھا ۔ خالد دیکھ رہا تھا کہ مسلمان دو حصوں میں بٹ گئے تھے بڑا حصہ الگ تھا جو اپنے کمانڈر رسولِ کریمﷺ سے کٹ گیا تھا۔ چند ایک تیر انداز رسول اﷲﷺ کے ساتھ تھے۔یہ وہ صحابہ کرامؓ تھے جو قریش کے حملے کی وجہ سے افرا تفری کا شِکار نہیں ہوئے تھے۔ ان کی تعداد تیس تھی ۔ان میں ابو دجانہؓ ،سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت ابو بکرصدیقؓ،حضرت ابو عبیدہؓ ، طلحہ بن عبداﷲؓ ،مصعب بن عمیرؓ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان چودہ خواتین میں سے جو زخمیوں کی دیکھ بھال کیلئے ساتھ آئی تھیں ۔دو رسول اﷲﷺ کے ساتھ تھیں ۔ایک اُمّ ِعمارہؓ تھیں اور دوسری اُمّ ِایمنؓ نام کی ایک حبشی خاتون تھیں۔ اُمّ ِایمن آپﷺکے بچپن میں آپ ﷺکی دایہ رہ چکی تھیں۔ باقی بارہ خواتین ابھی تک زخمیوں کو اٹھانے اور پیچھے لانے اور ان کی مرہم پٹی کرنے میں مصروف تھیں ۔خالد رسول ِ کریمﷺ کو ڈھونڈ رہا تھا لیکن وہ میدانِ جنگ میں زیادہ گھوم پھر نہیں سکتا تھاکیونکہ اس کی کمان میں گھڑ سواروں کا ایک جیش تھا جسے اس نے پوری طرح اپنی نظم و نسق میں رکھا ہوا تھا ۔وہ اندھا دھند حملے کا قائل نہ تھا۔ اس کا اصول تھا کہ دشمن کی ایسی رگ پر ضرب لگاؤ کہ دوسری ضرب سے پہلے وہ گھٹنے ٹیک دے۔
آج چار برس بعد جب کہ وہ تن تنہا صحرا میں جا رہا تھا ۔اس کے ذہن میں گھوڑے دوڑ رہے تھے ۔اسے تیر کمانوں کے زنّاٹے سنائی دے رہے تھے ۔اس کے ذہن میں مسلمانوں کے نعرے گونج رہے تھے ۔اس کا خیال تھا کہ مسلمان یہ ظاہر کرنے کیلئے نعرے لگا رہے ہیں کہ انہیں موت کا کوئی ڈر نہیں ۔طنز اور نفرت سے اب بھی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کرے گا ۔قیدی کم ہی بنائے گا ۔اسے ابھی پتا نہیں چل رہا تھا کہ رسولِ کریمﷺ کہاں ہیں ۔اس نے دیکھا کہ ابو سفیان جو بھاگتے ہوئے قریش کو ساتھ لے کر واپس آ گیا تھا۔ مسلمانوں کی فوج کے بڑے حصے پر حملہ آور ہو چکا تھا اور مسلمان بے جگری سے لڑ رہے تھے۔ مسلمانوں نے اسے اپنی زندگی کا آخری معرکہ سمجھ کر شجاعت و بے خوفی کے ایسے ایسے مظاہرے کیے کہ کثیر تعداد قریش پریشان ہو گئی۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر خالد آگ بگولہ ہو گیا ۔اس نے اپنے سواروں کو مسلمانوں پر ہلہ بولنے کا حکم دیا۔ اس نے تلوار نیام میں ڈال لی اور برچھی ہاتھ میں لے لی ۔اس نے مسلمانوں پر عقب سے حملہ کیا ۔اس نے برچھی سے مسلمانوں کو چن چن کر مارا ۔اس کی برچھی جب کسی مسلمان کے جسم میں داخل ہوتی تو وہ چلا کر کہتا ۔”میں ہوں ابو سلیمان !“ہر برچھی کے وار کے ساتھ اس کی للکار سنائی دیتی تھی کہ” میں ہوں ابو سلیمان!“آج چار برس بعد جب وہ مسلمانوں کے مرکز مدینہ کی جانب جا رہا تھا تو اسے اپنی ہی للکار سنائی دے رہی تھی”میں ہوں ابو سلیمان !“ اسے یاد نہیں آ رہا تھا کہ اس کی برچھی کتنے مسلمانوں کے جسموں میں اتری تھی ۔وہ رسول اﷲﷺ کو بھول گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اسے پتا چلا تھا کہ مسلمان اپنے نبیﷺ کی کمان سے نکل چکے ہیں اور عکرمہ مسلمانوں کے نبیﷺ کی طرف چلا گیا ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ رسول اﷲﷺ کی کمان ختم ہو چکی تھی اور معرکے کی صورت حال ایسی ہو گئی تھی کہ آپﷺ مسلمانوں کو از سرِ نو منظم نہیں کر سکتے تھے لیکن آپ ﷺ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان بچانے کیلئے میدانِ جنگ سے نکلنا بھی نہ چاہتے تھے۔ حالانکہ صورتِ حال ایسی تھی کہ پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا لیکن آپﷺ کسی بہتر پوزیشن میں جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ آپ ﷺکو معلوم تھا کہ قریش آپﷺ کو ڈھونڈ رہے ہوں گے اور آپﷺ کے گروہ پر بڑا شدید حملہ ہو گا۔
آپﷺ ایک پہاڑی کی طرف بڑھنے لگے ۔آپﷺ کے ساتھیوں نے آپﷺکو اپنے حلقے میں لے رکھا تھا۔ آپﷺ تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ عکرمہ نے اپنے گھڑ سواروں سے آپﷺ پر حملہ کر دیا۔ قرiش کے ایک پیادہ جیش کو کسی طرح پتا چل گیا کہ رسولِ کریمﷺ پر عکرمہ نے حملہ کر دیا ہے تو قریش کا یہ پیادہ جیش بھی آپﷺ کے گروہ پر ٹوٹ پڑا۔ آپﷺ کے اور آپﷺ کے کسی ایک بھی ساتھی کے بچ نکلنے کا سوال ہی ختم ہو گیا تھا۔ آپﷺ کے تیس ساتھیوں نے اور ان دو خواتین نے جو آپﷺ کے ساتھ تھیں ۔آپﷺ کے گرد گوشت پوست کی دیوار کھڑی کر دی۔ خالد کو یاد آ رہا تھا کہ رسول اﷲﷺ جسمانی طاقت کے لحاظ سے بھی مشہور تھے ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ آپﷺ نے عرب کے مانے ہوئے پہلوان رکانہ کو تین بار اٹھا اٹھا کہ پٹخا تھا ۔اب میدانِ جنگ میں ان کی طاقت کے ایک اور مظاہرے کا وقت آ گیا تھا ۔گوشت پوست کی وہ دیوار جو آپﷺ کے فدائین نے آپﷺ کے ارد گرد کھڑی کر دی تھی اسے آپﷺ نے خود توڑا۔آپﷺ کے ہاتھ میں کمان تھی ۔ترکش میں تیر بھی تھے۔ اس وقت خالد مسلمانوں کے بڑے حصے میں الجھا ہوا تھا۔ اسے جب بعد میں بتایا گیا تھا کہ جب رسول اﷲﷺ اور ان کے تیس ساتھی اور دو عورتیں قریش کے گھڑ سواروں اور پیادوں کے مقابلے میں جم گئے تھے تو خالد نے بڑی مشکل سے یقین کیا تھا ۔اس نے ایک بار پھر کہا تھا کہ یہ طاقت جسمانی نہیں ہو سکتی، یہ کوئی اور ہی طاقت ہے ۔اس وقت سے ایک سوال اسے پریشان کر رہا تھا کہ کیا عقیدہ طاقت بن سکتا ہے ؟وہ اپنے قبیلے میں کسی سے اس سوال کا جواب نہیں لے سکتا تھا کیونکہ فوراً یہ الزام عائد ہو سکتا تھا کہ اس پر بھی محمد )ﷺ( کا جادو اثر کر گیا ہے ۔آج وہ یہی سوال اپنے ذہن میں لیے مدینہ کی طرف جا رہا تھا احد کی پہاڑی افق سے اوپر اٹھ آئی تھی ۔چار برس پرانی یادیں اسے پھر اس پہاڑی کے دامن میں لے گئیں جہاں اسے اپنا ہی نام سنائی دے رہا تھا ۔”ابو سلیمان ابو سلیمان “وہ اپنے تصور میں دیکھنے لگا کہ ان تیس آدمیوں اور دو عورتوں نے اتنے سارے گھڑ سواروں اور پیادوں کا مقابلہ کس طرح کیا ہو گا۔ رسولِ کریمﷺ اپنے دستِ مبارک سے تیر برسا رہے تھے۔ آپﷺ کے ساتھی بڑھ چڑھ کر آپﷺ کو اپنے حلقے میں لے لیتے ۔ایک مؤرخ مغازی کی تحریر کے مطابق آپﷺ اپنے گرد حلقے کو بار بار توڑتے اور جدھرسے دشمن ان کی طرف بڑھتا اس پرتیر چلاتے۔آپﷺ کی جسمانی طاقت عام انسان کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی ۔
آپﷺ کمان کو اس قدر زور سے کھینچتے تھے کہ آپﷺ کا چھوآڑا ہوا تیر جس جسم میں لگتا تھا تیر کی نوک اس جسم کے دوسری طرف نکل جاتی تھی۔ آپﷺ نے اس قدر تیر چلائے تھے ایک تیر چلانے کیلئے آپﷺ نے کمان کو کھینچا تو کمان ٹوٹ گئی ۔آپﷺ نے اپنے ترکش میں بچے ہوئے تیر سعد بن ابی وقاصؓ کو دے دیئے ۔سعد بن ابی وقاصؓ کے نشانے کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ خود آپﷺ بھی سعد ؓکے نشانے کو تسلیم کرتے تھے۔ ادھر مسلمان ابو سفیان اور خالد کے ہاتھوں کٹ رہے تھے اور خون کا آخری قطرہ بہہ جانے تک مقابلہ کر رہے تھے ۔ادھر آپ ﷺکے تیس فدائین اور دو خواتین کی بے جگری کا یہ عالم تھا جیسے ان کے جسم نہیں ان کی روحیں لڑ رہی ہوں۔ مشہور مؤرخ طبری لکھتا ہے کہ کہ ایک ایک مسلمان نے بیک وقت چار چار پانچ پانچ قریش کا مقابلہ کیا ۔ان کا انداز ایسا دہشت ناک تھا کہ قریش پیچھے ہٹ جاتے تھے یا ان پر حملہ کرنے والا اکیلا مسلمان زخموں سے چور ہو کر گر پڑتا تھا۔ قریش نے جب رسول ِاکرمﷺ کے فدائین کی شجاعت کا یہ عالم دیکھا تو کچھ پیچھے ہٹ کر ان پر تیروں کے ساتھ ساتھ پتھر بھی برسانے لگے۔ اس کے ساتھ ہی قریش کے چند ایک گھڑ سوار سر پٹ گھوڑے دوڑاتے آپﷺ پر حملہ آور ہوئے لیکن آپ ﷺکے ساتھیوں کے تیر ان کے جسموں میں اتر کر انہیں واپس چلے جانے پر مجبور کردیتے تھے ۔اس صورتِ حال سے بچنے کیلئے قریش نے چاروں طرف سے تیروں اور پتھروں کا میِنہ برسا دیا۔ خالد کو عکرمہ نے بتایاتھا کہ:” ابو دجانہ‘ محمد)ﷺ (کے آگے جا کھڑے ہوئے ۔ان کی پیٹھ دشمن کی طرف تھی۔ ابو دجانہ بیک وقت دو کام کر رہے تھے ایک یہ کہ وہ اپنے تیر سعد بن ابی وقاص کو دیتے جا رہے تھے اور سعد بڑی تیزی سے تیر برسا رہے تھے۔ اسکے ساتھ ہی ابو دجانہ محمد)ﷺ( کو تیروں سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ تیروں اور پتھروں کی بارش میں کوئی نہ دیکھ سکا کہ ابو دجانہ کس حال میں ہیں۔ جب ابو دجانہ گر پڑے تواس وقت دیکھاکہ ان کی پیٹھ میں اتنے تیر اتر گئے تھے کہ ان کی پیٹھ خار پشت کی پیٹھ لگتی تھی۔ “رسولِ اکرمﷺ کو بچانے کیلئے آپﷺ کے کئی ساتھیوں نے جان دے دی۔لیکن عکرمہ اور اسکے گھڑ سواروں اور پیادوں پر اتنی دہشت طاری ہو چکی تھی کہ وہ پیچھے ہٹ گئے۔ قریش تھک بھی گئے تھے۔ رسولِ کریمﷺ نے اپنے ساتھیوں کاجائزہ لیا ۔ہر طرف خون ہی خون تھا لیکن زخمیوں کو اٹھانے اور مرہم پٹی کرنے کا موقع نہ تھا۔ دشمن ایک اور ہلّہ بولنے کیلئے پیچھے ہٹا تھا ۔
”مجھے قریش کے ایک اور آدمی کا انتظار ہے۔“ رسولِ اکرمﷺنے اپنے ساتھیوں سے کہا۔” کون ہے وہ یا رسول اﷲﷺ!“ آپ ﷺکے ایک صحابیؓ نے پوچھا ۔”کیا وہ ہماری مدد کو آ رہا ہے؟“ ”نہیں! “آپﷺ نے فرمایا۔” وہ مجھے قتل کرنے آئے گا، اسے اب تک آ جانا چاہیے تھا۔“صحابی ؓ نے پوچھا” لیکن وہ ہے کون؟“”اُبی بن خلف !“آپﷺ نے فرمایا۔ابی بن خلف ‘رسولِ اکرمﷺ کے کٹر مخالفین میں سے تھا۔ وہ مدینہ کا رہنے والا تھا ۔اسے جب پتا چلا کہ رسول اﷲﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو ایک روز وہ آپﷺ کے پاس آیا اور اس نے آپﷺ کا مذاق اڑایا۔ آپﷺ نے تحمل اور بردباری سے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ ”کیا تم مجھے اتناکمزور سمجھتے ہو کہ میں تمہارے اس بے بنیاد عقیدے کو قبول کرلوں گا۔“ ابی بن خلف نے گستاخانہ لہجے میں کہا تھا۔ ”میری بات غور سے سن لے محمد‘ کسی روز میرا گھوڑا دیکھ لینا اسے میں اس وقت کیلئے موٹاتازہ کر رہا ہوں جب تم قریش کو پھر کبھی جنگ کیلئے للکارو گے ۔اب بدر کے خواب دیکھنے چھوڑ دو۔میں اسی گھوڑے پر سوار ہوں گا اور تم مجھے میدانِ جنگ میں اپنے سامنے دیکھو گے اور میں اپنے دیوتاؤں کی قسم کھا کہ کہتا ہوں کہ تمہیں اپنے ہاتھوں قتل کروں گا۔“ ”ابی!“رسولِ خداﷺ نے مسکرا کہ کہاتھا۔” زندگی اور موت اس اﷲ کے اختیار میں ہے جس نے مجھے نبوت عطا فرمائی ہے اور مجھے گمراہ لوگوں کو سیدھے راستے پر لانے کا فرض سونپا ہے‘ ایسی بات منہ سے نہ نکالو جسے میرے اﷲ کے سوا کوئی بھی پورا نہ کر سکے۔یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ تم مجھے قتل کرنے آؤ اور تم میرے ہاتھوں قتل ہو جاؤ۔“ ابی بن خلف رسول اﷲﷺ کی اس بات پر طنزیہ ہنسی ہنس پڑا اور ہنستا ہوا چلا گیا۔ اب احد کے معرکے میں رسولِ خداﷺ کو ابی بن خلف یاد آ گیا۔ جوں ہی آپﷺ نے اس کا نام لیا تو دور سے ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا آیا۔ سب نے ادھر دیکھا۔ ”میرے عزیز ساتھیو !“رسولِ اکرمﷺ نے اپنے ساتھیوں سے کہا ۔”مجھے کچھ ایسے لگ رہا ہے جیسے یہ سوار جو ہماری طرف بڑھتا آ رہا ہے ابی ہی ہو گا۔ اگروہ ابی ہی ہوا تو اسے روکنا نہیں ،اسے میرے سامنے اور میرے قریب آنے دےنا۔“ مؤرخین واقدی،مغازی اور ابن ہشام نے لکھا ہے کہ وہ سوار ابی بن خلف ہی تھا ۔اس نے للکار کر کہاکہ:” سنبھل جا محمد !ابی آ گیا ہے۔یہ دیکھ میں اسی گھوڑے پر سوار ہوں جو تمہیں دکھایا تھا۔“ ”یا رسول اﷲﷺ !“رسول اﷲﷺ کے ساتھیوں میں سے تین چار نے آگے ہو کرکہا۔” ہمیں اجازت دیں کہ اسے آپﷺ کے قریب آنے تک ختم کردیں ۔“ ”نہیں ۔“رسولِ اکرمﷺ نے کہا ۔”اسے آنے دو‘ میرے قریب آنے دو‘ اسے راستہ دے دو۔
