راہبر کے روپ میں راہزن
-
- مدیر
- Posts: 10960
- Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
- جنس:: مرد
- Location: اللہ کی زمین
- Contact:
راہبر کے روپ میں راہزن
شھید ختمِ نبوت مولانا سعید احمد جلال پوری شھید رحمتہ اللہ علیہ
[center]کی ایک نادر تحریر[/center]
اسی طرح نبوت کے جھوٹے دعویدار یوسف کذاب کی کہانی پر مشتمل کتاب ”کذاب“ میں بھی بیس مقامات پر مختلف عنوانات اور خدمات کے ذیل میں بایں الفاظ ان کا تذکرہ ملتا ہے، پڑھیے اور سر دھنیے:
1… ”اس جلسے میں کذاب کا چیلا زید زمان جسے کذاب نے ”صحابی“ قرار دیا تھا، اسٹیج پر براجمان تھا۔“ (ص:24)
2… ”کذاب کو کم از کم اپنے ان دو ”صحابیوں“ عبدالواحد اور زید زمان ہی کو اپنی صفائی میں عدالت میں لانا چاہیے تھا۔“ (ص:25)
3… ”اپنی تقریر کے دوران اپنے دو چیلوں عبدالواحد خان اور زید زمان کو ”صحابی“ کی حیثیت سے متعارف کروایا، وہ دونوں اس محفل میں موجود تھے۔“ (ص:50)
4… ”سب سے پہلے وابستہ اور وارفتہ ہونے والے سیّد زید زمان ہی تھے، آئیں سیّد زید زمان!“(ص:52)
5… ”کراچی سے عبدالواحد، محمد علی ابوبکر ، سیّد زید زمان، سروش، وسیم، امجد، رضوان، کاشف، عارف اورنگزیب خان اور شاہد نے شرکت کی۔“ (ص:64)
6… ”راولپنڈی کا خلیفہ زید زمان، پشاور کا خلیفہ سابق ایئر کموڈور اورنگزیب تھا۔“ (ص:91)
7… ”اس دوران اس کے خاص کارندے زید زمان، جو راولپنڈی میں برنکس نامی ایک سیکورٹی کی فرم میں آفیسر ہے، نے کذاب یوسف کے گھر پر سیکورٹی کا عملہ تعینات کردیا۔ “ (ص:94)
8 … ”پھر اسی محفل میں ، میں نے دو افراد عبدالواحد خان اور زید زمان کا بطور صحابی تعارف کروایا۔“ (ص:95)
9… ”...حتی کہ عبدالواحد خان اور زید زمان بھی گواہی کے لیے نہ آئے، جنہیں اس نے یتیم خانہ لاہور، بیت الرضا میں نعوذباللہ خلفائے راشدین کا درجہ دیا تھا۔“ (ص:125)
10… ”اس نے دو افراد زید زمان اور عبدالواحد کے صحابی ہونے کا اعلان کیا۔“ (ص:175)
11… ” اس ...یوسف علی...نے دو افراد، جن کے نام زید زمان اور عبدالواحد تھے، کو آگے بلایا اور ان کا تعارف صحابی رسول کی حیثیت سے کرایا۔“ (ص:179)
12… ”میں نے اجلاس میں شرکت کی تھی، جہاں آڈیو اور ویڈیو کیسٹ تیار کی گئی تھی...ملزم یوسف نے عبدالواحد اور زید زمان کا اپنے صحابیوں کی حیثیت سے تعارف کرایا۔“ (ص:187)
13… ”یہ درست ہے کہ ملزم یوسف نے عبدالواحد اور زید زمان کو اصحاب رسول کہا، اپنے صحابی نہیں کہا۔“(ص:196)
14… ”پھر دوران تقریر یوسف علی ملزم نے دو اشخاص کو، جن کے تعارف زید زمان اور عبدالواحد کرائے، ان کو بطور صحابی پیش کیا۔“ (ص:211)
15… ”حافظ ممتاز مذکورہ اجتماع میں موجود تھے...جس میں تم نے اپنے دو مریدوں زید زمان اور عبدالواحد کے صحابی ہونے کا اعلان کیا۔“ (ص:230)
16… ”کیا یہ درست ہے کہ...تم نے عبدالواحد اور زید زمان کو اپنے صحابی کی حیثیت سے متعارف کرایا اور ان دونوں افراد نے کسی حد تک خود بھی تقریریں کیں؟۔“ (ص:238)
17… ”...میں نے جس اجتماع میں اپنے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا، وہاں بیٹھے افراد میں سے اپنے مریدوں زید زمان اور عبدالواحد کے صحابی ہونے کا اعلان کیا۔ “ (ص:297)
18… ”مثال کے طور پر آڈیو کیسٹ بی، ا۔کاٹرنسکرپٹ ایگزیبٹ پی۔۱۰ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس نے عبدالواحد اور زید زمان کے صحابی رسول ہونے کا اعلان کیا۔“ (ص:334)
19… ”یہاں موجود سو افراد اصحاب رسول ہیں، اس نے عبدالواحد اور زید زمان نامی دو افراد کا تعارف صحابی کی حیثیت سے اور اپنا پیغمبر اسلام کی حیثیت سے کرایا۔“ (ص:340)
20… ”ملزم یوسف نے مسجد میں اپنے ایک سو صحابیوں کی موجودگی کا ذکر کیا اور اس نے دو افراد عبدالواحد اور زید زمان کا اپنے صحابی کی حیثیت سے تعارف کرایا۔“ (ص:343)
خلاصہ یہ کہ کیا اس کتاب میں بھی مختلف عنوانات اور خدمات کے سلسلہ میں ان کا نام درج نہیں ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے اور یقینا اثبات میں ہے تو یہ سب کچھ بغیر کسی تعلق اور تعارف کے ہے؟
5… اسی طرح کل کے زید زمان اور آج کے زید حامد صاحب!اس آڈیو اور ویڈیو کیسٹ کے مندرجات کا انکار کرسکیں گے؟ جس میں ملعون یوسف کذاب نے لاہور کی مسجد بیت الرضا میں نام نہاد اپنے سو صحابہ کی موجودگی کا اعلان کیا اور ان میں سے دو خاص الخاص صحابہ اور خلفاء کا تعارف بھی کرایا، پھر اس موقع پر آپ نے اور عبدالواحد نے حق نمک ادا کرتے ہوئے مختصر سا خطاب بھی کیا تھا۔ لیجیے! اس کیسٹ کے مندرجات اور اپنی تقریر بھی ملاحظہ کیجیے:
”کائنات کے سب سے خوش قسمت ترین انسانو! اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے خوش نصیب صاحبانِ ایمان۔ حضور سیّدنا محمد رسول اللہ سے وابستہ ہونے والو! ان پر وارفتہ ہونے والو! ان
پر تن من دھن نثار کرنے والو! صاحبانِ نصیب انسانو! آپ کو مبارک ہو کہ آج آپ کی اس محفل میں القرآن بھی موجود ہے، قرآن بھی موجود ہے، پارے بھی موجود ہیں، آیات بھی موجود ہیں، آپ میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ ایک آیت ہے، کچھ خوش نصیب اپنی اپنی جگہ ایک پارہ ہیں، جن کو اپنے پارے کا احساس ہے، ان کو قرآن کی پہچان ہے اور جن کو قرآن کی پہچان ہے ان کو القرآن کی پہچان ہے، آج نور کی کرنیں بھی نچھاور کرنی ہیں اور نور کے اس سفر میں جو لوگ انتہائی معراج پر پہنچ گئے ہیں، ان سے بھی آپ کا تعارف کروانا ہے، آج کم از کم یہاں اس محفل میں100 صحابہ موجود ہیں، 100 اولیاء اللہ موجود ہیں، ہر عمر کے لوگ موجود ہیں۔
بھئی صحابی وہی ہوتا ہے ناں ،جس نے صحبت رسول میں ایمان کے ساتھ وقت گزارا ہو اور اس پر قائم ہو گیا ہو؟ اور رسول اللہ ہیں ناں؟ اور اگر ہیں تو ان کے صاحب بھی ساتھ ہیں، اس صاحب کے جو مصاحب ہیں وہی تو صحابی ہیں۔
ان صحابہ کے ذریعے کائنات میں ربط لگا ہوا ہے، ان کے صدقے کائنات میں رزق تقسیم ہورہا ہے، ان کے صدقے شادی بیاہ ہورہے ہیں، ان کے صدقے پانی مل رہا ہے، ان کے صدقے ہوا چل رہی ہے، ان کے صدقے چاند کی چاندنی ہے، ان کے صدقے سورج کی روشنی ہے، یہ نہ ہوں تو اللہ بھی قسم اٹھاتا ہے کہ کچھ بھی نہ ہو گا۔ حتی کہ یہ جو سانس آرہا ہے یہ بھی ان کے صدقے ہے۔یہ ہیں وہ صحابہ، ان کا آپ کو علم ہے کہ دنیا کے کتنے بڑے ولی کیوں نہ ہوں، لاکھوں کروڑوں ان کے مرید کیوں نہ ہوں، ان صحابہ کے گھوڑے، الفاظ یہ ہیں: خدا کی قسم! ان کی سواری کے پیچھے جو گرد اڑتی ہے، اس کے برابر بھی وہ پیر، وہ ولی نہیں ہوسکتا، جس کے لاکھوں کروڑوں مرید ہیں، کیوں وہ پیر ولی ہیں، اللہ کو دیکھے بغیر، یہ ہیں دیکھ کر۔
ان صحابہ میں ایک ایک اپنی جگہ نمونہ ہے اور ایک ایک کا تعارف کروانے کو جی چاہتا ہے، لیکن ہم صرف دو کا تعارف کروائیں گے، عمر کے لحاظ سے دونوں نوجوان ہیں، حقیقت کے لحاظ سے دونوں نوجوان ہیں، ایک وہ خوش نصیب ہستی ہے، کائنات میں وہ واحد ہستی ہے، نام بھی ان کا عبدالواحد ہے، محمد عبدالواحد، ایک ایسے صحابی، ایک ایسے ولی اللہ ہیں کہ جن کا خاندان پوری کائنات میں سب سے زیادہ تقریباً سارے کا سارا وابستہ ہے رسول اللہ سے، وارفتہ ہے اور محمد الرسول اللہ سے وابستہ ہو کر محمد رسول اللہ کے ذریعے ذات حق سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچا ہے۔ نعرئہ تکبیر کے ساتھ ان کا استقبال کیجیے! اور میں ان کو کہوں گا ،کچھ ہمیں کہیں؟ بسم اللہ !
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم!
آج سے 25 سال پہلے مکہ معظمہ میں ایک بزرگ سے ایک شعر سنا، جو صبح سے میرے کانوں میں گونج رہا ہے، انہوں نے فرمایا تھا:
”میں کہاں اور یہ نکہت گل!
نسیم صبح یہ تیری مہربانی“
یہ شعر تو بہت پسند آیا، مگر اب پتہ لگا کہ ذاتِ حق کا کرم اور اس کی رحمت، اس کا خالص کرم کہ یہ نکہت گل بھی اور نسیم سحر بھی اور حصول بھی، وہ سب اندر ہی اندر موجود ہیں، یہ ایک لباس میں چھپے ہوئے ہیں، ایک اور ہے، بہت عرصہ پہلے علامہ اقبال نے بڑے تڑپ کے ساتھ ایک شعر کہا تھا:
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزار سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
مبارک ہو کہ اب انتظار کی ضرورت نہیں، علامہ اقبال تو منتظر تھے، الحمدللہ ذات حق مل گیا، مبارک ہو۔
دوسرا تعارف اس نوجوان صحابی، اس نوجوان ولی کا کرواؤں گا جس کے سفر کا آغاز ہی صدیقیت سے ہوا ہے اور جس رات ہمیں نیابت مصطفی عطا ہوئی تھی، اگلی صبح ہم کراچی گئے تھے اور سب سے پہلے وابستہ ہونے اور وارفتہ ہونے والے سیّد زید زمان ہی تھے۔ آئیں سیّد زیدزمان نعرئہ تکبیر:
برسوں ایک سفر کی آرزو رہی، کتابوں میں پڑھا تھا چالیس چالیس سال، پچاس پچاس سال چلے کیے جاتے تھے، ریاضت اور مجاہدہ ہوتا تھا، میرے آقا سیّدنا علیہ الصلوٰة والسلام کی انتہا سے انتہائی شدید، انتہائی محبت کے بعد ایک طویل سفر، ریاضت کا مجاہدے کا گزارا جاتا تھا تو آقا کی زیارت ہوتی تھی، ایک سفر کا آغاز، ہمیشہ سے یہ پڑھا اور سنا اور خوف یہ کہ کہاں ہم! کہاں یہ ماحول! کہاں یہ دور! کس کے پاس وقت ہے کہ برسوں کے چلے کرے، کس کے پاس وقت ہے کہ صدیوں کی عبادتیں کرے اور پھر صرف دیدار نصیب ہو، تڑپ تو تھی کہ صرف زیارت و دیدار ایسا نصیب ہو کہ صرف اس جہاں میں نہیں، صرف آخرت میں نہیں، صرف لامکاں میں نہیں، ثم الوریٰ، ثم الوریٰ، ثم الوریٰ، وصل قائم رہے، تو ایک راز سمجھ میں آیا کہ : ”نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں“ زہد ہزاروں سال کا اور پیار کی نگاہ ایک طرف،اپنے کسی ایسے پیارے کو دیکھو جو پیار کی نگاہ سے کہ صدیوں کا سفر لمحوں میں طے ہوجائے۔ نعرئہ تکبیر۔“ ( منقول از کیسٹ بیت الذکر، لاہور و کذاب، ص:50 تا 53)
6… اگر زید زمان المعروف زید حامد کا، ملعون یوسف کذاب کے ساتھ تعلق نہیں تھا، تو اس نے مولانا محمد یوسف اسکندر کے بار بار کے استفسار پر یہ اقرار کیوں کیا کہ جی ہاں! یوسف علی کے مقدمہ میں میرا بہرحال کسی قدر کردار رہا ہے؟
7… اگر زید زمان المعروف زید حامد کامدعی نبوت یوسف علی کذاب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ اس کو نہیں جانتا تو اس نے 13/اگست 2000ء کے روزنامہ ڈان میں مدعی نبوت ملعون یوسف علی کذاب کے خلاف عدالتی فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ :”یہ عدل و انصاف کا خون ہے؟“
8… نوفل شاہ رخ کا کہنا ہے :”میں زید حامد کو گزشتہ بیس سال سے جانتا ہوں، میری سب سے پہلی ملاقات زید حامد سے 1989ء میں حکمت یار کے کراچی کے دورے میں ہوئی، جب وہ اس کے ترجمان تھے۔ میں اس روشن چہرے والے متحرک نوجوان، این ای ڈی کے گریجویٹ انجینئر سے، جو بیک وقت روانی سے فارسی، انگریزی، پشتو اور اردو بول سکتا تھا ،بہت متاثر ہوا، اس وقت یہ زید حامد نہیں، بلکہ زید زمان تھا، اسی زمانہ میں زید زمان نے قصص الجہاد نامی ویڈیو تیار اور تقسیم کی، جس میں افغان مجاہدین اور روسی افواج کا دوبدو مقابلہ دکھایا گیا تھا، یہ ویڈیو اپنی قسم میں جدا اور یکتا تھی، اس زمانہ میں زید زمان ایک سحر انگیز شخصیت تھے، مگر پھر کچھ عجیب سی باتیں ہوئیں، زید زمان ایک برطانوی بیس این جی اوز” مسلم ایڈ“ کے مالی اسکینڈل کا مرکزی نقطہ بنے، بعدازاں انہوں نے حکمت یار اور حقانی سے رابطہ توڑ کر احمد شاہ مسعود کے ساتھ تعلقات استوار کرلیے اور پھر بعد میں جہاد کو یکسر فراموش کرکے ”صوفی“ بن گئے، اسی دوران جب ملعون یوسف علی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو یہ اس سے منسلک ہوگیا اور اس کا صحابی اور خلیفہ اول قرار پایا اور کئی دفعہ اخبارات ورسائل میں اس کا نام یوسف علی کذاب کے صحابی اور خلیفہ کے نام سے چھپا۔“ (کاشف حفیظ، روزنامہ امت کراچی) اگر زید زمان المعروف زید حامد کا مدعی نبوت ملعون یوسف کذاب کے ساتھ کوئی دینی، مذہبی عقیدت و محبت، پیری، مریدی یا نبوت و خلافت کا کوئی رشتہ نہیں تھا تو اس نے ملعون یوسف کذاب کی بھر پور وکالت کرتے ہوئے اپنی ویب سائٹ پر بے شمار سائلین کے جواب میں ملعون یوسف کذاب کی صفائیاں کیوں دیں اور اس کے خلاف مقدمہ کو جھوٹا مقدمہ کیوں کہا؟ اور یہ کیوں کہا کہ دراصل خبریں گروپ کے ضیاء شاہد اور یوسف کذاب کے درمیان جائیداد کا تنازعہ تھا، جس کی بنا پر اس کے خلاف سازش کی گئی تھی ،ورنہ وہ تو بڑا درویش صفت اور صوفی اسکالر تھا؟
9… زید زمان کی ویب سائٹ براس ٹیکس پر جاکر زید حامد سے یوسف کذاب سے متعلق سوالات کرنے والے بیسیوں سائلین کا کہنا ہے کہ اگر زید زمان المعروف زید حامد کا یوسف کذاب کے ساتھ کوئی دینی اور مذہبی رشتہ نہیں تھا یا نہیں ہے تو وہ یوسف کذاب کے غلیظ عقائد کے بارے میں صاف صاف جواب کیوں نہیں دیتا اور یہ کیوں نہیں کہتا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا ہر دعویدار دجال و کذاب اور ملحد و مرتد ہے؟ اور وہ اس دجال کے عقائد سے متعلق پوچھے گئے ہر سوال کے جواب میں یہ کیوں کہتا ہے کہ اس کی کوئی بات تصوف کی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے؟
10… جو بھولے بھالے مسلمان اور مخلص و دین دار افراد زید زمان المعروف زید حامد کے دفاعی تجزیوں، جہاد و مجاہدین کے حق میں اور یہود و امریکا کے خلاف بولنے اور کھلی تنقید کرنے کی بنا پر ان کو طالبان اور مسلمانوں کا نمائندہ یا ترجمان سمجھتے ہیں ان کو زید حامد کی ویب سائٹ براس ٹیکس پر انگریزی میں جاری کردہ رپورٹ: "What Really Happened"کا مطالعہ بھی کرلینا چاہیے، اگر کوئی شخص اس کی اس انگلش رپورٹ کو پڑھ کر سمجھ لے تو اس کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ طالبان، دین، دینی مدارس اور علماء کے بارے میں کتنا مخلص ہے؟ یا جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے شہداء اور اس قضیہ کے کرداروں کے بارے میں ان کے دلی اور قلبی کیا جذبات و احساسات ہیں؟ چنانچہ اس رپورٹ کے آغاز میں انہوں نے اپنی 8/جولائی2007ء کی تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے:
”(لال مسجد کے معاملے میں) حکومت کی ناموری، ستائش اور تذلیل کے درمیان ایک پاگل مولوی (Psychopath Cleric) اور دہشت گردوں کا ایک گروپ کھڑا ہے، جس نے لوگوں کو پاکستانی دارالحکومت کے قلب میں یرغمال بنایا ہوا ہے۔“ (رپورٹ اس طرح کے زہریلے الفاظ اور تجزیوں سے پُر ہے)۔
#… (لال مسجد کے علماء اور طلبا و طالبات) منکرِ دین، بے وفا، فراری، اوباش (Renegade) جنگجوؤں کا گروپ ہے، جو ”تکفیری“ کہلاتے ہیں، یہ ان مسلمانوں پر جنگ مسلط کردیتے ہیں جو ان کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے، یہ نظریاتی طور پر حکومت دشمن، بدنظمی پسند، انتشاری اور شورش طلب (Anarchist) اور معروف جہادی گروپس کے درمیان بے خانماں اور خارجی (Outcastes)لوگ ہیں۔
#… میرے خیال میں (سانحہ میں) ہلاک و زخمی ہونے والوں کی کل تعداد 200سے250 ہوسکتی ہے، بشمول 75جنگجوؤں کے، اس تعداد کو حکومت نے بھی تسلیم کیا ہے، ملا دباؤ بڑھا رہے ہیں یہ منوانے کے لیے کہ اندر 1000لوگ تھے، یہ بے معنی اور فضول بات ہے، جیسا کہ ان کے مرحوم لیڈر کہتے رہے کہ اندر 1800لوگ ہیں ،یہ (Bluff) تھا۔
#… جی ہاں! میڈیا کو جو ہتھیار دکھائے گئے، ان کا تعلق ان جنگجوؤں سے تھا اور ان عمارتوں میں اسلحے کا بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا، جن میں مشین گنیں، راکٹ لانچرز، بارودی سرنگیں، ہینڈ گرنیڈز، گیس ماسک، مولوٹووکوک ٹیلز اور خودکش حملے کی جیکٹس شامل تھیں، ہمیں کوئی شبہ نہیں کہ اس معاملے میں حکومتی موقف بالکل درست ہے، لال مسجد ایک عارضی اسلحہ (Weapons Dump) تھی اور بلاشبہ ایک طویل جنگ اور مسلح بغاوت (Armed Rebellion)کے لیے تیار مقام۔
#… باوجود اس کے کہ مولوی مصر ہیں کہ مدرسے میں 1000سے زائد ہلاکتیں ہوئیں، ہمارے پاس اس بات کو تسلیم کرنے کی کوئی وجہ نہیں، یہ محض بڑے پیمانے پر پھیلائی جانے والی ڈس انفارمیشن ہے، کوئی ایک ،جی ہاں! ایک بھی کسی ثبوت کے ساتھ آگے نہیں آیا، جس میں مدرسے میں داخل طلبا و طالبات کے نام، رول نمبر اور پتے درج ہوں اور نہ ہی کوئی حاضری رجسٹر پیش کیا گیا جس سے پتا چل سکے کہ مدرسے میں داخل طلبا و طالبات کی اصل تعداد کیا تھی۔
#… ہمارے اپنے ذرائع سے حاصل کردہ مفصل شہادتیں موجود ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ آپریشن کے دوران صرف چند سویلین (خواتین اور بچوں) کی ہلاکتیں ہوئیں، شاید صرف چند درجن، اس تعداد کو حکومت نے بھی اب تسلیم کرلیا ہے۔“ (کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا، از ڈاکٹر فیاض عالم)
11… مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی فرماتے ہیں: یوسف کذاب نے نہ صرف جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا، بلکہ اہانت رسول کا بھی ارتکاب کیا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے قائدین کے حکم پر بندہ نے کذاب کے خلاف کیس رجسٹرڈ کرایا۔ کذاب کے چیلوں میں سرفہرست دو نام تھے: ایک کا نام سہیل احمد خان ،دوسرے کا نام زید زمان تھا، جنہیں کذاب اپنا صحابی کہتا تھا۔ کذاب کے ساتھ عدالت میں جو لوگ آتے تھے ان میں بھی سرفہرست مذکورہ بالا دونوں افراد تھے۔ مذکورہ بالا افراد نے ترغیب و ترہیب، غرض ہر لحاظ سے کوشش کی کہ بندہ کیس سے دستبردار ہوجائے۔ اللہ پاک کی دی ہوئی استقامت کے ساتھ مقابلہ جاری رکھا۔ موبائل ابھی ایجاد نہیں ہوئے تھے، بندہ چھٹی پر شجاع آباد آیا ہوا تھا۔ زید زمان نے کسی طریقہ سے میرا رابطہ نمبر حاصل کیا، جو ہمارے پڑوس کے گھر کا نمبر تھا، ایک دن عصر سے تھوڑی دیر پہلے میرے پڑوسی نے دروازہ کھٹکھٹاکر پیغام دیا کہ آپ کا فون آنے والا ہے۔ بندہ نے گھنٹی بجنے پر ریسور اٹھایا کہ دوسری طرف سے آواز آئی کہ راولپنڈی سے زید زمان بول رہا ہوں۔ میں نے کہا فرمایئے! زید زمان نے کہا کہ آپ نے ہمارے حضرت (یوسف کذاب) کے خلاف کیس کیا ہوا ہے، وہ واپس لے لیں۔ میں نے کہا ایسا نہیں ہوسکتا، اس کا انجام آپ کو معلوم ہے ؟ بندہ نے کہا کہ نفع و نقصان سوچ کر کیس کیا ہے۔ اس نے کہا کہ ہماری طرف سے پیشکش ہے، فرمایئے آپ کی ضروریات کیا ہیں؟ میں نے کہا کہ میری ضرورت میرا اللہ پوری کررہا ہے، اب اس نے پینترا بدلتے ہوئے کہا کہ ہمارے حضرت کی جماعت اگرچہ تھوڑی ہے، لیکن کمزور نہیں ہے، میں نے جواب میں کہا کہ ہمارے حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جماعت بہت بڑی ہے اور بہت مضبوط ہے، اس نے مزید گفتگو کا سلسلہ جاری رکھنا چاہا تو بندہ نے کہا کہ بات عدالت میں ہوگی۔ چنانچہ کیس کی سماعت کے دوران زید زمان یوسف کذاب کے محافظین میں رہا، بلکہ کیس کی سماعت کے دوران جب بندہ کا بطور مدعی بیان جاری تھا اور کذاب کا وکیل بندہ پر تابڑ توڑ حملے کررہا تھا اور وہ کیس سے غیر متعلقہ سوال کررہا تھا تو بندہ نے کہا کہ آپ کیس سے متعلق سوال کریں، غیر متعلقہ سوال نہ کریں تو عدالت نے مجھے کہا کہ وکیل جو سوال کرے آپ کو اس کا جواب دینا ہوگا۔ اس دوران ایک سوال صحابی سے متعلق بھی ہوا کہ صحابی کی کیا تعریف ہے؟ بندہ نے تعریف بتلائی، اتفاقاً اس روز زید زمان سوٹ میں تھا، پینٹ، شرٹ اور ٹائی زیب تن کی ہوئی تھی، بندہ نے عدالت سے کہا کہ آپ نے صحابہ کرام کی سیرت کا مطالعہ کیا ہوگا، ایک رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام تھے، جو آپ کی سیرت طیبہ کا پر تو تھے، ان کی وضع قطع، چال ڈھال، لباس میں سیرت طیبہ نظر آتی تھی۔ نعوذباللہ! ایک یہ صحابی ہیں جن کا لباس اور وضع قطع دیکھ کر علامہ اقبال یاد آتے ہیں، علامہ نے فرمایا:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
اس پر زید زمان بہت شرمندہ ہوا ،زید زمان یوسف کذاب کی موت تک اس کا چیلہ بنا رہا، حتی کہ جب کذاب کی میت کو اسلام آباد کے مسلمانوں کے قبرستان سے نکالا گیا، تب بھی اس کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں۔
12… الغرض اگر زید زمان المعروف زید حامد، مدعی نبوت ملعون یوسف کذاب سے اپنی برأت کرنا چاہتا ہے یا اس سے اپنا رشتہ برقرار نہیں رکھنا چاہتا تو وہ روزنامہ جسارت کراچی، روزنامہ امت کراچی، ماہنامہ بینات کراچی اور ہفت روزہ ختم نبوت میں شائع شدہ مضامین اور راقم الحروف سعید احمد جلال پوری، جناب کاشف حفیظ، جناب این خان، جناب ابو سعد، جناب نوفل شاہ رخ، جناب سعد موٹن، ڈاکٹر فیاض عالم وغیرہ کے کالموں اور جناب رانا اکرم اور منصور طیب، مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی وغیرہ کی شہادتوں کی تردید میں کھل کر یہ کیوں نہیں کہہ اور لکھ دیتا کہ میرا اب مدعی نبوت ملعون یوسف کذاب کے ساتھ دینی، مذہبی اعتبار سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، اور اس کے عقائد و نظریات اور ملحدانہ دعاوی کی بنا پر میں اس کو کافر و مرتد سمجھتا ہوں، بے شک میرا اس سے کبھی تعلق تھا، یا میں اس کا خلیفہ تھا، لیکن اب میں نے ان تمام کفریہ اور ملحدانہ عقائد سے رجوع کرکے ان سے توبہ کرلی ہے لہٰذا آئندہ میرا اس کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہ جوڑا جائے اور کسی آدمی کے کفریہ عقائد سے توبہ کرلینے کے بعد اس کو توبہ سے قبل کے کفریہ اور ملحدانہ عقائد و نظریات کا طعنہ دینا قانوناً، اخلاقاً اور شرعاً ناجائز ہے، اللہ تعالیٰ میرے اس جرم کو معاف فرمائے، نیز میں تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے اس جرم کو معاف فرمائے اور مجھے اس رجوع و توبہ پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
ہمارے خیال میں اگر زید زمان المعروف زید حامد اس طرح کی ایک تحریر یا اس طرح کا بیان مجمع عام میں لکھ کر یا بیان کرکے اپنی ویب سائٹ پر جاری کردے یا کسی اخبار میں شائع کرادے تو اس سارے نزاع کا خاتمہ اور اس قضیہ کا بآسانی فیصلہ ہوسکتا ہے اور آئندہ اس کے خلاف کسی قسم کی کوئی بدگمانی بھی راہ نہیں پاسکے گی، بلکہ اس تحریر و بیان کے بعد ان کے خلاف جو کوئی لب کشائی کرے گا وہ خود منہ کی کھائے گا، لیکن اگر وہ ان تمام شواہد و قرائن اور دلائل و براہین کے باوجود …جن سے اس کا یوسف کذاب کے ساتھ مریدی، خلافت، صحابیت اور عقیدت کا گہرا تعلق ثابت ہوتا ہے…گومگو کی کیفیت میں رہے گا یا اس کی وکالت کرتے ہوئے اس کو صوفی اسکالر اور عاشق رسول ثابت کرنے کے ساتھ یہ کہتا رہے گا کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا یا نہیں ہے، تو اس کی اس بات کا کیا وزن ہوسکتا ہے؟ یا اس کی بات کو کوئی عقلمند تسلیم کرسکتا ہے؟
13… خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ زید زمان المعروف زید حامد کو ملعون یوسف کذاب کے ساتھ دیکھ چکے تھے یا ان کو معلوم تھا کہ یوسف کذاب نے اس کو اپنا خلیفہ بنایا تھا اور نعوذباللہ اس کو حضرت ابوبکر صدیق کا خطاب دیا تھا اور ان حضرات نے اسی دور میں اس کی تقریریں بھی سُنی تھیں، انہوں نے جب اس کی حقیقت سے پردہ اٹھانا چاہا یا علمائے کرام سے اس کے تعاقب کی درخواست کی اور ہماری طرح دوسرے حضرات نے اس کی عیاری کی نشاندہی کرنا چاہی تو اس نے صاف انکار کردیا کہ میں کسی یوسف کذاب کو نہیں جانتا، کیونکہ یوسف کذاب کا خلیفہ زید زمان تھا اور میرا نام تو زید حامد ہے، اس پر جب مزید تحقیق کی گئی تو بحمدللہ اس کی وہ کیسٹ بھی مل گئی، جس میں اس نے اپنی خلافت کے موقع پر تقریر کی تھی ...جس کا مضمون اوپر نقل ہوچکا ہے... اور یوسف کذاب کے دام تزویر سے نکلنے والے متعدد حضرات مثلاً :ڈاکٹر اسلم، رانا محمد اکرم، ابوبکر محمد علی، سعد موٹن، نوفل اور منصور طیب صاحب وغیرہ نے یقین کے ساتھ باور کرایا کہ یہ ملعون وہی ہے۔ ان میں سے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ زید حامد کا فتنہ یوسف کذاب کے فتنہ سے بڑھ کر خطرناک ثابت ہوگا، کیونکہ یوسف کذاب میڈیا پر نہیں آیا تھا اور لوگ اس کے اتنے گرویدہ نہیں ہوئے تھے، جتنا اس سے متاثر ہیں، یا یہ اپنا حلقہ بناچکا ہے۔
شُنید ہے کہ زید زمان المعروف زید حامد آج کل لوگوں کو وضاحتیں پیش کرتا پھر رہا ہے کہ میرا یوسف کذاب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور میں چیلنج کرتا ہوں کہ جن لوگوں کے پاس ایسے کوئی ثبوت ہوں وہ میرے سامنے لائیں۔
اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ہم اس کا چیلنج قبول کرتے ہیں اور ایسے تمام حضرات، جو اِس کو اُس دور سے جانتے ہیں، جب وہ افغانستان میں پہلے حکمت یار اور بعد ازاں احمد شاہ مسعود کے ساتھ تھا اور پاکستان میں ان کی ترجمانی کرتا تھا اور پھر یوسف کذاب کے ساتھ وابستہ ہوگیا، اس دور کی تمام باتیں یاد دلا کر اس کے جھوٹ اور دجل کو آشکارا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
افسوس تو یہ ہے کہ ہماری نئی نسل اور بعض دین دار اس کے سحر میں گرفتار ہیں، بہرحال ہمارا فرض ہے کہ ہم امت کو اس کی فتنہ سامانی سے بچائیں۔
مکرر عرض ہے کہ جہاد افغانستان کے حق میں یا امریکا اور یہودیوں کے خلاف تقریریں کرنا، کسی ملحد کے مسلمان ہونے کی دلیل نہیں، اس لیے کہ ایسے ملحدین اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے دور رس منصوبے ترتیب دیتے ہیں، چنانچہ اہل ِ بصیرت خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ شروع شروع میں مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی ہندوؤں، آریوں اور عیسائیوں کے خلاف تقریریں، مناظرے اور مباحثے کرکے اپنی اہمیت منوائی تھی اور اپنے آپ کو اسلام اور مسلمانوں کا ترجمان باور کرایا تھا، لیکن جب اس کی شہرت ہوگئی اور اس کا اعتماد بحال ہوگیا تو اس کے بعد اس نے مہدی، مسیح اور نبی ہونے کے دعوے کیے تھے، ٹھیک اسی طرح یہ بھی اسی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو ایسے فتنہ پروروں سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
[center]کی ایک نادر تحریر[/center]
اسی طرح نبوت کے جھوٹے دعویدار یوسف کذاب کی کہانی پر مشتمل کتاب ”کذاب“ میں بھی بیس مقامات پر مختلف عنوانات اور خدمات کے ذیل میں بایں الفاظ ان کا تذکرہ ملتا ہے، پڑھیے اور سر دھنیے:
1… ”اس جلسے میں کذاب کا چیلا زید زمان جسے کذاب نے ”صحابی“ قرار دیا تھا، اسٹیج پر براجمان تھا۔“ (ص:24)
2… ”کذاب کو کم از کم اپنے ان دو ”صحابیوں“ عبدالواحد اور زید زمان ہی کو اپنی صفائی میں عدالت میں لانا چاہیے تھا۔“ (ص:25)
3… ”اپنی تقریر کے دوران اپنے دو چیلوں عبدالواحد خان اور زید زمان کو ”صحابی“ کی حیثیت سے متعارف کروایا، وہ دونوں اس محفل میں موجود تھے۔“ (ص:50)
4… ”سب سے پہلے وابستہ اور وارفتہ ہونے والے سیّد زید زمان ہی تھے، آئیں سیّد زید زمان!“(ص:52)
5… ”کراچی سے عبدالواحد، محمد علی ابوبکر ، سیّد زید زمان، سروش، وسیم، امجد، رضوان، کاشف، عارف اورنگزیب خان اور شاہد نے شرکت کی۔“ (ص:64)
6… ”راولپنڈی کا خلیفہ زید زمان، پشاور کا خلیفہ سابق ایئر کموڈور اورنگزیب تھا۔“ (ص:91)
7… ”اس دوران اس کے خاص کارندے زید زمان، جو راولپنڈی میں برنکس نامی ایک سیکورٹی کی فرم میں آفیسر ہے، نے کذاب یوسف کے گھر پر سیکورٹی کا عملہ تعینات کردیا۔ “ (ص:94)
8 … ”پھر اسی محفل میں ، میں نے دو افراد عبدالواحد خان اور زید زمان کا بطور صحابی تعارف کروایا۔“ (ص:95)
9… ”...حتی کہ عبدالواحد خان اور زید زمان بھی گواہی کے لیے نہ آئے، جنہیں اس نے یتیم خانہ لاہور، بیت الرضا میں نعوذباللہ خلفائے راشدین کا درجہ دیا تھا۔“ (ص:125)
10… ”اس نے دو افراد زید زمان اور عبدالواحد کے صحابی ہونے کا اعلان کیا۔“ (ص:175)
11… ” اس ...یوسف علی...نے دو افراد، جن کے نام زید زمان اور عبدالواحد تھے، کو آگے بلایا اور ان کا تعارف صحابی رسول کی حیثیت سے کرایا۔“ (ص:179)
12… ”میں نے اجلاس میں شرکت کی تھی، جہاں آڈیو اور ویڈیو کیسٹ تیار کی گئی تھی...ملزم یوسف نے عبدالواحد اور زید زمان کا اپنے صحابیوں کی حیثیت سے تعارف کرایا۔“ (ص:187)
13… ”یہ درست ہے کہ ملزم یوسف نے عبدالواحد اور زید زمان کو اصحاب رسول کہا، اپنے صحابی نہیں کہا۔“(ص:196)
14… ”پھر دوران تقریر یوسف علی ملزم نے دو اشخاص کو، جن کے تعارف زید زمان اور عبدالواحد کرائے، ان کو بطور صحابی پیش کیا۔“ (ص:211)
15… ”حافظ ممتاز مذکورہ اجتماع میں موجود تھے...جس میں تم نے اپنے دو مریدوں زید زمان اور عبدالواحد کے صحابی ہونے کا اعلان کیا۔“ (ص:230)
16… ”کیا یہ درست ہے کہ...تم نے عبدالواحد اور زید زمان کو اپنے صحابی کی حیثیت سے متعارف کرایا اور ان دونوں افراد نے کسی حد تک خود بھی تقریریں کیں؟۔“ (ص:238)
17… ”...میں نے جس اجتماع میں اپنے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا، وہاں بیٹھے افراد میں سے اپنے مریدوں زید زمان اور عبدالواحد کے صحابی ہونے کا اعلان کیا۔ “ (ص:297)
18… ”مثال کے طور پر آڈیو کیسٹ بی، ا۔کاٹرنسکرپٹ ایگزیبٹ پی۔۱۰ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس نے عبدالواحد اور زید زمان کے صحابی رسول ہونے کا اعلان کیا۔“ (ص:334)
19… ”یہاں موجود سو افراد اصحاب رسول ہیں، اس نے عبدالواحد اور زید زمان نامی دو افراد کا تعارف صحابی کی حیثیت سے اور اپنا پیغمبر اسلام کی حیثیت سے کرایا۔“ (ص:340)
20… ”ملزم یوسف نے مسجد میں اپنے ایک سو صحابیوں کی موجودگی کا ذکر کیا اور اس نے دو افراد عبدالواحد اور زید زمان کا اپنے صحابی کی حیثیت سے تعارف کرایا۔“ (ص:343)
خلاصہ یہ کہ کیا اس کتاب میں بھی مختلف عنوانات اور خدمات کے سلسلہ میں ان کا نام درج نہیں ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے اور یقینا اثبات میں ہے تو یہ سب کچھ بغیر کسی تعلق اور تعارف کے ہے؟
5… اسی طرح کل کے زید زمان اور آج کے زید حامد صاحب!اس آڈیو اور ویڈیو کیسٹ کے مندرجات کا انکار کرسکیں گے؟ جس میں ملعون یوسف کذاب نے لاہور کی مسجد بیت الرضا میں نام نہاد اپنے سو صحابہ کی موجودگی کا اعلان کیا اور ان میں سے دو خاص الخاص صحابہ اور خلفاء کا تعارف بھی کرایا، پھر اس موقع پر آپ نے اور عبدالواحد نے حق نمک ادا کرتے ہوئے مختصر سا خطاب بھی کیا تھا۔ لیجیے! اس کیسٹ کے مندرجات اور اپنی تقریر بھی ملاحظہ کیجیے:
”کائنات کے سب سے خوش قسمت ترین انسانو! اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے خوش نصیب صاحبانِ ایمان۔ حضور سیّدنا محمد رسول اللہ سے وابستہ ہونے والو! ان پر وارفتہ ہونے والو! ان
پر تن من دھن نثار کرنے والو! صاحبانِ نصیب انسانو! آپ کو مبارک ہو کہ آج آپ کی اس محفل میں القرآن بھی موجود ہے، قرآن بھی موجود ہے، پارے بھی موجود ہیں، آیات بھی موجود ہیں، آپ میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ ایک آیت ہے، کچھ خوش نصیب اپنی اپنی جگہ ایک پارہ ہیں، جن کو اپنے پارے کا احساس ہے، ان کو قرآن کی پہچان ہے اور جن کو قرآن کی پہچان ہے ان کو القرآن کی پہچان ہے، آج نور کی کرنیں بھی نچھاور کرنی ہیں اور نور کے اس سفر میں جو لوگ انتہائی معراج پر پہنچ گئے ہیں، ان سے بھی آپ کا تعارف کروانا ہے، آج کم از کم یہاں اس محفل میں100 صحابہ موجود ہیں، 100 اولیاء اللہ موجود ہیں، ہر عمر کے لوگ موجود ہیں۔
بھئی صحابی وہی ہوتا ہے ناں ،جس نے صحبت رسول میں ایمان کے ساتھ وقت گزارا ہو اور اس پر قائم ہو گیا ہو؟ اور رسول اللہ ہیں ناں؟ اور اگر ہیں تو ان کے صاحب بھی ساتھ ہیں، اس صاحب کے جو مصاحب ہیں وہی تو صحابی ہیں۔
ان صحابہ کے ذریعے کائنات میں ربط لگا ہوا ہے، ان کے صدقے کائنات میں رزق تقسیم ہورہا ہے، ان کے صدقے شادی بیاہ ہورہے ہیں، ان کے صدقے پانی مل رہا ہے، ان کے صدقے ہوا چل رہی ہے، ان کے صدقے چاند کی چاندنی ہے، ان کے صدقے سورج کی روشنی ہے، یہ نہ ہوں تو اللہ بھی قسم اٹھاتا ہے کہ کچھ بھی نہ ہو گا۔ حتی کہ یہ جو سانس آرہا ہے یہ بھی ان کے صدقے ہے۔یہ ہیں وہ صحابہ، ان کا آپ کو علم ہے کہ دنیا کے کتنے بڑے ولی کیوں نہ ہوں، لاکھوں کروڑوں ان کے مرید کیوں نہ ہوں، ان صحابہ کے گھوڑے، الفاظ یہ ہیں: خدا کی قسم! ان کی سواری کے پیچھے جو گرد اڑتی ہے، اس کے برابر بھی وہ پیر، وہ ولی نہیں ہوسکتا، جس کے لاکھوں کروڑوں مرید ہیں، کیوں وہ پیر ولی ہیں، اللہ کو دیکھے بغیر، یہ ہیں دیکھ کر۔
ان صحابہ میں ایک ایک اپنی جگہ نمونہ ہے اور ایک ایک کا تعارف کروانے کو جی چاہتا ہے، لیکن ہم صرف دو کا تعارف کروائیں گے، عمر کے لحاظ سے دونوں نوجوان ہیں، حقیقت کے لحاظ سے دونوں نوجوان ہیں، ایک وہ خوش نصیب ہستی ہے، کائنات میں وہ واحد ہستی ہے، نام بھی ان کا عبدالواحد ہے، محمد عبدالواحد، ایک ایسے صحابی، ایک ایسے ولی اللہ ہیں کہ جن کا خاندان پوری کائنات میں سب سے زیادہ تقریباً سارے کا سارا وابستہ ہے رسول اللہ سے، وارفتہ ہے اور محمد الرسول اللہ سے وابستہ ہو کر محمد رسول اللہ کے ذریعے ذات حق سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچا ہے۔ نعرئہ تکبیر کے ساتھ ان کا استقبال کیجیے! اور میں ان کو کہوں گا ،کچھ ہمیں کہیں؟ بسم اللہ !
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم!
آج سے 25 سال پہلے مکہ معظمہ میں ایک بزرگ سے ایک شعر سنا، جو صبح سے میرے کانوں میں گونج رہا ہے، انہوں نے فرمایا تھا:
”میں کہاں اور یہ نکہت گل!