رسولِ کریمﷺ کے سر پر زنجیروں والی خود تھی۔ اس کی زنجیریں آپﷺ کے چہرے کے آگے اور دائیں بائیں لٹک رہی تھیں۔ آپﷺ کے ہاتھ میں برچھی تھی اور تلوار نیام میں تھی ۔ابی کا گھوڑا قریب آ گیا تھا۔ ”آگے آ جا ابی!“رسولِ خداﷺ نے للکارکہ کہا۔”میرے سوا تیرے ساتھ کوئی نہیں لڑے گا۔“ابی بن خلف نے اپنا گھوڑا قریب لا کہ روکا اور طنزیہ قہقہہ لگایا اسے شاید پورا یقین تھا کہ وہ آپﷺ کو قتل کر دے گا۔ اس کی تلوار ابھی نیام میں تھی۔ آپﷺ اس کے قریب چلے گئے ‘وہ بڑے طاقت ور گھوڑے پر تھا اور آپﷺ زمین پر ۔اس نے ابھی تلوار نکالی ہی تھی کہ آپﷺ نے آگے بڑھ کر اور اچھل کر اس پر برچھی کا وار کیا ،وہ وار بچانے کیلئے ایک طرف کو جھک گیا لیکن وار خالی نہ گیا ۔آپﷺ کی برچھی کی انّی اس کے دائیں کندھے پر ہنسلی کی ہڈی سے نیچے لگی ۔وہ گھوڑے سے گر پڑا اور اس کی پسلی ٹوٹ گئی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ رسولِ خداﷺ کاوار اتنا کاری نہ تھا کہ ابی جیسا قوی ہیکل آدمی اٹھ نہ سکتا ۔رسولِ خداﷺ اس پر دوسرا وار کرنے کو دوڑے ۔ وہ گھوڑے کے دوسری طرف گرا تھا اس پر شاید دہشت طاری ہو گئی تھی یا آپﷺ کا وار اس کیلئے غیر متوقع تھا‘وہ اٹھا اور اپنا گھوڑا وہیں چھوڑ کر بھاگ گیا‘ وہ چلّاتا جا رہا تھا” محمد نے مجھے قتل کر دیا ہے ۔اے اہلِ قریش !محمد نے مجھے قتل کر ڈالا۔“قریش کے کچھ آدمیوں نے اس کے زخم دیکھے تو اسے تسلی دی کہ اسے کسی نے قتل نہیں کیا۔ زخم بالکل معمولی ہیں۔ لیکن اس پر نہ جانے کیسی کیفیت طاری ہو گئی تھی کہ اسکی زبان سے یہی الفاظ نکلتے تھے ۔”میں زندہ نہیں رہوں گا ‘محمد نے کہا تھا کہ میں اس کے ہاتھوں قتل ہو جاؤں گا۔“مؤرخ ابنِ ہشام نے یہاں تک لکھا ہے کہ ابی نے یہ الفاظ بھی کہے تھے :”اگرمحمد مجھ پر صرف تھوک دیتا تو بھی میں زندہ نہ رہ سکتا تھا۔“جب احد کا معرکہ ختم ہو گیا تو ابی قریش کے ساتھ مکہ روانہ ہو گیا۔ راستے میں انہوں نے پڑاؤ کیا تو ابی مر گیا۔خالد کو آج چار برس بعد وہ وقت کل کی بات کی طرح یاد آرہا تھا ۔اسے یقین تھا کہ مسلمانوں کو اہلِ قریش کچل کر رکھ دیں گے۔ لیکن مسلمان جس طرح جانیں قربان کر رہے تھے اس نے خالد کو پریشان کر دیا۔یوں لگتا تھا جیسے مسلمان پیادوں سے قریش کے گھوڑے بھی خوف زدہ ہیں۔ خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور اس خونریز معرکے میں ابو سفیان کو تلاش کرتا اس تک پہنچا ۔”کیا ہم مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کے قابل نہیں رہے ؟“خالد نے ابو سفیان سے کہا ۔”کیا قریش کی ماؤں کے دودھ ناقص تھے کہ یہ ان مٹھی بھر مسلمانوں سے خوف ذد ہ ہوئے جا رہے ہیں ؟“
”دیکھو خالد!“ ابی سفیان نے کہا ۔”جب تک محمد ان کے ساتھ ساتھ ہے اور وہ زندہ سلامت ہے یہ خون کاآخری قطرہ بہہ جانے تک شکست نہیں کھائیں گے۔“ ”تو یہ فرض مجھے کیوں نہیں سونپ دیتے؟“خالد نے کہا۔ ”نہیں!“ ابو سفیان نے کہا۔” تم اپنے سواروں کے پاس جاؤ‘ تمہاری قیادت کے بغیروہ بکھر جائیں گے ۔محمد اور اسکے ساتھیوں پر حملہ کرنے کیلئے میں پیادے بھیج رہا ہوں۔“ آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے خالد کو افسوس ہو رہا تھا کہ ابو سفیان نے اس کے ایک عزم کوکچل ڈالا تھا ۔رسولِ خداﷺ کے قتل کو وہ اپنا فرض سمجھتا تھا ۔وہ رسولِ خداﷺ کو قتل کرکے اپنے سب سے بڑے دیوتاؤں ہبل اور عزیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا تھا ۔اس نے اپنے سالار کا حکم ماننا ضروری سمجھا اور اپنے سوار دستے کی طرف چلا گیا ۔اسے اطمینان ضرور تھا کہ رسولِ اکرمﷺ کے ساتھ اب چند ایک ساتھی ہی رہ گئے ہوں گے اور آپﷺ کو قتل کرنا اب کوئی مشکل نہیں ہوگااور اس کے بعد مسلمان اٹھنے کے قابل نہیں ہوں گے ۔خالد کو میدانِ جنگ کی کیفیت بڑی اچھی طرح یاد تھی۔ اس نے ذرابلندی سے دیکھا تھا کہ احد کے دامن میں دور دور تک زمین خون سے لال ہو گئی تھی۔ کہیں گھوڑے تڑپ رہے تھے اور کہیں خون میں نہائے ہوئے انسان کراہ رہے تھے۔ زخمیوں کو اٹھانے کا ابھی کسی کو ہوش نہ تھا۔ پھر اس نے دیکھا ۔پیادہ قریش رسولِ کریمﷺ کے پاس پہنچ گئے تھے اور انہوں نے آپﷺ کے ساتھیوں کا حلقہ بھی توڑ لیا تھا۔ قریش کے تین آدمی عتبہ بن ابی وقاص، عبداﷲ بن شہاب اور ابنِ قمہ رسولِ کریمﷺ پر پتھر برسانے لگے۔ عجیب صورت یہ تھی کہ عتبہ کا سگا بھائی سعد بن ابی وقاصؓ رسولِ اکرمﷺ کی حفاظت میں لڑ رہا تھا ۔رسولِ اکرم ﷺکے ساتھیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی یا وہ لڑتے لڑتے بکھر گئے تھے۔ عتبہ نے آپﷺ پر جو پتھر برسائے ان سے آپ ﷺ کے نیچے والے دو دانت ٹوٹ گئے اور نچلا ہونٹ زخمی ہوگیا۔ عبداﷲ کے پتھر سے آپﷺ کی پیشانی پر خاصا گہرا زخم آیا ۔ابنِ قمہ نے آپﷺ کے قریب آ کر اتنی زور سے پتھر مارا کہ آپ ﷺکے خود کی زنجیر کی دو کڑیاں ٹوٹ کر رخسار میں اتر گئیں ان سے رخسار کی ہڈی بھی بری طرح مجروح ہوئی ۔آپﷺ نے برچھی سے دشمنوں پر وار کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن دشمن قریب نہیں آتے تھے ۔آپﷺ کاخون اتنا نکل گیا تھا کہ آپﷺ گر پڑے ۔اس وقت آپﷺ کے ایک صحابیؓ طلحہ ؓنے جو قریش کے دوسرے آدمیوں کے ساتھ لڑ رہے تھے دیکھ لیا اور دوڑتے ہوئے آپﷺ تک پہنچے۔ ان کی للکار پر ان کے دوسرے ساتھی بھی آ گئے ۔
آپﷺ کو پتھروں سے گرانے والے قرش آپﷺ پر تلواروں سے حملہ کرنے ہی والے تھے کہ سعدؓ بن ابی وقاص نے اپنے سگے بھائی عتبہ پر حملہ کر دیا ۔عتبہ اپنے بھائی کا غیض و غضب دیکھ کر بھاگ نکلا۔
طلحہؓ نے رسولِ خداﷺ کو سہارا دے کر اٹھایا ۔آپﷺ پوری طرح سے ہوش میں تھے اس دوران آپﷺ کے ساتھیوں نے ان آدمیوں کو بھگا دیا تھا جنہوں نے رسولِ کریمﷺ پر حملہ کیاتھا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ:” سعدؓ بن ابی وقاص پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا ،سعد کہتے تھے ”میں اپنے بھائی کو قتل کر کے اس کے جسم کے ٹکڑے کردینا چاہتا ہوں جس نے میری موجودگی میں میرے نبیﷺ پر حملہ کیا ہے۔“وہ اکیلے ہی قریش کی طرف دوڑنے کی کوشش کرتے تھے انہیں بڑی مشکل سے روکا گیا اگر رسولِ خداﷺ انہیں رکنے کا حکم نہ دیتے تو و ہ کبھی نہ رکتے۔“ قریش غالباً بہت ہی تھک گئے تھے ۔وہ معرکے سے منہ موڑ گئے ،تب رسولِ اکرمﷺ کے ساتھیوں نے آپﷺ کے زخموں کی طرف توجہ دی۔جو خواتین آپﷺ کے ساتھ تھیں انہوں نے آپﷺ کو پانی پلایا ‘کپڑوں سے زخم صاف کیے‘ اس وقت یہ دیکھا گیا کہ خود کی زنجیروں کی ٹوٹی ہوئی کڑیاں آپﷺ کے رخسار کی ہڈی میں اتری ہوئی ہیں ۔ایک صحابی ابو عبیدہؓ جو عرب کے ایک مشہور جرّاح کے فرزند تھے آگے بڑھے اور آپﷺ کے رخساروں سے کڑیا ں نکالنے لگے لیکن ہاتھوں سے کڑیاں نہ نکلیں۔ آخر ابو عبیدہؓ نے دانتوں کی مدد سے ایک کڑی نکال لی ۔جب دوسری کڑی نکالی تو کڑی تو نکل آئی لیکن ابی عبیدہؓ ؓکے سامنے کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ اس کے بعد لوگوں نے ابو عبیدہ کو الاثرم “کہنا شروع کر دیا ۔اس کا مطلب ہے وہ آدمی جس کے سامنے والے دانت نہ ہوں۔پھر وہ اسی نام سے مشہور ہوگئے ۔)یہ بھی رسولِ کریمﷺ کا معجزہ ہے کہ اس کے بعد ابو عبیدہؓ ایسے خوبصورت دِکھتے تھے کہ اُن کے چہرے سے نگاہ نہیں ہٹتی تھی(۔اُمّ ِایمنؓ جو رسول ِ اکرمﷺ کے بچپن میں آپﷺ کی دایہ رہ چکی تھیں ‘آپﷺ پر جھکی ہوئی تھیں ۔اس وقت تک آپﷺ کی طبیعت سنبھل چکی تھی۔ اچانک ایک تیر امِ ایمن ؓکی پیٹھ میں اتر گیا اور اس کے ساتھ ہی دور سے ایک قہقہہ سنائی دیا۔ سب نے ادھر دیکھا تو قریش کاایک آدمی حبان بن العرقہ دور کھڑا ہنس رہا تھااس کے ہاتھ میں کمان تھی۔ یہ تیر اسی نے چلایا تھا۔ وہ ہنستا ہوا پیچھے کو مڑا ‘رسولِ خداﷺ نے ایک تیر سعد ؓبن ابی وقاص کو دے کر کہا کہ:” یہ شخص یہاں سے تیر لے کرہی واپس جائے ۔
سعدؓ نے جو تمام قبائل میں تیر اندازی میں خصوصی شہرت رکھتے تھے ‘کمان میں تیر ڈال کر حبان پر چلایا ‘تیر حبان کی گردن میں اتر گیا۔ سعدؓ کے تمام ساتھیوں نے بڑی زور سے قہقہہ لگایا اور حبان نے ڈگمگاتے ہوئے چند قدم اٹھائے اوروہ گر پڑا۔ آج خالد جب مدینہ کی طرف بڑھتا جا رہا تھا اور احد کی پہاڑی افق سے اوپر ہی اوپر اٹھتی آ رہی تھی۔ اسے اپنے کچھ ساتھی یاد آنے لگے۔ عقیدوں کے اختلاف نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا تھا لیکن خالد کو یہ خیال بھی آیا کہ بعض لوگ اپنے عقیدے کو اس لیے سچا سمجھتے ہیں کہ وہ اس کے پیروکار ہوتے ہیں ۔حق اور باطل کے فرق کو سمجھنے کیلئے بڑی مضبوط شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ایک سوال اسے پھر پریشان کرنے لگا :”میں مدینہ کیوں جا رہا ہوں ؟اپنا عقیدہ مدینہ والوں پر ٹھونسنے کیلئے یا ان کا عقیدہ اپنے اوپر مسلط کرنے کیلئے ؟“اسے ابو سفیان کی آواز سنائی دی جو ایک ہی روز پرانی تھی۔” کیا یہ سچ ہے کہ تم مدینہ جا رہے ہو؟ کیا تمہاری رگوں میں ولید کا خون سفید ہیو گیا ہے ؟“صحرا میں جاتے ہوئے ان آوازوں نے کچھ دور تک اس کاتعاقب کیا پھر وہ اپنے ان دوستوں کی یاد میں کھو گیا جن کے خلاف وہ لڑا اور جن کا خون اس کے سامنے بہہ گیا تھا ۔ان میں ایک ”مصعب ؓبن عمیر“ بھی تھے ۔قریش جو معرکے سے منہ موڑ گئے تھے کچھ دور ہی پہنچے تھے کہ خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور ابو سفیان کو جا پکڑا۔ اس نے ابو سفیان سے پوچھا کہ:” تم لوگ جنگ کو ادھورا چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو؟ مسلمانوں کا دم خم ختم ہو چکا ہے؟“ ابو سفیان بھی یہی چاہتا تھا کہ یہ معرکہ فیصلہ کن نتیجے پر پہنچے۔ قریش کے چند سوار وہیں سے پلٹ آئے ۔خالد دیکھ چکا تھا کہ رسولِ کریمﷺکہاں ہیں ۔یہاں پھر ابو سفیان نے خالد کو کسی اور طرف بھیج دیا اور کچھ آدمیوں کونبی کریمﷺ پر حملے کا حکم دیا۔ اب رسول کریمﷺ کے ساتھ کچھ اور مسلمان آن ملے تھے۔ اب پھر ابن قمہ لڑتے ہوئے مسلمانوں کا حلقہ توڑ کر رسولِ اکرمﷺ تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس وقت رسولِ اکرمﷺ کے پاس مصعب ؓبن عمیرکھڑے تھے اور اُمّ ِعمارہؓ اپنے قریب پڑے ہوئے دو تین زخمیوں کو پانی پلا رہی تھیں۔ انہوں نے جب قریش کو ایک بار پھر حملے کیلئے آتے دیکھا تو زخمیوں سے ہٹ کر انہوں نے ایک زخمی کی تلوار اٹھا لی اور قریش کے مقابلے کیلئے ڈٹ گئیں۔ قریش کا سب سے پہلا سوار جو ان کے قریب آیا ۔اس تک وہ نہیں پہنچ سکتی تھیں اس لیے انہوں نے تلوار سے اس کے گھوڑے پر ایسا وار کیا کہ گھوڑا گر پڑا۔ سوار گھوڑے کے دوسری طرف گرا ۔ام عمارہؓ نے گھوڑے کے اوپر سے کود کر قریش کے اس آدمی پر وار کیا اور اسے زخمی کر دیا۔وہ اٹھا اور بھاگ کھڑا ہوا ۔
مصعب ؓبن عمیر کا قد بت اور شکل و صورت بھی رسولِ کریمﷺ کے ساتھ نمایاں مشابہت رکھتی تھی۔ ابن ِ قمہ مصعبؓ کو رسولِ خداﷺ سمجھ کر ان پر حملہ آور ہوا ۔مصعبؓ تیارتھے انہو ں نے ابنِ قمہ کا مقابلہ کیا پھر دونوں میں تیغ زنی ہوئی لیکن ابنِ قمہ کا ایک وار مصعبؓ پر ایسا بھرپور پڑا کہ وہ گرے اور شہید ہو گئے۔ )مصعب بن عمیرؓ بہت لاڈوں میں پلے نوجوان تھے لیکن تدفین کے وقت اُن کا کفن بھی ادھورا تھا( ام عمارہؓ نے مصعبؓ کو گرتے دیکھا ۔غیض و غضب سے ابنِ قمہ پر تلوارکا وار کیا لیکن ابنِ قمہ نے زرہ پہن رکھی تھی اور وار کرنے والی ایک عورت تھی‘ اس لیے ابنِ قمہ کو کوئی زخم نہ آیا۔ ابنِ قمہ نے ام عمارہ ؓکے کندھے پر بھرپور وار کیا جس سے وہ شدید زخمی ہو کر گر پڑیں ۔اس وقت رسولِ کریمﷺ جو قریب ہی تھے ۔ابنِ قمہ کی طرف بڑھے لیکن ابنِ قمہ نے پینترا بدل کر آپﷺ پہ ایسا وار کیا جو آپﷺ کے خود پر پڑا ۔تلوار خود سے پھسل کر آپﷺ کے کندھے پر لگی آپﷺ کے بالکل پیچھے ایک گڑھا تھا آپﷺ زخم کھاکر پیچھے ہٹے اور گڑھے میں گر پڑے۔ ابنِ قمہ نے پیچھے ہٹ کر گلا پھاڑ کر کہا:” میں نے محمد کو قتل کر دیا ہے۔“ وہ یہی نعرے لگاتا میدانِ جنگ میں گھوم گیا۔اس کی آواز قریش نے بھی سنی اور مسلمانوں نے بھی۔ قریش کو تو خوش ہونا ہی تھا۔ مسلمانوں پر اس کا بڑا تباہ کن اثر ہوا کہ حوصلہ ہار بیٹھے اوراحدکی پہاڑی کی طرف پسپا ہونے لگے۔’اپنے نبیﷺ کے شدائیو!“بھاگتے ہوئے مسلمانوں کو ایک للکار سنائی دی۔” اگر نبیﷺ نہ رہے تو لعنت ہے ہم پر کہ ہم بھی زندہ رہیں۔ تم کیسے شیدائی ہو کہ نبی کریمﷺ کی شہادت کے ساتھ ہی تم موت سے ڈر کر بھاگ رہے ہو؟“ مسلمان رک گئے۔ اس للکار نے انہیں آگ بگولہ کر دیا‘ وہ پیادہ تھے لیکن انہوں نے قریش کے گھڑ سواروں پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ خالد اور عکرمہ کے گھڑ سواروں پر ہوا تھا۔ خالد کو آج یاد آرہا تھا کہ اس کے ہاتھوں کتنے ہی مسلمانوں کا خون بہہ گیا تھا ان میں ایک رفاعہؓ بن وقش بھی تھے ۔خالد کے دل میں درد کی ایک ٹیس سی اٹھی ‘اسے کچھ ایسا احساس ہونے لگا جیسے وہ بے مقصد خون بہاتا رہا ہے لیکن اس وقت وہ مسلمانوں کو اپنا بد ترین دشمن سمجھتا تھا۔ اب مسلمانوں کا دم خم ٹوٹ چکا تھا۔ پیادے گھڑ سواروں کا مقابلہ کب تک کرتے ؟وہ مجبور ہو کر پہاڑی کی طرف پسپا ہونے لگے ۔رسولِ اکرمﷺ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک تنگ سی وادی کی طرف جا رہے تھے۔ جس طرح مسلمانوں نے فتح کی خوشی میں اپنا مورچہ چھوڑ دیا تھا اور جنگ کا پانسا اپنے خلاف پلٹ لیا تھا اسی طرح اب قریش کے آدمی مسلمانوں کی لاشوں پر اور تڑپتے ہوئے زخمیوں پر مالِ غنیمت اکھٹا کرنے کیلئے ٹوٹ پڑے ۔
ان میں سے کچھ قریش رسولِ کریمﷺ کے تعاقب میں چلے گئے‘ لیکن آپﷺ کے ساتھیوں نے ان پر ایسی بے جگری سے ہلہ بولا کہ ان میں سے زیادہ تر قریش کو جان سے مار ڈالا اور جو بچ گئے وہ بھاگ نکلے ۔رسولِ اکرمﷺ ایک بلند جگہ پہنچ گئے ۔آپﷺ نے وہاں سے صورتِ حال کا جائزہ لیا‘ آپﷺ کے تیس صحابہؓ میں سے سولہ شہید ہو چکے تھے جو چودہ زندہ تھے ا ن میں زیادہ تر زخمی ۔آپﷺ نے بلندی سے میدانِ جنگ کا جائزہ لیا آپﷺ کو کوئی مسلمان نظر نہیں آ رہا تھا۔ مسلمان یہ سمجھ کر کہ رسولِ اکرمﷺ شہید ہو چکے ہیں‘ سخت مایوسی کے عالم میں اِدھر ُادھر بکھر گئے۔کچھ واپس مدینہ چلے گئے۔ کچھ قریش کے انتقام سے بچنے کے لئے پہاڑی کے اندر موجود تھے۔ یہاں رسولِ خداﷺ کو اپنے زخموں کی طرف توجہ دینے کی فرصت ملی ۔آپﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ جو آپﷺ کو ہر طرف تلاش کرکر کہ تھک چکی تھیں۔ آپﷺ کے پاس آ پہنچی تھیں ۔قریب ہی ایک چشمہ تھا ۔حضرت علیؓ وہاں سے کسی چیز میں پانی لائے اور آپﷺ کو پلایا ۔حضرت فاطمہؓ آپﷺ کے زخم دھونے لگیں ۔وہ سسک سسک کر رو رہی تھیں۔ ؓخالد کو آج یاد آ رہا تھا کہ رسولِ کریمﷺ کی شہادت کی خبر نے اسے روحانی سا اطمینان دیا تھا لیکن ایک للکار نے اسے چونکا دیا۔ وادی میں للکار کی گونج بڑی دور تک سنائی دے رہی تھی ۔کوئی بڑی ہی بلند آواز میں کہہ رہا تھا:” مسلمانو! خوشیاں مناؤ ۔ہمارے نبیﷺ زندہ اور سلامت ہیں ۔“اس للکار پر خالد کو ہنسی بھی آئی تھی اور افسوس بھی ہوا تھا۔اس نے اپنے آپ سے کہا تھا کہ کوئی مسلمان پاگل ہو گیا ہے۔ہوا یوں تھا کہ جس طرح مسلمان اِکا دُکا اِدھر ُادھر بکھر گئے یا چھپ گئے تھے ۔اسی طرح کعب بن مالکؓ نام کا ایک مسلمان اِدھر ُادھر گھومتا پہاڑی کے اس مقام کی طرف چلا گیا جہاں رسولِ اکرمﷺ سستا رہے تھے۔ اس نے نبی کریمﷺ کو دیکھا تو اس نے جذبات کی شدت سے نعرہ لگایا ”ہمارے نبیﷺ زندہ ہیں“۔ تمام مسلمان جو اکیلے اکیلے یا د دو چار چار کی ٹولیوں میں اِدھر ُادھر بکھر گئے تھے اس آواز پر دوڑ کر آئے۔ حضرت عمرؓ بھی اسی آواز پر رسولِ خداﷺ تک پہنچے تھے۔ اس سے پہلے ابو سفیان میدانِ جنگ میں پڑی ہوئی ہر ایک لاش کو دیکھتا پھر رہا تھا‘ وہ رسولِ کریمﷺ کا جسدِمبارک تلاش کر رہا تھا ۔ اسے قریش کا جو بھی آدمی ملتا اس سے پوچھتا :”تم نے محمد کی لاش نہیں دیکھی؟“اسی تلاش میں خالد اس کے سامنے آگیا۔ ”خالد!“ ابو سفیان نے پوچھا:” تم نے محمد کی لاش نہیں دیکھی؟“”نہیں“۔خالد نے جواب دیا اور ابو سفیان کی طرف ذرا جھک کر پوچھا :”کیا تمہیں یقین ہے کہ محمدقتل ہو چکا ہے؟“
”ہاں !“ ابی سفیان نے جواب دیا:” وہ ہم سے بچ کر کہاں جا سکتاہے ۔تمہیں شک ہے؟“”ہاں ابوسفیان!“خالد نے جواب دیا ۔”میں اس وقت تک شک میں رہتا ہوں جب تک کہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں ۔محمد)ﷺ( اتنی آسانی سے قتل ہوجانے والا شخص نہیں ہے۔“ ”معلوم ہوتا ہے تم پر محمد)ﷺ( کا طلسم طاری ہے۔“ ابو سفیان نے تکبر کے لہجے میں کہا۔” کیا محمد)ﷺ( ہم میں سے نہیں تھا ؟کیا تم اسے نہیں جانتے تھے۔ جو شخص اتنی قتل و غارت کا ذمہ دار ہے ۔ایک روز اسے بھی قتل ہونا ہے ۔محمد)ﷺ( قتل ہو چکا ہے۔ جاؤ اور دیکھو‘ اس کی لاش کو پہچانو۔ہم اسکا سر کاٹ کر مکہ لے جائیں گے۔“عین اس وقت پہاڑی میں سے کعب ؓبن مالک کی للکار گرجی” مسلمانو! خوشیاں مناؤ ۔ہمارے نبیﷺ زندہ سلامت ہیں۔“ پھر یہ آواز بجلی کی کڑک کی طرح گرجتی کڑکتی وادی اور میدان میں گھومتی پھرتی رہی۔”سن لیا ابو سفیان!“ خالد نے کہا ۔”اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ محمد)ﷺ(کہاں ہے۔ میں اس پر حملہ کرنے جا رہا ہوں لیکن میں تمہیں یقین نہیں دلا سکتا کہ میں محمد)ﷺ( کو قتل کر آؤں گا۔“کچھ دیر پہلے خالد نے رسولِ کریمﷺ اور ان کے ساتھیوں کو پہاڑی کے اندر جاتے دیکھا تھا لیکن وہ بہت دور تھا۔ خالد ہار ماننے والا اور اپنے ارادے کوادھورا چھوڑنے والا آدمی نہیں تھا ۔اس نے اپنے چند ایک سواروں کو ساتھ لیا اورپہاڑی کے اس مقام کی طرف بڑھنے لگا جدھر اس نے رسولِ کریمﷺ کو جاتے دیکھا تھا۔ مشہور مؤرخ ابن ہشام کی تحریر سے پتا چلتا ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے جب خالد کو اپنے سواروں کے ساتھ اس گھاٹی پر چڑھتے دیکھا جہاں آپﷺ تھے تو آپﷺ کے منہ سے بے ساختہ دعا نکلی” خدائے ذوالجلال! انہیں اس وقت وہیں کہیں روک لے۔“خالد اپنے سواروں کے ساتھ گھاٹی چڑھتا جا رہا تھا۔و ہ ایک درہ سا تھا جوتنگ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ گھوڑوں کو ایک قطار میں ہونا پڑا۔ رسولِ کریمﷺ زخموں سے چور پڑے تھے ۔حضرت عمرؓ نے جب خالد اور اس کے سواروں کو اوپر آتے ہوئے دیکھا تو وہ تلوار نکال کر کچھ نیچے اترے۔ ”ولید کے بیٹے !“حضرت عمرؓ نے للکارا۔”اگر لڑائی لڑنا جانتے ہو تو اس درّہ کی تنگی کو دیکھ لو۔ اس چڑھائی کو دیکھ لو ۔کیا تم اپنے سواروں کے ساتھ ہمارے ہاتھ سے بچ کر نکل جاؤ گے؟“ خالد لڑنے کے فن کو خوب سمجھتا تھا ۔اس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ جگہ گھوڑوں کو گھما پھرا کر لڑانے کیلئے موزوں نہیں ہے بلکہ خطرناک ہے ۔خالد نے خاموشی سے اپنا گھوڑا گھمایا اور اپنے سواروں کے ساتھ وہاں سے نیچے اتر آیا ۔
جنگِ اُحد ختم ہو چکی تھی۔ قریش اس لحاظ سے برتری کا دعویٰ کر سکتے تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچایا لیکن یہ جنگ ہار جیت کے بغیر ختم ہو گئی تھی۔ ”لیکن یہ ہماری شکست تھی۔“ خالد کو جیسے اپنی آواز سنائی دی۔ ”مسلمانوں کی نفری سات سو تھی اور ہم تین ہزار تھے۔ ہمارے پاس دو سو گھوڑے تھے ۔ہماری فتح تب ہوتی جب ہم محمد)ﷺ( کو قتل کردیتے۔“خالد نے اپنے آپ میں جھنجھناہٹ محسوس کی۔ اس پر ایسی کیفیت طاری ہو گئی کہ اس کے دانت بجنے لگے۔ اسے جنگ کا آخری منظر یاد آنے لگا تھا۔ اُس نے اِس بھیانک یاد کو ذہن سے نکالنے کیلئے سر کو جھٹکا دیا لیکن مکھیوں کی طرح یہ یاد اس کے ارد گرد بھنبھناتی رہی۔ اسے اپنے آپ میں شرم سی محسوس ہونے لگی ۔جنگجو یوں نہیں کیا کرتے ۔خالد جب حضرت عمرؓ کی للکار پر واپس آ رہا تھا تو اس بلندی سے اس کی نظر میدانِ جنگ پر پڑی ۔وہاں لاشیں بکھری ہوئی تھیں ۔شاید ان میں بے ہوش زخمی بھی ہوں گے۔ لاشوں اور زخمیوں کو اٹھانے کیلئے نہ ابھی مسلمان آگے بڑھے تھے نہ اہلِ قریش ۔خالد کو ابو سفیان کی بیوی ہند نظر آئی ۔وہ ہاتھ میں خنجر لیے ہوئے دوڑے چلی آ رہی تھی۔ اس کے اشارے پر قریش کی وہ عورتیں جو قریش کے لشکر کے ساتھ آئی تھیں اس کے پیچھے پیچھے دوڑی آئیں۔ ہند ہر ایک لاش کو دیکھتی تھی ۔وہ اونچے قد کی اور فربہی مائل جسم کی پہلوان قسم کی عورت تھی۔ وہ ہر ایک لاش کو دیکھتی تھی۔ کوئی لاش اوندھے منہ پڑی ہوئی نظر آتی تو وہ پاؤں کی ٹھوکر سے اس لاش کو سیدھا کر کے دیکھتی تھی۔ اس نے اپنے ساتھ کی عورتوں سے کہا کہ وہ حمزہؓ کی لاش تلاش کریں۔ اسے حمزہ ؓکی لاش مل گئی۔ ہند بھوکے درندے کی طرح لاش کو چیرنے پھاڑنے لگی ۔اس نے لاش کے کچھ اعضاءکاٹ کر پرے پھینک دیئے۔ اس نے دوسری عورتوں کو دیکھا جو اس کے قریب کھڑی تھیں ۔
”کھڑی دیکھ کیا رہی ہو؟“ ہند نے ان عورتوں سے یوں کہا جیسے وہ پاگل ہو چکی ہو ۔”یہ دیکھو میں نے اپنے باپ ،اپنے چچا اور اپنے بیٹے کے قاتل کی لاش کا کیا حال کر دیا۔ جاؤ مسلمانوں کی ہر ایک لاش کا یہی حال کردواور سب کے کان اور ناک کاٹ کر لے آؤ۔“