نسیم صبح یہ تیری مہربانی“
یہ شعر تو بہت پسند آیا، مگر اب پتہ لگا کہ ذاتِ حق کا کرم اور اس کی رحمت، اس کا خالص کرم کہ یہ نکہت گل بھی اور نسیم سحر بھی اور حصول بھی، وہ سب اندر ہی اندر موجود ہیں، یہ ایک لباس میں چھپے ہوئے ہیں، ایک اور ہے، بہت عرصہ پہلے علامہ اقبال نے بڑے تڑپ کے ساتھ ایک شعر کہا تھا:
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزار سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
مبارک ہو کہ اب انتظار کی ضرورت نہیں، علامہ اقبال تو منتظر تھے، الحمدللہ ذات حق مل گیا، مبارک ہو۔
دوسرا تعارف اس نوجوان صحابی، اس نوجوان ولی کا کرواؤں گا جس کے سفر کا آغاز ہی صدیقیت سے ہوا ہے اور جس رات ہمیں نیابت مصطفی عطا ہوئی تھی، اگلی صبح ہم کراچی گئے تھے اور سب سے پہلے وابستہ ہونے اور وارفتہ ہونے والے سیّد زید زمان ہی تھے۔ آئیں سیّد زیدزمان نعرئہ تکبیر:
برسوں ایک سفر کی آرزو رہی، کتابوں میں پڑھا تھا چالیس چالیس سال، پچاس پچاس سال چلے کیے جاتے تھے، ریاضت اور مجاہدہ ہوتا تھا، میرے آقا سیّدنا علیہ الصلوٰة والسلام کی انتہا سے انتہائی شدید، انتہائی محبت کے بعد ایک طویل سفر، ریاضت کا مجاہدے کا گزارا جاتا تھا تو آقا کی زیارت ہوتی تھی، ایک سفر کا آغاز، ہمیشہ سے یہ پڑھا اور سنا اور خوف یہ کہ کہاں ہم! کہاں یہ ماحول! کہاں یہ دور! کس کے پاس وقت ہے کہ برسوں کے چلے کرے، کس کے پاس وقت ہے کہ صدیوں کی عبادتیں کرے اور پھر صرف دیدار نصیب ہو، تڑپ تو تھی کہ صرف زیارت و دیدار ایسا نصیب ہو کہ صرف اس جہاں میں نہیں، صرف آخرت میں نہیں، صرف لامکاں میں نہیں، ثم الوریٰ، ثم الوریٰ، ثم الوریٰ، وصل قائم رہے، تو ایک راز سمجھ میں آیا کہ : ”نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں“ زہد ہزاروں سال کا اور پیار کی نگاہ ایک طرف،اپنے کسی ایسے پیارے کو دیکھو جو پیار کی نگاہ سے کہ صدیوں کا سفر لمحوں میں طے ہوجائے۔ نعرئہ تکبیر۔“ ( منقول از کیسٹ بیت الذکر، لاہور و کذاب، ص:50 تا 53)
6… اگر زید زمان المعروف زید حامد کا، ملعون یوسف کذاب کے ساتھ تعلق نہیں تھا، تو اس نے مولانا محمد یوسف اسکندر کے بار بار کے استفسار پر یہ اقرار کیوں کیا کہ جی ہاں! یوسف علی کے مقدمہ میں میرا بہرحال کسی قدر کردار رہا ہے؟
7… اگر زید زمان المعروف زید حامد کامدعی نبوت یوسف علی کذاب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ اس کو نہیں جانتا تو اس نے 13/اگست 2000ء کے روزنامہ ڈان میں مدعی نبوت ملعون یوسف علی کذاب کے خلاف عدالتی فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ :”یہ عدل و انصاف کا خون ہے؟“
8… نوفل شاہ رخ کا کہنا ہے :”میں زید حامد کو گزشتہ بیس سال سے جانتا ہوں، میری سب سے پہلی ملاقات زید حامد سے 1989ء میں حکمت یار کے کراچی کے دورے میں ہوئی، جب وہ اس کے ترجمان تھے۔ میں اس روشن چہرے والے متحرک نوجوان، این ای ڈی کے گریجویٹ انجینئر سے، جو بیک وقت روانی سے فارسی، انگریزی، پشتو اور اردو بول سکتا تھا ،بہت متاثر ہوا، اس وقت یہ زید حامد نہیں، بلکہ زید زمان تھا، اسی زمانہ میں زید زمان نے قصص الجہاد نامی ویڈیو تیار اور تقسیم کی، جس میں افغان مجاہدین اور روسی افواج کا دوبدو مقابلہ دکھایا گیا تھا، یہ ویڈیو اپنی قسم میں جدا اور یکتا تھی، اس زمانہ میں زید زمان ایک سحر انگیز شخصیت تھے، مگر پھر کچھ عجیب سی باتیں ہوئیں، زید زمان ایک برطانوی بیس این جی اوز” مسلم ایڈ“ کے مالی اسکینڈل کا مرکزی نقطہ بنے، بعدازاں انہوں نے حکمت یار اور حقانی سے رابطہ توڑ کر احمد شاہ مسعود کے ساتھ تعلقات استوار کرلیے اور پھر بعد میں جہاد کو یکسر فراموش کرکے ”صوفی“ بن گئے، اسی دوران جب ملعون یوسف علی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو یہ اس سے منسلک ہوگیا اور اس کا صحابی اور خلیفہ اول قرار پایا اور کئی دفعہ اخبارات ورسائل میں اس کا نام یوسف علی کذاب کے صحابی اور خلیفہ کے نام سے چھپا۔“ (کاشف حفیظ، روزنامہ امت کراچی) اگر زید زمان المعروف زید حامد کا مدعی نبوت ملعون یوسف کذاب کے ساتھ کوئی دینی، مذہبی عقیدت و محبت، پیری، مریدی یا نبوت و خلافت کا کوئی رشتہ نہیں تھا تو اس نے ملعون یوسف کذاب کی بھر پور وکالت کرتے ہوئے اپنی ویب سائٹ پر بے شمار سائلین کے جواب میں ملعون یوسف کذاب کی صفائیاں کیوں دیں اور اس کے خلاف مقدمہ کو جھوٹا مقدمہ کیوں کہا؟ اور یہ کیوں کہا کہ دراصل خبریں گروپ کے ضیاء شاہد اور یوسف کذاب کے درمیان جائیداد کا تنازعہ تھا، جس کی بنا پر اس کے خلاف سازش کی گئی تھی ،ورنہ وہ تو بڑا درویش صفت اور صوفی اسکالر تھا؟
9… زید زمان کی ویب سائٹ براس ٹیکس پر جاکر زید حامد سے یوسف کذاب سے متعلق سوالات کرنے والے بیسیوں سائلین کا کہنا ہے کہ اگر زید زمان المعروف زید حامد کا یوسف کذاب کے ساتھ کوئی دینی اور مذہبی رشتہ نہیں تھا یا نہیں ہے تو وہ یوسف کذاب کے غلیظ عقائد کے بارے میں صاف صاف جواب کیوں نہیں دیتا اور یہ کیوں نہیں کہتا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا ہر دعویدار دجال و کذاب اور ملحد و مرتد ہے؟ اور وہ اس دجال کے عقائد سے متعلق پوچھے گئے ہر سوال کے جواب میں یہ کیوں کہتا ہے کہ اس کی کوئی بات تصوف کی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے؟
10… جو بھولے بھالے مسلمان اور مخلص و دین دار افراد زید زمان المعروف زید حامد کے دفاعی تجزیوں، جہاد و مجاہدین کے حق میں اور یہود و امریکا کے خلاف بولنے اور کھلی تنقید کرنے کی بنا پر ان کو طالبان اور مسلمانوں کا نمائندہ یا ترجمان سمجھتے ہیں ان کو زید حامد کی ویب سائٹ براس ٹیکس پر انگریزی میں جاری کردہ رپورٹ: "What Really Happened"کا مطالعہ بھی کرلینا چاہیے، اگر کوئی شخص اس کی اس انگلش رپورٹ کو پڑھ کر سمجھ لے تو اس کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ طالبان، دین، دینی مدارس اور علماء کے بارے میں کتنا مخلص ہے؟ یا جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے شہداء اور اس قضیہ کے کرداروں کے بارے میں ان کے دلی اور قلبی کیا جذبات و احساسات ہیں؟ چنانچہ اس رپورٹ کے آغاز میں انہوں نے اپنی 8/جولائی2007ء کی تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے:
”(لال مسجد کے معاملے میں) حکومت کی ناموری، ستائش اور تذلیل کے درمیان ایک پاگل مولوی (Psychopath Cleric) اور دہشت گردوں کا ایک گروپ کھڑا ہے، جس نے لوگوں کو پاکستانی دارالحکومت کے قلب میں یرغمال بنایا ہوا ہے۔“ (رپورٹ اس طرح کے زہریلے الفاظ اور تجزیوں سے پُر ہے)۔
#… (لال مسجد کے علماء اور طلبا و طالبات) منکرِ دین، بے وفا، فراری، اوباش (Renegade) جنگجوؤں کا گروپ ہے، جو ”تکفیری“ کہلاتے ہیں، یہ ان مسلمانوں پر جنگ مسلط کردیتے ہیں جو ان کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے، یہ نظریاتی طور پر حکومت دشمن، بدنظمی پسند، انتشاری اور شورش طلب (Anarchist) اور معروف جہادی گروپس کے درمیان بے خانماں اور خارجی (Outcastes)لوگ ہیں۔
#… میرے خیال میں (سانحہ میں) ہلاک و زخمی ہونے والوں کی کل تعداد 200سے250 ہوسکتی ہے، بشمول 75جنگجوؤں کے، اس تعداد کو حکومت نے بھی تسلیم کیا ہے، ملا دباؤ بڑھا رہے ہیں یہ منوانے کے لیے کہ اندر 1000لوگ تھے، یہ بے معنی اور فضول بات ہے، جیسا کہ ان کے مرحوم لیڈر کہتے رہے کہ اندر 1800لوگ ہیں ،یہ (Bluff) تھا۔
#… جی ہاں! میڈیا کو جو ہتھیار دکھائے گئے، ان کا تعلق ان جنگجوؤں سے تھا اور ان عمارتوں میں اسلحے کا بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا، جن میں مشین گنیں، راکٹ لانچرز، بارودی سرنگیں، ہینڈ گرنیڈز، گیس ماسک، مولوٹووکوک ٹیلز اور خودکش حملے کی جیکٹس شامل تھیں، ہمیں کوئی شبہ نہیں کہ اس معاملے میں حکومتی موقف بالکل درست ہے، لال مسجد ایک عارضی اسلحہ (Weapons Dump) تھی اور بلاشبہ ایک طویل جنگ اور مسلح بغاوت (Armed Rebellion)کے لیے تیار مقام۔
#… باوجود اس کے کہ مولوی مصر ہیں کہ مدرسے میں 1000سے زائد ہلاکتیں ہوئیں، ہمارے پاس اس بات کو تسلیم کرنے کی کوئی وجہ نہیں، یہ محض بڑے پیمانے پر پھیلائی جانے والی ڈس انفارمیشن ہے، کوئی ایک ،جی ہاں! ایک بھی کسی ثبوت کے ساتھ آگے نہیں آیا، جس میں مدرسے میں داخل طلبا و طالبات کے نام، رول نمبر اور پتے درج ہوں اور نہ ہی کوئی حاضری رجسٹر پیش کیا گیا جس سے پتا چل سکے کہ مدرسے میں داخل طلبا و طالبات کی اصل تعداد کیا تھی۔
#… ہمارے اپنے ذرائع سے حاصل کردہ مفصل شہادتیں موجود ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ آپریشن کے دوران صرف چند سویلین (خواتین اور بچوں) کی ہلاکتیں ہوئیں، شاید صرف چند درجن، اس تعداد کو حکومت نے بھی اب تسلیم کرلیا ہے۔“ (کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا، از ڈاکٹر فیاض عالم)
11… مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی فرماتے ہیں: یوسف کذاب نے نہ صرف جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا، بلکہ اہانت رسول کا بھی ارتکاب کیا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے قائدین کے حکم پر بندہ نے کذاب کے خلاف کیس رجسٹرڈ کرایا۔ کذاب کے چیلوں میں سرفہرست دو نام تھے: ایک کا نام سہیل احمد خان ،دوسرے کا نام زید زمان تھا، جنہیں کذاب اپنا صحابی کہتا تھا۔ کذاب کے ساتھ عدالت میں جو لوگ آتے تھے ان میں بھی سرفہرست مذکورہ بالا دونوں افراد تھے۔ مذکورہ بالا افراد نے ترغیب و ترہیب، غرض ہر لحاظ سے کوشش کی کہ بندہ کیس سے دستبردار ہوجائے۔ اللہ پاک کی دی ہوئی استقامت کے ساتھ مقابلہ جاری رکھا۔ موبائل ابھی ایجاد نہیں ہوئے تھے، بندہ چھٹی پر شجاع آباد آیا ہوا تھا۔ زید زمان نے کسی طریقہ سے میرا رابطہ نمبر حاصل کیا، جو ہمارے پڑوس کے گھر کا نمبر تھا، ایک دن عصر سے تھوڑی دیر پہلے میرے پڑوسی نے دروازہ کھٹکھٹاکر پیغام دیا کہ آپ کا فون آنے والا ہے۔ بندہ نے گھنٹی بجنے پر ریسور اٹھایا کہ دوسری طرف سے آواز آئی کہ راولپنڈی سے زید زمان بول رہا ہوں۔ میں نے کہا فرمایئے! زید زمان نے کہا کہ آپ نے ہمارے حضرت (یوسف کذاب) کے خلاف کیس کیا ہوا ہے، وہ واپس لے لیں۔ میں نے کہا ایسا نہیں ہوسکتا، اس کا انجام آپ کو معلوم ہے ؟ بندہ نے کہا کہ نفع و نقصان سوچ کر کیس کیا ہے۔ اس نے کہا کہ ہماری طرف سے پیشکش ہے، فرمایئے آپ کی ضروریات کیا ہیں؟ میں نے کہا کہ میری ضرورت میرا اللہ پوری کررہا ہے، اب اس نے پینترا بدلتے ہوئے کہا کہ ہمارے حضرت کی جماعت اگرچہ تھوڑی ہے، لیکن کمزور نہیں ہے، میں نے جواب میں کہا کہ ہمارے حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جماعت بہت بڑی ہے اور بہت مضبوط ہے، اس نے مزید گفتگو کا سلسلہ جاری رکھنا چاہا تو بندہ نے کہا کہ بات عدالت میں ہوگی۔ چنانچہ کیس کی سماعت کے دوران زید زمان یوسف کذاب کے محافظین میں رہا، بلکہ کیس کی سماعت کے دوران جب بندہ کا بطور مدعی بیان جاری تھا اور کذاب کا وکیل بندہ پر تابڑ توڑ حملے کررہا تھا اور وہ کیس سے غیر متعلقہ سوال کررہا تھا تو بندہ نے کہا کہ آپ کیس سے متعلق سوال کریں، غیر متعلقہ سوال نہ کریں تو عدالت نے مجھے کہا کہ وکیل جو سوال کرے آپ کو اس کا جواب دینا ہوگا۔ اس دوران ایک سوال صحابی سے متعلق بھی ہوا کہ صحابی کی کیا تعریف ہے؟ بندہ نے تعریف بتلائی، اتفاقاً اس روز زید زمان سوٹ میں تھا، پینٹ، شرٹ اور ٹائی زیب تن کی ہوئی تھی، بندہ نے عدالت سے کہا کہ آپ نے صحابہ کرام کی سیرت کا مطالعہ کیا ہوگا، ایک رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام تھے، جو آپ کی سیرت طیبہ کا پر تو تھے، ان کی وضع قطع، چال ڈھال، لباس میں سیرت طیبہ نظر آتی تھی۔ نعوذباللہ! ایک یہ صحابی ہیں جن کا لباس اور وضع قطع دیکھ کر علامہ اقبال یاد آتے ہیں، علامہ نے فرمایا:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
اس پر زید زمان بہت شرمندہ ہوا ،زید زمان یوسف کذاب کی موت تک اس کا چیلہ بنا رہا، حتی کہ جب کذاب کی میت کو اسلام آباد کے مسلمانوں کے قبرستان سے نکالا گیا، تب بھی اس کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں۔
12… الغرض اگر زید زمان المعروف زید حامد، مدعی نبوت ملعون یوسف کذاب سے اپنی برأت کرنا چاہتا ہے یا اس سے اپنا رشتہ برقرار نہیں رکھنا چاہتا تو وہ روزنامہ جسارت کراچی، روزنامہ امت کراچی، ماہنامہ بینات کراچی اور ہفت روزہ ختم نبوت میں شائع شدہ مضامین اور راقم الحروف سعید احمد جلال پوری، جناب کاشف حفیظ، جناب این خان، جناب ابو سعد، جناب نوفل شاہ رخ، جناب سعد موٹن، ڈاکٹر فیاض عالم وغیرہ کے کالموں اور جناب رانا اکرم اور منصور طیب، مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی وغیرہ کی شہادتوں کی تردید میں کھل کر یہ کیوں نہیں کہہ اور لکھ دیتا کہ میرا اب مدعی نبوت ملعون یوسف کذاب کے ساتھ دینی، مذہبی اعتبار سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، اور اس کے عقائد و نظریات اور ملحدانہ دعاوی کی بنا پر میں اس کو کافر و مرتد سمجھتا ہوں، بے شک میرا اس سے کبھی تعلق تھا، یا میں اس کا خلیفہ تھا، لیکن اب میں نے ان تمام کفریہ اور ملحدانہ عقائد سے رجوع کرکے ان سے توبہ کرلی ہے لہٰذا آئندہ میرا اس کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہ جوڑا جائے اور کسی آدمی کے کفریہ عقائد سے توبہ کرلینے کے بعد اس کو توبہ سے قبل کے کفریہ اور ملحدانہ عقائد و نظریات کا طعنہ دینا قانوناً، اخلاقاً اور شرعاً ناجائز ہے، اللہ تعالیٰ میرے اس جرم کو معاف فرمائے، نیز میں تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے اس جرم کو معاف فرمائے اور مجھے اس رجوع و توبہ پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
ہمارے خیال میں اگر زید زمان المعروف زید حامد اس طرح کی ایک تحریر یا اس طرح کا بیان مجمع عام میں لکھ کر یا بیان کرکے اپنی ویب سائٹ پر جاری کردے یا کسی اخبار میں شائع کرادے تو اس سارے نزاع کا خاتمہ اور اس قضیہ کا بآسانی فیصلہ ہوسکتا ہے اور آئندہ اس کے خلاف کسی قسم کی کوئی بدگمانی بھی راہ نہیں پاسکے گی، بلکہ اس تحریر و بیان کے بعد ان کے خلاف جو کوئی لب کشائی کرے گا وہ خود منہ کی کھائے گا، لیکن اگر وہ ان تمام شواہد و قرائن اور دلائل و براہین کے باوجود …جن سے اس کا یوسف کذاب کے ساتھ مریدی، خلافت، صحابیت اور عقیدت کا گہرا تعلق ثابت ہوتا ہے…گومگو کی کیفیت میں رہے گا یا اس کی وکالت کرتے ہوئے اس کو صوفی اسکالر اور عاشق رسول ثابت کرنے کے ساتھ یہ کہتا رہے گا کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا یا نہیں ہے، تو اس کی اس بات کا کیا وزن ہوسکتا ہے؟ یا اس کی بات کو کوئی عقلمند تسلیم کرسکتا ہے؟
13… خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ زید زمان المعروف زید حامد کو ملعون یوسف کذاب کے ساتھ دیکھ چکے تھے یا ان کو معلوم تھا کہ یوسف کذاب نے اس کو اپنا خلیفہ بنایا تھا اور نعوذباللہ اس کو حضرت ابوبکر صدیق کا خطاب دیا تھا اور ان حضرات نے اسی دور میں اس کی تقریریں بھی سُنی تھیں، انہوں نے جب اس کی حقیقت سے پردہ اٹھانا چاہا یا علمائے کرام سے اس کے تعاقب کی درخواست کی اور ہماری طرح دوسرے حضرات نے اس کی عیاری کی نشاندہی کرنا چاہی تو اس نے صاف انکار کردیا کہ میں کسی یوسف کذاب کو نہیں جانتا، کیونکہ یوسف کذاب کا خلیفہ زید زمان تھا اور میرا نام تو زید حامد ہے، اس پر جب مزید تحقیق کی گئی تو بحمدللہ اس کی وہ کیسٹ بھی مل گئی، جس میں اس نے اپنی خلافت کے موقع پر تقریر کی تھی ...جس کا مضمون اوپر نقل ہوچکا ہے... اور یوسف کذاب کے دام تزویر سے نکلنے والے متعدد حضرات مثلاً :ڈاکٹر اسلم، رانا محمد اکرم، ابوبکر محمد علی، سعد موٹن، نوفل اور منصور طیب صاحب وغیرہ نے یقین کے ساتھ باور کرایا کہ یہ ملعون وہی ہے۔ ان میں سے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ زید حامد کا فتنہ یوسف کذاب کے فتنہ سے بڑھ کر خطرناک ثابت ہوگا، کیونکہ یوسف کذاب میڈیا پر نہیں آیا تھا اور لوگ اس کے اتنے گرویدہ نہیں ہوئے تھے، جتنا اس سے متاثر ہیں، یا یہ اپنا حلقہ بناچکا ہے۔
شُنید ہے کہ زید زمان المعروف زید حامد آج کل لوگوں کو وضاحتیں پیش کرتا پھر رہا ہے کہ میرا یوسف کذاب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور میں چیلنج کرتا ہوں کہ جن لوگوں کے پاس ایسے کوئی ثبوت ہوں وہ میرے سامنے لائیں۔
اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ہم اس کا چیلنج قبول کرتے ہیں اور ایسے تمام حضرات، جو اِس کو اُس دور سے جانتے ہیں، جب وہ افغانستان میں پہلے حکمت یار اور بعد ازاں احمد شاہ مسعود کے ساتھ تھا اور پاکستان میں ان کی ترجمانی کرتا تھا اور پھر یوسف کذاب کے ساتھ وابستہ ہوگیا، اس دور کی تمام باتیں یاد دلا کر اس کے جھوٹ اور دجل کو آشکارا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
افسوس تو یہ ہے کہ ہماری نئی نسل اور بعض دین دار اس کے سحر میں گرفتار ہیں، بہرحال ہمارا فرض ہے کہ ہم امت کو اس کی فتنہ سامانی سے بچائیں۔
مکرر عرض ہے کہ جہاد افغانستان کے حق میں یا امریکا اور یہودیوں کے خلاف تقریریں کرنا، کسی ملحد کے مسلمان ہونے کی دلیل نہیں، اس لیے کہ ایسے ملحدین اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے دور رس منصوبے ترتیب دیتے ہیں، چنانچہ اہل ِ بصیرت خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ شروع شروع میں مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی ہندوؤں، آریوں اور عیسائیوں کے خلاف تقریریں، مناظرے اور مباحثے کرکے اپنی اہمیت منوائی تھی اور اپنے آپ کو اسلام اور مسلمانوں کا ترجمان باور کرایا تھا، لیکن جب اس کی شہرت ہوگئی اور اس کا اعتماد بحال ہوگیا تو اس کے بعد اس نے مہدی، مسیح اور نبی ہونے کے دعوے کیے تھے، ٹھیک اسی طرح یہ بھی اسی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو ایسے فتنہ پروروں سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22233
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
جزاک اللہ۔
بہت مدلل مضمون شائع کیا ہے۔
آجکل ایک پاکستانی پرائیوٹ ٹیلی وژن زید حامد کو بہت بڑے مذہبی سکالر کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
جس کی پیش بندی کی اشد ضرورت ہے۔
بہت مدلل مضمون شائع کیا ہے۔
آجکل ایک پاکستانی پرائیوٹ ٹیلی وژن زید حامد کو بہت بڑے مذہبی سکالر کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
جس کی پیش بندی کی اشد ضرورت ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
-
- دوست
- Posts: 220
- Joined: Fri Jun 11, 2010 5:04 pm
- جنس:: مرد
- Location: House#05,Gulberg# 1, Peshawar Cantt
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
پیارے چاند بابو آپ نے کیا دوسری طرف کا مؤقف سنا ہے جو آپ ایسی بات کررہے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
قال را بہ گزار مرد حال شو
پیش مرد کامل پامال شو (روم)
پیش مرد کامل پامال شو (روم)
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22233
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
جی روحانی بابا جی میں نے دوسری طرف کا موقف بالکل سنا ہے۔rohaani_babaa wrote:پیارے چاند بابو آپ نے کیا دوسری طرف کا مؤقف سنا ہے جو آپ ایسی بات کررہے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ان کا موقف یہی ہے کہ وہ سب انجانے میںہوا ہے
اور جب اسے پتہ چلا یہ یوسف کذاب ہو گیا ہے تو وہ فورا اس کی حمایت سے باز آ گیا تھا۔
لیکن حقائق وہ شواہد یہی بتاتے ہیں کہ جب تک یوسف کذاب کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
اسے باقاعدہ عدالت سے سزا نہیں ہوئی یہ شخص اس کا حمایتی رہا
اور اس کے بعد کچھ عرصہ گمنامی کی زندگی گزارنے کے بعد یہ اب دوبارہ میدان سجا رہا ہے۔
ہاں البتہ چونکہ آپ کا مطالعہ زیادہ ہے اگر آپ کے پاس اس کا کوئی اور موقف موجود ہو تو وہ یہاںشئیر کیجئے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
-
- دوست
- Posts: 220
- Joined: Fri Jun 11, 2010 5:04 pm
- جنس:: مرد
- Location: House#05,Gulberg# 1, Peshawar Cantt
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