اب وہ عورتیں مسلمانوں کی لاشوں کو چیرنے پھاڑنے کیلئے وہاں سے ہٹ گئیں تو ہند نے خنجر سے حمزہؓ کا پیٹ چاک کرکے اس کے اندر ہاتھ ڈالا۔ اس کا ہاتھ باہر آیا تو اس میں حمزہ ؓکا کلیجہ تھا جو ہند نے خنجر سے کاٹ لیا ۔اس نے اسی پر اکتفا نہ کیا ۔حمزہؓ کے کلیجے کا ایک ٹکڑاکاٹ کر اس نے اپنے منہ میں ڈال لیا اور بری طرح اسے چبانے لگی ۔لیکن تھوڑی دیر بعد اس نے کلیجے کے اس ٹکڑے کو اگل دیا۔خالد کو دور ابو سفیان کھڑا نظر آیا۔ ہند کی اس وحشیانہ حرکت نے خالد کا مزہ کِرکِرا کر دیا تھا۔ وہ جنگجو تھا ،وہ صرف آمنے سامنے آکر لڑنے والا آدمی تھا۔ اپنے دشمن کی لاشوں کےساتھ یہ سلوک نہ صرف یہ کہ اسے پسند نہ آیا بلکہ اس نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ ابو سفیان کو دیکھ کر خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور ابو سفیان کے پاس جا گھوڑا روکا۔ ”ابو سفیان !“خالد نے غصے اور حقارت کے ملے جلے لہجے میں کہا۔” کیا تم اپنی بیوی اور ان عورتوں کی اس وحشیانہ حرکت کو پسند کر رہے ہو؟“ابو سفیان نے خالد کی طرف ایسی نگاہوں سے دیکھا جن میں بے بسی کی جھلک تھی اور صاف پتا چلتا تھا کہ اسے لاشوں کے ساتھ اپنی بیوی کا یہ سلوک پسند نہیں۔”خاموش کیوں ہو ابو سفیان؟“”تم ہند کو جانتے ہو خالد ۔“ابو سفیان نے دبی سی زبان میں کہا۔” یہ عورت اس وقت پاگلوں سے بد تر ہے۔ اگرمیں یا تم اسے روکنے کیلئے آگے بڑھے تو یہ خنجر سے ہمارے پیٹ بھی چاک کردے گی۔“خالد ہند کو جانتا تھا وہ ابو اسفیان کی بے بسی کو سمجھ گیا ۔ابو سفیان نے سر جھکایا گھوڑے کی لگام کو جھٹکا دیا اور منہ پھیر کر دوسری طرف چل پڑا۔خالد بھی اس منظر کو برداشت نہ کر سکا۔جب ہند حمزہؓ کی لاش کا کلیجہ چبا کر اگل چکی تو اس نے پیچھے دیکھا ۔اس کے پیچھے جبیر بن مطعم کا غلام وحشی بن حرب کھڑاتھا۔اس کے ہاتھ میں افریقہ کی بنی ہوئی وہی برچھی تھی جس سے اس نے حمزہؓ کو شہید کیا تھا۔”یہاں کیا کر رہے ہو بن حرب ؟“ہند نے تحکمانہ لہجے میں اس سے کہا۔”جاؤ اور مسلمانوں کی لاشوں کے ٹکڑے کردو۔“وحشی بن حرب بولتا بہت کم تھا۔ اس کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ بات اشاروں میں کر لی جائے۔اس نے ہند کا حکم ماننے کے بجائے اپنا ہاتھ ہند کے آگے پھیلا دیا اور اس کی نظریں ہند کے گلے میں لٹکتے ہوئے سونے کے ہار پر جم گئیں-
ہند کو اپنا وعدہ یاد آ گیا۔ا س نے وحشی سے کہا تھا کہ تم میرے باپ چچا اور بیٹے کے قاتل کوقتل کردو تو میں نے جتنے زیورات پہن رکھے ہیں وہ تمہارے ہوں گے اور وحشی اپنا انعام لینے آیا تھا۔ ہند نے اپنے تمام زیورات اتار کر وحشی بن حرب کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر رکھ دیئے۔و حشی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اور وہ وہاں سے چل پڑا۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: شمشیر بے نیام از عنایت الله مکمل ناول

Post by ایکسٹو »

شمشیر بے نیام
عنایت الله التمش کے سحر انگیز قلم سے الله کی تلوار حضرت خالد بن الولید کی روح افروز داستان شجاعت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایکسٹو
قسط نمبر.....4
”مجھے قریش کے ایک اور آدمی کا انتظار ہے۔“ رسولِ اکرمﷺنے اپنے ساتھیوں سے کہا۔” کون ہے وہ یا رسول اﷲﷺ!“ آپ ﷺکے ایک صحابیؓ نے پوچھا ۔”کیا وہ ہماری مدد کو آ رہا ہے؟“ ”نہیں! “آپﷺ نے فرمایا۔” وہ مجھے قتل کرنے آئے گا، اسے اب تک آ جانا چاہیے تھا۔“صحابی ؓ نے پوچھا” لیکن وہ ہے کون؟“”اُبی بن خلف !“آپﷺ نے فرمایا۔ابی بن خلف ‘رسولِ اکرمﷺ کے کٹر مخالفین میں سے تھا۔ وہ مدینہ کا رہنے والا تھا ۔اسے جب پتا چلا کہ رسول اﷲﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو ایک روز وہ آپﷺ کے پاس آیا اور اس نے آپﷺ کا مذاق اڑایا۔ آپﷺ نے تحمل اور بردباری سے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ ”کیا تم مجھے اتناکمزور سمجھتے ہو کہ میں تمہارے اس بے بنیاد عقیدے کو قبول کرلوں گا۔“ ابی بن خلف نے گستاخانہ لہجے میں کہا تھا۔ ”میری بات غور سے سن لے محمد‘ کسی روز میرا گھوڑا دیکھ لینا اسے میں اس وقت کیلئے موٹاتازہ کر رہا ہوں جب تم قریش کو پھر کبھی جنگ کیلئے للکارو گے ۔اب بدر کے خواب دیکھنے چھوڑ دو۔میں اسی گھوڑے پر سوار ہوں گا اور تم مجھے میدانِ جنگ میں اپنے سامنے دیکھو گے اور میں اپنے دیوتاؤں کی قسم کھا کہ کہتا ہوں کہ تمہیں اپنے ہاتھوں قتل کروں گا۔“ ”ابی!“رسولِ خداﷺ نے مسکرا کہ کہاتھا۔” زندگی اور موت اس اﷲ کے اختیار میں ہے جس نے مجھے نبوت عطا فرمائی ہے اور مجھے گمراہ لوگوں کو سیدھے راستے پر لانے کا فرض سونپا ہے‘ ایسی بات منہ سے نہ نکالو جسے میرے اﷲ کے سوا کوئی بھی پورا نہ کر سکے۔یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ تم مجھے قتل کرنے آؤ اور تم میرے ہاتھوں قتل ہو جاؤ۔“ ابی بن خلف رسول اﷲﷺ کی اس بات پر طنزیہ ہنسی ہنس پڑا اور ہنستا ہوا چلا گیا۔ اب احد کے معرکے میں رسولِ خداﷺ کو ابی بن خلف یاد آ گیا۔ جوں ہی آپﷺ نے اس کا نام لیا تو دور سے ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا آیا۔ سب نے ادھر دیکھا۔ ”میرے عزیز ساتھیو !“رسولِ اکرمﷺ نے اپنے ساتھیوں سے کہا ۔”مجھے کچھ ایسے لگ رہا ہے جیسے یہ سوار جو ہماری طرف بڑھتا آ رہا ہے ابی ہی ہو گا۔ اگروہ ابی ہی ہوا تو اسے روکنا نہیں ،اسے میرے سامنے اور میرے قریب آنے دےنا۔“ مؤرخین واقدی،مغازی اور ابن ہشام نے لکھا ہے کہ وہ سوار ابی بن خلف ہی تھا ۔اس نے للکار کر کہاکہ:” سنبھل جا محمد !ابی آ گیا ہے۔یہ دیکھ میں اسی گھوڑے پر سوار ہوں جو تمہیں دکھایا تھا۔“ ”یا رسول اﷲﷺ !“رسول اﷲﷺ کے ساتھیوں میں سے تین چار نے آگے ہو کرکہا۔” ہمیں اجازت دیں کہ اسے آپﷺ کے قریب آنے تک ختم کردیں ۔“ ”نہیں ۔“رسولِ اکرمﷺ نے کہا ۔”اسے آنے دو‘ میرے قریب آنے دو‘ اسے راستہ دے دو۔
رسولِ کریمﷺ کے سر پر زنجیروں والی خود تھی۔ اس کی زنجیریں آپﷺ کے چہرے کے آگے اور دائیں بائیں لٹک رہی تھیں۔ آپﷺ کے ہاتھ میں برچھی تھی اور تلوار نیام میں تھی ۔ابی کا گھوڑا قریب آ گیا تھا۔ ”آگے آ جا ابی!“رسولِ خداﷺ نے للکارکہ کہا۔”میرے سوا تیرے ساتھ کوئی نہیں لڑے گا۔“ابی بن خلف نے اپنا گھوڑا قریب لا کہ روکا اور طنزیہ قہقہہ لگایا اسے شاید پورا یقین تھا کہ وہ آپﷺ کو قتل کر دے گا۔ اس کی تلوار ابھی نیام میں تھی۔ آپﷺ اس کے قریب چلے گئے ‘وہ بڑے طاقت ور گھوڑے پر تھا اور آپﷺ زمین پر ۔اس نے ابھی تلوار نکالی ہی تھی کہ آپﷺ نے آگے بڑھ کر اور اچھل کر اس پر برچھی کا وار کیا ،وہ وار بچانے کیلئے ایک طرف کو جھک گیا لیکن وار خالی نہ گیا ۔آپﷺ کی برچھی کی انّی اس کے دائیں کندھے پر ہنسلی کی ہڈی سے نیچے لگی ۔وہ گھوڑے سے گر پڑا اور اس کی پسلی ٹوٹ گئی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ رسولِ خداﷺ کاوار اتنا کاری نہ تھا کہ ابی جیسا قوی ہیکل آدمی اٹھ نہ سکتا ۔رسولِ خداﷺ اس پر دوسرا وار کرنے کو دوڑے ۔ وہ گھوڑے کے دوسری طرف گرا تھا اس پر شاید دہشت طاری ہو گئی تھی یا آپﷺ کا وار اس کیلئے غیر متوقع تھا‘وہ اٹھا اور اپنا گھوڑا وہیں چھوڑ کر بھاگ گیا‘ وہ چلّاتا جا رہا تھا” محمد نے مجھے قتل کر دیا ہے ۔اے اہلِ قریش !محمد نے مجھے قتل کر ڈالا۔“قریش کے کچھ آدمیوں نے اس کے زخم دیکھے تو اسے تسلی دی کہ اسے کسی نے قتل نہیں کیا۔ زخم بالکل معمولی ہیں۔ لیکن اس پر نہ جانے کیسی کیفیت طاری ہو گئی تھی کہ اسکی زبان سے یہی الفاظ نکلتے تھے ۔”میں زندہ نہیں رہوں گا ‘محمد نے کہا تھا کہ میں اس کے ہاتھوں قتل ہو جاؤں گا۔“مؤرخ ابنِ ہشام نے یہاں تک لکھا ہے کہ ابی نے یہ الفاظ بھی کہے تھے :”اگرمحمد مجھ پر صرف تھوک دیتا تو بھی میں زندہ نہ رہ سکتا تھا۔“جب احد کا معرکہ ختم ہو گیا تو ابی قریش کے ساتھ مکہ روانہ ہو گیا۔ راستے میں انہوں نے پڑاؤ کیا تو ابی مر گیا۔خالد کو آج چار برس بعد وہ وقت کل کی بات کی طرح یاد آرہا تھا ۔اسے یقین تھا کہ مسلمانوں کو اہلِ قریش کچل کر رکھ دیں گے۔ لیکن مسلمان جس طرح جانیں قربان کر رہے تھے اس نے خالد کو پریشان کر دیا۔یوں لگتا تھا جیسے مسلمان پیادوں سے قریش کے گھوڑے بھی خوف زدہ ہیں۔ خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور اس خونریز معرکے میں ابو سفیان کو تلاش کرتا اس تک پہنچا ۔”کیا ہم مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کے قابل نہیں رہے ؟“خالد نے ابو سفیان سے کہا ۔”کیا قریش کی ماؤں کے دودھ ناقص تھے کہ یہ ان مٹھی بھر مسلمانوں سے خوف ذد ہ ہوئے جا رہے ہیں ؟“
”دیکھو خالد!“ ابی سفیان نے کہا ۔”جب تک محمد ان کے ساتھ ساتھ ہے اور وہ زندہ سلامت ہے یہ خون کاآخری قطرہ بہہ جانے تک شکست نہیں کھائیں گے۔“ ”تو یہ فرض مجھے کیوں نہیں سونپ دیتے؟“خالد نے کہا۔ ”نہیں!“ ابو سفیان نے کہا۔” تم اپنے سواروں کے پاس جاؤ‘ تمہاری قیادت کے بغیروہ بکھر جائیں گے ۔محمد اور اسکے ساتھیوں پر حملہ کرنے کیلئے میں پیادے بھیج رہا ہوں۔“ آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے خالد کو افسوس ہو رہا تھا کہ ابو سفیان نے اس کے ایک عزم کوکچل ڈالا تھا ۔رسولِ خداﷺ کے قتل کو وہ اپنا فرض سمجھتا تھا ۔وہ رسولِ خداﷺ کو قتل کرکے اپنے سب سے بڑے دیوتاؤں ہبل اور عزیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا تھا ۔اس نے اپنے سالار کا حکم ماننا ضروری سمجھا اور اپنے سوار دستے کی طرف چلا گیا ۔اسے اطمینان ضرور تھا کہ رسولِ اکرمﷺ کے ساتھ اب چند ایک ساتھی ہی رہ گئے ہوں گے اور آپﷺ کو قتل کرنا اب کوئی مشکل نہیں ہوگااور اس کے بعد مسلمان اٹھنے کے قابل نہیں ہوں گے ۔خالد کو میدانِ جنگ کی کیفیت بڑی اچھی طرح یاد تھی۔ اس نے ذرابلندی سے دیکھا تھا کہ احد کے دامن میں دور دور تک زمین خون سے لال ہو گئی تھی۔ کہیں گھوڑے تڑپ رہے تھے اور کہیں خون میں نہائے ہوئے انسان کراہ رہے تھے۔ زخمیوں کو اٹھانے کا ابھی کسی کو ہوش نہ تھا۔ پھر اس نے دیکھا ۔پیادہ قریش رسولِ کریمﷺ کے پاس پہنچ گئے تھے اور انہوں نے آپﷺ کے ساتھیوں کا حلقہ بھی توڑ لیا تھا۔ قریش کے تین آدمی عتبہ بن ابی وقاص، عبداﷲ بن شہاب اور ابنِ قمہ رسولِ کریمﷺ پر پتھر برسانے لگے۔ عجیب صورت یہ تھی کہ عتبہ کا سگا بھائی سعد بن ابی وقاصؓ رسولِ اکرمﷺ کی حفاظت میں لڑ رہا تھا ۔رسولِ اکرم ﷺکے ساتھیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی یا وہ لڑتے لڑتے بکھر گئے تھے۔ عتبہ نے آپﷺ پر جو پتھر برسائے ان سے آپ ﷺ کے نیچے والے دو دانت ٹوٹ گئے اور نچلا ہونٹ زخمی ہوگیا۔ عبداﷲ کے پتھر سے آپﷺ کی پیشانی پر خاصا گہرا زخم آیا ۔ابنِ قمہ نے آپﷺ کے قریب آ کر اتنی زور سے پتھر مارا کہ آپ ﷺکے خود کی زنجیر کی دو کڑیاں ٹوٹ کر رخسار میں اتر گئیں ان سے رخسار کی ہڈی بھی بری طرح مجروح ہوئی ۔آپﷺ نے برچھی سے دشمنوں پر وار کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن دشمن قریب نہیں آتے تھے ۔آپﷺ کاخون اتنا نکل گیا تھا کہ آپﷺ گر پڑے ۔اس وقت آپﷺ کے ایک صحابیؓ طلحہ ؓنے جو قریش کے دوسرے آدمیوں کے ساتھ لڑ رہے تھے دیکھ لیا اور دوڑتے ہوئے آپﷺ تک پہنچے۔ ان کی للکار پر ان کے دوسرے ساتھی بھی آ گئے ۔
آپﷺ کو پتھروں سے گرانے والے قرش آپﷺ پر تلواروں سے حملہ کرنے ہی والے تھے کہ سعدؓ بن ابی وقاص نے اپنے سگے بھائی عتبہ پر حملہ کر دیا ۔عتبہ اپنے بھائی کا غیض و غضب دیکھ کر بھاگ نکلا۔
طلحہؓ نے رسولِ خداﷺ کو سہارا دے کر اٹھایا ۔آپﷺ پوری طرح سے ہوش میں تھے اس دوران آپﷺ کے ساتھیوں نے ان آدمیوں کو بھگا دیا تھا جنہوں نے رسولِ کریمﷺ پر حملہ کیاتھا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ:” سعدؓ بن ابی وقاص پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا ،سعد کہتے تھے ”میں اپنے بھائی کو قتل کر کے اس کے جسم کے ٹکڑے کردینا چاہتا ہوں جس نے میری موجودگی میں میرے نبیﷺ پر حملہ کیا ہے۔“وہ اکیلے ہی قریش کی طرف دوڑنے کی کوشش کرتے تھے انہیں بڑی مشکل سے روکا گیا اگر رسولِ خداﷺ انہیں رکنے کا حکم نہ دیتے تو و ہ کبھی نہ رکتے۔“ قریش غالباً بہت ہی تھک گئے تھے ۔وہ معرکے سے منہ موڑ گئے ،تب رسولِ اکرمﷺ کے ساتھیوں نے آپﷺ کے زخموں کی طرف توجہ دی۔جو خواتین آپﷺ کے ساتھ تھیں انہوں نے آپﷺ کو پانی پلایا ‘کپڑوں سے زخم صاف کیے‘ اس وقت یہ دیکھا گیا کہ خود کی زنجیروں کی ٹوٹی ہوئی کڑیاں آپﷺ کے رخسار کی ہڈی میں اتری ہوئی ہیں ۔ایک صحابی ابو عبیدہؓ جو عرب کے ایک مشہور جرّاح کے فرزند تھے آگے بڑھے اور آپﷺ کے رخساروں سے کڑیا ں نکالنے لگے لیکن ہاتھوں سے کڑیاں نہ نکلیں۔ آخر ابو عبیدہؓ نے دانتوں کی مدد سے ایک کڑی نکال لی ۔جب دوسری کڑی نکالی تو کڑی تو نکل آئی لیکن ابی عبیدہؓ ؓکے سامنے کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ اس کے بعد لوگوں نے ابو عبیدہ کو الاثرم “کہنا شروع کر دیا ۔اس کا مطلب ہے وہ آدمی جس کے سامنے والے دانت نہ ہوں۔پھر وہ اسی نام سے مشہور ہوگئے ۔)یہ بھی رسولِ کریمﷺ کا معجزہ ہے کہ اس کے بعد ابو عبیدہؓ ایسے خوبصورت دِکھتے تھے کہ اُن کے چہرے سے نگاہ نہیں ہٹتی تھی(۔اُمّ ِایمنؓ جو رسول ِ اکرمﷺ کے بچپن میں آپﷺ کی دایہ رہ چکی تھیں ‘آپﷺ پر جھکی ہوئی تھیں ۔اس وقت تک آپﷺ کی طبیعت سنبھل چکی تھی۔ اچانک ایک تیر امِ ایمن ؓکی پیٹھ میں اتر گیا اور اس کے ساتھ ہی دور سے ایک قہقہہ سنائی دیا۔ سب نے ادھر دیکھا تو قریش کاایک آدمی حبان بن العرقہ دور کھڑا ہنس رہا تھااس کے ہاتھ میں کمان تھی۔ یہ تیر اسی نے چلایا تھا۔ وہ ہنستا ہوا پیچھے کو مڑا ‘رسولِ خداﷺ نے ایک تیر سعد ؓبن ابی وقاص کو دے کر کہا کہ:” یہ شخص یہاں سے تیر لے کرہی واپس جائے ۔
سعدؓ نے جو تمام قبائل میں تیر اندازی میں خصوصی شہرت رکھتے تھے ‘کمان میں تیر ڈال کر حبان پر چلایا ‘تیر حبان کی گردن میں اتر گیا۔ سعدؓ کے تمام ساتھیوں نے بڑی زور سے قہقہہ لگایا اور حبان نے ڈگمگاتے ہوئے چند قدم اٹھائے اوروہ گر پڑا۔ آج خالد جب مدینہ کی طرف بڑھتا جا رہا تھا اور احد کی پہاڑی افق سے اوپر ہی اوپر اٹھتی آ رہی تھی۔ اسے اپنے کچھ ساتھی یاد آنے لگے۔ عقیدوں کے اختلاف نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا تھا لیکن خالد کو یہ خیال بھی آیا کہ بعض لوگ اپنے عقیدے کو اس لیے سچا سمجھتے ہیں کہ وہ اس کے پیروکار ہوتے ہیں ۔حق اور باطل کے فرق کو سمجھنے کیلئے بڑی مضبوط شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ایک سوال اسے پھر پریشان کرنے لگا :”میں مدینہ کیوں جا رہا ہوں ؟اپنا عقیدہ مدینہ والوں پر ٹھونسنے کیلئے یا ان کا عقیدہ اپنے اوپر مسلط کرنے کیلئے ؟“اسے ابو سفیان کی آواز سنائی دی جو ایک ہی روز پرانی تھی۔” کیا یہ سچ ہے کہ تم مدینہ جا رہے ہو؟ کیا تمہاری رگوں میں ولید کا خون سفید ہیو گیا ہے ؟“صحرا میں جاتے ہوئے ان آوازوں نے کچھ دور تک اس کاتعاقب کیا پھر وہ اپنے ان دوستوں کی یاد میں کھو گیا جن کے خلاف وہ لڑا اور جن کا خون اس کے سامنے بہہ گیا تھا ۔ان میں ایک ”مصعب ؓبن عمیر“ بھی تھے ۔قریش جو معرکے سے منہ موڑ گئے تھے کچھ دور ہی پہنچے تھے کہ خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور ابو سفیان کو جا پکڑا۔ اس نے ابو سفیان سے پوچھا کہ:” تم لوگ جنگ کو ادھورا چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو؟ مسلمانوں کا دم خم ختم ہو چکا ہے؟“ ابو سفیان بھی یہی چاہتا تھا کہ یہ معرکہ فیصلہ کن نتیجے پر پہنچے۔ قریش کے چند سوار وہیں سے پلٹ آئے ۔خالد دیکھ چکا تھا کہ رسولِ کریمﷺکہاں ہیں ۔یہاں پھر ابو سفیان نے خالد کو کسی اور طرف بھیج دیا اور کچھ آدمیوں کونبی کریمﷺ پر حملے کا حکم دیا۔ اب رسول کریمﷺ کے ساتھ کچھ اور مسلمان آن ملے تھے۔ اب پھر ابن قمہ لڑتے ہوئے مسلمانوں کا حلقہ توڑ کر رسولِ اکرمﷺ تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس وقت رسولِ اکرمﷺ کے پاس مصعب ؓبن عمیرکھڑے تھے اور اُمّ ِعمارہؓ اپنے قریب پڑے ہوئے دو تین زخمیوں کو پانی پلا رہی تھیں۔ انہوں نے جب قریش کو ایک بار پھر حملے کیلئے آتے دیکھا تو زخمیوں سے ہٹ کر انہوں نے ایک زخمی کی تلوار اٹھا لی اور قریش کے مقابلے کیلئے ڈٹ گئیں۔ قریش کا سب سے پہلا سوار جو ان کے قریب آیا ۔اس تک وہ نہیں پہنچ سکتی تھیں اس لیے انہوں نے تلوار سے اس کے گھوڑے پر ایسا وار کیا کہ گھوڑا گر پڑا۔ سوار گھوڑے کے دوسری طرف گرا ۔ام عمارہؓ نے گھوڑے کے اوپر سے کود کر قریش کے اس آدمی پر وار کیا اور اسے زخمی کر دیا۔وہ اٹھا اور بھاگ کھڑا ہوا ۔
مصعب ؓبن عمیر کا قد بت اور شکل و صورت بھی رسولِ کریمﷺ کے ساتھ نمایاں مشابہت رکھتی تھی۔ ابن ِ قمہ مصعبؓ کو رسولِ خداﷺ سمجھ کر ان پر حملہ آور ہوا ۔مصعبؓ تیارتھے انہو ں نے ابنِ قمہ کا مقابلہ کیا پھر دونوں میں تیغ زنی ہوئی لیکن ابنِ قمہ کا ایک وار مصعبؓ پر ایسا بھرپور پڑا کہ وہ گرے اور شہید ہو گئے۔ )مصعب بن عمیرؓ بہت لاڈوں میں پلے نوجوان تھے لیکن تدفین کے وقت اُن کا کفن بھی ادھورا تھا( ام عمارہؓ نے مصعبؓ کو گرتے دیکھا ۔غیض و غضب سے ابنِ قمہ پر تلوارکا وار کیا لیکن ابنِ قمہ نے زرہ پہن رکھی تھی اور وار کرنے والی ایک عورت تھی‘ اس لیے ابنِ قمہ کو کوئی زخم نہ آیا۔ ابنِ قمہ نے ام عمارہ ؓکے کندھے پر بھرپور وار کیا جس سے وہ شدید زخمی ہو کر گر پڑیں ۔اس وقت رسولِ کریمﷺ جو قریب ہی تھے ۔ابنِ قمہ کی طرف بڑھے لیکن ابنِ قمہ نے پینترا بدل کر آپﷺ پہ ایسا وار کیا جو آپﷺ کے خود پر پڑا ۔تلوار خود سے پھسل کر آپﷺ کے کندھے پر لگی آپﷺ کے بالکل پیچھے ایک گڑھا تھا آپﷺ زخم کھاکر پیچھے ہٹے اور گڑھے میں گر پڑے۔ ابنِ قمہ نے پیچھے ہٹ کر گلا پھاڑ کر کہا:” میں نے محمد کو قتل کر دیا ہے۔“ وہ یہی نعرے لگاتا میدانِ جنگ میں گھوم گیا۔اس کی آواز قریش نے بھی سنی اور مسلمانوں نے بھی۔ قریش کو تو خوش ہونا ہی تھا۔ مسلمانوں پر اس کا بڑا تباہ کن اثر ہوا کہ حوصلہ ہار بیٹھے اوراحدکی پہاڑی کی طرف پسپا ہونے لگے۔’اپنے نبیﷺ کے شدائیو!“بھاگتے ہوئے مسلمانوں کو ایک للکار سنائی دی۔” اگر نبیﷺ نہ رہے تو لعنت ہے ہم پر کہ ہم بھی زندہ رہیں۔ تم کیسے شیدائی ہو کہ نبی کریمﷺ کی شہادت کے ساتھ ہی تم موت سے ڈر کر بھاگ رہے ہو؟“ مسلمان رک گئے۔ اس للکار نے انہیں آگ بگولہ کر دیا‘ وہ پیادہ تھے لیکن انہوں نے قریش کے گھڑ سواروں پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ خالد اور عکرمہ کے گھڑ سواروں پر ہوا تھا۔ خالد کو آج یاد آرہا تھا کہ اس کے ہاتھوں کتنے ہی مسلمانوں کا خون بہہ گیا تھا ان میں ایک رفاعہؓ بن وقش بھی تھے ۔خالد کے دل میں درد کی ایک ٹیس سی اٹھی ‘اسے کچھ ایسا احساس ہونے لگا جیسے وہ بے مقصد خون بہاتا رہا ہے لیکن اس وقت وہ مسلمانوں کو اپنا بد ترین دشمن سمجھتا تھا۔ اب مسلمانوں کا دم خم ٹوٹ چکا تھا۔ پیادے گھڑ سواروں کا مقابلہ کب تک کرتے ؟وہ مجبور ہو کر پہاڑی کی طرف پسپا ہونے لگے ۔رسولِ اکرمﷺ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک تنگ سی وادی کی طرف جا رہے تھے۔ جس طرح مسلمانوں نے فتح کی خوشی میں اپنا مورچہ چھوڑ دیا تھا اور جنگ کا پانسا اپنے خلاف پلٹ لیا تھا اسی طرح اب قریش کے آدمی مسلمانوں کی لاشوں پر اور تڑپتے ہوئے زخمیوں پر مالِ غنیمت اکھٹا کرنے کیلئے ٹوٹ پڑے ۔
ان میں سے کچھ قریش رسولِ کریمﷺ کے تعاقب میں چلے گئے‘ لیکن آپﷺ کے ساتھیوں نے ان پر ایسی بے جگری سے ہلہ بولا کہ ان میں سے زیادہ تر قریش کو جان سے مار ڈالا اور جو بچ گئے وہ بھاگ نکلے ۔رسولِ اکرمﷺ ایک بلند جگہ پہنچ گئے ۔آپﷺ نے وہاں سے صورتِ حال کا جائزہ لیا‘ آپﷺ کے تیس صحابہؓ میں سے سولہ شہید ہو چکے تھے جو چودہ زندہ تھے ا ن میں زیادہ تر زخمی ۔آپﷺ نے بلندی سے میدانِ جنگ کا جائزہ لیا آپﷺ کو کوئی مسلمان نظر نہیں آ رہا تھا۔ مسلمان یہ سمجھ کر کہ رسولِ اکرمﷺ شہید ہو چکے ہیں‘ سخت مایوسی کے عالم میں اِدھر ُادھر بکھر گئے۔کچھ واپس مدینہ چلے گئے۔ کچھ قریش کے انتقام سے بچنے کے لئے پہاڑی کے اندر موجود تھے۔ یہاں رسولِ خداﷺ کو اپنے زخموں کی طرف توجہ دینے کی فرصت ملی ۔آپﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ جو آپﷺ کو ہر طرف تلاش کرکر کہ تھک چکی تھیں۔ آپﷺ کے پاس آ پہنچی تھیں ۔قریب ہی ایک چشمہ تھا ۔حضرت علیؓ وہاں سے کسی چیز میں پانی لائے اور آپﷺ کو پلایا ۔حضرت فاطمہؓ آپﷺ کے زخم دھونے لگیں ۔وہ سسک سسک کر رو رہی تھیں۔ ؓخالد کو آج یاد آ رہا تھا کہ رسولِ کریمﷺ کی شہادت کی خبر نے اسے روحانی سا اطمینان دیا تھا لیکن ایک للکار نے اسے چونکا دیا۔ وادی میں للکار کی گونج بڑی دور تک سنائی دے رہی تھی ۔کوئی بڑی ہی بلند آواز میں کہہ رہا تھا:” مسلمانو! خوشیاں مناؤ ۔ہمارے نبیﷺ زندہ اور سلامت ہیں ۔“اس للکار پر خالد کو ہنسی بھی آئی تھی اور افسوس بھی ہوا تھا۔اس نے اپنے آپ سے کہا تھا کہ کوئی مسلمان پاگل ہو گیا ہے۔ہوا یوں تھا کہ جس طرح مسلمان اِکا دُکا اِدھر ُادھر بکھر گئے یا چھپ گئے تھے ۔اسی طرح کعب بن مالکؓ نام کا ایک مسلمان اِدھر ُادھر گھومتا پہاڑی کے اس مقام کی طرف چلا گیا جہاں رسولِ اکرمﷺ سستا رہے تھے۔ اس نے نبی کریمﷺ کو دیکھا تو اس نے جذبات کی شدت سے نعرہ لگایا ”ہمارے نبیﷺ زندہ ہیں“۔ تمام مسلمان جو اکیلے اکیلے یا د دو چار چار کی ٹولیوں میں اِدھر ُادھر بکھر گئے تھے اس آواز پر دوڑ کر آئے۔ حضرت عمرؓ بھی اسی آواز پر رسولِ خداﷺ تک پہنچے تھے۔ اس سے پہلے ابو سفیان میدانِ جنگ میں پڑی ہوئی ہر ایک لاش کو دیکھتا پھر رہا تھا‘ وہ رسولِ کریمﷺ کا جسدِمبارک تلاش کر رہا تھا ۔ اسے قریش کا جو بھی آدمی ملتا اس سے پوچھتا :”تم نے محمد کی لاش نہیں دیکھی؟“اسی تلاش میں خالد اس کے سامنے آگیا۔ ”خالد!“ ابو سفیان نے پوچھا:” تم نے محمد کی لاش نہیں دیکھی؟“”نہیں“۔خالد نے جواب دیا اور ابو سفیان کی طرف ذرا جھک کر پوچھا :”کیا تمہیں یقین ہے کہ محمدقتل ہو چکا ہے؟“