پیارے چاند بابو زید حامد صاف کہتا ہے کہ یوسف پیسوں کے چکر میں پڑگیا تھا یعنی دنیا دار ہوگیا تھا۔اور ویسے بھی اگر ضیاء شاہد کسی کے خلاف ہوجائے تو اس بندے کا بچنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔دیکھو طاہر القادری کی کتنی مٹی پلید کی اس کے علاوہ حکیم تحسین کو پہلے خوب مشہور کیا جب اُس کی دکانداری چل نکلی تو پھر اس سے ماہانہ لاکھوں روپے طلب کیئے انکار پر پھر دنیا نے دیکھا کہ کیسے حکیم تحسین کا کروڑوں کا بزنس ضیاء شاہد نے تباہ کیا اسی طرح ضیاء شاہد نے یوسف کو بھہی بلیک میک کرنے کی کوشش کی اور پھر جب یوسف گمراہ نے انکار کیا تو پھر اس کے پیچھے ایسا لگا کہ مار کر ہی دم لیا۔
قال را بہ گزار مرد حال شو
پیش مرد کامل پامال شو (روم)
پیش مرد کامل پامال شو (روم)
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22233
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
روحانی بابا میں آپ کی بات کا احترام کرتا ہوں لیکن بہت افسوس سے کہتا ہوں کہ شاید ضیاء شاہد نے اسے نہیں کہا ہو گا کہ وہ خود کو خدا کہلوانا شروع کر دے، یا نبوت کا جھوٹا دعوایدار بن جائے، اور فرض کریں اگر اس نے ایسا کیا بھی ہے اسے اس کام پر بھڑکایا بھی ہے تو کیا وہ خود عقل کا اندھا ہے۔
اوپر موجود بیانات شاید آپ نے پڑھے نہیں ہیں، ان صاف ثبوتوں کی موجودگی میں بھی کیا آپ یہی کہیں گے کہ وہ بندہ ضیاء شاہد کے ہاتھوں کھیل رہا تھا،
جی نہیں محترم وہ سب کچھ بالکل ہوش و حواس میں کر رہا تھا اور زید حامد اس کا ساتھی بلکہ بقول اس کے اس کا صحابی تھا،
اور رہی بات پیسے کی تو ایسا کوئی بھی قدم کسی نا کسی ناجائز مقصد کی تکمیل کے لئے ہی اٹھایا جاتا ہے،
اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پیسہ کسی کو اس کام کے لئے مجبور کر سکتا ہے؟
خدا کی قسم اگر مجھے اس کے عوض دنیا جہاں کی ساری دولت بھی دے دی جائے تو بھی میں شانِ نبی پر ایک نقطے کی بھی آنچ لانا گوارہ نا کروں
حالانکہ روئے زمین پر شاید ہی کوئی مجھ سے ادنی مسلمان موجود ہو گا۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے پیسے کے لئےیہ قدم اٹھایا۔
اور اگر اس نے یہ کام کیا تو کوئی نیا کام نہیں کیا ہر دور میں ایسا ہی ہوا ہے، اس نے پیسے کے لئے اٹھایا تو کسی اور نے یہی امتِ مسلمہ کو گمراہ کرنے کے لئے تو کسی تیسرے نے جھوٹی شہرت حاصل کرنے کے لئے۔لیکن ان سب کے پیچھے مسلم دشمن عناصر کام کرتے رہے ہیں جن کا اصل مقصد روئے زمین سے آخری مسلمان بھی ختم کردینا ہے۔
لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ زید حامد اب توبہ تائب ہو چکا ہے تو پھر بھی ایک ایسے شخص کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہئے جس نے دین اسلام میں اپنی من مرضی تحریف کرنا چاہی، ایس جھوٹے کو عالم کے روپ میں سامنے نہیں لانا چاہئے۔
ہاں یہ درست ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس نے اللہ تعالٰی سے سچے دل سے معافی طلب کی ہو اور اللہ تعالٰی نے اس گنہگار کی توبہ قبول بھی کر لی ہو۔
لیکن ہمارے لئے تو وہ آج بھی وہی یوسف کذاب کا ساتھی ہے کہ دلوں کے بھید اور غائب کا حال صرف اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے۔
اس لئے یہ شخص ہمارے سامنے پہلے بھی کذاب اور نبوت کے ایک جھوٹے دعویدار کا حامی تھا اور آج بھی ہے۔
اور ختم نبوت پر یقین نا رکھنے والا یا ایسے شخص سے تعلق نبھانے والا ہرشخص ہمارے لئے ہمیشہ سے ناقابلِ قبول ہے اور رہے گا۔
اوپر موجود بیانات شاید آپ نے پڑھے نہیں ہیں، ان صاف ثبوتوں کی موجودگی میں بھی کیا آپ یہی کہیں گے کہ وہ بندہ ضیاء شاہد کے ہاتھوں کھیل رہا تھا،
جی نہیں محترم وہ سب کچھ بالکل ہوش و حواس میں کر رہا تھا اور زید حامد اس کا ساتھی بلکہ بقول اس کے اس کا صحابی تھا،
اور رہی بات پیسے کی تو ایسا کوئی بھی قدم کسی نا کسی ناجائز مقصد کی تکمیل کے لئے ہی اٹھایا جاتا ہے،
اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پیسہ کسی کو اس کام کے لئے مجبور کر سکتا ہے؟
خدا کی قسم اگر مجھے اس کے عوض دنیا جہاں کی ساری دولت بھی دے دی جائے تو بھی میں شانِ نبی پر ایک نقطے کی بھی آنچ لانا گوارہ نا کروں
حالانکہ روئے زمین پر شاید ہی کوئی مجھ سے ادنی مسلمان موجود ہو گا۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے پیسے کے لئےیہ قدم اٹھایا۔
اور اگر اس نے یہ کام کیا تو کوئی نیا کام نہیں کیا ہر دور میں ایسا ہی ہوا ہے، اس نے پیسے کے لئے اٹھایا تو کسی اور نے یہی امتِ مسلمہ کو گمراہ کرنے کے لئے تو کسی تیسرے نے جھوٹی شہرت حاصل کرنے کے لئے۔لیکن ان سب کے پیچھے مسلم دشمن عناصر کام کرتے رہے ہیں جن کا اصل مقصد روئے زمین سے آخری مسلمان بھی ختم کردینا ہے۔
لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ زید حامد اب توبہ تائب ہو چکا ہے تو پھر بھی ایک ایسے شخص کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہئے جس نے دین اسلام میں اپنی من مرضی تحریف کرنا چاہی، ایس جھوٹے کو عالم کے روپ میں سامنے نہیں لانا چاہئے۔
ہاں یہ درست ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس نے اللہ تعالٰی سے سچے دل سے معافی طلب کی ہو اور اللہ تعالٰی نے اس گنہگار کی توبہ قبول بھی کر لی ہو۔
لیکن ہمارے لئے تو وہ آج بھی وہی یوسف کذاب کا ساتھی ہے کہ دلوں کے بھید اور غائب کا حال صرف اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے۔
اس لئے یہ شخص ہمارے سامنے پہلے بھی کذاب اور نبوت کے ایک جھوٹے دعویدار کا حامی تھا اور آج بھی ہے۔
اور ختم نبوت پر یقین نا رکھنے والا یا ایسے شخص سے تعلق نبھانے والا ہرشخص ہمارے لئے ہمیشہ سے ناقابلِ قبول ہے اور رہے گا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22233
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
یوسف کذاب کی وہ تقریر جس میں اس نے زید حامد کو 1997 میں اپنا صحابی قرار دیا وہ یہاں سے سنی جا سکتی ہے۔
[center][mp3]http://www.esnips.com/nsdoc/ea4b195c-40 ... 9576173390[/mp3][/center]
اعجاز الحسینی صاحب نے جس کتاب کے متن سے انتخاب لیا اس کتاب کا لنک درج ذیل ہے۔
[link]http://ahnaf.com/download.php?file=Zaid ... 0Jalalpuri[/link]
اب اگر بات چل ہی نکلی ہے تو انشااللہ جلد ہی کچھ اور بھی شئیر کروں گا۔
[center][mp3]http://www.esnips.com/nsdoc/ea4b195c-40 ... 9576173390[/mp3][/center]
اعجاز الحسینی صاحب نے جس کتاب کے متن سے انتخاب لیا اس کتاب کا لنک درج ذیل ہے۔
[link]http://ahnaf.com/download.php?file=Zaid ... 0Jalalpuri[/link]
اب اگر بات چل ہی نکلی ہے تو انشااللہ جلد ہی کچھ اور بھی شئیر کروں گا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22233
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
[center]یوسف کذاب اور اس کے خلیفہ کی حقیقت[/center]
گزشتہ دنوں ایک شخص زید حامد کے بارے میں جسارت میں مضامین شائع ہوئے جن پر ہمارے کچھ قارئین بالخصوص خواتین کے طبقے نے اعتراضات کیے۔ اعتراضات کرنے والوں میں ایسے بھی تھے جن کی دینی فہم اور اسلام سے محبت مستحکم ہے، لیکن لاعلمی کی بنیاد پر اعتراضات وارد کیے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ زید حامد کا سحر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر بہت اچھی گفتگو کرتے ہیں‘ ایسی گفتگو کہ دین دار طبقہ کہہ اٹھے کہ یہ تو اس کے دل کی آواز ہے۔ زبان کا ایسا ہی کمال ”جاہل آن لائن“ میں بھی نظر آتا ہے۔ خطابت کے زور پر ذہنوں کو مسحور کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ بھلا ہو ڈاکٹر فیاض عالم کا‘ جنہوں نے انکشاف کیا کہ زید حامد جھوٹے نبی یوسف کذاب کے خلیفہ تھے۔ لیکن شاید جسارت کے کئی قارئین نے اس پر توجہ نہیں دی۔ یوسف کذاب کا دعویٰ نبوت اور اس کا انجام زیادہ پرانی بات نہیں۔ اسے لاہور کی عدالت نے سزائے موت دی تھی اور زید حامد نے نہ صرف فیصلے کی مخالفت کی بلکہ اس کی ضمانت کی کوشش بھی کرتے رہے‘ مگر اسے کسی غیرت مند نے جیل میں ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ زید حامد نے جھوٹے نبی کی اطاعت سے توبہ کا اعلان نہیں کیا۔ وہ توبہ کرلیں تو ہمارے سر آنکھوں پر، لیکن تب تک ان سے متاثر ہونے والے ان کا پس منظر اپنے ذہن میں رکھیں۔ یوسف کذاب کون تھا، یادداشت تازہ کرنے کے لیے اس پر چلنے والے مقدمے کی تھوڑی سی روداد بیان کرنا مناسب ہوگا تاکہ زید حامد کا پس منظر بھی تھوڑا سا سامنے آجائے۔ سیشن جج لاہور کی عدالت میں چلنے والے اس اہم مقدمے کی پوری تفصیل ایک کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہے جس کا عنوان ہے:'' of yousuf kazzab blasphemy Judgment case'' اسے جناب ارشد قریشی نے مرتب کیا ہے اور اس کاپیش لفظ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ محمد اسماعیل قریشی نے لکھا ہے۔ قریشی صاحب ہی نے یوسف کذاب کے خلاف مقدمہ کی پیروی کی تھی جس کے نتیجے میں 5 اگست 2000ءکو جج میاں محمد جہانگیر نے مجرم کذاب کو موت کی سزا سنائی۔ اس فیصلے کو انہی زید حامد نے انصاف کا قتل قرار دیا۔ ان کے خیال میں توہینِ رسالت کا مرتکب اور خود نبوت کا دعویدار، اپنے دور کا کذاب ِعظیم ایک معزز صوفی اسکالر تھا۔ اب بھی وقت ہے کہ زید حامد یوسف کذاب سے برات کا اعلان کریں، جس نے بے شمار لوگوں کو اپنی خطابت کے سحر سے گمراہ کیا۔ اب آپ محمد اسماعیل قریشی کے قلم سے مقدمہ کی مختصر سی روداد اور تبصرہ ملاحظہ کریں۔ اللہ ہم سب کو دجالوں اور ابو جہل کے پیروکاروں سے محفوظ رکھے: ............٭
٭............ میں فاضل سیشن جج لاہور میاں محمد جہانگیر کے تفصیلی فیصلے مجریہ 5 اگست 2000ءپر تبصرہ کرتے ہوئے جھجک رہا تھا جس میں فاضل جج نے یوسف علی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے جرم میں موت کی سزا دی ہے جب اس نے مدینہ منورہ سے اپنی واپسی پر نبوت کی آخری اور حتمی منزل طے کرلینے کا دعویٰ کیا تھا۔ مجرم کو سزائے موت کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر دھوکا اور جعلسازی کے گھنا?نے جرم کے ارتکاب کی سزا بھی دی گئی ہے۔ اس کو بلند مرتبت اہلِ بیت (علیہ السلام) اور صحابہ کرام کا تقدس مجروح کرنے کی سزا بھی دی گئی۔ دوسرے یہ کہ میں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے اس لیے بھی گریز کیا کہ میں اس فیصلے کا حصہ ہوں اور میری کتاب ”ناموسِ رسالت اور قانون توہین ِ رسالت“ کا حوالہ مجرم نے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت کے سامنے بار بار دیا۔ دریں اثناء مجرم کے ایک نام نہاد صحابی زید حامد نے ڈان شمارہ 13 اگست 2000ءمیں فیصلے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور شر انگیزی کی اس پست ترین سطح تک گرگئے کہ اس فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دے دیا اور مجرم کو ایک مہربان اور اسلام کے معزز صوفی اسکالر کے طور پر پیش کیا ہے۔ فیصلے کے بارے میں تبصرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کے بارے میں تبصرہ نگار کا علم کس قدر سطحی ہے۔ ان کے بیان کردہ حقائق سچائی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ اسی طرح ڈیلی نیوز لاہور میں اسی دن شائع ہونے والے مجرم کے بیان میں بھی مقدمے کے اصل متن کو مسخ کیا گیا ہے۔ اس گمراہ کن مہم نے مجرم کے ایک سابق قریبی ساتھی اور اسکالر جناب ارشد قریشی کو جو قادریہ صوفی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں‘ فاضل سیشن جج کا مقدمہ کتابی شکل میں شائع کرنے پر مجبور کردیا تاکہ عوام مجرم کا اصلی روپ اس تاریخی مقدمے کی روشنی میں دیکھ سکیں۔ انہوں نے مجھ سے اپنی اس زیرِ طبع کتاب کے لیے پیش لفظ لکھنے کی درخواست کی۔ اس کتاب کے مولف ایک اور کتاب ”فتنہ یوسف کذاب“ کے مصنف بھی ہیں جو تین جلدوں میں ہے۔ نہ صرف مقدمے کی سماعت کرنے والے فاضل جج بلکہ خود میرے اور ممتاز وکلا سردار احمد خان، ایم اقبال چیمہ، غلام مصطفی چوہدری، یعقوب علی قریشی اور میاںصابر نشتر ایڈووکیٹ پر مشتمل میرے پینل کے خلاف مجرم کی مسلسل ناجائز مہم جوئی کے پیش نظر میں نے یہ پیش لفظ لکھ کر عوام پر یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھا کہ آدھا سچ صریح جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جج صاحبان خود اپنے فیصلوں کا دفاع نہیںکرسکتے بلکہ وہ اپنے فیصلوں کے ذریعے کلام کرسکتے ہیں۔ اس لیے جو معاملہ عدالت سے تعلق رکھتا ہے تو عدالت خود ہی اس توہین آمیز مواد پر گرفت کرے گی لیکن میں صرف مدعی کے وکلا کی اس کردارکشی کو زیربحث لا?ں گا جو بعض اخبارات کے ذریعے کی گئی ہے۔ جہاں تک مجرم کے طرزعمل اور کردار کا تعلق ہے تو اس نے عدالت میں پیش کردہ خود اپنی دستاویزات کے ذریعے ہی اپنی اصلیت ثابت کردی ہے کہ جدید مشینی طریقوں کے ذریعے انسانی ذہن اتنے بڑے فراڈ کو شاید ہی کبھی احاطہ خیال میں لاسکا ہو۔ اس نے ایک دستاویز پیش کی جسے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے سند ڈی 1 کے طور پر پیش کیا ہے اور جو اس کتاب کے شیڈول Iکا حصہ بھی ہے۔ اس دستاویز کے بارے میں اس لیے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ وہ سرٹیفکیٹ ہے جو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو براہِ راست بھیجا ہے جس کی رو سے اس کو خلیفہ اعظم قرار دیا گیا ہے۔ میری جرح پر اس کے اعتراف کے مطابق تمام انبیائ کرام کو خلفائ‘ زمین پر اللہ کے نائب مقرر کیا گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ اعظم، نائبین کے سربراہ اعلیٰ ہیں‘ لہٰذا اس سرٹیفکیٹ کی رو سے اب وہ زمین پر خلیفہ اعظم ہے۔ جرح میں اس نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ چاروں خلفاءمیں سے کوئی بھی خلیفہ اعظم کے مرتبے پر فائز نہیں تھا۔ ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خلیفہ اعظم کا یہ سرٹیفکیٹ اس کو کراچی کے ایک بزرگ عبداللہ شاہ غازی کی وساطت سے ان کے لیٹر پیڈ پر کمپیوٹر کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے مذکورہ بزرگ 300 سال قبل وفات پاچکے ہیں۔ نبی کریم کی جانب سے انگریزی زبان میں مذکورہ سرٹیفکیٹ میں مجرم کو خلیفہ اعظم حضرت امام الشیخ ابو محمد یوسف کے طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ مذکورہ سرٹیفکیٹ میں مجرم کو علم کا محور اور عقل و دانش میں حرف ِآخر قرار دیا گیا ہے۔ اس اعلان کی وضاحت کرتے ہوئے مجرم نے کہا کہ وہ قرآن پاک کا مفسر ہے۔ وہ حدیث اور فقہ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ وہ تصوف کا ماہر ہے اور دنیاوی سائنسی علوم سے بھی واقف ہے۔ اس کے ہمہ جہت علم و دانش کا اندازہ لگانے کی غرض سے میں نے اس سے دینی علم کے بارے میں جرح کی اور جدید سائنسی تحقیق کے بارے میں بھی سوالات پوچھے۔ میں یہاں بتانا چاہوں گا کہ مجرم نے عدالت میں یہ بیان دیا تھا کہ اس کو تمام پیغامات براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عربی یا انگریزی میں موصول ہوتے ہیں۔ میں نے اس سے قرآنی لفظ ”تقویٰ“ کی دلیل کے بارے میں سوال کیا لیکن وہ اس کا جواب نہیں دے سکا۔ میں نے اس سے خلیفہ اعظم سرٹیفکیٹ کی پیشانی پر تحریر الفاظ ”وسعت“ اور ”حشر“ کے معنی پوچھے مگر وہ ان الفاظ کے آسان معنی بتانے میں بری طرح ناکام رہا۔ یہاں تک کہ وہ صحاح ستہ کے نام سے مشہور اور قرآن کے بعد پوری دنیا کے لیے انتہائی محترم حدیث کی چھ کتابوں کے نام بتانے سے بھی قاصر رہا۔ آل رسول کا دعویدار ہونے کے باوجود اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلماور حضرت علی کے بارے میں مدینتہ العلم کی انتہائی مشہور حدیث کا بھی کوئی علم نہیں۔ اسکول سرٹیفکیٹ اور اس کے سروس ریکارڈ کے مطابق اس کا نام یوسف علی ہے۔ (شیڈول II) ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے لوگوں کو دھوکا دینے اور نبی کریم کے نام پر جعلسازی کے ذریعے بے تحاشہ پیسہ حاصل کرنے اور لاکھوں روپے مالیت کی جائداد بنانے کے مذموم مقاصد کے پیش نظر اپنے نام میں ”محمد“ کا اضافہ کرلیا۔ یہ حقائق اس کے اپنے اعترافات اور پیش کردہ دستاویزات سے ثابت ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اقبال کا گہرا مطالعہ کیا ہے‘ لیکن وہ ان کے 6 خطبات سے نابلد ہے اور ان کی شاعری میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کا مطلب جانتا ہے نہ ہی وہ اقبال کے فلسفہ خودی کی وضاحت کرسکا۔ اس کا مولانا مودودی کے ساتھ منسلک رہنے کا دعویٰ بھی صریح غلط بیانی پر مبنی ہے اور جماعت اسلامی کی طرف سے اس کی تردید کی جاچکی ہے۔ اسی طرح وہ جدید سائنس کی الف، ب بھی نہیں جانتا اور ڈی این اے کا مطلب نہیں بتا پایا۔ اس نے یہ لفظ عدالت کے سامنے خود اپنے بیان میں استعمال کیا تھا۔ اپنے اس مذموم منصوبے کو تقویت بخشنے کی غرض سے اس نے نوجوانوں کی عالمی تنظیم ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY) کا ڈائریکٹر جنرل ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس کا صدر دفتر جدہ میں ہے اور جس کے دفاتر پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ میں اس تنظیم کا ایسوسی ایٹ ممبر رہا ہوں لہٰذا میں نے فوری طور پر سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مانج الجہنی سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے فوراً ہی فیکس کے ذریعے مجھے آگاہ کیا کہ ”وامی“ یوسف علی نام کے کسی شخص سے واقف نہیں ہے اور نہ ہی اس نام کے کسی شخص کو کبھی ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گےا تھا۔ مذکورہ خط میں واضح طور پر کہا گیا کہ اگر مذکورہ یوسف علی نے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویز یا کوئی دوسرا مواد پیش کیا ہو تو اسے غلط اور جھوٹ تصور کیا جائے۔ سیکریٹری جنرل وامی نے اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور سزا دلانے کا اختیار بھی دیا۔ مذکورہ خط عدالت میں پیش کیا گیا اور یہ بھی شیڈول III کے طور پر منسلک ہے۔ مجرم نے اس جعلسازی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے خود کو سعودی عرب سے قبرص کے سفیر کے مرتبے پر بھی فائز کردیا اور ہزایکسیلنسی بن کر سابق چیف جسٹس حمودالرحمن اور جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ کے ساتھ اپنی تصویر بھی کھنچوائی۔ (شیڈول IV)۔ تاہم جسٹس چیمہ نے اسلام آباد سے ٹیلی فون پر میرے استفسار پر ایسے کسی ہز ایکسیلنسی سے واقفیت کی تردید کی۔ مجرم نے اپنے بیان میں اس بات سے انکار کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو جانتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا جو قادیان کے اس مرزا نے اختیار کیا تھا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ برطانوی حکومت نے بھارت کے مسلم حکمرانوں سے اقتدار غصب کرنے کے بعد انیسویں صدی میں توہینِ رسالت کا قانون منسوخ کردیا‘ جبکہ انگلینڈ میں اس وقت بھی یہ قانون آئین کا حصہ تھا۔ مرزا غلام احمد کو برطانوی حکومت کی طرف سے اسلام کے لبادے میں اپنے نئے مذہب کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ لیکن اپنے آقاﺅں کی اس یقین دہانی کے بعد کہ برطانوی حکومت اس کے خلاف کسی بھی مذہبی تحریک کو پوری سختی سے کچل دے گی اس نے یہ اعلان کردیا کہ جو کوئی بھی اس پر ایمان نہیں لائے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ اس کا یہ اعلان مکتوبات مطبوعہ مارچ 1906ء(شیڈولVI) میں موجود ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ مجرم یوسف علی بھی مرزا غلام احمد کے نقش قدم پر چلا اور اس نے زبانی اور دستاویزی شہادت کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ وہ بھی اپنے مشن اور نبوت کے جھوٹے دعویدار کا حقیقی جانشین ہے۔ پہلے اس نے مذہبی حلقوں میں اسلام کے مبلغ کی حیثیت سے رسائی حاصل کی، پھر مرد ِ کامل، اس کے بعد امام الوقت یعنی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر خود کو خلیفہ اعظم قرار دے دیا۔ پھر اس نے ”غار حرا“ سے موسوم اپنے بیسمنٹ میں اپنے پیروکاروں کے سامنے اپنے نبی ہونے کا اعلان کردیا۔ وہ مرزا غلام احمد کی طرح اپنے اس جھوٹے دعوے پر بھی مطمئن نہیں ہوا اور اس نے خود کو نبی آخرالزماں سے (نعوذ باللہ) برتر ہستی ظاہر کرنے کے لیے یہ اعلان کردیا کہ 1400 سال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمایک فریضہ سرانجام دے رہے تھے مگر دور حاضر میں اس نے نبوت اور اس کے حسن کو عروج کمال پر پہنچا دیا ہے۔ مجرم کے اس شرانگیز اور اشتعال انگیز دعوے کے ثبوت میں استغاثہ نے 14 گواہ پیش کیے جن میں کراچی سے بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر محمد اسلم (گواہ استغاثہ1)، محمد اکرم رانا (گواہ استغاثہ2 )‘ محمد علی ابوبکر (گواہ استغاثہ7) اور لاہور سے حافظ محمد ممتاز عدانی، (گواہ استغاثہ نمبر4)‘ میاں محمد اویس (گواہ استغاثہ5) شامل تھے جنہوں نے مجرم کی جانب سے نبوت اورختمی فضیلت کے جھوٹے دعوے کی براہِ راست عینی شہادتوں پر مبنی واقعات بیان کیے۔ سماجی اور مذہبی مرتبے کے حامل ان گواہوں کے ساتھ مجرم کی کوئی عداوت نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ لوگ اس کے اندھے عقیدت مند اور پیروکار تھے‘ بالخصوص محمد علی ابوبکر تو اس سے اتنا قریب تھا کہ اسے مجرم آقا سے مکمل وفاداری اور اس کے احکام کی تعمیل اور بھرپور اطاعت کی بناءپر ابوبکر صدیق کا خطاب دیا گیا تھا۔ کراچی کے اس مرید نے اس کو لاکھوں روپے مالیت کے چیک اور ڈرافٹ دیئے اور اس کے لیے آراستہ و پیراستہ محل تعمیر کیا جس میں غار حرا بھی بنایا گیا تھا۔ مجرم نے نقد یا چیک اور ڈرافٹ کی شکل میں رقم وصول کرنے کی حقیقت سے انکار نہیں کیا۔ اپنے اس نام نہاد نبی کے حق میں اپنی تمام جائداد سے دستبردار ہونے پر اس کے صحابی کو صدیق کا خطاب عطاکیاگیا تھا۔ اس طرح مجرم نے رسول پاک کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسایا اور انہیں مفلسی اور محتاجی سے دوچار کردیا۔ جب اس نے اپنے خلاف مسلمانوں کے غیظ وغضب اور شدید اشتعال کی کیفیت دیکھی تو اپنی گردن بچانے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح وہ بھی اپنے دعوے سے مکر گیا۔ اس کی تردید صریح دجل وفریب اور ”محمد“ ”آل رسول“ اور ”صحابہ“ کے مقدس الفاظ کی غلط ترجمانی کی عکاس تھی جیسا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہے۔ یوسف علی نے مسلمان ہوکر بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے لوگوں کو دھوکا دینے اور مال ودولت اور جائداد کی خاطر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیئے توہین رسالت کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔
گزشتہ دنوں ایک شخص زید حامد کے بارے میں جسارت میں مضامین شائع ہوئے جن پر ہمارے کچھ قارئین بالخصوص خواتین کے طبقے نے اعتراضات کیے۔ اعتراضات کرنے والوں میں ایسے بھی تھے جن کی دینی فہم اور اسلام سے محبت مستحکم ہے، لیکن لاعلمی کی بنیاد پر اعتراضات وارد کیے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ زید حامد کا سحر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر بہت اچھی گفتگو کرتے ہیں‘ ایسی گفتگو کہ دین دار طبقہ کہہ اٹھے کہ یہ تو اس کے دل کی آواز ہے۔ زبان کا ایسا ہی کمال ”جاہل آن لائن“ میں بھی نظر آتا ہے۔ خطابت کے زور پر ذہنوں کو مسحور کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ بھلا ہو ڈاکٹر فیاض عالم کا‘ جنہوں نے انکشاف کیا کہ زید حامد جھوٹے نبی یوسف کذاب کے خلیفہ تھے۔ لیکن شاید جسارت کے کئی قارئین نے اس پر توجہ نہیں دی۔ یوسف کذاب کا دعویٰ نبوت اور اس کا انجام زیادہ پرانی بات نہیں۔ اسے لاہور کی عدالت نے سزائے موت دی تھی اور زید حامد نے نہ صرف فیصلے کی مخالفت کی بلکہ اس کی ضمانت کی کوشش بھی کرتے رہے‘ مگر اسے کسی غیرت مند نے جیل میں ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ زید حامد نے جھوٹے نبی کی اطاعت سے توبہ کا اعلان نہیں کیا۔ وہ توبہ کرلیں تو ہمارے سر آنکھوں پر، لیکن تب تک ان سے متاثر ہونے والے ان کا پس منظر اپنے ذہن میں رکھیں۔ یوسف کذاب کون تھا، یادداشت تازہ کرنے کے لیے اس پر چلنے والے مقدمے کی تھوڑی سی روداد بیان کرنا مناسب ہوگا تاکہ زید حامد کا پس منظر بھی تھوڑا سا سامنے آجائے۔ سیشن جج لاہور کی عدالت میں چلنے والے اس اہم مقدمے کی پوری تفصیل ایک کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہے جس کا عنوان ہے:'' of yousuf kazzab blasphemy Judgment case'' اسے جناب ارشد قریشی نے مرتب کیا ہے اور اس کاپیش لفظ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ محمد اسماعیل قریشی نے لکھا ہے۔ قریشی صاحب ہی نے یوسف کذاب کے خلاف مقدمہ کی پیروی کی تھی جس کے نتیجے میں 5 اگست 2000ءکو جج میاں محمد جہانگیر نے مجرم کذاب کو موت کی سزا سنائی۔ اس فیصلے کو انہی زید حامد نے انصاف کا قتل قرار دیا۔ ان کے خیال میں توہینِ رسالت کا مرتکب اور خود نبوت کا دعویدار، اپنے دور کا کذاب ِعظیم ایک معزز صوفی اسکالر تھا۔ اب بھی وقت ہے کہ زید حامد یوسف کذاب سے برات کا اعلان کریں، جس نے بے شمار لوگوں کو اپنی خطابت کے سحر سے گمراہ کیا۔ اب آپ محمد اسماعیل قریشی کے قلم سے مقدمہ کی مختصر سی روداد اور تبصرہ ملاحظہ کریں۔ اللہ ہم سب کو دجالوں اور ابو جہل کے پیروکاروں سے محفوظ رکھے: ............٭
٭............ میں فاضل سیشن جج لاہور میاں محمد جہانگیر کے تفصیلی فیصلے مجریہ 5 اگست 2000ءپر تبصرہ کرتے ہوئے جھجک رہا تھا جس میں فاضل جج نے یوسف علی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے جرم میں موت کی سزا دی ہے جب اس نے مدینہ منورہ سے اپنی واپسی پر نبوت کی آخری اور حتمی منزل طے کرلینے کا دعویٰ کیا تھا۔ مجرم کو سزائے موت کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر دھوکا اور جعلسازی کے گھنا?نے جرم کے ارتکاب کی سزا بھی دی گئی ہے۔ اس کو بلند مرتبت اہلِ بیت (علیہ السلام) اور صحابہ کرام کا تقدس مجروح کرنے کی سزا بھی دی گئی۔ دوسرے یہ کہ میں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے اس لیے بھی گریز کیا کہ میں اس فیصلے کا حصہ ہوں اور میری کتاب ”ناموسِ رسالت اور قانون توہین ِ رسالت“ کا حوالہ مجرم نے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت کے سامنے بار بار دیا۔ دریں اثناء مجرم کے ایک نام نہاد صحابی زید حامد نے ڈان شمارہ 13 اگست 2000ءمیں فیصلے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور شر انگیزی کی اس پست ترین سطح تک گرگئے کہ اس فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دے دیا اور مجرم کو ایک مہربان اور اسلام کے معزز صوفی اسکالر کے طور پر پیش کیا ہے۔ فیصلے کے بارے میں تبصرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کے بارے میں تبصرہ نگار کا علم کس قدر سطحی ہے۔ ان کے بیان کردہ حقائق سچائی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ اسی طرح ڈیلی نیوز لاہور میں اسی دن شائع ہونے والے مجرم کے بیان میں بھی مقدمے کے اصل متن کو مسخ کیا گیا ہے۔ اس گمراہ کن مہم نے مجرم کے ایک سابق قریبی ساتھی اور اسکالر جناب ارشد قریشی کو جو قادریہ صوفی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں‘ فاضل سیشن جج کا مقدمہ کتابی شکل میں شائع کرنے پر مجبور کردیا تاکہ عوام مجرم کا اصلی روپ اس تاریخی مقدمے کی روشنی میں دیکھ سکیں۔ انہوں نے مجھ سے اپنی اس زیرِ طبع کتاب کے لیے پیش لفظ لکھنے کی درخواست کی۔ اس کتاب کے مولف ایک اور کتاب ”فتنہ یوسف کذاب“ کے مصنف بھی ہیں جو تین جلدوں میں ہے۔ نہ صرف مقدمے کی سماعت کرنے والے فاضل جج بلکہ خود میرے اور ممتاز وکلا سردار احمد خان، ایم اقبال چیمہ، غلام مصطفی چوہدری، یعقوب علی قریشی اور میاںصابر نشتر ایڈووکیٹ پر مشتمل میرے پینل کے خلاف مجرم کی مسلسل ناجائز مہم جوئی کے پیش نظر میں نے یہ پیش لفظ لکھ کر عوام پر یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھا کہ آدھا سچ صریح جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جج صاحبان خود اپنے فیصلوں کا دفاع نہیںکرسکتے بلکہ وہ اپنے فیصلوں کے ذریعے کلام کرسکتے ہیں۔ اس لیے جو معاملہ عدالت سے تعلق رکھتا ہے تو عدالت خود ہی اس توہین آمیز مواد پر گرفت کرے گی لیکن میں صرف مدعی کے وکلا کی اس کردارکشی کو زیربحث لا?ں گا جو بعض اخبارات کے ذریعے کی گئی ہے۔ جہاں تک مجرم کے طرزعمل اور کردار کا تعلق ہے تو اس نے عدالت میں پیش کردہ خود اپنی دستاویزات کے ذریعے ہی اپنی اصلیت ثابت کردی ہے کہ جدید مشینی طریقوں کے ذریعے انسانی ذہن اتنے بڑے فراڈ کو شاید ہی کبھی احاطہ خیال میں لاسکا ہو۔ اس نے ایک دستاویز پیش کی جسے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے سند ڈی 1 کے طور پر پیش کیا ہے اور جو اس کتاب کے شیڈول Iکا حصہ بھی ہے۔ اس دستاویز کے بارے میں اس لیے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ وہ سرٹیفکیٹ ہے جو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو براہِ راست بھیجا ہے جس کی رو سے اس کو خلیفہ اعظم قرار دیا گیا ہے۔ میری جرح پر اس کے اعتراف کے مطابق تمام انبیائ کرام کو خلفائ‘ زمین پر اللہ کے نائب مقرر کیا گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ اعظم، نائبین کے سربراہ اعلیٰ ہیں‘ لہٰذا اس سرٹیفکیٹ کی رو سے اب وہ زمین پر خلیفہ اعظم ہے۔ جرح میں اس نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ چاروں خلفاءمیں سے کوئی بھی خلیفہ اعظم کے مرتبے پر فائز نہیں تھا۔ ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خلیفہ اعظم کا یہ سرٹیفکیٹ اس کو کراچی کے ایک بزرگ عبداللہ شاہ غازی کی وساطت سے ان کے لیٹر پیڈ پر کمپیوٹر کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے مذکورہ بزرگ 300 سال قبل وفات پاچکے ہیں۔ نبی کریم کی جانب سے انگریزی زبان میں مذکورہ سرٹیفکیٹ میں مجرم کو خلیفہ اعظم حضرت امام الشیخ ابو محمد یوسف کے طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ مذکورہ سرٹیفکیٹ میں مجرم کو علم کا محور اور عقل و دانش میں حرف ِآخر قرار دیا گیا ہے۔ اس اعلان کی وضاحت کرتے ہوئے مجرم نے کہا کہ وہ قرآن پاک کا مفسر ہے۔ وہ حدیث اور فقہ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ وہ تصوف کا ماہر ہے اور دنیاوی سائنسی علوم سے بھی واقف ہے۔ اس کے ہمہ جہت علم و دانش کا اندازہ لگانے کی غرض سے میں نے اس سے دینی علم کے بارے میں جرح کی اور جدید سائنسی تحقیق کے بارے میں بھی سوالات پوچھے۔ میں یہاں بتانا چاہوں گا کہ مجرم نے عدالت میں یہ بیان دیا تھا کہ اس کو تمام پیغامات براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عربی یا انگریزی میں موصول ہوتے ہیں۔ میں نے اس سے قرآنی لفظ ”تقویٰ“ کی دلیل کے بارے میں سوال کیا لیکن وہ اس کا جواب نہیں دے سکا۔ میں نے اس سے خلیفہ اعظم سرٹیفکیٹ کی پیشانی پر تحریر الفاظ ”وسعت“ اور ”حشر“ کے معنی پوچھے مگر وہ ان الفاظ کے آسان معنی بتانے میں بری طرح ناکام رہا۔ یہاں تک کہ وہ صحاح ستہ کے نام سے مشہور اور قرآن کے بعد پوری دنیا کے لیے انتہائی محترم حدیث کی چھ کتابوں کے نام بتانے سے بھی قاصر رہا۔ آل رسول کا دعویدار ہونے کے باوجود اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلماور حضرت علی کے بارے میں مدینتہ العلم کی انتہائی مشہور حدیث کا بھی کوئی علم نہیں۔ اسکول سرٹیفکیٹ اور اس کے سروس ریکارڈ کے مطابق اس کا نام یوسف علی ہے۔ (شیڈول II) ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے لوگوں کو دھوکا دینے اور نبی کریم کے نام پر جعلسازی کے ذریعے بے تحاشہ پیسہ حاصل کرنے اور لاکھوں روپے مالیت کی جائداد بنانے کے مذموم مقاصد کے پیش نظر اپنے نام میں ”محمد“ کا اضافہ کرلیا۔ یہ حقائق اس کے اپنے اعترافات اور پیش کردہ دستاویزات سے ثابت ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اقبال کا گہرا مطالعہ کیا ہے‘ لیکن وہ ان کے 6 خطبات سے نابلد ہے اور ان کی شاعری میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کا مطلب جانتا ہے نہ ہی وہ اقبال کے فلسفہ خودی کی وضاحت کرسکا۔ اس کا مولانا مودودی کے ساتھ منسلک رہنے کا دعویٰ بھی صریح غلط بیانی پر مبنی ہے اور جماعت اسلامی کی طرف سے اس کی تردید کی جاچکی ہے۔ اسی طرح وہ جدید سائنس کی الف، ب بھی نہیں جانتا اور ڈی این اے کا مطلب نہیں بتا پایا۔ اس نے یہ لفظ عدالت کے سامنے خود اپنے بیان میں استعمال کیا تھا۔ اپنے اس مذموم منصوبے کو تقویت بخشنے کی غرض سے اس نے نوجوانوں کی عالمی تنظیم ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY) کا ڈائریکٹر جنرل ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس کا صدر دفتر جدہ میں ہے اور جس کے دفاتر پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ میں اس تنظیم کا ایسوسی ایٹ ممبر رہا ہوں لہٰذا میں نے فوری طور پر سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مانج الجہنی سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے فوراً ہی فیکس کے ذریعے مجھے آگاہ کیا کہ ”وامی“ یوسف علی نام کے کسی شخص سے واقف نہیں ہے اور نہ ہی اس نام کے کسی شخص کو کبھی ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گےا تھا۔ مذکورہ خط میں واضح طور پر کہا گیا کہ اگر مذکورہ یوسف علی نے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویز یا کوئی دوسرا مواد پیش کیا ہو تو اسے غلط اور جھوٹ تصور کیا جائے۔ سیکریٹری جنرل وامی نے اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور سزا دلانے کا اختیار بھی دیا۔ مذکورہ خط عدالت میں پیش کیا گیا اور یہ بھی شیڈول III کے طور پر منسلک ہے۔ مجرم نے اس جعلسازی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے خود کو سعودی عرب سے قبرص کے سفیر کے مرتبے پر بھی فائز کردیا اور ہزایکسیلنسی بن کر سابق چیف جسٹس حمودالرحمن اور جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ کے ساتھ اپنی تصویر بھی کھنچوائی۔ (شیڈول IV)۔ تاہم جسٹس چیمہ نے اسلام آباد سے ٹیلی فون پر میرے استفسار پر ایسے کسی ہز ایکسیلنسی سے واقفیت کی تردید کی۔ مجرم نے اپنے بیان میں اس بات سے انکار کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو جانتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا جو قادیان کے اس مرزا نے اختیار کیا تھا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ برطانوی حکومت نے بھارت کے مسلم حکمرانوں سے اقتدار غصب کرنے کے بعد انیسویں صدی میں توہینِ رسالت کا قانون منسوخ کردیا‘ جبکہ انگلینڈ میں اس وقت بھی یہ قانون آئین کا حصہ تھا۔ مرزا غلام احمد کو برطانوی حکومت کی طرف سے اسلام کے لبادے میں اپنے نئے مذہب کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ لیکن اپنے آقاﺅں کی اس یقین دہانی کے بعد کہ برطانوی حکومت اس کے خلاف کسی بھی مذہبی تحریک کو پوری سختی سے کچل دے گی اس نے یہ اعلان کردیا کہ جو کوئی بھی اس پر ایمان نہیں لائے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ اس کا یہ اعلان مکتوبات مطبوعہ مارچ 1906ء(شیڈولVI) میں موجود ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ مجرم یوسف علی بھی مرزا غلام احمد کے نقش قدم پر چلا اور اس نے زبانی اور دستاویزی شہادت کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ وہ بھی اپنے مشن اور نبوت کے جھوٹے دعویدار کا حقیقی جانشین ہے۔ پہلے اس نے مذہبی حلقوں میں اسلام کے مبلغ کی حیثیت سے رسائی حاصل کی، پھر مرد ِ کامل، اس کے بعد امام الوقت یعنی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر خود کو خلیفہ اعظم قرار دے دیا۔ پھر اس نے ”غار حرا“ سے موسوم اپنے بیسمنٹ میں اپنے پیروکاروں کے سامنے اپنے نبی ہونے کا اعلان کردیا۔ وہ مرزا غلام احمد کی طرح اپنے اس جھوٹے دعوے پر بھی مطمئن نہیں ہوا اور اس نے خود کو نبی آخرالزماں سے (نعوذ باللہ) برتر ہستی ظاہر کرنے کے لیے یہ اعلان کردیا کہ 1400 سال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمایک فریضہ سرانجام دے رہے تھے مگر دور حاضر میں اس نے نبوت اور اس کے حسن کو عروج کمال پر پہنچا دیا ہے۔ مجرم کے اس شرانگیز اور اشتعال انگیز دعوے کے ثبوت میں استغاثہ نے 14 گواہ پیش کیے جن میں کراچی سے بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر محمد اسلم (گواہ استغاثہ1)، محمد اکرم رانا (گواہ استغاثہ2 )‘ محمد علی ابوبکر (گواہ استغاثہ7) اور لاہور سے حافظ محمد ممتاز عدانی، (گواہ استغاثہ نمبر4)‘ میاں محمد اویس (گواہ استغاثہ5) شامل تھے جنہوں نے مجرم کی جانب سے نبوت اورختمی فضیلت کے جھوٹے دعوے کی براہِ راست عینی شہادتوں پر مبنی واقعات بیان کیے۔ سماجی اور مذہبی مرتبے کے حامل ان گواہوں کے ساتھ مجرم کی کوئی عداوت نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ لوگ اس کے اندھے عقیدت مند اور پیروکار تھے‘ بالخصوص محمد علی ابوبکر تو اس سے اتنا قریب تھا کہ اسے مجرم آقا سے مکمل وفاداری اور اس کے احکام کی تعمیل اور بھرپور اطاعت کی بناءپر ابوبکر صدیق کا خطاب دیا گیا تھا۔ کراچی کے اس مرید نے اس کو لاکھوں روپے مالیت کے چیک اور ڈرافٹ دیئے اور اس کے لیے آراستہ و پیراستہ محل تعمیر کیا جس میں غار حرا بھی بنایا گیا تھا۔ مجرم نے نقد یا چیک اور ڈرافٹ کی شکل میں رقم وصول کرنے کی حقیقت سے انکار نہیں کیا۔ اپنے اس نام نہاد نبی کے حق میں اپنی تمام جائداد سے دستبردار ہونے پر اس کے صحابی کو صدیق کا خطاب عطاکیاگیا تھا۔ اس طرح مجرم نے رسول پاک کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسایا اور انہیں مفلسی اور محتاجی سے دوچار کردیا۔ جب اس نے اپنے خلاف مسلمانوں کے غیظ وغضب اور شدید اشتعال کی کیفیت دیکھی تو اپنی گردن بچانے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح وہ بھی اپنے دعوے سے مکر گیا۔ اس کی تردید صریح دجل وفریب اور ”محمد“ ”آل رسول“ اور ”صحابہ“ کے مقدس الفاظ کی غلط ترجمانی کی عکاس تھی جیسا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہے۔ یوسف علی نے مسلمان ہوکر بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے لوگوں کو دھوکا دینے اور مال ودولت اور جائداد کی خاطر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیئے توہین رسالت کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22233
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
[center]ناطقہ سربرگریباں ہے:—ڈاکٹر فیاض عالم[/center]