”ہاں !“ ابی سفیان نے جواب دیا:” وہ ہم سے بچ کر کہاں جا سکتاہے ۔تمہیں شک ہے؟“”ہاں ابوسفیان!“خالد نے جواب دیا ۔”میں اس وقت تک شک میں رہتا ہوں جب تک کہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں ۔محمد)ﷺ( اتنی آسانی سے قتل ہوجانے والا شخص نہیں ہے۔“ ”معلوم ہوتا ہے تم پر محمد)ﷺ( کا طلسم طاری ہے۔“ ابو سفیان نے تکبر کے لہجے میں کہا۔” کیا محمد)ﷺ( ہم میں سے نہیں تھا ؟کیا تم اسے نہیں جانتے تھے۔ جو شخص اتنی قتل و غارت کا ذمہ دار ہے ۔ایک روز اسے بھی قتل ہونا ہے ۔محمد)ﷺ( قتل ہو چکا ہے۔ جاؤ اور دیکھو‘ اس کی لاش کو پہچانو۔ہم اسکا سر کاٹ کر مکہ لے جائیں گے۔“عین اس وقت پہاڑی میں سے کعب ؓبن مالک کی للکار گرجی” مسلمانو! خوشیاں مناؤ ۔ہمارے نبیﷺ زندہ سلامت ہیں۔“ پھر یہ آواز بجلی کی کڑک کی طرح گرجتی کڑکتی وادی اور میدان میں گھومتی پھرتی رہی۔”سن لیا ابو سفیان!“ خالد نے کہا ۔”اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ محمد)ﷺ(کہاں ہے۔ میں اس پر حملہ کرنے جا رہا ہوں لیکن میں تمہیں یقین نہیں دلا سکتا کہ میں محمد)ﷺ( کو قتل کر آؤں گا۔“کچھ دیر پہلے خالد نے رسولِ کریمﷺ اور ان کے ساتھیوں کو پہاڑی کے اندر جاتے دیکھا تھا لیکن وہ بہت دور تھا۔ خالد ہار ماننے والا اور اپنے ارادے کوادھورا چھوڑنے والا آدمی نہیں تھا ۔اس نے اپنے چند ایک سواروں کو ساتھ لیا اورپہاڑی کے اس مقام کی طرف بڑھنے لگا جدھر اس نے رسولِ کریمﷺ کو جاتے دیکھا تھا۔ مشہور مؤرخ ابن ہشام کی تحریر سے پتا چلتا ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے جب خالد کو اپنے سواروں کے ساتھ اس گھاٹی پر چڑھتے دیکھا جہاں آپﷺ تھے تو آپﷺ کے منہ سے بے ساختہ دعا نکلی” خدائے ذوالجلال! انہیں اس وقت وہیں کہیں روک لے۔“خالد اپنے سواروں کے ساتھ گھاٹی چڑھتا جا رہا تھا۔و ہ ایک درہ سا تھا جوتنگ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ گھوڑوں کو ایک قطار میں ہونا پڑا۔ رسولِ کریمﷺ زخموں سے چور پڑے تھے ۔حضرت عمرؓ نے جب خالد اور اس کے سواروں کو اوپر آتے ہوئے دیکھا تو وہ تلوار نکال کر کچھ نیچے اترے۔ ”ولید کے بیٹے !“حضرت عمرؓ نے للکارا۔”اگر لڑائی لڑنا جانتے ہو تو اس درّہ کی تنگی کو دیکھ لو۔ اس چڑھائی کو دیکھ لو ۔کیا تم اپنے سواروں کے ساتھ ہمارے ہاتھ سے بچ کر نکل جاؤ گے؟“ خالد لڑنے کے فن کو خوب سمجھتا تھا ۔اس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ جگہ گھوڑوں کو گھما پھرا کر لڑانے کیلئے موزوں نہیں ہے بلکہ خطرناک ہے ۔خالد نے خاموشی سے اپنا گھوڑا گھمایا اور اپنے سواروں کے ساتھ وہاں سے نیچے اتر آیا ۔
جنگِ اُحد ختم ہو چکی تھی۔ قریش اس لحاظ سے برتری کا دعویٰ کر سکتے تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچایا لیکن یہ جنگ ہار جیت کے بغیر ختم ہو گئی تھی۔ ”لیکن یہ ہماری شکست تھی۔“ خالد کو جیسے اپنی آواز سنائی دی۔ ”مسلمانوں کی نفری سات سو تھی اور ہم تین ہزار تھے۔ ہمارے پاس دو سو گھوڑے تھے ۔ہماری فتح تب ہوتی جب ہم محمد)ﷺ( کو قتل کردیتے۔“خالد نے اپنے آپ میں جھنجھناہٹ محسوس کی۔ اس پر ایسی کیفیت طاری ہو گئی کہ اس کے دانت بجنے لگے۔ اسے جنگ کا آخری منظر یاد آنے لگا تھا۔ اُس نے اِس بھیانک یاد کو ذہن سے نکالنے کیلئے سر کو جھٹکا دیا لیکن مکھیوں کی طرح یہ یاد اس کے ارد گرد بھنبھناتی رہی۔ اسے اپنے آپ میں شرم سی محسوس ہونے لگی ۔جنگجو یوں نہیں کیا کرتے ۔خالد جب حضرت عمرؓ کی للکار پر واپس آ رہا تھا تو اس بلندی سے اس کی نظر میدانِ جنگ پر پڑی ۔وہاں لاشیں بکھری ہوئی تھیں ۔شاید ان میں بے ہوش زخمی بھی ہوں گے۔ لاشوں اور زخمیوں کو اٹھانے کیلئے نہ ابھی مسلمان آگے بڑھے تھے نہ اہلِ قریش ۔خالد کو ابو سفیان کی بیوی ہند نظر آئی ۔وہ ہاتھ میں خنجر لیے ہوئے دوڑے چلی آ رہی تھی۔ اس کے اشارے پر قریش کی وہ عورتیں جو قریش کے لشکر کے ساتھ آئی تھیں اس کے پیچھے پیچھے دوڑی آئیں۔ ہند ہر ایک لاش کو دیکھتی تھی ۔وہ اونچے قد کی اور فربہی مائل جسم کی پہلوان قسم کی عورت تھی۔ وہ ہر ایک لاش کو دیکھتی تھی۔ کوئی لاش اوندھے منہ پڑی ہوئی نظر آتی تو وہ پاؤں کی ٹھوکر سے اس لاش کو سیدھا کر کے دیکھتی تھی۔ اس نے اپنے ساتھ کی عورتوں سے کہا کہ وہ حمزہؓ کی لاش تلاش کریں۔ اسے حمزہ ؓکی لاش مل گئی۔ ہند بھوکے درندے کی طرح لاش کو چیرنے پھاڑنے لگی ۔اس نے لاش کے کچھ اعضاءکاٹ کر پرے پھینک دیئے۔ اس نے دوسری عورتوں کو دیکھا جو اس کے قریب کھڑی تھیں ۔
”کھڑی دیکھ کیا رہی ہو؟“ ہند نے ان عورتوں سے یوں کہا جیسے وہ پاگل ہو چکی ہو ۔”یہ دیکھو میں نے اپنے باپ ،اپنے چچا اور اپنے بیٹے کے قاتل کی لاش کا کیا حال کر دیا۔ جاؤ مسلمانوں کی ہر ایک لاش کا یہی حال کردواور سب کے کان اور ناک کاٹ کر لے آؤ۔“
اب وہ عورتیں مسلمانوں کی لاشوں کو چیرنے پھاڑنے کیلئے وہاں سے ہٹ گئیں تو ہند نے خنجر سے حمزہؓ کا پیٹ چاک کرکے اس کے اندر ہاتھ ڈالا۔ اس کا ہاتھ باہر آیا تو اس میں حمزہ ؓکا کلیجہ تھا جو ہند نے خنجر سے کاٹ لیا ۔اس نے اسی پر اکتفا نہ کیا ۔حمزہؓ کے کلیجے کا ایک ٹکڑاکاٹ کر اس نے اپنے منہ میں ڈال لیا اور بری طرح اسے چبانے لگی ۔لیکن تھوڑی دیر بعد اس نے کلیجے کے اس ٹکڑے کو اگل دیا۔خالد کو دور ابو سفیان کھڑا نظر آیا۔ ہند کی اس وحشیانہ حرکت نے خالد کا مزہ کِرکِرا کر دیا تھا۔ وہ جنگجو تھا ،وہ صرف آمنے سامنے آکر لڑنے والا آدمی تھا۔ اپنے دشمن کی لاشوں کےساتھ یہ سلوک نہ صرف یہ کہ اسے پسند نہ آیا بلکہ اس نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ ابو سفیان کو دیکھ کر خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور ابو سفیان کے پاس جا گھوڑا روکا۔ ”ابو سفیان !“خالد نے غصے اور حقارت کے ملے جلے لہجے میں کہا۔” کیا تم اپنی بیوی اور ان عورتوں کی اس وحشیانہ حرکت کو پسند کر رہے ہو؟“ابو سفیان نے خالد کی طرف ایسی نگاہوں سے دیکھا جن میں بے بسی کی جھلک تھی اور صاف پتا چلتا تھا کہ اسے لاشوں کے ساتھ اپنی بیوی کا یہ سلوک پسند نہیں۔”خاموش کیوں ہو ابو سفیان؟“”تم ہند کو جانتے ہو خالد ۔“ابو سفیان نے دبی سی زبان میں کہا۔” یہ عورت اس وقت پاگلوں سے بد تر ہے۔ اگرمیں یا تم اسے روکنے کیلئے آگے بڑھے تو یہ خنجر سے ہمارے پیٹ بھی چاک کردے گی۔“خالد ہند کو جانتا تھا وہ ابو اسفیان کی بے بسی کو سمجھ گیا ۔ابو سفیان نے سر جھکایا گھوڑے کی لگام کو جھٹکا دیا اور منہ پھیر کر دوسری طرف چل پڑا۔خالد بھی اس منظر کو برداشت نہ کر سکا۔جب ہند حمزہؓ کی لاش کا کلیجہ چبا کر اگل چکی تو اس نے پیچھے دیکھا ۔اس کے پیچھے جبیر بن مطعم کا غلام وحشی بن حرب کھڑاتھا۔اس کے ہاتھ میں افریقہ کی بنی ہوئی وہی برچھی تھی جس سے اس نے حمزہؓ کو شہید کیا تھا۔”یہاں کیا کر رہے ہو بن حرب ؟“ہند نے تحکمانہ لہجے میں اس سے کہا۔”جاؤ اور مسلمانوں کی لاشوں کے ٹکڑے کردو۔“وحشی بن حرب بولتا بہت کم تھا۔ اس کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ بات اشاروں میں کر لی جائے۔اس نے ہند کا حکم ماننے کے بجائے اپنا ہاتھ ہند کے آگے پھیلا دیا اور اس کی نظریں ہند کے گلے میں لٹکتے ہوئے سونے کے ہار پر جم گئیں-
ہند کو اپنا وعدہ یاد آ گیا۔ا س نے وحشی سے کہا تھا کہ تم میرے باپ چچا اور بیٹے کے قاتل کوقتل کردو تو میں نے جتنے زیورات پہن رکھے ہیں وہ تمہارے ہوں گے اور وحشی اپنا انعام لینے آیا تھا۔ ہند نے اپنے تمام زیورات اتار کر وحشی بن حرب کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر رکھ دیئے۔و حشی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اور وہ وہاں سے چل پڑا۔
جاری ہے
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: شمشیر بے نیام از عنایت الله مکمل ناول

Post by ایکسٹو »

قسط‎ ‎نمبر.....5
ہند پر اس وقت فتح اور انتقام کا بھوت سوار تھا۔ ”ٹھہر جاؤ بن حرب۔“ ہند نے جوشیلی آوازمیں اس حبشی کو بلایا۔ وہ جب اس کے پاس آیا تو ہند نے کہا ۔میں نے تمہیں کہا تھا کہ میرا کلیجہ ٹھنڈا کردو تو تمہیں اپنے زیورات دوں گی لیکن تم اس سے زیادہ انعام کے حق دار ہو ۔“ہند نے قریش کی عورتوں کی طرف اشارہ کیاا ور کہا۔” تم جانتے ہو ان عورتوں میں کنیزیں کون کون سی ہیں ۔دیکھو وہ جوان بھی ہیں خوبصورت بھی۔ تمہیں جو کنیز اچھی لگتی ہے لے جاؤ ۔“وحشی بن حرب نے اپنی عادت کے مطابق خاموشی سے چند لمحے ہند کے چہرے پر نظریں گاڑھیں لیکن اس کی نظریں کنیزوں کی طرف نہ گئیں ۔اس نے انکار میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا۔ کچھ دیر بعد میدانِ جنگ کی ہولناکی میں سے ہند کی بلند اور مترنم آواز سنائی دینے لگی ۔مؤرخ ابن ہشام کے مطابق اس نے ترنم سے جو نغمہ گایا ،اس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے: ”ہم نے بدر کے معرکے کا حساب برابر کر لیا ہے۔۔۔ایک خونریز معرکے کے بدلے ہم نے ایک خونریز معرکہ لڑ لیا ہے ۔۔۔عتبہ کا غم میری برداشت سے باہر تھا ۔۔۔عتبہ میرا باپ تھا۔۔۔مجھے چچا کا بھی غم تھا اپنے بیٹے کا بھی غم تھا ۔۔۔اب میرا سینہ ٹھنڈا ہو گیا ہے ۔۔۔میں نے اپنی قسم پوری کر لی ہے۔۔وحشی نے میرے دل کے درد کا مداوا کر دیا ہے ۔۔۔میں عمر بھر وحشی کی احسان مند رہوں گی۔۔۔اس وقت تک جب تک میری ہڈیاں قبر کی مٹی میں مل کر مٹی نہیں ہو جاتیں“ابو سفیان اس بھیانک منظر کوبرداشت نہ کر سکا تھا وہ پہلے ہر منہ پھیر کر جا چکا تھا۔ اس نے اپنے دو ساتھیوں سے کہا کہ اسے یقین نہیں آ رہا کہ محمد)رسول ﷺ (زندہ ہیں۔ ”خالد نے دور سے کسی اور کو دیکھ کر سمجھ لیا ہو گا کہ و ہ محمد)ﷺ( ہیں ۔“کسی نے ابو سفیان سے کہا ۔ابو سفیان یہ کہہ کر کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آتا ہے ۔اس تنگ سے درے کی طرف چلا گیا جہاں سے خالد اپنے سواروں کو واپس لایا تھا۔ وہ ایسی جگہ جا کھڑا ہوا جہاں سے اسے مسلمان بیٹھے ہوئے نظر آ رہے تھے۔
’’محمد)ﷺ( کے پیروکارو !‘‘ابو سفیان نے بلند آواز سے کہا ۔’’کیا تم میں محمد )ﷺ(زندہ ہے؟‘‘
رسولِ کریمﷺ نے آواز سنی تو اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے مسلمانوں کو اشارہ کیا کہ وہ خاموش رہیں ۔ابو سفیان نے اپنا سوال اور زیادہ بلند آواز سے دہرایا۔ا ب بھی اسے کوئی جواب نہ ملا ۔’’کیا ابو بکر تم میں زندہ موجود ہے ؟‘‘ابو سفیان نے بلند آواز سے پوچھا۔ اب بھی اسے کوئی جواب نہ ملا ۔تین بار پوچھنے کے باوجود بھی مسلمان خاموش رہے۔’’ کیا عمر زندہ ہے؟‘‘ ابوسفیان نے پوچھا۔اب کے بھی مسلمانوں نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ابو سفیان نے گھوڑے کو دوڑایا۔ اس نے نیچے دیکھا ۔قریش کے بہت سے آدمی رسولِ اکرمﷺ کے متعلق صحیح خبر سننے کو بیتاب کھڑے تھے۔ ’’اے اہلِ قریش!‘‘ ابو سفیان نے چلّا کر اعلان کیا ۔’’محمد)ﷺ( مر چکا ہے ۔ابو بکر و عمر بھی زندہ نہیں۔ اب مسلمان تمہارے سائے سے بھی ڈریں گے۔ خوشیاں مناؤ ،ناچو۔‘‘اہلِ قریش ناچنے اور ہلڑ مچانے لگے لیکن گرجتی ہوئی ایک آواز نے انہیں خاموش کر دیا۔ ’’اے خدا کے دشمن !‘‘درّے کے بلندی سے حضرت عمرؓ کی آواز گونجی۔’’ اتنا جھوٹ نہ بول ،وہ تینوں زندہ ہیں جن کے نام لے کہ تو انہیں مردہ کہہ رہا ہے۔ اپنے قبیلے کو دھوکہ مت دے۔ تجھے تیرے گناہوں کی سزا دینے کیلئے ہم سب زندہ ہیں۔‘‘ ابو سفیان نے طنزیہ قہقہہ لگایا اور بلند آواز سے بولا۔’’ ابنِ الخطاب! تیرا خدا تجھے ہم سے محفوظ رکھے ۔کیاتو اب بھی ہمیں سزا دینے کی بات کر رہا ہے؟ کیا تو یقین سے کہتا ہے کہ محمد )ﷺ(زندہ ہے؟‘‘’’اﷲ کی قسم! ہمارے نبیﷺ زندہ ہیں ‘‘۔حضرت عمرؓ ابنِ الخطاب کی آوا ز جواب میں گرجی۔’’ اﷲ کے رسولﷺ تمہارا ایک ایک لفظ سن رہے ہیں ۔‘‘عربوں میں رواج تھا کہ ایک معرکہ ختم ہونے کے بعد دونوں فریقوں کے سردار یا سالار ایک دوسرے پر طعنوں اور پھبتیوں کے تیر برسایا کرتے تھے۔ ابو سفیان اسی دستور کے مطابق دور کھڑا حضرت عمرؓ سے ہم کلام تھا ۔’’تم ہبل اور عزیٰ کی عظمت کو نہیں جانتے۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔ حضرت عمرؓ نے رسولِ اکرمﷺ کی طرف دیکھا ۔آپﷺ اونچا بول نہیں سکتے تھے ۔آپﷺ نے حضرت عمرؓ کو بتایا کہ وہ ابو سفیان کو کیا جواب دیں ۔’’او باطل کے پجاری۔‘‘ حضرت عمر ؓنے بلند آواز سے کہا۔’’ اﷲ کی عظمت کو پہچان ،جو سب سے بڑاا ور سب سے زیادہ طاقت والا ہے۔‘‘’’ہمارے پاس ہبل جیسا دیوتا اور عزیٰ جیسی دیوی ہے۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’کیا تمہارے پاس کوئی ایسا دیوتا یا دیوی ہے؟‘‘
’’ہمارے پاس اﷲ ہے۔‘‘ رسولِ کریمﷺ نے حضرت عمر ؓکی زبان سے کہلوایا۔ جو حضرت عمر ؓنے بلند آواز سے کہا۔’’ تمہارا خدا کوئی نہیں ۔‘‘جنگ کا فیصلہ ہو چکا تھا ۔ابو سفیان نے کہا ۔’’تم نے بدر میں فتح پائی تھی، ہم نے اس پہاڑی کے دامن میں تم سے انتقام لے لیا ۔اگلے سال ہم تمہیں بدر کے میدان میں ہی مقابلے کیلئے للکاریں گے ۔‘‘’’انشاء اﷲ !‘‘حضرت عمر ؓنے رسول اﷲﷺ کے الفاظ بلند آواز سے دہرائے۔’’ اب تمہارے ساتھ ہماری ملاقات بدر کے میدان میں ہی ہو گی۔‘‘ابو سفیان نے گھوڑا موڑا گھوڑا دو قدم ہی چلا ہو گا کہ اس نے گھوڑے کو روک دیا۔ ’’اے عمر، ابو بکر اور محمد)ﷺ(!‘‘ ابو سفیان نے اب کے ذرا ٹھہری ہوئی آواز میں کہا۔’’ تم جب میدان سے اپنی لاشیں اٹھاؤ گے تو تمہیں کچھ ایسی لاشیں بھی ملیں گی جن کے اعضاء کٹے ہوئے ہوں گے اور انہیں چیرا پھاڑا گیا ہو گا۔ خدا کی قسم! میں نے کسی کو ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اور میں نے تمہاری لاشوں کے ساتھ یہ سلوک بالکل بھی پسند نہیں کیا ۔اگر اس کا الزام مجھ پر عائد کرو گے تو میں اسے اپنی توہین سمجھوں گا ۔‘‘ابو سفیان نے گھوڑا موڑا اور گھوڑے کو ایڑھ لگا دی۔چلتے چلتے خالد کے گھوڑے نے اپنے آپ ہی رخ بدل لیا۔ خالد نے گھوڑے کو نہ روکا ۔وہ سمجھ گیاکہ گھوڑے نے پانی کی مشک پا لی ہے۔ کچھ دور جا کر گھوڑا نیچے اترنے لگا ۔خالد کو یہ مقام یاد آ گیا۔ جنگِ احد کے بعد واپسی پر قریش نے کچھ دیر یہاں پر قیام کیا تھا۔ نیچے پانی کا خاصا ذخیرہ موجود تھا۔ گھوڑا بڑا تیزی سے گھاٹی اتر گیا اور پانی پر جا رکا ۔خالد گھوڑے سے کود کر نیچے اترا اور دو زانو ہو کر چلو بھر بھر کر اپنے چہرے پر پانی پھینکنے لگا ۔ذرا سستانے کیلئے بھربھر ی سی ایک چٹا ن کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اسے وہ وقت یاد آیا جب احد کے معرکے کے بعد اہلِ قریش واپس آ ئے تھے۔ انہوں نے مدینہ سے کچھ دور آ کر قیام کیا تھا ۔اس قیام کے دوران قریش کے سردار اس بحث میں الجھ گئے تھے کہ واپس مکہ پہنچا جائے یا مسلمانوں پر ایک اور حملہ کیا جائے۔ صفوان بن امیہ نے کہا تھا۔’’ ہم شکست کھا کر نہیں آئے ۔اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ مسلمانوں کی حالت بہت بری ہے تو اپنی حالت دیکھو ۔ہماری حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ اب مسلمانوں کے ساتھ اتنی جلدی لڑنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے ۔ہو سکتا ہے قسمت ہمارا ساتھ نہ دے۔‘‘
جب یہ بحث جاری تھی تو قریش کے کچھ آدمی دو مسافروں کو پکڑ کر سرداروں کے سامنے لے آئے ۔انہیں بتایا گیا کہ یہ دونوں آدمی جو اپنے آپ کو مسافر کہتے ہیں ہمارے خیموں کے اردگرد گھوم پھر رہے تھے اور ہمارے چار پانچ آدمیوں سے انہوں نے پوچھا کہ تم لوگ کہاں جا رہے ہو ؟ان دونوں نے ابو سفیان اور دوسرے سرداروں کے سامنے بھی یہی بیان دیئے کہ وہ مسافر ہیں اور کسی جگہ کا نام لے کر کہاکہ وہ ادھر جارہے ہیں ۔ابو سفیان کے حکم سے ان کے پھٹے پرانے کپڑے جو انہوں نے پہن رکھے تھے۔اتر وائے گئے تو اندر سے خنجر اور تلواریں برآمد ہوئیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ ہتھیار چھپا کر کیوں رکھے ہیں؟ خالد کی نظر بہت تیز تھی۔ اسے شک ہوا کہ یہ مسلمانوں کے جاسوس ہیں ۔ان دونوں کو قریش کی فوج کے سامنے کھڑا کر دیا گیا اور پوچھا گیا کہ انہیں کوئی پہچانتا ہے ؟دو تین آوازیں آئیں کہ ’’ہم انہیں پہچانتے ہیں ۔یہ یثرب )مدینہ( کے رہنے والے ہیں۔‘‘ ’’اس ایک کومیں اچھی طرح جانتا ہوں ۔‘‘قریش کے آدمی نے اٹھ کر کہا۔’’ اسے میں نے اپنے خلاف لڑتے ہوئے دیکھا تھا ۔‘‘’’تم اپنی زبان سے کہہ دو کہ تم محمد کے جاسوس ہو ۔‘‘ابو سفیان نے ان دونوں سے کہا۔’’ اور جاؤ میں تمہاری جان بخشی کرتا ہوں۔‘‘ دونوں میں سے ایک نے اعتراف کر لیا۔ ’’جاؤ!‘‘ ابو سفیان نے کہا ۔’’ہم نے تمہیں معاف کیا۔‘‘ دونوں جو واقعی مسلمانوں کے بھیجے ہوئے جاسوس تھے اور قریش کے عزائم معلوم کرنے آئے تھے ۔ہنسی خوشی اپنے اونٹوں کی طرف چل پڑے ۔ابو سفیان کے اشارے پر کئی ایک تیر اندازوں نے کمانوں میں تیر ڈالے اور پیچھے سے ان دونوں مسلمانوں پر چلا دیئے۔ دونوں کئی کئی تیر اپنے جسم میں لے کر گرے پھر اٹھ نہ سکے۔’’ کیا تم اس کا مطلب سمجھتے ہو؟‘‘ ابو سفیان نے اپنے قریب کھڑ ے سرداروں سے کہا۔’’ جاسوس بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ہارے نہیں۔ وہ ابھی یا کچھ ہی عرصے بعد ہم پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔فوراً مکہ کو کوچ کرو اور اگلی جنگ کی تیاری کرو۔‘‘ اگلے روز رسولِ اکرمﷺ کو کسی نے آ کر بتایا کہ ا ہل ِقریش نے جہاں پڑاؤ کیا تھاوہاں اپنے دونوں جاسوسوں کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں اور اہلِ قریش مکہ کو روانہ ہو گئے ہیں-
خالد نے یہ پہلی جنگ لڑی ۔لیکن وہ سمجھتا تھا کہ وہ مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکا ہے۔ آج چار برس بعد وہ اس سوچ میں غرق تھا کہ مسلمانوں کی یہ طاقت عام انسانوںکی طاقت نہیں تھی کوئی راز ہے جسے وہ ابھی تک نہیں پا سکا۔ اسے اہلِ قریش کی کچھ خامیاں یاد آنے لگیں۔ کچھ باتیں اور کچھ اعمال اسے اچھے نہیں لگ رہے تھے۔ اسے یہودیوں کی دو بڑی خوبصورت عورتیں بھی یاد آئیں جو اہلِ قریش کے سواروں میں گھل مل گئی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ یہودی اپنے نسوانی حسن کے جادو سے اہلِ قریش پر چھا جانے کی اور انہیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ طریقہ اسے پسند نہ تھا لیکن ان میں سے ایک عورت ایک روز خالد سے ملی تو خالد نے محسوس کیا کہ یہ عورت جو کچھ کہہ رہی ہے اس میں عقل و دانش ہے۔ اس عورت کے حسن و جوانی کا اپنا ایک اثر تھا لیکن طلسم جو اس کی زبان میں تھا اس کا اثر خالد نے بھی محسوس کیا تھا۔ کچھ دیر تک یہ عورت خالدکے خیالوں پر چھائی رہی۔ اسکا گھوڑا ہنہنایا تو خالد جیسے خواب سے بیدار ہو گیا۔ وہ تیزی سے اٹھا، گھوڑے پر سوار ہوا اور پھر مدینہ کے راستے پر ہو لیا۔ولید کا بیٹا خالد شہزادہ تھا ۔عیش و عشرت کا بھی دلدادہ تھا لیکن فنِ حرب و ضرب کا جنون ایسا تھا کہ عیش و عشرت کو اس جنون پر حاوی نہیں ہونے دیتا تھا۔ مدینہ کی طرف جاتے ہوئے اسے وہ حسین و جمیل یہودن یاد آئی جس کا نام’’ یو حاوہ ‘‘تھا۔ اس نے اس یہودن کو ذہن سے نکال دیا لیکن یوحاوہ رنگ برنگی تتلی بن کر اس کے ذہن میں اڑتی رہی۔ خالد اسے ذہن سے نکال نہ سکا۔ خالد کے ذہن میں اڑتی ہوئی اس تتلی کے رنگ پھیکے پڑنے لگے ۔پھر تمام رنگ مل کر سرخ ہو گئے۔ خون جیسے سرخ ۔یہ ایک بھیانک یاد تھی۔ خالد نے اسے ذہن سے اگل دینے کی بہت کوشش کی لیکن تتلی جو زہریلی بھڑ بن گئی تھی۔ اس کے ذہن سے نہ نکلی۔ یہ معرکہ احد کے تین چار ماہ بعد کا ایک واقعہ تھا۔ یہ ایک سازش تھی جس میں وہ شریک نہ تھا لیکن وہ قبیلہ قریش کا ایک بڑا ہی اہم فرد تھا ۔مسلمانوں کے خلاف کسی سازش میں شریک نہ ہونے کے باوجود وہ دعویٰ نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اس میں شریک نہ تھا۔ معرکہ احد میں زخمی ہونے والے بعض اہلِ قریش کے زخم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے تھے کہ ایک روز خالد کو خبر ملی کہ مدینہ سے چھ مسلمان تبلیغِ اسلام کیلئے رجیع کی طرف جا رہے تھے کہ عفان سے تھوڑی دور ایک غیر مسلم قبیلے نے انہیں روک لیا اور ان میں سے دو کو مکہ لایا گیا اور انہیں نیلام کیا جا رہا ہے ۔
خالد دوڑتا ہوا وہاں گیا ۔وہ دو مسلمان خبیبؓ بن عدی، اور زیدؓ بن الدثنہ تھے۔ خالد دونوں کو جانتا پہچانتا تھا ۔وہ اسی کے قبیلے کے افراد ہوا کرتے تھے ۔انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔ان میں حب رسولﷺ کا یہ عالم تھا کہ رسولِ خدا ﷺ پر جانیں قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔ رسولِ خداﷺ انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ خالد نے دیکھا کہ انہیں ایک چبوترے پر کھڑا کر دیا گیا تھا اور اردگرد اہلِ قریش کا ہجوم تھا۔ ایک غیر مسلم قبیلے کے چار افراد ان کے پاس کھڑے تھے ۔دونوں کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے ۔’’یہ دونوں مسلمان ہیں۔‘‘ ایک آدمی چبوترے پر کھڑا علان کر رہا تھا۔’’ یہ دونوں احد میں تمہارے خلاف لڑے تھے۔ ان کے ہاتھوں تمہارے عزیز اور خون کے رشتے دار مارے گئے تھے ۔ہے کوئی جو انتقام کی آگ بجھانا چاہتا ہے ؟انہیں خریدو انہیں اپنے ہاتھوں قتل کرو،اور خون کے بدلے خون بہاؤ ۔یہ آدمی سب سے اونچی بولی دینے والے کو ملیں گے ۔بولو؟‘‘ ’’دو گھوڑے۔‘‘ ایک آواز آئی۔’’بولو بڑھ کر بولو۔‘‘’’دو گھوڑے ایک اونٹ ۔‘‘ایک اور آواز آئی۔’’گھوڑوں اونٹوں کو چھوڑو ۔سونے میں بولی دو۔سونا لاؤ، دشمن کے خون سے انتقام کی پیاس بجھاؤ۔‘‘وہ لوگ جن کے قریبی رشتے دار احد کی لڑائی میں مارے گئے تھے ۔بڑھ چڑھ کر بولی دے رہے تھے۔ خبیب ؓاور زیدؓ چپ چاپ کھڑے تھے۔ ان کے چہروں پر خوف نہ تھا گھبراہٹ نہیں تھی ۔ہلکی سی بے چینی بھی نہیں تھی ۔خالد ہجوم کو چیرتا ہوا آگے چلا گیا۔’’او قریش کے سردار کے جنگجو بیٹے !‘‘خبیبؓ نے خالد کو دیکھ کر بڑی بلند آواز سے کہا۔’’تیرا قبیلہ ہم دونوں کا خون بہا کر اس مقدس آواز کو خاموش نہیں کر سکتا جو غارِ حرا سے اٹھی ہے ۔لا اپنے قبیلے کا کوئی نامور لڑاکا اور میرے ہاتھ کھلوادے پھر دیکھ کون کس کے خون سے پیاس بجھاتا ہے؟‘‘’’میدانِ جنگ میں پیٹ دکھانے والو! ‘‘زیدؓ نے گرجدار آواز میں کہا۔’’ تم نے شکست کا انتقام ہمارے بھائیوں کی لاشوں سے لیا ۔تمہاری عورتوں نے احد کے میدان میں ہماری لاشوں کے کان اور ناکیں کاٹ کر ان کے ہار اپنے گلوں میں لٹکائے ہیں۔‘‘ آج چار برس بعد مدینہ کی طرف جاتے ہوئے خالد کو خبیب ؓاور زیدؓ کی للکار اور طعنے صاف سنائی دے رہے تھے۔ وہ زیدؓ کے طعنے کو برداشت نہیں کر سکا تھا۔ آج چار برس بعد اسے یہ طعنہ یاد آیا تو بھی اس کے جسم میں جھرجھری لی ۔