بھارت کے معاشی دارالحکومت ممبئی میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی کے چند دن بعد ایک نجی ٹی وی چینل کے ٹاک شو ”سیاست اور پاکستان“ کا خصوصی پروگرام پیش کیا گیا۔ پروگرام کے میزبان فیصل رحمان نے اپنے مہمان زید حامد سے ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی کے حوالے سے سوال کیا۔ زید نے اس سوال کے جواب میں ایک نہایت جذباتی اور چونکا دینے والے انکشافات سے بھرپور تقریر فرمائی۔ اس تقریر سے درج ذیل اقتباس بغور ملاحظہ فرمائیے: ”آج ہم یہ بریکنگ نیوز دیتے ہیں، انڈین سورسز سے ہمیں کنفرم ہوا ہے، انڈین دلت، شودر اورکرسچن جو ان کی ملٹری انٹیلی جنس، پولیس انٹیلی جنس میں کام کرتے ہیں، وہاں سے ہمیں پتہ چلا ہے کہ وہ لوگ جو (دہشت گردی میں) Involveتھے، وہ (دراصل کون لوگ تھے)۔ (ٹی وی اسکرین پر ایک نوجوان کی تصویر دکھائی جاتی ہے)۔ وہ لڑکا جس کی تصویر (میڈیا کے ذریعے) بار بار دکھائی جا رہی ہے ، غور کیجئے اس کے ہاتھ پر ایک Saffron Band ہے۔ اس نے Saffron Band (زعفرانی بینڈ) پہنا ہوا ہے جو کہ بی جے پی کے دہشت گردوں کی خاص نشانی ہے۔ اس لڑکے کا نام امر سنگھ ہے۔ یہ سکھ ہے اور اس کے ساتھ جو دوسرا مارا گیا ہے اس کا نام ہیرا لال ہے۔ یہ دونوں ”را“ کے ایجنٹ تھے۔ یہ خبر ہم کو انڈین انٹیلی جنس کے اندر سے پہنچی ہے۔ یہ (خبر دینے والے) وہ لوگ ہیں جو پولیس سروسز کے ہیں اور انڈین ملٹری انٹیلی جینس کے خلاف Investigate کر رہے تھے۔ They have recognized this man۔ یہ سکھ ہے۔ سکھ ہے ، اور اس کے ساتھ جو دوسرا مارا گیا اس کی شکل اتنی خراب کر دی گئی کہ وہ اسے Recognizeنہیں کرسکے۔ ان سے بات یہ ہو ئی تھی کہ ان کو زندہ گرفتار کیا جائے گا۔ بعد میں جب کھیل غلط ہو گیا، پورے میڈیا نے پکڑ لیا۔ اتنی Mistakesکیں انہوں نے اس کو ہینڈل کرنے میں۔ پھر انڈین ایجنسیوں نے فیصلہ کیا کہ اسے Eliminateکر دیا جائے۔ اس پر اس نے Resistکیا۔ اس کو زندہ گرفتار کیا گیا ہے۔ آپ اس کو Analyseکیجئے۔اس کی شکل بھی پاکستانی نہیں ہے۔ کسی پاکستانی مسلمان کی شکل ایسی نہیں ہوتی!!“ زید نے فخریہ لہجے میں یہ بھی فرمایا کہ ان کا پروگرام براس ٹیکس انڈیا میں بھی مقبول ہوچکا ہے اور انڈیا کے اندر سے ان کی خفیہ ایجنسیوں کے لوگ ایس ایم ایس اور ای میل کے ذریعے انہیں اندر کی خبریں دیتے رہتے ہیں۔ زید حامد نے ممبئی دہشت گردی کے بعد کئی نجی ٹی وی چینلز پر اپنے اس مو¿قف کا زور و شور سے اعادہ کیا اور پاکستان کے مضطرب لوگوں کو نہایت وثوق سے بتایا کہ انڈیا میں گرفتار نوجوان جس کی تصویر میڈیا کے ذریعے دنیا کو دکھائی گئی ہے وہ کوئی پاکستانی نہیں بلکہ ایک سکھ نوجوان ہے جس کا نام امر سنگھ ہے اور وہ انڈین خفیہ ایجنسی ”را“ کا ایجنٹ ہے۔ زید کے معصوم مداح ان کے اس انکشاف کو ناقابل تردید حقیقت سمجھتے رہے۔ لیکن یہ محض تصویر کا ایک رخ ہے۔ بین الاقوامی میڈیا حتیٰ کہ پاکستان کے سب سے بڑے نجی ٹی وی چینل ”جیو“ نے بھی اس حوالے سے جو انکشافات کیے ہیں وہ زید کے انکشاف کی ضد ہیں۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے صحافی علی سلمان نے سب سے پہلے یہ خبر دی تھی کہ ممبئی دہشت گردی کے حوالے سے گرفتار نوجوان کا تعلق پاکستان کے شہر فرید کوٹ سے ہے۔ برطانوی اخبار آبزرور نے فرید کوٹ کے ووٹروں کی فہرست سے اجمل قصاب کے والدین کا پتہ معلوم کیا۔ جلد ہی روزنامہ ڈان کے نامہ نگار فرید کوٹ میں اجمل قصاب کے خاندان تک جا پہنچے اور اس کے والد امیر قصاب سے ملاقات کی۔ روزنامہ ڈان نے عوام کوبتایا کہ امیر قصاب نے تصدیق کر دی ہے کہ میڈیا میں جس نوجوان کی تصویر حملہ آور کے طور پر دکھائی جا رہی ہے وہ ان کا بیٹا اجمل ہے جو چار سال قبل کسی بات پر ناراض ہو کر گھر سے چلا گیا تھا۔ جیو ٹی وی نے اس حوالے سے ایک طویل رپورٹ نشر کی جس پر بعض حلقوں نے اس کی انتظامیہ کو ہدفِ تنقید بنایا اور اس رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔ روزنامہ ڈان کی خبر کے مطابق امیر قصاب ایک غریب آدمی ہے جس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ امیر قصاب کا کہنا ہے کہ ممبئی حملوں میں اجمل کے کردار میں ان لوگوں کا سب سے بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے اس کو اس راہ پر گامزن کیا لیکن ان کو نہیں معلوم کہ وہ کون لوگ ہیں۔ (حوالہ: بی بی سی اردو ڈاٹ کام، جمعہ 12دسمبر 2008ء ممبئی دہشت گردی تاحال ایک معما ہے جسے سلجھنے میں وقت لگے گا۔ ممکن ہے کہ ہندوستان، پاکستان کے عوام بہت سارے واقعات کی طرح کبھی یہ نہ جان پائیں کہ ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ کوئی فرد یا گروہ؟ پاکستان میں متحرک کوئی نان اسٹیٹ ایکٹر یا پھر ہندوستان میں فعال بہت ساری علیحدگی پسند اور دہشت پسند منظم گروپوں میں سے کوئی ایک اس بات کا امکان بھی کم ہے کہ گرفتار نوجوان سے کوئی مہذبانہ تفتیش کی جا رہی ہو۔ جنوب ایشیائی ملکوں کی پولیس اور خفیہ ایجنسیاں زیرحراست افراد سے کسی بھی قسم کا اعتراف کروانے میں مہارت رکھتی ہیں۔ لہٰذا یہ بات طے ہے کہ جب تک اجمل قصاب کو عدالت میں پیش نہ کیا جائے، اسے اپنی مرضی کا وکیل چننے کا اختیار نہ دیا جائے، مقدمے کو ٹرانسپیرنٹ انداز سے نہ چلایا جائے، ثبوت، گواہ اور شواہد نہ پیش کیے جائیں۔ محض بھارتی حکومت کے الزامات یا واویلے اور حکومت پاکستان کو پیش کردہ چند دستاویزات کی بنائ[L:4 R:4] پر اس مسئلے پر کوئی مثبت پیش رفت ممکن نہیں اورحکومت پاکستان محض الزامات کی بنیاد پر ٹھوس اقدامات نہیں اٹھا سکتی۔ فلاحی ادارے جماعت الدعو پر پابندی کے نتیجے میں حکومت پہلے ہی سخت تنقید کا نشانہ بن چکی ہے اور شدید دباﺅ کا شکار ہے۔ ہندوستان میں گرفتار نوجوان جسے ہمارے مایہ ناز دفاعی، معاشی، سیاسی اور جہادی ماہر اور تجزیہ نگار زید حامد نے اپنی مستند معلومات کی بنائ[L:4 R:4] پر ”را“ کا ایجنٹ اور امر سنگھ قرار دیا تھا۔ سات جنوری 2008ئ[L:4 R:4] کو حکومت پاکستان نے باضابطہ طور پر اسے پاکستان کے شہر فرید کوٹ کا رہائشی اجمل قصاب تسلیم کر لیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیری رحمن نے ہندوستانی ٹی وی چینل NDTVکو بتایا کہ حکومت تصدیق کرتی ہے کہ اجمل قصاب پاکستانی ہے اور اس سلسلے میں مزید تحقیقات جاری ہیں۔ تاہم شیری رحمان نے واضح الفاظ میں تردید کی کہ اجمل کا کوئی تعلق پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں سے ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھی سرکاری طور پر یہ بات تسلیم کر لی ہے لیکن ہندوستان کے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے کہ ریاستِ پاکستان کسی بھی طور پر ممبئی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان خود کئی سال سے دہشت گردی کا شکار ہے اور انتہا پسندی کے خلاف عالمی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ قربانیاں دے رہا ہے۔ اس پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگانا زیادتی ہے۔ ممبئی دہشت گردی کے بعد ہندوستانی حکومت کے اعلیٰ سطحی ذمہ داران کا جو رویہ رہا ہے اسے کسی بھی طور پر ذمہ دارانہ نہیں کہا جاسکتا۔ ان کے اشتعال انگیز بیانات اور دھمکیوں کے سبب دونوں پڑوسی ملکوں پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور سرحدوں پر فوج کی تیاریوں کی خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔ بی بی سی، آبزرور، روزنامہ ڈان اور جیو ٹی وی کی خبریں اور رپورٹس دیکھیں یاحکومت پاکستان کا سرکاری مو¿قف۔ یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ ہندوستان میںدہشت گردی کے حوالے سے زیرحراست نوجوان اجمل قصاب پاکستانی شہری ہے۔ جبکہ زید حامد نے کئی پروگرامز میں اسے ہندوستانی خفیہ ایجنسی ”را“ کا ایجنٹ امر سنگھ قرار دیا ہے۔ کس کا مو¿قف درست ہے؟ حکومت پاکستان کا یا زید حامد کا؟ کیا زید حامد نے اس حوالے سے جو داستان لوگوں کو سنائی وہ ابن صفی (مرحوم) کی عمران سیریز، جاسوسی دنیا یا الفریڈ ہچکاک کے کسی سنسنی خیز جاسوسی ناول کا کوئی پلاٹ تھا؟ ایک نہایت سنجیدہ، حساس اور اہم معاملے پر زید حامد آخر قوم سے اس قدر بڑا جھوٹ کس طرح بول سکتے ہیں؟ یوسف کذاب سے ان کی عقیدت اپنی جگہ لیکن اجمل قصاب کو امر سنگھ بتا کر انہوں نے اپنی تمام تر شہرت کو داﺅپر لگا دیا ہے۔ بطور دفاعی تجزیہ نگار اپنی ساکھ کے آگے سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ میں اِس کالم کے ذریعے ان سے ملتمس ہوں کہ برائے مہربانی کسی ٹی وی پروگرام کے ذریعے اس صورتحال کی وضاحت کریں اور قوم کوبتائیں کہ کیا وہ اب بھی اپنے مو¿قف پر قائم ہیںیا ان کے انکشافات محض ان کے ذہن کی اختراع تھے اور عوام کو مرعوب کرنے کے لیے گھڑی ہوئی ایک جھوٹی کہانی؟ ناطقہ سربہ گریباں ہے اسے کیا کہئے۔
بشکریہ : پاک نیٹ فورمز اور روزنامہ جسارت
بھارت کے معاشی دارالحکومت ممبئی میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی کے چند دن بعد ایک نجی ٹی وی چینل کے ٹاک شو ”سیاست اور پاکستان“ کا خصوصی پروگرام پیش کیا گیا۔ پروگرام کے میزبان فیصل رحمان نے اپنے مہمان زید حامد سے ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی کے حوالے سے سوال کیا۔ زید نے اس سوال کے جواب میں ایک نہایت جذباتی اور چونکا دینے والے انکشافات سے بھرپور تقریر فرمائی۔ اس تقریر سے درج ذیل اقتباس بغور ملاحظہ فرمائیے: ”آج ہم یہ بریکنگ نیوز دیتے ہیں، انڈین سورسز سے ہمیں کنفرم ہوا ہے، انڈین دلت، شودر اورکرسچن جو ان کی ملٹری انٹیلی جنس، پولیس انٹیلی جنس میں کام کرتے ہیں، وہاں سے ہمیں پتہ چلا ہے کہ وہ لوگ جو (دہشت گردی میں) Involveتھے، وہ (دراصل کون لوگ تھے)۔ (ٹی وی اسکرین پر ایک نوجوان کی تصویر دکھائی جاتی ہے)۔ وہ لڑکا جس کی تصویر (میڈیا کے ذریعے) بار بار دکھائی جا رہی ہے ، غور کیجئے اس کے ہاتھ پر ایک Saffron Band ہے۔ اس نے Saffron Band (زعفرانی بینڈ) پہنا ہوا ہے جو کہ بی جے پی کے دہشت گردوں کی خاص نشانی ہے۔ اس لڑکے کا نام امر سنگھ ہے۔ یہ سکھ ہے اور اس کے ساتھ جو دوسرا مارا گیا ہے اس کا نام ہیرا لال ہے۔ یہ دونوں ”را“ کے ایجنٹ تھے۔ یہ خبر ہم کو انڈین انٹیلی جنس کے اندر سے پہنچی ہے۔ یہ (خبر دینے والے) وہ لوگ ہیں جو پولیس سروسز کے ہیں اور انڈین ملٹری انٹیلی جینس کے خلاف Investigate کر رہے تھے۔ They have recognized this man۔ یہ سکھ ہے۔ سکھ ہے ، اور اس کے ساتھ جو دوسرا مارا گیا اس کی شکل اتنی خراب کر دی گئی کہ وہ اسے Recognizeنہیں کرسکے۔ ان سے بات یہ ہو ئی تھی کہ ان کو زندہ گرفتار کیا جائے گا۔ بعد میں جب کھیل غلط ہو گیا، پورے میڈیا نے پکڑ لیا۔ اتنی Mistakesکیں انہوں نے اس کو ہینڈل کرنے میں۔ پھر انڈین ایجنسیوں نے فیصلہ کیا کہ اسے Eliminateکر دیا جائے۔ اس پر اس نے Resistکیا۔ اس کو زندہ گرفتار کیا گیا ہے۔ آپ اس کو Analyseکیجئے۔اس کی شکل بھی پاکستانی نہیں ہے۔ کسی پاکستانی مسلمان کی شکل ایسی نہیں ہوتی!!“ زید نے فخریہ لہجے میں یہ بھی فرمایا کہ ان کا پروگرام براس ٹیکس انڈیا میں بھی مقبول ہوچکا ہے اور انڈیا کے اندر سے ان کی خفیہ ایجنسیوں کے لوگ ایس ایم ایس اور ای میل کے ذریعے انہیں اندر کی خبریں دیتے رہتے ہیں۔ زید حامد نے ممبئی دہشت گردی کے بعد کئی نجی ٹی وی چینلز پر اپنے اس مو¿قف کا زور و شور سے اعادہ کیا اور پاکستان کے مضطرب لوگوں کو نہایت وثوق سے بتایا کہ انڈیا میں گرفتار نوجوان جس کی تصویر میڈیا کے ذریعے دنیا کو دکھائی گئی ہے وہ کوئی پاکستانی نہیں بلکہ ایک سکھ نوجوان ہے جس کا نام امر سنگھ ہے اور وہ انڈین خفیہ ایجنسی ”را“ کا ایجنٹ ہے۔ زید کے معصوم مداح ان کے اس انکشاف کو ناقابل تردید حقیقت سمجھتے رہے۔ لیکن یہ محض تصویر کا ایک رخ ہے۔ بین الاقوامی میڈیا حتیٰ کہ پاکستان کے سب سے بڑے نجی ٹی وی چینل ”جیو“ نے بھی اس حوالے سے جو انکشافات کیے ہیں وہ زید کے انکشاف کی ضد ہیں۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے صحافی علی سلمان نے سب سے پہلے یہ خبر دی تھی کہ ممبئی دہشت گردی کے حوالے سے گرفتار نوجوان کا تعلق پاکستان کے شہر فرید کوٹ سے ہے۔ برطانوی اخبار آبزرور نے فرید کوٹ کے ووٹروں کی فہرست سے اجمل قصاب کے والدین کا پتہ معلوم کیا۔ جلد ہی روزنامہ ڈان کے نامہ نگار فرید کوٹ میں اجمل قصاب کے خاندان تک جا پہنچے اور اس کے والد امیر قصاب سے ملاقات کی۔ روزنامہ ڈان نے عوام کوبتایا کہ امیر قصاب نے تصدیق کر دی ہے کہ میڈیا میں جس نوجوان کی تصویر حملہ آور کے طور پر دکھائی جا رہی ہے وہ ان کا بیٹا اجمل ہے جو چار سال قبل کسی بات پر ناراض ہو کر گھر سے چلا گیا تھا۔ جیو ٹی وی نے اس حوالے سے ایک طویل رپورٹ نشر کی جس پر بعض حلقوں نے اس کی انتظامیہ کو ہدفِ تنقید بنایا اور اس رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔ روزنامہ ڈان کی خبر کے مطابق امیر قصاب ایک غریب آدمی ہے جس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ امیر قصاب کا کہنا ہے کہ ممبئی حملوں میں اجمل کے کردار میں ان لوگوں کا سب سے بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے اس کو اس راہ پر گامزن کیا لیکن ان کو نہیں معلوم کہ وہ کون لوگ ہیں۔ (حوالہ: بی بی سی اردو ڈاٹ کام، جمعہ 12دسمبر 2008ء ممبئی دہشت گردی تاحال ایک معما ہے جسے سلجھنے میں وقت لگے گا۔ ممکن ہے کہ ہندوستان، پاکستان کے عوام بہت سارے واقعات کی طرح کبھی یہ نہ جان پائیں کہ ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ کوئی فرد یا گروہ؟ پاکستان میں متحرک کوئی نان اسٹیٹ ایکٹر یا پھر ہندوستان میں فعال بہت ساری علیحدگی پسند اور دہشت پسند منظم گروپوں میں سے کوئی ایک اس بات کا امکان بھی کم ہے کہ گرفتار نوجوان سے کوئی مہذبانہ تفتیش کی جا رہی ہو۔ جنوب ایشیائی ملکوں کی پولیس اور خفیہ ایجنسیاں زیرحراست افراد سے کسی بھی قسم کا اعتراف کروانے میں مہارت رکھتی ہیں۔ لہٰذا یہ بات طے ہے کہ جب تک اجمل قصاب کو عدالت میں پیش نہ کیا جائے، اسے اپنی مرضی کا وکیل چننے کا اختیار نہ دیا جائے، مقدمے کو ٹرانسپیرنٹ انداز سے نہ چلایا جائے، ثبوت، گواہ اور شواہد نہ پیش کیے جائیں۔ محض بھارتی حکومت کے الزامات یا واویلے اور حکومت پاکستان کو پیش کردہ چند دستاویزات کی بنائ[L:4 R:4] پر اس مسئلے پر کوئی مثبت پیش رفت ممکن نہیں اورحکومت پاکستان محض الزامات کی بنیاد پر ٹھوس اقدامات نہیں اٹھا سکتی۔ فلاحی ادارے جماعت الدعو پر پابندی کے نتیجے میں حکومت پہلے ہی سخت تنقید کا نشانہ بن چکی ہے اور شدید دباﺅ کا شکار ہے۔ ہندوستان میں گرفتار نوجوان جسے ہمارے مایہ ناز دفاعی، معاشی، سیاسی اور جہادی ماہر اور تجزیہ نگار زید حامد نے اپنی مستند معلومات کی بنائ[L:4 R:4] پر ”را“ کا ایجنٹ اور امر سنگھ قرار دیا تھا۔ سات جنوری 2008ئ[L:4 R:4] کو حکومت پاکستان نے باضابطہ طور پر اسے پاکستان کے شہر فرید کوٹ کا رہائشی اجمل قصاب تسلیم کر لیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیری رحمن نے ہندوستانی ٹی وی چینل NDTVکو بتایا کہ حکومت تصدیق کرتی ہے کہ اجمل قصاب پاکستانی ہے اور اس سلسلے میں مزید تحقیقات جاری ہیں۔ تاہم شیری رحمان نے واضح الفاظ میں تردید کی کہ اجمل کا کوئی تعلق پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں سے ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھی سرکاری طور پر یہ بات تسلیم کر لی ہے لیکن ہندوستان کے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے کہ ریاستِ پاکستان کسی بھی طور پر ممبئی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان خود کئی سال سے دہشت گردی کا شکار ہے اور انتہا پسندی کے خلاف عالمی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ قربانیاں دے رہا ہے۔ اس پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگانا زیادتی ہے۔ ممبئی دہشت گردی کے بعد ہندوستانی حکومت کے اعلیٰ سطحی ذمہ داران کا جو رویہ رہا ہے اسے کسی بھی طور پر ذمہ دارانہ نہیں کہا جاسکتا۔ ان کے اشتعال انگیز بیانات اور دھمکیوں کے سبب دونوں پڑوسی ملکوں پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور سرحدوں پر فوج کی تیاریوں کی خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔ بی بی سی، آبزرور، روزنامہ ڈان اور جیو ٹی وی کی خبریں اور رپورٹس دیکھیں یاحکومت پاکستان کا سرکاری مو¿قف۔ یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ ہندوستان میںدہشت گردی کے حوالے سے زیرحراست نوجوان اجمل قصاب پاکستانی شہری ہے۔ جبکہ زید حامد نے کئی پروگرامز میں اسے ہندوستانی خفیہ ایجنسی ”را“ کا ایجنٹ امر سنگھ قرار دیا ہے۔ کس کا مو¿قف درست ہے؟ حکومت پاکستان کا یا زید حامد کا؟ کیا زید حامد نے اس حوالے سے جو داستان لوگوں کو سنائی وہ ابن صفی (مرحوم) کی عمران سیریز، جاسوسی دنیا یا الفریڈ ہچکاک کے کسی سنسنی خیز جاسوسی ناول کا کوئی پلاٹ تھا؟ ایک نہایت سنجیدہ، حساس اور اہم معاملے پر زید حامد آخر قوم سے اس قدر بڑا جھوٹ کس طرح بول سکتے ہیں؟ یوسف کذاب سے ان کی عقیدت اپنی جگہ لیکن اجمل قصاب کو امر سنگھ بتا کر انہوں نے اپنی تمام تر شہرت کو داﺅپر لگا دیا ہے۔ بطور دفاعی تجزیہ نگار اپنی ساکھ کے آگے سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ میں اِس کالم کے ذریعے ان سے ملتمس ہوں کہ برائے مہربانی کسی ٹی وی پروگرام کے ذریعے اس صورتحال کی وضاحت کریں اور قوم کوبتائیں کہ کیا وہ اب بھی اپنے مو¿قف پر قائم ہیںیا ان کے انکشافات محض ان کے ذہن کی اختراع تھے اور عوام کو مرعوب کرنے کے لیے گھڑی ہوئی ایک جھوٹی کہانی؟ ناطقہ سربہ گریباں ہے اسے کیا کہئے۔
بشکریہ : پاک نیٹ فورمز اور روزنامہ جسارت
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22233
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
زید حامد علماء کے قتل میں نامزد ملزم ہے، حکومت اس سے فوری طور پر تفتیش کرے، زید حامد میرے نام اور بیان کو اپنی حمایت میں غلط انداز میں پیش کرکے بددیانتی کررہے ہیں، مفتی نعیم:
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21مارچ ۔2010ء) زید حامد علماء کے قتل میں نامزد ملزم ہے۔ حکومت اس سے فوری طور پر تفتیش کرے۔ زید حامد میرے نام اور بیان کو اپنی حمایت میں غلط انداز میں پیش کرکے بددیانتی کررہے ہیں جس کی میں مذمت کرتا ہوں۔ یہ بات جامعہ بنوریہ کے مہتمم مفتی محمد نعیم نے اپنے تردیدی بیان میں کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ زید حامد نے اپنی پریس کانفرنس میں میرے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں ان کی حمایت کرتا ہوں یا انہیں علماء کے قتل سے بری الذمہ سمجھتا ہوں۔ انہوں نے میرے بیان کو غلط سمجھا ہے۔ ان کو چاہئے کہ اس طرح کی بات کرنے سے پہلے اس بیان کو غور سے پڑھ لیتے۔ میں نے اس میں واضح کردیا تھا کہ علماء کے قتل میں جہاں زید حامد کو نامزد کیا ہے وہیں دیگر آپشن پر بھی غور کرنا چاہئے۔ مفتی محمد نعیم نے مطالبہ کیا ہے کہ زید حامد کو فوری طور پر علماء کے قتل میں شامل تفتیش کیا جائے اور انہوں نے ٹی وی اینکر زید حامد کو تنبیہ کی ہے کہ وہ آئندہ اس طرح میرا نام استعمال کرنے سے گریز کریں۔
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21مارچ ۔2010ء) زید حامد علماء کے قتل میں نامزد ملزم ہے۔ حکومت اس سے فوری طور پر تفتیش کرے۔ زید حامد میرے نام اور بیان کو اپنی حمایت میں غلط انداز میں پیش کرکے بددیانتی کررہے ہیں جس کی میں مذمت کرتا ہوں۔ یہ بات جامعہ بنوریہ کے مہتمم مفتی محمد نعیم نے اپنے تردیدی بیان میں کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ زید حامد نے اپنی پریس کانفرنس میں میرے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں ان کی حمایت کرتا ہوں یا انہیں علماء کے قتل سے بری الذمہ سمجھتا ہوں۔ انہوں نے میرے بیان کو غلط سمجھا ہے۔ ان کو چاہئے کہ اس طرح کی بات کرنے سے پہلے اس بیان کو غور سے پڑھ لیتے۔ میں نے اس میں واضح کردیا تھا کہ علماء کے قتل میں جہاں زید حامد کو نامزد کیا ہے وہیں دیگر آپشن پر بھی غور کرنا چاہئے۔ مفتی محمد نعیم نے مطالبہ کیا ہے کہ زید حامد کو فوری طور پر علماء کے قتل میں شامل تفتیش کیا جائے اور انہوں نے ٹی وی اینکر زید حامد کو تنبیہ کی ہے کہ وہ آئندہ اس طرح میرا نام استعمال کرنے سے گریز کریں۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22233
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
[center]ایک اور تحریر[/center]
گزشتہ دنوں ایک شخص زید حامد کے بارے میں جسارت میں مضامین شائع ہوئے‘ جن پر ہمارے کچھ قارئین بالخصوص خواتین کے طبقے نے اعتراضات کیے۔ اعتراضات کرنے والوں میں ایسے بھی تھے جن کی دینی فہم اور اسلام سے محبت مستحکم ہے، لیکن لاعلمی کی بنیاد پر اعتراضات وارد کیے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ زید حامد کا سحر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر بہت اچھی گفتگو کرتے ہیں‘ ایسی گفتگو کہ دین دار طبقہ کہہ اٹھے کہ یہ تو اس کے دل کی آواز ہے۔ زبان کا ایسا ہی کمال ”جاہل آن لائن“ میں بھی نظر آتا ہے۔ خطابت کے زور پر ذہنوں کو مسحور کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ بھلا ہو ڈاکٹر فیاض عالم کا‘ جنہوں نے انکشاف کیا کہ زید حامد جھوٹے نبی یوسف کذاب کے خلیفہ تھے۔
لیکن شاید جسارت کے کئی قارئین نے اس پر توجہ نہیں دی۔ یوسف کذاب کا دعویٰ نبوت اور اس کا انجام زیادہ پرانی بات نہیں۔ اسے لاہور کی عدالت نے سزائے موت دی تھی اور زید حامد نے نہ صرف فیصلے کی مخالفت کی بلکہ اس کی ضمانت کی کوشش بھی کرتے رہے‘ مگر اسے کسی غیرت مند نے جیل میں ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ زید حامد نے جھوٹے نبی کی اطاعت سے توبہ کا اعلان نہیں کیا۔ وہ توبہ کرلیں تو ہمارے سر آنکھوں پر، لیکن تب تک اُن سے متاثر ہونے والے ان کا پس منظر اپنے ذہن میں رکھیں۔ یوسف کذاب کون تھا، یادداشت تازہ کرنے کے لیے اس پر چلنے والے مقدمے کی تھوڑی سی روداد بیان کرنا مناسب ہوگا تاکہ زید حامد کا پس منظر بھی تھوڑا سا سامنے آجائے۔ سیشن جج لاہور کی عدالت میں چلنے والے اس اہم مقدمے کی پوری تفصیل ایک کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہے جس کا عنوان ہے:
''Judgment of yousuf kazzab blasphemy case''
اسے جناب ارشد قریشی نے مرتب کیا ہے اور اس کاپیش لفظ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ محمد اسماعیل قریشی نے لکھا ہے۔ قریشی صاحب ہی نے یوسف کذاب کے خلاف مقدمہ کی پیروی کی تھی جس کے نتیجے میں 5 اگست 2000ءکو جج میاں محمد جہانگیر نے مجرم کذاب کو موت کی سزا سنائی۔ اس فیصلے کو انہی زید حامد نے انصاف کا قتل قرار دیا۔ ان کے خیال میں توہینِ رسالت کا مرتکب اور خود نبوت کا دعویدار، اپنے دور کا کذاب ِعظیم ایک معزز صوفی اسکالر تھا۔ اب بھی وقت ہے کہ زید حامد یوسف کذاب سے براء ت کا اعلان کریں، جس نے بے شمار لوگوں کو اپنی خطابت کے سحر سے گمراہ کیا۔ اب آپ محمد اسماعیل قریشی کے قلم سے مقدمہ کی مختصر سی روداد اور تبصرہ ملاحظہ کریں۔
اللہ ہم سب کو دجالوں اور ابو جہل کے پیروکاروں سے محفوظ رکھے:
............٭٭............