اسے احد کے میدان کا وہ منظر یاد آیا جب ابو سفیان کی بیوی ہند نے حمزہؓ کی لاش کا کلیجہ نکال کر اپنے منہ میں ڈال لیا اور چبا کر اگل دیا تھا ۔اسی عورت نے اپنے ساتھ کی عورتوں سے کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کی لاشوں کے کان اور ناکیں کاٹ لائیں ۔ان عورتوں نے اس کے آگے کانوں اور ناکوں کا ڈھیر لگا دیا تھا۔ ہند نے ان کا نوں اور ناکوں کا ہار بنایا اور اپنے گلے میں ڈال لیا تھا اور وہ پاگلوں کی طرح میدان میں ایک گیت گاتی اور ناچتی پھری تھی ۔اس منظر کو اس کے خاوند ابو سفیان نے پسند نہیں کیا تھا ۔خالد نے تو نفرت سے منہ پھیر لیا تھا۔تین چار ماہ بعد دو مسلمان جن کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے ۔اسے طعنے دے رہے تھے ۔وہ اوچھے طریقے سے انتقام لینے والا آدمی نہیں تھا۔ وہ یہاں سے کھسک آیا اور اہلِ قریش کے ہجوم میں گم ہو گیا۔اسے اس قبیلے کا ایک آدمی مل گیاجو ان دو مسلمانوں کو پکڑ لایا تھا۔ کسی بھی تاریخ میں ا س قبیلے کا نام نہیں ہے۔ مؤرخوں نے بھی ہشام کے حوالے سے ایک جنگجو قبیلہ لکھا ہے جو قریش کا اتحادی تھا۔ خالد نے اس جنگجو قبیلے کے اس آدمی سے پوچھا کہ ان دو مسلمانوں کو کس طرح پکڑا گیا۔’’ خدا کی قسم! ‘‘اس آدمی نے کہا۔’’ کہو تو ہم ان مسلمانوں کے رسول کو پکڑ لائیں اور نیلامی کے چبوترے پر کھڑا کر دیں ۔‘‘’’تم جو کام نہیں کر سکتے اس کی قسم نہ کھاؤ۔‘‘خالد نے کہا ۔’’مجھے بتاؤ کہ ان دو کو کہاں سے پکڑا گیا ہے ؟‘‘یہ چھ تھے ۔اس شخص نے جواب دیا۔’’ ہم نے احد میں مارے جانے والوں کا انتقام لیا ہے۔ آئندہ بھی ایسے ہی انتقام لیتے رہیں گے۔ ہمارے قبیلے کے کچھ آدمی مدینہ میں محمد)ﷺ( کے پاس گئے اور کہا کہ وہ اسلام قبول کرنے آئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا پورا قبیلہ اسلام قبول کرنے کا ارادہ کر چکا ہے لیکن پورا قبیلہ مدینہ نہیں آ سکتا۔ ہمارے ان آدمیوں نے محمد )ﷺ(سے کہا کہ ان کے ساتھ چند ایک مسلمانوں کو ان کے قبیلے میں بھیجا جائے جو پورے قبیلے کو مسلمان کرے اور پھر قبیلے کو مذہبی تعلیم دینے کیلئے کچھ عرصہ وہیں رہے۔‘‘’’ہمارے یہ آدمی جب واپس آئے تو ان کے ساتھ چھ مسلمان تھے ۔ادھر ہمارے سردار شارجہ بن مغیث نے ایک سو آدمیوں کو رجیع کے مقام پر بھیج دیا ۔جب یہ چھ مسلمان رجیع پہنچے تو ہمارے ایک سو آدمیوں نے انہیں گھیر لیا۔ تم سن کر حیران ہو گے کہ یہ چھ مسلمان تلواریں نکال کر ایک سو آدمیوں سے مقابلے پر آگئے ۔ہم نے تین کو مار ڈالا اور تین کو پکڑ لیا۔ان کے ہاتھ رسیوں سے باندھ دیئے ۔شارجہ بن مغیث نے حکم دیا تھا کہ مدینہ سے کچھ مسلمان تمہارے دھوکے میں آکر تمہارے ساتھ آ گئے تو ان میں سے دو تین کو مکہ لے جانا اور انتقام لینے والوں کے ہاتھوں فروخت کر دینا۔‘‘
’’ہم تین کو ادھر لا رہے تھے۔ راستے میں ان میں سے ایک نے رسیوں میں سے ہاتھ نکال لیے مگر وہ بھاگا نہیں۔ وہ اتنا پھرتیلا تھا کہ اس نے ہمارے ایک آدمی کی نیام سے تلوار نکال لی کیونکہ اسے ہم نے نہتا کر رکھا تھا۔ اس نے بڑی تیزی سے ہمارے دو آدمیوں کو مار ڈالا۔ اکیلا آدمی اتنے سارے آدمیوں کا مقابلہ کب تک کرتا؟ وہ مارا گیااور ہم نے اس کے جسم کا قیمہ کر دیا ۔یہ دو رہ گئے۔ ہم نے ان کے ہاتھ اور زیادہ مضبوطی سے باندھ دیئے اور یہاں لے آئے ۔‘‘’’اور تم خوش ہو؟‘‘خالد نے اسے طنزیہ کہا ۔’’محمد)ﷺ( کیا کہے گا اہلِ قریش اور ان کے دوست قبیلے اتنے بزدل ہو گئے ہیں کہ اب دھوکہ دینے اور چھ آدمیوں کو ایک سو سے مروانے پر اتر آئے ہیں؟ کیا تم نے مجھے یہ بات سناتے شرم محسوس نہیں کی؟کیا ان ایک سو آدمیوں نے اپنی ماؤں کو شرمسار نہیں کیا؟جن کا انہوں نے دودھ پیا ہے؟‘‘’’تم نے میدانِ جنگ میں مسلمانوں کا کیا بگاڑ لیا تھا ولید کے بیٹے!‘‘ اس آدمی نے کہا۔’’ کیا تم محمد)ﷺ( کی طاقت کا مقابلہ کر سکتے ہو؟بدر میں ایک ہزار قریش تین سو تیرہ مسلمانوں سے مار کھا آئے تھے۔احد کی لڑائی میں محمد)ﷺ( کے پیروکار کتنی تعداد میں تھے۔سات سو سے کم ہوں گے زیادہ نہیں۔قریش کتنے تھے؟ہزاروں ۔سن خالد بن ولید۔محمد )ﷺ(کے ہاتھ میں جادو ہے۔ جہاں جادو چلتا ہے وہاں تلوار نہیں چل سکتی۔‘‘’پھر تمہاری تلوار کس طرح چل گئی؟‘‘خالد نے پوچھا۔’’ اگر محمد کے ہاتھ میں جادو ہے تو وہ تمہارے سردار شارجہ بن مغیث کے دھوکے میں کس طرح آگیا ؟اس کے چار آدمیوں کو کس طرح مار ڈالا؟ان دو کو محمد)ﷺ( کا جادو آزاد کیوں نہیں کرا دیتا؟تم جس چیز کا مقابلہ کرنے کی جرات نہیں رکھتے اسے جادو کہہ دیتے ہو۔‘‘’’ہم نے جادو کو جادو سے کاٹا ہے۔‘‘ شارجہ بن مغیث کے قبیلے کے آدمی نے کہا۔’’ ہمارے پاس یہودی جادوگر آئے تھے ۔انکے ساتھ تین جادوگرنیاں بھی تھیں۔ ان میں سے ایک کا نام یوحاوہ ہے ۔ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ایک گھنی جھاڑی میں سے ایک برچھی زمین سے سرکتی ہوئی باہر آئی ۔یہ برچھی جھاڑی میں واپس چلی گئی اور سانپ بن کر واپس آئی۔یہ سانپ واپس جھاڑی میں چلا گیا ۔‘‘مدینہ کی طرف جاتے ہوئے اسے یہ واقعہ یاد آ رہا تھا ۔وہ اسے یاد نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن زہریلی بھڑوں کی طرح یہ یاد اس کے اوپر بھنبھناتی رہی۔اسے یوحاوہ یاد آئی۔ وہ جادو گرنی تھی یا نہیں۔ا س کے حسن میں، جسم کی ساخت، مسکراہٹ اور بولنے کے انداز میں جادو تھا۔ اس نے شارجہ بن مغیث کے اس آدمی کے منہ سے یوحاوہ کا نام سنا تو وہ چونکا۔
معرکہ احد کے بعد جب اہلِ قریش کی فوج مکہ واپس آئی تھی تو مکہ کے یہودی ایسے انداز سے ابو سفیان ،خالد اور عکرمہ کے پاس آئے تھے جیسے احد میں یہودیوں کو شکست ہوئی ہو۔ یہودیوں کے سرداروں نے ابو سفیان سے کہا تھا کہ مسلمانوں کو شکست نہیں ہوئی اور لڑائی ہار جیت کے بغیر ختم ہو گئی ہے، تو یہ قریش کی شکست ہے۔ یہ یہودیوں کی ناکامی ہے ۔یہودیوں نے اہلِ قریش کے ساتھ اس طرح ہمدردی کا اظہار کیا تھا جیسے وہ اہلِ قریش کی ناکامی پر غم سے مرے جا رہے ہیں ۔انہی دنوں خالد نے پہلی بار یوحاوہ کو دیکھا تھا۔ وہ اپنے گھوڑے کی ٹہلائی کیلئے آبادی سے باہر نکل گیا تھا۔جب وہ واپس آ رہا تھا تو راستے میں اسے یوحاوہ مل گئی ۔یوحاوہ کی مسکراہٹ نے اسے روک دیا ۔’’میں تسلیم نہیں کر سکتی ،ولید کا بیٹا جنگ سے ناکام لوٹ آیا ہے۔‘‘ یوحاوہ نے کہا اور خالد کے گھوڑے کی گردن پر ہاتھ پھیرنے لگی اور بولی۔’’ مجھے اس گھوڑے سے پیار ہے جو مسلمانوں کے خلاف لڑنے گیا ۔‘‘خالد یوں گھوڑے سے اتر آیا جیسے یوحاوہ کے جادو نے اسے گھوڑے سے زمین پر کھڑاکردیا ہو۔’’اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہو گی کہ تم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکے ۔‘‘یوحاہ نے کہا۔’’ تمہاری شکست ہماری شکست ہے۔ اب ہم تمہارا ساتھ دیں گے لیکن تمہارے ساتھ ہوتے ہوئے بھی تم ہمیں اپنے ساتھ نہیں دیکھ سکو گے۔۔‘‘خالد نے یوں محسوس کیا جیسے اس کی زبان بند ہو گئی ہو۔ تلواروں برچھیوں اور تیروں کی بوچھاڑوں کا مقابلہ کرنے والا خالد یوحاوہ کی مسکراہٹ کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ ’’اگر یہودی ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے تو ہمارے کس کام آ سکیں گے؟‘‘ خالد نے پوچھا۔’’ کیا تم سمجھتے ہو کہ صرف تیر ہی انسان کے جسم سے پار ہو جاتا ہے؟‘‘ یوحاوہ نے کہا ۔’’عورت کا تبسم تم جیسے دلیر اور جری مردوں کے ہاتھوں سے تلوار گرا سکتا ہے۔‘‘ خالد اس سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا لیکن کچھ پوچھ نہ سکا ۔یوحاوہ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور پھولوں کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر تبسم آ گیا ۔یوحاوہ آگے چل پڑی ۔خالد اسے دیکھتا رہا ۔ اس کے گھوڑے نے کھر مارا تو خالد اپنے آپ میں آ گیا۔ وہ بڑی تیزی سے گھوڑے پر سوار ہوا اور چل پڑا۔ کچھ دور آ کر اس نے پیچھے دیکھا ۔یوحاوہ رک کر اسے دیکھ رہی تھی۔ یوحاوہ نے اپنا ہاتھ ذرا اوپر کر کے لہرایا ۔
اب جب کہ دو مسلمانوں کو نیلام کیا جا رہا تھا اور خالد کو ایک آدمی نے بتایا تھا کہ ان مسلمانوں کو کس طرح دھوکے میں لایا گیا ہے اور اس آدمی نے یوحاوہ کا نام بھی لیا تو اس نے ارادہ کر لیا کہ معلوم کرے گا کہ یوحاوہ نے وہ جادو کس طرح چلایا ہے۔ اسے اپنے قبیلے کاایک سرکردہ آدمی مل گیا۔ اس سے اسے پتا چلاکہ یہ مسلمان اہلِ قریش کے ہاتھ کس طرح آئے ہیں ۔تین چار سرکردہ یہودی یوحاوہ اور دو تین اور یہودیوں کو ساتھ لے کر شارجہ بن مغیث کے پاس چلے گئے ۔یہ قبیلہ تھا تو جنگجو لیکن اس پر مسلمانوں کارعب کچھ اس طرح طاری ہو گیاتھا جیسے لوگ جادوگروں سے ڈرتے تھے۔ اس قبیلے میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ رسولِ اکرمﷺ کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے۔ یہودیوں نے اپنی زمین دوز کارروائیوں کیلئے اس قبیلے کو اس لیے منتخب کیا تھا کہ وہ جنگجو قبیلہ تھا ۔یہودی بڑی دانشمند قوم تھی۔ انہوں نے سوچا کہ اگر مسلمانوں کے جادو کا وہم پھیل گیا تو دوسرے قبیلے بھی اس سے متاثر ہوں گے۔ یہ یہودی اس قبیلے کے سردار شارجہ بن مغیث کے پاس گئے اور اس کا یہ وہم دور کرنے کیلئے کہ مسلمان جادوگر ہیں ،اسے بہت کچھ کہا۔ لیکن شارجہ بن مغیث نے تسلیم نہ کیا۔رات کو یہودیوں کے کہنے پر شارجہ بن مغیث نے ان مہمانوں کی ضیافت کا انتظام باہر کھلے آسمان تلے کیا۔ ان یہودیوں نے اپنے ہاتھوں اپنے میزبانوں کو شراب پلائی۔شارجہ بن مغیث اور اس کے قبیلے کے چند ایک سرکردہ افراد کوجو شراب پلائی گئی اس میں یہودیوں نے کوئی سفوف سا ملا دیا تھا، پھر یہودیوں نے اپنے جادو کے کچھ شعبدے دکھائے۔یوحاوہ نے اپنے حسن کا جادو چلایا۔ اس کا ذریعہ ایک رقص بھی تھا جس میں یہ یہودنیں نیم ہرہنہ تھیں۔ ناچتے ناچتے ان کے جسموں پر جو ادھورے سے لباس تھے وہ بھی سرک کر زمین پر جا پڑے ۔یہودی اپنے سازندے ساتھ لے گئے تھے۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: شمشیر بے نیام از عنایت الله مکمل ناول

Post by بلال احمد »

شیئرنگ کے لیے شکریہ محترم r:o:s:e r:o:s:e r:o:s:e
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
Post Reply

Return to “اسلامی کتب”