میں فاضل سیشن جج لاہور میاں محمد جہانگیر کے تفصیلی فیصلے مجریہ 5 اگست 2000ء پر تبصرہ کرتے ہوئے جھجک رہا تھا جس میں فاضل جج نے یوسف علی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے جرم میں موت کی سزا دی ہے جب اس نے مدینہ منورہ سے اپنی واپسی پر نبوت کی آخری اور حتمی منزل طے کرلینے کا دعویٰ کیا تھا۔ مجرم کو سزائے موت کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر دھوکا اور جعلسازی کے گھناؤنے جرم کے ارتکاب کی سزا بھی دی گئی ہے۔ اس کو بلند مرتبت اہلِ بیت (علیہ السلام) اور صحابہ کرامؓ کا تقدس مجروح کرنے کی سزا بھی دی گئی۔ دوسرے یہ کہ میں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے اس لیے بھی گریز کیا کہ میں اس فیصلے کا حصہ ہوں اور میری کتاب ”ناموسِ رسالت اور قانون توہین ِ رسالت“ کا حوالہ مجرم نے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت کے سامنے بار بار دیا۔
دریں اثناء مجرم کے ایک نام نہاد صحابی زید حامد نے ڈان شمارہ 13 اگست 2000ءمیں فیصلے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور شر انگیزی کی اس پست ترین سطح تک گرگئے کہ اس فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دے دیا اور مجرم کو ایک مہربان اور اسلام کے معزز صوفی اسکالر کے طور پر پیش کیا ہے۔ فیصلے کے بارے میں تبصرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کے بارے میں تبصرہ نگار کا علم کس قدر سطحی ہے۔ ان کے بیان کردہ حقائق سچائی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ اسی طرح ڈیلی نیوز لاہور میں اسی دن شائع ہونے والے مجرم کے بیان میں بھی مقدمے کے اصل متن کو مسخ کیا گیا ہے۔ اس گمراہ کن مہم نے مجرم کے ایک سابق قریبی ساتھی اور اسکالر جناب ارشد قریشی کو جو قادریہ صوفی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں‘ فاضل سیشن جج کا مقدمہ کتابی شکل میں شائع کرنے پر مجبور کردیا تاکہ عوام مجرم کا اصلی روپ اس تاریخی مقدمے کی روشنی میں دیکھ سکیں۔ انہوں نے مجھ سے اپنی اس زیرِ طبع کتاب کے لیے پیش لفظ لکھنے کی درخواست کی۔
اس کتاب کے مؤلف ایک اور کتاب ”فتنہ یوسف کذاب“ کے مصنف بھی ہیں جو تین جلدوں میں ہے۔ نہ صرف مقدمے کی سماعت کرنے والے فاضل جج بلکہ خود میرے اور ممتاز وکلا سردار احمد خان، ایم اقبال چیمہ، غلام مصطفی چوہدری، یعقوب علی قریشی اور میاں صابر نشتر ایڈووکیٹ پر مشتمل میرے پینل کے خلاف مجرم کی مسلسل ناجائز مہم جوئی کے پیش نظر میں نے یہ پیش لفظ لکھ کر عوام پر یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھا کہ آدھا سچ صریح جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جج صاحبان خود اپنے فیصلوں کا دفاع نہیں کرسکتے بلکہ وہ اپنے فیصلوں کے ذریعے کلام کرسکتے ہیں۔ اس لیے جو معاملہ عدالت سے تعلق رکھتا ہے تو عدالت خود ہی اس توہین آمیز مواد پر گرفت کرے گی لیکن میں صرف مدعی کے وکلا کی اس کردارکشی کو زیربحث لاﺅں گا جو بعض اخبارات کے ذریعے کی گئی ہے۔ جہاں تک مجرم کے طرزعمل اور کردار کا تعلق ہے تو اس نے عدالت میں پیش کردہ خود اپنی دستاویزات کے ذریعے ہی اپنی اصلیت ثابت کردی ہے کہ جدید مشینی طریقوں کے ذریعے انسانی ذہن اتنے بڑے فراڈ کو شاید ہی کبھی احاطہ خیال میں لاسکا ہو۔
اس نے ایک دستاویز پیش کی جسے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے سند ڈی 1 کے طور پر پیش کیا ہے اور جو اس کتاب کے شیڈول I کا حصہ بھی ہے۔ اس دستاویز کے بارے میں اس لیے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ وہ سرٹیفکیٹ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو براہِ راست بھیجا ہے جس کی رو سے اس کو خلیفہ اعظم قرار دیا گیا ہے۔ میری جرح پر اس کے اعتراف کے مطابق تمام انبیاءکرام کو خلفائ‘ زمین پر اللہ کے نائب مقرر کیا گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ اعظم، نائبین کے سربراہ اعلیٰ ہیں‘ لہٰذا اس سرٹیفکیٹ کی رو سے اب وہ زمین پر خلیفہ اعظم ہے۔ جرح میں اس نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ چاروں خلفاء میں سے کوئی بھی خلیفہ اعظم کے مرتبے پر فائز نہیں تھا۔
ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خلیفہ اعظم کا یہ سرٹیفکیٹ اس کو کراچی کے ایک بزرگ عبداللہ شاہ غازی کی وساطت سے ان کے لیٹر پیڈ پر کمپیوٹر کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے مذکورہ بزرگ 300 سال قبل وفات پاچکے ہیں۔ نبی کریم کی جانب سے انگریزی زبان میں مذکورہ سرٹیفکیٹ میں مجرم کو خلیفہ اعظم حضرت امام الشیخ ابو محمد یوسف کے طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ مذکورہ سرٹیفکیٹ میں مجرم کو علم کا محور اور عقل و دانش میں حرف ِآخر قرار دیا گیا ہے۔
اس اعلان کی وضاحت کرتے ہوئے مجرم نے کہا کہ وہ قرآن پاک کا مفسر ہے۔ وہ حدیث اور فقہ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ وہ تصوف کا ماہر ہے اور دنیاوی سائنسی علوم سے بھی واقف ہے۔ اس کے ہمہ جہت علم و دانش کا اندازہ لگانے کی غرض سے میں نے اس سے دینی علم کے بارے میں جرح کی اور جدید سائنسی تحقیق کے بارے میں بھی سوالات پوچھے۔ میں یہاں بتانا چاہوں گا کہ مجرم نے عدالت میں یہ بیان دیا تھا کہ اس کو تمام پیغامات براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عربی یا انگریزی میں موصول ہوتے ہیں۔ میں نے اس سے قرآنی لفظ ”تقویٰ“ کی دلیل کے بارے میں سوال کیا لیکن وہ اس کا جواب نہیں دے سکا۔ میں نے اس سے خلیفہ اعظم سرٹیفکیٹ کی پیشانی پر تحریر الفاظ ”وسعت“ اور ”حشر“ کے معنی پوچھے مگر وہ ان الفاظ کے آسان معنی بتانے میں بری طرح ناکام رہا۔ یہاں تک کہ وہ صحاح ستہ کے نام سے مشہور اور قرآن کے بعد پوری دنیا کے لیے انتہائی محترم حدیث کی چھ کتابوں کے نام بتانے سے بھی قاصر رہا۔ آل رسول کا دعویدار ہونے کے باوجود اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی ؓ کے بارے میں مدینتہ العلم کی انتہائی مشہور حدیث کا بھی کوئی علم نہیں۔ اسکول سرٹیفکیٹ اور اس کے سروس ریکارڈ کے مطابق اس کا نام یوسف علی ہے۔
- (شیڈول II) ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے لوگوں کو دھوکا دینے اور نبی کریم کے نام پر جعلسازی کے ذریعے بے تحاشہ پیسہ حاصل کرنے اور لاکھوں روپے مالیت کی جائداد بنانے کے مذموم مقاصد کے پیش نظر اپنے نام میں ”محمد“ کا اضافہ کرلیا۔ یہ حقائق اس کے اپنے اعترافات اور پیش کردہ دستاویزات سے ثابت ہیں ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اقبال کا گہرا مطالعہ کیا ہے‘ لیکن وہ ان کے 6 خطبات سے نابلد ہے اور ان کی شاعری میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کا مطلب جانتا ہے نہ ہی وہ اقبال کے فلسفہ خودی کی وضاحت کرسکا۔
اس کا مولانا مودودی کے ساتھ منسلک رہنے کا دعویٰ بھی صریح غلط بیانی پر مبنی ہے اور جماعت اسلامی کی طرف سے اس کی تردید کی جاچکی ہے۔ اسی طرح وہ جدید سائنس کی الف، ب بھی نہیں جانتا اور ڈی این اے کا مطلب نہیں بتا پایا۔ اس نے یہ لفظ عدالت کے سامنے خود اپنے بیان میں استعمال کیا تھا۔ اپنے اس مذموم منصوبے کو تقویت بخشنے کی غرض سے اس نے نوجوانوں کی عالمی تنظیم ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY) کا ڈائریکٹر جنرل ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس کا صدر دفتر جدہ میں ہے اور جس کے دفاتر پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ میں اس تنظیم کا ایسوسی ایٹ ممبر رہا ہوں لہٰذا میں نے فوری طور پر سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مانج الجہنی سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے فوراً ہی فیکس کے ذریعے مجھے آگاہ کیا کہ ”وامی“ یوسف علی نام کے کسی شخص سے واقف نہیں ہے اور نہ ہی اس نام کے کسی شخص کو کبھی ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا تھا۔ مذکورہ خط میں واضح طور پر کہا گیا کہ اگر مذکورہ یوسف علی نے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویز یا کوئی دوسرا مواد پیش کیا ہو تو اسے غلط اور جھوٹ تصور کیا جائے۔ سیکریٹری جنرل وامی نے اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور سزا دلانے کا اختیار بھی دیا۔
مذکورہ خط عدالت میں پیش کیا گیا اور یہ بھی شیڈول III کے طور پر منسلک ہے۔ مجرم نے اس جعلسازی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے خود کو سعودی عرب سے قبرص کے سفیر کے مرتبے پر بھی فائز کردیا اور ہزایکسیلنسی بن کر سابق چیف جسٹس حمودالرحمن اور جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ کے ساتھ اپنی تصویر بھی کھنچوائی۔
- (شیڈول IV)۔ تاہم جسٹس چیمہ نے اسلام آباد سے ٹیلی فون پر میرے استفسار پر ایسے کسی ہز ایکسیلنسی سے واقفیت کی تردید کی۔ مجرم نے اپنے بیان میں اس بات سے انکار کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو جانتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا جو قادیان کے اس مرزا نے اختیار کیا تھا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ برطانوی حکومت نے بھارت کے مسلم حکمرانوں سے اقتدار غصب کرنے کے بعد انیسویں صدی میں توہینِ رسالت کا قانون منسوخ کردیا‘ جبکہ انگلینڈ میں اُس وقت بھی یہ قانون آئین کا حصہ تھا۔ مرزا غلام احمد کو برطانوی حکومت کی طرف سے اسلام کے لبادے میں اپنے نئے مذہب کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ لیکن اپنے آقاؤں کی اس یقین دہانی کے بعد کہ برطانوی حکومت اس کے خلاف کسی بھی مذہبی تحریک کو پوری سختی سے کچل دے گی اس نے یہ اعلان کردیا کہ جو کوئی بھی اس پر ایمان نہیں لائے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔
اس کا یہ اعلان مکتوبات مطبوعہ مارچ 1906ء (شیڈولVI) میں موجود ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ مجرم یوسف علی بھی مرزا غلام احمد کے نقش قدم پر چلا اور اس نے زبانی اور دستاویزی شہادت کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ وہ بھی اپنے مشن اور نبوت کے جھوٹے دعویدار کا حقیقی جانشین ہے۔ پہلے اس نے مذہبی حلقوں میں اسلام کے مبلغ کی حیثیت سے رسائی حاصل کی، پھر مرد ِ کامل، اس کے بعد امام الوقت یعنی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر خود کو خلیفہ اعظم قرار دے دیا۔ پھر اس نے ”غار حرا“ سے موسوم اپنے بیسمنٹ میں اپنے پیروکاروں کے سامنے اپنے نبی ہونے کا اعلان کردیا۔ وہ مرزا غلام احمد کی طرح اپنے اس جھوٹے دعوے پر بھی مطمئن نہیں ہوا اور اس نے خود کو نبی آخرالزماں سے (نعوذ باللہ) برتر ہستی ظاہر کرنے کے لیے یہ اعلان کردیا کہ 1400 سال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فریضہ سرانجام دے رہے تھے مگر دور حاضر میں اس نے نبوت اور اس کے حسن کو عروج کمال پر پہنچا دیا ہے۔
مجرم کے اس شرانگیز اور اشتعال انگیز دعوے کے ثبوت میں استغاثہ نے 14 گواہ پیش کیے
جن میں کراچی سے بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر محمد اسلم (گواہ استغاثہ1)،
محمد اکرم رانا (گواہ استغاثہ2 )‘
محمد علی ابوبکر (گواہ استغاثہ7)
اور لاہور سے حافظ محمد ممتاز عدانی، (گواہ استغاثہ نمبر4)‘
میاں محمد اویس (گواہ استغاثہ5) شامل تھے
جنہوں نے مجرم کی جانب سے نبوت اورختمی فضیلت کے جھوٹے دعوے کی براہِ راست عینی شہادتوں پر مبنی واقعات بیان کیے۔ سماجی اور مذہبی مرتبے کے حامل ان گواہوں کے ساتھ مجرم کی کوئی عداوت نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ لوگ اس کے اندھے عقیدت مند اور پیروکار تھے‘ بالخصوص محمد علی ابوبکر تو اس سے اتنا قریب تھا کہ اسے مجرم آقا سے مکمل وفاداری اور اس کے احکام کی تعمیل اور بھرپور اطاعت کی بناءپر ابوبکر صدیق کا خطاب دیا گیا تھا۔
کراچی کے اس مرید نے اس کو لاکھوں روپے مالیت کے چیک اور ڈرافٹ دیئے اور اس کے لیے آراستہ و پیراستہ محل تعمیر کیا جس میں غار حرا بھی بنایا گیا تھا۔ مجرم نے نقد یا چیک اور ڈرافٹ کی شکل میں رقم وصول کرنے کی حقیقت سے انکار نہیں کیا۔ اپنے اس نام نہاد نبی کے حق میں اپنی تمام جائداد سے دستبردار ہونے پر اس کے صحابی کو صدیق کا خطاب عطاکیاگیا تھا۔ اس طرح مجرم نے رسول پاک کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسایا اور انہیں مفلسی اور محتاجی سے دوچار کردیا۔ جب اس نے اپنے خلاف مسلمانوں کے غیظ وغضب اور شدید اشتعال کی کیفیت دیکھی تو اپنی گردن بچانے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح وہ بھی اپنے دعوے سے مکر گیا۔ اس کی تردید صریح دجل وفریب اور ”محمد“ ”آل رسول“ اور ”صحابہ“ کے مقدس الفاظ کی غلط ترجمانی کی عکاس تھی جیسا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہے۔ یوسف علی نے مسلمان ہو کر بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے لوگوں کو دھوکا دینے اور مال و دولت اور جائداد کی خاطر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے توہین رسالت کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔
گزشتہ دنوں ایک شخص زید حامد کے بارے میں جسارت میں مضامین شائع ہوئے‘ جن پر ہمارے کچھ قارئین بالخصوص خواتین کے طبقے نے اعتراضات کیے۔ اعتراضات کرنے والوں میں ایسے بھی تھے جن کی دینی فہم اور اسلام سے محبت مستحکم ہے، لیکن لاعلمی کی بنیاد پر اعتراضات وارد کیے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ زید حامد کا سحر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر بہت اچھی گفتگو کرتے ہیں‘ ایسی گفتگو کہ دین دار طبقہ کہہ اٹھے کہ یہ تو اس کے دل کی آواز ہے۔ زبان کا ایسا ہی کمال ”جاہل آن لائن“ میں بھی نظر آتا ہے۔ خطابت کے زور پر ذہنوں کو مسحور کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ بھلا ہو ڈاکٹر فیاض عالم کا‘ جنہوں نے انکشاف کیا کہ زید حامد جھوٹے نبی یوسف کذاب کے خلیفہ تھے۔
لیکن شاید جسارت کے کئی قارئین نے اس پر توجہ نہیں دی۔ یوسف کذاب کا دعویٰ نبوت اور اس کا انجام زیادہ پرانی بات نہیں۔ اسے لاہور کی عدالت نے سزائے موت دی تھی اور زید حامد نے نہ صرف فیصلے کی مخالفت کی بلکہ اس کی ضمانت کی کوشش بھی کرتے رہے‘ مگر اسے کسی غیرت مند نے جیل میں ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ زید حامد نے جھوٹے نبی کی اطاعت سے توبہ کا اعلان نہیں کیا۔ وہ توبہ کرلیں تو ہمارے سر آنکھوں پر، لیکن تب تک اُن سے متاثر ہونے والے ان کا پس منظر اپنے ذہن میں رکھیں۔ یوسف کذاب کون تھا، یادداشت تازہ کرنے کے لیے اس پر چلنے والے مقدمے کی تھوڑی سی روداد بیان کرنا مناسب ہوگا تاکہ زید حامد کا پس منظر بھی تھوڑا سا سامنے آجائے۔ سیشن جج لاہور کی عدالت میں چلنے والے اس اہم مقدمے کی پوری تفصیل ایک کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہے جس کا عنوان ہے:
''Judgment of yousuf kazzab blasphemy case''
اسے جناب ارشد قریشی نے مرتب کیا ہے اور اس کاپیش لفظ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ محمد اسماعیل قریشی نے لکھا ہے۔ قریشی صاحب ہی نے یوسف کذاب کے خلاف مقدمہ کی پیروی کی تھی جس کے نتیجے میں 5 اگست 2000ءکو جج میاں محمد جہانگیر نے مجرم کذاب کو موت کی سزا سنائی۔ اس فیصلے کو انہی زید حامد نے انصاف کا قتل قرار دیا۔ ان کے خیال میں توہینِ رسالت کا مرتکب اور خود نبوت کا دعویدار، اپنے دور کا کذاب ِعظیم ایک معزز صوفی اسکالر تھا۔ اب بھی وقت ہے کہ زید حامد یوسف کذاب سے براء ت کا اعلان کریں، جس نے بے شمار لوگوں کو اپنی خطابت کے سحر سے گمراہ کیا۔ اب آپ محمد اسماعیل قریشی کے قلم سے مقدمہ کی مختصر سی روداد اور تبصرہ ملاحظہ کریں۔
اللہ ہم سب کو دجالوں اور ابو جہل کے پیروکاروں سے محفوظ رکھے:
............٭٭............
میں فاضل سیشن جج لاہور میاں محمد جہانگیر کے تفصیلی فیصلے مجریہ 5 اگست 2000ء پر تبصرہ کرتے ہوئے جھجک رہا تھا جس میں فاضل جج نے یوسف علی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے جرم میں موت کی سزا دی ہے جب اس نے مدینہ منورہ سے اپنی واپسی پر نبوت کی آخری اور حتمی منزل طے کرلینے کا دعویٰ کیا تھا۔ مجرم کو سزائے موت کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر دھوکا اور جعلسازی کے گھناؤنے جرم کے ارتکاب کی سزا بھی دی گئی ہے۔ اس کو بلند مرتبت اہلِ بیت (علیہ السلام) اور صحابہ کرامؓ کا تقدس مجروح کرنے کی سزا بھی دی گئی۔ دوسرے یہ کہ میں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے اس لیے بھی گریز کیا کہ میں اس فیصلے کا حصہ ہوں اور میری کتاب ”ناموسِ رسالت اور قانون توہین ِ رسالت“ کا حوالہ مجرم نے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت کے سامنے بار بار دیا۔
دریں اثناء مجرم کے ایک نام نہاد صحابی زید حامد نے ڈان شمارہ 13 اگست 2000ءمیں فیصلے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور شر انگیزی کی اس پست ترین سطح تک گرگئے کہ اس فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دے دیا اور مجرم کو ایک مہربان اور اسلام کے معزز صوفی اسکالر کے طور پر پیش کیا ہے۔ فیصلے کے بارے میں تبصرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کے بارے میں تبصرہ نگار کا علم کس قدر سطحی ہے۔ ان کے بیان کردہ حقائق سچائی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ اسی طرح ڈیلی نیوز لاہور میں اسی دن شائع ہونے والے مجرم کے بیان میں بھی مقدمے کے اصل متن کو مسخ کیا گیا ہے۔ اس گمراہ کن مہم نے مجرم کے ایک سابق قریبی ساتھی اور اسکالر جناب ارشد قریشی کو جو قادریہ صوفی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں‘ فاضل سیشن جج کا مقدمہ کتابی شکل میں شائع کرنے پر مجبور کردیا تاکہ عوام مجرم کا اصلی روپ اس تاریخی مقدمے کی روشنی میں دیکھ سکیں۔ انہوں نے مجھ سے اپنی اس زیرِ طبع کتاب کے لیے پیش لفظ لکھنے کی درخواست کی۔
اس کتاب کے مؤلف ایک اور کتاب ”فتنہ یوسف کذاب“ کے مصنف بھی ہیں جو تین جلدوں میں ہے۔ نہ صرف مقدمے کی سماعت کرنے والے فاضل جج بلکہ خود میرے اور ممتاز وکلا سردار احمد خان، ایم اقبال چیمہ، غلام مصطفی چوہدری، یعقوب علی قریشی اور میاں صابر نشتر ایڈووکیٹ پر مشتمل میرے پینل کے خلاف مجرم کی مسلسل ناجائز مہم جوئی کے پیش نظر میں نے یہ پیش لفظ لکھ کر عوام پر یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھا کہ آدھا سچ صریح جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جج صاحبان خود اپنے فیصلوں کا دفاع نہیں کرسکتے بلکہ وہ اپنے فیصلوں کے ذریعے کلام کرسکتے ہیں۔ اس لیے جو معاملہ عدالت سے تعلق رکھتا ہے تو عدالت خود ہی اس توہین آمیز مواد پر گرفت کرے گی لیکن میں صرف مدعی کے وکلا کی اس کردارکشی کو زیربحث لاﺅں گا جو بعض اخبارات کے ذریعے کی گئی ہے۔ جہاں تک مجرم کے طرزعمل اور کردار کا تعلق ہے تو اس نے عدالت میں پیش کردہ خود اپنی دستاویزات کے ذریعے ہی اپنی اصلیت ثابت کردی ہے کہ جدید مشینی طریقوں کے ذریعے انسانی ذہن اتنے بڑے فراڈ کو شاید ہی کبھی احاطہ خیال میں لاسکا ہو۔
اس نے ایک دستاویز پیش کی جسے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے سند ڈی 1 کے طور پر پیش کیا ہے اور جو اس کتاب کے شیڈول I کا حصہ بھی ہے۔ اس دستاویز کے بارے میں اس لیے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ وہ سرٹیفکیٹ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو براہِ راست بھیجا ہے جس کی رو سے اس کو خلیفہ اعظم قرار دیا گیا ہے۔ میری جرح پر اس کے اعتراف کے مطابق تمام انبیاءکرام کو خلفائ‘ زمین پر اللہ کے نائب مقرر کیا گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ اعظم، نائبین کے سربراہ اعلیٰ ہیں‘ لہٰذا اس سرٹیفکیٹ کی رو سے اب وہ زمین پر خلیفہ اعظم ہے۔ جرح میں اس نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ چاروں خلفاء میں سے کوئی بھی خلیفہ اعظم کے مرتبے پر فائز نہیں تھا۔
ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خلیفہ اعظم کا یہ سرٹیفکیٹ اس کو کراچی کے ایک بزرگ عبداللہ شاہ غازی کی وساطت سے ان کے لیٹر پیڈ پر کمپیوٹر کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے مذکورہ بزرگ 300 سال قبل وفات پاچکے ہیں۔ نبی کریم کی جانب سے انگریزی زبان میں مذکورہ سرٹیفکیٹ میں مجرم کو خلیفہ اعظم حضرت امام الشیخ ابو محمد یوسف کے طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ مذکورہ سرٹیفکیٹ میں مجرم کو علم کا محور اور عقل و دانش میں حرف ِآخر قرار دیا گیا ہے۔
اس اعلان کی وضاحت کرتے ہوئے مجرم نے کہا کہ وہ قرآن پاک کا مفسر ہے۔ وہ حدیث اور فقہ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ وہ تصوف کا ماہر ہے اور دنیاوی سائنسی علوم سے بھی واقف ہے۔ اس کے ہمہ جہت علم و دانش کا اندازہ لگانے کی غرض سے میں نے اس سے دینی علم کے بارے میں جرح کی اور جدید سائنسی تحقیق کے بارے میں بھی سوالات پوچھے۔ میں یہاں بتانا چاہوں گا کہ مجرم نے عدالت میں یہ بیان دیا تھا کہ اس کو تمام پیغامات براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عربی یا انگریزی میں موصول ہوتے ہیں۔ میں نے اس سے قرآنی لفظ ”تقویٰ“ کی دلیل کے بارے میں سوال کیا لیکن وہ اس کا جواب نہیں دے سکا۔ میں نے اس سے خلیفہ اعظم سرٹیفکیٹ کی پیشانی پر تحریر الفاظ ”وسعت“ اور ”حشر“ کے معنی پوچھے مگر وہ ان الفاظ کے آسان معنی بتانے میں بری طرح ناکام رہا۔ یہاں تک کہ وہ صحاح ستہ کے نام سے مشہور اور قرآن کے بعد پوری دنیا کے لیے انتہائی محترم حدیث کی چھ کتابوں کے نام بتانے سے بھی قاصر رہا۔ آل رسول کا دعویدار ہونے کے باوجود اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی ؓ کے بارے میں مدینتہ العلم کی انتہائی مشہور حدیث کا بھی کوئی علم نہیں۔ اسکول سرٹیفکیٹ اور اس کے سروس ریکارڈ کے مطابق اس کا نام یوسف علی ہے۔
- (شیڈول II) ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے لوگوں کو دھوکا دینے اور نبی کریم کے نام پر جعلسازی کے ذریعے بے تحاشہ پیسہ حاصل کرنے اور لاکھوں روپے مالیت کی جائداد بنانے کے مذموم مقاصد کے پیش نظر اپنے نام میں ”محمد“ کا اضافہ کرلیا۔ یہ حقائق اس کے اپنے اعترافات اور پیش کردہ دستاویزات سے ثابت ہیں ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اقبال کا گہرا مطالعہ کیا ہے‘ لیکن وہ ان کے 6 خطبات سے نابلد ہے اور ان کی شاعری میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کا مطلب جانتا ہے نہ ہی وہ اقبال کے فلسفہ خودی کی وضاحت کرسکا۔
اس کا مولانا مودودی کے ساتھ منسلک رہنے کا دعویٰ بھی صریح غلط بیانی پر مبنی ہے اور جماعت اسلامی کی طرف سے اس کی تردید کی جاچکی ہے۔ اسی طرح وہ جدید سائنس کی الف، ب بھی نہیں جانتا اور ڈی این اے کا مطلب نہیں بتا پایا۔ اس نے یہ لفظ عدالت کے سامنے خود اپنے بیان میں استعمال کیا تھا۔ اپنے اس مذموم منصوبے کو تقویت بخشنے کی غرض سے اس نے نوجوانوں کی عالمی تنظیم ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY) کا ڈائریکٹر جنرل ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس کا صدر دفتر جدہ میں ہے اور جس کے دفاتر پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ میں اس تنظیم کا ایسوسی ایٹ ممبر رہا ہوں لہٰذا میں نے فوری طور پر سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مانج الجہنی سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے فوراً ہی فیکس کے ذریعے مجھے آگاہ کیا کہ ”وامی“ یوسف علی نام کے کسی شخص سے واقف نہیں ہے اور نہ ہی اس نام کے کسی شخص کو کبھی ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا تھا۔ مذکورہ خط میں واضح طور پر کہا گیا کہ اگر مذکورہ یوسف علی نے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویز یا کوئی دوسرا مواد پیش کیا ہو تو اسے غلط اور جھوٹ تصور کیا جائے۔ سیکریٹری جنرل وامی نے اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور سزا دلانے کا اختیار بھی دیا۔
مذکورہ خط عدالت میں پیش کیا گیا اور یہ بھی شیڈول III کے طور پر منسلک ہے۔ مجرم نے اس جعلسازی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے خود کو سعودی عرب سے قبرص کے سفیر کے مرتبے پر بھی فائز کردیا اور ہزایکسیلنسی بن کر سابق چیف جسٹس حمودالرحمن اور جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ کے ساتھ اپنی تصویر بھی کھنچوائی۔
- (شیڈول IV)۔ تاہم جسٹس چیمہ نے اسلام آباد سے ٹیلی فون پر میرے استفسار پر ایسے کسی ہز ایکسیلنسی سے واقفیت کی تردید کی۔ مجرم نے اپنے بیان میں اس بات سے انکار کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو جانتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا جو قادیان کے اس مرزا نے اختیار کیا تھا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ برطانوی حکومت نے بھارت کے مسلم حکمرانوں سے اقتدار غصب کرنے کے بعد انیسویں صدی میں توہینِ رسالت کا قانون منسوخ کردیا‘ جبکہ انگلینڈ میں اُس وقت بھی یہ قانون آئین کا حصہ تھا۔ مرزا غلام احمد کو برطانوی حکومت کی طرف سے اسلام کے لبادے میں اپنے نئے مذہب کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ لیکن اپنے آقاؤں کی اس یقین دہانی کے بعد کہ برطانوی حکومت اس کے خلاف کسی بھی مذہبی تحریک کو پوری سختی سے کچل دے گی اس نے یہ اعلان کردیا کہ جو کوئی بھی اس پر ایمان نہیں لائے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔
اس کا یہ اعلان مکتوبات مطبوعہ مارچ 1906ء (شیڈولVI) میں موجود ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ مجرم یوسف علی بھی مرزا غلام احمد کے نقش قدم پر چلا اور اس نے زبانی اور دستاویزی شہادت کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ وہ بھی اپنے مشن اور نبوت کے جھوٹے دعویدار کا حقیقی جانشین ہے۔ پہلے اس نے مذہبی حلقوں میں اسلام کے مبلغ کی حیثیت سے رسائی حاصل کی، پھر مرد ِ کامل، اس کے بعد امام الوقت یعنی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر خود کو خلیفہ اعظم قرار دے دیا۔ پھر اس نے ”غار حرا“ سے موسوم اپنے بیسمنٹ میں اپنے پیروکاروں کے سامنے اپنے نبی ہونے کا اعلان کردیا۔ وہ مرزا غلام احمد کی طرح اپنے اس جھوٹے دعوے پر بھی مطمئن نہیں ہوا اور اس نے خود کو نبی آخرالزماں سے (نعوذ باللہ) برتر ہستی ظاہر کرنے کے لیے یہ اعلان کردیا کہ 1400 سال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فریضہ سرانجام دے رہے تھے مگر دور حاضر میں اس نے نبوت اور اس کے حسن کو عروج کمال پر پہنچا دیا ہے۔
مجرم کے اس شرانگیز اور اشتعال انگیز دعوے کے ثبوت میں استغاثہ نے 14 گواہ پیش کیے
جن میں کراچی سے بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر محمد اسلم (گواہ استغاثہ1)،
محمد اکرم رانا (گواہ استغاثہ2 )‘
محمد علی ابوبکر (گواہ استغاثہ7)
اور لاہور سے حافظ محمد ممتاز عدانی، (گواہ استغاثہ نمبر4)‘
میاں محمد اویس (گواہ استغاثہ5) شامل تھے
جنہوں نے مجرم کی جانب سے نبوت اورختمی فضیلت کے جھوٹے دعوے کی براہِ راست عینی شہادتوں پر مبنی واقعات بیان کیے۔ سماجی اور مذہبی مرتبے کے حامل ان گواہوں کے ساتھ مجرم کی کوئی عداوت نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ لوگ اس کے اندھے عقیدت مند اور پیروکار تھے‘ بالخصوص محمد علی ابوبکر تو اس سے اتنا قریب تھا کہ اسے مجرم آقا سے مکمل وفاداری اور اس کے احکام کی تعمیل اور بھرپور اطاعت کی بناءپر ابوبکر صدیق کا خطاب دیا گیا تھا۔
کراچی کے اس مرید نے اس کو لاکھوں روپے مالیت کے چیک اور ڈرافٹ دیئے اور اس کے لیے آراستہ و پیراستہ محل تعمیر کیا جس میں غار حرا بھی بنایا گیا تھا۔ مجرم نے نقد یا چیک اور ڈرافٹ کی شکل میں رقم وصول کرنے کی حقیقت سے انکار نہیں کیا۔ اپنے اس نام نہاد نبی کے حق میں اپنی تمام جائداد سے دستبردار ہونے پر اس کے صحابی کو صدیق کا خطاب عطاکیاگیا تھا۔ اس طرح مجرم نے رسول پاک کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسایا اور انہیں مفلسی اور محتاجی سے دوچار کردیا۔ جب اس نے اپنے خلاف مسلمانوں کے غیظ وغضب اور شدید اشتعال کی کیفیت دیکھی تو اپنی گردن بچانے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح وہ بھی اپنے دعوے سے مکر گیا۔ اس کی تردید صریح دجل وفریب اور ”محمد“ ”آل رسول“ اور ”صحابہ“ کے مقدس الفاظ کی غلط ترجمانی کی عکاس تھی جیسا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہے۔ یوسف علی نے مسلمان ہو کر بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے لوگوں کو دھوکا دینے اور مال و دولت اور جائداد کی خاطر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے توہین رسالت کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22233
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
[center]
[/center]
[center][utvid]http://www.youtube.com/watch?v=_H_jL8zldig[/utvid][/center]
[center][utvid]http://www.youtube.com/watch?v=pKIBEMNbxkA[/utvid][/center]

[center][utvid]http://www.youtube.com/watch?v=_H_jL8zldig[/utvid][/center]
[center][utvid]http://www.youtube.com/watch?v=pKIBEMNbxkA[/utvid][/center]
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22233
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
یوسف کذاب کے دعوے اس کے بعد اس کی موت تک کی تمام اہم پاکستانی اخباری خبروں کے تراشے
[link]http://khatm-e-nubuwwat.org/Mojooda%20F ... e-News.pdf[/link]
یہ تمام تراشے بھی یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ یوسف کذاب یا اس کے نام نہاد صحابی کے پیچھے صرف خبریں یا ضیاء شاہد نہیں بلکہ سارے پاکستان کا پرنٹ میڈیا موجود تھا۔
آخری صفحات میں زیدزمان المعروف زید حامد نام نمایاں ہے اور اس پر کافی پرمغز کالم اور خبریں اور علماء اکرام کے فتوے وغیرہ موجود ہیں۔
[link]http://khatm-e-nubuwwat.org/Mojooda%20F ... e-News.pdf[/link]
یہ تمام تراشے بھی یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ یوسف کذاب یا اس کے نام نہاد صحابی کے پیچھے صرف خبریں یا ضیاء شاہد نہیں بلکہ سارے پاکستان کا پرنٹ میڈیا موجود تھا۔
آخری صفحات میں زیدزمان المعروف زید حامد نام نمایاں ہے اور اس پر کافی پرمغز کالم اور خبریں اور علماء اکرام کے فتوے وغیرہ موجود ہیں۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22233
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
کذاب یوسف کے خلاف علماء کرام کے فتاویٰ جات
[link]http://khatm-e-nubuwwat.org/Mojooda%20F ... /index.htm[/link]
[link]http://khatm-e-nubuwwat.org/Mojooda%20F ... /index.htm[/link]
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22233
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
یوسف کذاب کے آڈیو بیانات جن میں اس نے نبوت کا دعوی کیا، زید حامد کو اپنا صحابی ظاہر کیا کی تحریری شکل معہ عدالتی مہر بعد از جانچ پڑتال، جو اسے اصل ثابت کرتی ہے۔
[link]http://khatm-e-nubuwwat.org/Mojooda%20F ... /index.htm[/link]
[link]http://khatm-e-nubuwwat.org/Mojooda%20F ... /index.htm[/link]
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22233
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
[center]
[/center]


قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22233
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
یوسف کذاب کے کیس کے تمام گواہان ان کی شہادتیں اور ان گواہوں کی شہادتوں میں زید حامد کا ذکر
[link]http://khatm-e-nubuwwat.org/Mojooda%20F ... 10/P/1.htm[/link]
[link]http://khatm-e-nubuwwat.org/Mojooda%20F ... 10/P/1.htm[/link]
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22233
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
جی محترم روحانی بابا اب آپ کیا کہتے ہیں۔
اپنے آقا مولا حضور نبی کریم رؤف الرحیم
کے اس ادنیٰ غلام نے اپنی سی کوشش کر دی ہے،
جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اول تو زید حامد گستاخِ رسول
کا بہترین ساتھی رہا ہے۔
دوم کہ تادمِ تحریر زید حامد نے کسی جگہ بھی واضح طور پر یوسف کذاب کو مرتد اور قابلِ لعنت قرار نہیں دیا ہے۔
سوم اس نے کسی فورم پر اپنی معافی کا اعلان نہیں کیا ہے، چہارم اس نے کسی کو یہ بتانے کی زحمت نہیں کی ہے کہ وہ توبہ تائب ہو چکا ہے۔
پنجم یہ کہ بعض جگہ پر اس نے یوسف کذاب کے ساتھ اپنے کسی بھی تعلق کے ہونے سے انکار کیا ہے۔
ششم یہ کہ اپنے ہی بہت سے بیانات سے اس نے یوسف کذاب کے ساتھ اپنے مضبوط تعلق کی نشاندہی کی ہے۔
ہفتم یہ کہ زید حامد کو علماء کرام کے قتل میں ملوث کیا گیا ہے اور ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔
باقی رہی مرکزی بات تو ان تمام دلائل کی روشنی میں کم ازکم میں تو کسی طور پر اسے مسلمان ماننے کے لئے
ہاں اگر پھر بھی کچھ دوست اسے اب بھی مسلمان مانتے ہیں تو یا تو ایسے ہی کچھ دلائل پیش کیجئے یا پھر خاموشی سے اردونامہ چھوڑ جائیں کہ اردونامہ پر ایسے افراد کے لئے ایک نقطہ لکھنے کی بھی گنجائش نہیں ہے اور ایک سیکنڈ بھی اردونامہ سے تعلق رکھنے کی اجازت نہیں ہے اور اردونامہ ، اس کی تمام انتظامیہ اور اس کے تمام اراکین ایسے شخص پر اس کے ساتھیوں پر اس کے لئے دردِ دل رکھنے والوں پر لعنت بھیجتی ہے۔
اپنے آقا مولا حضور نبی کریم رؤف الرحیم

جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اول تو زید حامد گستاخِ رسول

دوم کہ تادمِ تحریر زید حامد نے کسی جگہ بھی واضح طور پر یوسف کذاب کو مرتد اور قابلِ لعنت قرار نہیں دیا ہے۔
سوم اس نے کسی فورم پر اپنی معافی کا اعلان نہیں کیا ہے، چہارم اس نے کسی کو یہ بتانے کی زحمت نہیں کی ہے کہ وہ توبہ تائب ہو چکا ہے۔
پنجم یہ کہ بعض جگہ پر اس نے یوسف کذاب کے ساتھ اپنے کسی بھی تعلق کے ہونے سے انکار کیا ہے۔
ششم یہ کہ اپنے ہی بہت سے بیانات سے اس نے یوسف کذاب کے ساتھ اپنے مضبوط تعلق کی نشاندہی کی ہے۔
ہفتم یہ کہ زید حامد کو علماء کرام کے قتل میں ملوث کیا گیا ہے اور ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔
باقی رہی مرکزی بات تو ان تمام دلائل کی روشنی میں کم ازکم میں تو کسی طور پر اسے مسلمان ماننے کے لئے
ہاں اگر پھر بھی کچھ دوست اسے اب بھی مسلمان مانتے ہیں تو یا تو ایسے ہی کچھ دلائل پیش کیجئے یا پھر خاموشی سے اردونامہ چھوڑ جائیں کہ اردونامہ پر ایسے افراد کے لئے ایک نقطہ لکھنے کی بھی گنجائش نہیں ہے اور ایک سیکنڈ بھی اردونامہ سے تعلق رکھنے کی اجازت نہیں ہے اور اردونامہ ، اس کی تمام انتظامیہ اور اس کے تمام اراکین ایسے شخص پر اس کے ساتھیوں پر اس کے لئے دردِ دل رکھنے والوں پر لعنت بھیجتی ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
-
- مشاق
- Posts: 1577
- Joined: Mon Jul 06, 2009 3:04 pm
- جنس:: مرد
- Location: اللہ کی زمین پر
- Contact:
Re: راہبر کے روپ میں راہزن
جزاک اللہ فی الدارین
[center]والسلام طالب دعا آپکا بھائی
اسداللہ شاہ[/center]
اسداللہ شاہ[/center]